میری ایک ہی خالہ تھیں جو امی کی سوتیلی بہن تھیں اور ان دونوں بہنوں کا کوئی بھائی نہ تھا۔ والد صاحب، امی کو میکے والوں سے ملنے نہ دیتے تھے۔ جب تک نانا زندہ رہے میری ماں کا تھوڑا بہت تعلق میکے والوں سے رہا، ان کے بعد بالکل ختم ہو گیا۔ جب خالہ عظمت کی شادی ہوئی سال بعد ہماری نانی بھی انتقال کر گئیں۔ اب خالہ کا بھی سوائے امی کا اور کوئی رشتہ دار نہ رہا۔ وہ امی سے بہت محبت کرتی تھیں مگر ابا جان کی سخت مزاجی کی وجہ سے دونوں بہنوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا نہ تھا۔ خالو سر فراز بہت اچھے آدمی تھے۔ وہ خالہ عظمت سے بہت محبت کرتے تھے۔ ان کا اپنا کاروبار تھا، گھر میں کسی شے کی کمی نہ تھی۔ خالہ بہت خوش و خرم زندگی بسر کر رہی تھیں۔ شادی کے چار سال بعد وہ دو بچیوں کی ماں بن گئیں۔ بڑی لڑکی کا نام شبانہ اور چھوٹی کا دردانہ تھا۔ خالہ خوبصورت تھیں۔ دونوں بچیاں بھی ماں پر گئی تھیں جبکہ خالو بھی وجیہ اور خوش شکل تھے۔ یہ صورت شکل سے خوبروئوں کا خاندان کہلاتا تھا۔ خالہ کی زندگی کے ابتدائی سال اچھے گزرے، پھر جانے کیا ہوا کہ خالو کچھ بُرے دوستوں کی سوسائٹی میں غلط راستوں پر چل نکلے۔ وہ اکثر کوٹھوں پر رقص و سرور کی محفلوں میں اپنا روپیہ بے دریغ اڑانے لگے۔ تبھی ان کی ملاقات ایک رقاصہ سے ہو گئی، جس کے پیچھے انہوں نے اپنا گھر بار، کاروبار سب بیچ دیا۔ دولت اتنی لٹائی کہ خالی دامن ہو گئے۔ کاروباری ساکھ اور عزت خاک میں مل گئی۔ سُنا ہے اس بازار کی عورتیں تو صرف دولت سے محبت کرتی ہیں، تبھی عرف عام میں انہیں مال زادیاں کہا جاتا ہے۔ جب تک دولت، مرد کا ساتھ دیتی ہے ، وہ بھی اسے اپنے کوٹھے پر جگہ دیتی ہیں۔ جب چاہنے والے کی دولت ساتھ چھوڑ جائے تو ان مال زادیوں کی کنگال سے کیا نسبت؟ خالو نے جس رقاصہ کے پیچھے اپنی ساری دولت گنوا دی، اس نے بعد میں اُن سے آنکھیں پھیر کر دھتکار دیا۔
اس بات کا خالو کو ایسا صدمہ لگا کہ وہ بیمار پڑ گئے اور انہوں نے غم غلط کرنے کو نشہ شروع کر دیا۔ ادھر ان کی غفلت سے کاروبار چوپٹ ہو گیا تو وہ قرض دار ہو گئے اور ادھر دوست یار ساتھ چھوڑ گئے ، جو کبھی کو ٹھے کی محفلوں میں اُن کے ساتھی ہوا کرتے تھے۔ جب مفلسی کے ساتھ ساتھ قرض خواہ بہت تنگ کرنے لگے تو ایک دوست آڑے آیا، جس کا نام زبیر تھا۔ جب خالو پر برے دن آئے تو اس نے ہی ان کی کچھ مالی مدد کی۔ یہاں تک کہ خالو کی بیماری کے دنوں میں زبیر کا ہماری خالہ کے گھر آنا جانا بہت ہو گیا۔ ان دنوں خالہ کے حالات اتنے خراب ہو گئے تھے کہ گھر میں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے۔ زبیر نے خالہ کو با قاعدہ خرچے اور راشن وغیرہ کے لئے کچھ رقم دینی شروع کر دی اور خالو کا علاج بھی کرانے لگا۔ انسان کی نیت کا کچھ پتا نہیں ہوتا۔ یہ ایک چھپی ہوئی چیز ہوتی ہے۔ خُدا جانے پہلے سے اس کی نیت بد تھی یا بعد میں خراب ہو گئی۔ علاج کے بہانے وہ خالو کو ہیروئن کا نشہ دینے لگا۔ رہی سہی کسر اس طرح پوری ہو گئی کہ وہ ہیروئن کے نشے کے عادی ہو کر بالکل بیکار ہو کر رہ گئے۔ اب خالہ عظمت کے حالات اتنے خراب ہو گئے کہ انہوں نے ہمت ہار دی۔ ان دنوں ان کی پریشانی اس درجہ تھی کہ ان کے پڑوسی آکر امی کو کہتے کہ تمہاری بہن بہت برے حالات میں ہے۔ آپ لوگ ان کی طرف خبر گیری کو جائیے۔ امی مجبور تھیں۔ وہ ابو کے منع کرنے کے باعث ان کے پاس نہیں جاسکتی تھیں اور خالہ بھی اسی وجہ سے ہمارے گھر نہیں آتی تھیں، البتہ کسی شادی بیاہ کی تقریب میں دونوں چوری چھپے مل لیتی تھیں۔ ایک دن خالہ حالات سے مجبور ہو کر ہمارے گھر آ گئیں۔ ابو کو پتا چل گیا۔ انہوں نے امی سے جھگڑا کیا اور خوب ہنگامہ اٹھایا۔ بولے کہ ایک بے غیرت نشہ باز آدمی کے اہل خانہ ہمارے گھر آنا جانار کھیں گے ، تو لوگ ہمیں کیا کہیں گے کل کو تمہارا بہنوئی بھی آجائے گا۔ میں ایسے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا جو ہیروئن جیسی لت کا شکار ہو کر اپنا گھر بار اور عزت برباد کر چکا ہو۔ وہ تو اب بھی نشہ کر کے بازار حسن کی گلیوں میں پڑا رہتا ہے۔ ہم ایسے لوگوں کو اپنا رشتہ دار بتائیں گے تو کون ہماری اولاد سے رشتے ناتے کرے گا۔ غرض ابو نے زمین و آسمان ایک کر دیا، تبھی امی نے خالہ عظمت کو اپنے گھر آنے سے منع کر دیا۔ اس دن کے بعد وہ دوبارہ نہیں آئیں اور نہ ہی ابو جان کے ڈر سے ہم سے رابطہ رکھ سکیں۔ زبیر نے خالہ جان کی مجبوریوں سے اس طرح فائدہ اٹھایا کہ مالی مدد کر کے وہ ان کے گھر کا فرد اور ان کا ہمدرد بن گیا۔ وہ اسے اپنا محسن سمجھ کر اس پر اعتبار کرنے لگیں۔ ان دنوں شبانہ کی عمر سولہ اور دردانہ کی چودہ سال تھی۔ ان کی ماں چہار جانب سے دکھوں کے سیلاب میں گھر چکی تھی۔
جوان لڑکیوں کا بوجھ اور شوہر کی یہ حالت ، جبکہ ذریعہ آمدنی کوئی نہ تھا۔ خالہ نے مکمل طور پر زبیر کو ایک اچھا انسان سمجھتے ہوئے اس پر تکیہ کر لیا۔ دو سال بعد نشے کی زیادتی کی وجہ سے خالو کا انتقال نہایت کسمپرسی کی حالت میں ہو گیا۔ زبیر ہی ان کو نشہ مہیا کرتا تھا۔ ان کی تجہیز و تکفین بھی اسی نے کی۔ اب وہ ٹوٹا پھوٹا آسرا بھی نہ رہا۔ زبیر نے خالہ سے کہا۔ تمہارا شوہر زندہ تھا تو لوگوں کے منہ بند تھے۔ اب وہ نہیں رہا تو محلے والے میرا تمہارے گھر آنا برداشت نہیں کریں گے۔ بہتر ہے کہ تم مجھ سے نکاح کر لو اور میرے گھر چل کر رہو۔ خالہ بیچاری عجب مشکل میں گرفتار تھیں۔ اب تک اس شخص کا اچھا سلوک ان کے سامنے ایک مثال تھا۔ وہ ایک ہمدرد انسان اور اُن کے مرحوم شوہر کا باوفا دوست ثابت ہو ا تھا۔ مصیبت کے دنوں میں ان کا ساتھ دے رہا تھا مگر انہیں زمانے کا خوف بھی تھا۔ انہوں نے کہا کہ میری لڑکیاں جوان اور شادی کے قابل ہیں۔ اس عمر میں جبکہ اُن کی شادی کے دن ہیں، اگر میں نکاح کرلوں گی تو لوگ کیا کہیں گے ۔ میری بیٹیاں کیا سوچیں گی کہ ماں ہمیں دُلہن بنانے کی بجائے خود دُلہن بن گئیں۔ جب تک تم خود کسی مرد کا تحفظ حاصل نہ کرو گی ، تمہاری بیٹیوں کی شادیاں اچھے گھروں میں نہیں ہو سکتیں۔ زمانہ بہت خراب ہے۔ تنہا عورت کس طرح ان فرائض سے بغیر سہارے، عہدہ بر آں ہو سکتی ہے۔ ذرا ٹھنڈے دل سے سوچو، میں کب تک تمہاری امداد کرتا رہوں گا۔ اس طرح سمجھا بجھا کر زبیر نے اُن کو شیشے میں اتار لیا اور بقول خالہ، جھوٹا سچا نکاح بھی کر لیا۔ نکاح سے پہلے خالہ نے کسی طرح امی سے ملاقات کی کوششیں کی تھیں مگر ابو کے ڈرسے میری ماں اُن سے ملنے نہ گئیں۔ کہلوا دیا کہ نکاح کر لو ، اچھی بات ہے۔ نکاح کرنا کوئی گناہ نہیں۔ اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے۔ اس طرح ان بیچاری نے کوئی راہ نہ پا کر زبیر سے نکاح کر لیا۔خُدا جانے یہ سچ م کا نکاح تھا یا اس شخص کا ڈھونگ تھا۔ وہ نکاح نامہ لایا، خالہ سے دستخط کرائے، اپنی طرف سے چار لوگوں کے نام بھی لکھ لئے اور پھر خالہ اور ان کی دونوں بیٹیوں کو لے کر پرانے محلے سے چلا گیا۔ اس کے بعد ان کا کچھ پتا نہ چلا کہ یہ لوگ کہاں چلے گئے۔ پہلے تو ان کے محلے کی کوئی عورت مل جاتی تو ان کے بارے حالات اس کی زبانی معلوم ہو جاتے تھے یا امی کسی جاننے والی کو خالہ کے محلے بھیج کر ان کے حالات پتا کروا لیا کرتی تھیں۔ اب جبکہ زبیر کے نئے ٹھکانے کا ہی پتا نہ تھا تو کس طرح اُن کے حالات معلوم ہو سکتے تھے۔ یو نہی چھ برس گزر گئے۔ ایک دن ابو گھر آئے تو موڈ بہت خراب تھا۔ امی سے کہنے لگے ۔ سُن لو اپنی بہن کے کرتوت ! میں نہ کہتا تھا کہ عظمت سے نہ ملو۔ آخر کوئی وجہ تھی نا، نام تو عظمت اور گری جا کر ذلت کی پستیوں میں، یہ عظمت مجھے شروع سے ہی ٹھیک نہیں لگتی تھی۔ ہوا کیا ہے ؟ امی نے پوچھا۔ آج ایک جاننے والا ملا تھا۔ وہ فلم انڈسٹری کا آدمی ہے۔ مجھے بتارہا تھا کہ ایک عظمت نامی عورت ہے ، جس نے زبیر نامی شخص سے شادی کر رکھی ہے۔ اس شخص نے نکاح کا ڈھونگ رچا کر اس کی دونوں لڑکیوں کو کو ٹھے کی زینت بنا دیا ہے اور اب ان کو فلم انڈسٹری میں لانے کے جتن کر رہا ہے۔ والد صاحب نے یہ کہ کر زمین پر تھوک دیا اور بولے۔
ایسے لوگوں کو رشتے دار بتانا، اپنی عزت خراب کرنا ہے۔ میں یونہی تو منع نہیں کیا کرتا تھا تم کو ، مجھے تمہاری بہن اور بہنوئی کے لچھنوں کا اندازہ تھا۔ اب خبر دار جو تم نے کسی کو بتایا کہ عظمت تمہاری بہن ہے۔ کوئی ذکر کرے تو کہہ دینا کہ وہ عظمت تو کب کی مرگئی، یہ کوئی اور عظمت ہو گی۔ ابا کی باتیں سُن کر میں سوچتی رہ گئی کہ حالات نے خالہ اور ان کی لڑکیوں پر کیا قیامت ڈھائی، جو وہ ایسی غلیظ زندگی کو قبول کرنے پر مجبور ہو گئیں۔ یقینا ان سب کی شرافت کا قاتل وہ بد معاش زبیر تھا، جس نے ایک لمبی منصوبہ بندی کر کے میری خالہ اور ان کی بیٹیوں کو دلدل میں گرا دیا، لیکن ابا جان جو جان بوجھ کر میری مفلس اور مجبور خالہ سے تغافل برتتے رہے اور بُرے حالات میں ان کی مدد نہیں کی، کیا وہ مجرم نہیں ؟ میری نظروں میں تو وہ بھی مجرم ہیں، جنہوں نے بُرے وقت میں اُن کا ساتھ دینے کی بجائے ان سے امی کو بھی ترک تعلقات پر مجبور کیا۔ انہوں نے بے شک قطع رحمی سے کام لیا اور آج والد ہ اپنی بہن اور بھانجیوں کو اپنی رشتے دار بتانے سے بھی خوف زدہ ہیں۔ ابا جیسے لوگ دوسروں کو مجرم ٹھہرانے سے پہلے خود اپنے گریبان میں جھانک لیا کریں۔