Friday, September 20, 2024

Shatir | Episode 1

ذویان آفس سے باہر نکلا۔ اس کے اعصاب پر تھکن بری طرح سوار تھی۔ پورا دن ٹینشن میں گزرا تھا۔ اسے کسی ایسی جگہ کی تلاش تھی جہاں کچھ وقت گزار کر وہ پرسکون ہوسکے۔ پہلے اسے خیال آیا کہ کسی دوست کے پاس چلا جائے لیکن دوسرے لمحے اس نے یہ آئیڈیا مسترد کردیا۔ یکایک اس کی نظر سڑک پر لگے ہوئے فلاور شو کے بینر پر گئی۔ ذویان نے کار کا رخ اس جانب موڑ دیا۔ فلاور شو میں رنگ برنگے خوبصورت پھولوں اور حسین چہروں کی بھرمار تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ پھولوں کو دیکھے یا ان خوبصورت تتلیوں کو…! ایسا لگ رہا تھا جیسے فلاور شو کے بجائے فیشن شو ہورہا ہے۔ یکایک ذویان کی نظریں ایک چہرے پر جم کر رہ گئیں۔ وہ کچھ دیر سحرزدہ سا کھڑا اس مجسم پیکر حسن کو دیکھتا رہا پھر دل پر اختیار نہ رہا۔ وہ تھوڑا سا آگے بڑھا تاکہ اس نازنین کو قریب سے دیکھ سکے جس کا ہر انداز دل موہ لینے والا تھا۔ پہلے ذویان کا ارادہ کچھ دیر رکنے کے بعد گھر جانے کا تھا لیکن اب صورتحال بدل چکی تھی۔
وہ اس لڑکی سے کچھ فاصلے پر اس کے ساتھ ساتھ فلاور شو میں پھرتا رہا۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ لڑکی واپسی کیلئے روانہ ہوئی تو ذویان بھی اس کے تعاقب میں تھا۔ کچھ دیر بعد اس لڑکی کی کار ایک عالیشان بنگلے میں داخل ہوگئی۔ گیٹ بند ہونے کے بعد ذویان نے اپنی کار کچھ فاصلے پر روکی۔ دور تک سڑک سنسان پڑی تھی۔ وہ ٹہلتا ہوا گیٹ سے کچھ فاصلے پر کھڑا ہوگیا۔ نیون سائن کی روشنی میں اس نے گھر کا نمبر اور مکین کا نام دیکھا اور واپس آگیا۔
اگلے روز اتوار تھا۔ اس روز موسم بہت خوبصورت ہورہا تھا۔ دوپہر سے ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں، سرمئی بادلوں نے آسمان کو ڈھانپ رکھا تھا۔ اتنے خوبصورت موسم میں ذویان کو گھر میں رہنا بالکل ناپسند تھا۔ شاعرانہ مزاج کا حامل ہونے کے سبب اسے پھولوں، چاندنی، بارش اور قدرتی نظاروں سے عشق تھا۔ وہ تیار ہوکر لائونج سے گزرنے لگا تو اس کی نظر ڈرائنگ روم میں بیٹھی اپنی بہن فروا کے ساتھ بیٹھی لڑکی پر پڑی۔ اس کے باہر کی جانب اٹھتے قدم رک گئے۔ فروا کے ساتھ بیٹھی لڑکی وہی تھی جسے اس نے کل رات فلاور شو میں دیکھا تھا۔ ذویان فوراً ڈرائنگ روم میں پہنچ گیا۔ فروا نے اپنی سہیلی کا تعارف اس سے کرایا۔ ’’یہ میری دوست زینا ہے اور زینا! یہ میرے اکلوتے بھائی ذویان صدیقی ہیں۔‘‘ زینا نے بے نیازی سے چیونگم چباتے ہوئے ذویان کو ہیلو کہا۔ فروا نے مزید بتایا کہ زینا اسے اپنی برتھ ڈے میں انوائٹ کرنے آئی ہے۔ ذویان کچھ دیر بیٹھنے کے بعد وہاں سے اٹھ گیا۔ اس دوران اسے زینا کے بارے میں جو معلومات حاصل ہوئیں، وہ خاصی حوصلہ افزا تھیں۔ سب سے اہم بات تو یہ تھی کہ زینا غیر شادی شدہ تھی۔ دوسرے یہ کہ اس کے ڈیڈی ایک بزنس مین تھے۔ یہی وہ پلس پوائنٹ تھا جس کو لے کر وہ اپنے والدین سے شادی کیلئے بات کرسکتا تھا لیکن اس سے پہلے وہ زینا سے دوستی کا خواہشمند تھا جس کیلئے اسے فروا سے زینا کا نمبر لینا تھا اور اسے پورا یقین تھا کہ فروا انکار نہیں کرے گی۔
٭…٭…٭
عاصم جس وقت گھر میں داخل ہوا، اس وقت اس کے ڈیڈ اپنی مسز کے ساتھ کہیں جانے کیلئے گھر سے نکل رہے تھے۔ ’’تم کہاں غائب تھے؟‘‘ انہوں نے سرسری سا پوچھا جبکہ ان کی مسز، عاصم کو نظرانداز کرکے آگے نکل گئیں۔ ان کی مسز، نویلہ کا خیال تھا کہ اب باپ، بیٹے کے درمیان گفتگو شروع ہوئی ہے تو کافی وقت لگ جائے گا مگر ان کے کار میں بیٹھنے کے دس منٹ بعد ہی ارتضیٰ عباس بھی آگئے اور آتے ہی بولے۔ ’’مجھے تو لگتا ہے کہ عاصم میرا بیٹا ہے ہی نہیں۔ ذرا جو احساس ذمہ داری ہو اس میں! دو سال سے میرے ساتھ بزنس کررہا ہے مگر ذمہ داری سے کوئی کام نہیں کرتا۔‘‘
’’چھوڑیئے نا! کیوں اپنا موڈ اس کے پیچھے خراب کررہے ہیں۔ اتنے دن کے بعد تو ہم کسی فنکشن میں جارہے ہیں اور آپ ہیں کہ عاصم پر غصہ کرکے ٹینشن لے رہے ہیں۔‘‘ نویلہ نے شوہر کا موڈ درست کرنے کی کوشش کی حالانکہ اس وقت وہ خوش اور مطمئن تھی کہ باپ، بیٹے کی بنتی نہیں ہے تو اس کا ہی فائدہ ہے۔ نویلہ نے لاڈ سے اپنے سے دگنی عمر کے شوہر کے کندھے پر سر رکھا تو وہ بھی مسکرا دیئے۔
ارتضیٰ عباس نے بیوی کی وفات کے بعد چھ سال قبل اخبار میں دیئے گئے اشتہار کو دیکھ کر نویلہ سے شادی کی تھی۔ نویلہ ایک چالاک عورت تھی۔ جب سے وہ اس گھر میں آئی تھی، اس نے ان دونوں کے درمیان باپ، بیٹے والی بے تکلفی نہیں دیکھی تھی پھر بھی سوتیلا ہونے کے ناتے عاصم اسے کھٹکنے لگا تھا۔
٭…٭…٭
فروا کی وساطت سے ذویان کی زینا سے دوستی ہوگئی تھی۔ ایک ماہ کے عرصے میں وہ زینا کے بارے میں اچھی طرح سے جان گیا تھا۔ زینا نے اسے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا۔ اپنی خوبیاں، خامیاں، پسند، ناپسند، مزاج، عادات و اطوار غرض اس نے کچھ نہیں چھپایا تھا۔ ساون کی پہلی بارش تھی۔ مست ہوائیں ہر طرف مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو پھیلا رہی تھیں۔ ایسے خوبصورت موسم میں ذویان، زینا کے ساتھ لانگ ڈرائیو پر نکلا ہوا تھا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ زینا کے ساتھ یونہی گھومتا رہے اور اس کی زندگی کا یہ سفر کبھی ختم نہ ہو۔
’’بہت دیر ہوگئی ہے، اب گھر چلنا چاہئے۔‘‘ زینا نے گھڑی میں ٹائم دیکھتے ہوئے کہا۔
’’پلیز! تھوڑی دیر اور رک جائو۔ کسی ریسٹورنٹ میں چل کر لنچ کرتے ہیں۔‘‘ ذویان بولا۔
’’فی الحال تو میرا لنچ کرنے کا بالکل موڈ نہیں ہورہا۔‘‘
’’چلو کچھ ہلکا پھلکا کھا لینا۔‘‘ ذویان کے کہنے پر زینا نے سر ہلا دیا۔ کچھ دیر بعد وہ ذویان کے ساتھ ریسٹورنٹ میں بیٹھی برگر کھانے میں مصروف تھی۔ ذویان فوراً مطلب کی بات پر آگیا۔ ’’زینا! تمہیں دیکھنے کے بعد میرے دل میں یہ خواہش جڑ پکڑ گئی ہے کہ میں تم سے شادی کرلوں۔ ویسے بھی ہم دونوں کی انڈر اسٹینڈنگ بہت زیادہ ہے۔ لائف پارٹنر کی حیثیت سے ہم کامیاب رہیں گے۔ بولو تم مجھ سے شادی کیلئے رضامند ہو تو میں اپنی ممی کو تمہارے گھر رشتے کیلئے بھیجوں؟‘‘
’’اتنی جلدی بھی کیا ہے۔ ابھی میرا ایک سال تک شادی کا ارادہ نہیں ہے۔ ایم کام مکمل ہونے کے بعد ہی میں شادی کروں گی۔‘‘
’’زینا! اگر اس دوران تمہارے ڈیڈی نے کسی اور سے تمہاری شادی طے کردی تو؟ کہیں تم اس وجہ سے تو نہیں منع کررہیں کہ اسٹیٹس کے لحاظ سے میں تم سے کمتر ہوں؟‘‘ ذویان نے اپنے دل میں آئے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
’’دیکھو ذویان! میں شادی تم سے ہی کروں گی۔ مجھے تمہاری سب سے اچھی بات جو لگی ہے وہ یہ ہے کہ تم مرد اور عورت کے تعلقات میں مساوات کے قائل ہو۔ تم میرے دل میں جگہ بناچکے ہو۔ وقت آنے پر فیصلہ تمہارے حق میں ہوگا۔‘‘ زینا نے کولڈ ڈرنک کے گلاس کو منہ سے لگاتے ہوئے کہا۔ ذویان خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔ زینا شادی کیلئے رضامند تھی۔ وہ جلد ازجلد اس پری پیکر کو اپنانا چاہتا تھا۔
٭…٭…٭
شام کے سائے گہرے ہورہے تھے۔ عاصم آفس سے جلدی لوٹ آیا تھا۔ موسم بہار عروج پر تھا۔ وہ لان میں امرود کے پیڑ کے نیچے بیٹھ گیا۔ گھر میں پھیلی خاموشی نے اس کی اداسی کو کچھ اور بھی گہرا کردیا تھا۔ اس دوران ادھیڑ عمر ملازمہ ساجدہ چائے کی ٹرالی لئے آگئی۔
ساجدہ نے عاصم کی اداسی کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔ ’’صاحب! ایک بات کہوں، اگر آپ برا نہ مانیں؟‘‘
’’ہاں ساجدہ بی! کہیں۔‘‘ عاصم نے چائے کا کپ لیتے ہوئے کہا۔
’’صاحب! آپ شادی کرلیں، آپ کی اداسی اور تنہائی ختم ہوجائے گی۔ بیگم صاحبہ کی وفات کے بعد آپ بجھ کر رہ گئے ہیں۔‘‘
’’اچھا
ساجدہ بی…!‘‘ عاصم نے کہا اور سوچنے لگا کہ اسے اب شادی کرہی لینی چاہئے۔ اس کی نظروں کے سامنے زینا کا چہرہ آگیا۔ زینا اس کے ڈیڈ کے بزنس پارٹنر کی بیٹی تھی۔ وہ بچپن سے اسے دیکھتا آرہا تھا۔ اسے زینا بے حد پسند تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ڈیڈ کو اپنی پسند سے آگاہ کردے۔
٭…٭…٭
دن پر لگا کر اڑ رہے تھے۔ ذویان کا کوئی دن زینا سے بات کئے بغیر نہیں گزرتا تھا۔ ہر روز وہ آپس میں دنیا جہاں کی باتیں کرتے، آنے والے دنوں کے خوبصورت اور رنگین خواب دیکھتے۔ ایک سال گزرنے کا ذویان کو احساس بھی نہیں ہوا۔
زینا کے فائنل ایگزام ہوتے ہی ذویان نے ممی کو اپنی پسند سے آگاہ کردیا۔ ذویان کی بات سنتے ہی وہ سوچ میں پڑ گئیں۔
’’ممی! آپ کو میری پسند بری لگی ہے؟ فروا کی دوست ہونے کے ناتے آپ زینا کو اچھی طرح سے جانتی ہیں۔‘‘ ذویان نے انہیں خاموش دیکھ کر کہا۔
’’میں زینا کو اچھی طرح سے جانتی ہوں اس لئے سوچ رہی ہوں اس جیسی آزاد خیال لڑکی کے ساتھ تمہارا گزارہ کیسے ہوگا۔‘‘
’’آپ اس کی فکر نہ کریں۔ میرے اور اس کے خیالات ملتے جلتے ہیں۔ میں شادی زینا سے ہی کروں گا۔‘‘
ذویان کے لہجے کی پختگی کو دیکھتے ہوئے اس کی ممی امیر بیگم بولیں۔ ’’ٹھیک ہے میں چند روز بعد زینا کے گھر جاکر بات کروں گی۔‘‘ مگر ان کے زینا کے گھر جانے کی نوبت نہیں آئی۔ زینا کے ڈیڈی کی اچانک بیماری کی وجہ سے یہ معاملہ ٹل گیا۔ دو ماہ بعد فروا کی زبانی انہیں زینا کی شادی کی خبر ملی۔ زینا کی شادی پندرہ دن کے مختصر وقت میں اس کے ڈیڈی کے بزنس پارٹنر کے بیٹے سے ہورہی تھی۔ فروا نے کارڈ ذویان کے سامنے رکھ دیا۔
ذویان کا رابطہ ایک ہفتے سے زینا سے نہیں ہو پا رہا تھا۔ اب اسے زینا کا موبائل آف ہونے کی وجہ سمجھ میں آگئی۔ ذویان، فروا کو ساتھ لے کر زینا سے ملنے اس کے گھر پر پہنچ گیا۔
’’تم نے اپنی شادی کیوں طے ہونے دی؟ میری ممی تمہارے گھر رشتہ لے کر آنے والی تھیں اور یہ بات تم اچھی طرح جانتی ہو اس کے باوجود تم نے مجھ سے دھوکا کیا۔ اپنے ڈیڈی کے بزنس پارٹنر کے بیٹے سے شادی کیلئے رضامند ہوگئیں۔ اگر تمہیں مجھ سے بے وفائی کرنی تھی تو مجھ سے شادی کا جھوٹا وعدہ کیوں کیا تھا؟‘‘ ذویان نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں پوچھا۔ اس کی آنکھوں میں کتنے ہی خوابوں کی ٹوٹی ہوئی کرچیاں تھیں۔
’’ذویان! تم میرے اچھے دوست ہو اور ہمیشہ رہو گے۔ پلیز کوئی جذباتی حرکت مت کرنا۔ ڈیڈی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ ان کا کینسر آخری اسٹیج پر ہے۔ انہوں نے میری مرضی جانے بغیر ارتضیٰ انکل کے بیٹے سے میری شادی طے کردی۔ میں نے انہیں کہا بھی کہ میں عاصم سے شادی کرنا نہیں چاہتی تو وہ مجھ پر ناراض ہونے لگے۔ مجھے بہتری اسی میں نظر آئی کہ میں عاصم سے شادی کرلوں ورنہ ڈیڈی مجھے جائداد سے عاق کردیتے۔ تم میری مجبوری کو سمجھو۔ ہم ہمیشہ اچھے دوست رہیں گے۔‘‘ زینا کے منہ سے ان الفاظ کے ادا ہوتے ہی ذویان بظاہر غصے میں جانے کیلئے اٹھ کھڑا ہوا مگر زینا کی مجبوری کو وہ سمجھ چکا تھا۔ وہ زینا کو پانا چاہتا تھا مگر اس کی جائداد سمیت…!
٭…٭…٭
نویلہ بیڈ پر بیٹھی کسی گہری سوچ میں گم تھی۔ برابر میں نیم دراز ارتضیٰ عباس نے فائل ایک طرف رکھ کر بیوی کو بغور دیکھا اور بولے۔ ’’کیا بات ہے ہنی! کیا سوچ رہی ہو؟‘‘
’’عاصم کی شادی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ میری بھانجی سے شادی کیلئے اسے قائل کریں مگر آپ تو عاصم کی خواہش پر فوراً اس کا رشتہ لے کر چلے گئے۔ آپ کو عاصم سے بات کرنی چاہئے تھی کہ زینا سے اچھی بیوی ردا اس کیلئے ثابت ہوسکتی ہے۔ آپ چاہتے تو عاصم کو ردا سے شادی کیلئے قائل کرسکتے تھے مگر آپ نے کوشش نہیں کی۔‘‘ نویلہ کا لہجہ شکایت سے بھرپور تھا۔
’’نویلہ! میں عاصم کی فطرت کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ اس نے چھ سال گزرنے کے باوجود تمہیں قبول نہیں کیا۔ میں اس پر کتنا بھی زور ڈال دیتا، وہ ردا کیلئے ہامی نہیں بھرتا۔ شادی کیلئے زبردستی تو نہیں کی جاسکتی۔ شکر کرو اس نے حمزہ کی بیٹی کا انتخاب کیا جو ہمارے سرکل سے تعلق رکھتی ہے ورنہ مجھے عاصم سے اس سمجھداری کی امید نہیں تھی۔ حمزہ نے فوراً ہامی بھر لی اور بڑی آسانی سے رشتہ طے ہوگیا۔‘‘
’’اور آپ عاصم کی نظر میں معتبر ہوگئے ورنہ تو اسے ہمیشہ آپ سے شکایت رہتی تھی کہ آپ اس کے باپ بننے کے اہل نہیں تھے۔‘‘ نویلہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
’’ہنی…! چھوڑو بھی پچھلی باتوں کو، فی الحال تو تم شادی کی تیاریاں کرو۔‘‘ ارتضیٰ عباس یوں بولے جیسے وہ اس موضوع پر مزید بات نہ کرنا چاہتے ہوں۔
٭…٭…٭
ڈور بیل کی آواز سنتے ہی ذویان گیٹ کی جانب بڑھ گیا۔ گیٹ کھولتے ہی اسے اپنے دوست ارقم کا چہرہ نظر آیا۔ ارقم کو ساتھ لئے وہ اپنے بیڈ روم میں آگیا۔ ارقم کو اپنے ناکام عشق کی داستان سناتے ہوئے ذویان کے اعصاب چٹخنے لگے۔ ارقم نے اس کی اندرونی کیفیت کو بھانپ لیا اور کہا۔ ’’کیا تم چاہتے ہو کہ زینا کی شادی نہ ہو؟ اس کا حل تو یہی ہے کہ تم اس کے ہونے والے شوہر کو راستے سے ہٹا دو اور خود جیل چلے جائو۔ میرے خیال میں تم اتنے احمق تو ہو نہیں جو یہ کرو گے۔ دوسرا راستہ کورٹ میرج تھا جس کیلئے تم اور زینا دونوں تیار نہیں ہو۔ اب کڑھنے سے کچھ حاصل ہونے سے رہا۔ بہتر ہوگا کہ تم زینا کو بھول جائو۔‘‘
’’یہ تو ممکن نہیں، تم دیکھ لینا میری شادی زینا سے ہوگی۔ وہ اپنے شوہر سے طلاق لے کر میرے پاس آئے گی۔‘‘ ارقم نے ذویان کی بات غائب دماغی سے سنی اور موضوع بدلتے ہوئے بولا۔ ’’یار! میری منگنی ہورہی ہے، تمہیں میرے ساتھ ملتان جانا ہوگا۔ فی الحال تو تم میرے ساتھ باہر چلو تاکہ تمہاری ٹینشن دور ہو۔‘‘ ارقم نے ذویان کا کندھا پکڑ کر اسے اٹھایا تو ذویان کو مجبوراً اس کا ساتھ دینا پڑا۔ ورنہ فی الحال تو اس کا کہیں جانے کا موڈ نہیں تھا۔
٭…٭…٭
عاصم کی زینا سے شادی کو سال سے اوپر ہوگیا تھا۔ ایک صبح ناشتے کی میز پر بیٹھا ہوا وہ زینا کو دیکھنے میں محو تھا جو اس کی موجودگی سے بے نیاز میگزین پڑھنے میں مصروف تھی۔
’’میگزین بعد میں پڑھ لینا، ناشتہ تو کرلو۔‘‘ عاصم بولا تو زینا نے میگزین کی ورق گردانی کرتے ہوئے جواب دیا۔ ’’تم شروع کرو، میں ابھی کرلوں گی۔‘‘
عاصم نے گہری سانس لی اور ناشتہ کرنے لگا۔ کھاتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا اگر زینا نے خود کو اپنے دوستوں میں اسی طرح مصروف رکھا اور اس کی سوشل سرگرمیاں اسی طرح جاری رہیں تو اس کی ہونے والی اولاد کا مستقبل کیا ہوگا۔ عاصم کی تو شادی کے بعد سے آرزو تھی کہ زینا اپنا وقت گھر پر گزارے مگر زینا کے مزاج کے ٹیڑھے پن کو دیکھتے ہوئے اور دوسرے کوئی خوشخبری کے نہ ہونے کی وجہ سے اس نے اس معاملے پر زینا سے بات نہیں کی تھی۔
’’کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ زینا نےمیگزین ایک طرف رکھتے ہوئے پوچھا۔
عاصم اسے محویت سے دیکھتے ہوئے بولا۔ ’’سوچ رہا تھا بچوں کے بغیر گھر کس قدر ادھورا ہے۔‘‘
’’ہاں! یہ تو ہے مگر ابھی ہماری شادی کو عرصہ کتنا ہوا ہے جو تم یہ ٹینشن لے رہے ہو؟‘‘ زینا نظریں چراتے ہوئے بولی۔
’’تمہیں دیکھ کر مجھے یوں لگتا ہے کہ تمہیں اولاد کی خواہش نہیں ہے۔‘‘ عاصم کی بات سنتے ہی زینا کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
’’یہ صبح ہی صبح تمہیں کیا ہوگیا ہے، فضول بحث کرنا چاہ رہے ہو؟ ضروری تو نہیں کہ انسان کی ہر خواہش پوری ہو۔‘‘
’’زینا…! خواہش شدید ہو تو ناممکن باتیں بھی ممکن ہوجاتی ہیں۔ تم کوشش تو کرو۔‘‘
’’فی الحال میری مصروفیات مجھے اجازت نہیں دیتیں کہ میں ڈاکٹروں کے چکر لگائوں۔‘‘ زینا نے یہ کہتے ہوئے ٹوسٹ اٹھایا اور


لگی۔ عاصم خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ زینا کا رویہ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔ کبھی وہ اس سے والہانہ محبت کا اظہار کرتی اور کبھی اتنی سرد مہری پر اتر آتی کہ عاصم کو اسے برداشت کرنا مشکل ہوجاتا۔
٭…٭…٭
’’تم اپنے شوہر پر زور ڈالو کہ وہ تمہارے نام سے الگ بزنس سیٹ کردے۔ تم نے بتایا تو تھا کہ وہ دوسرا سیٹ اَپ شروع کرنے والا ہے۔‘‘ ذویان نے زینا کی گہری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔
’’میں نے کہا تو ہے اس سے اور پوری امید ہے کہ وہ میرے کہنے پر عمل کرے گا۔ میں نے تو اس سے کہا ہے کہ وہ کوٹھی میرے نام کردے۔ مجھے انکل ارتضیٰ کے وکیل کی زبانی پتا چلا ہے کہ انکل ارتضیٰ کا ارادہ کوٹھی اپنی دوسری بیوی کے نام کرنے کا ہے۔ بہت مہربان ہیں وہ اپنی بیوی پر، ہر وقت اس کے ناز اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ ارتضیٰ انکل ایک فلیٹ اور دکان نویلہ کے نام کرچکے ہیں اور اس بات پر عاصم نے اچھا خاصا ہنگامہ کیا ہے۔ باپ، بیٹے کے درمیان بات چیت بند ہے۔‘‘
’’زینا! تم باپ بیٹے کے درمیان رنجش کا فائدہ اٹھائو۔‘‘
’’وہ تو میں اٹھا رہی ہوں، بہت جلد ہم دونوں ایک ہوں گے۔ ڈیڈی نے جب میری شادی عاصم سے طے کی تھی تو میں نے فوراً انکار کردیا تھا۔ انہوں نے مجھے عاق کرنے کی دھمکی دی تھی تو مجبوراً مجھے ہتھیار ڈالنا پڑے تھے۔ تم تو فضول میں جذباتی ہورہے تھے۔ زندگی صرف محبت کے سہارے نہیں گزاری جاسکتی۔ زندگی کی آسائشوں سے لطف اندوز ہونے کیلئے پیسے کا ہونا ضروری ہے۔‘‘
’’ہاں! یہ تو ہے زینا! تم ذہانت اور خوبصورتی کا حسین امتزاج ہو۔ تمہیں پانے کیلئے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں، اپنی زندگی بھی دائو پرلگا سکتا ہوں۔‘‘
’’رئیلی…!‘‘ زینا ایک ادا سے بولی۔
’’اب اٹھو رمشا کے گھر پارٹی میں چلنا ہے۔‘‘ ذویان کے کہنے پر وہ ٹیبل سے اٹھی اور اپنے قدم کیفے کے بیرونی دروازے کی طرف بڑھا دیئے۔
٭…٭…٭
’’آخر تم چاہتی کیا ہو؟ تمہاری لامحدود خواہشات کب پوری ہوں گی؟ ابھی ایک ہفتے پہلے تم بضد تھیں کہ نئے پرنٹنگ پریس کے کاغذات تمہارے نام سے ہوں۔ آج تم تقاضا کررہی ہو کہ کوٹھی ہم دونوں کے نام ہو! یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ پہلے ہی ڈیڈ مجھ سے خفا ہیں کہ میں اکائونٹ سے پیسے نکال کر بے جا خرچ کرتا ہوں۔ ڈیڈ پیسہ خرچ کرنے کے معاملے میں بے حد محتاط ہیں۔ بڑی جدوجہد کے بعد انہوں نے یہ مقام بنایا ہے۔‘‘ عاصم بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولا۔ ابھی وہ آفس سے لوٹا تھا۔ گھر آتے ہی زینا ایک نئی فرمائش لئے بیٹھی تھی اور اس کی فرمائش کو سنتے ہی اس کا اچھا خاصا موڈ خراب ہوگیا تھا۔
’’اس سے پہلے تمہارے ڈیڈ کوٹھی نویلہ آنٹی کے نام کریں، تمہیں اس موضوع پر ان سے بات کرلینی چاہئے۔ ہمارے معاملے میں تو وہ رقم کا حساب کرتے ہیں، نویلہ آنٹی پر خرچ کرنے کیلئے ان کا بڑا دل ہے۔ کل شام کو انہوں نے نویلہ آنٹی کو روبی کا سیٹ لا کر دیا ہے، مجھے بھی پرسوں تمہارے دوست کی پارٹی میں جانے کیلئے ڈائمنڈ کا نیا سیٹ چاہئے۔‘‘
’’شٹ اَپ! یہ تم ہر وقت بچوں کی طرح فرمائشیں کیوں کرنے لگتی ہو حالانکہ تم اپنی عمر سے زیادہ سمجھدار ہو۔ ڈیڈ نے ممی کو تحفتاً کچھ دے دیا تو تم مقابلے کیلئے مجھ پر پریشر ڈالو گی؟ فی الحال تو دبئی میں شاپنگ کرنے کی تیاری کرو۔ تمہاری خواہش پر میں نے وہاں جانے کے انتظامات کرلئے ہیں۔‘‘ عاصم کی بات سن کر زینا خاموش رہی۔ وہ کمرے سے کار کی چابی اٹھا کر نکل گیا۔ آج آفس سے گھر آتے ہوئے وہ یہ سوچ کر آیا تھا کہ زینا کو ساتھ لے کر ڈنر پر جائے گا مگر گھر آتے ہی زینا نے بحث کرکے عاصم کو الجھا دیا تھا۔ گھر سے باہر نکل کر وہ بے مقصد کار دوڑاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ زینا خودغرض سہی مگر اس نے ایک بات صحیح کہی ہے کوٹھی نویلہ کے نام نہیں ہونی چاہئے۔
٭…٭…٭
’’ولید کچھ دنوں کیلئے میرے پاس آنا چاہتا ہے۔ آپ کی اجازت ہو تو میں اسے بلا لوں؟‘‘ نویلہ نے جھجکتے ہوئے ارتضیٰ عباس سے کہا۔ وہ نیوز چینل دیکھنے میں مصروف تھے۔
’’ہرگز نہیں! ولید اس گھر میں نہیں آئے گا۔ تمہارے سابقہ شوہر کے بے جا لاڈ پیار نے اسے منشیات کا عادی بنا دیا ہے۔ تم اس سے باہر چاہو تو مل سکتی ہو، اس گھر میں وہ نہیں آئے گا۔‘‘
ارتضیٰ عباس قطعی لہجے میں بولے۔
’’ارتضی! کبھی کبھی آپ بالکل روایتی شوہر بن جاتے ہیں۔ ولید کچھ دنوں کیلئے تو لاہور آیا ہے، دو ہفتے بعد وہ واپس کراچی چلا جائے گا۔ میں اسے یہاں آنے سے منع کروں گی تو وہ ڈس ہارٹ ہوگا۔ پہلے ہی وہ میری اپنے باپ سے علیحدگی کی وجہ سے ڈپریشن کا مریض بن گیا ہے۔ ابھی اس کی عمر سترہ برس ہے اور وہ ڈرگس استعمال کرنے لگا ہے۔ میری خواہش ہے کہ وہ کچھ دن میرے پاس رہے۔ اسے میری محبت کی ضرورت ہے۔ بھلا ماں کی کمی کبھی پوری ہوسکتی ہے؟‘‘ نویلہ نے شوہر کو راضی کرنے کی کوشش کی۔
’’ہنی…! بہتر ہوگا کہ وہ یہاں نہ آئے۔ تم خود کو اس کے پیچھے ہلکان مت کرو۔ اس کے باپ نے اسے اپنی تحویل میں لیتے ہوئے بڑے دعوے کئے تھے۔ بڑا زعم تھا اسے خود پر، بیٹے کی صحیح تربیت نہ کرسکا۔ سولہ سال کی عمر میں تمہاری اس سے شادی ہوئی تھی۔ تم جیسی کمسن اور خوبصورت بیوی کی اس نے قدر نہیں کی۔ اپنی سیکرٹری سے شادی کرکے تمہیں اپنی زندگی سے نکال پھینکا۔‘‘
’’اس کے کئے کی سزا ولید کو کیوں ملے۔ اگر وہ ولید کا باپ ہے تو میں بھی اس کی ماں ہوں۔ پلیز…!‘‘
ارتضیٰ عباس نے بیوی کی بات کاٹ دی۔ ’’بہتر ہوگا کہ ہم اس موضوع کو یہیں ختم کردیں۔ تم نے آج رات ہونے والی دعوت کے انتظامات دیکھ لئے؟ کسی چیز کی کمی نہیں ہونی چاہئے۔ فرقان بٹ ایک عرصے بعد مجھ سے ملنے میرے گھر آرہا ہے۔ کھانے پینے کا وہ بے حد شوقین ہے۔‘‘ ارتضیٰ عباس نے موضوع بدلا۔
’’آپ بے فکر رہیں، میں نے دیکھ لیا ہے۔‘‘ نویلہ کھوئے ہوئے لہجے میں بولی۔ اس کا ذہن ولید میں الجھا ہوا تھا۔
٭…٭…٭
ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی زینا تنقیدی نظروں سے اپنے سراپا کا جائزہ لینے میں مصروف تھی۔ وائٹ نیٹ کی میکسی میں اس کا وجود گڑیا کی طرح لگ رہا تھا۔ نفاست سے کئے میک اپ میں وہ غضب ڈھا رہی تھی۔ عاصم نے کمرے میں داخل ہوکر بھرپور نگاہ زینا پر ڈالی۔ زینا نے اپنی نظریں اس کی جانب مرکوز کیں اور بولی۔ ’’میرا ڈائمنڈ کا سیٹ تم لے آئے ہو؟‘‘
عاصم نے اس کی بات سنتے ہی نفی میں سر ہلا دیا۔ ’’فی الحال میں تمہاری یہ فرمائش پوری نہیں کرسکتا۔ تمہاری خواہش پر میں نے دبئی کے ٹرپ کا پروگرام بنا لیا ہے۔ اچھی خاصی رقم خرچ ہوجائے گی، اب بیٹھے بٹھائے تم نے ڈائمنڈ سیٹ کی فرمائش کردی کہ تمہیں آج پارٹی میں وہی ڈائمنڈ سیٹ پہن کر جانا ہے جو پرسوں تم نے جیولر کے پاس دیکھا تھا۔ یہ ضروری تو نہیں کہ تم ہر پارٹی میں نئی جیولری پہن کر جائو۔ تمہارے پاس جو جیولری موجود ہے، اس میں سے کوئی سیٹ پہن لو۔‘‘
عاصم کی بات سنتے ہی زینا کا موڈ آف ہوگیا۔ ’’مجھے تو وہی جیولری سیٹ پہن کر جانا ہے۔ تم فوراً جاکر لے کر آئو۔‘‘
’’تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے؟ جب دیکھو تمہاری فرمائشیں ختم نہیں ہوتیں۔ تم ایک فضول خرچ عورت ہو جسے پیسے اڑانے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔‘‘ عاصم کے لہجے میں نہ چاہتے ہوئے بھی تلخی آگئی۔ ’’ہاں! میں تو شروع سے ایسی ہوں۔ میرے رکھ رکھائو کو دیکھتے ہوئے تم نے مجھ سے شادی کی تھی، اب میرے خرچے بھی اٹھائو۔‘‘
’’وہ تو میں اٹھا رہا ہوں مگر تم میری اوقات سے زیادہ کی فرمائشیں کرنے لگی ہو۔ چھوڑو اس فضول بحث کو! میں چینج کرکے آتا ہوں پھر چلتے ہیں۔‘‘
’’ہرگز نہیں! میں تمہارے ساتھ نہیں جائوں گی جب تک تم میری فرمائش پوری نہیں کرو گے۔‘‘ وہ قطعی لہجے میں بولی۔
عاصم
جواب دیئے بغیر الماری میں سے کپڑے نکال کر واش روم میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ باہر نکلا تو اس کی نظر بیڈ پر لیٹی زینا پر پڑی جو کپڑے تبدیل کرنے کے بعد بستر پر بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ اس کی موجودہ کیفیت کو دیکھتے ہوئے عاصم سمجھ گیا تھا کہ اسے پارٹی میں نہیں جانا ہے، وہ اپنی ضد پر بدستور قائم ہے۔ عاصم نے زینا سے الجھنے کے بجائے تنہا پارٹی میں جانے کا فیصلہ کرلیا۔
اگلے روز عاصم کو زینا کے ساتھ دبئی جانا تھا مگر وہ صبح بدستور خراب موڈ کے ساتھ ڈائننگ ٹیبل پر موجود تھی۔
’’تم نے اپنی پیکنگ مکمل کرلی؟‘‘ عاصم نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں! میں نے جانے کی تیاری کرلی تھی مگر اب میرا تمہارے ساتھ جانے کا موڈ نہیں۔‘‘ وہ تلخ لہجے میں بولی۔
’’زینا… پلیز اپنا موڈ درست کرلو۔ کل بھی تم نے پارٹی میں نہ جاکر میرا موڈ خراب کردیا۔ میں نے کل صبح ہی تم سے کہہ دیا تھا کہ فی الحال میں تمہاری یہ فرمائش پوری نہیں کرسکتا پھر بھی تم نے ضد پکڑ لی ہے تو میں بھی تم پر واضح کردوں کہ میں اکیلا بھی جاسکتا ہوں۔‘‘
’’ہاں! ضرور جائو۔ جب میں اپنی مرضی سے آزادانہ گھوم سکتی ہوں تو تم پر کیوں پابندی لگائوں۔ میں اپنی خواہشات پوری کرنے کیلئے تمہاری محتاج نہیں ہوں۔‘‘
’’ہاں! جانتا ہوں تمہارے قدردان بہت ہیں۔ مجھ سے شادی کرکے تم نے مجھ پر بہت احسان کیا ہے۔ میں تمہارے اشاروں پر چلوں تو مجھ سے اچھا کوئی نہیں۔ جہاں میں نے تمہاری حکم عدولی کی، تمہاری ساری محبت ختم ہوجاتی ہے۔ میں تمہاری خوشامد بالکل نہیں کروں گا۔ میری بلا سے تم بھاڑ میں جائو۔‘‘ عاصم کے منہ سے ان الفاظ کے نکلتے ہی شدت غیظ سے زینا کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ بڑبڑاتے ہوئے اس نے میز پر رکھے برتنوں کو پٹخنا شروع کردیا۔ عاصم اس کے غصے کو نظرانداز کرتے ہوئے آفس روانہ ہوگیا جہاں اسے ضروری امور نمٹانے تھے۔ گھر سے نکلتے ہوئے اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ زینا کی خوشامد کئے بغیر اکیلا ہی دبئی کے ٹرپ پر روانہ ہوجائے گا۔ پورا دن زینا کے ساتھ ساتھ عاصم کا موڈ آف رہا۔ عاصم نے زینا کو منانے کی کوشش نہیں کی۔ رات کی فلائٹ سے وہ دبئی روانہ ہوگیا جہاں اس کا دوست فرزان اس کا منتظر تھا۔
’’تم نے تو کہا تھا کہ تم بھابی کے ساتھ آئو گے؟ میں نے ہوٹل میں تمہارا کمرہ بک کروا دیا تھا۔‘‘ فرزان نے اسے تنہا دیکھ کر کہا۔
’’آج صبح ہی زینا سے میری جھڑپ ہوگئی۔ میں نے اسے منانے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ شام سے وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں نکلی ہوئی تھی۔ اسے میرے جذبات و احساسات کی قطعاً پروا نہیں ہوتی ہے۔ میں ہی بے وقوف ہوں جو اس کے ساتھ شادی نبھا رہا ہوں۔ کبھی کبھار تو مجھے اس پر شدید غصہ آتا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ طلاق اس کے منہ پر دے ماروں۔ غصے میں آئوٹ ہوکر زینا عجیب وغریب حرکتیں کرتی ہے۔ مجھے بعض اوقات ایسے القاب سے نوازتی ہے کہ میں کھول کر رہ جاتا ہوں۔‘‘ عاصم نے دل کا غبار نکالا۔
’’زینا بھابی میں اگر برائیاں پائی جاتی ہیں تو کچھ اچھائیاں بھی ہوںگی۔ تمہیں اپنی بیوی سے جو شکایات ہیں، اس طرح کی شکایات بیشتر شادی شدہ مردوں کو اپنی بیویوں سے ہیں۔‘‘
’’ہاں تو اور لوگ اپنی بیویوں کی بدتمیزیوں کو برداشت کرلیتے ہوں گے مگر مجھ میں اتنا حوصلہ نہیں۔‘‘
’’تم اس وقت ٹینشن میں ہو، آرام کرکے پرسکون ہوجائو باقی باتیں تو ہوتی رہیں گی۔‘‘ فرزان نے اس کے کندھے تھپتھپاتے ہوئے اس کا سامان کار میں رکھا اور کار ڈرائیو کرنے لگا۔ کار کی پشت سے ٹیک لگائے عاصم کا ذہن زینا کے بارے میں سوچنے میں لگا ہوا تھا۔ وہ زینا کو مس کررہا تھا اور سوچ رہا تھا کاش! وہ بھی اس کے ساتھ ہوتی۔
٭…٭…٭
عاصم کو دبئی آئے ہوئے دو دن ہوئے تھے۔ وہ بے مقصد شاپنگ مال میں گھوم رہا تھا۔ ہر پل دو پل کے بعد زینا کے چہرے پر رقصاں مسکراہٹ عاصم کی نظروں میں گھوم جاتی اور وہ غصے سے کھولنے لگتا۔
’’میری زندگی کا مقصد ختم ہوکر رہ گیا ہے۔‘‘ عاصم نے مال سے نکلتے ہوئے سوچا اور باہر آکر یونہی نظریں گھمانے لگا۔
’’ہیلو! اینی پرابلم…؟‘‘ دلکش آواز پر وہ چونکا۔ برائون بالوں اور سرمئی آنکھوں والی لڑکی اس سے مخاطب تھی۔
’’اوہ… نو!‘‘ وہ دھیرے سے مسکرایا۔
’’آئی ایم ریمل!‘‘ اس نے مصافحے کیلئے ہاتھ بڑھایا جو عاصم نے دھیرے سے تھام لیا۔
’’عاصم مرتضیٰ…!‘‘
’’پاکستانی…‘‘
ریمل کے پوچھنے پر عاصم نےاثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’پاکستانی!‘‘
’’آئی سی…!‘‘ وہ مسکرائی۔
’’آپ میرے ساتھ کافی پینا پسند کریں گے؟‘‘ ریمل کی آفر پر عاصم نے سر ہلا دیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں کافی شاپ میں موجود تھے۔
’’تم یہیں دبئی میں ہوتے ہو؟‘‘ ریمل کافی کا سپ لیتے ہوئے بے تکلفی سے بولی۔
’’نہیں !پاکستان میں ہوتا ہوں۔‘‘
’’کیا کرتے ہو؟‘‘
’’بزنس کرتا ہوں۔ گھومنے کے ارادے سے یہاں آیا ہوں۔‘‘
’’بہت اداس لگ رہے ہو؟‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں تیرتی اداسی کو جانچتے ہوئے بولی۔
’’ہاں…!‘‘ عاصم سرد آہ بھر کر کافی کے مگ کو گھورنے لگا۔ ’’دکھ سکھ تو زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔‘‘
’’جانتی ہوں پھر بھی کوئی بڑا دکھ…؟‘‘
’’نہیں! تم بتائو تم کیا کرتی ہو؟‘‘
’’میں یہیں پر جاب کرتی ہوں۔‘‘
’’تمہارے والدین…؟‘‘
’’فادر کی ڈیتھ ہوچکی ہے، ممی میرے ساتھ یہیں ہوتی ہیں۔‘‘ وہ ذرا دلگرفتہ ہوئی پھر عاصم سے پوچھنے لگی۔’’آر یو میرڈ…؟‘‘عاصم کا سر نہ چاہتے ہوئے بھی اثبات میں ہل گیا۔
’’تمہاری بیوی…؟‘‘
’’وہ پاکستان میں ہے۔‘‘
’’اسے یہاں نہیں لائے؟‘‘ ریمل کے پوچھنے پر عاصم کچھ سوچتے ہوئے بولا۔ ’’ارادہ تو میرا اسے ساتھ لانے کا تھا مگر عین ٹائم پر اس نے انکار کردیا۔ عجیب فطرت کی مالک ہے وہ… خودغرض اور مغرور!‘‘
’’کیا وہ تم سے محبت نہیں کرتی؟‘‘
’’نہیں! اسے تو صرف دولت سے محبت ہے۔‘‘ عاصم زخم خوردہ انداز میں مسکرایا۔
’’اور تم اس سے محبت کرتے ہو؟‘‘
’’ہاں…! مگر اب کچھ دنوں سے مجھے یوں لگنے لگا ہے کہ میری یکطرفہ محبت بیکار ہے۔‘‘
’’پھر تم نے کیا سوچا ہے؟‘‘
’’ابھی تو میں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ میری بیوی کے چاہنے والے اتنے ہیں کہ اگر میں نے اسے اپنی زندگی سے نکال پھینکا تو اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا البتہ میرے ڈیڈ ضرور مجھ سے خفا ہوجائیں گے۔ میری بیوی زینا ان کے مرحوم دوست کی بیٹی ہے جو ان کے بزنس پارٹنر تھے۔‘‘
’’اوہ! تو تمہاری زینا سے ارینجڈ میرج ہے؟‘‘ ریمل بولی۔
’’ارینجڈ پلس لَو! مجھے زینا پسند تھی۔ میں نے ڈیڈ سے کہا کہ میں زینا سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ سن کر بہت خوش ہوئے۔ ان کی بھی یہی خواہش تھی البتہ زینا کو میں پسند نہیں تھا۔ اس نے مجھے دل سے قبول نہیں کیا۔ وہ خود پسند عورت ہے۔‘‘ عاصم نے کافی کا خالی مگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’کیا ہم دوبارہ مل سکتے ہیں؟‘‘ ریمل نے بڑی آس سے پوچھا۔
’’وائے ناٹ! تمہیں فرینڈ بنا کر مجھے خوشی ہوگی۔‘‘
ریمل نے اپنا مخروطی ہاتھ عاصم کی طرف بڑھایا جسے اس نے فوراً تھام لیا۔
٭…٭…٭
’’کہیں جارہی ہو؟‘‘ ارتضیٰ عباس نے ہاتھ میں کی رنگ گھماتی زینا سے پوچھا۔ زینا کے حسین چہرے پر ناگواری کا تاثر ابھر آیا۔
’’جی انکل! آپ کو مجھ سے کوئی کام ہے کیا؟‘‘ زینا نے ناگواری پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
’’نہیں! میں نے ویسے ہی پوچھا تھا۔ عاصم کی غیرموجودگی میں تم کچھ زیادہ ہی گھر سے باہر رہنے لگی ہو۔‘‘
’’میرے لئے عاصم کی موجودگی یا غیر موجودگی کوئی معنیٰ نہیں رکھتی۔ وہ میرے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا اور نہ ہی میں اسے اس کی اجازت دیتی ہوں۔‘‘ وہ پرغرور لہجے


میں بولی۔
’’جانتا ہوں تمہارے مزاج کو…!‘‘
’’اوکے! میں چلتی ہوں۔‘‘ زینا نے قدم دروازے کی جانب بڑھا دیئے۔ اس وقت وہ ارتضیٰ عباس سے بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھی۔ کار ڈرائیو کرتے ہوئے وہ ریسٹورنٹ میں پہنچی جہاں ذویان پہلے سے اس کا منتظر تھا۔
’’زینا! بہت دیر لگا دی؟‘‘ اس نے دیکھتے ہی کہا۔
’’ہاں! آج دوپہر میں کافی دیر سوتی رہ گئی تھی۔ کل عاصم دبئی سے واپس آرہا ہے۔‘‘
’’تم عاصم سے طلاق کا معاملہ صاف کیوں نہیں کرلیتیں؟ مجھ سے محبت کی دعویدار ہونے کے باوجود تم اس معاملے کو طول دے رہی ہو۔‘‘ ذویان کے لبوں پر ایک بار پھر شکوہ آگیا۔
’’عاصم سے میری شادی کی وجہ تمہیں پتا ہے۔ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ میں اس سے طلاق لوں۔ خیر چھوڑو اس موضوع کو، میرے لئے فوراً برگر منگوائو۔ بہت بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ وہ بالوں کی لٹ کو پیچھے کرتے ہوئے بولی۔ ایک لمحے کیلئے ذویان اس کے حسن کے سحر میں کھو سا گیا۔
٭…٭…٭
’’تم کل جارہے ہو؟‘‘ ریمل نے پوچھا۔
’’ہاں… جانا تو ہے مجھے!‘‘
’’پھر کب آئو گے؟‘‘ ریمل کے اس سوال پر عاصم نے کندھے اچکائے۔
’’معلوم نہیں!‘‘
’’میں تمہارے لئے دعا کروں گی کہ تمہیں اپنی بیوی کی محبت مل جائے۔‘‘
’’اس کی محبت ملنا ناممکن ہے۔‘‘ وہ استہزائیہ انداز میں ہنسا اور ڈنر کرنے میں مصروف ہوگیا۔ وہ پچھلے ایک ہفتے سے روزانہ ریمل کے ساتھ ڈنر کررہا تھا۔ اس دوران ریمل اس سے بری طرح متاثر ہوچکی تھی۔ عاصم کی ظاہری خوبصورتی کے ساتھ ساتھ وہ اس کی باطنی خوبیوں کی معترف ہوگئی تھی۔
’’یہ تمہارے لئے ہے۔‘‘ ریمل نے ایک پیکٹ عاصم کی طرف بڑھایا۔
’’تھینکس!‘‘ عاصم نے پیکٹ تھام لیا۔
’’سنو پاکستان جاکر مجھے بھول مت جانا۔‘‘
’’ہرگز نہیں! تم سے میرا رابطہ رہے گا۔ تمہیں بھول جائوں، یہ ہو نہیں سکتا۔‘‘
’’اوکے! اپنی بات پر قائم رہنا۔‘‘ ریمل مسکراتے ہوئے بولی۔
عاصم کا ذہن زینا کی طرف چلا گیا۔ اس نے پچھلے ایک ہفتے سے اس سے رابطہ نہیں کیا تھا۔
٭…٭…٭
زینا مارکیٹ سے نکل کر شاپنگ بیگز اپنی کار میں رکھ رہی تھی تب ہی موٹرسائیکل پر سوار ایک نوجوان فائر کرتا ہوا فرار ہوگیا۔ زینا گولی لگنے سے بال بال بچی۔ فوراً ہی اس نے پولیس کو مطلع کردیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ تھانے میں ایس ایچ او حمید کے سوالوں کا جواب دے رہی تھی۔
’’آپ پر اس سے پہلے کبھی ایسا حملہ ہوا، کسی نے آپ کو جان سے مارنے کی کوشش کی؟‘‘
’’نہیں! پہلی بار میرے ساتھ ایسا ہوا ہے۔ مجھے شدید خوف محسوس ہورہا ہے۔‘‘ زینا نے خوف زدہ لہجے میں کہا۔
’’ہوسکتا ہے فائر کرنےوالے کا نشانہ کوئی اور ہو کیونکہ اس جگہ آپ کے علاوہ اور لوگ بھی تھے؟‘‘ ایس ایچ او حمید سوچتے ہوئے بولا۔
’’مجھے پورا یقین ہے کہ فائر کرنے والے کا نشانہ میں تھی۔‘‘
’’آپ یہ بات اتنے یقین سے کیسے کہہ سکی ہیں جبکہ آپ کی نہ کسی سے دشمنی ہے اور نہ ہی کسی نے آپ کو جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے۔‘‘
’’سر…! میں نے جو محسوس کیا ہے، اس کی بناء پر ہی کہہ رہی ہوں۔ آپ کا کام ہے کہ آپ مجرم کو تلاش کریں۔ لوگوں کے بیچ فائر کرتے ہوئے وہ فرار ہوگیا۔‘‘
’’اوکے! ہم پوری کوشش کریں گے۔ ہیلمٹ پہننے کی وجہ سے اس کی شکل دیکھی نہیں جاسکی ہے۔ ہم وہاں موجود اور لوگوں سے تفتیش کررہے ہیں۔ ہوسکتا ہے اس کا سراغ جلد مل جائے۔ آپ جاسکتی ہیں۔‘‘ ایس ایچ او حمید کے یہ کہتے ہی زینا اٹھی اور تیز قدموں سے چلتی ہوئی تھانے سے نکل آئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ گھر میں موجود تھی۔
عاصم اسے تسلی دینے میں مصروف تھا۔ وہ کل رات کی فلائٹ سے دبئی سے آیا تھا۔
’’زینا! خوف زدہ مت ہو۔ کوئی اچکا ہوگا جو تمہیں خوف زدہ کرکے تمہارا پرس چھیننا چاہتا ہوگا۔‘‘
’’اسی بات پر تو مجھے حیرت ہے۔ فائر کرنے والے نے میرے پرس پر جھپٹا نہیں مارا۔ وہ تو مجھے جان سے مارنا چاہتا تھا۔‘‘
’’مگر کیوں…؟‘‘ عاصم حیرانی سے بولا۔
’’اس کی وجہ تم جانتے ہو، میری موت سے کسے فائدہ پہنچ سکتا ہے۔‘‘ زینا معنی خیز انداز میں بولی۔
’’زینا…! اگر تم مجھ پر شک کررہی ہو تو تمہارا شک بے سبب ہے۔ میں اتنا گرا ہوا نہیں ہوں۔ ہمارے درمیان کتنے بھی اختلاف ہوجائیں، میں اتنی گری حرکت نہیں کرسکتا۔ مجھے تم سے محبت ہے۔ کئی بار تمہارے رویئے پر میں پیچ و تاب کھا کر رہ جاتا ہوں۔ مجھے تم پر شدید غصہ آتا ہے۔ پھر جب تم مجھے مناتی ہو، میرا غصہ غائب ہوجاتا ہے۔‘‘
’’ڈیئر! میں کب کہہ رہی ہوں کہ تم میری جان لینے کے درپہ ہو۔ مجھے تو انکل پر شبہ ہے۔ یہ بات میں نے پولیس کو بھی نہیں بتائی۔‘‘
’’واٹ…؟ تمہیں ڈیڈ پر شبہ ہے۔ میں نہیں سمجھتا وہ تمہارے ساتھ ایسا کرسکتے ہیں۔‘‘ عاصم نے قطعی لہجے میں کہا۔
’’عاصم! میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا کہ تمہارے ڈیڈ میری جان لے سکتے ہیں۔ تم نے میری بات کو نظرانداز کردیا تھا۔ اب دیکھ لو آج دوسرا واقعہ تمہارے سامنے ہے۔ پہلی بار جب میرے دودھ میں زہر ملایا گیا تھا اور میں نے تمہیں بتایا تھا کہ کیٹی نے وہ دودھ پی لیا تھا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی تو تم نے میری بات ان سنی کردی تھی مگر اب دیکھ لو آج دوسرا واقعہ تمہارے سامنے ہے۔‘‘
’’تمہیں اتنا یقین ہے کہ میرے ڈیڈ تمہاری جان لینا چاہتے ہیں تو تمہیں پولیس کو بتانا چاہئے تھا۔‘‘
’’رئیلی…! تم چاہتے ہو کہ میں پولیس کو بتا دوں۔ جانتے ہو کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ عاصم! میں جانتی ہوں کہ تم مجھے بے حد چاہتے ہو۔ اگر تمہیں میری زندگی عزیز ہے تو تمہیں اپنے ڈیڈ کا قصہ ختم کرنا ہوگا۔‘‘
’’پاگل ہوگئی ہو کیا…؟ میں ایسا نہیں کرسکتا۔ میرا مشورہ مانو تم کسی سائیکالوجسٹ سے اپنا چیک اَپ کروائو۔ تم جب اسٹریس میں ہوتی ہو تو ایسے ہی سب پر شبہ کرنے لگتی ہو۔ فی الحال تم بیڈ روم میں جاکر آرام کرو۔‘‘ عاصم نے اسے کندھے سے پکڑ کر اٹھایا اور قدم بیڈ روم کی جانب بڑھا دیئے۔
٭…٭…٭
ڈاکٹر ارباز نے ایک نظر اپنے سامنے بیٹھی زینا پر ڈالی اور پوچھا۔ ’’جی محترمہ! بتائیں آپ کو کیا پرابلم ہے؟‘‘
’’کوئی ایک پرابلم ہو تو میں آپ کو بتائوں۔ پریشانیوں اور الجھنوں کی وجہ سے مجھے نیند نہیں آرہی۔ نیند کی گولیاں کھانے کے باوجود میں سو نہیں پاتی۔ نہ کھانے پینے کی طرف میری طبیعت مائل ہوتی ہے۔ موت کا خوف میرے ذہن پر سوار ہوگیا ہے۔‘‘
’’اس خوف کے آپ کے ذہن پر سوار ہونے کے پیچھے کوئی وجہ تو ہوگی۔ آپ کا نام کیا ہے؟‘‘ ڈاکٹر ارباز نے سوال کیا۔
’’میرا نام زینا حمزہ علی ہے۔‘‘
’’یہ حمزہ کون ہیں…؟‘‘
’’میرے ڈیڈی تھے۔‘‘
’’آپ نے مجھ سے پہلے کسی سائیکالوجسٹ کو اپنی کیفیت بتائی تھی؟‘‘
’’نہیں! میں نے اپنے فیملی ڈاکٹر کو اپنی کیفیت بتائی تھی۔ انہوں نے مجھے آپ سے ملنے کا مشورہ دیا۔ میں اپنے اندر کے خوف کے بارے میں کسی کو بتا بھی نہیں سکتی۔‘‘ زینا جھجکتے ہوئے بولی۔
’’مجھے تو بتانا ہوگا ورنہ مجھے آپ کا کیس حل کرنے میں مدد کیسے ملے گی۔ مجھ سے تعاون کریں، اس میں آپ کا فائدہ ہے۔‘‘
’’آپ میری بتائی ہوئی باتوں کو کسی پر ظاہر تو نہیں کریں گے؟‘‘ زینا سوچتے ہوئے بولی۔
’’ہرگز نہیں! یہ ہمارے اصولوں کے خلاف ہے۔ آپ مجھ پر اعتماد کرتے ہوئے بے جھجک اپنی ہر بات کہہ ڈالیں۔ ڈریں مت!‘‘ ڈاکٹر ارباز کے حوصلہ دینے پر زینا نے بغور ڈاکٹر ارباز کو دیکھا۔ وہ ایک ہینڈسم شخصیت کے حامل شخص تھے۔
زینا کے لب حرکت میں آئے۔ وہ کہنے لگی۔ ’’مجھے اس شخص سے ڈر لگتا ہے جو مجھے قتل کرنا چاہتا ہے۔‘‘
’’قتل کرنا چاہتا ہے؟ آپ کو کسی پر شبہ ہے؟‘‘
’’شبہ تو مجھے کئی لوگوں پر ہے جن میں سرفہرست میرے سسر اور میرا شوہر ہے۔
سسر ارتضیٰ عباس میرے ڈیڈی حمزہ علی کے بزنس پارٹنر تھے۔ وہ میری شادی اپنے بیٹے عاصم سے کرنا چاہتے تھے۔ میرے ڈیڈی بھی یہی چاہتے تھے مگر میں عاصم کو پسند نہیں کرتی تھی کیونکہ میرا آئیڈیل کوئی اور ہے۔ ڈیڈی کی بیماری کے سبب مجھے ان کی خواہش پوری کرنی پڑی۔ میرے ڈیڈی کو ڈاکٹر نے آخری اسٹیج میں کینسر تشخیص کیا تھا۔ ڈیڈی کے سمجھانے پر میں عاصم سے شادی کیلئے تیار ہوگئی تھی کیونکہ اس میں میرا ہی فائدہ تھا۔ اگر میں عاصم سے شادی نہیں کرتی تو بہت بڑی رقم سے محروم ہوجاتی۔ میرے ڈیڈی کی لاکھوں روپے کی رقم انکل ارتضیٰ دبائے بیٹھے ہیں۔ میں عاصم کی بیوی بن گئی تاکہ خوشحال زندگی گزار سکوں مگر مجھے یوں لگتا ہے ڈیڈی کے فیصلے پر عمل کرکے میں نے غلط کیا۔ عاصم میرا شوہر بن کر میرے حصے کے بزنس پر قابض ہے اور شاید اب وہ یا اس کا باپ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ (جاری ہے)

Latest Posts

Do Humsafar

Related POSTS