ساتھ ہی وسیم نے آہستہ سے یاسمین سے کہا۔ ’’جب میں گھونسا رسید کروں تو تم اس طرح ہاتھوں پر جھول جانا جیسے بے ہوش ہوگئی ہو۔‘‘ اس کے ساتھ ہی وسیم نے ہاتھ بلند کر کے آہستہ سے گھونسا رسید کیا۔ دور سے دیکھنے پر ایساہی لگا جیسے بھرپور وار کیا گیا ہو مگر وہ گھونسا یاسمین کے لگا نہیں تھا، اس نے چیخ مار کر بے ہوش ہونے کی اداکاری کی۔
وسیم اس کے بے ہوش وجود کو ہاتھوں میں اٹھائے ڈھلوان کی سمت بڑھنے لگا۔ تورک چند قدم آگے بڑھا اور پھر رک گیا۔ اس نے یاسمین کو بچانے کی کوشش نہیں کی۔ ٹیلے پر پہنچتے ہی وسیم نے یاسمین کو آہستہ سے کمبل پر لٹا دیا۔
’’تم اب آرام سے یہاں لیٹی رہو، میں دیکھتا ہوں وہ کیا کررہا ہے۔‘‘ وسیم نے کہا۔
تورک اب تک کھڑا ٹیلے کے اوپر دیکھ رہا تھا۔ وہ بہت محتاط تھا اور کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھا۔ کچھ دیر بعد وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا برآمدے میں واپس پہنچا اور کرسی پر بیٹھ کر سگریٹ جلائی، پھر دوربین اٹھا کر ان کی نقل و حرکت دیکھنے کی کوشش کرتا رہا، اس کے بعد اٹھ کر اندر چلا گیا۔
’’اسے شاید اب تک شبہ ہے کہ یہ ہماری کوئی چال نہ ہو۔‘‘ وسیم نے پُرسوچ انداز میں یاسمین سے کہا۔ ’’ویسے تم نے آج اداکاری کا کمال دکھا دیا۔ اب کل صبح تمہارے فن کا اصل امتحان ہوگا۔‘‘
’’جانے کیوں اس لمحے سے میرا دل بڑا ڈر رہا ہے۔‘‘ یاسمین نے اس کے شانے پر سر رکھتے ہوئے کہا۔ ’’خدا نہ کرے اگر…‘‘
’’خدا ہماری مدد کرے گا۔‘‘وسیم نے اعتماد کے ساتھ کہا۔ اور… پھر زندہ رہنے کی اتنی خواہش تو مجھے کبھی نہ تھی، جتنی اب ہے۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘
’’اس لیے کہ اب مجھے میر ی زندگی مل گئی ہے۔‘‘ اس نے یاسمین کی طرف اشارہ کیا۔
اس رات جب یہ دونوں مکان میں پہنچے تو تورک کا دوسرا خط میز پر موجود تھا۔
’’ڈاکٹر! میرا مشورہ ہے کہ لڑکی کو آزاد کردو… مرنا تو تمہیں بہرحال ہے۔ لیکن اس بے گناہ کو بھوکا پیاسا مارنے سے کیا حاصل، اگر تم نے میری بات نہ مانی تو یاد رکھو۔ میں خود آکر تمہیں اذیت ناک موت ماروں گا۔‘‘ تورک۔
’’ایسا لگتا ہے وہ ہماری اس ڈرامے بازی سے کافی متاثر ہوا ہے۔‘‘ یاسمین نے ہنستے ہوئے کہا۔
وسیم نے مسکراتے ہوئے خط اپنی جیب میں رکھ لیا اور بولا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ کل تم اسے پوری طرح متاثر کرلو گی۔‘‘
اس رات ان کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا۔ چند گھونٹ پانی سے انہوں نے اپنا حلق تر کیا۔ صبح ہونے سے پہلے وہ ٹیلے پر پہنچ گئے۔ یاسمین کو ایک بار پھر سمجھا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’اچھا اب میں اپنی جگہ سنبھالنے جا رہا ہوں۔ تم اپنے کام کے لیے تیار رہنا۔‘‘
’’وسیم ! خدا کے لیے تم بہت محتاط رہنا۔‘‘ یاسمین نے وسیم کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا۔
’’اب یہ زندگی میری نہیں تمہاری ہے یاسمین، اس لیے سخت حفاظت کروں گا۔‘‘
وسیم نے اپنے لیے جو جگہ منتخب کی، وہ مکان سے بمشکل بیس تیس قدموں کے فاصلے پر تھی اور وہاں خودرو جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں۔ اس لیے، اُسے پوشیدہ رہنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی۔ لیکن بائیں جانب کا حصہ جدھر پہاڑی ٹیلہ تھا ،کھلا ہوا تھا، اس لیے وسیم نے جھاڑیوں کے پیچھے ریت کو کھود کر اتنا نشیب کرلیا کہ اس میں وہ چھپ سکے۔ جھاڑیوں کے درمیان سے مکان صاف نظر آرہا تھا، اس لیے تورک پر نظر رکھنا آسان تھا۔ وہ اپنے کام سے فارغ ہوا ہی تھا کہ سورج نکل آیا۔
حسب معمول تورک بڑے محتاط انداز میں مکان کے اندر داخل ہوا۔ کچن میں جا کر اس نے دیکھا کہ خط غائب ہے تو وہ فاتحانہ انداز میں مسکرایا، پھر اس نے وہیں بیٹھ کر ناشتہ کیا۔ اُسے اتنے اطمینان سے ناشتہ کرتے دیکھ کر وسیم اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ وہ محتاط تھا۔ بار بار اس کی نظریں گرد و پیش کا جائزہ لے رہی تھیں۔ دریچے سے جب بھی وہ جھاڑیوں کی سمت دیکھتا، اس کا دل اچھلنے لگتا۔ ایسا محسوس ہوتا جیسے اس نے اسے دیکھ لیا ہو۔
ناشتے کے بعد تورک سگریٹ کے کش لیتا ہو مکان سے باہر نکلا۔ اس کی نظریں بار بار ٹیلے کی سمت اٹھ رہی تھیں۔ سورج اب پوری آب و تاب سے چمکنے لگا تھا اور وسیم دھڑکتے دل کے ساتھ یاسمین کا منتظر تھا۔ پھر یہی وہ لمحہ تھا جب یاسمین کی چیخ فضا میں گونجی۔ وہ ڈھلوان پر بھاگتی ہوئی چلی آرہی تھی۔ پھٹے ہوئے
لباس، گرد آلود چہرے اور خشک لبوں نے اس کی حالت قابل رحم بنا دی تھی۔ تورک نے پھرتی سے پستول نکال لیا اور آہستہ آہستہ وہ یاسمین کی طرح بڑھنے لگا۔ یاسمین کے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔
’’پلیز… ہیلپ، واٹر… ہیلپ…‘‘ وہ خوابیدہ سے انداز میں چلّا رہی تھی۔ ’’مم… میں نے… میں نے… اسے پتھر مار کر زخمی کر دیا ہے اور … بھاگ آئی… پتا نہیں زندہ ہے یا… مر گیا ہے۔ ہیلپ می… پلیز۔‘‘ اس کے رخساروں پر آنسو بہہ رہے تھے، پھر وہ گرم ریت پر گر پڑی اور رحم طلب نظروں سے تورک کو دیکھنے لگی۔
یاسمین، وسیم کے اتنے قریب آچکی تھی کہ اس کے ہانپنے کی آواز اسے صاف آرہی تھی۔ وہ قریب ہی گھات لگائے بیٹھا تھا۔ یاسمین نے غضب کی اداکاری کی تھی۔ تورک کبھی اسے دیکھتا، کبھی ٹیلے کی بلندی کو، وہ آہستہ آہستہ یاسمین کی سمت بڑھ رہا تھا۔ اس کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا جیسے اسے یقین آچکا ہوکہ یاسمین اب اس کے قبضے میں تھی۔
منصوبے کے مطابق یاسمین گھسٹتی ہوئی قریب آتی جارہی تھی۔ وسیم نے جھاڑیوں کی آڑ لیتے ہوئے آگے کی جانب دھیرے دھیرے سرکنا شروع کردیا تھا۔ تاہم تورک کا شک ابھی باقی تھا۔ پستول ہاتھ میں ہونے کے باوجود وہ بار بار ٹیلے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ اب وسیم کے اتنے قریب آگیا تھا کہ اگر وہ جھاڑیوں کی سمت بھی دیکھ لیتا تو وسیم اسے نظر آجاتا۔ وسیم کا برا حال تھا، ذرا سی غفلت اُسے اور یاسمین کو موت کے منہ میں پہنچا سکتی تھی۔ یاسمین کراہتے ہوئے مسلسل پانی… پانی کی رَٹ لگائے ہوئے تھی۔ اس کے سوکھے ہونٹ پیاس کی شدت کی گواہی دے رہے تھے۔
وسیم نے چاقو کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور جست لگانے کے لیے تیار ہوگیا۔ تورک اب اس سے صرف دس فٹ کے فاصلے پر تھا۔ پھر اچانک ہی تورک کو اپنی قریب کسی گڑ بڑ کا احساس ہوا اور اس نے اپنی گردن گھمانی چاہی تو یاسمین اتنی زور سے چیخی کہ تورک اچھل پڑا اور قدرے گھبرا کر یاسمین کو دیکھنے لگا۔ اس مرتبہ یاسمین کی آواز کا خوف مصنوعی نہ تھا اور وسیم اب مزید انتظار نہیں کرسکتا تھا۔ تورک کو شایداس کی چھٹی حس نے خبردار کر دیا تھا کیونکہ اس نے پھرتی سے اپنی گردن وسیم کی جانب گھمائی تو وسیم نے مٹھی میں بھری ہوئی ریت اس کے چہرے پر پھینک دی اور فوراً ہی اس پر چھلانگ لگا دی۔
تورک کی آنکھیں بیکار ہو چکی تھیں لیکن اس نے اندازے سے دو فائر کردیئے۔ یاسمین نے دہشت زدہ ہو کر چیخ ماری۔ اتنی دیر میں چاقو تورک کے سینے میں پیوست ہوچکا تھا۔ پھر وسیم نے اس کے پستول والے ہاتھ پر ضرب لگائی، پستول دور جاگرا اور تورک کسی کٹے ہوئے درخت کی طرح منہ کے بل ریت پر گرا۔
وسیم نے آگے بڑھنا چاہا لیکن اس کے پیر جیسے بے جان ہو گئے تھے۔ کوشش کے باوجود وہ توازن برقرار نہ رکھ سکا اور وہیں نڈھال سا ہو کر بیٹھ گیا۔ تب ہی اس کی نظر اپنی پینٹ پر پڑی جو خون سے تر ہو رہی تھی۔ وسیم کا دل بیٹھنے لگا اور دوسری طرف یاسمین لرزہ خیر چیخ مار کر اس کی سمت بڑھی۔ ’’اوہ… میرے خدا، تمہیں کیا ہوگیا وسیم…‘‘ اس نے وسیم کو سہارا دیتے ہوئے کہا۔ اس کے چہرے پر تشویش اور دُکھ کی جھلکیاں نمایاں تھیں۔
وسیم نے گھوم کر دیکھا۔ گولی اس کی ران کو چیرتی ہوئی نکل گئی تھی۔ اسے بھوک اور نقاہت سے چکر آرہا تھا۔ ران کی تکلیف اپنی جگہ تھی۔ تاہم اس نے بہ مشکل سنبھلتے ہوئے یاسمین سے کہا۔ ’’ہوش میں آئو یاسمین! میں بالکل ٹھیک ہوں، تم جلدی سے اندر جا کر پانی لے آئو۔‘‘
وہ بھاگتی ہوئی مکان کے اندر گئی اور پانی سے بھرا ہوا تھرماس لے کر واپس لوٹی۔ پانی حلق سے اترتے ہی جیسے وسیم کی جان میں جان آئی۔ اس نے اپنے زخم کا جائزہ لیا۔ یاسمین نے اس پر پانی ڈالا۔ زخم کاری نہ تھا، گولی گوشت کو چیرتی ہوئی نکل گئی تھی۔ اس نے مسکراتے ہوئے یاسمین کی طرف دیکھا اور بولا۔ ’’معمولی سی خراش ہے، پٹی باندھتے ہی خون رک جائے گا۔‘‘
یاسمین کے رخسار ابھی تک آنسوئوں سے تر تھے۔ ’’مم… میں… میں سمجھی تھی کہ اس نے تمہیں…‘‘
’’پگلی! میں نے تم سے کہا تھا، اب تمہارے لیے زندہ رہوں گا۔‘‘ وسیم نے اس کے شانے کا سہارا لے کر اٹھتے ہوئے کہا۔
’’میں زندگی میں کبھی اتنی خوف زدہ نہیں ہوئی۔‘‘
’’میں جانتا ہوں۔‘‘ وسیم نے کہا۔ ’’تم اگر بروقت نہ چلّائی ہوتیں تو ممکن تھا وہ شیطان کامیاب ہو جاتا۔‘‘
مکان میں پہنچ کر
یاسمین نے زخم کو صاف کر کے پٹی باندھ دی۔ خون رک چکا تھا۔ تکلیف بھی کم ہوتی جارہی تھی۔ دونوں نے پہلے ناشتہ کیا اور پانی سے اپنے خشک حلق کو تر کیا۔ اس کے بعد بوٹ سے سارا سامان اتار لائے، اسٹور میں کدال مل گئی۔ دل نہ چاہنے کے باوجود وسیم نے تورک کی لاش دفن کی اور واپس پہنچا تو یاسمین کھانا تیار کر چکی تھی۔ وسیم نے ریت میں پوشیدہ پرزے نکال کر پمپ میں دوبارہ فٹ کیے اور جنریٹر چلا کر ٹینک میں پانی بھرا اور پھر اچھی طرح غسل کر کے تازہ دم ہوگیا۔ یاسمین نے بھی غسل کر کے لباس تبدیل کیا اور مسکراتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔
’’کھانے کا اسٹاک کتنا ہے؟‘‘ وسیم نے کھانے کے دوران پوچھا۔
’’ہم ایک ہفتہ آرام سے گزار سکتے ہیں۔‘‘ یاسمین نے جواب دیا۔ ’’لیکن میں یہاں زیادہ دن گزارنے کے موڈ میں نہیں ہوں۔‘‘
’’ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟ موٹر بوٹ پر سمندر پار کرنا ممکن نہیں، طیارہ موجود ضرور ہے مگر پائلٹ کہاں سے آئے گا؟‘‘
’’تم فلائنگ نہیں جانتے ہو ، کیا ہوا، میں توٹرینڈ پائلٹ ہوں۔‘‘ یاسمین نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’ارے… واقعی؟‘‘ وسیم کو حیرت ہوئی۔ ’’میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم ایک پائلٹ ہو۔‘‘
’’سیکریٹ سروس سے تعلق رکھنے والی ہر لڑکی پائلٹ ہوتی ہے۔ ہمیں تعلیم کے ساتھ مکمل فوجی تربیت دی جاتی ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’لیکن آج ہم جی بھر کے آرام کریں گے۔ صبح میں طیارے کو چیک کر کے دیکھوں گی، خدا کرے اس کے انجن کو خراب نہ کیا گیا ہو۔ ہم کل اس ویرانے سے نکل چلیں گے۔‘‘
’’اسے ویرانہ نہ کہو یاسمین… یہیں ہماری محبت کے پھول کھِلے ہیں۔‘‘ وسیم نے محبت پاش نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’تم محبت میں شاعر ہوتے جارہے ہو۔‘‘ یاسمین ہنس کو بولی۔
’’دیوانہ کیوں نہ کہہ دیا۔‘‘ وسیم محبت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔
اس کے بعد وہ دونوں ایسے بے خبر سوئے کہ صبح دن چڑھے ہی بیدار ہوئے۔ یاسمین نے طیارے کا انجن چیک کیا۔ ریڈیو کے علاوہ ہر چیز ٹھیک تھی۔ یہ محض اتفاق تھا کہ تورک کو نہیں معلوم تھا کہ یاسمین ہوابازی کا تجربہ بھی رکھتی ہے۔ ورنہ شاید وہ اسے پہلے ہی ٹھکانے لگا دیتا۔ انہیں کچھ پتا نہ تھا کہ یہ جزیرہ کہاں واقع تھا اور ان لوگوں کو کس سمت پرواز کرنا تھا؟ یاسمین نے کہا کہ وہ نیچی پرواز کریں گے اور جہاں بھی آبادی نظر آئی وہاں اتر جائیں گے کیونکہ طیارے میں ایندھن زیادہ نہیں تھا۔
طیارہ فضا میں بلند ہوا تو وسیم نے اطمینان کا سانس لیا۔ انہوں نے جزیرے کا ایک چکر کاٹا۔ یاسمین واقعی تجربہ کار ہواباز ثابت ہوئی۔
مشکل سے آدھ گھنٹے کی پرواز کے بعد یاسمین نے اچانک کہا۔ ’’وہ دیکھو… شاید کوئی آبادی نظر آرہی ہے، بندر گاہ لگتی ہے۔‘‘
’’ہاں… لیکن کون سی بندرگاہ اور کس ملک کی؟‘‘
’’ابھی معلوم ہو جائے گا۔‘‘ یاسمین نے طیارے کا رخ موڑتے ہوئے کہا۔
طیارے کو ساحل پر اترتے دیکھ کر لوگ بھاگتے ہوئے کنارے پر جمع ہوگئے۔ ساحل پر کشتیاں، موٹر بوٹ اور اسٹیمر لنگر انداز تھے، اس لیے یاسمین نے کچھ فاصلے پر طیارہ اتارا لیکن فوراً ہی کئی کشتیاں ان کے قریب پہنچ گئیں۔ یہ دونوں ساحل پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ خلیج فارس کی بندرگاہ فائو ہے جو شط العرب کے دہانے پر واقع ہے، انہیں یہ جان کر خوشی ہوئی کیونکہ یہاں سے ان کا ملک قریب تھا۔
’’کیا اتنا ایندھن ہے کہ ہم اپنے ملک پہنچ سکیں؟‘‘ وسیم نے پوچھا۔
’’ہاں میرا خیال ہے کہ پہنچ جائیں گے۔‘‘ یاسمین نے جواب دیا۔
فائو سے انہیں اپنے ملک سے ایک قریبی شہر تک پہنچنے میں دیر نہیں لگی۔ طیارے کو ساحل پر چھوڑ کر یہ دونوں بندرگاہ کی سمت بڑھے۔ تیل کا سب سے بڑا مرکز اور بحریہ کا اڈا ہونے کی وجہ سے انہیں اپنا طیارہ دور لنگر انداز کرنا پڑا لیکن ان کے ’’سی پلین‘‘ نما طیارے نے فوری توجہ حاصل کر لی تھی۔ ساحل پر پہنچتے ہی پولیس نے انہیں روک لیا۔ یاسمین نے انہیں کچھ بتانے کے بجائے عربی میں کہا کہ ہمیں فوراً پبلک سیکورٹی ڈپارٹمنٹ کے میجر ادریس کے پاس پہنچا دیا جائے۔ میجر کا نام سنتے ہی پولیس والوں کا لہجہ بدل گیا۔ انہوں نے العشر کے علاقے سے ٹیکسی لی اور پولیس کے ایک افسر کے ساتھ میجر ادریس کے دفتر پہنچ گئے۔
میجر ادریس یاسمین کو پہچانتا تھا۔ اس نے پرتپاک انداز میں خیرمقدم کیا تھا۔ یاسمین نے اس
کہ وہ جمیل عمر سے فوراً رابطہ کرنا چاہتی ہے۔ میجر نے اپنے فون سے جمیل کا نمبر ملایا اور ریسیور یاسمین کو دے کر خود کمرے سے باہر چلا گیا۔ یاسمین نے ایک نگاہ مسکراتے ہوئے وسیم کی طرف دیکھا اور اشارہ کیا تو وہ بھی اٹھ کر باہر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد یاسمین نے میجر کو بلایا اور پھر باہر آگئی۔
’’برا تو نہیں مانا؟‘‘ یاسمین نے باہر آکر ایک طرف کھڑے وسیم سے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔ ’’دراصل میں نہیں چاہتی تھی کہ میجر ادریس کو اندازہ ہو کہ تم کون ہو۔‘‘
’’’میں سمجھ گیا تھا۔‘‘ وسیم نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’تم بتائو، جمیل صاحب نے کیا کہا؟‘‘
’’انہوں نے ہدایت کی ہے کہ ہم ابھی یہیں قیام کریں تاکہ ہماری واپسی کی کسی کو خبر نہ ہو۔‘‘ اس نے بتایا۔ ’’ویسے ان کا خیال ہے کہ تورک کے آدمیوں کو اطلاع ہو جائے گی۔‘‘
’’وہ کس طرح؟ اب بھلا ان میں کون باقی بچا ہے؟‘‘
’’تم کیا سمجھتے ہو کہ وہ صرف چند افراد پر مشتمل گروہ تھا؟ نہیں وسیم! تورک خود کسی کی ہدایت پر کام کر رہا تھا۔ اس خطرناک گروہ کا سرغنہ کوئی اور ہے۔ ان کے آدمیوں کا جال ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔ ویسے انکل (جمیل عمر) نے فوری طور پر اس جزیرے کی تلاش میں آدمی روانہ کر دیئے ہیں، لیکن وہ چاہتے ہیں کہ ہم ابھی غازی آباد نہ آئیں۔‘‘
’’کچھ میرا ذکر بھی آیا؟‘‘
’’ہاں ان کے خیال کے مطابق تم بہت حیرت انگیز اور دلیر آدمی ہو، بقیہ تعریف تم خود ان کے منہ سے سن لینا۔ وہ شام کو تم سے بات کریں گے۔‘‘ یاسمین نے شوخ مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور آگے بولی۔ ’’اور ہاں! فی الحال تم ڈاکٹر نصیر شاہ ہی رہو گے۔‘‘
’’اچھی زبردستی ہے۔‘‘ وسیم نے کہا۔ ’’میں آج ان سے دو ٹوک بات کروں گا۔‘‘
’’کیوں؟ تم چاہو تو میں ان سے کہہ دوں کہ تمہیں مزید زحمت نہ دیں۔‘‘ یاسمین نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے گہری متانت سے کہا۔
’’میں بہرحال انہیں زحمت دوں گا… اور مجھے صرف اپنی نہیں، تمہاری بھی بات کرنا ہے۔‘‘
’’میری بات؟‘‘ یاسمین نے حیران ہو کر کہا۔
’’ہاں تمہاری بھی۔ میں اب جلد از جلد فیصلہ چاہتا ہوں۔‘‘
’’کیسا فیصلہ؟ تم کچھ بتائو تو سہی؟‘‘
’’تمہیں ہمیشہ کے لیے اپنانے کا فیصلہ۔‘‘ وسیم نے آہستہ سے کہا۔
کچھ کہنے کے لیے اس نے منہ کھولا لیکن میجر ادریس نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’مس یاسمین! آپ نے ڈاکٹر نصیر شاہ سے تعارف نہ کروا کے زیادتی کی۔‘‘ اس نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ نمودار ہو کر وسیم سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں تو آپ کو اپنا مہمان رکھنے کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں لیکن حکم یہ ہے کہ آپ کو ہوٹل میں ٹھہرایا جائے، آپ کے لیے ہوٹل شط العرب میں انتظام کردیا گیا ہے۔‘‘
انہیں ایک کار بھی فراہم کردی گئی تھی۔ ہوٹل جانے سے پہلے انہوں نے شاپنگ کی۔ کپڑوں کے علاوہ ضرورت کی دوسری چیزیں خرید کر وہ ہوٹل پہنچے۔ ان کا ہوٹل ساحل کے قریب ایک پُرسکون جگہ پر واقع تھا۔ ہر سمت پھیلے ہوئے خوبصورت باغ اور ان کے درمیان بنے ہوٹل میں انہیں جو کمرے ملے وہ ساحل کے قریب تھے۔ ان کمروں کے درمیان دروازہ تھا۔ اس لیے ان دونوں کو ایک دوسرے سے رابطے کی آسانی میسر تھی۔ کھانا کھانے کے بعد دونوں آرام کرنے لیٹ گئے۔
٭…٭…٭
شام کو یہ لوگ بیدار ہوئے تو تازہ دم تھے۔ کافی پی کر بیٹھے ہی تھے کہ فون کی گھنٹی بجی، وسیم نے ریسیور اٹھایا تو جمیل عمر کی آواز ابھری۔ ’’ہیلو ڈاکٹر! کیا حال ہیں؟‘‘
’’ٹھیک ہوں۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’کیا حکم ہے؟‘‘
’’میں بھلا ڈاکٹر نصیر شاہ کو کیا حکم دے سکتا ہوں؟‘‘ وہ ہنستے ہوئے بولا۔ ’’ویسے کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا؟ کسی نے تعاقب تو نہیں کیا؟‘‘
’’جی… میرا خیال ہے کہ نہیں، ہم شہر میں دیر تک گھومتے رہے تھے، کیا کوئی خاص بات؟‘‘
’’ہمارے کچھ دوست، جو زیر نگرانی تھے، اچانک غازی آباد روانہ ہوگئے ہیں، اس لیے گڑبڑ کا امکان ہے۔‘‘ جمیل نے بتایا۔ ’’ذرا محتاط رہنا اور یاسمین کا خیال رکھنا، تم نے جس طرح اس کی حفاظت کی ہے، میں اس کے لیے ذاتی طور پر تمہارا ممنون ہوں، وہ بھی تمہاری بہت تعریف کر رہی تھی۔ـ‘‘
’’آپ اطمینان رکھیے، میں اپنی جان سے زیادہ اس کی حفاظت کروں گا۔‘‘
پھر چند ثانیے کی خاموشی کے بعد دوسری طرف سے جمیل عمر نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے یاسمین کی باتوں سے پہلے ہی شبہ
ہوگیا تھا۔‘‘
’’جی…؟‘‘
’’کچھ نہیں… ادریس نے تمہیں حفاظت سے پہنچا دیا تھا؟‘‘
’’جی ہاں! ویسے ہم دونوں مسلح ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے، لیکن محتاط اور چوکنا رہنا، میں دوبارہ فون کروں گا۔‘‘
ڈنر کے بعد دونوں لان میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ وسیم نے یاسمین سے جمیل کا ذکر کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’تم نے ان سے کیا کہہ دیا تھا؟‘‘
’’کچھ بھی نہیں۔‘‘ اس نے جلدی سے کہا۔ ’’بس تمہاری تعریف شاید کچھ زیادہ کردی تھی۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ وہ راضی ہو جائیں گے۔‘‘ وسیم نے کہا۔
’’افوہ… تمہیں اس کے علاوہ اور کوئی فکر نہیں؟‘‘
’’نہیں، کیونکہ اس فکر کے علاوہ کسی اور فکر میں لطف نہیں۔‘‘ وسیم بولا۔ ’’میں چاہتا ہوں…‘‘
’’ہشت…‘‘ یاسمین نے اسے خبردار کیا۔
پھولوں کی گھنی جھاڑیوں کے پیچھے سے اچانک ایک سانولے رنگ کا پستہ قد آدمی نمودار ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں پر سیاہ شیشے کا چشمہ تھا اور سر پر رکھا فیلٹ ہیٹ آگے کی طرف اس طرح جھکا ہوا تھا کہ چہرہ پہچاننا دشوار تھا۔ وہ سیدھا ان کی میز کی طرف آیا۔
’’ڈاکٹر شاہ…!‘‘
’’کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’آپ کے صرف چند منٹ۔‘‘ وہ کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔ ’’میری بات سننے میں آپ کا فائدہ ہے۔‘‘
’’وہ تو تمہاری آمد کے پُراسرار انداز سے ہی ظاہر ہے۔‘‘ وسیم نے کہا۔ ’’لیکن پہلے ایک بات میری سن لو۔ تم میرے پستول کی زد میں ہو اور میں فائر کرنے میں بالکل پس و پیش سے کام نہیں لوں گا۔‘‘
’’ڈاکٹر! سچ پوچھئے تو میں آپ سے معافی مانگنے آیا ہوں۔ ہمارے چند آدمیوں کی احمقانہ حرکت سے آپ کو بڑی زحمت اٹھانا پڑی۔ میں اس کی تلافی کے لیے ہر طرح سے تیار ہوں۔‘‘
’’واقعی؟ تو پھر مہربانی کرکے ہمیں بور نہ کرو اور خاموشی سے چلے جائو۔‘‘
’’نہیں ڈاکٹر! اتنی زیادتی نہ کیجئے، ہم اپنے آدمیوں کو ان کی حماقت کی سخت سزادیں گے، لیکن مشکل یہ ہے کہ وہ لاپتا ہوگئے ہیں۔ آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ کہاں ہیں؟‘‘
’’پتا نہیں تم کیا کہہ رہے ہو؟ بھلا مجھے کیا معلوم کہ وہ کہاں ہیں؟‘‘ وسیم نے بڑی بے نیازی سے کہا۔ پھر وہ یاسمین سے مخاطب ہوکر بولا۔ ’’آئو یاسمین! چلیں، مجھے نیند آرہی ہے۔‘‘
’’جانے سے پہلے اتنا سن لیجئے ڈاکٹر! سونے کی بجائے زندگی سے لطف اندوز ہوتے ر ہیے، کیا پتا کون سا لمحہ آخری ہو…‘‘ وہ تنبیہی انداز میں کہتا ہوا پلٹا اور تاریکی میں غائب ہوگیا۔ یاسمین پریشان نظرآرہی تھی۔ دونوں اپنے کمروں میں واپس پہنچے۔ وسیم لباس تبدیل کرنے کا ارادہ کررہا تھا کہ یاسمین نے آواز دی۔ ’’وسیم! ذرا یہاں آنا…‘‘
وسیم تیزی سے اس کے کمرے میں داخل ہوا اور درمیانی دروازہ بند کردیا۔ وہ اپنے سامان کے پاس کھڑی تھی۔ بولی۔ ’’کسی نے ہمارے کمرے کی تلاشی لی ہے۔ میری چیزیں بے ترتیب ہیں، ایسا لگتا ہے کہ …‘‘ اس کا جملہ ادھورا رہ گیا۔
اچانک شیشہ ٹوٹنے کی آواز ابھری۔ دونوں ہی بری طرح ٹھٹھک گئے۔ آواز وسیم کے کمرے سے آئی تھی، پھر کوئی چیز زوردار دھماکے سے اندر گری۔
’’لیٹ جائو۔‘‘ وسیم، یاسمین کو گھسیٹتے ہوئے فرش پرگرا۔
اگلے ہی لمحے اتنے زور کا دھماکا ہوا کہ پوری عمارت لرز گئی۔ ان کے کمروں کا درمیانی دروازہ ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گیا اور ہر سمت بارود کی بو اور دھواں پھیل گیا۔ وسیم نے یاسمین کا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا۔ ’’یہاں سے فوراً باہر نکل چلو۔‘‘
’’ٹھہرو… ممکن ہے باہر نکلنا اس سے بھی زیادہ خطرناک ہو۔‘‘ یاسمین نے اسے روکا۔ اس کا خدشہ سچ نکلا کیونکہ اگلے ہی لمحے گولیاں چلنے کی آواز سے فضا گونج اٹھی اور کسی نے زور زور سے یاسمین کے دروازے پر دستک دی۔
’’مس یاسمین! آپ خیریت سے تو ہیں ؟‘‘
’’کون ہو تم؟‘‘
’’میں ہوں حبیب، جمیل عمر کے حکم پر آیا ہوں۔‘‘
’’اوہ…تم۔‘‘ یاسمین نے غالباً اسے پہچانتے ہوئے کہا اور دروازہ کھول کر باہر آگئی۔ وسیم نے بھی اس کی تقلید کی۔ تب ہی حبیب کی نظریں وسیم پر پڑیں اور بولا۔ ’’آپ بخیریت ہیں ڈاکٹر! میں سمجھا تھا کہ خدانخواستہ… آپ واقعی خوش قسمت ہیں۔‘‘
’’میں خدانخواستہ نہیں بلکہ …واقعی خوش قسمت ہوں۔‘‘ وسیم نے یاسمین کی طرف دیکھ کر کہا جو حبیب کی بوکھلاہٹ پر مسکرارہی تھی۔
باہر سے خوف زدہ لوگوں کی چیخ و پکار سنائی دے رہی تھی۔ باہر نکلتے ہی حبیب نے کہا۔ ’’تگرس روڈ پر ہوٹل برسٹن ہے، آپ دونوں
قیام کیجئے، میں یہاں سے فارغ ہو کر وہاں آجائوں گا، جلدی کیجئے۔‘‘
٭…٭…٭
ہوٹل برسٹن میں انہیں آئے دو گھنٹے گزر چکے تھے لیکن حبیب اب تک نہیںآیا تھا۔ وسیم نے جیب سے سگریٹ نکالااور پھر جھنجھلا کر رکھ دیا۔ اس کا لائٹر ہوٹل شط العرب کے تباہ شدہ کمرے میں رہ گیا تھا۔وہ زیادہ قیمتی نہیں تھا لیکن کسی کا تحفہ تھا، اس لیے بار بار غصہ آرہا تھا۔ یاسمین اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ میز سے ماچس اٹھا کر اس نے اس کی سگریٹ سلگادی اور پھر مسکراتے ہوئے بولی ۔’’تم سگریٹ پینا چھوڑ نہیں سکتے؟‘‘
’’کیا شادی کے لیے یہ بھی شرط ہے؟‘‘
’’توبہ ہے… تم پر ہر وقت شادی کا بھوت کیوں سوار رہتا ہے؟‘‘
’’میں کنوارا نہیں مرنا چاہتا یاسمین۔‘‘
’’خدا نہ کرے… ایسی باتیں کرکے مجھے ڈرایا نہ کرو۔‘‘
وسیم بے ساختہ ہنس دیا۔ ’’چلو، وعدہ…آئندہ مرنے کی نہیں، جینے کی باتیں کروں گا۔‘‘
دونوںہنسنے لگے۔ اسی وقت حبیب آگیا۔ ’’ایک گلاس پانی اور گرم گرم کافی پلا دیجئے۔‘‘ اس نے کرسی پر گرتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کا سامان میری کار کی ڈکی میں ہے۔ ابھی منگواتا ہوں۔‘‘ اس نے یاسمین سے کہا اور پھر وسیم کی سمت مڑا۔ ’’مجھے افسوس ہے ڈاکٹر! آپ کا سارا سامان تباہ ہوگیا، سوائے اس کے …‘‘ اس نے جیب سے پروفیسر زیبی کا لائٹر نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔
’’اوہ… بہت بہت شکریہ۔‘‘ وسیم نے خوش ہو کر کہا۔
کافی آگئی۔ حبیب دراز قد، خوش شکل اور خوش مزاج آدمی تھا۔ اس نے دھماکے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔ ’’میں جمیل عمر کی ہدایت پر تم دونوں کی نگرانی کررہا تھا۔ تمہیں اس لیے نہیں بتایا کہ مطمئن ہو کر لاپروا ہوجائوگے۔ میں نے اس پستہ قد شخص کو تم سے بات کرکے جاتے دیکھا تھا۔ ہم اسے واکر کے نام سے جانتے ہیں۔ بلاشبہ اسی کے آدمیوں نے تمہارے کمرے میں گرنیڈ پھینکا تھا۔ میں نے جمیل عمر کو سب بتا دیا ہے اور انہی کی ہدایت پر اب میں تم دونوں کے قریب رہوںگا۔‘‘
’’یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔‘‘ یاسمین نے خوش ہو کر کہا۔
’’لیکن اب ہمارے لیے کیا حکم ہے؟‘‘ وسیم نے پوچھا۔
’’جمیل عمر نے ہدایت کی ہے کہ تمہیں سب کچھ بتادوں۔‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا۔ ’’اور اگر اس کے بعد تم علیحدہ ہونا چاہو تو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ تم ہماری خاطر پہلے ہی بہت خطرات مول لے چکے ہو اور ہم اس کے لیے تمہارے بے حد شکر گزار ہیں۔‘‘
’’فیصلہ کرنے سے پہلے میں حقیقت جاننا پسند کروں گا۔‘‘ وسیم نے کہا۔
’’حقیقت بڑی مختصر ہے۔‘‘ حبیب بتانے لگا۔ ’’ان میں سے تو بیشتر باتیں تمہیں بتائی بھی جاچکی ہیں۔ مزید یہ ہے کہ… ہماری اطلاعات کے مطابق بعض ممالک نہیں چاہتے ہیں کہ تمہارا ملک ایٹمی طاقت بن سکے۔ ان میں یہودی پیش پیش ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ تو رک کسی اور ملک کے لیے کام کررہا تھا، لیکن پھر اس نے سوچا کہ اگر پروفیسر زیبی کا فارمولا اس کے ہاتھ لگ جائے تو وہ اپنی پسند کا سودا کرسکے گا۔ تمہارے اغوا کا یہی مقصد تھا لیکن وہ جن لوگوں کے لیے کام کررہا تھا، وہ اس کی گمشدگی پر پریشان ہیں اور برہم بھی… اس لیے کہ انہیں یہ پتا نہیں کہ فارمولا حاصل کرنے میں کامیاب ہوا یا نہیں۔ وہ ہر قیمت پر تمہیں یعنی ڈاکٹر نصیر شاہ کو راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں یا پھر قابو کرنا چاہتے ہیں۔ واکر کا تعلق جس گروہ سے ہے، اس کا ایک فرد ایک غیر ملکی سفارت خانے میں ملازم ہے، جس سے ہمارے تعلقات کشیدہ ہیں۔ ہم ابھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ سفارتی عملے کا اس سازش سے تعلق ہے یا نہیں،کیونکہ بورن سفارتی عملے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ وہ سویلین ملازم ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ ان لوگوں کو ڈاکٹر نصیر شاہ سے اتنی دلچسپی کیوں ہے۔ پروفیسر زیبی نے انہیں کچھ نہیں بتایا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اب انہیں بھی اس بات کا یقین ہوچکا ہے، اسی لیے وہ اسے ہلاک کر دینا چاہتے ہیں۔‘‘
‘‘پھر تم ان لوگوں کو گرفتار کیوں نہیں کر لیتے؟‘‘ وسیم نے پوچھا۔
’’یہ بہت آسان کام ہے لیکن پھر یہ کام کسی اور کے سپرد کر دیا جائے گا جسے ہم جانتے بھی نہ ہوں گے جس کی نگرانی بھی ہم نہ کر سکیں گے، اس لیے ممکن ہے کہ وہ کامیاب ہو جائے۔‘‘
’’تو گویا میں ان کے لیے قربانی کا بکرا ہوں۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ حبیب نے تسلیم کر لیا۔ ’’اسی لئے تم فیصلہ کرنے میں آزاد ہو۔ جب چاہو اپنی اصل شخصیت اختیار کر سکتے ہو، ہم تمہیں اپنی
اس طرح خطرے میں ڈالنے پر مجبور نہیں کریں گے۔‘‘ اس نے اٹھتے ہوئے کہا ۔ ’’صبح ہم طیارے سے جتانیہ چلیں گے اور وہاں سے کار پر تمہارے ملک کا سفر کریں گے۔ ‘‘
اس کے جانے کے بعد یاسمین نے سوالیہ نگاہوں سے وسیم کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’ تم نے پھر کیا سوچا ہے وسیم؟‘‘
’’تم جانتی ہو میرا فیصلہ کیا ہو گا یاسمین ۔‘‘ وسیم نے اس کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا ۔ ’’میں تمہیں اور جمیل عمر کو مایوس نہیں کرسکتا۔‘‘
٭…٭…٭
وسیم اور یاسمین صبح سویرے روانہ ہوئے تھے۔ جتانیہ کے ہوائی اڈے کے باہر کا ر موجود تھی۔ یہاں سے ان کی منزل تک کا سفر طویل نہ تھا۔ وہ براہ راست طیارے سے بھی سفر کر سکتے تھے، لیکن جمیل عمر نے کسی مصلحت کے تحت یہ انتظام کیا ہو گا۔ حبیب نے ضد کر کے خود ڈرائیو کرنے کا فیصلہ کیا۔ روڈ پر ٹریفک زیادہ نہ تھا۔ وہ آرام سے سفر کرتے رہے۔ ان کی منزل سے کچھ دور پہلے ایک چھوٹی سی پہاڑی تھی۔ وہ اس سے گزر کر ڈھلوان پر اتر رہے تھے۔ کچھ فاصلے پر ایک مختصر سی آبادی نظر آرہی تھی۔ سڑک کے ایک سمت پہاڑی تھی اور دوسری جانب نشیب۔ وسیم اگلی سیٹ پر حبیب کے برابر بیٹھا تھا۔ یاسمین پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ قصبے سے آنے والی سڑک سے اچانک ایک نیلے رنگ کی کار آتی نظر آئی۔ حبیب سنبھل کر بیٹھ گیا۔
کار موڑ سے گھوم کر ان کی سمت بڑھی۔ چند سو گز کا فاصلہ رہ گیا تو اچانک گھوم کر آڑی کھڑ ی ہو گئی۔ ایک شخص کود کر باہر نکلا اور اچھل کر کار کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ سڑک سے گزرنے کی راہ بند ہو چکی تھی۔حبیب نے چیخ کر کہا۔ ’’سیٹ سے نیچے بیٹھ جائو اور مضبوطی سے پکڑ لو۔‘‘
دونوں نے اس کی ہدایت پر فوری عمل کیا۔ کار کی آڑ میں کھڑے ہوئے شخص نے ٹامی گن سے انہیں زد میں لے لیا تھا۔ حبیب نے بریک لگانے کے بجائے کار کی رفتار تیز کر دی۔ وہ اچانک پھرتی سے نیچے جھکا اور دوسرے ہی لمحے گولیوں کی بوچھار سے ونڈ شیلڈ کے ٹوٹنے کی آواز آئی۔
حبیب نے اندازے سے اسٹیئرنگ کاٹا لیکن دوسرے ہی لمحہ کار ٹکرائی اور پھر یوں لگا جیسے وہ ہوا میں معلق ہو گئے ہوں۔ ٹکر کی آواز کے دوران وسیم کو ایک چیخ بھی سنائی دی تھی لیکن سب کچھ اتنی برق رفتاری سے ہوا کہ سمجھنے کا موقع نہ ملا، کیونکہ ان کی کار ایک دھماکے کے ساتھ گری اور پلٹ کر کھڑی ہو گئی۔ حبیب کے سر سے خون بہہ رہا تھا لیکن وہ پھرتی کے ساتھ دروازہ کھول کر نکلا۔ پستول اس کے ہاتھ میں تھا۔
وسیم نے یاسمین کو باہر نکلتے نہیں دیکھا۔اچانک فائر کی آواز فضا میں گونجی اور گولی کار کی باڈی سے ٹکرائی۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ اسی لمحے دو فائر اور ہوئے اور پھر اس کے کان کے پاس ایک فائر ہوا ۔حبیب نے چلاّ کر کہا۔ ’’شاباش، یاسمین تم نے اسے ڈھیر کر دیا۔‘‘
وسیم بری طرح پھنسا ہوا تھا۔ پچھلی سیٹ سرک کر اوپر آ گئی تھی۔ یاسمین نے خوف زدہ لہجے میں حبیب سے پوچھا۔ ’’وسیم! وہ زخمی تو نہیں ہوگیا ؟‘‘
’’نہیں …‘‘ وسیم چلّا کر بولا۔ ’’میں بالکل ٹھیک ہوں، مگر مجھے باہر تو نکالو۔‘‘
حبیب نے زور لگا کر سیٹ ہٹائی۔ یاسمین نے اس کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹا تو وہ کھڑکی کے ذریعے باہر نکلا، پھر وہ جیسے ہی کھڑا ہوا، اسی لمحے ایک گولی اس کے سر سے چند انچ کے فاصلے پر کار کی باڈی میں آ کر لگی۔ پھرتی کے ساتھ کار کی آڑ میں ہو کر بیٹھ گئے۔
’’غلطی میری ہے۔‘‘ حبیب نے غصے سے کہا۔ ’’میں یہ بھول گیا تھا کہ اس کا ساتھی بھی موجود ہو گا۔ وہ شاید پہاڑی پر ہماری کار کے آنے کا منتظر رہا ہوگا تاکہ بروقت اشارہ دے دے پہاڑی پر… اس ٹیلے کے پیچھے۔ ‘‘اس نے اشارہ کیا، پھر بولا۔ ’’فائر رائفل سے کیا گیا ہے۔ یاسمین! تم یہیں کار کی آڑ میں رہو اور تم وسیم میرے پیچھے آئو۔‘‘
دونوں آگے پیچھے رینگتے ہوئے بڑھنے لگے۔ سڑک بلندی پر تھی۔ پھر بھی یہ خطرہ تھا کہ پہاڑی پر چھپا ہوا حملہ آور انہیں دیکھ نہ لے۔ حبیب نے ذرا سی گردن اٹھائی، فوراً ہی ایک گولی سنسناتی ہوئی اس کے قریب سے گزر گئی۔ وسیم نے غصے سے دانت پیستے ہوئے کہا۔ ’’جمیل عمر کو اس مذاق کی کیا سوجھی تھی۔ ہم طیارے سے بھی اپنی منزل کی طرف جا سکتے تھے۔‘‘
’’اس طرح دشمن کو سامنے آنے کا موقع نہ ملتا۔ یہ اس بحث کا موقع نہیں، تم اس نشیب کی آڑ سے پہاڑی کے پیچھے پہنچو اور وہاں سے اوپر چڑھنے کی کوشش کرو، اس دوران میں اسے
الجھائے رکھوں گا۔‘‘
وسیم نے بحث نہیں کی۔ نشیب کی آڑ لیتا ہوا، رینگ کر تیزی سے آگے بڑھنے لگا۔ حبیب نے رک کر دو فائر کئے۔ جواب میں رائفل سے کئی گولیاں لپکیں۔ وسیم نے دیکھا کہ سڑک پر ٹریفک رک گیا تھا۔ آنے والی کاریں ڈھلوان کے اوپر رک گئی تھیں۔
وسیم بالآخر پہاڑی کے عقب میں پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ اسے اوپر پہنچنے میںکوئی دشواری نہیں ہوئی تھی۔ اس نے دیکھا کہ حملہ آور ایک چھوٹے سے ٹیلے کی آڑ میں پیٹ کے بل لیٹا فائر کر رہا تھا۔ آگے بڑھنے میں خطرہ یہ تھا کہ وہ کہیں قدموں کی چاپ نہ سن لے۔ لیکن وسیم کو بہرحال یہ خطرہ مول لینا تھا۔ ایک ایک قدم احتیاط سے رکھتا ہوا وہ آگے بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ فاصلہ اتنا رہ گیا کہ وہ پستول سے اس کی پشت پر فائر کر سکتا تھا۔ وہ ابھی پس و پیش میں تھا کہ اس کی چھٹی حس نے اسے خبردار کر دیا۔ وہ بلا کی پھرتی سے پلٹا اور فائر کیا لیکن چلائی ہوئی گولی اس کے سر سے بہت اوپر گزر گئی۔ اس کی دہشت زدہ آنکھوں نے وسیم کو دیکھا۔ رائفل کی نال نیچے ہوئی، لیکن وسیم نے فائر کر دیا۔ گولی اس کے سر کو توڑتی ہوئی نکل گئی۔ رائفل گرنے کی آواز آئی اور دوسرے ہی لمحے وہ بھی منہ کے بل گرا اور بے حس ہوگیا۔
وسیم نے کھڑے ہو کر حبیب کو آواز دی۔ وہ ہاتھ ہلاتا ہوا آگے بڑھا۔ اس کے نیچے پہنچنے سے پہلے ہی وہ بھاگتا ہوا آیا اور اس سے چمٹ گیا۔
’’تم …تم…واقعی دلیر ہو … میرے دوست۔‘‘ حبیب نے اسے بھینچتے ہوئے کہا۔
منزل تک جانے والی ایک کار میں لفٹ لے کر تینوں سیدھا جمیل عمر کے دفتر پہنچے۔ وہ بڑے غور سے حبیب کی رپورٹ سنتے رہے، پھر مسکرا کر وسیم کی سمت مڑے۔ ’’تم سے مجھے تفصیل سے ہر بات سننا ہے، کچھ دیر آرام کرو۔‘‘
’’نہیں، میں کچھ دیر نہیں، رات بھر آرام کرنے کے بعد ہی بات کر سکوں گا۔‘‘ وسیم نے کہا۔ ’’آپ کے تجربات نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے۔‘‘
وسیم کی بات سن کر انہوں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ ’’ٹھیک ہے، ہم کل صبح گفتگو کریں گے، لیکن آرام تم میرے فلیٹ میں کرو گے۔‘‘
٭…٭…٭
’’تورک کی تمہیں قتل کرنے کی کوشش، اس کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے۔ ’’جمیل عمر نے کہا۔ ’’لیکن بورن تم کو ہلاک کرنے کے درپے کیوں تھا؟‘‘ جمیل نے وسیم کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
یہ لوگ ناشتے کے بعد کافی پی رہے تھے۔ حبیب نے ان کو جواب دیا۔ ’’ممکن ہے بورن کو یہ علم نہ ہو کہ تورک مر چکا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بورن کو یہ ہدایت ملی ہو کہ اگر تورک ناکام ہو جائے تو وسیم … میرا مطلب ہے ڈاکٹر نصیر شاہ کو قتل کر دیا جائے۔‘‘
’’ممکن تو بہت کچھ ہے۔ حقیقت کیا ہے؟‘‘ انہوں نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’ڈاکٹر نصیر شاہ میں کیا خاص بات ہے؟ اس سے زیادہ اہم سائنس دان ہمارے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان کو یہ اندازہ ہو چکا ہے کہ پروفیسر زیبی نے اپنا فارمولا نصیر شاہ کو نہیں دیا ۔ میں جتنا غور کرتا ہوں تو ذہن الجھتا چلا جاتا ہے۔‘‘ پھر وہ اچانک مڑے اور مسکرائے۔’’ کوئی بات نہیں، میں یہ معمہ جلد حل کر لوں گا لیکن اس دوران تم اور یاسمین یہیں رہو گے۔ ہرگز فلیٹ سے باہر نہیں جائو گے، سمجھے۔‘‘ وسیم نے سر ہلا دیا۔ جمیل نے مزید کہا۔ ’’میں اب دفتر جا رہا ہوں، تمہیں کچھ اور تو نہیں کہنا؟‘‘
’’جی کہنا ہے ۔‘‘ وسیم نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ … مجھے یاسمین سے بے پناہ محبت ہے، میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’خدا کی پناہ وسیم! ادھر جان پر بنی ہوئی ہے اور تمہیں محبت سوجھ رہی ہے؟‘‘ جمیل عمر نے اتنے غصے میں کہا کہ وسیم بے چارہ سہم گیا لیکن پھر جمیل اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دیئے اور بولے۔ ’’سنو نوجوان! خدا نے مجھے بیٹی نہیں دی اور یاسمین کو میں بیٹی سے کم نہیں سمجھتا۔ میں بھی اس سے بے پناہ محبت کرتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ تم دونوں کیا چاہتے ہو۔ یاسمین کی ہر خواہش میری اپنی آرزو ہے لیکن اس بات کا بھلا یہ وقت کہاں؟‘‘
’’جی… جی۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن …‘‘
’’صبر… تھوڑا صبر کرو، صبر کرنا سیکھو، بہت کام آئے گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مسکراتے ہوئے نکل گئے۔
جمیل عمر کے جاتے ہی یاسمین کمرے میں داخل ہوئی، اس کا چہرہ خوشی سے گلنار ہو رہا تھا۔‘‘ یہ کیا بدتمیزی تھی؟ تم نے مجھ سے پوچھے بغیر کیوں ایسے بات کی؟‘‘
’’جی! ابھی تو آغازِ بدتمیزی ہوا ہے… آگے چل کر مزید بدتمیزیاں کرنی ہیں۔‘‘
وسیم نے کہا۔
اس کے بعد یہ دونوں آرام کرنے لیٹ گئے۔ سہ پہر کو جب وسیم بیدار ہوا تو یاسمین کا کہیں پتا نہیں تھا۔ ملازمہ کچن میں کافی تیار کر رہی تھی۔ وسیم نے اس سے پوچھا۔ ’’یہ یاسمین کہاں غائب ہو گئی؟‘‘
’’جی وہ تو دفتر چلی گئیں۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’دفتر سے فون آیا تھا کہ انہیں جمیل صاحب نے فوراً بلایا ہے۔‘‘
اس کی بات سن کر وسیم چونک پڑا ۔کیونکہ جمیل عمر نے انہیں سختی سے منع کیا تھا کہ فلیٹ نہ چھوڑیں۔
’’کتنی دیر ہوئی ہے اسے گئے؟‘‘
’’تقریباً دو بجے تھے۔‘‘
وسیم نے اس سے کچھ نہیں کہا۔ کمرے میں آکر فون ملایا۔ ذرا دیر بعد جمیل عمر کی آواز سنائی دی۔ ’’ہاں! کیا بات ہے فرزند؟‘‘
’’کیا یاسمین آپ کے پاس ہے؟‘‘
’’نہیں، کیا وہ فلیٹ میں نہیں ہے؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔ وسیم نے انہیںحقیقت بتائی۔ ’’میں بھی کتنا احمق ہوں۔‘‘ وہ غصے سے بڑبڑائے۔ ’’تم وہیں ٹھہرو، میں آ رہا ہوں۔‘‘
مشکل سے دس پندرہ منٹ بعد سخت پریشانی کے عالم میں اندر داخل ہوئے، ان کے پیچھے ایک اور شخص بھی تھا۔ ’’یہ مختار ہیں۔ فلیٹ کی نگرانی ان کے سپرد تھی۔‘‘ انہوں نے تعارف کراتے ہوئے کہا۔ ’’تم نے کس وقت یاسمین کو جاتے ہوئے دیکھا تھا مختار؟‘‘
’’جی دو بج کر دس منٹ ہوئے تھے۔ انہوں نے باہر نکل کرمجھے بتایا کہ آپ نے بلایا ہے، اس لیے وہ دہ دفتر جا رہی ہیں۔ ابھی وہ موڑ تک پہنچی تھیں کہ ایک نیلے رنگ کی مرسڈیز کار ان کے پاس آ کر رکی اور وہ اس میں بیٹھ گئیں۔ کار کا نمبر یہ ہے۔‘‘ اس نے ایک کاغذ ان کی سمت بڑھاتے ہوئے کہا۔
جمیل عمر نے جھپٹ کر فون کا ریسیور اٹھایا اور ایک نمبر ملا کر کہا۔ ’’صالحٖ! تم نے سفارتخانے کی نگرانی پر آدمی مامور کئے تھے۔ ان سے فوراً دریافت کرو کہ دو بجے کے بعد نیلے رنگ کی ایک مرسڈیز میں دو مرد اور ایک لڑکی سوارتھے، سفارت خانے کی عمارت میں داخل ہوئی تھی؟ کار کا نمبر یہ ہے۔‘‘ انہوں نے پڑھ کر بتایا، پھر ٹیلی فون رکھ کر بولے۔ ’’ٹھیک ہے مختار! تم اپنی ڈیوٹی پر جائو۔‘‘
ذرا دیر بعد فون کی گھنٹی بجی ۔انہوں نے لپک کر ریسیور اٹھایا۔ ’’جمیل عمر، ہاں صالح! ٹھیک ہے شکریہ۔ تم نگرانی پر مزید آدمی لگا دو فوراً، ٹھیک ہے، میںپھر بات کروں گا ۔‘‘ ریسیور رکھ کر وہ وسیم کی سمت مڑے، چہرے پر قدرے اطمینان جھلک رہا تھا۔
’’جب آپ کو معلوم ہے کہ یاسمین وہاں ہے تو انتظار کس بات کا ہے، عمارت پر چھاپہ کیوں نہیں مارتے؟‘‘ وسیم نے غصے سے کہا۔
’’نہیں، سفارت خانے پر چھاپہ نہیںمارا جا سکتا، تم اطمینان رکھو، وہ یاسمین کو کوئی تکلیف نہیں دیں گے۔ جس دیدہ دلیری سے یاسمین کو اغوا کیا ہے اس کا مقصد سمجھ میں آتا ہے، وہ دانستہ سارے سراغ دے رہے ہیں تاکہ تم یاسمین کی تلاش میں وہاں پہنچو اور وہ تمہیں قبضے میں کر لیں، یاسمین کو وہ چھوڑ دیں گے، لیکن تم چند گھنٹوں کے اندر اسمگل کر دیئے جائوگے، مگر میں ایسا نہیں ہونے دوں گا …کبھی نہیں…‘‘ (جاری ہے)