Friday, October 11, 2024

Shikwa Kis Say Karti

ماں نے بہت ناز و نعم میں پرورش پائی تھی۔ سبھی والدین کی طرح نانا، نانی بھی یہی چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی ایسے گھر بیاہی جائے جہاں وہ سکھی رہے۔ ماں خوبصورت تھی اور خوب سیرت بھی، سونے پر سہاگہ کہ وہ ایک دولت مند باپ کی بیٹی تھیں۔ ایسی لڑکیوں کے لئے بھلا رشتوں کی کیا کمی، مگر نانا سب میں عیب نکال کر انہیں رَد کر دیتے تھے پھراپنی چاند سی بیٹی کے لئے نانا جان کی نگاه انتخاب شرافت علی پر پڑی جو ان کے دوست کے بیٹے تھے۔وہ پولیس میں بطور انسپکٹر کام سرانجام دے رہے تھے۔ شکل و صورت بھی اچھی تھی اور کوئی لمبا چوڑا خاندان بھی نہیں تھا۔ والدین انتقال کر چکے تھے ،وہ اکیلے رہتے تھے۔ نانا جان کو بھی ایسا ہی داماد چاہیے تها، جو بیٹی کے ساتھ، انہی کے پاس رہے اور نور نظر آنکھوں سے اوجھل نہ ہو۔ یوں کم سنی میں امی کی شادی شرافت علی یعنی میرے ابو سے ہوگئی۔ شروع دنوں میں وہ بہت اچھے شوہر ثابت ہوئے۔ نانا کی منشاء کے عین مطابق وہ اپنا مکان کرائے پر دے کر خود نانا جان کے ساتھ گھر داماد بن کر رہنے لگے۔ امی خوش تھیں، ابو ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ دونوں میں پیار محبت بھی تھا۔وہ دن بڑے ہی اچھے تھے مگر یہ وقت پلک جھپکتے گزر گیا۔ نانا جان نے اپنی جائیداد کا مختار داماد کو بنا دیا۔ اتنی دولت باتھ آئی تو اس ثروت نے رنگ بھی دکھانا شروع کر دیا۔ اب ابو ڈیوٹی کے بہانے دو دو اور کبهی تین چار دن بھی گھر سے باہر رہتے ۔ امی ان کی بیرونی سرگرمیوں سے بے خبر تھیں ۔ نانا جان کو تو اپنے داماد پر بے حد اعتماد تھا، تبھی انہوں نے آدھی جائیداد ان کے نام اور آدھی بیٹی کے نام کر دی۔ امی کی بدقسمتی کہ نانا اور نانی ایک سال کے اندر اندر دنیا سے رُخصت ہو گئے ۔ اب ڈر کس بات کا تھا ؟ ابو کو تو کھلی چھٹی مل گئی۔ وہ اب روز ہی دیر سے گھر آنے لگے، امی پوچھتیں تو بہانے بناتے۔ جب امی کو ادھر ادھر سے کچھ سن گن ہوگئی اور انہوں نے ظاہر کر دیا کہ وہ ان کی سرگرمیوں سے واقف ہوگئی ہیں تو میرے والد گالی گلوچ پر اُتر آئے، بعد میں ترک کلام کر دیا۔ اصل میں وہ دوسری عورت کے دام میں آچکے تھے اور اپنی دولت اس پر بے  دریغ لٹا رہے تھے۔ امی جلتی کڑھتی رہتی تھیں۔ ابو نے اپنا مکان بیچ کر اس رقم سے

اپنی محبوبہ کے لئے نیا گھر بنوا لیا۔ امی نے احتجاج کیا تو کہا۔ یہ گھر تیرے باپ کا دیا ہوا نہیں ہے، میں نے بنوایا ہے۔ امی کو وہ اب اہمیت نہ دیتے بلکہ ان کی ذات میں بیسیوں عیب گنواتے تھے۔ ایسے میں میری امی سوائے صبر کیا کر سکتی تھیں جبکہ شوہر کی آنکھوں پر کسی اور عورت کے عشق کی پٹی بندھ گئی تھی۔ وہ اب اُس عورت کو گھر بھی لانے لگے، جس کے ساتھ ان کی دوستی چل رہی تھی۔ امی سے کہتے کہ میری مہمان کے لئے کھانا بنائو۔ وہ اپنے شوہر کی بدسلوکی کے خوف سے اس عورت کی مہمان داری پر مجبور ہو جاتیں۔ انہی بُرے دنوں میں میں بدنصیب اس دنیا میں آ گئی۔ جس مرد کو اپنے عیش سے فرصت نہ ہو، اس کو بیٹی کی آمد کیا خوشی دے گی۔ والد کو میری پیدائش سخت ناگوار گزری۔ بیٹے کی چاہ میں تھے کہ جھولی میں بیٹی آ گئی۔ وہ تو ایسے ہوگئے کہ جیسے کسی کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ خُدا کی کرنی ،ابو کی محبوبہ کا ان سے جھگڑا ہو گیا۔ وہ بہت دولت، ان سے لوٹ چکی تھی۔ شاید اس کو اب شرافت علی کی ضرورت نہ رہی تھی۔ تبھی شمشاد بیگم ان کی زندگی سے نکل گئی ۔ اس کو میرے والد سے زیادہ مال دار آدمی مل گیا تھا ۔ اس کے رُوٹھ کر چلے جانے سے ابو بہت بے چین رہنے لگے۔ کسی پل آرام نہ تھا۔ بات بات پر غصہ کرتے ، گھر کی اشیاء اٹھا کر پٹخ دیتے اور قیمتی سامان توڑ ڈالتے تھے۔ وہ ہر وقت بے قراری میں رہتے تھے۔ ان دنوں ابو اتنے چڑ چڑے اور حساس ہوگئے تھے کہ ان کو میرا رونا ناگوار گزرتا تھا۔ میں روتی تو امی پر چلاتے اور برسنے لگتے کہ اس کو چُپ کرائو ورنہ میں اس کا گلا گھونٹ دوں گا۔ ایک دن اسی طرح غصے کے عالم میں، جبکہ میں پیٹ کے درد سے رو رہی تھی، انہوں نے مجھ کو جھولے سے اُٹھا کر پلنگ پر پٹخ دیا اور گھر سے نکل گئے۔ رات بھر امی مجھ کو گود میں لئے بیٹھی ،روتی رہیں ۔ صبح تک میری حالت مزید بگڑ گئی، ہمارے گھر میں ایک بوڑھا پرانا نوکر تھا۔ والدہ نے اس کو سامنے والے پڑوسی یعنی مولوی صاحب کے پاس بھیجا۔ وہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئے اور بر وقت طبی امداد ملنے سے میری حالت سنبھل گئی۔ بے قرار ماں نے روتے ہوئے اپنے رب کے حضور سجدہ کیا کہ میری جان بچ گئی  اگلے روز ابو لوٹ کر گھر آ گئے، انہوں نے مجھے دیکھا اور نہ میری ماں سے بات کی۔ وہ ابھی تک اپنی محبوبہ کے غم میں نیم جان تھے۔ ماں کی زندگی میں اب کوئی خوشی نہ رہی تھی۔ بس وہ مجھے گود میں لے کر اپنے دکھ بھلانے کی کوشش کرتی تھیں اور والد اولاد نرینہ کی چاہ میں آہیں بھرا کرتے۔ ابھی تک وہ اس بازاری عورت کے دھوکے کو نہ بھلا سکے تھے۔ چار سال اسی کیفیت میں گزر گئے۔ امی بتاتی تھیں کہ ان چار سالوں میں ایک بار بھی میرے والد نے مجھ کو گود میں نہ اٹھایا، جیسے میں ان کی اولاد نہ تھی۔ اب میں کچھ بڑی ہوگئی تھی مگر اپنے والد کی شکل سے ڈرتی تھی۔ جب وہ آتے توڈر کر کونوں کھدروں میں چھپنے لگتی۔ ماں ہر وقت اپنے رَبِّ کے حضور سجدہ ریز ہوتیں کہ اے خدا مجھ کو اولاد نرینہ عطا کر تا کہ شوہر کا دل میری طرف مائل ہو جائے اور میں اس کے سامنے سرخرو ہو جائوں۔ خُدا نے امی کی دُعا سُن لی وہ امید سے ہوگئیں۔ اب جب بھی وہ جائے نماز پر بیٹھتیں ، مجھے اپنے پاس بٹھا کر میرے ننھے منے باتھوں کو پکڑ کر کہتیں۔ مُنّی دُعا مانگ اللہ تمہیں بھائی دے ۔ میں ماں کی بات سمجھتی نہ تھی لیکن اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو دعا کے لئے پھیلا کر اُن کی دُعا میں شریک ضرور ہو جاتی تھی ۔ اللہ نے ہماری دعا سُن لی، مجهے بهائی دے دیا مگر قسمت نے بھائی ملنے کی بہت بڑی قیمت وصول کی ۔ بیٹے کو جنم دیتے بی میری پیاری آمّی الله کے پاس چلی گئیں۔ اب ابو کا مسئلہ یہ تھا کہ کس طرح بیٹے کو پالیں۔ وہ ڈیوٹی پر جاتے تو ہمیں مولوی صاحب کے گھر چھوڑ جاتے۔ ان کے اولاد نہ تھی۔ ان کی بیوی بہت اچھی عورت تھیں۔ وہ ایک ماں کی طرح ہمارا خیال رکھتی تھیں۔ میں مولوی صاحب کو چچا کہتی تھی اور ایک بیٹی کی طرح ان کی عزت کرتی تھی۔ سگے باپ نے تو مجھے پیار نہ دیا مگر اس نیک انسان نے مجھ کو باپ جیسی شفقت دی۔ ان دنوں میری عمر چھ سال تھی۔ جب ابو نے دوسری شادی کر لی۔ سوتیلی ماں نے شروع دنوں میں بمارا كافى خيال ركها.

میں بھی خوش ہوگئی کہ اللہ نے ہم پر رحم کیا اور ہمارے لئے ایک ماں بھیج دی لیکن ان کی محبت کی یہ چاندنی بھی چار دن کی تھی۔ سوتیلی امی کا نام ثوبیہ تھا۔ یہ ابو کے سامنے ہم سے پیار سے پیش آتیں، تبھی وہ سمجھتے تھے کہ ان کی بیوی ہم کو بہت چاہتی ہیں۔رفتہ رفتہ ہمیں اس خاتون کی منافقت سمجھ میں آنے لگی۔ تین سال یونہی گزر گئے ، ثوبیہ کے ہاں اولاد نہ ہوئی۔ ابو کی تو اولاد تھی ،تبھی ان کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ مجهے حالات نے وقت سے پہلے سمجھ دار بنا دیا تھا۔ میں سگی ماں کا پیار نہیں بھولی تھی گھر کا سارا کام میرے ذمے تھا ۔ کبھی والد بھی بیوی سے کہہ دیتے کہ یہ کم سن بے تم میری بچی سے اتنا زیادہ کام نہ لیا کرو۔ وہ جواب دیتی۔ لڑکی ذات ہے ، کام کا سلیقہ ہوگا تو اگلے گھر خوش رہ سکے گی ۔ والد کو بیوی کی بات میں وزن لگتا تھا، وہ خاموش ہو جاتے۔ میں بھائی کو سنبھالتی، ماں کی خدمت کرتی، اسکول سے آنے کے بعد میں اور بھائی گھر پر ہوتے لیکن ہم کو اسکول بھیج کر ماں جانے کہاں چلی جاتی تھیں۔ گھر کو تالا لگا ، چابی مولوی صاحب کے گھر دے دیتیں ۔ ہدایت تھی کہ اسکول سے آئو تو چابی خالہ سے لے لینا۔ روز کا تقریباً یہی معمول تھا۔ ابو کو اس بات کا علم نہ تھا ۔ وہ خوش تھے کہ گھر آباد ہوگیا ہے اور بچوں کی ماں سارا دن ان کے پاس ہی ہوتی ہے مگر یہ ہستی جو ہماری محافظ ہونے کا ڈھونگ رچا رہی تھی، دراصل غلط راہ پر چل رہی تھی۔ روز بنائو سنگھار کر کے گھر سے مقررہ وقت پر نکلتی تو محلے والے بھی چہ میگوئیاں کرتے لیکن ہم معصوم بچوں کا خیال کرکے کوئی انہیں کچھ نہ کہتا اور نہ اُن کے بارے میں کسی نے ابو سے کانا پھوسی کی۔ ماں نے ہم سے کہہ رکھا تھا کہ ابا کو مت بتانا۔ میں بہن سے ملنے جاتی ہوں اور تمہارے ابا میرا بہن سے ملنا پسند نہیں کرتے، اگر ان کو معلوم ہوگیا تو منع کر دیں گے ہم تو ماں سے ڈرتے تھے، بھلا کیسے شکایت کر سکتے تھے۔ ابو صبح کے گئے، رات کو لوٹتے۔ وقت گزرتا گیامگر ماں کی روش نہ بدلی۔ ہم نے بھی ان کی چغلی نہ کی، یہاں تک کہ میں نے میٹرک پاس کر لیا۔ اب بھائی اکیلا اسکول جاتا ، میں گھر میں ہوتی۔ گھر میں رہنے سے پتا چلا کہ امّی سے ملنے کوئی آدمی ہمارے گھر آتا ہے ۔ ماں نے مجھے کہا کہ یہ میرا كزن اسحق ہے۔ ایک دن اسحق آیا ، ماں گھر پر نہ تھی، وہ مجھے گھور گھور کر دیکھنے لگا۔ اس کی عجب نگاہ سے میں ٹر گئی اور بہانہ کر کے مولوی صاحب کے گھر چلی گئی۔ کسی نے میرے والد صاحب کے کان میں یہ بات ڈال دی کہ تمہاری لڑکی جوان ہے ۔ گھر میں تمہاری بیوی کے رشتے دار تمہاری غیر موجودگی میں اب نہیں آنے چاہئیں۔ والد صاحب نے مجھ سے پوچھا ۔ میں کیسے چھپاتی، میں نے ان کو بتا دیا کہ امی کے کزن اسحق آتے ہیں۔ کب سے آتے ہیں؟ جب سے ان کی شادی ہوئی ہے آپ کے ساتھ کیا وہ کبھی کبھار آتا ہے؟ اب میں کیا بتاتی۔ اگر جھوٹ بولتی تو وہ مجھ پر بھی شک کرتے، لہذا سچ ہی بتا دیا کہ کثرت سے آتے ہیں اور اکثر دوپہر کا کھانا ہمارے گھر کھاتے ہیں یا امی ان کے ساتھ چلی جاتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ ڈاکٹر کے پاس جا رہی ہوں ۔ تم نے پہلے مجھے کیوں نہیں بتایا؟ امی نے منع کیا ہوا تھا کہ اپنے ابا کو نہیں بتانا۔ والد صاحب بپھر گئے۔ امی سے پوچھا۔ ثوبیہ! میری غیر موجودگی میں یہاں کون آتا ہے؟ میرا کزن ہے ، وہی آتا ہے۔ لیکن اس نام کاتو تمہارا کوئی کزن نہیں ہے ، پھر یہ کون ہے؟ ذرا اس کا شجرۂ نسب تو بتانا۔ تمہاری والدہ کے خاندان سے ہے یا والد کے- میرا منہ بولا بھائی بنا ہوا ہے، تبھی کزن کہہ دیا ہے۔ والد صاحب نے پہلی بار امی پر ہاتھ اٹھایا، کہا کہ تم نے مجھ سے اس کے بارے کبھی ذکر کیوں نہیں کیا؟ خبردار آئندہ کوئی غیر شخص میرے گھر میں قدم نہ رکھے، ورنہ میں تجھ کو بھی موت کے گھاٹ اتار دوں گا اور تیرے اس منہ بولے بھائی کو بھی-

امی نے اسحق کو منع کر دیا کہ اب یہاں مت آنا اور خود بھی گھر سے نکلنا بند کر دیا۔ ابا پولیس میں تھے۔ وہ بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے تھے ۔ امی ثوبیہ بھی جانتی تھیں کہ اب اگر میں نے احتیاط نہ کی تو شرافت علی مجھے چھوڑے گا نہیں۔ انہوں نے خود پر جبر کیا اور گھر سے قدم نکالنا ترک کر دیا، لیکن میری وہ اب پکی دشمن بن گئی تھیں۔ مجھ کو اپنی وشیوں کی راہ کا کانٹا سمجھنے لگیں اور مجھے رستے سے ہٹانے کا ایک ہی عمل تھا کہ میری شادی کر دیں۔ اب وہ دن رات ابو کے کانوں میں یہ باتیں ڈالنے لگیں کہ بیٹی بڑی ہوگئی ہے، اب اس کی شادی کی فکر کرو۔ وہ کہتے، تم ماں ہو ، تم ہی کوئی رشتہ ڈھونڈو۔ امی نے بالآخر اپنے بھتیجے رشید کا رشتہ ابو کو بتایا۔ میں ایک سیدھی سادی لڑکی تھی۔ شادی کے تقاضے اور اس بندھن کی اونچ نیچ کو نہیں سمجھتی تھی۔ میں تو خوش ہوگئی کہ دلہن بنوں گی، زیور کپڑے پہنوں گی اور اس ظالم ماں سے دور چلی جائوں گی۔ اگر دکھ تھا تو صرف اس بات کا کہ میرا چھوٹا بھائی مجھ سے دور ہو جائے گا اور سوتیلی کی چالاکیوں کا تنہا نشانہ بنے گا – ماں نے بہت جلد رشید سے میری شادی کروا دۍ وہ بہت خوبصورت تھا ۔ میں تو اس کی صورت دیکھ کر مر مٹی۔ اس نے بھی مجھے پسند کیا مگر اس کے دوست اچھے نہ تھے وہ عمر میں مجھ سے دس برس بڑا تھا۔ مجھ کو پھر بھی اس سے محبت ہوگئی ۔ وہ مجھے بے حد اچھا لگتا تھا لہذا، میں نے قسم کھا لی کہ اگر وہ برائی کے رستے پر جاتا ہے، تو میں بھی اپنی جان دے کر اس کو اپنا بنائوں گی۔ ہر قربانی دے کر سیدھے رستے پر لے آئوں گی ۔ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے ، میرا جذبہ سچا تھا ۔ میری قربانیوں نے شوہر کے دل پر اثر کیا اور وہ بھی مجھ سے پیار کرنے لگا۔ میرے آرام کا خیال رکھنے لگا۔ اب میں اپنے گھر میں خوش تھی مگر چھوٹا بھائی ظفر بہت یاد آتا تھا۔ میکے، محض اپنے بھائی سے ملنے کی خاطر جاتی تھی ۔ میری شادی کے بعد وہ بہت اداس رہنے لگا تھا اور کافی کمزور ہوگیا تھا۔ ظاہر ہے کہ میں ہی اپنے بھائی کا خیال رکھا کرتی تھی ۔ ماں نہ تو اُسے کھانا وقت پر دیتی اور نہ کپڑے، وہ میلا کچیلا اور اداس رہنے لگا تھا۔ جب میں جاتی، بھائی مجھ کو دیکھ کر آنسو بہانے لگتا۔ میں کہتی، ظفر صبر کرو یہ دن بھی گزر ہی جائیں گے ۔ ایک دو بار میں نے ثوبیہ سے کہا بھی کہ امی ظفر کا خیال رکھا کرو۔ وہ درشتی سے بولی تم اس گھر کی فکر نہ کرو۔ اب تمہارا اس گھر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں جانوں میرا کام جائے۔ ماں نے جانے کیا سوچ کر ایک شرابی سے میری شادی کی تھی ۔رشید برے دوستوں میں ضرور پھنسا ہوا تھا مگر وہ اتنا برا انسان نہ تھا۔ رفتہ رفتہ میں نے اس کو برے مشاغل سے ہٹا دیا۔ رشید نے اب ساری توجہ اپنے کاروبار پر مذکور کر دی۔ ہمارے گھر میں دولت کی کمی نہ رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے ،ورنہ میں تو کنگال ہو جاتا۔ لگتا ہے اس دنیا میں تم سے بڑھ کر اور کوئی عورت اچھی نہیں ہے۔ میں ان کی یہ باتیں سنتی تواپنی قسمت پر پھولے نہیں سماتی تھی اور ثوبیہ حیران ہوتی تھی کہ اس بے عقل، ناسمجھ چھوکری نے تو میرے شیر جیسے خوبصورت بھتیجے کو اپنی محبت کی زنجیروں میں باندھ لیا ہے۔ ایک دن رشید نے مجھے میکے چھوڑا اور کہا کہ واپسی پر اپنے والد کے ساتھ آ جانا۔ مجھے ضروری کام ہے ،شاید دیر ہو جائے گی۔ اس دن شام تک ابو نہ آئے تو مجھے گھر جانے کی فکر ہوئی۔ اپنے شوہر کے کہے کا بہت زیادہ خیال کرتی تھی۔ وہ جو بات کہہ دیتے ، اسے پورا کرنا اپنا ایمان جانتی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ میکے میں رات نہیں رکنا ، شام ہوتے ہی گھر آ جانا۔گھر جانے کی فکر میں مبتلا شام کو میں مولوی صاحب کے گھر گئی اور ان کو کہا کہ مجھے گھر جانا ہے اور ابو آج دورے پر چلے گئے ہیں۔ آپ کسی طرح مجھے گھر پہنچا دیجئے۔ مولوی صاحب ہمارے لیے والد کی طرح تھے، انہوں نے کہا۔ بیٹی فکر نہ کرو ، میں کسی طرح تم کو گھر بھجوا دیتا ہوں۔ وہ خود گاڑی نہیں چلا سکتے تھے۔ بیٹے سے کہا۔ مجاہد تم ظفر کو ہمراہ لے لو اور بہن کو ان کے گھر پہنچا آئو۔

مجاہد اور ہم بچپن میں ساتھ کھیلتے تھے اور بہن بھائیوں کی طرح تھے۔ میں نے ظفر کو ساتھ لیا اور یہ دونوں مجھ کو میرے گھر پر اتار کر واپس چلے گئے۔ بس اتنی سی بات تھی، جس کا ماں نے بتنگڑ بنا دیا۔ ماں کو دراصل یہ بات یاد تھی کہ اسحق کو اس نے منہ بولا بھائی بنایا تھا تو ابو نے ان کی بے عزتی کی تھی اور اس رشتے کا نہ صرف یقین نہیں کیا تھا بلکہ امی کو مارا پیٹا بھی تھا ۔امی کے ذہن میں ایک گندے خیال نے جنم لے لیا ۔ انہوں نے اگلے دن رشید کو بلایا اور کہا کہ تمہاری بیوی محلے کے جس لڑکے کے ساتھ آئی تھی، کیا تم نے اس سے پوچھا کہ وہ کون تھا اور اس سے اُن کا کیا رشتہ تھا۔ اس کے علاوہ بھی جانے کیا کیا کہا ۔ وہ غصے میں آگ بگولہ ہو کر آیا اور آتے ہی مجھ پر برسنے لگا کہ تم کس کی گاڑی میں آئی تھیں اور وہ تمہارا کیا لگتا تھا جو تم کو چھوڑنے آیا تھا وہ میرا منہ بولا بھائی ہے۔ میں نے کہا اور ظفر بھی ہمارے ساتھ تھا۔ میں اس کے ساتھ اکیلی نہیں آئی تھی۔ بکواس بند کرو۔ میری پھوپھی کے منہ بولے بھائی کو تو تمہارے والد نے اس کا یار بنا دیا تھا ، مار پیٹ کی تھی اور تم کو منہ بولے بھائی کی اجازت دے دی۔ مجھے سب پتا ہے۔ شادی سے پہلے تم مولوی صاحب کے گھر گھسی رہتی تھیں۔ خُدا جانے تمہارے مجاہد کے ساتھ کیسے مراسم ہیں۔ وہ تمام رات قیامت کی گزر گئی۔ میں روتی رہی اور وہ مجھ کو بُرا بھلا کہتا ربا آخر آدهی رات کو گھر سے نکل گیا، کہا کہ صبح جب میں آئوں تو تم گھر میں نہ ملو، ورنہ میں تیرا خون کر دوں گا۔ اپنے باپ کے گھر چلی جانا ۔میں بعد میں آ کر تیرا فیصلہ تیرے باپ کے سامنے کروں گا میں رشید کا غصہ جانتی تھی لہذا، میں نے صبح ہی ابو کو فون کیا کہ آپ مجھے آ کر لے جایئے۔ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور رشید بھی گھرپر نہیں ہیں۔میں نے غلطی کی کہ ان کو فون پر تمام بات نہیں بتائی۔ سوچا کہ گھر جاکر ہی بتائوں گی، فون پر سُن کر وہ گھبرا نہ جائیں یا غصے ہوں لیکن ان کو ضروری کام تھا۔ انہوں نے اچھا کہہ کر فون رکھ دیا اور مولوی صاحب کے پاس گئے، اُن سے کہا۔ نادرہ کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ آپ اس کو لے آیئے، مجھے دفتر کی ضروری میٹنگ میں جانا ہے۔ مولوی صاحب بچارے سیدھے سادے اور نیک فطرت انسان تھے۔انہوں نے مجاہد کو کہا کہ بیٹا تم ظفر کے ساتھ جا کر نادرہ بہن کو لے آئو۔ یوں مجاہد اور ظفر حالات سے بے خبر میرے گھر آ گئے، جونہی وہ اندر آئے، رشید بھی اسی وقت گھر میں داخل ہوئے۔ انہوں نے جو مجھ کو مجاہد سے بات کرتے دیکھا کچھ سوچا اور نہ کچھ سمجھا پستول تان لیا اور گولی چلا دی ظفر نے جو یہ دیکھا، وہ مجاہد کو بچانے کو آگے بڑھا تبھی اس کو گولی لگ گئی ۔ یوں میرے پیارے بھائی نے میرے سامنے تڑپ کر جان دے دی بھائی کی موت کا منظر بہت ہی بھیانک تھا۔ وہ منظر آج بھی میری آنکھوں کے گوشے نم کر دیتا ہے۔ رشید کو والد صاحب نے گرفتار کروا دیا۔ کیس چلا ، ابا جان نے اپنے اکلوتے بیٹے کے قاتل کو تختہ دار پر پہنچا کر دم لیا ۔ ثوبیہ کو اپنے بھتیجے کی سزاکا سخت ملال تھا لیکن یہ سب کچھ اسی کا کیا دهرا تھا۔ بظاہر وہ منہ سے کچھ نہ کہتی تھی لیکن اس کے اندر تو جہنم دہک رہا تھا – اس نے فیصلہ کر لیا کہ جب تک والد صاحب سے ہماری جائیداد نہ لے لی گی والد صاحب کو چھوڑ کر نہ جائے گی۔ بہت چالبازی سے اس نے کافی جائیداد اپنے نام کروا لی – مجھ کو جائیداد سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ جس عورت کا شوہر اور بھائی دونوں سہارے کھو جائیں، بھلا اُسے کیا ہوش رہتا ہے جبکہ والد صاحب اپنی بیوی کی گرفت میں تھے۔ وقت ابھی پچھلے گھائو نہ بھر پایا تھا کہ تقدیر نے ایک اور ستم ڈھایا۔ والد صاحب ڈاکوئوں سے مقابلے میں مارے گئے اور ثوبیہ کی مراد بر آئی وہ تمام زیور، روپیہ پیسہ سمیٹ کر اپنے اسی خیر خواہ کے پاس چلی گئی جس کا نام اسحق تھا ،بعد میں اس نے اسی شخص سے شادی کر لی۔ میں باپ کے گھر میں آنسو بہانے کو تنہا رہ گئی۔ یہی ایک گھر میرا سچا دوست بنا جو میرا سائبان تھا اور میرے والد کے نام تھا۔ وقت نے میرے ساتھ جو مذاق کیا۔ اس کا شکوہ کس سے کرتی ؟ آج میرا کوئی نہیں ہے۔ میرے اشک بی میرے رفیق رہ گئے ہیں۔ انسان تنہا ہو تو سارے موسم ایک سے ہو جاتے ہیں۔ اک مولوی صاحب کا گھرانہ ہے جو آج بھی مجھ سے وفا نباہ رہے ہیں۔ بیٹی کہا تھا تو بیٹی جانتے ہیں اور دکھ سکھ میں کام آتے ہیں۔ وہ بھی میری سگی امی کی اچھائیوں کی وجہ سے، لیکن اس واقعہ کے بعد وہ بھی دنیا سے ڈرتے ہیں کہ میرے شوہر نے ان ہی کے بیٹے کو بدگمانی میں قتل کرنا چاہاتھا۔ اگر وہ مجھے بہو بنا لیتے تولوگ یہی کہتے کہ یہ الزام سچ ہی ہوگا، تبھی تو خون خرابہ ہوا ایک قتل ہوا ایک پھانسی چڑھا دنیا کے منہ پر کس نے ہاتھ رکھا ہے۔

 

Latest Posts

Related POSTS