ایک خوبصورت اور پرسکون رہائشی علاقے میں دو منزلہ ’’ایشلے ہائوس‘‘ تھا۔ یہ نسبتاً کم ڈھلوان پہاڑی کے بالکل درمیان میں پتھر سے بنا ایک قابل دید گھر تھا۔ یہ گھر ڈاکٹر ایڈورڈ نے اپنی بیوی ایشلے کے لئے تیرہ سال پہلے خریدا تھا۔ یہ ایک کشادہ گھر تھا جس میں ہر سہولت موجود تھی۔
ایشلے نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’اوہ ایڈورڈ…! یہ دو لوگوں کے لئے بہت بڑا ہے۔‘‘
ایڈورڈ مسکرایا۔ ’’کون کہتا ہے کہ یہ ہمیشہ دو لوگوں کے لئے رہے گا؟‘‘
پھر ٹام اور روتھ آگئے اور ان کی معصوم ہنسی سے گھر گونج اٹھا۔ اپنے علاقے میں وہ ایک خوشحال گھرانہ سمجھا جاتا تھا۔ ایڈورڈ اور ایشلے کی محبت مثالی تھی۔ ایڈورڈ ایک بہترین سرجن، مشفق باپ اور محبت کرنے والا شوہر تھا۔ ایشلے جب اسے دیکھتی تھی تو دل میں سوچتی تھی کہ وہ دنیا کی خوش قسمت ترین عورت ہے۔
ایشلے صبح جلدی جلدی ناشتہ بنا رہی تھی۔ روتھ کتابیں اٹھائے ہوئے کچن میں آئی۔ اسے ہیلو کہہ کر ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ ایشلے نے دلیئے کا ڈبہ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔ ’’میں تم لوگوں کے لئے ایک نیا برانڈ لے کر آئی ہوں۔ یہ تمہیں بہت پسند آئے گا۔‘‘
روتھ نے ڈبے پر لکھا نام پڑھا۔ ’’ممی…! میں یہ نہیں کھا سکتی۔ کیا تم مجھے مارنا چاہتی ہو؟‘‘
’’فضول باتیں نہ کرو۔ اچھے بچوں کی طرح خاموشی سے ناشتہ کرو۔‘‘
اس کا دس سالہ بیٹا ٹام دوڑتا ہوا کچن میں داخل ہوا۔ کرسی پر بیٹھ کر میز بجاتے ہوئے بولا۔ ’’میں انڈے اور روسٹ کھائوں گا۔ ممی…! جلدی کرو، میں اسکول سے لیٹ ہوجائوں گا۔‘‘
’’نہیں ابھی بہت ٹائم ہے۔‘‘ روتھ بولی۔
’’ممی! کیا میں اسکول کے بعد اسکیٹنگ کے لئے جاسکتا ہوں؟‘‘ ٹام نے پوچھا۔
’’تم پہلے ہی برف پر اسکیٹنگ کررہے ہو، اس لئے سیدھے گھر آئو اور اپنی پڑھائی کی طرف توجہ دو۔ یہ کوئی اچھی بات تو نہیں کہ ایک پروفیسر کا بیٹا فیل ہوجائے۔‘‘
’’کوئی بات نہیں… کوئی مصیبت نہیں آجائے گی… یہ ضروری تو نہیں کہ لائق لوگوں کے بچے بھی لائق ہوں۔‘‘
’’ممی… کیا آپ کو ٹام نے بتایا ہے کہ اس مرتبہ اسپیلنگ میں اس کا ’’ڈی‘‘ گریڈ آیا ہے؟‘‘
ٹام نے گھور کر بہن کی طرف دیکھا۔ ’’تم نے کبھی مارک ٹوئن کا نام سنا ہے؟‘‘
’’مارک ٹوئن کا اس سے کیا تعلق…؟‘‘ ایشلے نے کہا۔
’’مارک ٹوئن کہتا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ لفظوں کے اسپیلنگ ایک ہی طریقے سے کئے جاتے رہیں۔‘‘
ایشلے نے سر جھٹکا۔ ان بچوں سے جیتنا بہت مشکل ہے۔ اس نے دونوں کے لئے لنچ پیک کرکے ان کے سامنے میز پر رکھا۔ اسے روتھ کی زیادہ فکر تھی جو ان دنوں نئے ڈائٹنگ پلان پر بڑی سختی سے عمل کررہی تھی۔
ایشلے نے اسے تاکید کی۔ ’’روتھ…! اپنا لنچ ختم کرکے آنا۔‘‘
’’اگر اس میں زیادہ چکنائی نہ ہوئی تو میں اس کو کھا سکتی ہوں ورنہ…!‘‘
ٹام نے روتھ کی نوٹ بک سے جھانکتے ہوئے ایک کاغذ کو باہر کھینچا اور اس پر لکھی ہوئی تحریر کو بلند آواز میں پڑھنے لگا۔ ’’واہ… واہ! ذرا یہ تو سنو…! ڈیئر روتھ! میرا خیال ہے کہ ہمیں کلاس میں اکٹھے بیٹھنا چاہئے۔ میں تمام دن تمہارے ہی بارے میں سوچتا رہتا ہوں اور…!‘‘
’’ٹام کے بچے…!‘‘ روتھ اس پر جھپٹی۔ ’’میرا خط واپس کرو۔‘‘
ٹام چھلانگ لگا کر اس کی پہنچ سے نکل گیا اور خط کے نیچے دستخط دیکھتے ہوئے بولا۔ ’’ارے یہ تو کوئی ورجل ہے۔ تمہارا چکر تو آرنلڈ کے ساتھ تھا؟‘‘
روتھ نے جھپٹا مار کر خط اس سے چھین لیا۔ ’’تم اپنے کام سے کام رکھو… تم ابھی بچے ہو۔ تمہیں ان باتوں کی کیا سمجھ!‘‘ بارہ سالہ روتھ چلائی۔ باہر اسکول بس کا ہارن سنائی دیا۔ ایشلے نے انہیں متوجہ کیا۔ ’’تم لوگوں نے اپنا ناشتہ ختم نہیں کیا بچو…؟‘‘
’’ممی! دیر ہوگئی ہے… دیر ہوگئی ہے۔‘‘ دونوں شور مچاتے ہوئے بھاگے۔
ایشلے ان کے پیچھے پیچھے آئی۔ ’’باہر بہت سردی ہے… اپنے کوٹ اور اسکارف پہنو۔‘‘
’’ممی…! میرا اسکارف گم ہوگیا ہے۔‘‘ ٹام نے پلٹ کر کہا اور دونوں بھاگتے ہوئے گھر سے نکل گئے۔
ایشلے واپس کچن میں آئی۔ ایڈورڈ سیڑھیوں سے اتر کر نیچے آیا۔ ہمیشہ کی طرح ایشلے کو اسے دیکھنا اچھا لگا۔ شادی کو دس بارہ سال ہوجانے کے باوجود وہ اب بھی ایک بہت پرکشش انسان تھا۔ وہ خوش اخلاق اور قابل تھا۔ ایشلے کو اس کی بیوی ہونے پر فخر محسوس ہوتا تھا۔
’’گڈ مارننگ!‘‘ وہ خوش دلی سے بولا۔
’’پلیز ایڈورڈ…! ایک کام کرو گے؟‘‘
’’ضرور… کیوں نہیں!‘‘
’’میں ان بچوں کو فروخت کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’دونوں کو…؟‘‘
’’ہاں… دونوں کو!‘‘
’’کب…؟‘‘
’’آج ہی…!‘‘
’’پر ان شیطان کے چیلوں کو خریدے گا کون؟‘‘
’’کوئی اجنبی… دونوں میرے قابو سے باہر ہیں … دونوں فرسٹ کلاس نالائقوں کی فہرست میں شامل ہیں۔‘‘
’’مجھے لگتا ہے یہ ہمارے بچے نہیں ہیں۔‘‘ ایڈورڈ بولا۔
ایشلے کو ہنسی آگئی۔ ’’یہ ہم دونوں میں سے کسی پر تو گئے ہیں۔‘‘ وہ الماری کھول کر ڈبہ باہر نکالتے ہوئے بولی۔ ’’میں تمہارے لئے دلیہ بنا دیتی ہوں۔‘‘
ایڈورڈ نے گھڑی دیکھی۔ ’’سوری ڈارلنگ! اب بالکل وقت نہیں ہے۔ آدھے گھنٹے میں مجھے سرجری کے لئے پہنچنا ہے۔ سڈنی کا ہاتھ مشین میں آگیا ہے، کہیں اس کی انگلیاں نہ ضائع ہوجائیں۔‘‘
ایشلے جانتی تھی کہ زیادہ تر کسان ایڈورڈ کی فیس ادا نہیں کرتے تھے مگر وہ اس کی پروا نہیں کرتا تھا۔ جب فضل پکتی تو کوئی اسے مکئی دیتا، کوئی باجرہ، کوئی آلو اور کوئی دوسری سبزی…! وہ اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا تھا۔
’’اچھا… اوکے! میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ بچوں کو نہیں بیچنا چاہئے، کیونکہ مجھے ان کے پاپا بہت پسند ہیں۔‘‘
’’اور میں تمہیں بتائوں کہ یہ تمہارا بہت نیک خیال ہے۔ مجھے خود ان بچوں کی ممی بہت اچھی لگتی ہے۔‘‘
ایشلے مسکرائی۔ ’’کیا تم اب بھی مجھ سے محبت کرتے ہو، جبکہ میں ایک عمر رسیدہ خاتون ہوں؟‘‘
’’مجھے عمر رسیدہ خواتین ہی پسند ہیں۔‘‘ وہ ہنس کر بولا۔
’’عمر رسیدہ خاتون شکریہ کہتی ہے۔‘‘
٭…٭…٭
دونوں اپنی اپنی گاڑیوں میں اکٹھے ہی گھر سے نکلے۔ دور ایک نکڑ پر کھڑی ہوئی گاڑی ایشلے کی گاڑی کے پیچھے چل پڑی۔
ایشلے نے اپنے کمرے میں آکر کوٹ اتارا اور اپنی کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس کا کمرہ ایک ریسرچ اسکالر طرز کا کمرہ تھا جہاں دیوار کے ساتھ کتابوں کے شیلف تھے۔ کھڑکی کے قریب چھوٹی میز امتحانی پرچوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس کی میز پر ٹیلیفون، قلم دان اور ایسی ہی مختلف لکھنے پڑھنے کی چیزیں رکھی ہوئی تھیں۔
ایشلے ابھی اپنی کرسی پر بیٹھ کر کچھ کاغذات دیکھ رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی اور یونیورسٹی کا ڈین اندر آیا۔
’’گڈ مارننگ مسز ایشلے! کیا تمہارے پاس کچھ وقت ہے؟‘‘
ایشلے چونکی۔ ڈین کبھی کسی کے کمرے میں نہیں آتا تھا۔ وہ اسٹاف کو اپنے کمرے میں طلب کرتا تھا۔ اس کے اس طرح اچانک آنے میں ضرور کوئی خاص مصلحت تھی۔ یقیناً یونیورسٹی اسے اگلا گریڈ دینے والی تھی اور یہ اتنی خوشی کی بات تھی کہ وہ اسے ایڈورڈ کو بتانے کے لئے بے تاب ہوگئی۔
’’ضرور… ضرور…! کیوں نہیں مسٹر ڈین! بیٹھئے۔‘‘
وہ ایک کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔ ’’تمہاری کلاسیں کیسی جارہی ہیں؟‘‘
’’بالکل ٹھیک!‘‘ ایشلے نے کہا لیکن وہ محسوس کررہی تھی کہ اس کا رویہ کچھ عجیب سا ہے۔
’’مسز ایشلے! کیا تم کسی مشکل میں ہو یا تمہیں کوئی پریشانی لاحق ہے؟‘‘
’’مشکل… پریشانی…؟ نہیں… بالکل نہیں مگر آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘
’’گزشتہ روز ایک شخص دارالخلافے سے میرے پاس آیا تھا۔ وہ تمہارے بارے میں پوچھ رہا تھا۔‘‘
ایشلے کو
حیرت ہوئی۔ وہ بولی۔ ’’میرے بارے میں کیا پوچھ رہا تھا؟‘‘
’’تمہاری شہرت بطور ایک پروفیسر، تمہاری ذاتی زندگی اور تمہارے حلقۂ احباب کے بارے میں!‘‘
’’میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ سب کیوں ہورہا ہے اور اس کی کیا وجہ ہے۔ کچھ روز پہلے ایک شخص میرے بچوں کی تصویریں اتار کر لے گیا پھر ہمارے پڑوس میں کوئی شخص آکر میرے بارے میں پوچھتا رہا اور اب آپ سے سوالات…! اس نے آپ کو بتایا نہیں کہ وہ یہ کیوں کررہا ہے؟‘‘
’’نہیں! بلکہ اس نے مجھے یہ گفتگو اپنے تک محدود رکھنے کے لئے کہا تھا لیکن میں اپنے اسٹاف کے بارے میں بہت محتاط ہوں۔ میں نے مناسب سمجھا کہ تمہیں اس بارے میں آگاہ کردوں اور اگر کوئی مشکل یا مسئلہ درپیش ہے تو بہتر ہے کہ میں کسی اور کے بجائے تمہاری زبان سے سنوں۔ اس یونیورسٹی کے استاد یونیورسٹی کے لئے قابل فخر ہیں۔ ہمیں ان کی اچھی شہرت بہت عزیز ہے۔‘‘
ایشلے نے نفی میں سر کو جنبش دی اور بولی۔ ’’میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتی۔‘‘
ڈین نے لمحے بھر کو اس کی جانب دیکھا۔ کچھ کہنے کا ارادہ کیا پھر جیسے اسے ملتوی کرکے بولا۔ ’’تو پھر محتاط رہو مسز ایشلے! کوئی بات ہو تو مجھے بتانے میں جھجک مت محسوس کرنا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر نکل گیا اور ایشلے بہت دیر تک سوچتی رہی کہ ان سب باتوں کا مطلب کیا ہے اور ایسا کیوں ہورہا ہے۔
٭…٭…٭
ایشلے رات کے کھانے پر بہت خاموش تھی۔ وہ اندر ہی اندر سوچ رہی تھی کہ ایڈورڈ اطمینان سے کھانا کھالے اور بچے اپنے کمرے میں چلے جائیں تو وہ ایڈورڈ سے اس مسئلے پر بات کرے لیکن بچوں نے عجیب اودھم مچا رکھا تھا۔ روتھ نے اپنی ڈائٹنگ کی وجہ سے کچھ بھی کھانے سے انکار کردیا تھا۔
’’اب کوئی تہذیب یافتہ انسان گوشت نہیں کھاتا… یہ بالکل ایک وحشیانہ بات ہے۔ جانوروں کو بھی زندہ رہنے کا حق ہے… لوگ ان کو کیوں مارتے ہیں؟‘‘
’’سب لوگ گوشت کھاتے ہیں اور بڑے مزے سے کھاتے ہیں۔‘‘ ٹام بولا۔
’’بچو…! خاموش ہوجائو، اب کچھ مت بولنا۔‘‘ ایشلے نے ڈانٹا اور روتھ سے بولی۔ ’’روتھ! چلو تم اپنے لئے سلاد بنا لو۔‘‘
’’اس کو لان میں گھاس چرنے کے لئے بھیج دیں۔‘‘ ٹام نے شرارت سے کہا۔
’’ٹام…! کوئی شرارت نہیں۔‘‘ ایشلے نے اسے ٹوکا۔ اس کا تنائو سے سر چکرانے لگا تھا۔
فون کی گھنٹی بجی۔ روتھ اپنی کرسی دھکیل کر اٹھی۔ ’’یہ میرا فون ہے۔‘‘
وہ فون کی طرف دوڑی۔ اس نے فون اٹھایا اور کہا۔ ’’ورجل…!‘‘
اس نے چند لمحے کے لئے دوسری طرف سے بولنے والے کی بات سنی۔ اس کے چہرے کے تاثرات بدلے۔ ’’ہاں… ہاں… کیوں نہیں!‘‘ اس نے ریسیور زور سے پٹخ دیا اور میز پر واپس آگئی۔
’’یہ سب کیا تھا؟‘‘ ایڈورڈ نے پوچھا۔
’’ایسے ہی کوئی مذاق کررہا تھا کہ ایوان صدر سے ممی کے لئے کال ہے۔‘‘
’’پریذیڈنٹ ہائوس سے…؟‘‘ ایڈورڈ نے دہرایا۔
ٹیلیفون کی گھنٹی پھر بجی۔ ایشلے اٹھی۔ ’’میں دیکھتی ہوں کون ہے۔‘‘
’’ہیلو!‘‘ اس نے ریسیور اٹھایا اور دوسری طرف سے کہی جانے والی بات نے اس کے چہرے کو سنجیدہ کردیا۔ وہ بولی۔ ’’ہم اس وقت کھانا کھا رہے ہیں اور تھوڑی دیر تک… کون… جناب صدر…؟‘‘
کمرے میں بالکل خاموشی چھا گئی۔ سب ایشلے کے سنجیدہ چہرے کو غور سے دیکھنے لگے۔ وہ کہہ رہی تھی۔ ’’ہاں… ہاں… جناب صدر! میں نے آپ کی آواز پہچان لی ہے۔ روتھ نے سمجھا کوئی مذاق کررہا ہے۔‘‘ وہ ریسیور کان میں لگائے سننے لگی۔ ’’آپ کیا کہہ رہے ہیں کہ میں کیا کرنا پسند کروں گی؟‘‘
ایڈورڈ اٹھ کر اس کے قریب چلا گیا۔ بچے بھی اس کے پیچھے پیچھے تھے۔ ایشلے کہہ رہی تھی۔ ’’مسٹر پریذیڈنٹ! شکریہ … آپ نے میری کتاب پڑھی ہے۔ یہ میرے لئے فخر کی بات ہے۔ یہ ایک بہت اچھا موقع ہے لیکن میں اس بارے میں اپنے شوہر سے بات کرکے کوئی جواب دے سکوں گی۔ شکریہ مسٹر پریذیڈنٹ…! گڈ بائے۔‘‘ اس نے ریسیور واپس رکھ دیا اور ساکت سی کھڑی رہی۔
’’ایشلے…! کچھ بولو تو سہی خدا کے لئے… یہ سب کیا ہے؟‘‘
’’ممی! کیا یہ واقعی مسٹر پریذیڈنٹ تھے؟‘‘ ٹام نے پوچھا۔
ایشلے ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ ’’ہاں…! وہی تھے۔‘‘
ایڈورڈ قریب آیا۔ اس نے پوچھا۔ ’’وہ کیا چاہتے ہیں؟ وہ کیا کہہ رہے تھے…؟‘‘
ایشلے گہرا سانس لے کر بولی۔ ’’پریذیڈنٹ نے میری کتاب اور میرے مضامین پڑھے ہیں… انہیں وہ بہت پسند آئے ہیں… وہ مجھے سفیر نامزد کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’تمہیں… مگر کیوں؟‘‘ ایڈورڈ نے بے یقینی سے کہا۔ ’’تمہارے پاس تو ایسا کوئی سیاسی پس منظر نہیں ہے۔‘‘
’’میں خود یہی سوچ رہی ہوں… یہ واقعی بڑی عجیب بات ہے۔‘‘ ایشلے الجھن آمیز لہجے میں بولی۔
’’ممی…! کیا آپ واقعی سفیر بن رہی ہیں۔ مگر کس ملک میں…؟‘‘ ٹام نے پوچھا۔
ایشلے نے نام بتایا تو وہ پوچھنے لگا کہ یہ ملک کہاں ہے۔ ایڈورڈ سے صبر نہیں ہوسکا۔ وہ بچوں کی طرف دیکھ کر بولا۔ ’’بچو…! تم دونوں جلدی سے اپنا کھانا ختم کرو اور بھاگو اپنے کمرے میں…! میں اور تمہاری ممی بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’ہمارا بھی ووٹ ہوگا یا نہیں؟‘‘ ٹام نے پوچھا۔
’’تمہیں بعد میں بتائیں گے۔‘‘ ایڈورڈ نے کہا اور ایشلے کا ہاتھ پکڑ کر لائبریری میں آگیا۔
’’ایشلے…! تم بھی سوچتی ہوگی کہ میں کیسی باتیں کررہا ہوں۔‘‘
’’نہیں…! تم بالکل ٹھیک سوچ رہے ہو… بھلا انہوں نے مجھے کیوں منتخب کیا ہے؟‘‘
’’ہاں…! یہی بات سوچنے کی ہے۔‘‘
’’لیکن ہے بہت زبردست بات… ہیں نا ایڈورڈ! میں فلورنس کو بتائوں گی تو وہ مر ہی جائے گی۔‘‘
’’بے شک! یہ بڑی عزت کی بات ہے۔ ان کے پاس یقینا کچھ وجوہات ہوں گی جو انہوں نے تمہیں چنا ہے۔‘‘ تھوڑے توقف کے بعد وہ محتاط لہجے میں بولا۔ ’’ہمیں اس مسئلے پر کافی غور کرنا ہوگا کہ اس سے ہماری زندگیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘
ایشلے نے سر ہلایا۔ ’’ہاں…! تم صحیح کہہ رہے ہو۔‘‘
’’دیکھو نا میں اپنی پریکٹس نہیں چھوڑ سکتا… مجھے اپنے مریضوں کے لئے یہاں رہنا پڑے گا۔ اب پتا نہیں تمہیں کب تک اس ملک میں رہنا پڑے۔ اب اگر یہ واقعی تمہارے لئے بہت اہم ہے تو ہم کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
’’دیوانے آدمی…! بھلا تم نے یہ کیسے سوچ لیا کہ میں تم سے دور رہ سکتی ہوں؟‘‘
’’مگر ہے تو یہ ایک بہت بڑا اعزاز اور…!‘‘ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
’’بحیثیت تمہاری بیوی کے میرے نزدیک کچھ بھی اہم نہیں تمہارے اور بچوں کے علاوہ… تمہیں چھوڑ کے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور ہمارے اس شہر کو تمہارے جیسا قابل ڈاکٹر کبھی نہیں مل سکتا… گورنمنٹ کسی اور کو بھی سفیر بنا سکتی ہے۔‘‘
ایڈورڈ متاثر ہوکر اس کی جانب جھکا۔ ’’کیا واقعی یہ تم دل سے کہہ رہی ہو؟‘‘
’’ہاں…! ہاں بالکل… میں ویسے ہی خوش ہورہی تھی، بس اتنا ہی کافی ہے۔‘‘
دروازہ کھلا۔ دونوں بچے جوش میں بھرے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ روتھ نے ہانپتے ہوئے کہا۔ ’’میں نے ورجل کو فون کرکے بتا دیا ہے کہ آپ سفیر بن رہی ہیں۔‘‘
’’تو اب بہتر یہی ہے کہ تم اسے فون کرکے بتا دو کہ میں سفیر نہیں بن رہی۔‘‘ ایشلے نے کہا۔
’’کیوں…؟‘‘ دونوں نے ایک ساتھ کہا۔
’’تمہاری ممی نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ وہ ہمیں چھوڑ کر نہیں جاسکتیں۔‘‘ ایڈورڈ نے بتایا۔
’’مگر کیوں…؟‘‘ روتھ نے ہٹیلے پن سے کہا۔ ’’ہمیں آپ کے ساتھ جانا ہے… ہم کبھی کہیں نہیں گئے۔‘‘
’’ہاں…! روتھ ٹھیک کہہ رہی ہے، ہم کبھی نہیں گئے کہیں۔‘‘ ٹام بھی بولا۔
’’مجھے پہلے ہی پتا تھا کہ ہم اس شہر سے باہر کبھی نہیں نکل سکتے۔‘‘
’’بس! اب اس موضوع پر بات ختم… سب اپنے اپنے کمروں میں جائو۔‘‘ ایشلے نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
٭…٭…٭
اگلی صبح ایشلے نے ایوان صدر فون کرکے یہ عہدہ قبول کرنے سے
; کرلی۔ جب اس نے ریسیور رکھا تو ایک لمحے کے لئے اس کے دل میں خیال آیا کہ یہ پیشکش کسی سہانے خواب کی طرح تھی لیکن دوسرے ہی لمحے اسے اس حقیقت کا ادراک ہوگیا کہ اس کا گھر ہی اس کا حقیقی خواب تھا۔
اخبار میں فوراً ہی یہ خبر شائع ہوگئی کہ مسز ایڈورڈ ایشلے نے سفارتی عہدہ قبول کرنے سے معذرت کرلی ہے۔ ٹی وی پر بھی مختلف چینلز پر یہ خبر باربار نشر ہوئی۔ ایشلے چند گھنٹوں میں ہی شہر کی ایک مشہور شخصیت بن گئی، جس نے اپنے گھر اور اپنے شہر کی خاطر اتنا بڑا عہدہ ٹھکرا دیا تھا۔ اگر ایشلے یہ عہدہ قبول کرلیتی تو شاید اتنی مشہور نہ ہوتی جتنا یہ عہدہ قبول نہ کرنے سے ہوئی۔
ایشلے معمول کی خریداری کے لئے مارکیٹ جانے کو نکلی تو ریڈیو کی خبروں اور تبصروں میں اس کا ہی نام تھا۔
صبح سے اسے تقریباً تین درجن فون دوستوں، عزیزوں، ملنے والوں اور انجان لوگوں کی جانب سے آچکے تھے۔ سب نت نئی بولیاں بول رہے تھے لیکن سب اس کے اس فیصلے کو سراہ رہے تھے۔ ایشلے جانتی تھی کہ یہ گہماگہمی محض دوچار روز کی ہے بعد میں سکون ہوجائے گا۔
وہ پیٹرول پمپ پر پہنچی اور اپنی مدد آپ والے حصے میں جاکر گاڑی میں پیٹرول بھرنے لگی۔
منیجر دوڑا چلا آیا۔ ’’اوہ مسز ایشلے! گڈ مارننگ… یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہماری سفیر گاڑی میں خود پیٹرول بھرے…؟ میں آپ کی مدد کرتا ہوں۔‘‘
ایشلے مسکرائی۔ ’’شکریہ…! میں اس کی عادی ہوں۔‘‘
’’نہیں… نہیں…! مجھے آپ کی مدد کرکے خوشی ہوگی۔‘‘
پیٹرول بھروا کر وہ دوسرے اسٹور پر گئی تو کلرک بڑی خوش اخلاقی سے بولا۔ ’’ہماری سفیر کو گڈ مارننگ!‘‘
’’گڈ مارننگ…! لیکن میں سفیر نہیں ہوں۔‘‘ ایشلے نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
ایک اور ڈیپارٹمنٹل اسٹور کا منیجر اسے دیکھ کر کھل اٹھا۔ ’’مسز ایشلے! میں نے ریڈیو پر خبر سنی ہے۔ یہ ہمارے شہر کے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ آپ کو ایمبیسڈر منتخب کیا گیا ہے۔‘‘
’’میں نے یہ پیشکش قبول نہیں کی۔‘‘ ایشلے نے نرمی سے جواب دیا۔
ایشلے کو معمول کی اس خریداری میں معمول سے زیادہ وقت لگا۔ وہ جہاں جاتی تھی، لوگ بڑے پرجوش انداز سے سفیر بننے کی خبر پر تبصرہ کرتے۔ وہ احتیاط سے گاڑی چلاتی ہوئی گھر پہنچی۔ ہوا بہت تیز اور سرد تھی۔ درجۂ حرارت نقطۂ انجماد سے کافی نیچے گر چکا تھا۔ لان برف سے ڈھک گئے تھے۔ سردی خون جما دینے والی تھی۔
وہ گھر پہنچی تو ابھی تک ایڈورڈ گھر نہیں آیا تھا۔ وہ چیزیں سنبھال کر پلٹی تو اس نے ٹام کو لائبریری میں فلم دیکھتے ہوئے پایا۔ اس نے ناراضی سے کہا۔ ’’ٹام…! تمہیں اس وقت اپنا ہوم ورک کرنا چاہئے اور تم ہو کہ…!‘‘
’’میں ہوم ورک نہیں کرسکتا۔‘‘
’’مگر کیوں…؟‘‘
’’کیونکہ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔‘‘
’’جب تم ہر وقت فلمیں دیکھو گے تو تمہاری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آئے گا۔ لائو مجھے کتاب دکھائو۔‘‘ ایشلے اس کی کتاب کھول کر حساب کا سوال دیکھنے لگی۔
پھر وہ روتھ کے کمرے میں گئی تو وہ بلند آواز میں موسیقی لگائے ہوم ورک کررہی تھی۔ وہ پریشان ہوگئی۔ یہ بچے بھی عجیب ہیں اور ان کے پڑھنے کے طریقے بھی عجیب ہیں۔ نہ جانے یہ بڑے ہوکر کیا کریں گے۔ خاندان کا نام ان سے وابستہ تھا۔ یہی سوچتے ہوئے وہ کچن میں کام کرنے میں مصروف ہوگئی۔
٭…٭…٭
شام کو وہ ایڈورڈ کے ساتھ کلب ڈنر پر چلی گئی۔ پرانے دوستوں سے ملاقات ہوئی اور دیر تک پرلطف گفتگو ہوتی رہی۔ وہ رات گئے واپس آئے، بچے سو چکے تھے۔ وہ دونوں بھی تھکے ہوئے تھے۔ صبح انہیں ڈیوٹی پر بھی جانا تھا، اس لئے جلد ہی سوگئے۔
تین بجے فون کی مسلسل گھنٹی سے ایڈورڈ کی آنکھ کھلی۔ اس نے غنودگی کے عالم میں ریسیور اٹھایا۔ ’’ہیلو!‘‘
کسی عورت کی آواز سنائی دی۔ ’’ڈاکٹر ایڈورڈ…!‘‘
’’ہاں…! میں بول رہا ہوں۔‘‘
’’سر! مسٹر گراہم کو دل کا دورہ پڑ رہا ہے۔ وہ شدید درد محسوس کررہا ہے شاید وہ مر رہا ہے… میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کروں؟‘‘ اس نے بتایا۔
ایڈورڈ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے آنکھیں مل کر نیند کو بھگانے کی کوشش کی اور بولا۔ ’’سنو…! تم کچھ مت کرو… مسٹر گراہم سے کہو آرام سے لیٹے رہیں، ہلیں جلیں نہیں۔ میں آدھے گھنٹے تک پہنچتا ہوں۔‘‘ وہ بستر سے نکلا اور کپڑے بدلنے لگا۔
’’ایڈورڈ…!‘‘ ایشلے نے پکارا۔ اس کی آنکھیں نیند سے بند ہوئی جارہی تھیں۔ ’’کیا ہوا؟‘‘
’’سب ٹھیک ہے… تم سو جائو۔‘‘ ایڈورڈ نے کہا۔
’’جب تم آجائو تو مجھے جگا لینا۔‘‘ ایشلے بولتے بولتے سوگئی۔
’’ہاں… ہاں ضرور!‘‘ ایڈورڈ نے کہا اور اپنا بیگ اٹھا کر باہر نکل گیا۔
٭…٭…٭
کار ایک بڑے ٹرک کے نیچے آکر کچلی جا چکی تھی۔ پولیس کے اہلکار اسے گھیرے ہوئے اپنے کام میں سرگرمی سے مصروف تھے۔ پھر شیرف کی کار آئی اور اس کا دروازہ کھلا۔ ایشلے اس سے باہر آئی اور دیوانوں کی طرح اس جانب دوڑی جہاں ترپال سے ڈھکی ہوئی لاش پڑی تھی۔ وہ بری طرح کانپ رہی تھی۔ اس سے کھڑے ہونا بھی مشکل تھا۔
شیرف نے لپک کر اس کا بازو تھاما۔ ’’مسز ایشلے! بہتر ہے کہ آپ اس کو نہ دیکھیں۔‘‘
’’چھوڑو مجھے!‘‘ وہ چلائی۔ ’’مجھے ایڈورڈ کے پاس جانے دو۔‘‘ اس نے بازو چھڑایا۔
’’نہیں… مسز ایشلے! حوصلہ کریں۔‘‘ شیرف نے تسلی دی لیکن وہ بے ہوش ہوچکی تھی۔
شیرف اسے گھر لے کر آیا تو فلورنس اور ڈگلس اس کا انتظار کررہے تھے۔ فلورنس نے آگے بڑھ کر ایشلے کو اپنے بازوئوں میں لے لیا۔ ’’ایشلے…! بہت افسوس ہے۔ بہت افسوس!‘‘
’’کوئی بات نہیں۔‘‘ ایشلے نے سکون سے کہا۔ ’’ایڈورڈ کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔‘‘ وہ ہنسنے لگی۔
ڈگلس بڑے غور سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ شیرف نے پوچھا۔ ’’آپ کا فیملی ڈاکٹر کون ہے؟‘‘
’’ڈاکٹر ایڈورڈ…! ڈاکٹر ایڈورڈ ہمارا فیملی ڈاکٹر ہے۔‘‘ وہ بولی۔
ڈاکٹر ڈگلس نے شیرف کو جانے کا اشارہ کیا اور ایشلے سے کہا۔ ’’آئو میں تمہیں اوپر لے جاتا ہوں۔‘‘
’’نہیں…! مجھے نیند نہیں آرہی۔ تم لوگ چائے کیوں نہیں لے رہے؟‘‘
ڈگلس اسے سیڑھیوں کی طرف لے کر چلا تو وہ بولی۔ ’’ایڈورڈ کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے… ہیں نا! ایڈورڈ کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔‘‘
’’ہاں… ایشلے! میں تمہیں ایک سکون آور دوا دیتا ہوں۔‘‘ اس نے تین بار ایشلے کو دوا کھلائی، تب وہ جاکر سوئی۔
٭…٭…٭
ایشلے کی آنکھ کھلی تو بچے بے قراری سے رو رہے تھے۔ وہ اپنے بیڈ پر بے حس و حرکت لیٹی رہی۔ اس میں ہلنے کی طاقت بھی نہیں تھی۔ اس نے اپنی آنکھیں زور سے بند کررکھی تھیں۔ وہ سوچ رہی تھی کہ یہ ایک خواب ہے۔ ایک ڈرائونا خواب…! جب وہ بیدار ہوگی تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ سب کچھ پہلے کی طرح معمول کے مطابق ہوگا… ایڈورڈ زندہ ہوگا۔
مگر بچوں کے رونے کی آوازیں مسلسل سنائی دے رہی تھیں۔ جب وہ مزید برداشت نہیں کرسکی تو اس نے آنکھیں کھول دیں۔ بڑی مشکل سے بیڈ سے اٹھی۔ اس پر ابھی بھی مسکن دوائوں کا اثر باقی تھا۔ اس پر نشے میں ہونے کی سی کیفیت طاری تھی۔ وہ اپنے پائوں گھسیٹتی ٹام کے بیڈ روم میں گئی۔ روتھ اور فلورنس دونوں ٹام کے پاس تھیں۔ تینوں بلند آواز میں رو رہے تھے۔
’’کاش! میں رو سکتی۔ کاش…! میں بھی رو سکتی۔‘‘
روتھ نے ماں کی طرف دیکھا۔ ’’ممی…! کیا واقعی ڈیڈی مر گئے ہیں؟‘‘
’’ہاں…!‘‘ ایشلے نے اثبات میں سر ہلایا اور بیڈ کی پٹی پر بیٹھ کر ٹام کا سر اپنے سینے سے لگا کر کہا۔ ’’بیٹا…! رو نہیں سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
مگر سب کچھ ٹھیک نہیں ہوسکتا تھا۔ کبھی نہیں ہوسکتا تھا۔ ایڈورڈ کے بغیر کچھ ٹھیک نہیں ہوسکتا تھا۔ ایشلے کو کسی طرح چین نہیں آتا تھا۔ بالآخر اس نے سوچ لیا کہ وہ یہی سمجھے گی کہ یہ حادثہ، اس سے پیدا ہونے والی محرومی،
کردینے والی صورتحال اس کے ساتھ نہیں بلکہ کسی اور کے ساتھ پیش آرہی ہے۔
ایڈورڈ کے جنازے پر اس کے دوستوں اور مریضوں کا بہت بڑا ہجوم تھا۔ گلدستوں کا ڈھیر لگ گیا تھا اور ان میں سب سے نمایاں گلدستہ صدر مملکت کی جانب سے تھا جس پر لکھا تھا۔ ’’میری گہری ہمدردیوں کے ساتھ!‘‘
ایشلے بچوں کو سمیٹے ایک طرف بیٹھی تھی۔ جن کی آنکھیں رورو کر سرخ ہورہی تھیں۔ وہ جنازے کی تمام رسومات کو ایک گہرے درد کی سی کیفیت میں دیکھ رہی تھی۔ جب قبر بند کردی گئی تو وہ ہونٹوں ہی ہونٹوں میں بدبدائی۔ ’’الوداع… میرے محبوب!‘‘
موت کو ایک اختتام سمجھا جاتا ہے لیکن ایشلے کے لئے یہ ایک ابتدا تھی۔ ایک ناقابل برداشت جہنم کی! کوئی طریقہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ اب اس زندگی کو کیسے گزارے جس میں ایڈورڈ نہیں تھا۔ ایڈورڈ کے ساتھ جیسے ہر شے مر گئی تھی۔ یہ ایک ایسی ظالم حقیقت تھی جو ہر لمحہ اسے چبھتی رہتی تھی۔
وہ کسی سہمے ہوئے بچے کی طرح خوف زدہ تھی۔ کبھی وہ خدا سے شکایت کرتی کہ اس نے پہلے اسے کیوں نہیں اپنے پاس بلا لیا، پھر اسے ایڈورڈ پر غصہ آتا جس نے اس کی زندگی کو ویران کرکے رکھ دیا تھا۔ کبھی وہ بچوں پر غصہ کرتی اور کبھی خود پر مگر سب لاحاصل تھا۔ وہ سوچتی کہ میں ایک پینتیس سالہ خاتون ہوں، مگر مجھے نہیں معلوم کہ میں کون ہوں۔ جب میںمسز ایشلے ایڈورڈ تھی تو میری ایک شناخت تھی، میرا ایک فخر تھا کہ میں کسی کی ہوں اور کوئی میرا ہے۔
اس کا آپ خالی خالی تھا۔ وہ تنہا رہنا چاہتی تھی، حالانکہ اس کے دوست احباب اس سے ملنے آتے تھے۔ اس کی حوصلہ افزائی کرتے تھے، مگر وہ چاہتی تھی کہ کوئی اس کے پاس نہ آئے، کوئی اس سے بات نہ کرے۔ جب ایڈورڈ کی وصیت کھولی گئی۔ اس کا بینک اکائونٹ، انشورنس اور دیگر مالیات کا حساب کیا گیا تو جیسے ایشلے کے اندر جو طاقت تھی، اس کا قطرہ قطرہ نچوڑ لیا گیا۔ ایڈورڈ چونکہ اپنے مریضوں سے فیس سختی کے ساتھ وصول نہیں کرتا تھا اس لئے اس کا بینک بیلنس بہت کم تھا۔ گھر کے معاہدے کی کچھ قسطیں ابھی باقی تھیں۔ اسی طرح کی بہت سی پیچیدہ باتیں ابھی باقی تھیں جن کو سمجھنا ایشلے کے لئے بہت مشکل تھا کیونکہ اس نے ان میں دلچسپی نہیں لی تھی۔
سب سے مشکل مرحلہ ایڈورڈ کی ذاتی استعمال کی چیزوں کو سنبھالنا اور انہیں خیراتی اداروں کو دینا تھا۔ اس کے درجن بھر پائپ، تمباکو کے ڈبے، پڑھنے کے چشمے، میڈیکل لیکچر تیار کرنے کے لئے لکھا ہوا خاکہ… وہ لیکچر جو وہ کبھی نہیں دے پائے گا۔
اس کی الماری میں سلیقے سے لٹکے ہوئے سوٹ، وہ نیلی ٹائی جو اس نے حادثے کی رات ڈنر پر پہنی تھی۔ اس کے دستانے، اسکارف، ٹوپی جو اسے سرد ہوائوں سے محفوظ رکھتے تھے۔ مگر اب قبر کی ٹھنڈک میں بھی اسے ان کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کی شیونگ کٹ، ٹوتھ برش اور اتنی چیزیں کہ وہ انہیں سمیٹ سمیٹ کر تھک گئی۔ وہ ایک روبوٹ کی طرح کام کررہی تھی۔ اس نے اس کام میں مدد کرنے کی کوئی پیشکش قبول نہیں کی تھی۔ وہ خود ایڈورڈ کو اپنے آپ سے جدا کرنا چاہتی تھی۔
پھر وہ چھوٹے چھوٹے پرچے اور کارڈ جن پر دونوں ایک دوسرے کے لئے محبت بھرے پیغامات لکھا کرتے تھے۔ ایڈورڈ کے دیئے ہوئے تحائف جو مختلف موقعوں کی یاد دلاتے تھے اور ایسی سیکڑوں چیزیں جو اس کی آنکھوں میں آنسو چھلکا دیتی تھیں۔
ایشلے کو یوں لگتا تھا جیسے کسی ظالم جادوگر نے جادو کی چھڑی گھما کر سب کچھ بدل دیا تھا۔ کچھ لمحے پہلے ایڈورڈ ہنستا مسکراتا، اپنی محبت اور چاہت کے ساتھ اس کے سامنے تھا اور آنکھ جھپکتے ہی وہ ٹھنڈی تاریک قبر میں اترگیا۔
ایشلے کے دل میں طرح طرح کے خیالات آتے تھے۔ کبھی وہ سوچتی کہ وہ ایک پختہ ذہن عورت ہے۔ اسے حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے اور دوسرے لمحے خیالات کی رو اسے کہتی کہ یہ حقیقت مار دینے والی ہے۔ پھر وہ ابھی تک کیوں زندہ ہے؟
رات بھر اسے نیند نہیں آتی تھی۔ خوشی اور محبت دم بھر میں اس سے چھین لی گئی تھی۔ وہ اس کے سوگ میں بیٹھی دنیا کو اجنبی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ کہیں رات کے آخری پہر اس کی آنکھ لگتی لیکن کچھ ہی دیر میں وہ چیخیں مارتی ہوئی بیدار ہوجاتی۔ بچے اس کے کمرے کی طرف دوڑتے اور اس کے بستر میں اس کے ساتھ لیٹ جاتے۔
’’ممی…! کہیں تم تو ہمیں چھوڑ کر نہیں چلی جائو گی؟‘‘ ٹام آنسو بھری آنکھوں سے پونچھتا۔
اور ایشلے سوچتی کہ ان بچوں کو میری ضرورت ہے۔ اگر میں نے ان کا خیال نہ رکھا تو ایڈورڈ مجھ سے ناراض ہوجائے گا۔
اسے ان بچوں کی خاطر جینا تھا۔ اسے ایڈورڈ کے حصے کا پیار بھی انہیں دینا تھا۔ انہں باپ کی کمی کا احساس نہیں ہونے دینا تھا۔ ایک محبت بھری بھرپور زندگی گزارنے کے بعد اسے اس کی کمی اور زیادہ محسوس ہوتی تھی۔ وہ تمام یادیں اور وہ ساری خوشگوار باتیں پھر کبھی نہیں ہوسکتی تھیں۔ اوہ خدایا…! ایڈورڈ کہاں چلا گیا تھا؟ کیا وہ میری آواز سن سکتا تھا؟
ایڈورڈ جا چکا تھا، مگر وہ ہر جگہ تھا۔ ایشلے کوئی نغمہ سنتی تو وہ اس میں جھلکتا تھا۔ جب سورج چڑھتا تو وہ اس میں مسکراتا تھا۔ جب چاند چاندنی بکھیرتا تو اس کا چہرہ اس میں چمکتا۔
صبح اٹھتی تو اسے ایڈورڈ کی آواز سنائی دیتی۔ ’’ڈارلنگ! آج جلدی اٹھ جائو، مجھے دو آپریشن کرنے ہیں۔ شام کو تیار رہنا، ہم کلب جائیں گے۔‘‘
ایڈورڈ اسے بہت قریب محسوس ہونے لگا تھا۔ وہ اپنے دل کی باتیں اسے بتانے لگی تھی۔ جو کچھ دن بھر ہوتا، وہ سب کا سب ایڈورڈ کو بتاتی۔ اسے اپنی آواز سنائی دیتی۔ وہ کہہ رہی ہوتی۔ ’’ایڈورڈ! میں بچوں کی طرف سے بہت فکرمند ہوں۔ وہ اسکول نہیں جانا چاہتے۔ وہ گھر سے باہر جاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ روتھ کہتی ہے کہ انہیں ڈر ہے کہ جب وہ واپس آئیں گے تو میں نہیں ہوں گی۔ ڈیڈی کی طرح میں بھی ہمیشہ کے لئے چلی جائوں گی۔‘‘
وہ ہر روز قبرستان جاتی، سرد ہوا کے تھپیڑے سہتی وہ دیر تک ایڈورڈ کی قبر کے پاس کھڑی رہتی لیکن اسے چین نہ آتا۔ وہ دل ہی دل میں کہتی۔ ایڈورڈ! مجھے بتا دو کہ تم کہاں ہو؟ میں تم سے کہاں مل سکتی ہوں؟
موت کا خوف اس کے سر پر سوار تھا۔ وہ کئی بار رات کو اٹھ کر بچوں کے کمرے میں انہیں دیکھتی کہ وہ ٹھیک تو ہیں۔ کہیں موت نے انہیں اس سے چھین تو نہیں لیا۔ وہ لوگوں کو حیرت سے دیکھتی تھی۔
وہ سب کتنے بے خبر تھے۔ ہنس رہے تھے، مسکرا رہے تھے۔ ایک دوسرے سے چہلیں کررہے تھے لیکن یہ نہیں جانتے تھے کہ ان سب کو ایک نہ ایک روز موت آئے گی تو سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ وہ جن سے محبت کرتے ہیں، وہ ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہوجائیں گے۔
پھر اس کے اندر سے کوئی کہتا کہ یہ لوگ کتنے بہادر ہیں۔ یہ سب غم اور تکلیفیں سہنے کے باوجود ہنسنے، مسکرانے کی ہمت رکھتے ہیں اور وہ کتنی بزدل ہے کہ اپنے غم کو سینے سے لگائے جیسے جینا بھول گئی ہے۔ وہ اپنے بچوں اور اپنے دوستوں کے لئے ایک مستقل پریشانی کا باعث بن گئی تھی جن کے پاس اس کے مسئلوں کا کوئی حل نہیں تھا۔
اس نے بائبل میں پڑھا تھا کہ موت کسی بھی انسان کا اختتام نہیں بلکہ اس کی ایک اور جگہ منتقل ہونا ہے۔ ایڈورڈ بھی ضرور کہیں نہ کہیں موجود تھا۔ وہ اس کو اور بچوں کو نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس نے ہر بات ایڈورڈ کو بتانے کی عادت اپنا لی۔ وہ اسے اپنے آس پاس ہی موجود محسوس ہوتا تھا۔ وہ دن بھر کی ہر بات میں اسے شریک کرتی اور اس سے اس طرح باتیں کرتی جیسے وہ اس کی باتوں کو سن رہا ہے۔
’’میں آج ٹام کی ٹیچر سے ملی تھی، وہ اب بہتر کام کرنے لگا ہے۔ روتھ کو سردی لگ گئی ہے۔ میں نے اس سے کہا ہے کہ وہ بستر میں ہی رہے۔ کل رات ہم فلورنس اور ڈگلس کے ساتھ ڈنر پر جائیں گے۔ وہ دونوں بہت اچھے ہیں، میرا
بہت خیال رکھتے ہیں۔‘‘
’’کل ڈین گھر پر آیا تھا۔ وہ پوچھ رہا تھا کہ میں پڑھانا کب شروع کروں گی؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں ابھی اپنے بچوں کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتی، ان کو میری ضرورت ہے۔ ایڈورڈ! تمہارا کیا خیال ہے، کیا مجھے یونیورسٹی جانا چاہئے…؟ ایک نہ ایک دن تو مجھے جانا ہی پڑے گا، مگر ابھی نہیں۔‘‘
’’ایڈورڈ…! سنا تم نے ڈگلس کی پروموشن ہوگئی ہے۔ وہ اسپتال کا ایم۔ایس بنا دیا گیا ہے۔ وہ اس خوشی میں پارٹی دے گا۔ وہ ایک اچھا انسان ہے۔‘‘
پھر وہ سوچتی کہ کیا واقعی ایڈورڈ اس کی باتیں سنتا ہے؟ وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی تھی، لیکن اسے اپنے شب وروز میں شریک کرکے اسے بہت سکون ملتا تھا۔ وہ ایڈورڈ کو ہر بات بتائے بغیر نہیں رہ سکتی تھی۔
٭…٭…٭
ایشلے رات کے لئے کھانا بنا رہی تھی، جب فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے ہاتھ پونچھ کر ریسیور اٹھایا تو دوسری طرف کوئی آپریٹر تھا۔ وہ کہہ رہا تھا۔ ’’یہ ایوان صدر ہے۔ جناب صدر… مسز ایشلے سے بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
ایشلے کو یاد آیا کہ ایسی ہی کال نے پہلے سارے گھر کو کتنا پرجوش بنا دیا تھا، مگر اب یہ سب کچھ بے معنی ہوچکا تھا۔ اس نے کچھ بے دلی سے کہا۔ ’’میں بات کررہی ہوں مگر…!‘‘
’’آپ ہولڈ کریں۔‘‘
چند ہی لمحوں بعد صدر کی جانی پہچانی آواز سنائی دی۔ ’’مسز ایشلے…! ہم سب کو آپ کے شوہر کی اچانک وفات کی خبر سے بہت صدمہ ہوا۔ وہ یقیناً ایک بہت اچھے انسان تھے۔‘‘
’’شکریہ جناب صدر…! آپ کی بہت عنایت ہے کہ آپ نے اس موقع پر پھول بھیجے۔‘‘
’’محترمہ…! میں آپ کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا اور پھر اس حادثے کو گزرے بہت کم وقت ہوا ہے لیکن اب آپ کے گھریلو حالات میں تبدیلی آگئی ہے تو میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ ہماری گزشتہ پیشکش پر غور فرمائیں۔ ہم اب بھی آپ کو سفیر بنانا چاہتے ہیں۔‘‘
’’لیکن میرا خیال ہے کہ…!‘‘ ایشلے نے کچھ کہنا چاہا۔
مگر صدر نے اس کی بات کاٹ دی۔ ’’مسز ایشلے…! میں اپنے ایک نمائندے کو آپ کے پاس بھیج رہا ہوں۔ اس کا نام راجر ہے۔ ہم آپ کے شکرگزار ہوں گے اگر آپ اس سے مل لیں۔‘‘ ایشلے پریشان ہوگئی کہ جواباً کیا کہے۔ لیکن انکار کرنا بھی مناسب نہیں تھا اسی لئے اس نے فیصلہ کیا کہ اسے صدر کے نمائندے سے مل لینا چاہئے اور باوقار انداز میں اسے اپنا فیصلہ سنانا چاہئے۔
’’ٹھیک ہے صدر محترم…! میں آپ کے نمائندے سے مل لوں گی۔‘‘
فلورنس یہ سن کر بہت حیران ہوئی۔ ’’ایشلے…! کمال ہوگیا۔ صدر صاحب اپنے فارن افیئر ایڈوائزر کو تم سے بات کرنے کے لئے بھیج رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ تم یہ پیشکش قبول کرلو گی؟‘‘
’’یہ ضروری نہیں ہے فلورنس…! میں نے ان سے صرف بات کرنے کا وعدہ کیا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے جو تمہارا دل چاہے، جو بات تمہیں خوشی دے، تم وہی کرنا۔‘‘ فلورنس بولی۔
ایشلے نے راجر کی تصویر بھی دیکھی تھی۔ اس کی ایک پریس کانفرنس بھی ٹی وی پر دیکھی تھی۔ وہ جب اس سے ملنے آیا تو ایک خوش اخلاق انسان معلوم ہورہا تھا۔ اس نے بیٹھتے ہی کہا۔ ’’مسز ایشلے…! مجھے اجازت دیجئے کہ میں ایک بار پھر صدر محترم کی طرف سے آپ کی خدمت میں تعزیت پیش کروں۔ اس افسوسناک سانحے پر… جو حال ہی میں آپ کو پیش آیا۔‘‘
’’شکریہ مسٹر راجر…!‘‘ ایشلے نے اس سے بچوں کا تعارف کرایا۔ تب تک ملازمہ نے کھانا لگا دیا۔ کھانا کھاتے ہوئے وہ مختلف مسائل پر گفتگو کرتے رہے جو حکومت کو پیش آسکتے تھے۔
اس دوران راجر گفتگو کو اس ملک تک لے آیا جہاں وہ ایشلے کو بطور سفیر بھیجنا چاہتے تھے۔ ایشلے کا ان ملکوں کے بارے میں گہرا مطالعہ تھا۔ اس کی دو کتابیں بھی اسی موضوع پر تھیں۔ وہ محسوس کررہی تھی کہ راجر اس کی قابلیت سے مرعوب ہوا تھا۔ تمام وقت وہ اسے اس طرح تنقیدی نگاہوں سے دیکھتا رہا جیسے کسی چیز کو مائیکرو اسکوپ سے دیکھا جاتا ہے۔ آخرکار وہ بولا۔ ’’مسز ایشلے…! میں آپ کو بڑی بے تکلفی سے بتانا چاہتا ہوں کہ مجھے صدر محترم کے اس انتخاب سے اتفاق نہیں تھا لیکن آپ سے مل کر، آپ کی گفتگو سن کر میں قائل ہوگیا ہوں کہ آپ کو ہی اس ملک میں بطور سفیر ہونا چاہئے۔ یہ ہمارے ملک کے لئے نیک نامی کا باعث ہوگا۔‘‘
’’لیکن مجھے اس کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ نہ ہی میں کوئی سیاسی لیڈر ہوں، نہ میرا کوئی سیاسی پس منظر ہے۔‘‘
’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ بہت سے ایسے سفیر بھی کامیاب ہوئے ہیں جنہیں ناتجربے کار کہا جاسکتا ہے۔‘‘ اس نے کئی مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں آپ کو ایسی درجنوں مثالیں پیش کرسکتا ہوں۔ ان لوگوں کی جن کو سفارت کاری کا کوئی تجربہ نہیں تھا لیکن وہ قابل تھے، اپنے ملک سے محبت کرتے تھے اور ان کے بارے میں لوگ اچھی رائے رکھتے تھے۔‘‘
’’آپ تو ایسے بات کررہے ہیں جیسے یہ معاملہ بہت سادہ ہو؟‘‘
’’مسز ایشلے! جیسا آپ بھی جانتی ہیں کہ گورنمنٹ نے آپ کو ہر طرح سے جانچا ہے۔ آپ ایک بہت قابل خاتون ہیں، ملک کو آپ کی ضرورت ہے۔‘‘
ایشلے بغور اس کی بات سنتی رہی۔ پھر بردباری سے بولی۔ ’’دیکھئے مسٹر راجر! میں آپ پر اور جناب صدر پر یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ میں آپ کی اس پیشکش کی بہت قدر کرتی ہوں لیکن میرے حالات کے مطابق میری سب سے پہلی ترجیح میرے بچے ہیں۔ میں انہیں نظرانداز نہیں کرسکتی۔‘‘
’’اس ملک میں سفارت کاروں کے بچوں کے لئے بہت اچھا اسکول ہے۔ آپ کے بچے ایک دوسرے ملک میں اپنی سفیر ماں سے وہ کچھ سیکھیں گے جو وہ اس چھوٹے سے شہر میں رہ کر نہیں سیکھ سکتے۔‘‘
راجر کے پاس ہر سوال کا جواب موجود تھا۔ گفتگو اس انداز میں نہیں ہورہی تھی جو ایشلے چاہتی تھی۔ اس نے راجر سے کہا۔ ’’میں اس پر ضرور سوچوں گی۔‘‘ (جاری ہے)