’’اوہ خدایا…!‘‘ وہ پریشان ہوئی۔ ’’کون سے کاغذات تھے؟‘‘
’’میک اَپ کی فہرست اور ایسی ہی گھریلو چیزیں جو تم منگوانا چاہتی تھیں۔ یہ یاد رکھو کہ تمہارے یہاں صفائی کرنے والی خاتون بھی ان لوگوں کی جاسوس ہے۔ یہ لوگ چھوٹی سے چھوٹی معلومات بھی اکٹھی کرتے ہیں اس لئے کسی چیز کو معمولی نہ سمجھو… یہ ہے سبق نمبر ایک کہ رات کو ہر چیز سیف میں لاک کرو یا ضائع کردو… کوئی چیز ان کے ہاتھ نہیں لگنی چاہئے۔‘‘
’’اور سبق نمبر دو کیا ہے؟‘‘ ایشلے نے سرد مہری سے پوچھا۔
وہ کھل کر مسکرایا۔ ’’وہ یہ کہ ہمیشہ اپنے دن کا آغاز اپنے ڈپٹی کے ساتھ کافی پینے سے کرو گی۔ تم کیسی کافی پسند کرو گی؟‘‘
’’میں… سیاہ!‘‘
’’بہت خوب…! تمہیں اپنا خیال رکھنا چاہئے۔ ان کے کھانے وزن بڑھانے والے ہیں۔‘‘ وہ اپنے آفس کے دروازے کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔ ’’میں اپنی کافی ہمیشہ خود بناتا ہوں۔ امید ہے تم پسند کرو گی۔‘‘
ایشلے اپنے غصے کو دباتی سوچنے لگی کہ اس شخص سے چھٹکارا کیسے حاصل کیا جاسکتا تھا جبکہ وہ اپنا عمل دخل بڑھانا چاہتا تھا۔
وہ بھاپ چھوڑتے ہوئے دو مگ ہاتھ میں لئے واپس آیا اور انہیں میز پر رکھ دیا۔ ایشلے نے بات کرنے کیلئے کوئی موضوع تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ’’میں چاہتی ہوں کہ بچوں کا اسکول میں جلد داخلہ ہوجائے۔‘‘
’’میں نے اس کا انتظام پہلے ہی کردیا ہے۔ ڈرائیور انہیں صبح چھوڑ دے گا اور واپسی پر گھر لے آئے گا۔‘‘
ایشلے چونکی۔ ’’اوہ شکریہ…!‘‘
’’جب تمہیں موقع ملے تو تم خود بھی اسکول کو دیکھ آنا۔ یہ ایک چھوٹا سا اسکول ہے سفارت کاروں کے بچوں کیلئے…! ہر کلاس میں آٹھ یا دس بچے ہیں۔ یہاں کے استاد بہت اچھے ہیں۔‘‘
’’ہاں…! میں پہلی فرصت میں اسکول دیکھنے کی کوشش کروں گی۔‘‘
وہ مسکرایا۔ ’’مجھے امید ہے کہ کل رات تمہاری نڈر اور بہادر لیڈر سے ملاقات اچھی رہی ہوگی؟‘‘
’’ہاں…! وہ ایک دلچسپ شخصیت ہیں۔ ان کا رویہ بہت خوشگوار ہے جب تک کہ ان کا موڈ اچھا ہو۔ اگر وہ ناراض ہوجائیں تو آپ کو اپنے سر سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے۔‘‘ ایشلے کے منہ سے نکلا اور وہ گھبرائی۔ ’’شاید ایسی باتیں ببل روم میںہی کرنی چاہئیں۔‘‘
’’نہیں! ضروری نہیں کیونکہ صبح ہم نے ان کے سارے جاسوسی کے آلات کو ختم کردیا ہے۔ ہاں یہ خیال رکھنا کہ صدر مملکت تمہیں رجھانے کی کوششیں نہ کرے۔ وہ خواتین کو بے وقوف بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اس کے لوگ اسے پسند نہیں کرتے مگر وہ مجبور ہیں، کچھ کر نہیں سکتے۔ سراغرساں ہر جگہ گھسے ہوئے ہیں۔ ہر تین لوگوں میں سے ایک سراغ رساں ہے۔ اگر کوئی کسی غیر ملکی کو اپنے اپارٹمنٹ میں مدعو کرے تو اسے پہلے گورنمنٹ سے اجازت لینا ہوگی۔‘‘ وہ بتا رہا تھا۔ ’’یہاں کسی بھی شہری کو گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ اگر وہ حکومت کے خلاف کوئی بیان دے یا کہیں کچھ لکھے۔‘‘
’’پھر مقدمہ چلتا ہے…؟‘‘
’’ہاں…! کبھی کبھی نام نہاد مقدمہ چلتا ہے جسے دیکھنے کیلئے تمام اخبار نویس مدعو کئے جاتے ہیں لیکن انجام سب کا ایک ہی ہوتا ہے۔ وہ پولیس کی نگرانی میں کسی حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں یا انہیں جزیرے میں بھیج دیا جاتا ہے۔ میری ان لوگوں سے بات ہوئی ہے جنہوں نے وہ جزیرہ دیکھا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہاں حالات بہت خوفناک ہیں۔‘‘
’’وہاں سے فرار کا کوئی راستہ نہیں ہوگا؟‘‘ ایشلے نے افسردگی سے کہا۔
’’نہیں…! اور کافی چاہئے؟‘‘
’’نہیں… شکریہ…!‘‘
’’اس صدر مملکت نے عوام کو اس قدر ڈرایا ہوا ہے کہ ان میں بغاوت کرنے کا حوصلہ ہی ختم ہوگیا ہے۔ ان کا معیار زندگی بہت پست ہے۔ معمولی چیزیں حاصل کرنے کے لئے بھی لوگوں کو قطار میں لگنا پڑتا ہے۔‘‘
’’اس قسم کے حالات میں یہ ہوسکتا ہے کہ ان کی مدد کرنے کی کوئی راہ نکالی جائے؟‘‘
’’ہاں…!‘‘ مائیک سلاڈی نے اثبات میں سر ہلایا۔
مائیک سلاڈی چلا گیا تو ایشلے اس کے بارے میں سوچنے لگی کہ وہ مغرور اور بدتمیز تو ہے مگر بچوں کی بہتری سے غافل نہیں تھا۔ وہ اس ملک کے لوگوں کی بھلائی چاہتا تھا۔ گویا وہ دل کا برا نہیں تھا مگر شاید اب بھی نا قابلِ اعتبار تھا۔
دوپہر کو وہ ایک وزیر کے ساتھ لنچ پر مدعو تھی۔ وہ واپس آئی تو اس نے سیکرٹری کو کچھ مشیروں کو بلانے کے لئے کہا۔
وہ کچھ ہچکچا کر بولی۔ ’’وہ لوگ ایک کانفرنس میں ہیں۔‘‘
’’کانفرنس! کس کے ساتھ…؟‘‘
’’تمام مشیروں کے ساتھ۔‘‘
’’کیا تم کہہ رہی ہو کہ ایک اسٹاف میٹنگ میرے بغیر جاری ہے؟‘‘
’’جی میڈم…!‘‘
’’اور مجھے اندازہ ہورہا ہے کہ یہ میٹنگ پہلی مرتبہ نہیں ہورہی۔‘‘
’’جی میڈم…!‘‘
’’اور یہاں کیا کچھ ہورہا ہے میری غیر موجودگی اور عدم واقفیت میں؟‘‘
’’تمام لوگ آپ کی اجازت کے بغیر کیبل پیغامات بھیج رہے ہیں۔‘‘
’’ہوں!‘‘ ایشلے نے سر ہلایا۔ ’’ڈورتھی …! دوپہر تین بجے تمام مشیروں کی میٹنگ بلائو۔‘‘
’’اوکے میڈم!‘‘
٭…٭…٭
تین بجے ایشلے کانفرنس روم میں اپنی سیٹ پر بیٹھی تو تمام مشیر موجود تھے۔ ایشلے نے پروقار انداز سے انہیں مخاطب کیا۔ ’’میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گی۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ لوگ بہت مصروف ہیں۔ یہ بات میرے علم میں آئی ہے کہ یہاں میری غیر موجودگی میں اسٹاف میٹنگز جاری ہیں۔ آئندہ جو کوئی بھی ایسی میٹنگ میں شریک ہوگا، وہ خود کو فوری طور پر فارغ سمجھے۔‘‘ چند لمحے توقف کے بعد اس نے کہا۔ ’’مجھے یہ بھی پتا چلا ہے کہ یہاں سے کیبل پیغامات بھی بھیجے جارہے ہیں، میرے علم میں لائے بغیر…! سفارت کاری کے قانون کے مطابق سفیر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی کو نامزد کردے یا سبکدوش کردے۔‘‘ پھر اس نے زرعی مشیر کی طرف دیکھا۔ ’’کل تم نے ایک کیبل پیغام بھیجا ہے۔ میں نے اس بارے میں حکومت کو بھی مطلع کردیا ہے۔ تم ہمارے سفارت خانے سے سبکدوش کردیئے گئے ہو۔‘‘ پھر اس نے ان چہروں کی طرف دیکھا جن کی آنکھوں میں نفرت آمیز حیرت تھی۔ پھر بولی۔ ’’آئندہ اگر کوئی میرے علم میں لائے بغیر کیبل پیغام بھیجے گا اور وضاحت پیش کرنے میں ناکام رہے گا تو وہ اگلی فلائٹ سے وطن واپس جائے گا۔ اوکے! آج کے لئے اتنا کافی ہے۔‘‘
کمرے میں یکلخت خاموشی چھا گئی۔ حیرت بھری آنکھیں اس کی طرف دیکھتی رہ گئیں۔ پھر آہستہ آہستہ سب ایک ایک کرکے اٹھنے لگے۔ وہ سب کمرے سے باہر نکل گئے۔ سب سے آخر میں مائیک سلاڈی رہ گیا جس کے چہرے پر ایک تجسس اور آنکھوں میں منصوبہ سازی جھلک رہی تھی۔
’’کیا خیال ہے…؟‘‘ ایشلے نے پوچھا۔
ڈورتھی مسکرائی۔ ’’زبردست یہ ایک مختصر اور پراثر میٹنگ تھی۔ ایسی میٹنگ میں نے کبھی نہیں دیکھی۔‘‘
’’تو پھر چلو ذرا کیبل سیکشن والوں کو بھی سبق سکھائیں۔‘‘ ایشلے نے کہا اور ڈورتھی کے ساتھ کیبل روم کی طرف چل پڑی۔
آفس انچارج اسے دیکھ کر اپنی جگہ سے اٹھا۔ ’’میڈم ایمبیسڈر! کیا میں آپ کی کوئی مدد کرسکتا ہوں؟‘‘
’’شکریہ…! میں آج تمہاری مدد کرنے کیلئے آئی ہوں۔‘‘ ایشلے کا لہجہ انتہائی سنجیدہ تھا۔
انچارج پریشان ہوکر بولا۔ ’’یس میڈم!‘‘
’’تم کافی دنوں سے مختلف کیبل میسج میرے دستخطوں کے بغیر بھیج رہے ہو… تم جانتے ہو کہ ایسے میسج غیر قانونی ہوتے ہیں؟‘‘
’’محترمہ! دراصل تمام مشیر…!‘‘ آفس انچارج نے کچھ کہنا چاہا۔
’’آج اور ابھی سے اگر کوئی کیبل میرے دستخطوں کے بغیر تمہارے پاس آئے، اسے سیدھا میرے پاس لے کر آئو۔ یہ بات تمہاری سمجھ میں آگئی ہے؟‘‘ ایشلے نے سنگین لہجے میں پوچھا۔
اس کے چہرے پر حیرانی اور پریشانی کے تاثرات گڈمڈ ہوگئے۔’’یس
میڈم!‘‘
اسی رات ایشلے نے کچھ نوٹس بنائے اور انہیں اپنے بیڈ کے ساتھ رکھ دیا۔ صبح جب وہ باتھ روم سے باہر آئی تو اس نے کاغذات کا جائزہ لیا۔ ان کی ترتیب بدلی ہوئی تھی۔
’’اوہ…!‘‘ ایشلے سوچنے لگی کہ مائیک ٹھیک کہتا تھا۔ یہاں کوئی جگہ محفوظ نہیں تھی۔
ناشتے پر وہ بچوں کے ساتھ اکیلی تھی۔ اس نے بلند آواز میں کہا۔ ’’یہ لوگ ہیں تو بہت اچھے لیکن یہ ہمارے ملک سے بہت پیچھے ہیں۔ تمہیں معلوم ہے کہ یہاں ہمارے رہائشی علاقوں میں نہ ہیٹر ہیں، نہ پانی نہ واش روم کی مرمت کا کام ہورہا ہے۔ ہماری شکایات پر کوئی دھیان نہیں دے رہا۔‘‘
بچے حیرت سے ایشلے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ایشلے نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’میرا خیال ہے کہ ہمیں اس ملک کو سفارت کاری کے اصول سکھانا ہوں گے۔‘‘
اگلے دن سیکرٹری نے اسے بتایا۔ ’’نہ جانے میڈم ایمبیسڈر! آپ نے ایسا کیا کیا ہے کہ آج ہمارے سارے رہائشی علاقے میں مرمت کا کام کرنے کے لئے لوگ آئے ہوئے ہیں اور بہت دل لگا کر کام کررہے ہیں۔‘‘
ایشلے مسکرائی۔ ’’ان لوگوں سے ذرا سلیقے کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
٭…٭…٭
جیل کا ماحول اندر سے زیادہ سنگین تھا۔ راہداریاں بہت تنگ تھیں۔ وہاں چھوٹی چھوٹی کوٹھریوں کا جیسے ایک جنگل سا پھیلا ہوا تھا جہاں مسلح گارڈ پہرہ دے رہے تھے۔ ایک گارڈ نے ایشلے کو ایک چھوٹے سے کمرے میں بٹھا دیا جس کے پچھلے کمرے میں قیدیوں کی کوٹھری تھی۔ اس نے اپنے پیچھے دروازہ بند کرتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کے پاس دس منٹ ہیں‘‘
’’شکریہ!‘‘ ایشلے نے کہا اور کوٹھری کا دروازہ کھولا۔
وہ لڑکی ایک چھوٹی سی میز پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں اور اس نے قیدیوں کا لباس پہن رکھا تھا۔ اس کے مشیر نے بتایا تھا کہ وہ ایک انیس سالہ خوبصورت لڑکی ہے۔ وہ اس وقت دس سال عمر میں بڑی نظر آرہی تھی۔ اس کا چہرہ پیلا تھا۔ اس کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں، اس کے بال الجھے ہوئے تھے۔
’’ہیلو!‘‘ ایشلے نے کہا۔ ’’میں تمہارے ملک کی سفیر ہوں۔‘‘
لڑکی یہ سنتے ہی بری طرح رونے لگی۔ ہچکیوں سے اس کا سارا جسم لرز رہا تھا۔ ایشلے نے اپنے بازو اس کے گرد لپیٹ دیئے اور تسلی آمیز لہجے میں بولی۔ ’’چپ ہوجائو شاباش! فکر مت کرو، سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
’’نہیں…! کچھ ٹھیک نہیں ہوگا۔‘‘ وہ سسکیاں لیتے ہوئے بولی۔ ’’اگلے ہفتے مجھ پر باقاعدہ مقدمہ چلنے والا ہے… میں مر جائوں گی اگر مجھے یہاں پانچ سال رہنا پڑا… میں مر جائوں گی۔‘‘
ایشلے کچھ دیر اسے تسلی دیتی رہی۔ پھر بولی۔ ’’اچھا…! مجھے جلدی سے بتائو کہ کیا ہوا تھا؟ وقت بہت کم ہے۔‘‘
لڑکی نے ایک لمبا سانس لیا اور خود پر قابو پاتے ہوئے بولی۔ ’’میں ایک طالبہ ہوں۔ میری اس سے ملاقات ہوئی، ہماری دوستی ہوگئی، ہم اکٹھے وقت گزارنے لگے۔ میری ایک دوست نے مجھے تھوڑی سی ’’میری جوانا‘‘ دی کہ میں اسے آزما کر دیکھوں۔ سارجنٹ نے بھی میرے ساتھ اسے استعمال کیا۔ وہ میرے ساتھ بہت دیر تک رہا۔ اگلے دن پولیس نے مجھے منشیات رکھنے کے جرم میں گرفتار کرلیا اور یہاں اس دوزخ میں ڈال دیا۔‘‘ وہ بے بسی سے سر جھٹکتے ہوئے بولی۔ ’’انہوں نے بتایا ہے کہ اس کی سزا پانچ سال ہے۔‘‘
’’میں تمہارے لئے جو ہوسکا، کروں گی۔‘‘ ایشلے نے اسے تسلی دی اور جیل سے باہر نکل آئی۔
اسے اپنے مشیروں کی باتیں یاد آرہی تھیں کہ اس لڑکی کیلئے کچھ نہیں ہوسکتا۔ اسے پانچ سال قید بھگتنی ہوگی۔ وہ تمام راستے اس پر سوچتی آئی۔ اس نے لڑکی کی گرفتاری کی جو رپورٹ دیکھی تھی، اس پر کیپٹن اورل کے دستخط تھے۔
لڑکی پر جرم ثابت تھا۔ اس کے کمرے سے منشیات برآمد ہوئی تھی لیکن ایشلے کو اس کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا تھا ورنہ اس لڑکی کی زندگی برباد ہوسکتی تھی۔ اپنے آفس آکر ایشلے نے کچھ ضروری فون کئے، کچھ فائلیں دیکھیں اور مائیک سے کہا کہ کیپٹن سے اس کی ملاقات کا انتظام کرے۔
’’تم خواہ مخواہ وقت ضائع کررہی ہو۔ کیپٹن کسی چٹان کی طرح سخت ہے۔ اس کو اپنی جگہ سے ہلانا بہت مشکل ہے۔‘‘
ایشلے نے اس کی بات کا جواب دینا ضروری خیال نہیں کیا۔
٭…٭…٭
کیپٹن چھوٹے قد، گہرے سانولے رنگ، گنجا اور تمباکو سے داغدار دانتوں والا ایک عجیب سا انسان تھا۔ وہ متجسس نگاہوں سے ایشلے کی طرف دیکھ رہا تھا۔
’’میڈم ایمبیسڈر! آپ مجھ سے کوئی بات کرنا چاہتی تھیں؟‘‘ وہ کہنے لگا۔
’’شکریہ…! آپ تشریف لائے، مجھے اس لڑکی کے کیس کے بارے میں بات کرنی تھی جس کو گرفتار کیا گیا ہے۔‘‘
’’اوہ…! وہ منشیات فروش…؟ محترمہ! ہمارے ملک میں قوانین بہت سخت ہیں منشیات کا دھندا کرنے والوں کے لئے!‘‘
’’بہت خوب…!‘‘ ایشلے نے کہا۔ ’’یہ قابل تعریف ہے۔ منشیات کی خرید وفروخت کے سلسلے میں قوانین کو واقعی سخت ہونا چاہئے تاکہ اس کی روک تھام ہوسکے۔‘‘
کیپٹن بغور اس کی طرف دیکھ رہا تھا جیسے سوچ رہا ہو کہ وہ اس سے کیا کہنا چاہتی ہے۔ وہ بولا۔ ’’تو گویا آپ کو مجھ سے اتفاق ہے؟‘‘
’’یقیناً اتفاق ہے۔ جو شخص بھی منشیات کا دھندا کرتا ہے، اس کی جگہ جیل کے علاوہ اور کہیں نہیں مگر یہ لڑکی منشیات فروش نہیں ہے۔ اس نے صرف اپنے محبوب کو منشیات استعمال کرنے کی دعوت دی اس کے علاوہ اس نے کچھ نہیں کیا۔‘‘
’’یہ ایک ہی بات ہے کہ اگر وہ لڑکی…!‘‘
’’نہیں کیپٹن!‘‘ ایشلے نے اس کی بات کاٹی۔ ’’اس کا محبوب آپ کی پولیس فورس کا ایک سارجنٹ ہے۔ اس نے بھی ’’میری جوانا‘‘ نامی منشیات استعمال کی ہے۔ کیا اسے بھی سزا دی گئی ہے؟‘‘
’’اسے کیوں سزا دی جائے…؟ وہ تو اس مجرمانہ فعل کے ثبوت اکٹھے کررہا تھا۔‘‘
’’آپ کے اس سارجنٹ کی بیوی اور تین بچے بھی ہیں۔‘‘
کیپٹن کی تیوریوں پر بل آئے۔ ’’ہاں…! اور آپ کی اس ہم وطن لڑکی نے خواہ مخواہ اس سے محبت کی پینگیں بڑھائی ہیں۔‘‘
’’کیپٹن…! اس لڑکی کی عمر صرف انیس سال ہے۔ وہ ایک طالبہ ہے اور آپ کا سارجنٹ پینتالیس سال کا ہے۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ کس نے کس کو جال میں پھنسایا ہوگا؟‘‘
’’عمر کا فرق کوئی معنی نہیں رکھتا۔‘‘ وہ اکھڑپن سے بولا۔
’’کیا سارجنٹ کی بیوی کو اپنے شوہر کے کرتوت کی خبر ہے؟‘‘
’’اسے کیوں خبر ہونی چاہئے؟‘‘
’’کیونکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی کو جال میں پھنسایا گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم اس معاملے کو تھوڑی شہرت دے دیں تو بین الاقوامی پریس اس میں بہت دلچسپی لے گا بلکہ حیران ہوجائے گا۔‘‘
’’اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘ وہ اپنی برہمی چھپا کر بولا۔
’’کیونکہ وہ سارجنٹ اتفاق سے آپ کا داماد بھی ہے۔‘‘
’’نہیں…! مجھے صرف انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے غرض ہے۔‘‘ وہ اپنا غصہ نہیں چھپا سکا۔
’’میں بھی یہی چاہتی ہوں۔‘‘ ایشلے نے کہا اور تھوڑے توقف کے بعد بولی۔ ’’آپ کی بیٹی کو اس کی خبر کرنے کی ضرورت نہیں کہ اس کا شوہر کیا کرتا پھرتا ہے، کس طرح لڑکیوں کو پھانستا ہے، سیاحوں کے ساتھ کیا برتائو کرتا ہے، لہٰذا مناسب یہی ہے کہ آپ خاموشی سے لڑکی کو رہا کردیں اور میں اسے واپس اپنے ملک بھیج دوں۔ کیا خیال ہے آپ کا کیپٹن…؟‘‘
وہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر اسے ماننا ہی پڑا۔ ’’آپ ایک بہت ذہین خاتون ہیں۔‘‘
’’شکریہ! آپ بھی کسی سے کم نہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ لڑکی کو دوپہر تک میرے آفس میں پہنچا دیں گے۔ وہ پہلی فلائٹ سے واپس چلی جائے گی۔‘‘
’’میں اس کے لئے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے کی کوشش کروں گا۔‘‘
’’مجھے امید ہے اس کا اچھا نتیجہ نکلے گا۔ شکریہ کیپٹن!‘‘ ایشلے نے گرمجوشی سے کہا۔
اگلی صبح وہ لڑکی شکر گزاری کے جذبوں سے سرشار اپنے ملک اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئی۔ سفارت خانے میں
میگوئیاں ہونے لگیں۔ مائیک سلاڈی بھی یہ کہے بغیر نہیں رہ سکا۔ ’’یہ تم نے کیسے کرلیا…؟‘‘
’’میں نے تمہاری تجویز کے مطابق اپنی کشش سے کام لیا ہے۔‘‘ ایشلے کا لہجہ طنزیہ تھا۔
٭…٭…٭
دن ہمیشہ کی طرح بہت مصروف تھا۔ سات بجے وہ اپنے گھر واپس آئی تو بچے اس کا انتظار کررہے تھے۔ آج اسکول میں ان کا پہلا دن تھا۔ ایشلے نے آتے ہی پوچھا۔ ’’اسکول میں تمہارا دن کیسا رہا؟‘‘
’’اسکول مجھے بہت پسند آیا۔‘‘ روتھ نے جواب دیا۔ ’’آپ کو پتا ہے کہ اسکول میں بائیس ملکوں سے تعلق رکھنے والے بچے ہیں۔ ایک بہت اسمارٹ لڑکا سارا وقت میری طرف دیکھتا رہا۔‘‘
’’ان کی سائنس لیبارٹری بہت اچھی ہے۔‘‘ ٹام بولا۔ ’’کل ہم یہاں کے مینڈک ڈائسیکشن کریں گے۔‘‘
’’اوہ…! یہ تو بہت ہی خوفناک بات ہے۔‘‘ روتھ نے جھرجھری لی۔
’’چلو یہ بہت اچھا ہوا کہ تمہیں اسکول میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا اور تمہیں اسکول پسند بھی آگیا۔‘‘
’’انکل مائیک کی وجہ سے سب ٹھیک رہا۔‘‘ روتھ بولی۔
’’انکل مائیک…! ان کا تمہارے اسکول سے کیا تعلق؟‘‘
’’انہوں نے آپ کو بتایا نہیں کہ وہ ہمیں صبح اسکول لے کر گئے تھے اور وہی دوپہر میں واپس لے کر آئے۔ انہوں نے تمام ٹیچرز سے ہمارا تعارف کروایا۔ وہ سب کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔‘‘ روتھ نے بتایا۔
’’وہ وہاں بہت سے بچوں کو بھی جانتے ہیں۔ انہوں نے ان سے بھی ہمارا تعارف کروایا۔ سب لوگ انہیں پسند کرتے ہیں۔ وہ ایک بہت اچھے انسان ہیں۔‘‘
’’ہاں… بہت اچھے! ضرورت سے کچھ زیادہ ہی۔‘‘ ایشلے نے دل ہی دل میں کہا۔
اگلی صبح جب مائیک اس کے آفس میں آیا تو ایشلے نے کہا۔ ’’بہت شکریہ کہ تم روتھ اور ٹام کے ساتھ اسکول گئے۔‘‘
’’ہاں!‘‘ اس نے سر ہلایا۔ ’’بچوں کے لئے کسی غیر ملک میں آسانی سے رہنے کا عادی ہوجانا ذرا مشکل ہوتا ہے۔ بچے بہت اچھے اور تمیزدار ہیں۔‘‘
ایشلے سوچنے لگی کہ وہ اپنے اس رویئے سے خود کو اس کا خیرخواہ ثابت کرنا چاہتا ہے جبکہ وہ چاہتا ہے کہ وہ بحیثیت سفیر ناکام ہوجائے مگر وہ اسے اور اس کے ارادوں کو ناکام بنا دے گی۔
ہفتے کی دوپہر ایشلے بچوں کو کلب لے گئی۔ جب وہ اندر داخل ہوئے تو اس نے دیکھا کہ ایک طرف مائیک کھڑا کسی خاتون سے ہنس ہنس کر باتیں کررہا ہے۔ یہ کون ہوسکتی ہے؟ اس نے سوچا۔
وہ ذرا آگے بڑھی تو اس کی نگاہ پھر اس خاتون پر پڑی۔ وہ اس کی سیکرٹری ڈورتھی تھی۔ وہ دل ہی دل میں متفکر ہوئی۔ اس کا دشمن اس کی ذاتی عہدیدار سے کتنا قریب تھا۔ کیا وہ اپنے محاذ کو اس کے خلاف تقویت دے رہا تھا۔
سامنے والی میز پر ہیرٹ تنہا بیٹھی تھی۔ ایشلے اس سے اجازت لے کر اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔
ہیرٹ نے اپنے پرس سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر پوچھا۔ ’’سگریٹ…!‘‘
’’نہیں… شکریہ! میں سگریٹ نہیں پیتی۔‘‘
’’اس جیسے ملک میں کوئی شخص سگریٹ کے بغیر گزارا نہیں کرسکتا۔‘‘ ہیرٹ سگریٹ سلگاتے ہوئے بولی۔
’’کیوں…؟ میں سمجھی نہیں۔‘‘ ایشلے نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔
وہ مسکرائی۔ ’’اگر آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں تو نرس کو سگریٹ دینے پڑیں گے۔ اگر گوشت خریدنا ہو، گاڑی ٹھیک کروانی ہو، الیکٹریشن سے کوئی کام لینا ہو، انہیں پہلے سگریٹ کی رشوت دینا ہوگی۔ اگر آپریشن سے پہلے نرسوں کو سگریٹ پیش نہ کئے تو وہ آپ کے زخم پر پرانی پٹیاں لپیٹ دیں گی۔‘‘
’’مگر کیوں…؟‘‘
’’اس لئے کہ یہاں ہر چیز کی کمی ہے۔ یہاں ہر چیز کیلئے قطار میں لگنا پڑتا ہے اور پھر بھی وہ چیز دستیاب نہیں ہوتی۔ اس بارے میں ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک شخص قطار میں لگا ہوا تھا۔ پانچ گھنٹے بعد بھی جب اسے کچھ نہیں ملا تو وہ غصے میں پاگل ہوکر چلایا۔ ’’میں صدر کے محل جارہا ہوں، اس کو قتل کرنے!‘‘
دو گھنٹے بعد وہ پھر واپس آگیا۔ اس کے دوستوں نے پوچھا کہ کیا اس نے صدر کو قتل کردیا تو وہ بولا۔ ’’نہیں وہاں اس سے بھی زیادہ لمبی قطار ہے جو صدر کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
ایشلے کو بے ساختہ ہنسی آگئی۔ اس کی نگاہ اس گوشے تک گئی جہاں ڈورتھی اور مائیک ایک دوسرے کے بازو میں بازو ڈالے بیرونی گیٹ کی طرف جارہے تھے۔
ایشلے بچوں کو لے کر گھر پہنچی تو کافی تھکی ہوئی تھی اس لئے صحیح طرح سے کھانا نہیں کھا سکی تھی۔ رات ڈھائی بجے اس کی آنکھ کھلی تو اسے کچھ بھوک محسوس ہوئی۔ وہ نیچے گئی کہ کچن سے کچھ لے کر اپنی بھوک مٹائے۔ اس نے جیسے ہی فریج کھولا، اسے ایک شور سا سنائی دیا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔ باورچی، بٹلر اور دوسرے تین ملازم وہاں موجود تھے۔
’’میڈم! آپ کو کیا چاہئے؟‘‘ باورچی نے پوچھا۔
’’میں بس تھوڑا سا کچھ کھانا چاہتی تھی۔‘‘ ایشلے نے کہا۔ لیکن اس کی بھوک یہ دیکھ کر اڑ گئی تھی کہ وہ تمام نوکر جاسوسی کیلئے ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔
شیف آگے بڑھا اور کچھ بدمزہ سے لہجے میں بولا۔ ’’میڈم…! آپ مجھے بتا دیتیں میں آپ کیلئے کچھ بنا دیتا۔‘‘
وہ سب کے سب اس کی طرف یوں دیکھ رہے تھے جیسے اس نے بے وقت نیچے آکر کوئی غلطی کردی ہے۔ ایشلے نے الجھ کر کہا۔ ’’نہیں…! اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ تیز قدموں سے اپنے کمرے میں آگئی۔ یوں جیسے کوئی جرم کردیا ہو۔
صبح جب وہ اپنے آفس پہنچی تو مائیک سلاڈی اس کے انتظار میں تھا۔ ’’ایک بچہ بہت بیمار ہوگیا ہے۔ میرے ساتھ آئو، اسے ایک نظر دیکھ لو۔‘‘
وہ اسے اپنے ساتھ راہداری میں لے گیا جہاں ایک طرف صوفے پر ایک بچہ درد سے کراہ رہا تھا۔ شدت کرب سے اس کا چہرہ سپید پڑ گیا تھا۔
’’اسے کیا ہوا ہے؟‘‘ ایشلے نے پوچھا۔
’’میرا خیال ہے کہ اپنڈکس کی تکلیف ہے۔‘‘ وہ بولا۔
’’اسے فوراً اسپتال پہنچانا چاہئے کہیں…!‘‘
’’یہاں کچھ نہیں ہوسکتا۔‘‘ اس نے نفی میں سر کو جنبش دی۔
’’کیا مطلب…؟‘‘
’’اسے اپنے ملک یا کسی قریبی ملک میں بھیجنا ہوگا۔‘‘
’’یہ بھی عجیب ہے۔‘‘ ایشلے نے مدھم لہجے میں کہا کہ کہیں مریض بچہ نہ سن لے۔ ’’تم دیکھ نہیں رہے، وہ کتنی تکلیف میں ہے؟‘‘
’’یہاں کوئی سفارت کار ان کے اسپتال نہیں جاسکتا کیونکہ ان آہنی پردے والے ملکوں کا جاسوسی کا نظام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمیں اس کو واپس اپنے ملک بھیجنا ہوگا۔‘‘
’’مگر ہم یہاں اپنا ڈاکٹر کیوں نہیں رکھ لیتے؟‘‘
’’ہمارا بجٹ اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمارے ملک کا ڈاکٹر ہر تین مہینے بعد ایک مرتبہ یہاں آتا ہے۔ اس دوران ہم اپنے پاس موجود دوائوں سے کام چلاتے ہیں۔ میں اس کے لئے ایک اسپیشل جہاز کا انتظام کرتا ہوں جو اسے واپس لے کر جائے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ ایشلے نے کاغذات پر دستخط کئے اور مریض بچے کا ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے بولی۔ ’’تم فکر مت کرو، تم بہت جلد ٹھیک ہوجائو گے… بالکل ٹھیک!‘‘
بچہ دو گھنٹے تک درد سے تڑپتا رہا پھر کہیں جہاز کا انتظام ہوا اور اسے واپس روانہ کردیا گیا۔ اگلے دن مائیک نے بتایا کہ بچے کا فوری طور پر آپریشن کیا گیا، اب وہ ٹھیک ہے۔
٭…٭…٭
ایشلے صبح چاہے جتنی جلدی آفس پہنچتی، مائیک سلاڈی وہاں موجود ہوتا۔ وہ سفارت کاروں کی پارٹیوں میں بہت کم نظر آتا تھا۔ وہ ایک مغرور اور اکھڑ سا انسان تھا۔ اس کے رویئے میں دشمنی چھپی رہتی تھی لیکن بچوں کے ساتھ وہ بہت مہربان تھا۔ وہ اس کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔ وہ اس کی مزاحیہ باتوں کو دہرا کر خوب لطف لیتے تھے۔
وہ اکثر ان کے ساتھ کھیل میں حصہ لیتا۔ انہیں برف پر اسکیٹنگ سکھاتا، بیڈ منٹن کھیلتا اور دوسری دلچسپیوں میں حصہ لیتا اور ہر صبح اس کے لئے کافی بناتا۔ ایک روز وہ کافی کا کپ اس کے سامنے رکھ رہا تھا تو ایشلے نے پوچھا۔ ’’کیا تمہارے بچے ہیں؟‘‘
سوال سن کر وہ بھونچکا سا رہ گیا۔ پھر بولا۔ ’’میرے دو
; ہیں۔‘‘
’’وہ کہاں ہیں…؟‘‘
’’وہ میری سابقہ بیوی کے پاس ہیں۔‘‘ اتنا کہہ کر اس نے موضوع بدل دیا اور کافی پینے لگا۔ کافی لذیذ تھی۔ ایشلے کو احساس ہورہا تھا کہ مائیک کے ساتھ کافی پینا ایک معمول بن چکا تھا۔
حسب معمول باہر گیٹ پر لوگوں کا ہجوم جمع تھا۔ ان کی آوازیں کمرے تک آرہی تھیں۔ ایشلے نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا۔ ’’یہ لوگ کون ہیں…؟ ہر روز باہر گیٹ پر ان کا ہجوم ہوتا ہے۔‘‘
مائیک نے اٹھ کر کھڑکی سے دیکھا۔ ’’یہ لوگ ویزا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’کیوں…؟ ان کی بہت بڑی تعداد یہاں موجود ہوتی ہے۔‘‘
’’یہاں جو آمرانہ نظام ہے، اس سے یہ لوگ تنگ آچکے ہیں مگر یہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ ہماری ایمبیسی کے سامنے والے اپارٹمنٹ میں فوٹوگرافر ہر طرح کے کیمروں کے ساتھ موجود رہتے ہیں جو یہاں آنے جانے والوں کی تصویریں بناتے رہتے ہیں۔‘‘ اس نے ایک کھڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’یہ تو بڑی خوفناک بات ہے۔‘‘
’’اس سے بڑھ کر خوفناک بات یہ ہے کہ جب کوئی خاندان ویزا حاصل کرنے کے لئے درخواست دیتا ہے تو سب سے پہلے وہ ملک میں سروس کرنے سے محروم کردیئے جاتے ہیں۔ انہیں ان کے گھروں سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔ ان کے ہمسایوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ ان سے کوئی تعلق نہ رکھیں پھر تین چار سال بعد انہیں بتایا جاتا ہے کہ حکومت ان کو جانے کی اجازت دے گی یا نہیں اور عموماً یہ اجازت نہیں دی جاتی۔‘‘ مائیک نے تفصیل سے بتایا۔
’’ہم ان لوگوں کے لئے کچھ کر نہیں سکتے؟‘‘
’’ہم کوشش تو کرتے رہتے ہیں لیکن صدر مملکت کو بلی چوہے کا کھیل بہت پسند ہے۔ بہت ہی کم لوگ ہیں جنہیں ملک چھوڑنے کی اجازت ملتی ہے۔‘‘
ایشلے نے مایوس چہرے کے ساتھ سفارت خانے کے بیرونی گیٹ کے باہر لوگوں کو کھڑے ہوئے دیکھا اور بولی۔ ’’ان لوگوں کیلئے کوئی تو راستہ نکلنا چاہئے۔‘‘
’’خواہ مخواہ اپنے دل کو نہ دکھائو… ان کا کچھ نہیں ہوسکتا۔‘‘
٭…٭…٭
دن تو مصروف تھے ہی، راتوں کو بھی آرام کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ رات بھر فون بجتا رہتا اور مختلف کیبل پیغامات آتے رہتے تھے۔ ان کا جواب دینے میں ہی ساری رات گزر جاتی۔ وہ بعض اوقات اتنا تھک جاتی کہ ہر رات وہ جو اپنے دل کی باتیں ایڈورڈ سے کرتی تھی، وہ بھی نہ کرپاتی اور اس کے اندر تنہائی کا احساس مزید بڑھ جاتا تو پھر وہ سوتے میں اس سے باتیں کرتی رہتی۔’’ایڈورڈ…! یہ سب بے حد تسکین دینے والا ہے کہ میں اپنے فرائض اس طرح ادا کروں کہ لوگ مجھے یاد رکھیں۔ سب کی نظر مجھ پر ہے، ہر ایک چاہتا ہے کہ مجھے ناکام ہوتا ہوا دیکھے۔ کاش…! تم میرے ساتھ ہوتے تو مجھے کوئی فکر نہ ہوتی۔ کیا تم کہیں میرے آس پاس ہو؟ کیا تم مجھے دیکھ سکتے ہو…؟ جب تمہاری طرف سے کوئی جواب نہیں آتا تو میں پاگل ہونے لگتی ہوں۔‘‘
اگلی صبح کافی کے بعد مائیک سلاڈی اٹھا تو ایشلے سے پوچھنے لگا۔ ’’تمہیں لوک رقص سے دلچسپی ہے؟‘‘
’’کیوں…؟‘‘ ایشلے نے پوچھا۔
’’یہاں ایک ڈانس کمپنی رات ایک بڑا شو کررہی ہے۔ تم جانا پسند کرو گی؟‘‘
’’ہاں!‘‘ ایشلے نے دل ہی دل میں سوچتے ہوئے کہا۔ عجیب بات تھی کہ وہ اسے اپنے ساتھ ڈانس دیکھنے کی دعوت دے رہا تھا۔
’’بہت خوب!‘‘ مائیک نے ایک چھوٹا سا لفافہ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’اس میں تین ٹکٹ ہیں۔ تم روتھ اور ٹام کو بھی ساتھ لے جانا۔‘‘
ایشلے اس کی طرف دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ اسے اپنا آپ احمق سا محسوس ہورہا تھا۔ اس نے تنے ہوئے سے لہجے میں کہا۔ ’’شکریہ!‘‘
روتھ اور ٹام دونوں نے لوک ڈانس دیکھنے کے لئے جانے سے انکار کردیا۔ ان کی اپنی مصروفیات تھیں۔ ایشلے سوچنے لگی کہ اسے کسی کو ساتھ لے جانا چاہئے لیکن تمام سفارت خانے میں کوئی ایسا نہیں تھا جسے وہ اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دیتی۔ بالآخر اس نے تنہا جانے کا فیصلہ کرلیا۔
تھیٹر ایک مصروف شاہراہ پر تھا جہاں پھولوں، سلیپروں اور ایسی ہی چھوٹی موٹی چیزوں کے اسٹال تھے۔ تھیٹر کی عمارت بھی چھوٹی سی تھی۔ ڈانس کا پروگرام بھی اتنا زیادہ دلچسپ نہیں تھا۔ ایشلے بیٹھی بور ہوتی رہی۔ جب شو ختم ہوا تو اس نے اطمینان کا سانس لیا کہ کھلی ہوا میں سانس لینے کا موقع ملے گا۔ وہ باہر نکلی تو ڈرائیور گاڑی کے پاس ہی کھڑا تھا۔
’’میڈم ایمبیسڈر! مجھے افسوس ہے کہ آپ کو کچھ دیر ہوجائے گی۔ گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا ہے۔ فالتو ٹائر کسی نے چرا لیا ہے، میں نے نیا ٹائر منگوایا ہے مگر اسے لانے میں کچھ دیر لگ جائے گی۔ آپ کار میں تھوڑی دیر انتظار کرلیں۔‘‘
ایشلے بہت بدمزہ ہوئی۔ آسمان پر پورا چاند چمک رہا تھا۔ شام خوبصورت تھی۔ اس نے سوچا کہ کچھ دیر پیدل چلنا چاہئے۔ جب سے وہ یہاں آئی تھی، اس نے اس شہر کی سڑکوں اور گلیوں کو نہیں دیکھا تھا اسی لئے اس نے ڈرائیور سے کہا۔ ’’میرا خیال ہے کہ میں پیدل ہی گھر چلی جائوں۔‘‘
اس نے سر ہلایا۔ ’’ہاں…! آج کی شام واک کرنے کے لئے بہت خوشگوار ہے۔‘‘
ایشلے مرکزی چوک کی طرف چل پڑی۔ راستے میں نشاندہی کرنے والے بورڈ نظر آرہے تھے لیکن وہ ان کی اپنی زبان میں تھے جو ایشلے کی سمجھ میں نہیں آرہے تھے اسی لئے وہ اندازے سے چل رہی تھی۔ بازار میں تمام دکانیں کھلی ہوئی تھیں اور ان کے سامنے گاہکوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ لوگ اس کی طرف بغور دیکھ رہے تھے۔ عورتیں اس کے لباس کو تنقیدی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ اس طرح لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بننے سے وہ کچھ مضطرب ہوئی اور اس نے تیز قدم اٹھانے شروع کردیئے۔ آگے جاکر ایک چوراہا آیا۔ ایشلے کو اندازہ نہیں تھا کہ اسے کس طرف مڑنا چاہئے۔ اس نے قریب سے گزرنے والے ایک شخص سے راستہ معلوم کرنا چاہا۔ اس نے کچھ خوف زدہ سی نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور تیزی سے آگے بڑھ گیا۔
’’اوہ…!‘‘ ایشلے کو یاد آیا کہ ان لوگوں کو غیر ملکیوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں۔ وہ اندازے سے ایک طرف بڑھ گئی۔
آگے سڑک نسبتاً ویران تھی۔ گلیوں میں روشنیاں کم تھیں۔ ایشلے نے اپنا پرس کھول کر موبائل نکالنا چاہا کہ سفارت خانے میں کسی کو اطلاع کرے۔ اتنے میں ایک لمبا، اونچا شخص اوورکوٹ پہنے ہوئے اس کی طرف بڑھا۔ ایشلے نے جلدی سے اپنا پرس بند کردیا۔
’’محترمہ…! کیا آپ راستہ بھول گئی ہیں؟‘‘ وہ بھاری آواز میں بولا۔
ایشلے نے ابھی کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ ایک گاڑی نے بالکل ان کے قریب آکر بریک لگائے۔ ایشلے پیچھے ہٹی۔ اس شخص نے آگے بڑھ کر مضبوطی سے اس کی کلائی پکڑ کر کہا۔ ’’کار میں بیٹھو۔‘‘
’’نہیں…!‘‘ ایشلے نے پوری طاقت سے چلانا شروع کیا۔ ’’مدد… مدد…! مجھے بچائو۔‘‘
اسی وقت سامنے کی گلی سے ایک شخص دوڑا ہوا آیا اور ان کے پاس آکر رک گیا اور سختی سے بولا۔ ’’چھوڑو اس کو… چھوڑو!‘‘ اس کے ساتھ ہی اس نے دوسرے شخص کے کوٹ کے کالر میں مضبوطی سے ہاتھ ڈال کر اسے پیچھے گھسیٹ لیا۔
اس شخص کی اس کی کلائی پر گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ گاڑی میں بیٹھا ہوا شخص تیزی سے باہر نکلا کہ اپنے ساتھی کی مدد کرے، اسی وقت دور سے گاڑی کے سائرن کی آواز سنائی دی۔ وہ دونوں تیزی سے گاڑی میں بیٹھے اور گاڑی بھگا کر لے گئے۔
ایک نیلی گاڑی ایشلے کے قریب آ کر رکی۔ یونیفارم پہنے ہوئے دو اہلکار باہر نکلے۔ ان میں سے ایک نے پوچھا۔ ’’میڈم…! آپ ٹھیک تو ہیں؟‘‘
دوسرا بولا۔ ’’یہاں کیا ہوا آپ کے ساتھ…؟‘‘
ایشلے نے خود کو سنبھالا، اپنی گھبراہٹ پر قابو پایا اور بولی۔ ’’یہ لوگ مجھے زبردستی گاڑی میں بیٹھنے پر مجبور کررہے تھے کہ ایک شخص نے آکر…!‘‘ اس نے پیچھے دیکھا کہ وہ اجنبی کون تھا لیکن وہ جا چکا تھا۔
رات بھر ایشلے باربار یہی
خواب دیکھتی رہی کہ اسے زبردستی گاڑی میں بیٹھنے کے لئے کہا جارہا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کون تھے اور ان کا کیا مقصد تھا۔
صبح وہ آفس میں آئی تو مائیک سلاڈی اس کے انتظار میں تھا۔ وہ کافی کے دو مگ لے کر آیا اور ڈیسک کے سامنے بیٹھ گیا۔
’’کیسا رہا تھیٹر…؟‘‘ اس نے پوچھا تو ایشلے کو حیرت ہوئی کہ اسے رات کے واقعے کی خبر نہیں یا وہ اس سے لاتعلق رہنا چاہتا تھا۔ ’’تمہیں رات کچھ ہوا تو نہیں؟‘‘
’’کیا مطلب…!‘‘
’’جب رات انہوں نے تمہیں اغوا کرنے کی کوشش کی تو تمہیں کوئی نقصان تو نہیں پہنچایا؟‘‘
’’تمہیں اس بارے میں کیسے پتا چلا؟‘‘
وہ طنزیہ لہجے میں بولا۔ ’’میڈم ایمبیسڈر! یہاں کوئی چیز چھپی نہیں رہتی۔ یہاں کوئی غسل بھی کرتا ہے تو سب کو خبر ہوجاتی ہے۔ یہ آپ کی عقلمندی نہیں تھی کہ آپ رات کے وقت سڑکوں پر مٹرگشت کرتی پھریں۔‘‘
’’بس! حماقت ہوگئی… آئندہ خیال رکھوں گی۔‘‘
’’اچھی بات ہے!‘‘ وہ تیزی سے بولا۔’’اس شخص نے کوئی چیز تو نہیں چھینی؟‘‘
’’نہیں…!‘‘
’’اگر انہیں تمہارے پرس یا کوٹ کی ضرورت ہوتی تو وہ چھین کر لے جاتے لیکن تمہیں گاڑی میں بٹھانے کا مقصد یہی تھا کہ وہ تمہیں اغوا کرنا چاہتے تھے۔‘‘
’’لیکن مجھے کون اغوا کرسکتا ہے؟‘‘
’’کوئی باغی گروپ ہوسکتا ہے۔‘‘
’’یا کوئی ایسا جو معاوضے کیلئے یرغمال بنانا چاہتا ہو۔‘‘
’’یہاں ایسا کوئی چکر نہیں ہے… اگر کوئی ایسی حرکت کرتاہوا پکڑا جائے تو مقدمہ نہیں چلایا جاتا، ایسے لوگوں کیلئے صرف اور صرف فائرنگ اسکواڈ ہے۔‘‘ مائیک نے کافی کا ایک گھونٹ لیا اور تھوڑے توقف کے بعد بولا۔ ’’کیا میں ایک مشورہ دے سکتا ہوں؟‘‘
’’میں سن رہی ہوں۔‘‘
’’اپنے گھر واپس چلی جائو۔‘‘
’’کیا…؟‘‘
اس نے کافی کا کپ میز پر رکھا اور کہا۔ ’’تمہیں صرف یہ کرنا ہوگا اپنا استعفیٰ پیش کردو۔ اپنے بچوں کو سنبھالو اور اپنے شہر چلی جائو جہاں تم محفوظ رہوگی۔‘‘
غصے سے ایشلے کا چہرہ تپنے لگا۔’’ مسٹر سلاڈی…! غلطیاں ہوتی رہتی ہیں اور ان کی تلافی بھی ہوجاتی ہیں۔ صدر مملکت نے اس عہدے پر میری تقرری کی ہے۔ جب تک وہ مجھے سبکدوش نہ کردیں تم یا کوئی اور مجھ سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں استعفیٰ دے کر گھر چلی جائوں۔‘‘ وہ خود پر قابو پاتے ہوئے بولی۔ ’’میں اس سفارت خانے میں کام کرنے والوں سے توقع رکھتی ہوں کہ وہ میرے ساتھ تعاون کریں، میرے خلاف کام نہ کریں۔ اگر یہ تمہیں اتنا ہی زیادہ ناگوار ہے تو تم خود گھر کیوں نہیں چلے جاتے؟‘‘ وہ غصے سے کانپ رہی تھی۔
مائیک سلاڈی کھڑا ہوگیا اور بڑے سکون سے بولا۔ ’’میں جاکر صبح کی فائلیں تمہارے پاس بھیجتا ہوں میڈم ایمبیسڈر!‘‘
ایشلے کے اغوا کی کوشش کا تذکرہ ہر جگہ تھا اور لوگ اس پر اظہارخیال کررہے تھے اور ایشلے اس شخص کے بارے میں سوچ رہی تھی جو اچانک فرشتہِ رحمت بن کر وہاں آموجود ہوا تھا۔ اس کی وجہ سے وہ لوگ بھاگ گئے تھے۔ وہ اتنی جلدی واپس چلا گیا تھا کہ ایشلے اس سے بات نہیں کرسکی تھی مگر اسے اتنا ضرور یاد تھا کہ وہ ایک خوبصورت اور اسمارٹ آدمی تھا۔ تقریباً چالیس پینتالیس کا دکھائی دیتا تھا۔ اس کی قلمیں سفید ہورہی تھیں۔
مائیک سلاڈی سے صبح گفتگو کے بعد اسے شک ہونے لگا تھا کہ یہ واقعہ شاید مائیک کا کیا دھرا تھا تاکہ اسے اتنا خوف زدہ کردیا جائے کہ وہ واپس چلی جائے اور اس کے لئے راستہ صاف ہوجائے۔ وہ سفارت کاری میں کافی تجربہ رکھتا تھا۔ غالباً اسے توقع تھی کہ اسے سفیر بنایا جاتا مگر صدر مملکت نے اسے نامزد کردیا جس کی وجہ سے وہ اس سے حسد رکھتا تھا اور آج تو اس کا خبث باطن ظاہر ہوگیا تھا۔ اس کے دل کی بات اس کی زبان پر آگئی تھی۔
٭…٭…٭
وہ سفارت خانے پہنچی تو سفیر نے اس کا استقبال کیا۔ رسمی جملوں کے تبادلے ہوئے جن میں سچ کی کوئی آمیزش نہیں تھی۔
میزبان سفیر نے کہا۔ ’’آج میڈم ڈامینن پیانو بجائیں گی۔ امید ہے آپ کو پسند آئے گا۔‘‘
’’ہاں…! میں ان کی پرفارمنس کا بے چینی سے انتظار کررہی ہوں۔‘‘ ایشلے نے جھوٹ بولا۔
مہمانوں سے ملتے ہوئے اچانک اس کی نگاہ ایک شخص پر پڑی اور وہ چونک گئی۔ یہ یقیناً وہ اجنبی تھا جس نے اس کی مدد کی تھی اور اغوا کاروں سے بچایا تھا۔ ایشلے اس طرف بڑھی جہاں وہ کھڑا تھا۔ وہ اسے اپنی جانب آتے ہوئے دیکھ کر متوجہ ہوا اور مسکرا کر بولا۔ ’’اوہ… پریشانی میں گھری خاتون!‘‘
’’آپ ایک دوسرے کو جانتے ہیں؟‘‘ سفیر نے پوچھا۔
’’ہاں! لیکن ہم سرکاری طور پر متعارف نہیں ہوئے۔‘‘ ایشلے نے جواب دیا۔
’’میڈم ایمبیسڈر…! میں ان کا تعارف کروا دیتا ہوں۔ یہ ڈاکٹر لوئس ہیں۔‘‘
’’میڈم ایمبیسڈر! میں معذرت چاہتا ہوں، میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔‘‘ وہ کچھ نادم سا ہوکر بولا۔
’’اوہ! تو وہ آپ تھیں… ہمیں اس بارے میں پتا چلا تھا۔‘‘ سفیر بولا۔
’’میں ڈاکٹر لوئس کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی۔ اگر یہ اس وقت نہ آجاتے تو کافی پریشانی ہوتی۔‘‘ ایشلے نے ممنون لہجے میں کہا۔
چند جملوں کے تبادلے کے بعد سفیر آگے بڑھ گیا۔ ڈاکٹر لوئس، ایشلے کے ساتھ تنہا رہ گیا۔
’’تم وہاں سے غائب کیوں ہوگئے تھے جب پولیس وہاں آئی تھی۔‘‘ ایشلے نے کہا۔
وہ چند لمحے اس کی طرف بغور دیکھتے ہوئے بولا۔ ’’ان لوگوں کی پولیس کے ساتھ کسی طرح کا کوئی تعلق ٹھیک نہیں ہوتا۔ وہ گواہوں کو پہلے گرفتار کرلیتے ہیں پھر ان سے ضروری معلومات حاصل کرتے ہیں۔ میں اپنے سفارت خانے میں ڈاکٹر ہوں۔ میں اس جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔‘‘ وہ مسکرایا۔ ’’لہٰذا میری معذرت قبول کرو کہ میں تمہیں تنہا چھوڑ آیا۔‘‘
اس کے انداز میں سچائی تھی جو متاثر کرتی تھی۔ اس کے باتوں کے انداز یا شکل و صورت میں کوئی مشابہت ایڈورڈ کے ساتھ تھی۔ شاید اس کی مسحور کردینے والی مسکراہٹ…!
’’میں معذرت خواہ ہوں کہ اب میں چلوں اور معاشرتی جانور کا کردار ادا کروں۔‘‘
’’تمہیں پارٹیوں میں شریک ہونا پسند نہیں؟‘‘
’’ہاں۔مجھے ان میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں۔‘‘
’’تمہاری بیوی کو پارٹیاں پسند ہیں؟‘‘
اس نے کچھ کہنا چاہا مگر ہچکچا گیا ،پھر بولا جیسے بات بدل دی ہو۔ ’’ہاں… بہت…! وہ ان سے بہت لطف اندوز ہوتی ہے۔‘‘
’’کیا وہ اس پارٹی میں شریک ہے؟‘‘
’’وہ اور ہمارے دو بچے مر چکے ہیں۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں۔‘‘
’’اوہ خدایا! بہت افسوس ہے مگر یہ کیسے ہوا؟‘‘
اس کا چہرہ سنگین ہوگیا۔ وہ نسبتاً مدھم لہجے میں بولا۔ ’’میں زیرزمین دہشت گردوں کے خلاف کام کرتا تھا۔ انہوں نے میرے بارے میں پتا چلا لیا اور میرے گھر پر دھماکا کردیا۔ سارا گھر جل گیا۔ میں اتفاق سے گھر پر نہیں تھا لیکن میری بیوی اور دونوں بچے…!‘‘ اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
’’بہت افسوس ہوا۔‘‘ ایشلے نے کہا۔
’’وقت سب سے بڑا مرہم ہے جو ہر زخم کو بھر دیتا ہے‘‘ ڈاکٹر لوئس کا لہجہ تلخ تھا۔ (جاری ہے)