Wednesday, October 16, 2024

Sitaron Kay Angan Mein

ارے میری بات مان لے ابھی بچی کو زیادہ دن نہیں گزرے اسکول جاتے ہوئے ہٹا لے اسے اس نے کیا کرنا ہے پڑھ لکھ کر۔ اماں نے پرات میں آٹا گوندھ کر ایک طرف رکھا اور اب آلو کے شوربے کے لیے دیگچی میں ہی پیاز کاٹنے لگی۔ او بھلیے لوگے (او بھلی عورت) تو کیوں بچی کے پیچھے پڑگئی ہے۔ اسکول ہی داخل کرایا ہے کون سا لڑنے بھیج دیا ہے۔ پڑھ لکھ جائے گی ، ڈاکٹر بنے گی اور نہیں تو کسی اسکول میں استانی لگ جائے گی ، نام روشن کرے گی ہمارا ۔ ابا نے پہلے کی طرح ہی اماں کی بات کو کوئی اہمیت نہ دی۔ وہ بڑے بڑے خواب سجائے بول رہے تھے۔ کیا کروانا ہے ہم نے نام روشن کر کے پہلے ہی مزاج نہیں ملتے اب اور بھی کام کاج سے جائے گی، وہ کوئی بلب ہے جو نام روشن کرانا ہے۔ اماں نے انتہائی بے زاری سے ابا کو جواب دیا۔ اوہ کچھ خدا دا خوف کر وہ معصوم سی کیا کرتی ہے نخرہ، ابھی تو پاؤں پاؤں چلنا شروع کیا ہے اس نے تیرے والی تو حد ہی ہو گئی ہے، بے فضول ہی بولے جاتی ہے ، بس میں نے کہہ دیا ہے وہ اسکول جائے گی ہر روز تو نے اب اس کے سامنے کوئی بات نہیں کرنی۔ ابا ایک تنبیہہ کر کے کمرے کی طرف بڑھ گئے ۔ جہاں زینب اپنی نئی نئی کاپیوں اور کتابوں میں سردیے بیٹھی تھی۔ اماں کی بڑبڑاہٹیں بدستور جاری تھیں، دیگچی میں چمچہ چلانے کے ساتھ ساتھ –

جب سے پانچ سالہ زینب نے اسکول جانا شروع کیا تھا۔ اماں اٹھتے بیٹھتے باتیں سناتی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ ابا کو جو یہ بیٹی کو پڑھانے لکھانے کا بخار چڑھا ہے۔ چار دن کی چاندنی ثابت ہو گا۔ جب آئے دن کاپیاں، پنسلیں اور ان گورنمنٹ اسکولوں کی ندیدی مسوں کے حکم پر آنے بہانے پیسہ خرچ کرنا پڑے گا۔ مگر اماں کا خیال محض خیال ہی رہا بلکہ اپنی موت آپ ہی مرگیا۔ جب دو ہفتے گزر جانے کے باوجود بھی ابا اتنے ہی ذوق و شوق سے زینب کو نہ صرف اسکول چھوڑنے جاتے بلکہ صبح اسکول جانے کے لیے تیاری میں اماں کا ساتھ دیتے اور واپسی پر بذات خود اسے لے کر آتے جیسے کہ پہلے دن۔ اماں ذرا سخت طبیعت کی اماں تھیں اور بیٹی کے اسکول جانے کے معاملے میں اور بھی زیادہ مگر آبا کے سامنے ان کی ایک نہ چلی۔ زینب اماں ابا کی اکلوتی اولاد تھی اور یہ ابا کا پرانا خواب تھا کہ وہ اپنی اولاد کو پڑھائیں گے۔ انہوں نے کبھی اپنی غربت کو اس خواہش کے پورا ہونے میں رکاوٹ نہیں بننے دیا تھا۔ اماں سے کبھی اس بات کو کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی تھی کیوں کہ زینب سے پہلے اماں نے تین بیٹوں کو جنم دیا تھا، مگر ہر بار آنے والا ننھا وجود ہچکی بھرے بغیر ہی لوٹ گیا تھا۔ اور پھر اماں نے آس ہی چھوڑ دی ، مگر دو سال بعد اللہ نے دوبارہ رحمت کی تو اماں ابا نے پھر سے نئی امید نئے یقین کے ساتھ آنے والے کی زندگی کی دعا ئیں مانگنا شروع کر دیں۔ اب کی بار دعا ئیں رنگ لے آئی تھیں۔ زینب کی شکل میں اللہ نے ننھی پری عطا کی تھی انہیں، اماں ابا تو اللہ کا شکر ادا کرتے نہ تھکتے تھے۔ مگر لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے میں اماں پکی دیہاتی عورت ثابت ہوئی تھیں۔ مگر جیسے ہی زینب نے پانچویں سال میں قدم رکھا، ابا نے اسے گھر کے قریب ہی واقع پرائمری اسکول میں داخل کرا دیا۔

شهری آبادی سے ذرا دور یہ قصبہ سبز لہلہاتے کھیتوں میں گھرا تھا۔ جس کے آس پاس بیسیوں چھوٹے چھوٹے گاؤں لگتے تھے۔ زینب کے ابا قصبے کی مرکزی سڑک پر پھلوں کا ٹھیلہ لگاتے تھے۔ ابّا نے محلے کے کسی دوست سے زینب کو اسکول داخل کرانے کا ذکر کیا تھا۔ چچا صابر کے اپنے بچے تو ان پڑھ نکمے تھے سب سے چھوٹی بیٹی نے بھی بس پانچویں جماعت تک اسکول کا منہ دیکھا تھا اور ان کی بیوی کو اس پر ہی بڑا مان تھا۔ جب اپنے شوہر سے ہمسائے کی اکلوتی بیٹی کے اسکول داخلے کی بات سنی تو فورا اگلی صبح اماں کے پاس پہونچ گئیں۔ رانی کے ابا نے بتایا تھا مجھے کہ اپنی زینب بھی اب اسکول جائے گی، بڑی سوہنی بات ہے یہ تو۔ اماں نے مسکرا کر جواب دیا۔ یہ میری رانی کی وردی ہے۔ وہ تو اب جاتی نہیں ہے۔ زینب کو چھوٹا کر دینا۔ رشیدہ چاچی نے ہاتھ میں پکڑا تھیلا اماں کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔ بڑی مہربانی ویسے تو میں کپڑا لے آئی تھی اس کا سوٹ سینے کے لیے اماں نے آگ بڑھانے کے لیے پھونک مارتے ہوئے کہا اور تھیلا پکڑ لیا۔ ویسے تو بچوں کو شروع شروع میں ہی شوق ہوتا ہے اسکول جا کر پڑھنے کا پھر مسوں کی ڈانٹ پھٹکار سے تنگ آ کر خودہی چھوڑ دیتی ہیں۔ ماں کو تو پہلے ہی قلق تھا مگر رشیدہ چاچی کے کہنے پر سادہ سے انداز میں بولیں۔ بس اس کے ابے کو بڑا شوق ہے ، پڑھنے والی بچیاں تو ہر حال میں پڑھ لکھ جاتی ہیں۔ نا میری رانی کوئی ماڑی ہے، ماشاء اللہ سے سارا گھر سنبھال رکھا ہے اس نے پڑھ لکھ کے کیا کارنامے کر لینے تھے اس نے وہ تو بڑا اچھا پڑھتی تھی۔ اس کے باوا نے منع کر دیا۔ چاچی نے فورا پینترا بدلا تھا اماں ٹھنڈی سانس لے کر رہ گئیں۔ جانتی تھیں اس عورت کی فطرت کو ۔ ہر محلے میں ایک ہنگامہ پھیلانے والی عورت لازمی ہوتی ہے جو باقی اہل محلہ کو یکسانیت اور بوریت کا شکار نہیں ہونے دیتی۔ بس چاچی رشیدہ کو بھی یہی اعزاز حاصل تھا- اب مجھے تو بڑا آرام ہے، کسی کام کو ہاتھ نہیں لگانے دیتی میری رانی اور تو ابھی تک سارے کام خود ہی کرتی ہے۔ اب اللہ نے اتنی مشکلوں سے اولاد دی ہے تو اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ رشیدہ چاچی نے پھر سے اس کے جلے پر نمک چھڑکا تھا۔ ان کا بھی تو یہی ارادہ تھا کہ زینب ذرا قد نکالے تو اسے اپنے ساتھ کام کاج میں لگائیں، جس طرح اس علاقے کی بیشتر عورتیں بیٹیوں کے ساتھ کرتی تھیں، مگر زبیدہ کا آبا بھی نا اماں نے بظاہر رشیدہ کے خیالوں کی تردید کی اور جب وہ بیزار ہو کر جانے لگیں اماں نے کھانا تیار کر لیا تھا۔ جاتے جاتے رشیدہ کو بھی دعوت دے ڈالی۔ ارے نہیں رانی نے آج گڑ والے چاول بنانے تھے بنا لیے ہوں گے۔ اب تو وہی کھاؤں گی بلکہ تجھے بھی بھیجوں گی جا کر ٹیپو کے ہاتھ۔ کہتے ہوئے وہ ڈیوڑھی پار کر گئیں-

زینب بہت پیاری اور ذہین بچی تھی ۔ جب اپنی توتلی زبان میں ٹوئنکل ٹوئنکل پڑھتی تو حقیقت میں کوئی چمکتا تارہ لگتی تھی۔ ابا کو تو ڈھیر سارا پیار آتا ہی تھا؟ اماں بھی صدقے واری جاتی تھیں۔ بس ایک یہ خیال کہ اتنا بڑھنے کا فائدہ، اماں کی خوشی پر کوڑے کی طرح لگتا مگر آہستہ آہستہ اماں بھی جیسے مطمئن ہو گئی تھیں۔ اور پھر ایک سنہری دوپہر میں ان کے گھر ایک نئی گڑیا نے جنم لیا۔ زینب اسکول سے آئی تو ابا کے ہاتھ میں تولیے میں لپٹے کسی گڑیا سے وجود کو پایا- دیکھ زینب اللہ نے تیرے لیے بہن بھیجی ہے، آبا جس خوشی سے دمکتا چہرہ لیے بول رہے تھے وہ قابل دید تھی۔ زینب نے حیرت و خوشی کے ملے جلے تاثرات سے اماں کی جانب دیکھا۔ اس نے نقاہت کے باوجود مسکراہٹ سے سرہلا دیا۔ زینب اس وقت پانچویں جماعت میں تھی۔ اس کی تنہائی ختم کرنے کو اللہ نے اسے بہن جیسی دوست نعمت اور رحمت سے نوازا تھا۔ اس کا بس چلتا تو اسے بھی اسکول اپنے ساتھ ہی لے جایا کرتی۔ ابا یہ بڑی کب ہوگی میں اسے اپنے ساتھ اسکول لے جانا چاہتی ہوں۔ ہر دوسرے دن وہ آس اور معصومیت سے پوچھتی کہ اب ابا کہیں گے کہ ہاں زینب اب خدیجہ اتنی بڑی ہو گئی ہے کہ کل سے تمہارے ساتھ اسکول جاسکے۔ حالانکہ زینب سمجھتی تھی کہ ابھی تو خدیجہ نے بولنا بھی نہیں سیکھا تھا۔ لیکن اسے یہی انتظار تھا کہ جھٹ سے وہ دن آجائے جب خدیجہ اس کے ساتھ باتیں کرے وہ دونوں کھیلیں، ایک ساتھ اسکول جائیں۔ اور پھر دھیرے دھیرے وقت وقت گزر گیا۔ خدیجہ نرسری کلاس میں داخل ہو گئی اور زینب پرائمری اسکول سے ہائی اسکول میں۔ یہ اسکول ایک سال پہلے ہی پرائمری سے مڈل اور ہائی اسکول میں بدلا تھا۔ زینب اب بڑی ہو گئی تھی اور جہاں اس کی سمجھ داری میں اور عقل مندی میں اضافہ ہوا تھا وہیں اس کے سگھڑاپے اور خوش اخلاقی کو دیکھ کر اماں کے سارے غم جاتے رہے تھے- مس مریم نے زینب پر بہت محنت کی تھی۔ وہ نویں جماعت سے اسے اسلامیات پڑھاتی تھیں۔ مس مریم بچوں کی اخلاقی تربیت پر بہت زور دیتی تھیں۔ زینب نے ان سے اخلاقیات اور گھرداری سیکھی تھی۔ زینب میں سیکھنے کی صلاحیت موجود تھی لہذا جو کچھ کتابوں سے سیکھتی اسے عملی طور پر اپنی زندگی میں شامل کرتی۔ وہ ہرسال یا چھ ماہ بعد نیا یونی فارم یا نئی چیزیں نہیں خرید سکتی تھی۔ مگر صاف ستھرا یونی فارم اور تیل لگے بالوں کو چٹیا میں گوندھنا تو اس کے اختیار میں تھا۔ سلیقہ سے دوپٹہ لیے وہ کئی لڑکیوں میں ممتاز نظر آتی۔ اس نے اپنے گھر کو بھی اپنی محنت سے جنت بنا دیا تھا۔ جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے پودے لگا کر گھر کی آرائش و زیبائش کر کے اس نے اماں کو خوش کر دیا تھا۔ اماں اس کی عقل مندی کی قائل ہو گئی تھیں۔ موسم گرما کی چھٹیوں میں اس نے محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا۔ اماں نے پہلے تو منع کر دیا مگر پھر مان گئیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی طبیعت میں بھی نرمی آگئی تھی۔

زینب پتر توکیوں کھپ رہی ہے اتنی گرمی میں، زینب شام کے وقت بچوں کو پڑھا کر فارغ ہوتی تھی جب ابا نے اسے آواز دی۔ ابا اس میں کھپنے کی کیا بات ہے۔ میں فارغ ہی ہوتی ہوں مجھے اچھا لگتا ہے۔ زینب نے ہلکے پھلکے انداز میں وضاحت کی۔ میں نے کہا پترا تو یہ تو نہیں سمجھ رہی کہ کہیں آگے تیری پڑھائی کے خرچے سے ڈر کر تیرا ابا تجھے پڑھائے ہی نا۔ ابا کے انداز میں فکرمندی اور معصومیت کو دیکھ کر اسے بے انتہا پیار آیا۔ نہیں ابا ایسی کوئی بات نہیں۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ زینب نے کہا تو اماں بھی ابا کی چارپائی کے پائنتی پر آکر بیٹھ گئی۔ زینب کے ابا یہ بتا رہی تھی کہ آگے والی پڑھائی یہ مفت میں کرے گی۔ کیا نام بتا رہی تھی ۔ اماں سوچنے لگی۔ ہاں وظیفہ اپنی زینب کو وظیفہ ملے گا ہر سال ہے نہ زینب ؟ اماں نے زینب سے تصدیق چاہی۔ زینب نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اچھا اچھا زینب کو آٹھویں میں بھی تو مل تھا وظیفہ ابا کو یاد آیا خوش رہ میرا بیٹا ۔ ابا نے زینب کے سر پر پیار کیا۔

اماں کی ہڈیوں میں پہلے والا دم خم نہیں رہاتھا زینب کو اس کا احساس تھا۔ تب ہی اس نے آدھی سے زیادہ ذمہ داریاں اپنے سر لے لیں۔ صبح خدیجہ تیار کرتی، اسکول سے آ کر اگرچہ تھکی ہوتی پھر بھی آٹا گوندھ کر پھلکے تیار کر لیتی۔ سالن اماں پہلے ہی تیار لیتی تھیں۔ زینب محلے کی دوسری لڑکیوں کے برعکس تمام کام بغیر زبان چلائے کرتی تھی۔ ورنہ ماں بخوبی جانتی تھیں کہ لڑکیاں کیسے کولہوں کے بیل کی طرح کام کرتی تھیں اور لتر لتر زبانیں بھی چلاتی تھیں۔ ہردوسرے گھر کا یہی ماحول تھا مگر زینب کو اس کی پڑھائی نے زبان چلانا نہیں سکھائی تھی نہ ہی ابا کے اعتماد نے اسے بد لحاظ کیا تھا۔ اماں زینب سے مکمل طور پر مطمئن تھیں- زینب کے میٹرک کا رزلٹ آگیا تھا اور امید کے عین مطابق اس نے اپنے علاقے میں ٹاپ کیا تھا۔ ابا کا تو بس نہ چلتا تھا ورنہ اپنا ٹھیلا بیچ کر پورے قصبے میں مٹھائی بانٹ دیتے۔ اماں کی خوشی بھی دیدنی تھی اور وہ بخوشی زینب کا کالج میں داخلہ کرا دیتیں مگر ان دونوں اماں کی خالہ زاد بہن اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر آگئی ۔ ابا نے تو صاف انکار کر دیا لیکن اماں کی یہی خواہش تھی کے بیٹی کے ہاتھ پیلے کردیے جائیں- اسکول میں ٹاپ اور پڑھائی کی اہمیت اپنی جگہ مگر بیٹی کے ہاتھ بھی تو پیلے کرنے ہی تھے اور جب اتنا اچھا رشتہ گھر چل کر آجائے، لڑکے نے میٹرک کر رکھا تھا اور اس کی قریب ہی گاؤں میں کریانے کی دکان تھی اور پھر دیکھنے میں بھی خوش شکل اور خوش اطوار تھا پھر بھلا اور کیا چاہیے تھا مگرابا کو کون سمجھاتا۔ وہ چاہتے تھے کہ زینب مزید تعلیم حاصل کرے ابھی کون سا اس کی عمر نکلی جاتی ہے۔ ابا کا موقف بھی ٹھیک تھا۔ ارے وہ لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ زینب شادی کے بعد جتنا چاہے پڑھ لے- اماں نے یقینا ابا کا موقف ان تک پہنچایا تھا۔ وہ لوگ زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے مگر زینب کی تعلیم پر انہیں کوئی اعتراض نہ تھا۔ ابا سوچ میں پڑ گئے اور کچھ وقت مانگ لیا۔ اماں کی مراد برآنے والی تھی۔ ظاہر ہے وہ ماں تھیں بچیاں جتنے بھی وظیفے اور ڈگریاں حاصل کرلیں، جب تک وہ باعزت طریقے سے اپنا گھر نہ بسا لیں، ماؤں کو چین نہیں آتا۔ اور یہاں آکر شہری دیہاتی سب کی تھیوری ایک ہو جاتی ہے۔

زینب کچھ دنوں سے مضطرب نظر آرہی تھی۔ چاول چنتے ہوئے اماں نے ذرا کی ذرا نظریں اٹھا کر دیکھا تو ٹھٹک گئیں ۔ گندمی رنگت بڑی بڑی آنکھیں اور درمیان سے مانگ نکالے بالوں کی چوٹی باندھے وہ عام سے حلیے میں بھی بہت پیاری لگ رہی تھی۔ اماں نے نظروں ہی نظروں میں بلائیں لیں جبکہ زینب اماں کی نظروں سے خائف ہو کر اندر کی جانب بڑھ گئی۔ شام سیاہ رات میں مدغم ہو رہی تھی۔ دیواروں میں چھپے جھینگروں کی آوازیں عجیب سی سنسناہٹ پھیلا رہی تھیں۔ دروازہ کھولنے سے پہلے اس نے پھر سے تسلی کرنی چاہی کہ اماں گہری نیند سو رہی ہیں۔ ان کی بائیں طرف والی چارپائی پر خدیجہ لیٹی تھی۔ ابا مغرب کی نماز کے بعد اپنے دوستوں یاروں کے پاس تھے وہ مطمئن تھی کنڈی لگا کر پردے کے پیچھے سے اس نے ہاتھ بڑھایا اور ساتھ ہی سرگوشی کے انداز میں تنبیہہ کی- یہ لے جاؤ لیکن اپنی اماں کو نہ بتانا کچھ بھی اب جلدی سے جاؤ۔ دروازے کے باہر کھڑے لڑکے نے ہاتھ بڑھا کر شاپر لیا اور چلا گیا۔ وہ آگے بڑھ کر دروازہ بند کر نے والی تھی، جب سامنے ابا کو دیکھ کر اس کے قدموں تلے زمین سرک گئی۔ اسے لگا ابا ابھی اسے بالوں سے پکڑیں گے اور زمین پر پٹخ دیں گے۔ مگر ابا وہ کچھ کہے بغیر صحن میں بچھی چارپائیوں میں سے ایک کی طرف بڑھ گئے اور وہ مرے مرے قدموں سے کمرے کے اندر چلی گئی۔ ابا کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی اس میں اس نے تو اپنی طرف سے بہت احتیاط سے سب کیا تھا مگر پھر بھی گرم سیال اس کے گالوں پر بہنے لگا۔ وہ بے بسی سے سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ اگلی صبح عجیب تھی۔ ابا نے اس کی طرف دیکھا تھا نہ کوئی بات کی تھی۔ اماں معمول کے مطابق نارمل موڈ میں تھیں۔ مگر شام کو واپسی پر ابا نے جو فیصلہ سنایا وہ اس کی روح کھینچنے کو کافی تھا۔ آپ نے اتنی جلدی فیصلہ کر لیا۔ مجھے تو لگا تھا دو تین ہفتے تو کہیں نہیں گئے۔ اماں خوشی اور حیرانی کی ملی جلی کیفیت میں بول رہی تھیں۔ میں نے سوچا دو چار ہفتوں بعد بھی یہی فیصلہ کرنا ہے تو ابھی کیوں نہیں، تو نکاح کی تیاری کر۔ ابا نے سادگی سے کہا مگر اماں ٹھٹک گئیں۔ دیکھ تاج دین تو نے کسی پریشانی میں تو یہ فیصلہ نہیں کیا۔ اماں نے فکر مندی سے پوچھا۔ اری او نیک بخت پریشانی والی کیا بات ہے۔ اللہ رحم کرے ، مجھے بھی اپنی بیٹی کی خوشی عزیز ہے۔ اب کی بارابا نے ذرا خوش نظر آنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف زینب پریشانی سے نڈھال تھی۔ اسے ابا سے یہ توقع نہیں تھی۔ وہ ابا کو وضاحت دے سکتی تھی مگر ابا نے اس سے کوئی وضاحت مانگی ہو تب نا۔ اسے ابا کے فیصلے پر اعتراض نہ تھا مگر ابا کے فیصلے کے محرک پر اعتراض تھا۔ ابا کے کہنے پر وہ کسی اندھے لنگڑے سے بھی شادی کرلیتی ۔ مگر اس طرح نہیں۔ خود کو ابا کی اور اپنی نظروں میں مجرم سمجتھے ہوئے تو ہرگز نہیں۔ زینب نے چاچی رشیدہ کی بڑی بیٹی کی شادی پر جو سوٹ پہنا تھا وہ بڑا نفیس تھا اور تب ہی سے رانی کی اس پر نظر تھی۔ چند دن پہلے جب اماں رانی کے شگن کی مبارک باد دینے گئیں تو چاچی نے زینب کے اس سوٹ کی بابت پوچھا تھا اور اگلے ہی دن رانی کو لے کر اماں کے پاس آ پہنچیں کہ شادی پر پہنے کے لیے زینب کا وہ سوٹ ادھار مل جائے اماں بہت حیران ہو ئیں کہ اس بال بچوں والی کو زینب کا ماپ کیسے آئے گا۔ مگر چاچی کا خیال تھا کہ آج کل کھلے اور لمبے سوٹوں کا رواج ہے تو اسے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ قد کاٹھ میں بھی ان کی بیٹی زینب جتنی ہی تھی اماں تذبذب کا شکار نظر آئیں تو انہوں نے یہ پیشکش دی کہ وہ آدھی قیمت پر سوٹ ان کی بیٹی کو ہی دے دیں ۔ اور اماں اول تو وہ سوٹ دینے کو تیار نہ تھیں اور اگر راضی ہوتیں بھی تو چاچی رشیدہ جیسی عورت کو کبھی نہ دیتیں جن کا محلے بھر میں کوئی اعتبار نہ تھا۔ سواماں نے دبے لفظوں میں انکار کر دیا۔ زینب کو پتا چلا تو اسے افسوس ہوا کہ اماں نے ایسے کیوں کیا۔ کچھ ہی دن گزرنے کے بعد رانی کا چھوٹا بھائی جو غالبا کسی چھوٹے سے نجی اسکول میں جاتا تھا- زینب سے چھٹی جماعت کی کتابیں لینے آیا- اب کی بار بھی اماں نے یہی کہا کہ اگر کتا بیں چاہیں تو آدھی قیمت میں مل جائیں گی۔ زینب کو بے حد افسوس ہوا کیوں کہ زینب کو ہر سال مفت کتابیں ملتی تھیں۔ اب کی بار زینب چپ نہ رہ سکی ۔ اماں نجانے کیوں رشیدہ چاچی سے خائف تھیں۔ زینب کو یہی لگتا تھا، زینب یقینا اماں کی طرح چاچی کی فتنہ پرداز طبیعت سے ناواقف تھی- لہذا جب اماں ٹیپو کو صاف انکار کر کے غسل خانے کی طرف بڑھ گیں تو اس نے دروازے کے قریب پہنچ کر اسے روکا اور کہا کہ وہ پرسوں شام کو آ کرکتابیں لے جائے مگر گھر میں کسی کونہ بتائے۔ اسے ابا کا ڈر نہ تھا کہ انہیں تو وہ کسی طرح سمجھا ہی لیتی بس وہ خفا ہوتے کہ وہ اپنی ماں کو بتائے بغیر سب کر رہی ہے اور پرسوں شام وہی ہوا جو وہ چاہتی تھی۔ ابا گھر پر موجود نہ تھے مگر اچانک آ گئے اور انہوں نے یقینا اس کی باتیں بھی سن لی تھیں۔ اس نے تو ٹیپو کو خبردار کیا تھا کہ وہ چاچی کو نہ بتائے ورنہ وہ اماں سے آ کر ذکر ضرور کرتیں اور پھر اماں اس کی جو شامت بلاتیں وہ الگ۔ مگر شامت تو اب بھی اس کی ہی لگی تھی۔ اسے افسوس تھا کہ ابا کو اس پر شک تھا۔ وہ اس پر اعتبار نہ کرتے تھے تب ہی آنکھوں دیکھی بلکہ ادھوری دیکھی سنی کو سچ سمجھ کر جلدی میں نکاح کر دیا تھا وہ افسوس نہ کرتی تو کیا کرتی۔

تاج دین ! یہ صابر کی ووہٹی (بیوی) بھی کیا بکواس کر کے گئی ہے۔ بے شرموں کی طرح میری زینب پر کیا الزام لگا کر گئی ہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے رشیدہ چچی آئی تھی اور زینب کے بارے میں حد سے زیادہ بکواس کر کی گئی تھی، اماں کو حیران و پریشان چھوڑ کر، تو اس کی باتوں میں نہ آ میں نے دماغ ٹھکانے لگا دیا ہے۔ اب نہیں آئے گی ادھر جب تک معافی نہ مانگ لے- غصہ تو ابا کو بھی بہت تھا بلکہ ان حالات کا اندازہ تھا۔ جب ہی رشیدہ کو ٹھیک ٹھاک سنا دی تھیں- تب ہی میں کہوں تجھے کیسے اتنی جلدی بیٹی کی شادی کا خیال آگیا۔ دال میں کچھ تو کالا ہو گا۔ ہم نے تو زینب کی تربیت ایسی نہیں کی تھی۔ اس کے سسرال والے کیا سوچتے ہوں گے ایسی ہنگامی شادی کرنے پر- اماں یقین اور بے یقینی کی کیفیت میں تھیں۔ ارے کچھ سوچ سمجھ کر بولا کر تیری بیٹی ہے وہ، تجھے نہیں پتا اس فسادی عورت کا، ہماری زینب کبھی کوئی ایسی ویسی حرکت نہیں کر سکتی۔ ابا پریقین لہجے میں بولے تھے اور کمرے کے دروازے کے پار کھڑی زینب کے دل سے منوں بوجھ اترا تھا۔ وہ اپنے کالج میں داخلے کی خبر اماں کو سنانے آئی تھی۔ ماجد کے کہنے پر ہی اسے آنا پڑا، ورنہ ابا کی بے اعتباری نے تو پڑھائی کی طرف سے اُس کا دل برا کر دیا تھا، اس کا شوہر کچھ دیر پہلے ہی اسے یہاں چھوڑ گیا تھا مگر اماں ابا اس کی آمد سے بے خبر اپنی بحث میں پڑے ہوے تھے- ابا، وہ جھٹ سے ابا کے سینے سے جا لگی۔ اماں پھر سے اس صورت حال پر پریشان ہو گئیں۔ آپ نے مجھے سے ذکر کیوں نہیں کیا آپ کو اندازہ نہیں میں کتنی پریشان تھی اور پھر آپ نے اس طرح سے کیوں میری شادی کردی ؟ آنسو پیتے ہوئے اس نے ابا سے شکوہ کیا۔ نہ میری بیٹی! ایسی بات نہ کرے صابر کا لڑکا تو پہلے ہی میرے پاس آیا تھا، میں نے اسے کہا تھا کہ زینب باجی سے پوچھ لے کتابوں کا جا کر، پترا میں نے تجھے کچھ کہا تھا۔ بھلا؟ ابا اب اطمینان سے ساری کہانی سنا رہے تھے۔ اور جہاں تک بات ہے ہنگامی شادی کرنے کی تو بہت ضروری تھا یہ اس رشیدہ نے اپنے خاوند سے اپنے بیٹے کے لیے زینب کے رشتے کی بات بھی کہلوائی تھی میرے پاس اور اس شام میرے آنے سے پہلے رشیدہ ہمارے دروازے پہ پہنچی ہوئی تھی، بیٹا! تیری بھی تو غلطی تھی نا کہ تو نے شام ویلے اسے کتابیں لے جانے کا کہا۔ انہوں نے زینب کی غلطی کی بھی نشاندہی کی تو زینب شرمندگی سے سر جھکا گئی۔ مجھے پتا تھا اس نے اپنے بندے (شوہر) کو پٹیاں پڑھا کر پورے جگ میں تماشا لگا دینا تھا ہمارے خلاف الٹی سیدھی باتیں پھیلا کرے اور اب دیکھ جیسے ہی زینب کے نکاح خبر ملی فورا آگئی وہ فساد مچانے۔ بھلا تم لوگ مجھے بھی بتا دیتے میں معاملے کو دیکھ لیتی۔ ماں کو اپنی بے خبری کا دکھ ہوا۔ او چل چھڈ وی دے مٹی پا ہن ساری گل تے، زینب بیٹی خوش تو ہے نا میں نے کہیں زیادہ جلدی بازی میں کوئی غلطی تو نہیں کر دی۔ ابا کو یکدم زینب کی فکر ہوئی۔ نہیں ابا مجھے پہلے بھی آپ دونوں کے کسی فیصلے پر اعتراض تھا نہ اب ہے میں بہت خوش ہوں اور یہی تو بتانے آئی تھی کہ ماجد نے میرا کالج میں داخلہ بھیج دیا ہے- شکر ہے میرے رب دا اس نے ہم غریبوں کی لاج رکھ لی۔ ابا بہت خوش ہوئے تھے۔ اماں نے بھی بیٹی کو گلے لگا لیا- اماں خدیجہ نظر نہیں آرہی ۔ زینب کو یکدم اس کی کمی محسوس ہوئی۔ اسکول گئی ہے، تو اپنے آنے کا بتا دیتی تو میں چھٹی کروا دیتی اس کی آج- نہیں کوئی بات نہیں میں شام تک یہیں ہوں، مجھے تو یہ ڈر تھا کہیں میری وجہ سے آپ لوگ خدیجہ کا اسکول نہ چھڑوا دیں۔ نہیں بیٹی آئندہ ایسی بات سوچنی بھی نہیں۔ تم دونوں تو میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو۔ تم لوگوں پر کیوں بے اعتباری کرنی مجھے اپنی تربیت پہ کوئی شک نہیں۔ زینب کھلے دل سے مسکرائی تھی اور اماں ابا نے بھی مسکراہٹ میں اس کا ساتھ دیا۔

Latest Posts

Related POSTS