میرا تعلق ایسے گھرانے سے تھا جہاں ہمہ وقت دولت کی ریل پیل رہتی تھی۔ والد صاحب بہت بڑے زمیندار تھے اور ان کا دبدبہ سارے علاقے میں تھا۔ دولت کی فراوانی کے سبب ہمارے خاندان کے مرد اپنی ہر خواہش پوری کرنے کی قدرت رکھتے تھے جبکہ لڑکیوں پر بے پناہ سختی، جیسے وہ قیدی ہوں لیکن بیٹوں کو کھلی چھوٹ تھی۔ یہی سبب تھا کہ سترہ برس کی عمر سے ہی میرا بھائی فیاض ایسے کھیل کھیلنے لگا کہ نیکی، بدی کی تمیز جاتی رہی۔
ہمارا گھر گائوں میں تھا لیکن میرے تینوں بھائی لاہور میں رہتے تھے کیونکہ وہ وہاں اعلیٰ درسگاہوں میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ والد صاحب نے ان کی عمدہ رہائش اور ہر ایک کے لیے علیحدہ گاڑی کا بندوبست کردیا تھا تاکہ ان کے صاحبزادوں کو کوئی تکلیف نہ ہو۔
فیاض میرے دونوں بھائیوں سے چھوٹا لیکن انتہائی رنگین مزاج تھا۔ اس کا دل پڑھائی میں نہ لگتا تھا۔ گائوں کی زندگی سے بڑے شہر کی رنگینیوں میں گم ہوا تو اپنی زندگی کا اصل مقصد بھول گیا اور اب اس کا مقصد صرف دولت سے لطف اٹھانا رہ گیا تھا۔
کہتے ہیں جیسا انسان خود ہوتا ہے، اس کو دوست بھی ویسے ہی ملتے ہیں۔ فیاض نے لاہور جاکر ایسے دوست بنا لئے جو اس کے ہم مزاج تھے اور ان کا تعلق امیر گھرانوں سے تھا۔ پڑھائی ان کے لیے ثانوی چیز تھی۔ ان کے مشاغل میں سیروتفریح، رقص و سرود کی محفلیں شامل تھیں۔
شبانہ ایک ایکسٹرا گرل تھی جو میرے بھائی کو کسی ایسی محفل میں ملی جہاں رقص و سرود سے لطف اندوز ہونے کے لیے ان جیسے رنگین مزاج نوجوان جمع تھے۔ شبانہ سے ایک دوست نے تعارف کرایا تھا۔ وہ فیاض کو پسند آگئی۔ روز ملاقاتیں ہونے لگیں۔ اب بھائی بے تحاشا پیسے گھر سے منگواتے۔ کبھی ابو سے، کبھی امی جان سے، کبھی مجھ سے بنِتی کرتے کہ باجی تم کچھ فیاضی کرو، مجھے سخت ضرورت ہے۔ میری سمجھ میں نہ آتا کہ میرا بھائی اتنے روپوں کا کیا کرتا ہے۔ دراصل وہ شبانہ پر ان دنوں بے تحاشا رقم لٹا رہے تھے اور ہم سمجھتے تھے کہ پڑھائی ہورہی ہے۔
شبانہ کوئی نامی گرامی فنکارہ نہ تھی۔ اسٹیج ڈراموں یا پھر فلموں میں معمولی کردار کرتی تھی۔ خدا جانے میرے بھائی کو اس لڑکی میں کیا بات نظر آئی کہ اس کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر ہوکر رہ گیا۔ اب وہ پڑھائی سے غافل اسی کے ساتھ روز و شب بسر کرنے لگا۔
سبھی جانتے ہیں کہ ایسی لڑکیوں کے پر ہوتے ہیں۔ وہ جب چاہیں حسین تتلیوں کی طرح اُڑ کر کسی اور پھول پر جا بیٹھتی ہیں۔ پھر بھائی پر ایسا وقت آگیا کہ فیاض، شبانہ کے بغیر ایک لمحہ بھی نہ رہ سکتا تھا۔ وہ اس سے شادی کا فیصلہ کرچکا تھا۔ انہی دنوں ایک محفل میں بھائی بھی موجود تھا۔ گولی چل گئی اور ایک شخص کی جان چلی گئی۔ دراصل یہ وہ شخص تھا جس کے ساتھ کچھ عرصہ قبل فیاض کا جھگڑا ہوا تھا اور یہ جھگڑا بھی شبانہ کی خاطر ہوا تھا۔ یہ لڑکی پہلے اس نوجوان کے ساتھ گھومتی تھی۔ جب میرے بھائی سے ملی تو اس نے ناصر کو چھوڑ دیا اور فیاض کی الفت کا دم بھرنے لگی۔ ناصر کو اس کی بے وفائی سے شدید قلق ہوا اور وہ موقع کی تلاش میں رہنے لگا۔
ایک دن شبانہ اسے فیاض کے ساتھ نظر آگئی تو وہ اپنے دو دوستوں کے ساتھ میرے بھائی سے جھگڑنے لگا۔ نوبت مار پیٹ تک آگئی لیکن کچھ لوگوں نے درمیان میں پڑ کر بیچ بچائو کرا دیا۔ یہ جھگڑا گانے کی محفل میں ہوا تھا لہٰذا سبھی شائقین جان گئے کہ شبانہ جھگڑے کا اصل باعث ہے اور ان دونوں جوانوں میں اس کی وجہ سے رقابت چل رہی ہے۔
جس روز ایسی ہی ایک محفل میں ناصر کو گولی لگی تو کچھ بدخواہوں نے میرے بھائی کا نام تفتیش کے دوران پولیس کو دے دیا کہ ناصر کا فیاض سے جھگڑا تھا۔ ممکن ہے اسی نے اس نوجوان کا کام تمام کرا دیا ہو۔ پس پولیس میرے بھائی کو تفتیش کے لیے تھانے لے آئی۔ بھائی نے دونوں بڑے بھائیوں کو فون کیا اور پھر بات بابا جان تک آپہنچی۔ وہ اسی وقت لاہور چلے گئے۔ اس دن امی جان کی حالت کیا لکھوں۔ وہ روتے روتے نڈھال ہوئی جاتی تھیں اور ہم سب بہنیں، پھوپھیاں، کزنز وغیرہ سارا دن فیاض کے لیے دعائیں کرتی رہیں کہ خدا کرے یہ الزام غلط ثابت ہو اور اسے باعزت رہائی مل جائے۔
ہماری دعائیں قبول ہوگئیں۔ بابا جان نے جاکر مسئلہ حل کرا دیا۔ کافی روپیہ
خرچ کیا۔ یوں فیاض جیل جانے سے بچ گیا۔ اب والد نہیں چاہتے تھے کہ وہ وہاں رہے مگر بھائی نے منت سماجت سے بات منوا لی کہ وہ سالانہ امتحان دے کر آجائے گا۔ اس کی پڑھائی مکمل ہونے تک بابا جان اس کو لاہور میں قیام کی اجازت دے دیں۔
کہتے ہیں عشق کا کوئی علاج نہیں۔ اتنے بڑے خطرے سے جان چھوٹنے کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ بھائی محتاط ہوجاتے اور دوبارہ شبانہ کی طرف رخ نہ کرتے لیکن عشق کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ شبانہ سے ترک تعلق نہ کیا۔ بڑے بھائیوں نے بہت سمجھایا کہ یہ جس طرح کی فنکارہ ہے، والد صاحب کبھی اس کو بہو بنانا پسند نہ کریں گے لیکن فیاض کب ماننے والا تھا۔ اس نے شادی کا ارادہ سب پر ظاہر کردیا۔
سالانہ امتحان ختم ہوگئے۔ فیاض گھر نہ لوٹا۔ والد صاحب خود جاکر اسے لے آئے۔ جان چکے تھے کہ وہ کن راہوں کا مسافر ہوچکا ہے۔ تبھی اپنی بھتیجی عارفہ سے اس کی منگنی کا اعلان کردیا۔ فیاض کو بھی بابا جان کے فیصلے سے آگاہ کیا تو وہ بے حد بگڑا اور صاف کہہ دیا کہ وہ اپنے لئے دلہن پسند کرچکا ہے۔ شبانہ سے ہی شادی اس کی آرزوئوں کی تکمیل ہے۔ اس کے سوا کسی اور سے ہرگز شادی نہ کرے گا۔
بابا جان کو بیٹے سے اختلاف تو تھا ہی، اب وہ غصے میں آگئے۔ انہوں نے فیاض سے کہا کہ یہ رشتہ میرے نزدیک نامناسب ہے۔ کسی ایسی لڑکی کو میں ہرگز اپنی حویلی میں بہو بنا کر لانا پسند نہیں کروں گا جو ایکسٹرا گرل کے طور پر جانی جاتی ہو۔ ان کے نزدیک شبانہ ایک بکائو شے تھی۔ ان کے خیال میں ایسی عورت ان کی حویلی میں کیسے سما سکتی تھی جہاں عورتیں پردہ کرتی تھیں۔ کیسے وہ ان کے گھر کی بہو اور ان کی نسل کی پروردہ ہوسکتی تھی کہ جس لڑکی کے حسب نسب کا کچھ پتا نہ تھا۔
بابا جان نے بھائی کو اس امر سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی۔ وہ کسی طرح نہیں مانا اور بغیر اجازت گھر سے لاہور چلا گیا۔ وہاں سے پیغام بھجوایا کہ اگر اس کی شادی شبانہ سے نہ کی گئی تو وہ اس کے ساتھ کورٹ میرج کرلے گا۔ یہ دھمکی والد صاحب کو ملی تو وہ پریشان ہوگئے۔ جانتے تھے جوان سرکش بیٹے کو زیر نہیں کرسکتے۔ تب ایک اور ترکیب آزمانے کی ٹھان لی۔ وہ لاہور چلے گئے اور وہاں جاکر شبانہ کا اتاپتا معلوم کرلیا۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ کسی ایسے محلے میں رہتی تھی جو نیک نام نہیں تھا۔ شبانہ کی دو بہنیں اور بھی تھیں جو کسی تھیٹر کے ساتھ وابستہ تھیں اور چھوٹے موٹے رول کرتی تھیں۔ وہ خوبصورت تھیں اور اکثر شہر میں برپا رقص و سرود کی محفلوں کی رونق بڑھاتی تھیں۔
والد صاحب کا کام آسان ہوگیا کیونکہ شبانہ کے گھرانے تک ہر دولت مند کی پہنچ ہوسکتی تھی۔ کسی دوست کے توسط سے وہ اس کی ماں سے ملے اور اس کو راضی کیا کہ وہ اسے منہ مانگی رقم دینے کو تیار ہیں اگر شبانہ کو وہ تھوڑے وقت کے لیے ان کے ساتھ کردے۔ شبانہ کی ماں نے کہا کہ وہ اپنی دونوں بیٹیوں کو راضی کرسکتی ہے لیکن شبانہ کو نہیں کیونکہ وہ کسی امیر زادے سے شادی کے خواب دیکھ رہی ہے۔ وہ اس کا کہا نہیں مانتی ہے۔
بابا جان نے خود شبانہ سے ملاقات کی اور اس سے منت کی کہ وہ ایک شب کے لیے ان کی محفل کی رونق بڑھا دے تو وہ اس کے نام اپنی کوٹھی کردیں گے جو لاہور میں ہے۔ لمحہ بھر کو اس لڑکی نے سوچا کہ کیوں نہ میں یہ سودا کرلوں۔ چند شرفا کی محفل میں دوچار غزلیں ہارمونیم پر گا کر اگر ایک شاندار کوٹھی ہاتھ آتی ہے تو کیا مضائقہ ہے۔ یہ کوٹھی میں اپنی ماں کے نام لکھوا لوں گی، وہ دربدر ہونے سے بچ جائے گی اور تمام عمر سکون سے رہے گی۔ بہنوں کو بھی مکان کا کرایہ ادا کرنے کی خاطر پریشان نہیں ہونا پڑے گا۔
اس نے بابا جان کے سامنے یہ شرط رکھ دی کہ آپ کی محفل میں غزل گائوں گی اور وہاں آپ کے چند دوستوں کے سوا اور کوئی نہ ہوگا۔ بابا جان نے یہ شرط منظور کرلی۔
ادھر جب فیاض بھائی کو معلوم ہوا کہ اس کے والد آگئے ہیں، وہ رہائش گاہ سے نکل گیا اور دوبارہ نہیں آیا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ والد اپنی بھتیجی سے شادی کے لیے اس کو منانے لاہور آئے ہیں۔ بابا جان کے آنے کی اطلاع فیاض کو ملازم نے دی تھی۔
جس شب محفل تھی، وہاں فیاض تو نہیں تھا لیکن جب بابا جان کا ڈرائیور شبانہ کو لے کر کوٹھی پر آیا تو وہ چونک گئی کیونکہ اس جگہ وہ فیاض کے ساتھ پہلے بھی آچکی تھی۔ نوکر موجود تھا مگر مالک نہیں تھا۔ اس کی جگہ ایک بڑے
کا حلقہ احباب محفل سے محظوظ ہونے آیا ہوا تھا۔ شبانہ نے نوکر کو بلا کر پوچھا۔ کیا یہ فیاض کا گھر ہے؟ ہاں… اور یہ ان کے والد ہیں۔ اس نے بابا جان کی طرف اشارہ کیا۔ یہ سنتے ہی شبانہ کو چکر آگیا اور وہ بے ہوش ہوگئی۔ اسے بابا جان کا ڈرائیور گھر پہنچا آیا جہاں اس نے کوئی جان لیوا دوا پھانک کر خودکشی کی کوشش کی۔ تبھی اسے اسپتال لے گئے لیکن وہ جاں بر نہ ہوسکی۔
جب یہ اطلاع فیاض کو ملی، وہ صدمے سے نڈھال ہوگیا۔ اس نے بابا جان اور گھر والوں سے قطع تعلق کرلیا۔ عرصے تک امی جان اور ہم بہنیں اس کی صورت کو ترس گئے۔ اس نے کسی کو اپنا اتاپتا نہ دیا کہ وہ کہاں ہے۔ یقیناً وہ کسی دوست کے گھر پر رہا ہوگا۔
ایک سال کے بعد بڑے بھائی کو فیاض کے ایک دوست نے بتایا کہ تمہارا بھائی فلاں جگہ رہتا ہے۔ بھائی اسے منانے گئے لیکن وہ دنیا و مافہیا سے بے خبر، سلگتے سلگتے نیم جان ہوچکا تھا۔ بڑے بھائی نے اس کے اکائونٹ میں کافی رقم ڈال دی تاکہ وہ کسی کا محتاج نہ رہے۔ امی جان کو بھی تسلی دی کہ غمزدہ نہ رہا کرو۔ تمہارا بیٹا جہاں بھی ہے، خیریت سے ہے۔ جوانمرد ہے بالآخر ایک روز اس غم سے نکل آئے گا۔
اب بڑے بھائی ہر ماہ فیاض سے ملنے جاتے تھے۔ اسے اس کی کوٹھی میں لے آئے جہاں پہلے رہائش تھی۔ فیاض بھائیوں سے تو ملتا تھا لیکن بابا جان کی صورت بھی دیکھنا نہ چاہتا تھا۔ بہرحال پیسہ ملنے لگا تو نئے سرے سے زندگانی کا سفر شروع ہوگیا اور پھر میرے بھائی نے خود کو دوبارہ رقص و سرود کی محفلوں میں گم کردیا۔
بابا جان کو اس بات کی پروا نہ تھی کہ فیاض کوئی ڈھنگ کا کام کرنے کی بجائے عیش و عشرت کے بہانے اپنا غم غلط کرتا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ کچھ عرصے بعد وہ ان مصنوعی خوشیوں سے تھک جائے گا، تب خود ہی گھر لوٹ کر آئے گا۔
وہ تجربہ کار جہاں دیدہ انسان تھے۔ شاید اپنے بیٹے کی نفسیات اور فطرت کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ دو سال بعد ایک روز اچانک بھائی فیاض کا فون آگیا۔ وہ امی جان سے بات کرنا چاہتے تھے۔ فون ملازم نے اٹھایا اور امی جان کو خوشخبری دی گئی کہ آپ کے بیٹے کا فون آیا ہے، آپ سے بات کرنا چاہتا ہے۔ امی دوڑی گئیں، فون سنا۔ عرصے بعد بیٹے کی آواز سن کر رونے لگیں۔ اتنے کرب سے روئیں کہ ہچکیوں میں آواز دب گئی۔ ماں کا رونا بھائی سے برداشت نہ ہوا اور وعدہ کیا کہ وہ باپ کی خطا کو ان کی خاطر معاف کرکے آرہے ہیں۔ دو دن بعد صبح سویرے فیاض بھائی آگئے۔ آتے ہی ماں کے پائوں چھوئے اور رونے لگے۔ ماں نے گلے سے لگایا اور اپنی قسم دی کہ اب رونا نہیں کیونکہ رونا مرد کو زیب نہیں دیتا۔ امی جان روز ہی بھائی کو سمجھاتی تھیں کہ تمہارے والد غلطی پر نہ تھے۔ وہ تمہیں اور تمہاری نسل کو محفوظ کرنا چاہتے تھے۔ چاہے دل لگی سو طرح کی عورتوں سے کرو مگر شادی اپنی خاندانی عورت سے ہی کرنی پڑے گی کیونکہ وہ تمہاری نسل کی امین ہوتی ہے۔
امی جان روزوشب بھائی کو مناتی رہتی تھیں۔ بالآخر ماں کی خاطر انہوں نے اپنی اَنا کو مار دیا اور بابا جان کی بھتیجی سے شادی کے لیے ہاں کہہ دی کیونکہ عارفہ ان کی بچپن کی منگیتر تھی اور ابھی تک ان کے نام پر بن بیاہی بیٹھی تھی۔
جب والدہ نے بابا جان کو یہ سندیسہ دیا کہ فیاض، عارفہ سے شادی پر راضی ہے تو بابا جان خوشی سے دیوانے ہوگئے۔ انہوں نے منوں مٹھائی منگوا لی اور ساری بستی میں تقسیم کرائی۔ پھر بھائی فیاض کو گلے لگایا تو بھائی بھی رام ہوگئے۔ اپنے والد کی طرف سے جو کدورت دل میں تھی، اسے بھلا دیا۔
شادی کی تیاریاں شروع کردی گئیں۔ والد صاحب نے بہت دھوم دھام سے فیاض کی شادی کی اور شادی کے تحفے کے طور پر لاہور والی کوٹھی ان کے نام کردی۔ ایک قیمتی گاڑی بھی دی۔ پھر ہنی مون کے لیے سوئٹزرلینڈ بھجوایا۔ ہنی مون کے بعد جب بھائی فیاض اپنی دلہن کے ہمراہ لوٹے تو بے حد خوش تھے جیسے کوئی تلخ یاد ان کے ذہن میں باقی نہ رہی تھی۔ وہ اپنی دلہن کے ناز نخرے اٹھا رہے تھے اور ایسے ہنس رہے تھے جیسے عارفہ کو پا کر ان کو دنیا جہان کی خوشیاں مل گئی ہوں۔ عارفہ کو بہو بنا کر بابا جان بھی پھولے نہیں سما رہے تھے کیونکہ بھتیجی کے حویلی میں آجانے سے ان کی زمین میں اضافہ ہوا تھا۔ وہ اپنے ساتھ جہیز میں دو مربع زمین بھی لائی تھی۔ یہاں بڑے زمیندار ایسے ہی نہیں بنتے۔ ان کی طاقت ان کی
ہوتی ہے۔ وہ جسم و جان تو وار دیتے ہیں۔ اولاد کی خوشیاں بھی قربان کردیتے ہیں لیکن اپنی زمین کی تقسیم برداشت نہیں کرتے۔ زمینوں کی تقسیم ہوجانا ان کے لیے ایسا ہی ہے جیسے کوئی ان کی پگڑی اچھال دے۔
جب فیاض بھائی جوان تھے، وہ یہ نکتہ نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے خیالات پر تعلیم اور بڑے شہر کی فراغ سوچوں کا غلبہ تھا۔ وہ کہتے تھے دل کی خوشی سب کچھ ہے اور اس کے سامنے ہر شے ہیچ ہے مگر آج جبکہ زندگی کا تجربہ پا لیا تھا۔ وہ دوسری طرح سوچتے تھے۔ اب وہ اپنے بیٹوں سے کہتے ہیں کہ صاحبزادو! دل کی خوشیاں ضرور پوری کرو مگر شادی ہم پلہ رشتے داروں میں کرو کیونکہ زمین کا تقسیم ہونا ہم کو کمزور کرتا ہے اور یہ تقسیم ہمیں کسی صورت گوارا نہیں ہے۔
اب اگر کبھی کوئی بھائی یا بہن فیاض سے پوچھتا کہ بھیا! کیا بابا جان نے تم کو پسند کی شادی سے روک کر ٹھیک کیا تھا، تو وہ یہی کہتے ہیں کہ ہاں بالکل ٹھیک کیا تھا۔ اس وقت میں غلطی پر تھا اور وہ صحیح تھے، بالکل درست تھے۔ اچھا ہوا جو مجھے عقل آگئی، ان کی بات مان لی ورنہ آج میں کہیں کا نہ رہتا۔
اب شبانہ کے بارے ان کا خیال ہے کہ ایسی عورتیں ہم مردوں کی زندگی میں آتی رہتی ہیں لیکن اصل عورت ہمارے لئے وہی اہم ہے جو ہمارے خاندان کی ہو کیونکہ ہماری نسل نے اس کی گود میں پروان چڑھنا ہوتا ہے۔ بھلا ایک بڑے زمیندار کے بچے کس کو ماموں، خالہ یا نانی کہیں…! یہ بھی سوچنے والی بات ہے۔
(س… ڈیرہ اسماعیل خان)