ایک بہت ہی سرخ تقریبا چھلا ہوا چہرہ تھا۔ وہ گیٹ کھول کر اندر داخل ہوئی ،حسن کی خواہش پر بلکہ تاکید پر وہ ساتھ ایک بڑی ڈش بریانی کی بھی لے کر گئی تھی- گرما گرم بریانی کی اشتہا انگیز ڈش کے پاروہ بہت ہنستی کھلکھلاتی ہوئی سی لگتی تھی ۔ نئی نئی شادی کا روپ ایسا ہی ہوتا ہے ۔ بے فکری اور خوشی ۔ یہی تو دن ہوتے ہیں۔ میں نائلہ، آپ کے پڑوس سے آئی ہوں حسن کی بیگم۔ آپ کے میاں نے بتایا تو ہوگا۔ صوفے پر بیٹھتے ہوۓ اس نے تعارف کی رسم بھی ادا کر ڈالی۔ اردگرد کا ماحول بہت اچھا تھا ، خوش حالی کا پتا دیتا ہوا گھر ۔اس نے ایک مہنگا سرخ سوٹ پہن رکھا تھا۔ خوب گوری کلائیاں چوڑیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ ایک منٹ ۔ میں چائے لاتی ہوں آپ کے لیے اسے بٹھا کر وہ چلی گئی تھی۔ چاۓ کافی مزے دار تھی اور سلیقے سے پیش کی گئی تھی۔ میرا نام سویرا ہے۔ سویرا جیسی ہی تھی وہ۔ نام بتاتے ہوۓ وہ سرخ ہورہی تھی ۔ سرخ انار جیسی عورت۔ میں گھر پر ہی رہتی ہوں ۔ اتنے بڑے سارے گھر میں اکیلی۔ یا اللہ یہ تو بہت خوش قسمت ہے ۔ نائلہ نے اسے خوش قسمت خیال کیا پھر پل بھر میں ہی دل پلٹ گیا۔ وہ بھی کوئی کم خوش نصیب نہیں جو اتنی پیاری بیٹیوں اور ایک چھوٹے سے میرو کی امی ہے اور دو دو اپنے گھر ۔ صبر کا انعام۔ میرے میاں مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ ایک پل نہیں گزارتے میرے بغیر ۔ ہر وقت بس مجھے ہی دیکھتے رہتے ہیں ۔ یہ الگ گھر بھی انہوں نے سسر سے فرمائش کر کے علیحدہ لیا ہے تا کہ کوئی ہمارے در میان مخل نہ ہو سکے۔ چالیس پینتالیس سال کی سویرا ایک بار پھر ناز سے مسکرائی۔ یہ مسکراہٹ اس پر جچتی ہے ۔ اس نے سوچا اکیلی جو رہتی ہے ۔ایک میرے میاں ہیں صبح ہی ایک کپ چاۓ کی وجہ سے چیخ پکار مچا کر گئے ہیں۔ میں ہی ڈھیٹ ہوں، نہیں صابر ہوں جو گزارہ کر رہی ہوں۔ پتا نہیں انہیں مجھ سے محبت کیوں نہیں۔ اب وہ اسے اپنے پیار کا کون سا قصہ سناۓ ۔ دس برس بیت گئے ۔ محبت کی کہانیاں اب وہ کہاں سے ڈھونڈے ۔ نائلہ کہتی کہ اسے صرف بچوں سے پیار ہے اور حسن کا بھی یہی خیال تھا کہ وہ بھی صبح کا پہلا گرم پراٹھا سونی کو ہی دیتی ہے تا کہ وہ اسکول سے لیٹ نہ ہو جائے ،اس کے لیٹ ہونے کی نائلہ کو کبھی فکر نہیں ہوتی۔ اصل میں تو تم اپنے بچوں کے لیے ہی جلدی اٹھ جاتی ہو، میرے لیے کون اٹھنے کی زحمت کرے۔ دراصل وہ دونوں ہی بچوں کے لیے جیتے تھے ہر پل ہرلمحہ محبت بھرا سچ، بچوں جیسی کوئی اور نعمت ہے بھلا۔ سامنے بیٹھی سویرا تو پور پور محبت میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ اسے کہتے ہیں محبت، وہ اور بھی بہت کچھ کہہ رہی تھی ناز بھری، اپنی پسند نا پسند ہر بات سے لاڈ صاف جھلکتا تھا۔ وہ کسی کی لاڈلی ہے اس لیے ۔ میں تو ذراخوش ہوں تو فورا چاۓ مانگ لیتے ہیں۔ ہوں، ایک لمبی سی اندر کی ہوں کو گیٹ پر کسی کے آنے کے کھٹکے نے توڑا۔ ایک جواں سال لڑکی تھی جو اسکول یونیفارم پہنے کافی تھکی تھکی دکھائی دیتی تھی۔السلام علیکم مما، السلام علیکم آنٹی، سامنے نظر بعد میں گئی تھی پھر اسے بھی سلام کرتے ہوئے وہ ایک دوسرے کشادہ کمرے میں غائب ہوگئی تھی۔ نین نقش بالکل سامنے بیٹھی سویرا جیسے تھے۔ حسن تو کہہ ر ہے تھے کہ نیا نیا شادی شد و جوڑا پڑوس میں آن بسا ہے۔ تم ذرا مل آنا اور دلہن کے پاس خالی ہاتھ بالکل مت جانا اور یہ اتنی پلائی بیٹی ، نیا محلہ تھا اور نیا گھر وہ کچھ الجھ سی گئی۔ میری بیٹی ہے ان شاء اللہ دسویں کے پیپر دے گی ۔ اس کے بعد اس نے ایک شاپر آموں کا بھر کر دیا یہ کہ کر ان کے اپنے آموں کے باغ ہیں- بہت ساری باتوں اور ہلکی پھلکی گپ شپ کے بعد جب وہ اٹھنے لگی تھی ۔ تب ہی کوئی اندر آیا تھا ۔اس کی آنکھوں کے والہانہ پن نے اسے فورا سے پہلے غائب ہونے کا سگنل دے دیا تھا۔ مگر وہ اسے دیکھ کر سنبھل چکا تھا۔ انہیں واقعی تنہائی کی ضرورت تھی- چلتے چلتے نائلہ نے سوچا اور اپنا گیٹ پارکرگئی- چھوٹی سی کیاری میں چھوٹے چھوٹے سرخ پھول ہوا کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہے تھے ۔ایک چھوٹا سا مگر صاف ستھرا گھر بہت بے ہنگم تو نہیں مگر کافی پھیلا ہوا وجود ۔ بچوں کی فکر میں ، ہوم ورک کھانا ، چاۓ ، روٹیاں ۔سالن ، کپڑے ، یونیفارم سو کام تھے جو وہ اکیلے ہی بہت اچھے طریقے سے کر لیا کرتی ۔ اس کی زندگی پرسکون تھی ۔ ایک مطمئن مکمل گھر مگر اس جیسا والہانہ پن وہ کہاں سے لاۓ ۔ نئی نئی شادیوں میں ایسا ہی ہوتا ہے ایک دم اسے میاں جی کی آنکھیں یاد آئیں۔ اف اب ایسا بھی نہ ہو- آئینے میں ایک پرسکون چہرہ مسکرایا۔
***
پھر بہت سارے دن گزر گئے ۔ گرمی کے لمبے دنوں کی تھکاوٹ اسے اردگرد کا بھی ہوش نہ رہنے دیتی ۔ گرم کچن سے چلتے پنکھے تک کا ٹھنڈا سفر وہ کبھی کبھی ہی کیا کرتی ہیں تو کوئی نہ کوئی کام ہی کرتی پھرتی ۔ کسی کے کپڑے دھوۓ تو دوسروں کو نہلا دیا۔ سویرا اسے ایک دن گلی میں ہی ملی تھی ۔ اب وہ کافی حد تک سویرا نہیں رہی تھی بلکہ آہستہ آہستہ اندھیرا ہوتی دکھائی دے رہی تھی ۔ بجھی بجھی سی آنکھیں۔ سرخ گالوں پر گھٹیا کریم نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا تھا۔ موٹے موٹے دانے ، چھائیاں، داغ دار بجھا چہرا، براؤن گہرے روئیں سے جھانکتا چہرہ۔ آپ کسی دن ہمارے گھر بھی آئیں ناں۔ نائلہ نے دوسری بار کہا، پتا نہیں وہ کیوں نہیں آسکی تھی۔ کوئی مجبوری مصروفیت یہی سمجھا تھا اس نے ۔ محلے کی حاجیانی اماں نے بتایا تھا کہ اس نے دوسرا نکاح کیا ہے اور پہلے شوہر کی غیر موجودگی میں وہ خیانت کرتی رہی تھی نہ شوہر کا خیال کیا نہ بیٹی کا۔ ساتھ بیٹی پچھلے شوہر کی لیے پھرتی ہے۔ کسی کے بھی اس کے بارے میں اچھے خیالات نہیں تھے۔ میاں اٹھائیس سال کا اور بیگم پچاس سے بھی اوپر ۔ کچھ اپنی عمر کا ہی لحاظ کر لیا ہوتا ۔ اپنے معاشقے میں بیٹی کا بھی نہ سوچا۔ دنیا کے تو جومنہ میں آتا ہے ، بکے جاتی ہے ۔ کیا پتا پچھلا شوہر اچھا نہ ہو۔ اس نے سنی سب کی مگر آگے پہنچائی نہیں۔ کوئی مسئلہ ہوگا رسمی سی گفتگو کے بعد خیالوں کے اڑتے پھولوں کے درمیان وہ ہمسائی کے گھر سے اپنی کڑاہی واپس لے کر آ گئی۔ اچھی بھلی تو ہے ۔ جب دو دل راضی ہیں تو کسی کو کیا تکلیف ، جب اسے اس عمر میں بھی اس سے محبت ہے تو بولنے والوں کی تنقید بے جاٹھہری۔ نائلہ نے اسے کبھی برانہیں سمجھا تھا۔ بھلی عورت تھی وہ ۔ ان کے گھر میں بہت خاموشی رہتی تھی نہ ٹی وی کی آواز نہ کوئی اور بات کبھی بھی کسی آواز نے اس خاموشی کے پہرے کو نہیں توڑا۔ بھری دو پہروں میں تنہائی کا شور نائلہ کو بہت شدت سے محسوس ہونے لگا تھا۔ دونوں ماں بیٹی کی آواز بھی کبھی کسی نے نہیں سنی ، کیا پتا وہ کم گو ہوں ۔ زیادہ بولنا پسند نہ ہوانہیں اور پتا نہیں کب چڑھتا سورج ان کے راز کو بھی فاش کر گیا تھا- فجر کی اذان سے بہت پہلے آوازوں کی گھن گرج نے نائلہ کو اٹھا دیا تھا۔ گھٹن زدہ آواز بہت آہستہ آہستہ سلگتی ہوئی سنائی دے رہی تھی ۔ وہ گندی گالیاں دے رہا تھا۔ ڈیڑھ سال تک کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی ان کے ہاں یا شاید دو سال گزر گئے تھے ۔ اولا د بھی ساتھ ہی لے آئی میرا کون سا اپنا خون ہے ۔ جو کھاۓ تو دکھ نہ ہو۔ کسی کا خون میرے خون پسینے کی کمائی کھا تا ہے تو میرا خون کھول اٹھتا ہے۔ ذلیل عورت اتنا پیار تھا تو اسی کے پاس رہتی۔ میرے پلے پڑنے کی کیا ضرورت تھی۔ باپ تھوک گیا مجھ پر ، بہن بھائی چھوٹ گئے۔ رہ کیا گیا ہے میرے پاس ۔ایک تمہارے لعنتی وجود کے علاوہ ۔ آہ سویرا کی بیٹی بھی یقینا پاس ہی تھی۔ سویرا منمنا رہی تھی ۔ پست ہارا لہجہ دبی دبی سسکیاں- وہ اپنے حق کو بڑی غلط جگہ ، غلط وقت پر استعمال کر بیٹھی تھی- رنگیلے کے بھیجے ریال اسے بڑی شدت سے یاد آۓ تھے جنہیں اس کی بیٹی پر بڑے کھلے دل سے خرچ کیا جا تا تھا ۔اب اسے ایک ایک دھیلا کھٹک رہا تھا۔ نائلہ سن سی کھڑی رہ گئی ۔ رنگیلے کی سابقہ بیوی اپنی رنگین مزاجی کے ہاتھوں دھوکا کھا کر زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔ سستی کریم اور سستے عشق دونوں نے اپنا اصل رنگ دکھانا شروع کر دیا تھا۔ پتا نہیں وہ دیوار پار کیا سوچ رہی ہوگی پر نائلہ کے ذہن میں ایک بات آئی تھی- ہر چمکتی شے سونا نہیں ہوتی- پرانا محاورہ مگر اس میں بات سچ کی طرح نئی نکورتھی ۔