ایک پارسا کو سونے کی اینٹ کہیں سے مل گئی ۔ دنیا کی اس دولت نے اس کے نور باطن کی دولت چھین لی اور وہ ساری رات یہی سوچتا رہا کہ اب میں سنگ مرمر کی ایک عالی شان حویلی بنواؤں گا بہت سے نوکر چاکر رکھوں گا عمدہ عمدہ کھانے کھاؤں گا اور اعلی درجے کی پوشاک سلواؤں گا۔ غرض تمول کے خیال نے اسے دیوانہ بنا دیا۔ نہ کھانا پینا یاد رہا اور نہ ذکر حق ۔ صبح کو اسی خیال میں مست جنگل میں نکل گیا ۔ وہاں دیکھا کہ ایک شخص ایک قبر مٹی گوندھ رہا ہے تا کہ اس سے اینٹیں بنائے ۔ یہ نظارہ دیکھ کر پارسا کی آنکھیں کھل گئیں اور اس کو خیال آیا کہ مرنے کے بعد میری قبر کی مٹی سے بھی لوگ اینٹیں بنائی گے۔ عالی شان مکان، اعلی لباس اور عمدہ کھانے سب یہیں دھرے رہ جائیں گے ۔ اس لیے سونے کی اینٹ سے دل لگانا بے کار ہے۔ ہاں دل لگانا ہے تو اپنے خالق سے لگا۔ یہ سوچ کر اس نے سونے کی اینٹ کہیں پھینک دی اور پھر پہلے کی طرح زہد وقناعت کی زندگی بسر کر نے لگا۔