چھ سال تک ہماری منگنی رہی مگر حالات ایسے ہو گئے کہ ہمارے گھر والے شادی کے فرض سے عہدہ برآں نہ ہو سکے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جب میری لطیف سے منگنی ہوئی تھی، ان کی والدہ بیمار ہو گئیں اور شادی کا معاملہ التوا میں پڑ گیا۔ کینسر کی وجہ سے بیماری لمبی ہوتی گئی اور لطیف کے ابو کا تمام روپیہ بیوی کے علاج پر لگ گیا۔ یہ ان کی دوسری بیوی تھیں جن کی وفات کے بعد وہ بیچارے مالی طور پر بد حال ہو گئے۔ کاروبار پر توجہ نہ دینے کے سبب بزنس بھی ٹھپ ہو گیا۔ ان دنوں لطیف انجینئر نگ کے آخری سال میں تھے۔ جب انہوں نے تعلیم مکمل کر لی تو ملازمت کی تلاش شروع کر دی تا کہ گھر کے مالی حالات کو سہارا دے سکیں۔ کچھ تگ و دو کے بعد ملازمت بھی مل گئی۔ ان کی سوتیلی والدہ کے دل میں یہ خیال سمایا کیوں نہ اپنی بھانجی سے لطیف کی شادی کرا دوں۔ انجینئر ہے ، آگے مستقبل شاندار ہے۔ جب بھانجی بہو بن کر گھر میں آجائے گی تو پانچوں انگلیاں گھی میں رہیں گی۔ وہ میری خدمت بھی کرے گی۔ اس خاتون نے شوہر کے کان کھانے بھر نے شروع کر دیئے۔ ادھر میرے والدین بھی منگنی کے بعد چھ سال کے انتظار کی اذیت سہہ چکے تھے۔ انہوں نے لطیف کے والد سے مطالبہ کیا کہ اب تو تمہارا بیٹا بر سر روزگار ہو گیا ہے ، شادی کی تاریخ رکھ لیتے ہیں۔ آخر تک انتظار کریں ، ہماری لڑکی کی عمر نکلی جارہی ہے۔ جب یہ معاملہ لطیف کے گھر میں زیر بحث آیا تو اس کی بڑی اماں مین میخ نکالنے لگیں اور شوہر کو مشورہ دیا کہ یہ خوشحال لوگ ہیں۔ ذرا ان سے پوچھو تو کہ اپنی بیٹی کو جہیز میں کیا دے رہے ہیں ؟ ان کو چاہیے کہ جائیداد میں ابھی سے بیٹی کو حصہ دے دیں تا کہ لطیف علیحدہ گھر لے سکے یہ ۔ مالی طور پر سدھر جائیں گے تو ابتدا سے زندگی خوشگوار ہو جائے گی۔ تمہار ا سب کچھ تو دوسری بیوی کے علاج معالجہ پر صرف ہو گیا۔ اب اتنے بھی پیسے نہیں ہیں کہ ہم لطیف کی شادی ہی ڈھنگ اور طریقے سے کر سکیں۔ لطیف کے والد نے اس کی بات پر کہا کہ لڑکی والے شریف لوگ ہیں۔ ہم اگر سادگی سے بھی شادی کریں گے تو انہوں اعتراض نہ ہو گا۔ رہی جہیز یا جائیداد سے حصہ لینے کی بات ، تو یہ میں ان سے نہیں کروں گا۔ احمد میرا بہت پرانا اور اچھا دوست ہے۔ مجھے ہر گز زیب نہیں دیتا کہ جس کی بیٹی کو چھ سال شادی کے لئے انتظار کرایا ہے ، ان سے سودے بازی والی باتیں کروں۔ تم نہیں کر سکتے تو ٹھیک ہے ، میں خود کرلوں گی بات۔ لطیف کی سوتیلی ماں نے خاوند سے کہا۔
دراصل وہ اپنی بھانجی کو بہو بنانے کا ٹھان بیٹھی تھی۔ وہ ہماری منگنی توڑنے کے درپے ہو چکی تھی اور اب بہانے بہانے ایسی شرطیں رکھنا چاہ رہی تھی جس سے حالات بگڑ جائیں اور میرے امی ابو خود انکار کر دیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور الٹی سیدھی شرطیں بتا کر میرے ابو امی کو بد ظن کر دیا، انہوں نے کہہ دیا کہ ہم لطیف سے اب اپنی بیٹی کی شادی نہیں کریں گے۔ اس رشتہ کو ختم سمجھئے۔ آپ کو جہاں سے جہیز میں جائیداد اور مال و متاع ملتا ہے ، اس گھر سے لڑکی کو بہو بنا کر لے آئے۔ انکل کو از حد قلق ہوا لیکن ان کی بیگم اپنی کامیابی پر پھولی نہ سماتی تھیں۔ لڑکی والوں نے خود انکار کیا تھا۔ بلی کے بھاگوں چھینکاٹوٹا، تو خاتون کے میکے والے بغلیں بجانے لگے ۔ ان سب کی مراد بر آئی تھی۔ لطیف البتہ بہت دکھی ہوئے اور میری تو نہ پوچھئے کیا حالت تھی۔ جیتی تھی، نہ مرتی تھی۔ جس شخص کے ساتھ اتنے برسوں منگنی کے بندھن میں بندھی رہی، اس کے لئے دل میں گہرا پیار تھا۔ میں دل کے اس خوبصورت رشتے کو کیسے بھلا سکتی تھی۔ والدین سے کچھ کہہ سکتی تھی اور نہ لطیف یا اس کے والدین سے۔ بس روتی رہتی تھی۔ ادھر لطیف کی بڑی ماں نے اپنے شوہر کو منا لیا اور اپنی بھانجی کو بہو بنا کر لانے کی تیاریاں کرنے میں مصروف ہو گئی۔ اب ہمارا لطیف کے گھرانے میں آنا جانا اور ناتا ختم ہو چکا تھا۔ کچھ پتا نہ تھا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ میرے والد صاحب نے تو غصے میں وہ شہر ہی چھوڑ دیا اور دوسرے شہر گھر خرید کر وہاں شفٹ ہو گئے۔ شاید ان کو خدشہ تھا کہ لطیف اور میں کہیں آپس میں ایک دوسرے سے ناتا نہ رکھیں ، جس سے ان کی خاندان بھر میں سکی ہو جائے۔ لطیف کے گھر والوں کی طرف سے جب رشتہ خراب ہوا تھا۔ دو سال تک مجھے لطیف کی کوئی خیر خبر ملی اور نہ اسے میرے بارے کچھ پتا تھا۔ اس دوران میرے ایک دو رشتے آئے لیکن میں نے منع کر دیا کیونکہ میں ابھی تک صدمے سے نکلی نہ تھی۔ کسی اور سے شادی پر دل و ذہن آمادہ ہی نہ ہوتے تھے۔ ایک روز میں اپنی سہیلی سے ملنے اس کے گھر گئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ وہاں لطیف آیا ہوا تھا۔ میں نے عرشیہ سے پوچھا کہ یہ تمہارا کیا لگتا ہے ؟ اس نے بتایا کہ یہ میرا کزن اور بھائی کا دوست ہے۔ ان سے ہی ملنے آیا ہے۔ ہم تو ایک دوسرے کی دید کو ترس رہے تھے۔ لطیف نے موقع ملتے ہی مجھے اپنا فون نمبر لکھ کر دیا اور کہا کہ مجھے فون کرنا۔ گھر جا کر موقع ملتے ہی اسے فون کیا۔ وہ بھی جیسے منتظر تھا۔ ہم نے ڈھیروں باتیں کیں۔ اس کے بعد یہ معمول بن گیا۔ جب گھر والے سو جاتے ، تب ہم رات گئے باتیں کرتے ۔ ہمارے پرانے درد جاگ گئے تھے۔ انہی دنوں میرے لئے ایک اچھا رشتہ آیا۔ میرے والدین اس رشتے کو گنوانانہ چاہتے تھے اور مسلسل مجھ پر دبائو ڈال رہے تھے کہ میں شادی پر رضا مند ہو جائوں۔
یہ بات جب میں نے لطیف کو بتائی وہ بے چین ہو گئے اور بضد ہوئے کہ میں ان سے کورٹ میرج کر لوں ، ورنہ ہمیں عمر بھر جدار ہنا پڑے گا۔ میں نے کہا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟ میرے والدین پر تو بہت بری گزر جائے گی، جبکہ ان کا کوئی قصور بھی نہیں ہے۔ میرا اور تمہارا بھی تو کوئی قصور نہیں ہے۔ اس نے جواب دیا۔ دیکھو ، اب وہ پر انا زمانہ نہیں ہے۔ جب ہم شادی کر لیں گے تو کچھ دن ضرور ہمارے والدین خفا رہیں گے، بالآخر وہ مان جائیں گے۔ اگر تم نے بے وقوفوں کی طرح گونگی گائے بن کر بے مرضی کے سر ہلا دیا تو یاد رکھنا نہ عمر بھر تم کو چین ملے گا اور نہ میں جی پائوں گا۔ ذرا ہمت سے کام لو۔ میں تم سے کوئی جہیز ، کوئی مادی فائدہ نہیں مانگ رہا۔ میں بھی تو صرف تم سے تم ہی کو مانگ رہا ہوں۔ غرض ایسی باتیں کر کے اس نے مجھے رام کر لیا اور میں اس کے ساتھ کورٹ میرج پر تیار ہو گئی۔ اس طرح ہم دونوں نے اپنے والدین سے چھپ کر اور ان کی مرضی کے بغیر شادی کر لی۔ نکاح کے بعد میں نے اپنی والدہ کو فون پر اطلاع کی کہ میں نے لطیف سے نکاح کر لیا ہے۔ اس کے بعد میں والدین کے گھر جانے کے بجائے لطیف کے ساتھ اس کے دوست کے گھر چلی گئی۔ تین دن کے اندر اندر لطیف نے کرایے کا مکان ڈھونڈ لیا اور ہم اس میں ساری دنیا سے الگ تھلگ سکون سے رہنے لگے۔ دن میں وہ میرے پاس رہتے ، صبح ناشتہ کر کے آفس چلے جاتے ، واپسی رات آٹھ بجے تک ساتھ رہتے اور رات کا کھانا کھا کر اپنے والدین کے گھر چلے جاتے۔ وہ کہتے تھے کہ ابھی ان کے والدین کو اس نکاح کی خبر نہ ہونی چاہیے ، ورنہ وہ ہم کو جدا کرنے کے درپے ہو جائیں گے۔ میں ان کے ہر کہے پر عمل کرتی تھی تاکہ ہماری اس ناہموار سی زندگی میں اور زیادہ پیچید گیاں پیدا نہ ہوں کیونکہ معاملہ نیا نیا ہوتا ہے تو دشمنی اور مخالفت کی شدت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ میں ہر رات تنہا گزارتی تھی پھر بھی خوش تھی کہ جس کو چاہا و ہی میرا جیون ساتھی ہے۔ مجھے ان پر اور ان کو مجھ پر اعتماد تھا، تبھی میں نے بھی کبھی ان کے گھر یلو حالات معلوم کرنے کی کوشش نہ کی۔ نکاح کے دس ماہ بعد ان کو سعودی عرب اچھی تنخواہ کے عیوض سروس مل گئی۔ وہ جانے سے پہلے میرے والدین سے معافی تلافی کر ، مجھے ان کے پاس چھوڑ کر چلے گئے اور وعدہ کر گئے کہ جلد بلوا لوں گا۔ ماں آخر ماں ہوتی ہے۔ والد صاحب کی مخالفت کے باوجود امی نے مجھے گھر میں رکھنا قبول کر لیا۔ پانچ ماں بعد لطیف نے مجھے اپنے پاس بلوا لیا اور وہاں جا کر گھر بار آرام سکون سکھ چین سب کچھ پالیا۔ ہم دونوں بہت خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے کہ اچانک مجھے ایک خط ملا۔ جو میرے خطوط کے ساتھ تھا جب پاکستان میں تھی ، روزان کو خط لکھتی تھی اور وہ بھی مجھے روز کا احوال تفصیل سے رقم کر کے بھیجا کرتے تھے۔ یہ سارے خطوط میں ساتھ لے آئی تھی۔ جب لطیف آفس چلے جاتے اور میں فارغ بیٹھتی تو ان خطوط کو بار بار پڑھتی تھی۔
ایک روز میں نے بیگ نکالا اور اسے بستر پر الٹ دیا۔ یہ بیگ لطیف کا تھا۔ ان میں ایک اجنبی لفافہ دیکھ کر اسے کھول کر پڑھ لیا، شاید ان کے بیگ میں پہلے سے پڑا ہوا تھا۔ تحریر میری نہ تھی۔ خط میں لکھا تھا، سرتاج ! آگے جب پورا خط پڑھا تو میرا سر چکرا گیا۔ اتفاق سے اس وقت وہ گھر آ گئے۔ جو نہی وہ کمرے میں آئے ، انہوں نے میرے چہرے کی حالت بدلی ہوئی دیکھی تبھی خط مجھ سے لے لیا اور کہنے لگے۔ یہ میرے دوست کا خط ہے ، جو اس کی بیوی نے پاکستان سے لکھا تھا، لیکن میں اس تک پہنچا نہیں سکا۔ یہ وہ صریحاً جھوٹ بول رہے تھے کیونکہ خط میں تو لطیف کے بہن اور بھائی کا نام لکھا تھا اور میں اپنے شوہر کے گھر والوں کے ناموں سے واقف تھی۔ میں نے کہا۔ سب کچھ سچ بتا دو۔ یہ سرتاج“ کہہ کر تم کو کس نے مخاطب کیا ہے ؟ خط تو تمہارے گھر سے آیا ہے اور اس میں جس بچی کا ذکر ہے وہ کون ہے ؟ ان سے کوئی جواب بن نہ پڑا، تبھی بے تحاشہ رونے لگی۔ مجھے روتا وہ بھی رونے لگے اور اپنی مرحوم ماں کی قسم کھا کر کہنے لگے۔ مجھ پر ظلم ہوا ہے۔ یہ سب میری سوتیلی ماں کا، کیا دھرا ہے۔ والد صاحب شدید مالی پریشانی کا شکار تھے۔ وہ بھی ان کے کہنے میں آ گئے۔ بیوی کی بھانجی کو بہو بنا لیا جس کے ماں باپ بہت امیر تھے اور انہوں نے یہ دیکھ کر کہ لڑکا انجینئر ہے، بیٹی کو جہیز میں کافی کچھ دیا۔ یہی میری بڑی ماں چاہتی تھیں۔ اب والد صاحب پچھتا رہے ہیں۔ خالو نے ان کو بزنس میں تو سنبھالا دیا ہے لیکن لڑکی مجھ سے عمر میں کافی بڑی ہے۔ میرے انکار پر والد صاحب خفا ہو گئے۔ اسی سال خالو ان کو حج پر لے جارہے تھے۔ تمام رشتہ داروں کے سامنے انہوں نے کہا۔ اللہ تعالی نے مجھے اپنے در پر بلایا ہے لیکن لطیف نے اگر شادی سے انکار کیا تو میں پھر حج پر نہ جائوں گا اور اس کا گناہ اسی نافرمان لڑکے کے سر ہو گا کہ مجھے حج کی سعادت سے محروم ہو نا پڑے گا۔ غرض والد نے ایسی باتیں کہیں کہ میں ہی خود کو مجرم ٹھہرانے لگا۔ یوں میں نے ان کی خواہش کے سامنے سر جھکا دیا اور انہوں نے ایک ہفتے کے اندر اندر میری شادی کرا دی وہ پھر خالو کے ہمراہ حج پر چلے گئے۔ تسلیم سے میں نے باپ کو خوش کرنے کے لئے شادی کی تھی لیکن وہ مجھے پسند نہیں تھی بلکہ مجھے اس سے بالکل محبت نہیں ہے۔ شادی تو خوشی کا نام ہے۔ میں اس سے نباہ نہیں کر سکتا تھا مگر بادل نخواستہ رہنا پڑا۔ وہ اور بھی نجانے کیا کیا کہتے رہے، میں خاموشی سے سنتی رہی البتہ میرے دل و دماغ پر ایسا اثر ہوا کہ میں نے خود کشی کی کوشش کی۔
ان دنوں میرا پائوں بھاری ہو گیا تھا لیکن اب مجھے اس بات کی بھی کوئی خوشی نہ تھی۔ میرے اعتماد کو بری طرح ٹھیس پہنچی تھی، میر ا سکون لٹ چکا تھا۔ وہ جتنا میر اخیال رکھتے ، جس قدر مجھ سے پیار جتلاتے اتنی ہی ہر چیز سے بیزاری ہوتی۔ سارا دن روتی رہتی یا ان سے لڑتی کہ تم نے مجھے دھوکا دیا۔ مجھ سے نکاح کیوں کیا جب شادی کر چکے تھے۔ شادی کر کے بھی نہ بتایا اور ایک بچی کے باپ بھی بن گئے تھے۔ بس میری حالت عجیب تھی۔ مجھے ان کی کسی بات پر اعتبار نہ رہا تھا۔ وہ جس قدر مجھ کو یقین دلانا چاہتے ، دل اور ان سے برا ہو جاتا تھا۔ میری صحت کافی گر گئی ، تاہم ہم نے حج بھی کیا اور عمرہ بھی۔ ہر جمعہ کو حرم شریف جاتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ تم حرم شریف میں جو چاہو قسم لے لینا، وہاں تو میں جھوٹ سے کام نہ لوں گا مگر میں نے کچھ نہ پوچھا۔ آخر میں مسلمان تھی اور ان سے بے انتہا محبت کرتی تھی۔ ایک رات جب میں عمرے سے واپس آئی تو رات کو رورو کر سو گئی۔ میں نے ایک عورت کو خواب میں دیکھا، جو شوہر کی جدائی میں رو رہی تھی۔ صبح اٹھی تو سوچا۔ یہ عورت جو رات خواب میں روتی دکھائی دی ضرور میری سوتن تھی، جس نے ایک چھوٹی بچی کو اٹھار کھا تھا۔ یہ کس بات کا مجھے اشارہ ملا ہے ؟ غور کیا تو سمجھ میں آیا کہ میں اس کو مشیت ایزی سمجھوں کہ سوتن کو دکھی نہ کروں اور نہ خود دیکھ کروں بلکہ یہ حقیقت جو واضح ہو چکی ہے ، اس کو قبول کر لوں یعنی نہ اس کو برباد کروں اور نہ خود کو تکلیف میں رکھوں۔ میں نے اپنے شوہر کو خواب سنا کر کہا۔ میں چاہتی ہوں کہ تسلیم کو سزا نہ ملے۔ وہ تمہاری بیوی اور تمہاری بچی کی ماں ہے۔ بہتر ہے اس کو بھی یہاں بلوا لو۔ میں اس کے ساتھ بہنوں کی طرح رہوں گی۔ وہ بولے۔ پاگل ہو۔ اس کو تمہارے ساتھ میں کسی قیمت پر نہ رکھو گا۔ میں تو تمہیں غمزدہ دیکھ کر سوچتا ہوں کہ اسے طلاق ہی دے دوں لیکن بچی کے بارے سوچ میں پڑ جاتا ہوں۔ اسے طلاق دے کر کیسے بچی اس سے لے کر ، اپنے پاس رکھوں۔ اس بارے تم مجھے مشور ہ دو کہ اسے طلاق دے کر کیسے بیٹی اس سے حاصل کر سکتا ہوں۔ میں خود بچی کی ماں بن چکی تھی اپنے شوہر کو ایسا ظالمانہ مشورہ کیسے دے سکتی تھی۔ میں نے لطیف کو اس امر سے باز رہنے کو کہا، تاہم میرے دل کو دکھ نے جیسے جکڑ ہی لیا تھا۔ میری صحت گرتی جارہی تھی۔ لطیف نے کہا۔ تم کچھ دنوں کے لئے پاکستان اپنی امی کے پاس چلی جائو۔ شاید تمہاری حالت سنبھل جائے۔ میں بھی ان دنوں ماں کے پیار کو ترس رہی تھی ، راضی ہو گئی۔ اصرار کر کے میں نے لطیف سے اپنی سوکن اور بچی کے کپڑے منگوا لیئے۔
وطن پہنچ کر دوسرے روز میں لطیف کے گھر اس کی بیوی اور بچی سے ملنے گئی۔ کپڑے اور اپنی طرف سے ایک قیمتی گھڑی میں نے اس عورت کو دی اور اسے بتایا کہ میں تمہارے شوہر کے دوست کی بیوی ہوں۔ انہوں نے یہ چیزیں تمہارے لئے بھیجی ہیں۔ بھی ہیں۔ عورت با اخلاق اور شکل وصورت سے اچھی تھی، مگر کافی آزردہ نظر آزردہ نظر آتی تھی۔ میں باتوں باتوں میں پوچھا۔ تم شوہر سے جدا یہاں کیسے رہتی ہو؟ میں نے کچھ دیر ہمدردی اور محبت سے باتیں کیں تو اس نے اپنے دل کا حال مجھ کو بتادیا۔ میری شادی میرے والد نے لطیف سے کر دی جبکہ میں اپنے چچازاد کو پسند کرتی تھی۔ یہ کوئی انوکھی بات نہ تھی۔ سبھی لڑکیاں شادی سے پہلے کسی کزن وغیرہ کو آئیڈل بنا لیا کرتی ہیں مگر اس کا مطلب بد معاشی یا بد چلنی نہیں ہوتا۔ دل میں صرف پسندیدگی کے جذبات کا ہونا معمولی بات ہے۔ میں نے بھی صرف پسند کی حد تک اپنے چچا زاد کے بارے سوچا تھا۔ اس سے آگے کوئی ایسی بات ہم دونوں میں نہ ہوئی تھی جو قابل اعتراض ہوتی۔ یہ تو قسمت کی بات ہے کہ انسان کسی کو پسند کرتا ہے شادی اس سے نہیں ہوتی کسی اور سے ہو جاتی ہے۔ وہ لوگ میرا رشتہ بھی مانگ رہے تھے مگر والد ہ نہ مانیں کیونکہ ان کی چچی سے نہ بنتی تھی اور مجھ کو اپنی بہن کے بیٹے سے بیاہ دیا جبکہ میں نے تو لطیف کو دیکھا بھی نہ تھا۔ شادی سے دوروز پہلے ہماری ایک بد خواہ رشتہ دار عورت نے لطیف کے کان میں بات ڈال دی کہ تسلیم اپنے چچازاد کو پسند کرتی تھی لیکن اس کی شادی زبردستی اس کی ماں نے اپنے سوتیلے بیٹے سے کرنے کی ٹھان لی۔ خدا جانے اس عورت کو اپنی لڑکی کا دل اجاڑ کر کیا ملے گا۔ یہ بات لطیف کے دل میں ترازو ہو گئی۔ شادی کی رات ہی پوچھ لیا کہ کیا تم کسی کو پسند کرتی تھیں؟ میں نے کہا۔ نہیں اور بات کو ٹال گئی۔ انہوں نے بھی اصرار نہ کیا کیونکہ یہ وقت اصرار کرنے والا نہ تھا لیکن بعد میں وہ ہر وقت یہی پوچھا کرتے تھے کہتے تھے۔ ہر انسان کی ایک پسند ہوتی ہے۔ یہ تو فطری بات ہے۔ اگر تم کو بھی، کوئی کزن پسند تھا یا وہ تم کو پسند کرتا تھا تو یہ کوئی جرم نہیں۔
شادی سے پہلے میں بھی تو کسی کو پسند کرتا تھا۔ منگنی بھی ہو گئی پھر ٹوٹ گئی۔ زندگی میں یہ سب ہوتا ہی رہتا ہے۔ تم انکار کرو یا اقرار ، مجھے معلوم ہے تم اپنے چچازاد فہد کو پسند کرتی تھیں۔ سچ بول دو گی تو میرے دل میں تمہاری قدر و منزلت بڑھ جائے گی۔ ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر میں نے کہہ دیا کہ ہاں چچازاد کو پسند کرتی تھی مگر شادی آپ سے قسمت میں لکھی تھی ، ہو گئی۔ اب تو آپ ہی میر اسب کچھ ہیں اور کسی کا خیال دل میں آتا بھی نہیں ہے اور کسی کا خیال دل میں لانا بھی گناہ سمجھتی ہوں۔ وہ اور پیار محبت جتلانے لگے جب میں نے کہا کہ میرا اب اس کزن سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ شادی آپ سے ہوئی ہے تو آپ کی ہوں اور ہمیشہ آپ کی رہوں گی۔ کچھ ہی دن بعد مجھے محسوس ہونے لگا کہ میرے سرتاج کے دل میں مجھ سے نفرت اور دوری پیدا ہو گئی ہے۔ جس آگ کو خود انہوں نے اپنے جذبۂ تجس کے ہاتھوں ہوادی، اس نے میرا خوشیوں کا باغ جلا کر راکھ کر ڈالا۔ اس کے بعد وہ مجھ سے دور دور رہنے لگے اور آخر کار سعودی عرب چلے گئے۔ میں نے سنا ہے انہوں نے اور شادی کر لی ہے۔ بات کی اتنی کڑی سزا ملی ہے ؟ میرا جی چاہا کہ اسے بتادوں کہ میں ہی تمہاری سوکن ہوں مگر میری زبان نہ کھلی اور میں وہاں سے چلی آئی۔ اس کے بعد میں نے اپنے شوہر کو خط لکھا کہ اپنی پہلی بیوی کو اپنے پاس بلوا لیجیے ورنہ میں عمر بھر آپ کو اپنی شکل نہ دکھائو گی۔ لطیف واقعی مجھ سے محبت کرتے تھے۔ انہوں نے میری بات رد نہ کی بلکہ اپنی پہلی بیوی کے لئے ویزا اپلائی کیا اور ساتھ ہی مجھے فون کر دیا کہ تم آجائو ، ورنہ تمہارے بغیر میر ادم گھٹ جائے گا۔ میں نے جواب دیا۔ ابھی کچھ دن مجھے یہاں رہنے دو۔ والد تو ابھی تک ناراض لگتے ہیں ، ان کی شکر رنجی مٹ جانے دو۔ میں تو آہی جائوں گی، پہلے تسلیم کو بلوائو۔ عورت کی بھی عجیب فطرت ہے سب کچھ برداشت کر سکتی ہے ، حتی کے پیار کرنے والے شوہر کی جدائی بھی، لیکن محبت کا بٹوارہ اور سوتن کا دکھ نہیں سہہ سکتی۔ وہ مجھے بلاتے رہے اور میں بہانے بناتی رہی۔ ان کو یہ نہ کہہ سکی کہ میں ان میں سے ہوں جو محبت میں شراکت برداشت نہیں کر سکتی۔ محبت کے معاملے میں میرا دل اتنا بڑا نہیں ہے ، کیا کروں ؟ یوں میں نے کچھ اصولوں کی خاطر ، اپنی محبت ، اپنے محبوب پیارے شوہر اور گھر کی خوشیوں کی قربانی بھی دی۔ وہ جذباتی عمر تھی ، مگر آج افسوس ہوتا ہے کہ میں نے ان کو چھوڑ کر کیا پایا ؟ ایک پچھتاوا، ایک طویل اذیت۔ خوشیاں میری تھیں اور ان سے تھیں اور ان سے منہ مڑ کر میں نے زندگی بسر کر ڈالی۔ اف میں بھی کتنی ناداں تھی۔ آج میری جھولی میں سوائے تاسف کے کچھ نہیں۔ تسلیم کی قسمت میں ایک بھرپور ازدواجی زندگی تھی۔ اس کے چار بچے اور خوشیوں سے بھرا گھر ہے۔ میری ایک بیٹی تھی، جو اعلیٰ تعلیم کی خاطر اپنے والد کے پاس چلی گئی اور میں یہاں اپنی بیوہ ماں کے پاس رہتی ہوں۔ شاید ماں کی خدمت کی سعادت میرے حصے میں لکھ دی گئی تھی۔ یہ بھی اللہ کا شکر ہے کہ ماں کی دیکھ بھال میری زندگی کا مقصد ہے۔