میری شادی جس شخص کے ساتھ ہوئی، اس کی پہلی بیوی دو بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑ کر اللہ کو پیاری ہو گئی تھی۔
سب سے بڑے لڑکے کا نام قاسم تھا اور جب میری شادی ہوئی، وہ میٹرک میں پڑھ رہا تھا۔ قاسم ذہین تھا، اس کو پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن میں نے محسوس کیا کہ یہ لڑکا کچھ الجھا الجھا سا رہتا ہے۔ ماں کی کمی کے علاوہ اس کو باپ سے بھی وہ شفقت حاصل نہیں تھی جس کا وہ مستحق تھا۔
سوچا کہ ان بچوں کو مجھے ماں کا پیار دینا چاہیے تاکہ ان کے دل جو ماں کے مرنے کے بعد مرجھا سے گئے ہیں پھر سے شاداب ہو جائیں اور یہ زندگی کے کاموں میں خاطرخواہ دلچسپی لے سکیں۔ یاسر ان دنوں پانچویں میں پڑھتا تھا، وہ کچھ کمزور سا تھا اور اپنی عمر سے چھوٹا نظر آتا تھا۔ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے وہ بیمار رہتا تھا۔
یاسر کو پڑھنے لکھنے کا شوق نہ تھا۔ سارا دن کھیل کود میں ضائع کر دیتا تھا اور دونوں لڑکیاں گھر میں بیکار رہتی تھیں۔ انہیں ان کے والد نے مدرسے جانے ہی نہیں دیا تھا۔ مہ وش بڑی اور گل ناز چھوٹی تھی۔ شروع میں دونوں ہی کھنچی کھنچی رہتی تھیں، پھر میرے اچھے رویّے نے ان بچوں کو مجھ سے قریب کر دیا۔
جلد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ میرا شوہر اتنا برا آدمی نہیں تھا… ایک بری عادت کے سوا کہ وہ بہت کنجوس تھا، اس میں اور کوئی خرابی نہ تھی مگر یہ کنجوسی بھی کسی عذاب سے کم نہ تھی جس نے ہم سب کو ویران کر کے رکھ دیا۔
قاسم نے میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کر لیا۔ سب ہی اس کو داد دینے لگے مگر وہ کسی اور فکر میں غلطاں تھا۔ چاہتا تھا کہ آگے پڑھے لیکن یقین تھا کہ باپ اس کو اعلیٰ تعلیم کے لیے رقم آسانی سے نہیں دے گا کیوں کہ کالج کی تعلیم کے لیے اس کو لازماً شہر جانا اور ہوسٹل میں رہنا پڑتا۔
اب ایک ہی راستہ تھا کہ اس ہونہار بچے کے تعلیمی اخراجات میں خود اٹھائوں۔ مجھے میکے سے کافی زیور ملا تھا کیونکہ میں ان کی اکلوتی بیٹی تھی۔ ماں، دادی، نانی اور پھوپی… سب ہی کے تمام خاندانی زیورات میرے حصے میں آئے تھے۔ سوچا انہیں گروی رکھ دوں تو کافی رقم مل جائے گی جس سے قاسم کے تعلیمی اخراجات باآسانی نکل آئیں گے۔ لہٰذا میں نے شوہر سے روپوں کے لیے تقاضا کرنے کی بجائے اپنے زیورات گروی رکھ دیئے اور رقم حاصل کر لی۔
اب مجھے کوئی فکر نہ رہی… میرے پاس کافی رقم تھی جس سے میں اپنے بیٹے کے تعلیمی اخراجات برداشت کر سکتی تھی۔ میں نے قاسم کو پڑھنے کے لیے شہر بھیج دیا اور اس کا داخلہ ہوسٹل میں کرا دیا۔ ایک سال کا خرچ بھی اسی شہر کے ایک بینک میں اس کے اکائونٹ میں جمع کرا دیا تاکہ اس کو بار بار رقم مجھ سے مانگنی نہ پڑے۔
جب قاسم نے تعلیم مکمل کر لی، ہم نے اس کی شادی کر دی۔ اس نے بہت ضد کی کہ میں اپنی پسند سے شادی کروں گا مگر میرے شوہر نے اس کی شادی اپنی مرضی سے کی۔
قاسم شادی کے بعد بیوی کو لے کر شہر چلا گیا اور وہیں رہنے لگا، البتہ ہر ماہ کچھ رقم ہمیں ضرور ارسال کر دیا کرتا تھا۔
قاسم مجھ سے بہت محبت کرتا تھا اور بہو بظاہر اچھا سلوک رکھتی تھی لیکن جب اس کو علم ہوا کہ قاسم کچھ رقم مجھے علیحدہ سے اس لئے دیتا ہے کہ میں نے اپنے زیورگروی رکھے ہوئے ہیں تو بہو کو یہ بات پسند نہ آئی اور اس نے کوشش کی کہ قاسم کو ہم سے دور کر دے تاکہ وہ مجھے رقم دینا بند کر دے۔
بہو کی کوششیں رنگ لائیں… بیٹا بدظن ہوگیا، یہاں تک کہ اس نے مجھ سے بات چیت ترک کر دی اور گھر کے اندر آنا چھوڑ دیا۔
اب وہ کبھی بیوی کے ساتھ گائوں آتا تو گھر کے اندر نہ آتا بلکہ اپنے باپ اور بھائی کو باہر بلا لیتا۔ وہ مجھ سے نہیں ملتا تھا۔ تب سوچتی کہ اگر میں اس کی سگی ماں ہوتی تو کیا وہ پھر بھی ایسا ہی کرتا؟ حالانکہ میں نے سگی ماں بننے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، پھر بھی قاسم سوتیلا بن گیا۔
ان دنوں میں قاسم سے زیادہ یاسر کی وجہ سے پریشان تھی جس کے عشق نے ہمیں کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ چھوڑا تھا۔ ہر طرف اس کے اور بینا کے چرچے تھے۔ میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ یہ باز آنے والا نہیں ہے، بدنامی سے تو بہتر ہے کہ اس کی شادی بینا سے ہی کر دی جائے۔
یاسر کی ضد کے باعث بالآخر ہم بینا کے والدین کے گھر پہنچے اور ہم نے ان سے رشتہ مانگا۔ انہوں نے 30؍تولہ زیورات اور پکے مکان کی شرط رکھی تو وہ شرط میں نے پوری کی۔ میں نے اپنے زیورات بینا کی بری میں رکھے اور اپنے بھائیوں سے کہہ کر یاسر کا کمرا پکا کروا دیا۔
اب تک حالات ٹھیک تھے، میں اتنی بے سکون نہ تھی مگر جوں ہی بینا نے گھر میں قدم رکھا، ہم بے سکون ہو گئے۔ وہ اچھے گھرانے کی لڑکی نہ تھی، اس پر اس کی عادتیں بھی اچھی نہ تھیں۔ میری تو جان ہی مشکل میں آ گئی۔ اب میں کھانا پکا کر ان دونوں کو ان کے کمرے میں پہنچاتی تھی۔ چائے بھی ٹرے میں سجا کر صبح شام پیش کرتی، غرض ان کا ہر کام خود ایک خدمت گار کی طرح انجام دیتی تھی۔
یہ سلسلہ تین سال تک چلا اور ان تین برسوں میں بینا تین بچوں کی ماں بن گئی مگر ایک دن بھی اس نے شکریہ کا ایک لفظ نہ کہا۔
اب وہ میرے تین چھوٹے بچوں سے خار کھانے لگی۔ وہ ان کا وجود گوارا نہیں کرتی تھی حالانکہ سارا دن پلنگ پر بیٹھی رہتی اور میں اس کے سامنے ملازمہ کی مانند کام کرتی۔ اس کے علاوہ میں گھر اور اپنے بچوں کو بھی سنبھالتی تھی۔ میرے شوہر بھی یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور حیران ہوتے تھے۔
بالآخر ان سے رہا نہ گیا۔ ایک دن انہوں نے یاسر سے کہہ دیا کہ بہو کا فرض ہے ساس کی خدمت کرے، نہ کہ ساس بہو کی خدمت کرے۔ بس پھر کیا تھا گھر میں بھونچال آ گیا۔ یہ بات سن کر بینا ہی نہیں ہمارا بیٹا بھی خفا ہو گیا اور اس کی بیوی میری دشمن بن گئی۔
اس نے یہ بھی نہ سوچا کہ میں اس کی ماں جیسی ہوں اور کتنے سال اس کی خدمت کرتی رہی ہوں۔
بینا کے خاندان میں کسی گھر میں سکون نہ تھا۔ ان کی عورتیں یوں ہی کسی نہ کسی کو دوست بنا کر شادی کر لیتی تھیں اور سسرال سے علیحدہ ہو جاتی تھیں۔ بینا موقع کی تلاش میں تھی کہ کسی طرح وہ مجھے دوسروں کی نظروں میں گرا دے، اس کی یہ امید بر آئی۔
ہوا یہ کہ اس کے جڑواں بچے بیمار ہو گئے اور ہمیں ان کو اسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ وہ شہر کے اسپتال میں تھے۔ اگر گھر سے کوئی چیز منگوانی ہوتی تو بینا اپنی بھابی صبا کو بھیجتی تھی۔ وہ ان کے کمرے کی صفائی، ستھرائی بھی کرتی تھی۔
مجھے نہیں معلوم تھا کہ بینا کے کمرے میں اس کی کچھ نقدی اور زیور رکھے ہوئے ہیں۔ صبا صفائی کرنے آئی تو ان چیزوں پر بھی جھاڑو پھیر گئی۔ اس کے پاس چابی تھی، وہ اس نے کہیں گم کر دی۔ اگلے دن یاسر رقم لینے آیا تو وہاں اس کو کچھ نہ ملا، تب ہی وہ میرے پاس آیا۔ کہنے لگا، اماں نہ تو رقم ہے اور نہ زیور ہیں، مجھے رقم چاہیے کیونکہ بچوں کی دوائیں لینی ہیں۔ میں نے اس کو تسلی دی اور کچھ رقم بھی دی کہ فی الحال ادویات لے جائو، گم شدہ چیزوں کی تحقیق بعد میں کر لینا۔
ادویات لے کر جب یاسر اسپتال پہنچا۔ صبا وہاں موجود تھی۔ یاسر نے بیوی کو بتایا کہ الماری میں نہ تو رقم ہے اور نہ ہی زیورات۔ اس پر صبا نے کہا یہ تمہاری سوتیلی ماں کا کام ہے۔ میری بہن کی بیٹی دیکھ رہی تھی اور اسی نے وہ چابی اٹھائی ہے جو میں سمجھی تھی کہ گم ہو گئی ہے۔
صبا کی بھانجی بھی وہیں بیٹھی تھی۔ یاسر نے اس لڑکی سے پوچھا جس کی عمر چھ سات برس تھی، اس کو صبا نے سکھا دیا تھا… لہٰذا لڑکی نے بھی کہا کہ ہاں! آپ کی امی نے چابی اٹھا لی تھی اور الماری کھول کر زیور اور رقم نکالی ہے، میں نے دیکھا تھا۔
یاسر نے اس بچی کی بات مان لی۔ اس پر بینا نے کہا تمہاری سوتیلی ماں کی میرے بچوں سے اس لئے دشمنی ہے کہ اب زمین کے مزید وارث پیدا ہو گئے ہیں لیکن ایسے موقع پر اسے رقم نہیں اٹھانی چاہیے تھی جبکہ ہمارے بچے سخت بیمار ہیں اور اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
جب چار پانچ دنوں بعد بچے ٹھیک ہو گئے اور یہ میاں، بیوی گھر آ گئے تو انہوں نے مجھ سے سخت بدکلامی کی۔ یاسر نے بھی کہا کہ تو عورت نہیں ڈائن ہے۔ میرے بچوں کو زندہ دیکھنا نہیں چاہتی۔ اس کے یہ الفاظ میرے دل پر تیر کی طرح لگے۔
مجھے شدید صدمہ پہنچا۔ یاسر کو اپنے بچوں کی طرح پالا تھا۔ یہ بیمار رہتا تھا جب میں آئی۔ میری خدمت نے اس کو نئی زندگی دی۔ اگرچہ زندگی خدا کی امانت ہے مگر میری کاوشیں رنگ لائیں اور یہ صحت مند ہو گیا۔ اس کے بچوں کو اپنے بچوں کی طرح چاہتی تھی مگر آج یہ میری بے عزتی کر رہا تھا۔ اس نے اپنی بیوی کے بہکاوے میں آ کر میری قربانیوں، محبت اور ہر بات کو نظرانداز کر دیا تھا۔ یہ بھی نہ سوچا کہ ماں ہو کر اگر میں چوری کر سکتی ہوں تو اس کی بیوی کی بھابی چوری کیوں نہیں کر سکتی۔ اس نے ایسی عورت کو معتبر سمجھ لیا جس نے چار، پانچ دن ان کے کمرے میں جھاڑو دی تھی… اور میں نے جو اس کی زندگی سے کانٹے چن کر پھول بکھیرے تھے تو اس نے مجھے معتبر نہیں سمجھا، محض اس لیے کہ میں بدقسمتی سے اس کی سوتیلی ماں تھی۔ اے کاش کوئی سوتیلی مائوں کا دکھ بھی سمجھے کہ ہر عورت جو سوتیلی ماں ہو، بری نہیں ہوتی جیسے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔
(س۔خ…حاصل پور)