Sunday, September 15, 2024

Suhag Ka Sukh

بالا خانے کی زندگی سے تنگ تھی ، شروع سے ہی گھر بسا کر عزت کی زندگی گزارنا چاہتی تھی ۔ مگر ہم جیسوں کے ساتھ دولتمند اور عیاش مرد راتیں تو گزارنا پسند کرتے ہیں، ہم کو گھر کی عزت بنانا پسند نہیں کرتے ۔ یہ تو ایک مانی ہوئی بات ہے۔ گھر بسانے کے اشتیاق میں دو چار چاہنے والوں سے لگاوٹ کے انداز بھی اختیار کیے مگر جونہی شادی کی آرزو کا اظہار کیا یہ شرفا بھاگ نکلے۔ بالآخر دل کو ستانا چھوڑ دیا کہ جب قسمت میں نہیں، پھر شادی کی تمنا کیسی ؟ انہی دنوں نواب صاحب کو میری آواز کا جادو بالا خانے کھینچ لایا۔ وہ باذوق تھے، عمدہ موسیقی کے قدردان تھے۔ خاندانی وضع داری کے سحر سے مسحور ہوئے پھر مجھ سے رفتہ رفتہ مانوس ہو گئے اور میری زلف گرہ گیر کے اسیر ہو گئے۔ نواب صاحب کی عمر کافی تھی۔ مجھ کو ان کا والہانہ پیار ملا تو میں بھی ان کی شیدائی ہوگئی، سدھ بدھ کھو بیٹھی ۔ انہوں نے ایک دن باتوں باتوں میں پوچھا۔ شمع اپنی کوئی خواہش بتاؤ ، میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ کاش اسی جنم میں آپ کی دلہن بن سکتی۔ بڑی حسرت سے یہ بات کہی کہ وہ گہری سوچ میں ڈوب گئے ۔ میں سمجھ گئی کہ شمع کے صرف وہی پروانے نہیں ہیں اور بھی لوگ آتے ہیں جو مجھ پر نوٹ نچھاور کرتے ہیں تو نواب صاحب کو یہی بات پسند نہیں ۔ بھلا کیسے ایک بکاؤ عورت کو اپنی عزت بنا سکتے ہیں۔ چھوٹا منہ بڑی بات ہوگئی اور میں شرمندہ ہی سکتے میں بیٹھی رہ گئی تھی۔ انہی دنوں ہندوستان کی تقسیم کا مرحلہ زوروں پر تھا اور نواب صاحب نے بھی ہجرت کا قصد کیا۔ جب وہ ہمارا شہر چھوڑ کر جانے لگے تو میں نے بھی بالا خانہ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ تہیہ کر لیا کہ ان کے پاؤں پکڑ کر شریفانہ زندگی کی بھیک مانگوں گی تا کہ وہ مجھے بھی ساتھ لے چلیں۔ جب چلنے لگے خدا حافظ کہنے آئے ، میں نے ان کی بگھی کے گھوڑے کی باگیں پکڑ لیں۔ التجا کی کہ مجھے بھی ساتھ لے چلیں یا پھر گھوڑے کے سموں تلے روند ڈالیں ،مگر میں اب اس جگہ آپ کے بغیر نہ رہ پاؤں گی۔ جب انہوں نے میری بے قراری دیکھی تو بگھی میں سوار کر لیا اور میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر ان کے ساتھ ہوئی۔ جانے ان کے من میں کیا تھا۔ بہرحال جہاں انہوں نے مجھے اُس رات ٹھرایا وہ ایک سائیں کا ڈیرہ تھا اور وہاں بھوسے کے ڈھیر پڑے تھے۔ انہوں نے سائیں کو ہدایت کی کل صبح آؤں گا۔ ان کو یہاں نہایت عزت اور احترام سے ٹہرائیے گا اور جو چیز درکار ہو مجھے بتائیے۔وہاں ایک کمرہ بنا ہوا تھا جس میں پلنگ وغیرہ سیٹ تھا، رقم بھی دے گئے کہ کھانے وغیرہ کا انتظام کر لینا، ان کوکوئی تکلیف نہ ہو۔ نواب صاحب دراصل مجھے اپنی بیوی کے روبرو لانا چاہتے تھے ، اسی وجہ سے کسی دوست یا واقف کار کے گھر نہیں ٹہرایا۔ وہ یہ بات راز میں رکھنا چاہ رہے تھے ۔ رات کو سائیں نے اُس کمرے میں ٹہرایا جو سجا ہوا تھا اور نواب صاحب ہی کا خفیہ بیڈ روم لگتا تھا۔ سائیں نے کھانے وغیرہ کا پوچھا اور با ادب ہر ضرورت کا خیال رکھا۔ پھر رات کو اس کی بیوی بھی آ گئی جو اس کمرے میں چار پائی پر سورہی۔ صبح نواب صاحب قاضی اور دونوں بھائیوں کے ہمراہ آ گئے۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ یہ دونوں حضرات بھی نواب صاحب سے پہلے میرے شیدائی رہ چکے تھے اور اکثر بالا خانے پر گانا سننے آیا کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے پہچان لیا اور شرمندہ ہو کر بولے شمع جی تم ۔ اس ایک جملے نے ساری حقیقت عیاں کر دی کہ یہ بھی میرے دیوانے رہ چکے ہیں۔ ایکا ایکی نواب صاحب کا رنگ بدل گیا اور تیوریوں پر بل پڑ گئے ۔ جانے وہ کیا کہہ کر بھائیوں کو ساتھ لائے تھے۔ وہ تو پہلے ہی مجھ سے شادی کرنا نہ چاہتے تھے۔ جب سگے بھائی ہی میرے آشنا نکلے تو پھر یہ ڈھول کیوں گلے میں ڈالتے۔ ہمدردی میں ہمراہ لے آئے تھے اور اب پچھتا رہے تھے۔جن پر تکیہ کیا وہی پتے ہوا دینے لگے تو پھر کسی اور نے کیا میری کشتی کو پار لگانا تھا۔ میں اس صورتحال سے گھبرا کر زارو قطار رونے لگی۔

اب یہ تینوں سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اس کا کیا کریں؟ مشورے کے بعد یہ حل نکالا کہ قرعہ نکال لیں ، جس کے نصیب میں یہ بلا لکھی ہے، وہی اپنے سر لے لے۔ شاید اس سے خدا ناراض نہ ہو۔ بے آسرا چھوڑ دیں گے تو کہاں جائے گی کیونکہ ان دنوں حالات بھی بہت مخدوش ہورہے تھے۔ بلوؤں نے اچھے بھلوں کی نیندیں اُڑا دی تھیں۔ قرعہ اندازی قاضی صاحب نے کی تو قرعہ فال نواب صاحب ہی کے نام نکلا۔ میرا دل کھل اُٹھا، یہی چاہتی تھی ،مراد پوری ہوگئی۔ انہی کی بنی اور قاضی صاحب نے میرا شرعی نکاح نواب صاحب سے پڑھوا دیا۔ میری قسمت اچھی تھی کہ نواب صاحب کی پہلی بیوی کے بچے نہ ہوئے تھے۔ مجھ ہی سے صاحب اولاد ہوئے ، خاندانی آدمی تھے، نباہ کیا۔ مگر میرا ان سے ناتا ان کے بچوں کی وجہ سے تھا۔ وہ مجھے بطور شریک حیات کچھ خاص اہمیت نہ دیتے تھے۔ ان کو اپنی پہلی بیوی کی خاطر بہت مطلوب تھی جو ان کے اپنے خاندان سے تھی۔ ان کی عمر کافی تھی، شادی کے دس برس بعد مشرقی پنجاب سے ہم ہجرت کر کے لاہور آگئے تھے۔ مجھ کوعلیحدہ گھر لے کر دیا۔ وفات سے پہلے بیمار ہوئے تو سارے خاندان والوں کو بتادیا کہ یہ میری بیوی ہے اور یہ میرے بچے ہیں مگر میری اصلیت کسی کو نہ بتائی۔ بیوہ ہو جانے کے بعد ان کے خاندان نے مجھے اپنا لیا۔ بچوں کی وجہ سے مجھ سے نباہ کیا۔ میں ان کے در پر پڑی رہی ، ان کی پہلی بیوی نے بھی نہ دھتکارا ۔ اگر چہ وہ مقام نہ دیا جو میرا حق تھا مگر اہانت آمیز رویہ بھی اختیار نہ کیا۔ میں نے بھی سوچا کہ آخر میرے بچے جوان ہو جائیں گے تو اس خاندان میں اپنا مقام پا لیں گے۔ صبر شکر سے ان کے گھر رہتی رہی کسی سے جھگڑا نہ تنازعہ، بھلا مجھ میں سکت ہی کب تھی اور میرا اس دنیا میں ان لوگوں کے سوا کوئی تھا بھی کون؟ خدا کا شکر ہے کہ میری محنت رائیگاں نہ گئی۔ میرے بچے جوان ہو گئے ، وہی نواب صاحب کے وارث اور جانشین ہوئے۔ ان کی جائیداد کے وارث قرار پائے۔ خاندان بھر نے ان کو عزت دی اور لوگ ان کی وجہ سے مجھے بھی مانتے اور پہچانتے ہیں۔ ان بچوں کی بدولت مجھے وہ مقام مل گیا جو نواب صاحب کی زندگی میں نہ ملا تھا۔ خوش ہوں کہ ہجرت کے بعد میرا ماضی وہیں رہ گیا اور بدنامی کا داغ میرے ساتھ نہیں آیا تبھی نواب صاحب کے رشتہ دار عزت کرتے ہیں اور ساری جوانی شرافت سےکاٹنے کا صلہ مل گیا ہے۔

Latest Posts

Related POSTS