Tuesday, April 16, 2024

Suhane Khawab | Episode 2

رحیم اللہ!
رحیم اللہ !
کوئی اپنا سر کھجاتے اور کوئی ٹھوڑی سہلاتے ہوئے غور و فکر کرنے لگا۔ کسی نے رحیم اللہ کے گھر کا پتا پوچھنے والے سے پوچھ تاچھ شروع کر دی۔
’’ان کی بیوی کا کیا نام ہے؟‘‘
’’نورجہاں!‘‘
’’بچّے کتنے ہیں؟‘‘
’’جب ہندوستان سے چلے تو پانچ تھے۔ اب کا پتا نہیں۔‘‘
’’کرتے کیا ہیں؟‘‘
’’وہاں تو درگاہ پہ پھولوں کا ٹھیّا لگاتے تھے۔‘‘
’’شلوار قمیص پہنتے ہیں؟‘‘
’’لاحول ولا قوۃ، شلوار تو عورتوں کا پہناوا ہے۔ مرد کب پہنتے ہیں؟‘‘
’’یہاں مرد بھی پہنتے ہیں۔‘‘ پوچھنے والے نے بتایا۔
’’اچھا گنجے سے تو نہیں؟‘‘ دُوسرا بولا۔
’’اب ہوگئے ہوں تو پتا نہیں۔‘‘
امین الدین بھی سوال و جواب کے اس سیشن میں موجود تھا۔
’’ارے وہ تو نہیں جو کبڈّی کے میدان پار رہتے ہیں۔‘‘ کسی نے قیاساً کہا۔
’’ابے چپ تجھے کیا پتا۔‘‘ ایک بڑے میاں نے قیاس ظاہر کرنے والے کو آنکھیں دکھائیں۔
’’چچا وہی ہیں اللہ کی قسم وہی ہیں… ان کا بڑا بیٹا سلیم اللہ بازار میں دال سیو بیچتا ہے۔‘‘
’’ہاں، ہاں، بالکل ان کے ایک بیٹے کا نام سلیم اللہ ہے۔‘‘ رحیم اللہ کے گھر کا پتا پوچھنے والے نووارد نے کہا۔
’’آئو میں بتاتا ہوں ان کا گھر۔‘‘ قیاس ظاہر کرنے والے نے فتح مندانہ انداز میں سینہ تان کر کہا۔
بچوں بڑوں کا ایک غول ہندوستان سے آنے والے شخص کو بصد احترام رحیم اللہ کے نہ صرف گھر کا دروازہ دکھا کر بلکہ دروازہ دھڑ دھڑا کر رحیم اللہ کے اہل خانہ کے سپرد کر کے آیا۔
ان دنوں ایک دستور اور بھی تھا۔ جب کسی کے گھر دُور دراز سے آنے والے مہمانوں میں عورتیں بھی شامل ہوتیں تو گھر کی مکین عورتیں اور آنے والی مہمان عورتیں ایک دُوسرے کے گلے لگ کر دُھواں دھار ر وتیں اور اکثر بین بھی کرتیں۔ امین الدین کو عورتوں کے اس رونے کی توجیہ اس وقت سمجھ آتی تھی نہ بعد میں کبھی آ سکی۔
بستی کے رہائشی علاقے کے بدلے ہوئے نقشے میں بھی امین الدین کو متعدد دُکانیں ملیں مگر شفن کی دُکان کہیں دکھائی نہ دی۔ بھائی متین کی دُکان کا بھی کچھ سراغ نہ مل پایا۔ نئی دُکانوں میں امین الدین کو ان دُکانوں میں جائے بنا بھی باہر سے گزرتے ہوئے نوع بنوع اشیاء آراستہ دکھائی دیں۔ دُکانوں میں گاہک جاتے اور پولی تھین کے بھاری بھرکم شاپنگ بیگز لیے دُکانوں سے باہر آتے دکھائی دیے۔ ان بیگز کے حجم سے لوگوں کی قوت خرید کا اندازہ کرنا ممکن تھا۔ گویا بستی کے مکین صاحبِ زر ہوگئے تھے۔
امین الدین کے بچپن میں تو پولی تھین بیگز کا دُور دُور تک پتا نہ تھا۔ پرانے اخباروں اور رسالوں کے اوراق سے بنے تھیلے ہوتے تھے۔ ان دنوں بستی کے بہت سے گھروں میں مرد و زَن اور بچّے آٹے یا میدے کی لئی پکا کر اس سے مختلف سائز کے کاغذی لفافے بنایا کرتے تھے جنہیں دُکانداروں کو فروخت کر کے ان کا معاوضہ مل جاتا۔
پولی تھین کے شاپنگ بیگز تو برسوں بعد کی بات تھی اور ان کے آنے سے ماحول کی آلودگی میں کتنا اضافہ ہوا تھا یہ خود صارفین ہی جانتے تھے۔ جگہ جگہ اُڑتے پولی تھین کے تھیلے اور ان کے نالیوں اور گٹروں میں پھنسنے سے تباہ ہونے والا گندے پانی کی نکاسی کا نظام! ان دنوں صارفین کی قوت خرید بھی تو کتنی محدود ہوا کرتی تھی۔
امین الدین کو آج بھی یاد تھا۔ اس کے بچپن میں سب سے خوشگوار دن وہ ہوا کرتا تھا جب ماں یا بہن بھائیوں میں سے کوئی اسے ایک یا دو پیسے دے دیتا۔ اس جیب خرچ سے وہ بھٹّے کے بُھنے گرما گرم کرارے چنے خرید کر جیب میں بھرتا اور ایک ایک چنے کے دانے کا چھلکا اُتارا اُتار کر کھاتا یا پھر ریوڑیاں، تل کے لڈّو اور کھٹی میٹھی گولیاں جنہیں وہ اپنے کلّے میں دبا کر مزے لے لے کر چوستا رہتا یا پھر مرغی کے چھوٹے چھوٹے انڈوں جیسی میٹھی گولیاں کھاتا جن کے درمیان میں چھوٹا سا بادام دبا ہوتا تھا۔
ایک روز اس نے اپنے بچوں سے کہا تھا۔ ’’بیٹا جی! آج تم لوگوں کے لیے تو لاتعداد قسم کی کینڈیز، چاکلیٹس اور ٹافیاں بناتی ہیں فیکٹریاں۔ ہمارے بچپن میں تو سنگترے کی شکل کی کینڈیز ہوتی تھیں یا پھر مرغی کے انڈے جتنی۔ بسکٹ بس گلوکوز بسکٹ ہوا کرتے تھے وہ بھی امیروں کے بچوں کے لیے۔ ہم جیسے بچوں کو تو چائے میں بھگو کر کھانے کے لیے گول پاپے بھی کبھی کبھار ہی ملتے تھے۔‘‘
’’آپ لوگ اتنے غریب تھے ڈیڈی!‘‘ اس کے چھوٹے بیٹے نے ترحم آمیز لہجے میں کہا تھا۔
’’جتنا تم سمجھے ہو اس سے بھی زیادہ مگر پھر بھی ہم خوش تھے۔‘‘ امین الدین نے جواب دیا تھا۔
’’کیوں!‘‘ اس کے بیٹے نے اسے حیرت سے دیکھا۔ پھر سوال کیا۔ ’’خوش کیوں تھے؟‘‘
’’کیونکہ ماں نے ہمیں قناعت کرنا سکھایا تھا۔‘‘
’’وہ کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’ہوتا نہیں ہوتی ہے۔‘‘ امین الدین بولا۔
’’اوکے… بٹ کیا ہوتی ہے؟‘‘
’’جو مل جائے اس پر صبر و شکر کرنا زیادہ کی ہوس نہ کرنا۔‘‘
’’ہائو فنی!‘‘ بڑے بیٹی نے شانے اُچکائے۔ ’’اس کا مطلب ہے آدمی لیزی ہو کر بیٹھ جائے اسٹرگل نہ کرے۔‘‘
’’اسٹرگل اور ہوس میں فرق ہوتا ہے بیٹا جی… بندہ کوشش ضرور کرے ہوس نہ کرے۔‘‘
’’آپ کا مطلب ہے جو مل جائے صبر کرے۔‘‘ امین الدین کی بیٹی اسے دیکھتے ہوئے طنزیہ مسکرائی۔
امین الدین کو اولاد کی بولڈنیس کا عادی ہونا پڑا تھا اور جسے بدلتا زمانہ بولڈنیس کا نام دیتا تھا، اس کے زمانے میں وہ بدتمیزی کہلاتی تھی۔ مجال تھی کہ چھوٹا کسی بڑے سے بحث میں اُلجھ جائے یا بڑے کی بات کو مسترد کر کے اپنی چلانے کی کوشش کرے۔ امین الدین کے بچّے تو اس سے دو بدو بحث کرتے تھے۔ بڑی بے تکلفی سے اس کی بہت سی باتوں کو مسترد کر دیتے بلکہ اپنی مسکراہٹ سے اسے سمجھاتے کہ وہ اس سے زیادہ دانا ہیں۔
امین الدین کو آج بھی یاد تھا۔ اس کے بڑے ماموں جو تقسیم کے بعد اندرون سندھ آ کر مقیم ہوئے تھے۔ کبھی کبھار اکیلے یا اپنے بال بچوں کے ساتھ بہن اور بھانجے بھانجیوں سے ملنے آتے تو امین الدین کی ماں رات کو سونے کے لیے چارپائیاں بچھواتے ہوئے اپنی چارپائی کی پائنتی کبھی بھائی کی چارپائی کے رُخ پر نہ ہونے دیتی۔
’’بڑوں کی طرف پائوں کر کے نہیں سویا کرتے۔‘‘ ماں کہا کرتی تھی۔
امین الدین خود بھی ساری زندگی ماں کے اس اُصول پر کاربند رہا مگر اپنے بچوں کو وہ اس اُصول کا پابند نہ کر سکا تھا۔ وہ ایسی باتوں پر ہنس دیتے تھے بلکہ مذاق اُڑانے کی کوشش کرتے اور اسی کے بچّے کیا وہ دیکھتا تھا نئی نسل بزرگوں کے قرینوں کو کم ہی خاطر میں لاتی تھی۔ بزرگوں کے قرینوں کو تو ’’بیک ورڈنیس‘‘ کہا جاتا تھا۔
بستی کی گلیوں میں کسی پرانے شناسا کی تلاش میں سرگرداں امین الدین کو بہت سے گھروں سے ٹی وی کی آواز سُنائی دے رہی تھی۔ بعض گھروں سے تیز موسیقی کی آواز بھی کانوں میں پڑی تھی۔
اسے یاد آیا اس کے بچپن میں ریڈیو، ٹی وی کا تو نام و نشان ہی نہ تھا۔ بازار میں بس ایک دُکان تھی جہاں گراموفون پر گانے بجائے جاتے تھے۔ وہ شامیانوں، قناتوں، دیگوں اور کراکری کی دُکان تھی۔ بستی میں کسی گھر میں غمی خوشی ہوتی تو اسی دُکان سے شامیانے، قناتیں اور دیگیں کرائے پر جاتیں۔
شادی بیاہ والے گھرانے اکثر و بیشتر گراموفون بھی منگوا لیتے۔ دُکان والا لڑکا جو ساتھ بھیجا جاتا فرمائشی گانوں کے ریکارڈ لگائے جاتا۔ لڑکے بالے اور زندہ دل مرد تو اس کے اردگرد بیٹھے فرمائشیں داغے ہی جاتے۔ بستی کے گھروں سے عورتیں بھی فرمائشیں بھجوا دیتیں۔ کوئی ’’برسات میں ہم سے ملے تم۔ تم سے ملے ہم برسات میں۔‘‘ کا ریکارڈ لگانے کی فرمائش بھجواتی تو کوئی ’’میرا دل یہ پکارے آ جا۔ میرے غم کے سہارے آ جا۔‘‘ کی فرمائش کرتی۔
امین الدین کو آج بھی یاد تھا محلے میں شادی تھی، گراموفون لگا ہوا تھا۔ بڑی آپا نے اس سے کہا۔ ’’امین جا گرامو فون والے سے جا کے کہہ کہ وہ لگائے۔ ’’مورے سیّاں بھئے کوتوال۔‘‘ بدقسمتی سے گراموفون والے کے پاس بڑی آپا کا فرمائشی ریکارڈ دستیاب نہ تھا۔ بڑی آپا مایوس ہوئیں اور خود ہی اپنا فرمائشی گیت گنگنانے لگیں۔ خود امین الدین کو تو ہر گانا ہی سننے میں مزا دیتا تھا۔
ریڈیو امین الدین نے زندگی میں پہلی مرتبہ حلوائی کی دُکان پر بجتے دیکھا تھا۔ وہ حیران رہ گیا تھا۔ اُس کا خیال تھا جس آدمی کی آواز سیاہ ڈبے سے سُنائی دے رہی تھی۔ وہ اس ڈبّے کے اندر ہی بیٹھا ہوگا مگر کیسے؟ کیونکر اتنا بڑا آدمی اس ڈبّے کے اندر گیا ہوگا۔
بعد میں جب اسے معلوم ہوا کہ بولنے والے لوگ تو کہیں دُور بیٹھے ہوتے ہیں، ریڈیو کا ڈبّا ان کی آوازیں سُناتا ہے تو وہ سوچ میں پڑ گیا تھا کہ دُور بیٹھے لوگوں کی آوازیں ڈبے تک کیسے پہنچتی ہوں گی!
سیل سے چلنے والا ٹرانزسٹر بھی نہایت حیران کن چیز تھی۔ ہینڈل سے پکڑ کر جہاں مرضی آئے لیے گھومتے پھرو۔ ٹرانزسٹر بستی میں سب سے پہلے لکھنؤ والی بوا کے ہاں آیا تھا۔ لکھنؤ والی بوا کا نام تو عطرت جہاں تھا، مگر وہ لکھنؤ والی بوا کی عرفیت سے مشہور تھیں۔
تقسیم کے ہنگاموں میں ان کے شوہر بلوائیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا۔ تقسیم کے بعد وہ بیٹے کے ساتھ لکھنؤ سے کراچی آگئی تھیں۔ ان کا بیٹا بستی کے دوچار پڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہوتا تھا۔ بنک میں ملازمت کرتا تھا۔
لکھنؤ والی بوا کا بیٹا ٹرانزسٹر خرید کر لایا تو دیکھنے والوں کی لائن لگ گئی۔ بوا نے ٹرانزسٹر کے لیے سرخ ریشمی غلاف سی کر ڈوریاں ٹرانزسٹر کے عقبی جانب کس دیں۔ بوقت استعمال سامنے کے رُخ پر غلاف کا پردہ ویسے ہی اُٹھا دیا جاتا جیسے کسی عورت کے چہرے سے اس کے برقع کی نقاب!
ریڈیو ٹرانزسٹر پر بولنے والوں کی آوازوں کے ساتھ ان کا آپ دکھائی دینا تو اور بھی تعجب خیز بات تھی۔ امین الدین کو یاد تھا بستی کے نزدیک ایک کھلے میدان میں اُونچے کھمبے پر لگے ٹی وی کی اسکرین پر سینما کی اسکرین کی طرح آزمائشی نشریات کو دیکھنے کے لیے بستی ہی کیا آس پاس کے دُوسرے رہائشی علاقوں کے لوگ بھی اس کھلے میدان میں اُمڈ آئے تھے۔
دسترخوانوں اور ٹفن دانوں میں کھانا بھی ساتھ تھا۔ ٹی وی اسکرین پر نظریں جمائے ٹولیوں کی صورت زمین پر بیٹھے لوگ آزمائشی نشریات دیکھنے کے ساتھ لذّت کام و دہن میں بھی لگے رہتے، یہ گویا ٹی وی کا ابتدائی تعارف تھا۔
ان دنوں عروس البلاد کے باسیوں کو تفریح کے محدود ذرائع میسر تھے اور نو آباد مہاجر بستیوں میں یہ مواقع اور بھی کم ہو جاتے تھے۔ مردوں کو فکر معاش ہی سے فرصت نہ تھی۔ بچّے بہت ہوا مدرسے اور مکتب کے بعد گلیوں میں گلّی ڈنڈا، کنچے اور چھپن چھپائی کھیلتے پھرتے۔
جوانوں کے اپنے مشاغل تھے۔ کبڈّی، سینما بینی اور راتوں کو چوکڑیاں جما کر چٹکلے بازی۔
امین الدین کو بستی کا ایک نہایت سُریلا نوجوان اشفاق آج بھی یاد تھا۔ کیا آواز دی تھی اسے اللہ نے! کسی فن شناس کے ہاتھوں لگ جاتا تو دُوسرا محمد رفیع ثابت ہوتا۔ اندھیرا پھیلتے ہی بستی کے لوگ اُسے گھیر کر بیٹھ جاتے۔
ایک نوجوان کنستر بجاتا، دُوسرا اپنے ہونٹوں سے نہایت مشاقی سے طبلے جیسی سنگت دیتا اور اشفاق کی آواز فضا میں سُر بکھیرتی رہتی۔ رات گئے تک یہ محفل جمی رہتی اور اشفاق کی آواز رات کی تاریکی اور گہرے سنّاٹے میں دُور تک بستی کے گھروں میں پہنچتی رہتی۔
بستی کی ایک لڑکی اشفاق کی آواز کے عشق میں اس بری طرح گرفتار ہوئی کہ شادی کے بعد بھی اپنے گھر میں نہ بس پائی۔ چند ماہ بعد ہی ماں کے گھر آ بیٹھی۔ ماں بیوہ تھی۔ اس نے بیٹی کو پہلے پیار سے سمجھایا۔ پھر دھمکیاں دیں۔ مار پیٹ پر اُتر آئی مگر لڑکی کی ایک ہی ضد کہ شوہر کے گھر واپس نہیں جانا۔ اس سے طلاق لے کر اشفاق سے شادی کرنی ہے۔ بالآخر طلاق ہوگئی۔
اشفاق کے گھر والے طلاق شدہ لڑکی سے اشفاق کی شادی پر آمادہ نہ تھے، مگر لڑکی کی ماں نے اپنا دوپٹہ اشفاق کے گھر والوں کے پیروں میں ڈال دیا اور آخرکار لڑکی کی شادی اشفاق سے ہوگئی۔
ان دنوں کسی عورت کو طلاق ہونا غیر معمولی سانحہ سمجھا جاتا تھا۔ عورتیں لرز لرز کر ایک دُوسری کو بتاتیں کہ فلانے گھر کی بیٹی یا بہن کو طلاق ہوگئی۔ یہ سُن کر عورتیں کانوں کو ہاتھ لگاتیں۔ ایسی اُفتاد سے پناہ مانگتیں۔ مطلقہ عورت داسی بنی میکے میں پڑی رہتی اور لوگوں سے یوں نظریں چرائے رہتی کہ آج کبیرہ گناہوں کے مرتکب بھی ایسے شرمندہ نہ ہوتے ہوں گے۔ افسوس کہ وقت گزرنے کے ساتھ مغرب کی طرح ہمارے ملک میں بھی طلاق عام بات بن گئی ہے۔
بستی کے تبدیل شدہ نقشے میں امین الدین کو ہر عمر کی لڑکیاں اور عورتیں بے محابا اور بے حجابانہ گزرتی دکھائی دیں۔ فیشنی لباس، گلے میں دوپٹے، اُونچی آوازوں میں ایک دُوسرے سے بات کرتی اور ہنستی کھلکھلاتی… اس کی نوعمری میں ایسے کسی منظر کا تصور بھی محال تھا۔
عورتیں گھروں میں رہتیں۔ خاص موقعوں پر یا کسی شدید ضرورت کے تحت ہی گھروں سے نکلتیں اور وہ بھی برقع اوڑھ کر۔ پہلے ٹوپیوں والے شٹل کاک برقعے ہوا کرتے تھے۔ پھر لیڈی ملٹن کے فیشنی برقعے پہننے لگی تھیں۔
دکانوں پر جا کر عورتوں کے روزمرہ سودا سلف خریدنے کا کوئی تصور نہ تھا۔ گھر کے مرد صبح کام پر جانے سے پہلے سودا سلف لا کر دے جاتے۔ مردوں کے جانے کے بعد عورتیں گھر کے کام دھندوں میں لگ جاتیں۔
فراغت ملتی تو دوپہر کو دوپٹے کی اوٹ میں چہرہ چھپا کر نکلتیں اور محلے کے کسی ایک گھر میں اکٹھی ہو کر بیٹھ جاتیں۔ بچّے بھی ان کے پہلو سے لگے بیٹھے رہتے۔ اُردو پڑھنا جاننے والی کوئی عورت لائبریری سے کرائے پر منگوایا ہوا کوئی ناول پڑھتی اور باقی بیٹھی سُنا کرتیں۔
ایک پڑھتے پڑھتے تھک جاتی تو پڑھنا جاننے والی کسی دُوسری عورت کو ناول تھما دیتی۔ ناول کے خوشگوار اور پرمسرت واقعات سُن کر عورتوں کے چہروں پر بشاشت دوڑ جاتی۔ المناک واقعات اور دُکھ بھرے مکالمات پر سب کی سب باجماعت دُکھی ہو جاتیں بلکہ بعض تو اپنے دوپٹے کے پلّو سے چپکے چپکے آنکھیں بھی رگڑنے لگتیں۔ ناول کے بُرے کرداروں کو پلّے پسار پسار کر کوسا جاتا۔ ناول کے خوشگوار انجام پر سب مسکراتی ہوئی اس محفل سے اُٹھتیں اور المیہ انجام پر پہلے سب روتیں پھر آنسو پونچھتی سوں سوں کرتی اُٹھتیں اور کئی دنوں تک اس دُکھ سے نہ نکل پاتیں۔
لائبریری سے کرائے پر منگوائے گئے ناول کا کرایہ مل جل کر ادا کیا جاتا۔
عورتوں کے لیے ان دنوں سب سے بڑی تفریح سینما بینی تھی، جب کوئی اچھی گھریلو فلم لگتی تو محلے کی عورتیں اپنے مردوں سے اجازت لے کر سینما ہائوس جانے کے لیے کرایہ اکٹھا کرنے کی مہم پر لگ جاتیں۔ اکثر بچّے بھی ساتھ ہوتے۔ ہفتہ عشرہ پہلے سینما ہائوس جانے کی تیاری شروع ہو جاتی، عورتیں اس سحر میں رہتیں کہ فلم دیکھنے جانا ہے۔
پروگرام والے دن صبح سویرے ہی گھر کے کام دھندے شروع کر دیتیں۔ رات کا کھانا بھی دوپہر کے کھانے کے ساتھ ہی پکا لیا جاتا تاکہ واپسی پر تھکن ہونے کے باعث کھانا پکانے کی فکر نہ ہو۔ مقررہ دن سب باجماعت گھروں سے نکلتیں۔ بچّے بھی شاداں و فرحاں ہمراہ ہوتے۔ ٹکٹ نہ ملنے کے اندیشے سے یہ قافلہ شو شروع ہونے سے دو ڈھائی گھنٹے پہلے ہی سینما ہائوس پہنچ جاتا۔
ہمیشہ میٹنی شو دیکھا جاتا جو تین سے چھ بجے تک چلتا۔ عورتیں ٹکٹ لینے کے لیے لائن میں لگ جاتیں۔ بچّے اُچھلتے کودتے، شور مچاتے اِدھر اُدھر پھرتے۔ ویسے تو خیر ایک عورت بھی لائن میں کھڑی ہو کر سب کے ٹکٹ خرید سکتی تھی مگر ٹکٹ والا ٹکٹ بلیک ہونے کے خدشے سے ایک کو سب کے ٹکٹ دینے سے گریز کرتا۔
سینما ہال میں داخل ہو کر عورتیں اور بچّے یوں خوش ہوتے جیسے کسی ماورائی مقام پر آ گئے ہوں۔ ہال میں اندھیرا ہونے پر جونہی اشتہاری فلمیں شروع ہوتیں سب الرٹ ہو کر بیٹھ جاتے۔ اصل فلم شروع ہوتی تو انہماک بڑھ جاتا۔ فلم کے طربیہ اور المیہ مناظر پر عورتوں کے جذبات وہی ہوتے جو ناول خوانی کے دوران ہوا کرتے۔ المیہ مناظر کے دوران ہال کی خاموشی میں فلم بین عورتوں کی سسکیاں سُنائی دیتیں بعد میں دنوں فلم پر تبصرے چلتے۔
عورتوں کی فلم بینی کے حوالے سے امین الدین کو گئے دنوں کی ایک بھولی بسری یاد آج بھی زیرلب مسکرانے پر مجبور کر دیتی تھی۔ ان دنوں امین الدین کی مسیں بھیگ رہی تھیں۔ بڑے بھائیوں کی ایما پر اس نے تعلیم کو خیرباد کہہ کر محنت مزدوری شروع کر دی تھی۔ جو پیسے ملتے ان میں سے کچھ ماں کو دیتا، کچھ اپنی ضرورتوں پر خرچ کرتا۔
محلے کے دُوسرے نوجوانوں کی طرح اسے بھی فلم بینی کا چسکا لگ گیا تھا۔ نئی فلم سینما میں لگتی تو وہ چھ آنے والا ٹکٹ خرید کر سینما ہائوس کی اگلی سیٹ پر بیٹھ کر فلم دیکھتا۔ ان دنوں سب سے سستا ٹکٹ چھ آنے، دُوسرے درجے کا دس آنے اور اوّل درجے کا دو یا سوا دو روپے ہوتا تھا۔
ایک نئی گھریلو فلم لگی تو امین الدین کی بہنوں، بھاوجوں اور محلے کی چند دُوسری عورتوں نے ہمیشہ کی طرح اکٹھے فلم دیکھنے کا پروگرام بنا لیا۔ اس بار ان کے ساتھ بستی کی ایک ایسی عورت بھی شامل تھی جس کی وجۂ شہرت برقع اوڑھے ایک گھر سے دُوسرے گھر میں جھانکتے اور اِدھر کی اُدھر لگاتے پھرنا تھی۔
نام تو اس کا کچھ اور تھا مگر عرفیت بی بتولن مشہور تھی۔
عورتوں نے سینما ہائوس پہنچ کر دس دس آنے والے ٹکٹ خریدے اور سینما ہال میں جا کر دس آنےوالی سیٹوں پر بیٹھ گئیں۔ بی بتولن کچھ دیر تو بیٹھی رہی پھر سب کو ورغلایا کہ آگے چل کر بیٹھو فلم زیادہ صاف دکھائی دے گی۔ میٹنی شو تھا۔ مرد عام طور پر چھ سے نو والا شو دیکھنے زیادہ آتے تھے۔ چھ آنے والی بہت سی سیٹیں خالی تھیں۔ بی بتولن اپنے ساتھ کی تمام عورتوں کو ورغلا کر آگے لے گئی اور فلم دیکھ کر گھر واپس آنے کے بعد سارے محلے میں یہ کہتی پھری کہ یہ سب بے وقوف ہیں دس آنے کا ٹکٹ لے کر پیچھے بیٹھ کر فلم دیکھتی ہیں۔ میں عقلمند تھی انہیں آگے لے گئی۔ وہاں فلم زیادہ صاف دکھائی دے رہی تھی۔ بستی کے لڑکے بالے بہت دنوں تک بی بتولن پر آوازے کستے رہے کہ واہ بی بتولن تم تو ’’واقعی‘‘ بڑی عقلمند ہو!
فلم دیکھنے کے علاوہ عورتوں اور بچوں کی اس زمانے کی تفریحات گارڈن کی سیر، کیماڑی سے کشتیوں اور لانچوں میں سوار ہو کر منوڑا جانا اور کلفٹن کی ساحلی تفریح گاہ پر گھومنا پھرنا تھیں۔
عید، بقرعید پر میلے اور سرکس لگتے، کبھی کبھی صنعتی نمائشیں بھی لگتیں جنہیں دیکھنے کے لیے نہ صرف اس شہر کے باسی بلکہ قریبی شہروں سے بھی لوگ جوق درجوق اُمڈ آتے۔
امین الدین نے چیونگم پہلی مرتبہ ایک صنعتی نمائش ہی میں لگے اسٹال سے خریدی تھی۔ چیونگم چبا کر زبان کی نوک پر رکھ کر دانتوں تلے زبان کے اُوپر نیچے کھینچنا اور اس کے غبارے بنانا اِک کارِگراں تھا جس میں امین الدین مسلسل تگ و دَو کے بعد بالآخر نہ صرف کامیاب ہوا بلکہ خاصا مشّاق ہوگیا تھا۔
اس قطعۂ زمین کی بھول بھلیوں میں گھومتے ہوئے جس سے امین الدین کا ماضی جڑا تھا۔ دُور کہیں سے ڈھولک کی تھاپ سُنائی دے رہی تھی۔ ڈھولک ان دنوں بھی بجائی جاتی تھی۔ مایوں، مہندی، بارات، ولیمہ جیسی خوشی کی تقریبات میں ڈھولک بجنا لازم تھا۔ تقریب کے انعقاد سے کئی دن پہلے ڈھولک بجنا شروع ہو جاتی۔ لڑکیاں بالیاں رات گئے تک ڈھولک کی تھاپ پر گیت گاتی رہتیں۔
کسی گھر میں بیٹا پیدا ہوتا اہل خانہ اظہار مسرت کے لیے محلے کی عورتوں کو جمع کرتے اور ڈھولک پر خوشی کے گیت گواتے۔ خواجہ سرا ڈھولک پر تھاپ لگاتے، گلیوں میں صدائیں لگاتے پھرتے۔ ’’ائے کس کے ہوا بیٹا۔‘‘ جس گھر میں بیٹا پیدا ہوا ہوتا وہ خواجہ سرائوں سے چھپاتے بھی تو خواجہ سرا محلے والوں سے سن گن لے کر زبردستی گھر میں گھس جاتے اور گانا بجانا شروع کر کے بدھائیاں مانگنا شروع کر دیتے۔ گھر والوں کو مجبوراً بدھائی دینا پڑتی اور اگر گھر والے نہ دیتے تو اس پڑوس سے بدھائیاں آنا شروع ہو جاتیں۔ بچّے بڑے سب ہی ان کے ناچ گانے سے محظوظ ہوتے۔
کبھی کبھی بستی کا کوئی زندہ دل مکیں، بستی کے لوگوں کی تفریح طبع کے لیے اپنے گھر میں ’’کٹھ پتلی‘‘ کا تماشا رکھ لیتا۔ کبھی یہ تماشا محلے والوں کے مشترکہ چندے سے بھی انعقاد پذیر ہوتا۔ تماشے والی رات سب لوگ اس گھر میں اکٹھا ہو جاتے جہاں کٹھ پتلی والے نے تماشا دکھانا ہوتا۔ بچّے آگے بیٹھتے، بڑے پیچھے ایک چارپائی افقاً کھڑی کر کے اس پر چادر ڈال دی جاتی۔ اُوپر ایک رَسّی سے پردہ تان دیا جاتا۔ کٹھ پتلی والا اس پردے کے پیچھے ہوتا اور ایک ایک کر کے کٹھ پتلیاں چادر سے ڈھکی چارپائی کے سامنے اُتارے جاتا۔ ڈوریوں سے بندھی کٹھ پتلیوں کو نہایت مہارت سے حرکت دینے کے ساتھ کٹھ پتلی والا پردے کے پیچھے سے کٹھ پتلیوں کے مکالمات بھی آواز بدل بدل کر ادا کئے جاتا۔ ’’پاٹے خاں کی خوب بجے گی خوب بجے گی۔‘‘ ایک کٹھ پتلی سر ہلا کر کہتی بچّے بڑے محوِ حیرت دیکھے جاتے۔
بستی والے خاص مواقع پر چندہ کر کے قوالوں کی پارٹی بھی بلاتے۔ کئی دن پہلے تیاریاں شروع ہو جاتیں۔ گلیوں کی صفائی، رنگ برنگی جھنڈیاں، جس دن پروگرام ہوتا صبح سویرے گلیوں اور میدان میں پانی کا چھڑکائو کیا جاتا۔ دوپہر کو شامیانے اور قناتیں تننا شروع ہو جاتیں۔ زمین پر دریاں بچھ جاتیں جن پر محلے کے بچّے خوب قلابازیاں کھاتے۔ قوال پارٹی کے لیے لکڑی کے تخت پہلو بہ پہلو بچھا کر ان پر دریاں اور سفید چاندنیاں بچھائی جاتیں۔ گائو تکیے رکھے جاتے، پانی کا جگ اور گلاس رکھنے کے لیے ایک دو چھوٹی میزیں رکھی جاتیں۔
پروگرام کے منتظمین جمع شدہ چندے میں سے قوال پارٹی کی ضیافت کا بندوبست کرتے اور طے شدہ معاوضہ بھی ادا کرتے۔ رات بھر قوالی ہوتی۔ سامعین میں سے پہلے کسی ایک کو حال آتا اور اس کی دیکھا دیکھی اور بھی وجد میں آ جاتے۔ حال کھیلنے والوں کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا۔ ان کی بے خودی دیکھ کر بچّے خوفزدہ ہو جاتے اور پردوں کے پیچھے بیٹھی قوالی سنتی عورتیں پردوں کے دائیں بائیں اور درمیانی جھروکوں سے جھانکتے ہوئے حال کھیلنے والے کی بے خودی دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اس بے چارے کی مشکل آسان ہونے کی دُعا مانگنے لگتیں۔
ایک بار امین الدین کو بھی حال کھیلنے کا شوق چرایا۔ قوال بڑی لے میں گا رہا تھا۔
گھنے پیپل کی چھیاں تلے
گھنے پیپل کی چھیاں تلے
امین الدین اُٹھا اور اس نے حال کھیلنا شروع ہی کیا تھا کہ دو تین آدمی اس کی طرف لپکے اور انہوں نے اسے اس بری طرح جکڑ لیا کہ اس کی ہڈّی پسلی ایک کر دی۔ کہاں کا حال اور کیسا حال؟ سارا وجد جاتا رہا۔ امین الدین نہایت شرافت سے نیم جان سا ایک کونے میں جا پڑا۔ باقی پروگرام اس نے شرمندگی کے ساتھ سُنا اور دیکھا۔
سیاست اس دور میں بھی تھی مگر سیاست میں تہذیب تھی، شائستگی تھی۔ بی ڈی ممبر کا مطلب امین الدین سمیت محلے کے چند لڑکوں کو لکھنؤ والی بوا کے تعلیم یافتہ بیٹے نے سمجھایا تھا۔ بی فار بیسک، ڈی فار ڈیموکریسی بیسک ڈیموکریسی یعنی بنیادی جمہوریت۔
’’بچہ جمہورا؟‘‘ لڑکوں میں سے ایک نے ترت کہا۔
’’جی نہیں۔‘‘ لکھنؤ والی بوا کے بیٹے نے لکھنوی تہذیب کا پاس رکھتے ہوئے نہایت شستگی سے کہا۔ ’’آپ غلط سمجھ رہے ہیں… دیکھئے جمہوریت کا مطلب ہوتا ہے وہ نظام حکومت جس میں عوام اپنے نمائندے منتخب کریں اور یہ منتخب نمائندے حکومت چلائیں اور عوام کو ان کے بنیادی حقوق… جان، مال اور آبرو کا پورا تحفظ فراہم کریں۔ بنیادی جمہوریت کا مطلب ہے حکومت کو زیادہ بہتر طور پر چلانے اور عوام کو ان کے بنیادی حقوق کا زیادہ بہتر طور پر تحفظ فراہم کرنے کے لیے اختیارات کو مرکز سے نچلی سطح پر عوامی نمائندوں کو منتقل کرنا۔ نچلی سطح پر عوامی نمائندوں کے انتخاب سے ایک مضبوط بلدیاتی نظام قائم ہوتا ہے۔ ادارے عوام کی بہتر انداز میں خدمت کرتے ہیں۔‘‘
امین الدین کی نوجوانی تھی۔ شہر میں بی ڈی ممبر کے انتخابات کا چرچا تھا۔ بستی میں بھی کئی اُمیدواروں کی انتخابی مہم پورے زور و شور سے جاری تھی۔ دن بھر لڑکے بالے اپنے اپنے پسندیدہ اُمیدوار کے حق میں نعرے لگاتے گلیوں میں گھومتے پھرتے۔ کسی گلی
سے آوازیں آتیں۔
نور بھائی کو ووٹ دو
بھلے آدمی کا ساتھ دو
دُوسری گلی سے نعرہ سُنائی دیتا۔
جیتیں گے بھئی جیتیں گے
اسلم بھائی جیتیں گے
شام کو گلیوں سے اُمیدواروں کے جلوس نکلتے۔ ہر اُمیدوار کے حامی لشکر کی صورت ساتھ ہوتے۔ کوئی کنستر بجاتا۔ باقی نعرے لگاتے۔ گھروں سے نکل نکل کر مرد اپنے حمایت یافتہ اُمیدوار کے جلوس میں شریک ہوتے چلے جاتے۔ عورتیں دروازوں سے جھانکے جاتیں۔ جلوس جلسہ گاہ پہنچتا۔ تقریریں ہوتیں۔ اُمیدوار اپنا منشور پیش کرتا۔ تالیاں بجتیں۔ چائے پانی ہوتا کوئی ہنگامہ نہ حریف اُمیدواروں کو گالم گلوچ اور نہ تہمت۔ اُمیدوار اور حامی سب تمیز کے دائرے میں رہتے۔ سیاست تجوریاں بھرنے کا ذریعہ نہ تھی۔ ملک و قوم کی خدمت منتخب نمائندوں کا نصب العین ہوتا۔
امین الدین کو آج بھی یاد تھا۔ ان دنوں پورے ملک میں صرف بائیس خاندانوں کی امارت کا چرچا ہوا کرتا تھا۔ کسی کے لکھ پتی ہونے کا ذکر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سُنا جاتا۔ آج بائیس نہیں ان گنت خاندان تھے جن کی دولت اور اثاثوں کا شمار نہ تھا۔ غیر ملکی بنکوں میں امراء کی اتنی دولت جمع ہوئی پڑی تھی کہ اعداد و شمار بتاتے تھے اس دولت اور اثاثوں کو استعمال میں لا کر غربت میں پستی عوام کو خوشحالی سے ہمکنار کیا جا سکتا تھا۔ بیرونی قرضوں کی لعنت سے چھٹکارا مل سکتا تھا۔
ایوبی عہد حکومت میں نئے شہر اسلام آباد کی بنیاد پڑی۔ بڑی تعداد میں سرکاری افسروں اور ان کے اہل خانہ نے بوریا بستر سمیٹا اور نومولود دارالخلافہ کو پیارے ہو گئے۔
ایوب دور حکومت کی ایک خوشگوار یاد امین الدین کی یادوں کے خزانے میں آج بھی اکثر اپنی چھب دکھاتی تھی۔ کھلی کار میں دبنگ اور شاندار شخصیت والا صدر پاکستان اور اس کے ہمراہ کھڑی سیلولائیڈ کی جیتی جاگتی گڑیا کی طرح میکانیکی انداز میں دائیں بائیں استقبال کے لیے کھڑے ہجوم کو اپنی دھیمی سی مسکان کے ساتھ گرمجوشی سے دیکھتی ملکہ برطانیہ الزبتھ! امین الدین بھی استقبالی ہجوم میں محلے کے چند لڑکوں کے ساتھ موجود تھا۔
اس وقت اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ قسمت اسے اسی ملکہ کے دیس لے جائے گی اور وہ اپنی جوانی، بڑھاپا، دُکھ سکھ، غم، خوشی وہیں گزارے گا۔ اس کے ہاتھ میں وہ پاسپورٹ ہوگا جو اسے بلا روک ٹوک نگر نگر گھومنے پھرنے کا اختیار دے گا۔ وہ پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہوگا۔ مگر برطانیہ کو کیا معلوم کہ اس کا دل تو آج بھی پاکستانی تھا۔ محب وطن پاکستانی۔ پاکستان اس کے دل کی ہر دھڑکن میں بسا تھا۔ وہ خواب بھی پاکستان کے دیکھتا۔ وہ تعبیر بھی پاکستان ہی کی دیکھنا چاہتا۔ یہ اس کے روم روم میں سمائی وہی محبت تھی جو اسے اس کے بچپن اور لڑکپن کی گلیوں میں کھینچ لائی تھی۔ گلیاں بدل گئی تھیں۔ راستے اُلجھ گئے تھے مگر وہ پھر بھی اسی محبت کو دل میں بسائے لاٹھی ٹیکتا آگے بڑھتا چلا جا رہا تھا۔
دُوسری جنگ عظیم کے تباہ کن معاشرتی اور اقتصادی اثرات سے نمٹنے اور تعمیر نو کے لیے تاج برطانیہ کو ان دنوں بڑی افرادی قوت درکار تھی۔ پسماندہ خطوں سے لوگ بڑی تعداد میں برطانیہ جانا شروع ہوگئے تھے۔ ان دنوں برطانیہ جانا اتنا آسان تھا جتنا آج بسا اوقات ایک شہر سے دُوسرے شہر جانا بھی آسان نہیں ہوتا۔
برطانیہ جانے کے خواہشمندوں کے نام انگلستان سے وائوچر آ جاتا۔ ویزا کی درد سری نہ کوئی اور رُکاوٹ۔ بس جہاز کا ٹکٹ خریدا اور جہاز میں سوار ہو کر برطانیہ پہنچ گئے۔
ٹریول ایجنٹ خواہشمندوں کو اپنی خدمات سے مستفید کرنے کو مستعد ہوتے۔ انگلستان پہنچ کر روزگار ملنے کی ضمانت ہوتی۔ تاج برطانیہ اپنی مملکت کی تعمیر نو کے لیے انہیں خوش آمدید کہنے کو ہمہ وقت تیار رہتا۔
امین الدین بھی غربت کے شکنجے سے نکلنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا تھا۔ ایک ٹریول ایجنٹ کی منت سماجت کی تو اس نے وائوچر منگوا دیا۔ کسی طرح امین الدین نے ہوائی جہاز کے ٹکٹ کا بندوبست کیا اور برطانیہ پہنچ گیا۔ اس جیسے اَن گنت تھے جو بہتر معاش کی تلاش میں وہاں جوق در جوق پہنچے ہوئے تھے اور مزید پہنچ رہے تھے۔ نہ صرف برطانیہ بلکہ پسماندہ ممالک سے بہتر روزگار اور خوشحالی کے متلاشی افراد دُنیا کے دیگر خطوں کا رُخ بھی کر رہے تھے۔
ترکِ وطن آسان مرحلہ نہ ہوتا مگر بہار رتوں کی چاہ میں لوگ اپنے پیاروں سے جدا ہو کر بہت دُور دُور نکل جاتے۔ گھر والوں بالخصوص ماں سے دُوری امین الدین کے لیے بھی آسان نہ تھی مگر اچھے دنوں کی چاہ میں اَن گنت ہم وطنوں کی طرح وہ بھی سبز وردی اور سر پر ترچھی ٹوپیوں والی فضائی میزبانوں کی گرمجوش میزبانی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے برطانیہ پہنچ گیا۔ ان دنوں قومی فضائی کمپنی واقعی اپنے باکمال عملے سے مسافروں کو لاجواب خدمات فراہم کیا کرتی تھی۔
برطانیہ پہنچا تو اپنے جیسے اور بہت سے غریب الوطنوں کو دیکھ کر اس کی ڈھارس بندھی۔ تاج برطانیہ نے اپنی مملکت کی تعمیر نو کے لیے باہر سے آنے والی افرادی قوت کے لیے بانہیں وا کر رکھی تھیں اور اس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک دُوسرے کا ہاتھ تھام کر پورے پورے خاندان برطانیہ منتقل ہو رہے تھے۔ حدودِ مملکت میں داخل ہوتے ہی سرکار کی جانب سے مراعات ملنا شروع ہو جاتیں۔ بال بچوں والوں کو کنبے کے ہر فرد کے لیے گزارہ الائونس ملتا۔ رہنے کو ٹھکانا بھی مل جاتا۔ برطانوی شہریت ملنے کی کشش بھی ہوتی۔ سو بیٹھ کر کھانے والوں کو تو کام کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی مگر امین الدین ہڈ حرام نہیں تھا۔ اس نے فوراً ہی کام تلاش کرنا شروع کر دیا۔
جن لوگوں کے ساتھ وہ ٹھہرا ہوا تھا وہ اس کی بیوقوفی پر ہنستے کہ جب حکومت کی طرف سے ملنے والے گزارہ الائونس سے کھانے پینے کا خرچا اور کرائے پر لیے گئے مکان کے کرائے میں اپنا حصہ ادا کیا جا سکتا تھا۔ سگریٹ نوشی بھی کی جا سکتی تھی تو پھر کام کرنے کی کیا ضرورت تھی مگر امین الدین کو بیٹھ کر کھانا گوارا نہ تھا۔ اس نے ایک دو دن بعد ہی کام تلاش کرنا شروع کر دیا۔
ہزاروں میل دُور اپنا گھر اور گھر والے اسے بہت یاد آتے۔ بھارت اور دُنیا کے دُوسرے خطّوں سے بھی لوگ برطانیہ آ رہے تھے اور مقامی افراد کی جانب سے انہیں کسی مزاحمت یا تعصب کا سامنا نہ تھا۔ پھر بھی غریب الوطنی کی زندگی پھولوں کی سیج نہ تھی۔ ماں کی یاد امین الدین کی آنکھوں میں اکثر نمی کی صورت اُتر آتی۔
ماں اور بہن بھائیوں کی طرف سے آنے والے خطوط سے اسے گھر، بستی اور وطن کا احوال ملتا رہتا۔ فون کی سہولت ان دنوں پاکستان میں اتنی عام نہیں تھی۔ وطن سے دُور پہلی عید آئی تو ماں نے اس کی بڑی بہن اور منجھلے بھائی کے ساتھ شہر کے بڑے ڈاک خانے جا کر اس سے فون پر بات کی۔ تین منٹ کی کال تھی۔ کچھ وقت لائن کلیئر ہونے میں لگ گیا۔ ماں سے زیادہ بات نہ ہو سکی۔ وہ پیاسا رہ گیا۔ بڑی آپا اور بھائی سے بات کرنے کی تو نوبت ہی نہ آئی۔
دس بارہ دن بعد اسے ماں کا خط ملا جس میں اس نے لکھوایا تھا کہ وہ اسے دیکھنے کو ترس رہی ہے۔ امین الدین نے اسے چند تصویریں بھیج دیں۔ ماں کے خط سے اسے اہل خانہ، اہل محلہ، رشتے داروں اور حکمرانوں تک کا احوال مل جاتا تھا۔ عید کے بعد ملنے والے خط میں ماں نے اسے اپنی دو مرغیوں کے کڑک ہو جانے، چھوٹی آپا کی بی سی کھلنے، ماموں کے بیٹے کی بات پکی ہو جانے اور سرکار کی طرف سے نیا سکہ جاری کئے جانے کی خبریں ارسال کی تھیں۔
سن پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ کے دوران پردیس میں مقیم ہم وطنوں کا جوش و جذبہ امین الدین کی ناقابل فراموش یادوں میں تھا۔ وطن عزیز میں ساری قوم سیسہ پلائی دیوار کی طرح یک جان و متحد کھڑی تھی۔ افواج پاکستان بحر و بر اور فضائوں میں جرأت و شجاعت کی بے مثال اور لازوال داستانیں رقم کر رہی تھیں۔ فنکار ہوائوں کے دوش پر اپنی آوازوں سے افواج کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔ جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی… اے شیر دل جوانو ہم ساتھ ہیں تمہارے… رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو۔
ماں کے وہ خطوط جو اس نے جنگ کے دنوں میں لکھوائے تھے امین الدین کو جنگ ختم ہونے کےبعد ملے۔ ان خطوط کی ہر ہر سطر ایک جری قوم کی بوڑھی عورت کے جذبۂ ایمانی سے معمور تھی۔
’’ماں صدقے! مسلمان مرنے سے ڈرتا نہیں۔ اللہ نے چاہا تو دُشمن پیٹھ دکھائے گا۔ ساری بستی کے لوگوں نے اپنے اپنے گھروں کے اندر باہر خندقیں کھود لی ہیں۔ پر کوئی خندق میں نہیں جاتا۔ جسے دیکھو شہید ہونے کا شوق۔ رات کو بلیک آئوٹ ہو جاتا ہے۔ بتّی جلانے کی اجازت نہیں، اندھیرے میں بس جہازوں کی آواز سُنائی دیتی ہے یا پھر ریڈیو کی آواز۔ تجھے ہماری فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ جیت گئے تو غازی، وطن پہ قربان ہوگئے تو شہید۔‘‘ تاخیر سے ملنے والے اپنے ایک خط میں ماں نے لکھوایا تھا۔
پاک بھارت جنگ کے دنوں میں لندن میں ٹرین کے سفر کے دوران ملنے والا ایک جرمن شخص امین الدین کو آج بھی یاد تھا۔ ’’تم پاکستانی لوگ حیرت انگیز قوم ہو۔ اپنے سے بڑے اور مضبوط دُشمن سے خوب جم کر لڑ رہے ہو۔‘‘
امین الدین کو فخر محسوس ہوا اور بولا۔ ’’مسلمانوں کی تاریخ یہی ہے۔‘‘
اس شخص نے امین الدین کو قدرے تعجب اور رشک سے دیکھا پھر بولا۔ ’’ہم جرمن تمہارے ممنون احسان ہیں۔ جانتے ہو کیوں؟ تمہاری نو آزاد مملکت نے مغربی جرمنی کو اس کی تعمیرنو کے لیے انیس سو تریسٹھ میں بیس سال کے لیے خطیر قرضہ دیا تھا۔ بحیثیت پاکستانی تمہارے لیے یہ فخر کی بات ہونی چاہیے کہ ایک نو آزاد ملک ہونے کے باوجود تمہارے ملک نے ہٹلر کے جرمنی کو اپنا مقروض کر دیا۔‘‘
امین الدین نے ایک غیر ملکی کی یہ بات قدرے تعجب سے سنی اور اس کا سر اُونچا ہوگیا مگر آج جب امین الدین پاکستان کو غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہونے کی خبریں سنتا تو اس کا دل دُکھنے لگتا تھا۔ اقوام اور ممالک وقت کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ ترقّی کرتے ہیں۔ خود کفالت کی منزل سے ہمکنار ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کا اپنا پیارا پاکستان خودغرض، عیش پسند اور عاقبت نااندیش حکمرانوں کے ہاتھوں بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے درد سے کراہ رہا تھا۔
امین الدین کو برطانیہ میں اپنی آمد کے ابتدائی برسوں میں ہم وطنوں اور غیروں کی مشترکہ مجالس میں بحیثیت پاکستانی فخر کے ایسے ہی مزید مواقع اس وقت ملے جب اس نے سُنا کہ بعض ترقّی پذیر ممالک اپنی ترقّی کے لیے نو آزاد مملکت پاکستان کو اپنا رول ماڈل بنائے ہوئے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب وطن عزیز ترقی کے راستوں پر رواں دواں تھا، مگر پھر…؟
آنے والے برسوں میں ترقّی کا سفر سمتِ معکوس میں چل پڑا۔ سیاسی افراتفری کے ساتھ مذہبی اور لسانی منافرت کی ہوا بھی چل پڑی۔ تو پنجابی میں پٹھان۔ وہ بلوچی میں سندھی۔ اُردو بولنے والے پختونوں سے خوفزدہ، پنجابی اُردو بولنے والوں کو مہاجر ہونے کا طعنہ دیتے۔ مسالک کی بنیاد پر مساجد جدا جدا۔ مفاد پرست افواہوں کی بھٹّی گرم رکھنے لگے۔ مہاجر بستیوں پر حملوں کی افواہ سے امین الدین کی بستی کی عورت اتنی خوفزدہ ہوئی تھی کہ ماں کے خط کے مطابق۔ ’’جب یہ خبر اُڑی کہ بستی پر حملہ ہونے والا ہے تو بابو شریف کی بیوی کمرے میں بند ہوگئی اور اس نے اندر سے دروازے کی کنڈی ایسی چڑھائی کہ پھر کھول کر ہی نہ دی۔ پندرہ دن ہونے کو آئے۔ دُکھیا عورت کمرے میں ہی بند رہتی ہے۔ آس پاس والے بتاتے ہیں حملے کے خوف سے بے چاری کا دماغ چل گیا۔ سُنا ہے میاں بڑی مشکلوں سے کھانا پانی اندر دیتا ہے۔ بچّے مارے مارے رُلتے پھرتے ہیں۔ دیکھو بے چاری کا کیا انجام ہوتا ہے۔‘‘
امین الدین کو اس خبر سے بہت رنج ہوا۔ بعد میں ماں کے خطوں ہی سے پتا چلا اُس عورت کو بمشکل پاگل خانے منتقل کر دیا گیا تھا۔ پھر کوئی ڈیڑھ برس کے بعد وہ پاگل خانے ہی میں فوت ہوگئی تھی۔
ماں کے خط امین الدین کو وطن سے دُور رہتے ہوئے بھی وطن میں عمومی زندگی کی بہت سی ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں سے آگاہ رکھنے کا ذریعہ تھے جو بظاہر غیر اہم ہوتے ہوئے بھی اہم تھیں۔
وہ ماں کے ہر خط کو کئی کئی مرتبہ پڑھتا۔ معاشرے میں دن بہ دن پھیلتی مذہبی منافرت، لسانی تعصب اور سیاسی شورشیں۔ دھیرے دھیرے گھروں کی اکائی کو بھی افراد کے مابین چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑی چپقلشوں، باہمی رنجشوں، حسد اور نفرت کی صورت متاثر کرنے لگی تھیں۔
مل جل کر رہنے والے خاندان ٹوٹ رہے تھے۔ اکائی بکھر رہی تھی۔ امین الدین کے دونوں بھائیوں نے جو اَب شادی شدہ اور عیالدار تھے۔ علیحدہ گھر بنا لیے تھے۔ ماں کے خطوط ہی سے امین الدین کو معلوم ہوا تھا کہ بڑے اور منجھلے بھائی کی بیویوں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑے بڑھنے لگے تھے سو اِن جھگڑوں کو روکنے کے لیے ماں نے دونوں کو علیحدہ ہو جانے کو کہا تھا۔ دونوں نے نزدیک ہی علیحدہ گھر بنا لیے تھے۔ بہنیں تو امین الدین کے پردیس آنے سے پہلے ہی اپنے اپنے علیحدہ گھروں میں منتقل ہو چکی تھیں۔ گھر میں اب ماں اکیلی رہ گئی تھی۔
(جاری ہے)

Latest Posts

Related POSTS