Friday, September 20, 2024

Suhane Khawab | Episode 3

امین الدین کو ماں کے اکیلے پن کی فکر رہتی جس کا اظہار اس نے اپنے جوابی خطوط میں بھی کیا تھا اور ماں نے اسے تسلّی دیتے ہوئے لکھوایا تھا۔ ’’تو میری فکر نہ کیا کر۔ دن بھر کوئی نہ کوئی میرے پاس بیٹھا رہتا ہے۔ کبھی بڑے کی بیوی آجاتی ہے۔ کبھی چھوٹے کی۔ تیری ایک بہن جاتی ہے تو دُوسری میری خیر خبر لینے آجاتی ہے۔ روٹی کبھی ایک نے بھجوا دی کبھی دُوسرے نے۔ جو پیسے تو بھیجتا ہے اُسے میں بنک میں ڈلوا دیتی ہوں تیری شادی کے لیے۔‘‘
کئی سال تک پردیس کی صعوبتیں کاٹنے اور ان صعوبتوں کے ثمربار ہونے کے بعد امین الدین بغیر پیشگی اطلاع ماں اور بہن بھائیوں سے ملنے وطن واپس لوٹا تو اپنے پرائے سبھی اسے دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ وہ تو سرتاپا بدل گیا تھا۔ سُرخ و سفید رنگت، کسرتی بدن، کرتا پاجامہ کی جگہ کوٹ پتلون، گفتگو نہایت دھیمی۔ دُوسرے لوگوں کو اُونچی آواز میں بولتے اور بچوں کو چیختے چلّاتے دیکھ کر منہ بنانے لگتا اور کانوں پر ہاتھ رکھ کر کہتا۔ ’’آہستہ!‘‘
وہ اب کالے صابن سے ہاتھ منہ دھونے کے بجائے باہر سے لائے ہوئے خوشبودار صابن سے نہاتا، دھوتا، بلاناغہ کپڑے بدلتا اور اپنے کپڑوں پر خوشبو ضرور لگاتا۔ وہ گھر سے باہر نکلتا تو بستی کے مرد اور لڑکے بالے اسے رشک سے دیکھتے۔ اس سے بات کرتے جھجکتے۔ بات کرتے تو لندن جانے کا طریقہ پوچھنا نہ بھولتے۔ عورتیں دروازوں کی اوٹ سے جھانک کر اسے دیکھتیں۔ نوجوان لڑکیاں اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے دروازے پر آکر گلی سے گزرتے کسی خوانچہ فروش یا گلی میں کھیلتے چھوٹے بہن بھائیوں کو خواہ مخواہ پکارنے لگتیں۔
ماں اس خوش فہمی میں تھی کہ وہ پردیس سے جو کمائی کر کے لایا تھا اس سے اپنا کوئی کاروبار کرے گا اور اس کے پاس ہی رہے گا مگر اس نے تو یہ کہہ کر ماں ہی نہیں بہنوں کو بھی اُداس کر دیا کہ وہ واپس جانے کے لئے آیا ہے۔ ماں نے بڑی دردمندی سے سمجھایا کہ واپس نہ جائے، اپنے وطن ہی میں رہے، روزی تو یہاں رہنے والوں کو بھی مل ہی رہی تھی۔ اللہ رزق تو انہیں بھی دے رہا تھا۔ ناشتے میں انڈا، توس، مکھن نہ سہی رات کا سالن اور صبح تازہ روٹی تو یہاں رہنے والوں کو بھی مل جاتی تھی مگر ماں کا سمجھانا، بہنوں کے آنسو اور بھائیوں کی منّت سماجت بھی اس کا واپسی کا خیال ترک نہ کر پائی۔ اسے ہر صورت واپس جانا تھا۔
گو پردیس میں بھی زندگی پھولوں کی سیج نہ تھی۔ آگے بڑھنے کے لیے ہاتھ پائوں مارنے پڑتے تھے۔ کچھ پانے کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی تھی۔ پردیس میں اُس نے ایسی مشکلات بھی کاٹی تھیں جن کا وہ اپنے وطن میں رہتے ہوئے تصوّر بھی نہیں کر سکتا تھا۔ رگوں میں خون منجمد کر دینے والے برفانی موسم میں وہ کام کی تلاش میں میلوں پیدل چلا تھا۔ شروع شروع زبان سے ناواقفیت کے باعث اسے گونگوں کی طرح اشاروں سے اپنا مدّعا بیان کرنا پڑتا تھا۔ تھوڑی بہت انگریزی بولنا سیکھا تو اکثر اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے غلط الفاظ اور جملے بول جاتا لیکن مقامی لوگ ان دنوں نہایت مہذب اور غیر متعصّب ہونے کے باعث انتہائی شائستگی سے اس کی غلطیوں کی اصلاح کر دیتے۔
مشکل وقت گزر گیا تھا۔ کئی سال پردیس میں گزارنے کے بعد وہ انگریزوں کے سے لہجے میں انگریزی بولتا وطن لوٹا تھا۔ اس کے اثر سے چند ہی دنوں میں اس کی بہنیں، بھابھیاں اور ان کے بچّے بھی پلیز، سوری، تھینک یو، ویلکم، اسٹوپڈ جیسے الفاظ سیکھ گئے تھے۔
اسے لوگوں سے بات کرنے کا ڈھنگ آ گیا تھا۔ وہ میز کرسی پر بیٹھ کر چھری کانٹے سے کھانا کھانا سیکھ گیا تھا۔ اپنے معاملات میں مداخلت کرنے والوں کو ٹوکنے کے لیے تنبیہی لہجے میں ’’مائنڈ یور اون بزنس‘‘ کہہ سکتا تھا۔
راستے کے کانٹے چن گیا تھا وہ۔ اب تو اسے اپنی آنے والی نسل کا مستقبل بہتر بنانے کے لیے بہرصورت برطانیہ واپس جانا تھا۔ سو اسے کسی میم کے ہتّھے چڑھنے سے بچانے کے لیے اس کی ماں نے اس کی واپسی سے قبل شادی کر دینے کا تہیہ کر لیا۔
محلّے کے ان گھرانوں میں جہاں نوجوان لڑکیاں بیاہے جانے کے انتظار میں بیٹھی تھیں کھلبلی مچ گئی۔ قریبی اور دُور کے رشتے دار گھرانوں میں بھی یہ خبر پھیل گئی کہ امین الدین کے گھر والے اس کی شادی کا پروگرام بنا رہے ہیں اور شادی کے بعد امین الدین اپنی بیوی کو اپنے ساتھ ہی پردیس لے جائے گا۔
امین الدین کی دونوں بھاوجوں کے میکوں میں بھی لڑکیاں بیاہی جانے کے انتظار میں تھیں۔ بہنوں کے سسرالی رشتے دار بھی تھے۔ لڑکیاں ان کے گھروں میں بھی تھیں۔ ماں کے پاس بہانے بہانے سے آنے والوں کی لائن لگ گئی۔ وہ رشتے دار بھی جنہوں نے کبھی پلٹ کر نہ پوچھا تھا خالا امی، چچی جان، ممانی جان اور پھوپھی بی کی گردان کرتے ماں کےپاس آنے لگے تھے۔
محلّے کے اُمیدوار گھرانے خوان پوش سے ڈھکے تھالوں میں نمکین اور میٹھے پکوان سجا کر امین الدین کی ماں کو بھجوانے لگے۔ ماں مدعا سمجھتی مگر چپ رہتی۔ البتہ امین الدین کی بھاوجیں ایسے محلّے داروں پر چبھتے ہوئے وار کرنے سے نہ چوکتیں کیونکہ وہ خود بھی تو اپنے میکے کی لڑکیوں میں سے کسی ایک کے لیے امین الدین کی اُمیدوار تھیں۔ اپنے اپنے طور پر وہ بھی ماں کی خوشامد درآمد میں لگی ہوئی تھیں۔ بعض امیدوار امین الدین پر براہ راست بھی ڈورے ڈالنے کی کوشش میں تھے۔
امین الدین انگریزوں کے دیس میں رہ کر سیانا ہی نہیں روشن خیال بھی ہو چکا تھا۔ اس نے بے دھڑک گھر والوں سے کہہ دیا کہ وہ کسی پڑھی لکھی لڑکی سے شادی کرے گا جو انگریزی لکھنا پڑھنا جانتی ہو تاکہ وہ اس کے ہمراہ انگلستان جاکر گونگی، بہری بنی نہ بیٹھی رہے۔
بہت دیکھ بھال کر امین الدین کا رشتہ ایسی ہی ایک لڑکی سے طے کر دیا گیا۔ نام اس کا دُردانہ تھا۔ سرکاری اسکول میں پڑھ رہی تھی۔ نویں جماعت کا امتحان دینے کی تیاری کر رہی تھی۔ نویں جماعت میں پڑھنے والی سولہ سترہ سالہ لڑکی بھلا کتنی پڑھی لکھی اور انگریزی میں کس استعداد کی حامل ہو سکتی تھی۔ مگر امین الدین خود تو اتنا بھی پڑھا لکھا نہ تھا۔
رشتہ طے ہو جانے کے بعد پندرہ دن کے اندر اندر امین الدین کی دُردانہ سے شادی ہوگئی۔ ہفتہ عشرہ گھر والوں کے ساتھ گزار کر امین الدین اپنی نئی نویلی دُلہن کے ساتھ انگلستان واپس چلا گیا۔
برطانیہ میں ان دنوں دُوسرے ملکوں سے آئے تارکین وطن کو اپنے اہل خانہ کو اپنے ہمراہ لانے یا بلانے میں کوئی دُشواری تھی نہ ساتھ رکھنے پر کوئی قدغن۔ بلکہ تاج برطانیہ انہیں خاطر خواہ مراعات فراہم کرتا۔ ایشیائی مردوں کے شانہ بشانہ ان کی عورتیں اور کام کی عمر کو پہنچے بچّے بھی کھیتوں، کھلیانوں، فیکٹریوں، اسٹوروں، دُکانوں، ریستورانوں اور ہوٹلوں میں کام کرنے لگتے یا اپنا کوئی کام شروع کر دیتے۔
سلائی کڑھائی سے واقف عورتیں گھروں میں بیٹھ کر سلائی کا کام کرتیں۔ محنت سے جان چرانے اور بیٹھ کر مفت نوالے توڑنے والوں کو بھی سرکار کی طرف سے روٹی، کپڑا اور مکان کی سہولت بہرحال مل جاتی۔ امین الدین محنتی اور غیّور نوجوان تھا۔ ہاتھ پائوں ہلائے بغیر مفت کے نوالے توڑنا اس کی سرشت کے خلاف تھا۔ ماں کہا کرتی تھی مرد نکمّے اچھے نہیں لگتے۔ شادی کے بعد امین الدین نے دُوسرے بہت سے تارکین وطن کی طرح بیوی سے نوکری کرانے کی بجائے اسے گھر بٹھانے کو ترجیح دی۔
شادی نے امین الدین کی زندگی کو نئی جہت، نئے معنی دیے تھے۔ دُردانہ اسے اپنی زندگی کی نہایت قیمتی متاع لگتی۔ وہ اسے خوش رکھنے اور ہر سہولت بہم پہنچانے کی کوشش کرتا۔ دُردانہ کو ساتھ لے کر برطانیہ واپس آنے کے بعد اس نے ایک انگریز عورت کے گھر میں کرائے پر رہائش اختیار کرلی تھی۔ اس کی کوشش تھی کہ جلد از جلد اپنا مکان خریدلے۔
اس گھر میں بھارت سے آیا ہوا ایک سکھ جوڑا اور چند چھڑے مرد بھی کرائے دار تھے۔ دُردانہ نے مالکہ مکان اور کرائے دار سکھ خاتون سے دوستی کرلی تھی۔ آس پاس گھروں میں مقیم چند ایشیائی خواتین سے بھی اس کی علیک سلیک رہنے لگی تھی۔ دوست بنانے کے معاملے میں دُردانہ بہت تیز تھی۔ انگریزی میں رواں نہ ہونے کے باوجود گوری خواتین سے راہ و رسم بڑھانے کی خاطر ہیلو ہائے کر لیتی۔ کام سے دن بھر کا تھکا ہارا امین الدین جب گھر واپس لوٹتا تو دُردانہ کو دیکھتے ہی اس کی تھکن دُور ہو جاتی۔ دُردانہ اس کے لیے روز تازہ مزے دار کھانا بناتی۔ ماں کہا کرتی تھی مرد دو عورتوں کے ہاتھ کا ذائقہ کبھی نہیں بھولتا… ماں اور بیوی… سچ کہتی تھی ماں۔
اس کے اپنے ہاتھ کے پکے کھانے کی طرح دُردانہ کے کھانے میں بھی امین الدین کو بہت سواد آتا۔ ’’یار! تمہارے ہاتھوں میں کیا جادو ہے… کھانے بیٹھتا ہوں دو روٹیاں اور کھا جاتا ہوں تین۔‘‘ دُردانہ مسکراتی۔ ’’پاکستان جائوں گا تو تمہارے گھر والے کہیں گے یہ وہ تو نہیں جس سے ہم نے اپنی بیٹی کی شادی کی تھی۔‘‘
’’فکر مت کریں میں ہوں نا گواہی دینے کے لیے۔‘‘ دُردانہ اسے محبت بھری نظروں سے دیکھتی۔
دُردانہ کا کسی بات پر ’’میں ہوں نا‘‘ کہنا امین الدین کے دل میں مسرت اور تقویت بھر دیتا۔ اسے لگتا وہ اکیلا نہیں رہا، دُردانہ اس کی ہمدم بنی اس کے ساتھ ہے۔
’’تمہارا کسی بات پر میں ہوں نا کہنا مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔‘‘ ایک روز اس نے دُردانہ سے کہا۔
’’میری امّی کہتی ہیں شادی کے بعد لڑکی کو ہر دُکھ سکھ میں اپنے شوہر کے ساتھ ہونا چاہیے۔‘‘
’’لڑکی ہی کو کیوں… شوہر کو بھی ہر دُکھ سکھ میں اس کے ساتھ ہونا چاہیے۔‘‘
’’وہ آپ جانیں… میں تو لڑکی کی بات ہی کر سکتی ہوں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کیونکہ عورت جو ہوں… مجھے مرد کے دل، اس کی سوچ، اس کے جذبات کا کیا پتا۔‘‘
’’میں بتا رہا ہوں نا تمہیں۔‘‘
’’کیا؟‘‘ وہ اس کا منہ تکنے لگی۔
امین الدین نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں کے درمیان لے لیے اور اسے وارفتہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولا۔ ’’میری ہر خوشی، ہر غمی اب تمہارے دَم سے ہے دُردانہ۔‘‘
’’صرف خوشی کی بات کریں غمی کی نہیں۔‘‘
’’یار زندگی خوشی اور غمی دونوں کا نام ہے۔‘‘
’’مجھے غم سے ڈر لگتا ہے۔‘‘ دُردانہ سچ مچ سہمی ہوئی دکھائی دینے لگی۔ امین الدین نے اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔
ویک اینڈ پر دونوں اکٹھے شاپنگ کرتے۔ امین الدین اسے گھمانے کے لیے باہر لے جاتا۔ رات کو وہ دونوں پاکستان اور اپنے پیاروں کی باتیں کیے جاتے۔ دُردانہ کا قرب، اس کی رفاقت امین الدین کو اپنی زندگی کی انمول متاع محسوس ہوتی۔ وہ اس کے گھنے سیاہ بالوں میں اپنی اُنگلیاں گھماتے ہوئے نہ جانے کہاں کہاں کی اور کب کب کی باتیں کیے جاتا۔
دُردانہ کو زندگی کی ہر آسائش فراہم کرنے کے لیے وہ زیادہ کام کرنے لگا تھا۔ دیس میں بیٹھی ماں اپنی محبت کے پروانے نہایت باقاعدگی سے اس کے نام بھجوائے جاتی مگر وہ اتنا مصروف رہنے لگا تھا کہ ماں کے خط کا جواب لکھنے کے لیے بھی فرصت نہ پاتا اور یہ ذمے داری دُردانہ کو سونپ دیتا۔ ’’اماں کے خط کا جواب دے دینا۔‘‘
دُردانہ کبھی جواب لکھ دیتی کبھی امین الدین کے استفسار پر نہایت بھولپن سے کہتی۔ ’’ہائے اللہ! سچ! میں تو بھول ہی گئی… اب لکھ دوں گی۔‘‘
’’خط کا جواب دے دیا کرو۔‘‘ امین الدین ملائمت سے کہتا۔
’’سوری!‘‘ وہ اس کی نگاہوں میں ہلکورے لیتی ناگواری دیکھ کر اسے برمانے کو اِک اَدائے خاص سے کہتی۔ ادا کام دکھا جاتی۔
دُردانہ اُمید سے ہوگئی۔ امین الدین بہت خوش تھا کہ وہ باپ بننے جارہا تھا۔ دُردانہ کو بیٹے کی چاہ تھی مگر امین الدین کو بیٹی کا باپ بننے پر بھی کوئی اعتراض نہ تھا۔ ’’یار! بیٹا ہو یا بیٹی ہمیں اپنے بچّے کو محبت سے ویلکم کرنا ہے۔ ایک روز ٹیلی وژن میں کسی کو کہتے سُن رہا تھا۔ دُنیا میں ہر نئے بچّے کی آمد اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ اللہ ابھی بندے سے مایوس نہیں ہوا۔‘‘ دُردانہ کی پریگننسی کے دوران وطن عزیز میں خاصی سیاسی شورش کے بعد حکومت تبدیل ہوگئی۔
اور حکومتی تبدیلی کے تقریباً تین ماہ بعد امین الدین ایک بیٹی کا باپ بن گیا جس کا نام دُردانہ کے وزن پر نغمانہ رکھا گیا۔ بیٹی کا عقیقہ امین الدین نے برطانیہ میں ہی کیا۔ البتہ اس خوشی میں اپنوں کو بھی شریک کرنے کے لیے اس نے ماں کو اس کے ماہانہ خرچے کے علاوہ پوتی کی پیدائش کی خوشی میں اپنوں پرایوں کو مٹھائی کھلانے کے لیے اضافی رقم بھجوائی۔
ماں نے اس رقم سے پلائو زردے کی دیگیں پکوائیں اور بستی کے گھروں میں دُور دُور تک چاول تقسیم کرائے۔ امین الدین نے اپنے اور دُردانہ کے ساتھ نومولود بچی کی تصویریں ماں کو بھجوائیں تو وہ بہت خوش ہوئی اور اس نے امین الدین سے فرمائش کی کہ وہ بیوی اور بیٹی کے ساتھ پاکستان آنے کی کوشش کرے تاکہ وہ اس کی بیٹی کو اپنی گود میں لے کر پیار کر سکے۔
امین الدین ان دنوں اپنا مکان خریدنے کے چکر میں پڑا ہوا تھا۔ اسے ماں کے خطوط کا جواب دینے کی فرصت تھی نہ وطن اور اہل وطن کا حال احوال جاننے کے لیے برطانوی ریڈیو کی خبریں سُننے کی۔ برطانیہ میں مقیم اپنے ہی جیسے تارکین وطن سے جو سُننے کو مل جاتا سُن لیتا۔ کام سے گھر واپس لوٹتا تو اتنا تھکا ہوا ہوتا کہ نغمانہ سے کھیلنے کی ہمت بھی نہ ہوتی۔
’’ذرا دیکھیں تو کیسے ہاتھ پائوں چلانے لگی ہے۔‘‘ دُردانہ اس سے کہتی۔ وہ ’آں اوں‘ کرتا اور آنکھیں موند لیتا۔
’’یہ کیا مذاق ہے بھئی… میں سارا دن اکیلی بور ہوتی رہتی ہوں اور آپ گھر آتے ہی سو جاتے ہیں۔‘‘
’’تھک گیا ہوں یار۔‘‘
’’مجھے بھی تو بات کرنے کو کوئی چاہیے۔‘‘
’’بولو… میں سُن رہا ہوں۔‘‘ امین الدین کی آنکھیں بوجھل ہوتیں اور آواز میں لڑکھڑاہٹ۔
’’میں کوئی پاگل ہوں کہ سوتے ہوئے آدمی سے باتیں کیے جائوں۔‘‘
امین الدین ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے نزدیک کر لیتا۔
’’مجھے اور بے بی کو بھی آپ کی توجہ چاہیے۔‘‘ دُردانہ لاڈ سے کہتی۔
’’اپنا گھر خرید لیں… بس پھر وقت ہی وقت ہوگا۔‘‘ وہ تسلّی دیتا۔
اپنا گھر خریدنے کی دُھن میں تو وہ ماں، بہنیں، بھائی سبھی کو بھول چلا تھا۔ ماں کے خطوں میں شکوہ ہوتا، جواب نہ دینے کا۔
’’اماں کو خط لکھ دیا کرو۔‘‘ وہ دُردانہ سے کہتا۔
’’وقت کہاں ہوتا ہے میرے پاس… سارا دن آپ کی بیٹی کے کاموں سے ہی فرصت نہیں ملتی۔‘‘
ویک اینڈ بھی یونہی گزر جاتا۔ امین الدین فیکٹری میں اوور ٹائم کر رہا ہوتا یا پھر ہفتے بھر کی تھکن اُتارنے کے لیے سو رہا ہوتا۔ دُردانہ ننھی نغمانہ کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں لگی رہتی۔ ابھی فیڈ کرنا ہے تو اب نیپی بدلنی ہے… یک جان دو قالب بنے گھر سے باہر گھومنے کی فرصت نہ دُردانہ کو رہی تھی نہ خود امین الدین کو۔
یہ عجیب اتفاق تھا کہ جس دن وطن عزیز کا مشرقی بازو ٹوٹا اسی دن ماں بھی اچانک حرکت قلب بند ہو جانے سے چل بسی۔ امین الدین کو ماں کی موت کی خبر کئی دن بعد ملی۔ اس روز وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روتا رہا۔ دُردانہ بھی اپنی آنکھوں میں آنسو بھرے اس کے پاس بیٹھی اسے دلاسا دینے کی کوشش کرتی رہی۔
اکہتّر کی پاک بھارت جنگ میں ملک کا مشرقی بازو ٹوٹ جانے کا صدمہ بھی کچھ کم نہ تھا۔ دیارِ فرنگ میں مقیم ہم وطنوں کی محفلوں میں اس سانحے پر انتہائی رنج و غم کا اظہار کیا جاتا۔ امین الدین کو یاد آتا اپنے اسکول کے زمانے میں اس نے پڑھا تھا مشرقی پاکستان کو پٹ سن کی اعلیٰ اور وافر پیداوار کی وجہ سے سُنہری ریشے کا دیس کہا جاتا تھا اور مغربی پاکستان کو کپاس کی عمدہ کاشت کے باعث روپہلے ریشے کی سرزمین… سُنہری ریشے کا دیس وطن عزیز کے دُشمنوں کی ریشہ دوانیوں کی نذر ہوگیا تھا۔
بہتر روزگار کی خاطر ترک وطن کرنے والوں نے برطانیہ کے علاوہ عرب ممالک، مشرق وسطیٰ اور مشرقی بعید بھی جانا شروع کر دیا تھا۔
’’دبئی چلو۔‘‘ ان دنوں ایک سلوگن بن گیا تھا۔ امین الدین کا ایک بہنوئی اور بھانجوں، بھتیجوں میں سے بھی تین چار بہتر مستقبل کی تلاش میں بیرونی ممالک چلے گئے تھے۔
روزگار کی خاطر ترکِ وطن کے کچھ فوائد ہوئے تو کچھ نقصانات بھی۔ ترک وطن کرنے والے محنت کشوں کی شبانہ روز محنت و مشقت کے طفیل ان کے گھرانوں کا رہن سہن، انداز و اَطوار سبھی کچھ بدل گیا۔
دو سوتی جوڑوں کے تار تار ہونے تک انہیں ایک دھو کر دُوسرا پہننے والی خواتین خانہ سعودی عرب، دبئی، بحرین اور قطر سے آئے ریشمی جاپانی تھری پیس پہن کر اترانے لگیں۔ جنہیں کانچ کی چوڑیاں بھی عید، بقرعید پر پہننے کو ملتی تھیں۔ باہر گئے مردوں کی کمائی کے طفیل کلائیوں میں طلائی چوڑیاں اور کنگن پہن کر ان کی نمائش کرنے لگیں۔ قرآن خوانی اور میلاد کی محفلوں میں تقسیم کی جانے والی دیسی عطر کی پھریری کو کان میں اُڑس کر گھر آنے کے بعد صندوق کے کپڑوں میں دبکا دینے والی سادہ لوح عورتیں روزگار کی خاطر بیرون ملک گئے مردوں سے پروفیسی، ٹی روز، جاسمین اور اسپیشل فائیو قبیل کی بدیسی خوشبویات کی فرمائش کرنے لگیں۔
اہل خانہ دیارِ غیر میں مشقت کرتے گھر کے مرد کی خیر و عافیت سے زیادہ بیرون ملک سے آئی سوغاتوں کے منتظر رہتے۔ گھر کے بچوں کو پردیسی باپ سے زیادہ رنگین ٹیلی وژن اور وی سی آر کی چاہ ہوتی۔ محنت کش سال دو سال بعد چھٹی پر گھر آتے تو فرمائشی سوغاتوں سے لد پھند کر بیرون وطن جانے والوں کے اس سیلابی ریلے کے دوران امین الدین بال بچوں کے ساتھ وطن گیا تو بیرون ملک سے آئی محنت کی کمائی سے اکثر گھرانوں کے رنگ ڈھنگ بدلے دیکھ کر حیران رہ گیا۔
اس کے اپنے بہن بھائیوں کے حالات بھی بدل گئے تھے۔ باہر سے آئی کمائی پر رنگ رلیاں منائی جارہی تھیں۔ اگر باہر سے وی سی آر نہ آیا ہوتا تو کرائے پر منگوا کر رات رات بھر انڈین فلموں سے آنکھیں سینکی جا رہی ہوتیں۔ نہ نماز کا ہوش نہ تعلیم کی پروا۔ جن گھروں میں باہر سے پیسہ آ رہا تھا، وہاں اکثر اخلاق و اقدار کی تباہی زوروں پر تھی۔
پاکستان سے امین الدین کی واپسی پر اس کے ایک ہندو محلّے دار رمیش کمار نے ایک مشترکہ دوست کے ہاں تقریب ملاقات کے دوران تمسخرانہ لہجے میں کہا تھا۔ ’’پاکستانی بھی عجیب لوگ ہیں پیسہ کمانے کے لیے اپنے ملک کو چھوڑتے ہیں اور پیسے کما کر لگژریز پر لٹا دیتے ہیں۔ آپ لوگ کسی پاکستانی کو فارن سے اپنے کنٹری جاتے دیکھو تو ایئرپورٹ پر اس کی لگیج ٹرالی پر اتنا سامان رکھا ہوتا ہے کہ خود بے چارہ اس سامان کے پیچھے کہیں چھپ جاتا ہے۔ ہم انڈین لوگ جیب میں فارن کرنسی ڈالتے ہیں۔ ایک ٹریول بیگ اُٹھاتے ہیں اور سیدھا اپنے دیش۔ پاکستانی باہر کے پیسے سے اپنی فیملی کے لوگوں کو عیاشی کا عادی بنا دیتے ہیں اور ہم انڈین فارن کرنسی سے اپنے دیش کی اکانومی مضبوط کرتے ہیں۔‘‘
امین الدین کو رمیش کی بات بُری لگی تھی مگر اس نے غلط نہیں کہا تھا۔ وطن یاترا کے دوران امین الدین معاش کے لیے بیرون ملک گئے محنت کشوں کے گھر والوں کے اَلّلے تلّلے دیکھ آیا تھا۔ ان گھروں میں بیرون ملک سے درآمد شدہ بعض آسائشات اتنی غیر ضروری تھیں کہ ان کے نہ ہوتے ہوئے بھی زندگی بہت اطمینان سے گزاری جا سکتی تھی بلکہ سچ تو یہ تھا کہ ان غیر ضروری آسائشوں نے زندگی کا فطری حسن مصنوعی بنا دیا تھا۔ کون سمجھاتا عاقبت نااندیشوں کو کہ محنت سے کمایا جانے والا غیر ملکی زرمبادلہ آسائشوں کی بجائے وطن عزیز کی معیشت کو مضبوط و مستحکم کرنے میں بھی کام آ سکتا تھا۔
اور اب رمیش کمار کی اس بات کے برس ہا برس بعد بھی لندن کی ایک چیریٹی شاپ سے ایک پونڈ میں خریدی گئی منقش دستے والی شیشم کی سیکنڈ ہینڈ لاٹھی کے سہارے اپنے بچپن کے علاقے میں گشت نوردی کرتے ہوئے امین الدین کو اپنے لوگوں کی اسی عاقبت نااندیشی کا شدت سے احساس ہو رہا تھا۔
اچھا بھلا خوش حال آدمی ہوتے ہوئے بھی اگر وہ چیریٹی شاپ سے خریدی گئی لاٹھی سے اپنی ضرورت پوری کر سکتا تھا تو بستی کے لوگوں کو اپنے مکانوں کے بیرونی آرائش پر اتنا اسراف کرنے کیا ضرورت تھی۔ لگتا تھا عمارتوں کو بلند و بالا کرنے اور بام و دَر کی میناکاری میں ایک نے دُوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی تھی۔
اُونچی عمارتوں کے باہر تنگ گلیوں میں گاڑیوں کی پارکنگ سے گلیاں اور تنگ ہوگئی تھیں۔ ان گلیوں میں رنگ برنگے شاپرز بے محابا آوارہ گردی کرتے پھر رہے تھے۔ جابجا کوڑا کرکٹ بھی پڑا تھا جس سے علاقے کے مکینوں کا یہ ’’حقِ شہریت‘‘ بخوبی اُجاگر ہوتا تھا کہ اپنے گھر سے کوڑا نکالو اور محلّے کی گلیوں کو بدنما اور فضا کو آلودہ کر دو!
امین الدین کو اپنے بچپن کا زمانہ یاد آ گیا۔ جب گلیاں خوشی، غمی کا خیال رکھتے ہوئے کشادہ رکھی جاتی تھیں۔ اتنی کشادہ کہ غمی خوشی کے موقع پر ان گلیوں میں بڑے بڑے اجتماعات کے لیے تنبو، شامیانے کھڑے کر کے قناتیں تان لی جاتیں۔ انہی میں شادی بیاہ کی تقاریب ہوتیں۔ موت کے گھر پُرسا دینے کے لیے آنے والے بیٹھتے۔ میلاد کی محفلیں ہوتیں۔ سیاسی جلسے ہوتے۔ انہی گلیوں سے محرم کے جلوس اور تعزیے گزرتے مگر وقت کے ساتھ ہوسِ احاطہ گیری نے گلیوں کو اتنا تنگ کر دیا تھا کہ دروازوں کے باہر کھڑی گاڑیوں سے مزید تنگی ہو جانے کے بعد کہیں کہیں تو پیدل چلنے والوں کو بھی اَٹک جانے کے خیال سے دامن بچا کر گزرنا پڑ رہا تھا۔
امین الدین کے اپنے بہن بھائیوں اور ان کی اگلی نسل میں سے کوئی اب اس علاقے کا مکین نہیں تھا بلکہ بہن بھائی تو سب آگے پیچھے ایک ایک کر کے اس دُنیا ہی سے گزر چکے تھے۔ اپنے بہن بھائیوں میں وہ واحد زندہ نفس بچا تھا۔ بہن بھائیوں کے بچوں میں سے چند بیرون ملک مقیم تھے تو باقی گزشتہ برسوں میں شہر کے حالات خراب ہونے کے باعث ایک ایک کر کے دُوسرے شہروں میں جا بسے تھے۔ بھولے بھٹکے ایک سے دُوسرے کی خبر مل جاتی، یا عید بقرعید پر کسی بھانجے، بھتیجے یا بھانجی، بھتیجی کا فون آ جاتا۔
’’چچا! بڑی مشکل سے نمبر ملا ہے آپ کا!‘‘ فون کرنے والا بھتیجا کہتا۔
’’ماموں! آپ کو دیکھے تو صدیاں ہوگئیں۔‘‘ کوئی بھانجی رِقّت سے کہتی۔
امین الدین کا دِل دُکھنے لگتا، کبھی سوچا تھا کہ چھوٹی سی دُنیا میں رہتے اتنے قریبی رشتوں میں بھی ایسی دُوریاں ہو جائیں گی… امین الدین کو تو اپنے بعض بھانجوں، بھتیجوں کی صورتیں بھی ڈھنگ سے یاد نہ آتی تھیں۔
وطن عزیز میں حکومتیں آتی جاتی رہیں۔ ملکی حالات امین الدین کی اپنی زندگی کے نقشے کی طرح اُتار چڑھائو کا شکار رہے۔ دُردانہ جو امین الدین کی اقلیم دل کی بلاشرکت غیرے فرمانروا تھی نہایت بیدردی سے اس کی زندگی سے نکل گئی۔ وہ بے اوسان ہو کر رہ گیا۔ ماں کے بعد اس نے اگر کسی سے سچی محبت کی تو وہ دُردانہ تھی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ دُردانہ اس کا ساتھ چھوڑ جائے گی مگر ہونی کو کس نے روکا ہے جو وہ روک پاتا۔
دو ہی عورتیں تھیں اس کی زندگی میں جن سے اس نے ٹوٹ کر محبت کی اور جن کی جنبش اَبرو سے وہ ان کے دل کی بات سمجھ لیا کرتا تھا۔ ایک ماں اور دُوسری دُردانہ۔ اسے دُکھ تھا کہ دُردانہ کے جانے سے پہلے وہ یہ احساس کیوں نہیں کر پایا کہ وہ اس کی زندگی سے جانے والی تھی۔
دو ہی عورتیں تھیں جن کے ہاتھ کے پکے کھانوں کا مزا وہ ساری زندگی نہیں بھول پایا۔ اوّل ماں جس کے ہاتھ میں اللہ نے ایسا سواد رکھا تھا کہ وہ تو وہ، اس کے سارے بہن بھائی، ان کے بچّے حتیٰ کہ آس پڑوس والے بھی للچاتے تھے۔ ماں کے ہاتھ کی پکی مچھلی کا تو امین الدین کو کہیں اور جواب نہ مل سکا تھا۔
دُردانہ بھی کھانا لاجواب بناتی تھی مگر ماں کے ہاتھ جیسی مچھلی وہ بھی نہ پکا سکی تھی کبھی اس کے لیے۔ وہ جب مچھلی لاتا اس سے کہتا۔ ’’اماں جیسی پکانا۔‘‘
دُردانہ نے اسی سے ترکیب پوچھ کر ایک دفعہ نہیں اَن گنت مرتبہ ماں جیسی مچھلی پکانے کی کوشش کی مگر امین الدین ہر بار یہی کہتا۔ ’’بہت اچھی بنی ہے مگر اماں جیسی نہیں۔‘‘
بار ہا کوشش کے بعد دُردانہ زچ ہونے لگی تھی۔ ’’پتا نہیں کیسے پکاتی ہوں گی آپ کی اماں۔‘‘
امین الدین اس کی ناراضگی بھانپ کر اس کا دِل رکھنے کو کہتا۔ ’’یار! تم نے بڑے بڑے شیفوں کو مات کر دیا ہے۔ پر اماں کی مچھلی کی بات ہی اور ہوتی تھی۔‘‘
دُردانہ کو غصّہ آ جاتا۔ ’’اس دُنیا میں تو آپ کو اپنی اماں کے ہاتھ جیسی مچھلی کھانے کو ملنی نہیں اب اُوپر ہی جا کر انہی سے فرمائش کر کے پکوائیے گا۔‘‘
امین الدین مسکرا دیتا۔ ماں کے ہاتھ کی پکی مچھلی کا ذائقہ آج بھی اس کی ’’ٹیسٹ بڈز‘‘ میں محفوظ تھا۔
اور انسانی تصوّر کی کرشمہ سازی وہ اس وقت بستی کے بدلے ہوئے نقشے میں پرانی یادوں کو ڈھونڈتے ہوئے بھی محسوس کر سکتا تھا کہ ماں کے ہاتھ کی پکی مچھلی کی خوشبو فضا میں رقصاں تھی اور ماں کی یاد کے ساتھ اسے برسوں پہلے سنے ایک نغمہ کے بول یاد آ رہے تھے۔
میرے بچپن کے دن
کتنے اچھے تھے دن
میرے بچپن کے دن
آج بیٹھے بٹھائے کیوں یاد آ گئے
میرے بچھڑوں کو مجھ سے ملا دے کوئی
میرا بچپن کسی مول لا دے کوئی
میرے بچپن کے دن
کتنے اچھے تھے دن
میرے بچپن کے دن
کتنی بے لوث تھی
اپنی وہ دوستی
کتنی معصوم تھی وہ ہنسی وہ خوشی
جھومتے گاتے ہنستے ہنساتے
اِک دوجے پہ جان لٹاتے
کاش پھر وہ زمانے
کاش پھر… پھر وہ زمانے دکھا دے کوئی
میرا بچپن کسی مول لا دے کوئی
امین الدین کے دل میں ہوک سی اُٹھ رہی تھی۔ اس کے بچھڑوں کو کوئی اس سے ملا سکتا تھا نہ اس کا بچپن کسی مول واپس آ سکتا تھا۔ وہ بچپن جب ننھے سے پہیے کی طرح کا درمیان میں گول سوراخ والا ایک پیسہ ہاتھ میں آتے ہی وہ خود کو بادشاہِ وقت باور کرنے لگتا تھا۔ ایک پیسے سے خریدے جانے والے بھنے چنے جیب میں ڈالے، دانہ دانہ ٹونگتے ہوئے وہ بستی کی گلیوں میں ننگے پائوں مٹر گشت کرتا پھرتا۔
دُردانہ کے بعد اس کا رشتۂ مناکحت عذرا سے جڑا۔ وہ دُردانہ سے قطعاً مختلف عورت تھی۔ اس کی طرح پرکشش، نہ اس جیسی جامہ زیب۔ دُردانہ خوش کلام تھی، خوش مذاق تھی۔ اسے راہ چلتوں کو اپنا بنانے کا فن آتا تھا۔ عذرا تندخو، خودسر اور خودپسند تھی۔
دُردانہ جیسی عورت کے ساتھ برسوں ایک بھرپور خوشگوار اَزدواجی زندگی گزارنے کے بعد عذرا جیسی عورت کے ساتھ زندگی گزارنا امین الدین کے لیے ایک سمجھوتا ہی تھا۔
ماں کہا کرتی تھی زمانہ آدمی کو بہت کچھ سکھا دیتا ہے۔ امین الدین نے بھی وقت سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ زیادہ پڑھ لکھ نہیں سکا تھا مگر زمانے کی شاگردی میں رہ کر بہت سے پڑھے لکھوں کو پیچھے بٹھانے لگا تھا۔ پڑھے لکھوں کے ساتھ بیٹھتا تو دانشوروں کی طرح باتیں کرتا۔
امین الدین کو روٹی کی فکر سے نکلے زمانہ بیت چکا تھا۔ اپنی اور اپنی آئندہ نسل کی زندگی بنانے کے لیے اس نے بہت محنت کی تھی۔ دُردانہ اسے نہ چھوڑ گئی ہوتی تو شاید اس کی زندگی کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ گو مایوس اب بھی نہیں تھا۔
برطانیہ میں اس کی اچھی بھلی جائداد تھی۔ ایک کوٹھی وطن میں بھی بنا رکھی تھی۔ دو مرتبہ حج اور متعدد عمرے کر چکا تھا۔ دُنیا کے متعدد ممالک کی سیر کر چکا تھا۔ گزشتہ کئی برسوں سے اس کا اور عذرا کا معمول تھا موسم بہار شروع ہوتے ہی دونوں پاکستان آ جاتے اور اسلام آباد میں اپنی کوٹھی میں قیام کرتے۔
دونوں کو اسلام آباد اپنی خوبصورتی، صفائی اور موسم کی وجہ سے بہت پسند تھا۔ موسم گرما کے آغاز تک دونوں یہاں رہتے۔ پارہ اُوپر جانے لگتا تو وہ برطانیہ لوٹ جاتے۔ برطانیہ جو امین الدین کے لیے کبھی پردیس ہوا کرتا تھا اب اس کا دُوسرا گھر بن گیا تھا۔ پہلا گھر وہ اب بھی اپنے وطن ہی کو کہتا تھا۔
اپنے خونی رشتوں کے دُور دُور ہونے اور بکھر جانے کے بعد اس نے غیروں سے رشتوں کی ڈوریاں باندھ لی تھیں۔ کوئی اسے انکل کہتا کوئی بابا… کوئی دادا کہہ کر احساسِ اپنائیت دیتا تو کوئی نانا کہہ کر ہاتھ تھام لیتا۔ لوگ اس کی عزت کرتے تھے۔ اس کی بات سُنتے تھے۔ ملکی اور عالمی حالات پر وہ پڑھے لکھوں کی محفل میں ایسی مدلّل گفتگو کرتا کہ سُننے والے اس کی علمیت سے مرغوب ہو جاتے۔
یہ علمیت کتابوں کی نہیں ایک ایسے بدیسی معاشرے کی دین تھی جہاں انسان علم سے لاعلم نہیں رہ سکتا۔ جہاں انسان کا احترام تھا۔ انسانیت کی علمبرداری تھی۔ نہایت عجیب بات تھی کہ اس غیر اسلامی معاشرے نے اپنے معاشرتی ڈھانچے کی آبیاری اسلامی اُصول و قوانین پر کی تھی۔
وطن عزیز کے حالِ زار پر امین الدین کا دل بہت کڑھتا تھا بلکہ اُسی کا کیا ہر تارک وطن کا۔
ماں کہا کرتی تھی چیزیں جب تک ہماری پہنچ میں ہوں ان کی صحیح قدر نہیں ہوتی۔ وطن کی قدر وطن سے باہر نکل آنے والوں کو معلوم تھی۔ مادر وطن کی آغوش میں بیٹھے ناقدرے لوگ اس کی قدر سے بے خبر اسے نوچنے کھسوٹنے اور باہم چھینا جھپٹی میں مصروف تھے۔ حکمرانوں کو الّلے تلّلوں سے فرصت نہ تھی۔ عوام جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مطابق پسے جا رہے تھے، کچلے جا رہے تھے۔
امین الدین اور اس کے وطن دوست احباب کی محفلوں میں اکثر یہ موضوع چھڑ جاتا۔ غیروں کی جنگ میں پائوں پھنسانے اور بعد کے حالات نے پاکستان کو عالمی برادری میں گویا نکّو بنا دیا تھا۔ دہشت گردی اور بنیاد پرستی کا الزام لگا کر ’’ڈومور‘‘ کے تقاضوں نے وطن عزیز میں عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔
وطن سے دُور بیٹھے تارکین وطن کے لیے بھی حالات بتدریج بدل رہے تھے۔ بات ’’پاکی‘‘ کی پھبتی سے نسل پرستانہ تشدد آمیز جملوں تک آ پہنچی تھی۔ وطن پرستوں کو بدلتے حالات پر غصّہ بھی آتا، شرمندگی بھی محسوس ہوتی مگر بہت سوں کو پروا بھی نہ تھی۔ مزمل شاہ بھی انہی میں سے ایک تھا۔
’’گرین پاسپورٹ کے ساتھ دُنیا کے کسی ایئرپورٹ پر جاکر کھڑے ہو تو ہم پاکستانیوں کو اپنی اوقات پتا چلتی ہے۔ دہشت گرد سمجھا جاتا ہے پاکستان کے لوگوں کو۔ برٹش پاسپورٹ ہاتھ میں نہ ہو تو ہم برٹشر پاکستانیوں پر دُنیا اپنے دروازے بند کر دے۔‘‘ دوستوں کی ایک محفل میں ایک روز مزمل شاہ نے کہا۔
امین الدین جو شریک محفل تھا ناگواری سے بولا۔ ’’شاہ صاحب برٹش پاسپورٹ یقیناً ایک آسانی ہے مگر میں اپنا سبز پاکستانی شناختی کارڈ دکھانے میں بھی فخر محسوس کرتا ہوں۔‘‘
’’محض جذباتیت مسٹر امین الدین… میں اپنے بچوں اور ان کے بچوں سے بھی کہتا ہوں۔ ہمارا وطن اب یہی ہے۔ ہمارا مرنا جینا یہیں ہے۔ میرے بچّے پاکستان کا نام لیتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں۔‘‘
’’جس دن یہاں کے لوگوں کا متھا پھر گیا۔ آپ کے بچّے تو کیا بچوں کے بچوں کو بھی پاکستان یاد آئے گا۔‘‘
’’خدا نہ کرے۔‘‘ مزمل شاہ نے امین الدین کو ناگواری سے دیکھا۔
’’میں کب کہتا ہوں خدا کرے… مگر عیدی امین کے ہاتھوں ملک بدر کیے جانے والوں کا قصّہ اتنا پرانا نہیں ہوا کہ یاد نہ آ سکے۔‘‘
مزمل شاہ کے چہرے پر تشویش ہویدا ہوئی۔ ’’بات تو آپ ٹھیک کہتے ہیں مسٹر امین۔‘‘
’’بات میں ہمیشہ ہی ٹھیک کہتا ہوں۔‘‘ امین الدین کو مذاق سوجھا۔ اس کی بیوی عذرا کا بھی یہی وتیرہ تھا لمبی چوڑی بحث کرتی اور آخر میں کہتی۔ ’’بات تو آپ کی ٹھیک ہے بڑے میاں۔‘‘
عذرا سے امین الدین کی شادی ایک پاکستانی دوست توصیف احمد کے توسط سے ہوئی تھی۔ توصیف اور عذرا کا منجھلا بھائی نیاز آپس میں دوست تھے۔ عذرا اولاد نہ ہونے کے سبب اپنے پہلے خاوند سے مطلقہ تھی۔ امین الدین کو اپنے گھر میں ایک عورت کی ضرورت تھی جو گھر سنبھال سکے اور دُردانہ کے بطن سے امین الدین کے بچوں کی ماں بن سکے۔
عذرا امین الدین کے بچوں کی ماں تو نہ بن سکی البتہ اس نے امین الدین کا گھر خوب سنبھال لیا تھا… اس حد تک کہ بچّے ایک ایک کر کے گھر سے رُخصت ہوگئے۔ امین الدین نے سمجھوتا کر لیا تھا۔ بری بھلی جیسی بھی تھی اسے اب عذرا کے ساتھ ہی گزارہ کرنا تھا۔ ماں کہا کرتی تھی! لوگ بیٹیوں کے نصیب اچھے ہونے کی دُعائیں مانگتے ہیں۔ بیٹوں کی قسمت اچھی ہونے کی دُعا بھی مانگنی چاہیے۔ اچھی عورت اللہ کا انعام ہوتی ہے۔
امین الدین کے گھر میں عذرا کو دُردانہ سے بڑھ کر عیش میسر تھا۔ امین الدین سے شادی کے بعد نہ جانے کتنے ملکوں کی وہ سیر و سیاحت کر چکی تھی، عذرا کی ملنے جلنے والیاں امین الدین کے گھر میں اس کا عیش و آرام دیکھ کر ایک دوسرے سے کہتیں۔ ’’عذرا اپنا مقدر سونے کے پانی سے لکھوا کر لائی ہے۔‘‘
عذرا اور دُردانہ کی مشترکہ جاننے والیاں ایک دوسرے سے کہتیں۔ ’’دُردانہ بدقسمت تھی جو امین الدین جیسے بھلے مانس کو چھوڑ گئی۔‘‘
امین الدین سے ناتا توڑ کر خوش تو خود دُردانہ بھی نہیں تھی۔ زندگی وہ نہیں رہی تھی جو تھی۔ بچّے منتشر ہوگئے تھے۔ زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے دُردانہ کو تنہا تگ و دو کرنا پڑتی تھی۔ کبھی کبھی چھوٹی سی غلطی زندگی بھر کا پچھتاوا بن جاتی ہے۔
امین الدین زبان سے نہیں کہتا تھا مگر دُردانہ آج بھی اس کی پہلی محبت تھی۔ وہ اکثر دُردانہ کے ساتھ گزرے دنوں کی یاد میں گم ہو جاتا اور دل ہی دل میں نہایت دل گرفتگی سے سوچتا۔ ’’پتا نہیں کیسے لوگ رشتہ توڑنے کا حوصلہ کر لیتے ہیں۔‘‘
دُردانہ کی مسلسل ضد پر اسے طلاق دینے کے بعد وہ کمرے میں بند ہو کر اتنا رویا تھا جتنا ماں کی موت پر بھی نہیں۔
بچوں کا گھر سے چلے جانا یکے بعد دیگرے اس کے لیے نہایت دل شکن صدمات ثابت ہوئے تھے۔ امین الدین کا ایک دوست فضل کہا کرتا تھا۔ ’’بندہ ایک دَم نہیں مرتا۔ صدمے اسے تھوڑا تھوڑا کر کے مارتے ہیں۔‘‘
اگر یہ سچ تھا تو دُردانہ کی جدائی اور بچوں کی قبل از وقت ہی یکے بعد دیگرے گھر سے رُخصتی نے امین الدین کو آدھا تو مار دیا تھا۔ باقی آدھا جینے کے لیے وہ بہانے ڈھونڈتا رہتا تھا۔
کبھی عذرا کے ہمراہ پاکستان چلا جاتا۔ کبھی حرم پاک میں حاضری کے لیے سعودی عرب۔ کبھی تعطیلات گزارنے کے لیے دبئی تو کبھی اسلامی یادگاریں دیکھنے کے لیے ترکی… حوادثِ زندگی سے گھبرایا آدمی جینے کے بہانے یونہی ڈھونڈتا ہے جیسے اس بار امین الدین اپنے بچپن اور لڑکپن کی یادیں ڈھونڈنے کراچی کی اس قدیم بستی میں چلا آیا تھا جو اب نیا ہی منظر پیش کر رہی تھی۔
دل کی لگی نے تلاش بسیار کے بعد اسے اس کے بچپن کے ایک دوست واجد کے سامنے لے جا کھڑا کیا جو اپنی نوجوانی میں سیاسی جلسوں میں تقریریں کیا کرتا تھا۔
’’وجّو!‘‘ امین الدین نے اسے اس کی عرفیت سے مخاطب کیا۔
واجد اپنی شکن آلود پیشانی پر اپنے دائیں ہاتھ کا چھجّا سایہ فگن کر کے اسے متذبذب نگاہوں سے دیکھنے لگا۔
’’پہچانا؟‘‘ امین الدین نے کھنکتی آواز میں کہا۔
’’امین!‘‘
’’ہاں۔‘‘ امین الدین کے لہجے میں سرخوشی تھی۔
’’تو زندہ ہے؟‘‘ سوکھے سڑے بوڑھے واجد نے جو خود نیم مردہ دِکھائی دیتا تھا، پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ امین الدین کی حسِ مزاح پھڑکی۔ ’’میری رُوح کھڑی ہے تیرے سامنے۔‘‘
’’ابے!‘‘ واجد نے امین الدین کے شانے پر دھیرے سے مکا مارا اور اسے پیار سے دیکھتے ہوئے بولا۔ ’’رُوحیں پینٹ شرٹ میں کب سے آنے لگیں!‘‘ وہ فرطِ مسرت سے امین الدین سے بغل گیر ہو گیا۔
’’انگلینڈ میں رہنے والوں کی رُوحیں پینٹ شرٹ میں ہی آتی ہیں تمہاری طرح کرتے اور پاجامے میں نہیں گھومتیں۔‘‘
واجد زور سے ہنسا اور اس کی ہنسی اچانک کھانسی میں تبدیل ہوگئی۔ وہ کھوں کھوں کر نے لگا۔ کھانسی رُکی تو وہ ایک گہری سانس لے کر بولا۔ ’’یہ بڑھاپا بھی بہت ظالم ہے… آدمی کو ہنسنے بھی نہیں دیتا۔‘‘
’’میری جان رونے بھی نہیں دیتا۔‘‘ امین الدین نے گرہ لگائی۔
’’ہاں۔‘‘ واجد نے زور سے تائید میں سر ہلایا۔ ’’ٹھیک کہتا ہے تو۔‘‘ پھر اس نے امین الدین کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔ ’’کیا دروازے پر ہی کھڑا رہے گا اندر چل۔‘‘
’’ایک منٹ۔‘‘ امین الدین نے نہایت آہستگی سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھڑاتے ہوئے چہار اطراف نظر دوڑائی۔ ’’پرانے لوگوں میں سے اور کون کون رہتا ہے یہاں؟‘‘
(جاری ہے)

Latest Posts

Do Humsafar

Related POSTS