’’یار! اپنے ساتھ کے تو سب مر کھپ گئے ہیں۔‘‘ واجد بولا۔
’’تو کیوں رہ گیا؟‘‘ امین الدین کو پھر مذاق سوجھا۔
’’تجھ سے ملنے کے لیے۔‘‘ واجد مسکرایا۔
’’یہ بھی ٹھیک ہے… بڑی دیر سے گھوم رہا ہوں… پرانے لوگوں کا کسی کو کچھ پتا ہی نہیں… جس سے پوچھو کندھے اُچکا کر، من بھر کی گردن نفی میں ہلا کر پتا نہیں جی کہہ کر گزر جاتا ہے… کیا ہوگیا ہے یہاں کے لوگوں کو؟ رُک کر دُوسرے کی بات سُننا بھی گوارا نہیں کرتے۔‘‘
’’صرف یہاں کے نہیں… سارے معاشرے کے لوگوں کو یہی ہو گیا ہے۔‘‘ واجد کے لہجے میں دل گرفتگی تھی۔
’’کیوں؟‘‘
’’کیونکہ لوگوں کے دلوں سے انسانیت نکل گئی ہے۔‘‘ واجد دلگیر لہجے میں بولا۔ پھر اس نے دوبارہ امین الدین کو گھر کے اندر چلنے کی دعوت دی۔
’’بھابھی ہیں گھر میں؟‘‘
’’وہ تو کب کی اللہ کو پیاری ہوگئی… بہو ہے گھر میں… اس کے بچّے ہیں… بیٹا دفتر گیا ہوا ہے … آ تجھے اپنی بہو سے ملواتا ہوں، چائے پلواتا ہوں۔‘‘
’’یار! میں گھومنے پھرنے کے لیے آیا ہوں… واپس بھی جانا ہے۔ شام کی فلائٹ سے۔‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’اسلام آباد۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’وہاں گھر ہے میرا۔‘‘
’’یہاں والا گھر کیوں بیچ دیا؟‘‘
’’رہنے والوں نے بیچ دیا میں نے تو کوئی بائیس سال پہلے اسلام آباد میں کوٹھی بنوا لی تھی۔‘‘
’’یہاں کیوں نہیں بنوائی؟‘‘
’’یار یہ اب کوئی رہنے والا شہر رہا ہے۔‘‘
’’ٹھیک کہتا ہے۔‘‘ واجد اُداس ہو کر بولا۔ ’’رہنے والا شہر تو نہیں رہا، بھائی، بھائی کا دُشمن اور دوست کی دوستی کا اعتبار نہیں… بندے کیڑے مکوڑوں کی طرح مارے جاتے ہیں… تجھے یاد ہے… ہمارے بچپن میں اپنے اسی علاقے میں کوئی ایک میّت ہو جاتی تھی تو سارا علاقہ دنوں سوگ مناتا تھا۔ اب یہ حال ہے کہ شہر میں ایک خودکش بم دھماکے کے بعد ہمارے علاقے سے ایک ساتھ پانچ میتیں اُٹھیں تو انہیں دفنا کر آنے کے تھوڑی ہی دیر بعد لوگ آپس میں ہنسی مذاق کرنے لگتے ہیں… سڑکوں پر ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں۔ گاڑیاں پیدل چلنے والوں کو کتّے بلّیوں کی طرح مارتی گزر جاتی ہیں۔ مخالف پارٹیوں کے لوگ ایک دوسرے کو گولیوں سے چھلنی کر دیتے ہیں اور کوئی سوگ نہیں مناتا۔ سڑکوں پر حادثے کے بعد گاڑیاں پھر مست ہاتھیوں کی طرح چلنا شروع کر دیتی ہیں۔ مرنے والوں کی میتیں اُٹھتے ہی لوگ کھانا پینا اور ہنسی ٹھٹھول شروع کر دیتے ہیں۔ برابر والے گھر میں ابھی میّت کے قل بھی نہیں پڑھے گئے ہوتے کہ آس پاس گھروں سے گانوں کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔‘‘
’’بے رحمی ہے یار۔‘‘ امین الدین بولا۔
’’اسی بے رحمی کے ساتھ جی رہے ہیں یار… اندر تو آ۔‘‘
’’میں گھر میں بیٹھنے کے لیے نہیں آیا… آ چل میرے ساتھ… پرانے رستوں کا چکر لگاتے ہیں۔‘‘
’’ابے پرانے رستے تو سب ختم ہوگئے کہاں سے ڈھونڈے گا۔ خیر چلتا ہوں… ایک منٹ ٹھہر میں ذرا گھر کے اندر جا کر بہو کو کہہ دوں۔ تیرے لیے کچھ کھانے پینے کا بندوبست کرلے۔‘‘ واجد نے گھر کے دروازے کی طرف پلٹتے ہوئے کہا۔
امین الدین نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’کچھ نہیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ واجد ٹھٹھک گیا۔ پھر بولا۔ ’’مجھے معلوم ہے تو اب پرانا والا امین نہیں رہا۔ سیٹھ بن گیا ہے۔ ہم غریبوں کی دال روٹی تجھے اچھی نہیں لگے گی مگر اتنے برسوں بعد آیا ہے آج تو تجھے کھانی ہی پڑے گی۔‘‘
’’یہ بات نہیں ہے یار۔‘‘ امین الدین جھینپ کر بولا۔
’’تو پھر کیا ہے؟‘‘
امین الدین کے لبوں پر بڑی گھائل سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ ’’اماں کہا کرتی تھیں جب دانت ہوتے ہیں تو دانے نہیں ہوتے اور جب دانے ہوتے ہیں تو دانت ساتھ چھوڑ جاتے ہیں…‘‘ امین الدین نے پل بھر کو توقف کیا۔ پھر دل گرفتگی سے بولا۔ ’’کبھی بہت بھوک لگا کرتی تھی ہر تھوڑی دیر بعد پیٹ میں چوہوں کی ریس شروع ہو جاتی تھی۔ اب صبح ناشتے میں چائے کے ساتھ تین بسکٹ۔ پھر شام کو آدھی روٹی۔ رات کو ایک پیالی دُودھ میں مٹھی بھر کارن فلیکس… بس۔‘‘
’’کوئی بات نہیں آدھی روٹی ہی بنوا دوں گا۔‘‘
’’جہاز کا ٹکٹ لیا ہے۔ شام کو جہاز والوں کا مہمان ہوں گا… آ چلتے ہیں۔‘‘
’’ایک منٹ بہو کو بتا تو آئوں… دیر ہوگئی تو وہ سمجھے گی بڈھا آج چلا گیا۔‘‘ یہ کہہ کر واجد جھپاک سے گھر کے دروازے سے اندر چلا گیا۔
امین الدین اردگرد کا جائزہ لینے لگا۔ تھوڑی دیر بعد واجد دروازے سے نکلا تو ایک جوان عورت بھی ہمراہ تھی۔ اس نے امین الدین کو گرمجوشی سے سلام کیا۔
امین الدین نے سلام کا جواب دیا۔
’’یہ میری بہو ہے۔‘‘ واجد نے تعارف کرایا۔
’’اچھا اچھا… ماشاء اللہ۔‘‘
’’انکل اندر آئیں نا۔‘‘ بہو بولی۔
’’بیٹا میں اپنا علاقہ گھومنے آیا ہوں۔‘‘ امین الدین نے اپنی جیب سے والٹ نکالتے ہوئے کہا۔ ’’زندگی رہی تو پھر کبھی آئوں گا۔‘‘ والٹ سے ہزار روپے کا ایک نوٹ نکال کر اس نے واجد کی بہو کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ انکل کی طرف سے تم سے پہلی ملاقات کا تحفہ۔‘‘
’’نہیں، نہیں انکل۔‘‘ وہ گھبرا کر بولی۔ ’’اس کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
’’یہ ضرورت نہیں بیٹا… پرانے لوگوں کا طریقہ ہے۔‘‘
’’لے لو بہو… یہ تبرک کا نوٹ ہے… بڑے محبت سے کچھ دیں تو شکریے کے ساتھ لے لیتے ہیں۔‘‘ واجد نے کہا۔ ’’اور یہ تو میرا پرانا یار ہے۔‘‘
’’شکریہ!‘‘ واجد کی بہو نے امین الدین سے نوٹ لیتے ہوئے اپنا سر اس کے سامنے جھکا دیا۔ امین الدین نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔
’’چلیں؟‘‘ واجد نے امین الدین سے پوچھا۔
’’چلو۔‘‘ امین الدین بولا۔
بہو نے پھر سلام کیا۔ سلام کا جواب دے کر امین الدین لاٹھی کے سہارے واجد کے ساتھ چلنے لگا۔
’’ابے لاٹھی کی ضرورت کیوں پڑ گئی تجھے ابھی سے۔ مجھے دیکھ تجھ سے ایک دو سال بڑا ہی ہوں گا نہ لاٹھی نہ چھڑی۔‘‘
’’یہ وہاں کی سردیوں کا تحفہ ہے۔ گوڈے گٹّوں کو جلدی جوڑ دیتی ہے۔ سیدھے گھٹنے میں پانی بھر گیا تھا۔ پاکستانی ایک لاکھ روپے سے زیادہ قیمت کا انجکشن لگوایا تو دوبارہ چلنے پھرنے کے لائق ہوا ورنہ بیٹھ گیا تھا۔‘‘
’’بڑا مہنگا علاج ہے بھئی!‘‘ واجد نے حیرت ظاہر کی۔
’’سب مفت۔‘‘ امین الدین نے انکسار کیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’عوام کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ بیمار کو بس جانا پڑتا ہے اپنے ڈاکٹر کے پاس۔ وہ ضروری سمجھتا ہے تو اسپتال بھجوا دیتا ہے۔ دوا دارو سب حکومت کے ذمہ ہے۔‘‘
’’یہاں تو ہم دوا دارو کو ترستے ہی رہ جاتے ہیں۔ اسپتالوں میں جائو تو لمبی لمبی لائنیں، دھکم پیل اور ڈاکٹر تک پہنچنے کے لیے نہ جانے کتنوں کی خوشامدیں۔ کسی طرح ڈاکٹر تک پہنچ جائو تو وہ مریض کی جیب دیکھے بغیر ہزار پندرہ سو کا نسخہ ہاتھ میں تھما دیتا ہے اور ٹیسٹ الگ لکھ دیتا ہے۔‘‘
’’کوئی بارہ ہزار پاکستانی روپوں کی دوائیں ہر مہینے مفت ملتی ہیں مجھے اور میری بیوی کو۔‘‘ امین الدین نے بتایا۔
’’تمہارے عیش ہیں بھیّا۔‘‘
’’حکومت عوام سے ٹیکس لیتی ہے اور بدلے میں سہولتیں دیتی ہے۔ آدمی بوڑھا ہو جائے تو پنشن ملتی ہے۔ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑتا۔‘‘
’’یہاں تو عوام بے چاری ٹیکس دینے کے لائق ہی نہیں۔ بڑے لوگ ٹیکس چوری کرتے ہیں اور عوام کا خون چوس کر عیش کرتے ہیں۔‘‘
’’وہاں ٹیکس چوری کا سوال ہی نہیں۔ عوام خواص سب کو دینا پڑتا ہے۔ فائدہ بھی سب اُٹھاتے ہیں۔‘‘
کچرے کے ایک بڑے ڈھیر کے نزدیک پہنچنے سے پہلے ہی شدید بدبو کے بھبھکوں کے باعث امین الدین اپنی ناک کے نتھنے ہاتھ سے دبوچ لینے پر مجبور ہوگیا۔ اتنی بو تھی کہ سانس لینا مشکل تھا۔ اس مشکل سے نکل آنے کے بعد امین الدین نے تاسف سے کہا۔ ’’یہاں لوگوں نے اُونچے اُونچے مکانات تو بنا لیے ہیں صفائی کا کوئی خیال نہیں۔‘‘
’’صرف یہیں نہیں پورے شہر کا یہی حال ہے۔ سارا شہر کچرے کی بو سے سڑ رہا ہے اور پوچھنے والا کوئی نہیں۔‘‘
’’انتظامیہ؟‘‘ امین الدین نےسوالیہ لہجے میں کہا۔
’’عیش!‘‘ واجد کے لہجے میں تلخی تھی۔
’’تجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے۔ روزانہ جمعدار گلیوں اور سڑکوں پر جھاڑو لگایا کرتے تھے۔ کچرا جمع کرکے اُٹھاتے تھے اور گرد مٹی بٹھانے کے لیے ہر روز پانی کے ٹینکر چھڑکائو کرنے آتے تھے۔‘‘
واجد نے ایک ٹھنڈی سانس کھینچی۔ ’’اب تو پینے اور عام استعمال کو بھی پانی نہیں ملتا۔ سڑکوں پر چھڑکائو کہاں سے ہوگا میرے بھائی۔‘‘
’’ہاں میں نے سنا ہے پانی کی بہت تنگی ہے یہاں۔‘‘
’’یار پانی کیا ہم جیسوں کے لیے تو ہر چیز ہی کی تنگی ہے… عام آدمی کے لیے زندگی یہاں بہت مشکل ہے۔‘‘
’’لیکن کیوں! کیوں یار؟ گورنمنٹ کا کام ہے کہ وہ عام آدمی کو آسانیاں دے۔‘‘
’’گورنمنٹ کو اور بہت سے کام ہیں کرنے کو۔‘‘
’’سب سے اہم کام یہی ہے… عوام کی زندگی آسان بنانا۔‘‘
’’چھوڑ یار کیوں زخم کریدتا ہے… شہر کچرے سے آلودہ ہوتا ہے تو ہوا کرے، بس بڑے لوگوں کے گھروں اور دفتروں کو مہکنا چاہیے۔ عام آدمی اسپتالوں میں بیڈ اور دوا دارو نہ ملنے یا ڈاکٹروں کی غفلت سے مرتا ہے تو مرا کرے، بڑے لوگوں کے لیے تیرے لندن کے اسپتال زندہ باد!‘‘
’’بہت دل دُکھتا ہے۔‘‘ امین الدین کا لہجہ ہمدردانہ تھا۔
’’کوئی ضرورت نہیں دل دُکھانے کی… ہم جیسوں کا مقدر یہی ہے۔ غریب آدمی بھوکا مرتا ہے تو مرے۔ بڑے لوگوں کی کھانے کی میزیں دیسی، انگریزی اور چینی کھانوں سے سجی رہیں۔ غریب آدمی کا بچہ تعلیم حاصل کرنے کی بجائے گلیوں میں رُلتا اور جرائم پیشہ بنتا ہے تو بنے، بڑے لوگوں کے بچّے باہر کے ملکوں میں پڑھتے رہیں۔ بھیّا قوم کا مستقبل تو انہوں نے ہی لکھنا ہے۔ یہاں غریب بے قصور تھانوں میں پٹتا ہے۔ شریف کی پگڑی اُچھالی جاتی ہے، بے سفارشی رُلتا ہے۔ سفارش رکھنے والا بندہ مارتا ہے اور فرار ہو جاتا ہے۔ بھائی میرے، یہ ملک نہیں قتل گاہ ہے جہاں عوام کا خون حکمرانوں کے پانی سے بھی سستا ہے، جہاں لوگ بندوق کی گولی سے نہیں روٹی نہ ملنے سے مرتے ہیں۔‘‘ واجد نہایت جذباتی انداز میں مسلسل بولتا گیا۔ ’’تُو تو باہر رہتا ہے میرے بھائی، تجھے کیا پتا ہم کیسی کیسی تکلیفیں بھگتتے ہیں۔‘‘ شدت جذبات سے واجد کی آواز رِندھ گئی۔
’’مجھے سب پتا ہے… میں یہاں رہنے والوں سے زیادہ باخبر رہتا ہوں اپنے وطن کے حالات سے… ٹی وی ایک ایک لمحے کی خبر دیتا ہے… قومیں وقت کے ساتھ ترقی کرتی ہیں ہم پیچھے جا رہے ہیں۔ اس سے اچھا تو ہمارے بچپن کا زمانہ تھا جب لوگ مخلص تھے۔ جذبے سچّے تھے۔ چیزیں خالص تھیں مکاری اور بے ایمانی نہیں تھی۔‘‘
واجد نے تلخی سے کہا۔ ’’کیا حکمران، کیا عوام سب ایک جیسے ہیں۔ حکمرانوں کو عوام کی مشکلات کا احساس نہیں۔ عوام کو ایک دوسرے کا پاس نہیں… حکمران، عوام کو لوٹتے ہیں۔ عوام، عوام کا گلا کاٹتے ہیں۔ دُکاندار بے ایمانی اور مہنگائی کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتا کہ گاہک کی جگہ میں کھڑا ہوں۔ اگر میرے سر پر مہنگائی، ناقص مال اور کم تول کا ہتھوڑا برسے تو میرا کیا حال ہو۔ کس کس کو روئے آدمی… ڈاکٹر، انجینئر، اُستاد، شاگرد، نوکری پیشہ، اپنا کاروبار کرنے والا… سب کرپشن کے شکار۔ امیر غریب کا خون چوستا ہے۔ طاقتور، کمزور پر ظلم کرتا ہے… بہت بُرے پھنسے ہیں بھیّا۔‘‘ واجد نہایت دل گرفتہ دکھائی دینے لگا۔
امین الدین نے اسے ہمدردانہ نگاہوں سے دیکھا اور ایک ٹھنڈی سانس بھر کر بولا۔ ’’دیکھو کوئی معاشرہ ظلم اور ناانصافی کی وجہ سے باقی نہیں رہ سکتا، مٹ جاتا ہے۔‘‘
’’ہم بھی مٹنے جا رہے ہیں؟‘‘ واجد تلخی سے بولا۔
’’اللہ نہ کرے… مایوسی کفر ہے۔‘‘ امین الدین نے کہا۔ پھر قدرے توقف سے گویا ہوا۔ ’’ہم وطن سے دُور بیٹھے لوگ، اپنے وطن کی سلامتی اور ترقی کے لیے دل سے دُعا کرتے ہیں… وطن میں بیٹھے لوگ نہیں جانتے کہ اپنا وطن کتنی بڑی نعمت ہے… گھر سے نکلو تو گھر کی قدر آتی ہے۔ وطن سے دُور جائو تو وطن کی اہمیت کھلتی ہے… اپنے وطن میں کوئی ہمیں پاکی کہہ کر نہیں چھیڑتا۔ کوئی ہمیں دہشت گرد کہہ کر نہیں چڑاتا۔ کوئی ہم پر بنیاد پرستی کی پھبتی نہیں کستا اور ان ساری باتوں کے ذمے دار ہم خود ہیں۔ ہماری اپنی غلطیاں ہیں۔ دین اسلام کے وہ سنہری اُصول جن کی بنیاد پر مسلمانوں نے کئی سو سال دُنیا پر حکومت کی ہم نے بھلا دیے نیچے سے اُوپر تک… کیا حکمران کیا رعیّت، نہ خوف خدا ہے نہ احساس ذمے داری… اعمال پر نظر ہے نہ جوابدہی کی فکر… حکمران، رعیّت سے بے پروا اور اپنے عیش و عشرت میں مگن… رعیّت اپنے حقوق سے بیگانہ اور زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی فکر میں خود فراموش… اسلام کے سنہری اُصول اپنا کر مغرب کی اقوام آج کہاں سے کہاں جا پہنچی ہیں۔ اپنے اسکول کے زمانے میں ہم پڑھا کرتے تھے کہ جن دنوں مسلمان دُنیا پر حکومت کر رہے تھے مغرب والے ہر اعتبار سے گئے گزرے تھے۔ اپنی ترقی کے لیے انہوں نے اسلامی اُصولوں سے رہنمائی لی اور کہیں سے کہیں جا پہنچے۔‘‘
’’اور ہم مسلمان خود زوال پذیر ہوگئے۔‘‘ واجد نے دل گرفتگی سے کہا۔
’’زوال اور عروج انسانوں اور قوموں کی داستان میں آگے پیچھے چلتے ہیں واجد ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں… ضرورت ہے تو اس بات کی کہ ہم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں۔ اپنے دین کی تعلیمات کو مضبوطی سے تھامیں۔ سیاست ہو یا حکومت، معاشرت ہو یا معیشت اسلام کے اُصول اپنائیں۔ رعیّت کی نگہبانی حکمرانوں کا فریضہ اور حکمرانوں کی اطاعت رعیّت کی ذمّے داری۔‘‘
’’خواہ حکمران غلط ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ واجد نے امین الدین کی بات کاٹی۔
’’نہیں، نہیں… ایسا بھی نہیں… عوام کو غلط اور صحیح کا شعور ہونا چاہیے… حکمران غلط ہوں تو ان کا احتساب کریں۔‘‘
’’حکمرانوں کا یہاں کوئی احتساب نہیں۔ صرف عوام پِستی ہے یار۔‘‘
’’کب تک واجد!‘‘ امین الدین نے واجد کو گویا تسلی دی۔ ’’عدل پر اس کائنات کا نظام قائم ہے۔ ایک دن آتا ہے جب اپنے فرائض سے غافل حکمران کٹہرے میں جا کھڑے ہوتے ہیں۔ غیر عادل حکمرانوں کو ایک دن حساب دینا پڑتا ہے۔‘‘
’’ویسے یار امین آپس کی بات ہے۔ جلسے جلوسوں میں تقریریں کرنے، نعرے لگانے اور لیڈر بننے کا شوق تو مجھے تھا، پر آج تیری باتیں سن کر لگتا ہے تو تو مجھ سے آگے نکل گیا… سچ پوچھ تو بہت پڑھا لکھا لگتا ہے اب تُو، تو۔‘‘
امین الدین دھیرے سے مسکرایا اور ایک گہری سانس کھینچ کر بولا۔ ’’وقت بہت کچھ سکھا دیتا ہے واجد۔‘‘
’’تو وہاں کرتا کیا ہے؟‘‘
’’اب تو کچھ نہیں… ملّا کی دوڑ بس مسجد تک۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’یہ پوچھ کیا نہیں کیا… فیکٹریوں میں کام کیا۔ مزدوری کی، وزن ڈھوئے، دھکے کھائے۔ کچھ عرصہ اپنا ریسٹورنٹ چلایا۔ پھر ٹیکسی چلانی شروع کی۔ بھانت بھانت کے لوگوں کو ان کی منزلوں پر پہنچاتے پہنچاتے ایک دن ریٹائر ہوگیا… اب اللہ اللہ کرتا ہوں… اللہ سے تعلق جوڑ لیا ہے۔ پانچوں وقت مسجد میں حاضری دیتا ہوں۔ حسب توفیق خدمت کا کام کرتا ہوں۔ دل ڈرتا رہتا ہے کہ اللہ کو اپنی زندگی کے ایک ایک پل کا حساب دینا ہے۔‘‘
’’ہاں یار حساب تو ہم سبھی کو دینا ہے۔ یہ ہمارے حکمران خدا جانے کیوں نہیں ڈرتے حساب کتاب کے خوف سے۔ جو آتا ہے لوٹ کر چلا جاتا ہے۔‘‘
’’عوام کو بھی اتنا عاقبت نااندیش نہیں ہونا چاہیے واجد… آزمائے ہوئوں کو بار بار آزمانے کی ضرورت نہیں۔ حکمران یقیناً طاقتور ہوتے ہیں مگر عوام کی طاقت حکمرانوں کی طاقت سے زیادہ ہوتی ہے… عوام ہی حکمرانوں کو اقتدار میں لاتے ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ حکمرانوں کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کریں۔ بے سوچے سمجھے اور اندھا دھند کسی کے پیچھے نہ بھاگیں… یقین کرو واجد مجھے ساری دُنیا کے نقشے پر اپنے وطن جیسا خوبصورت کوئی دُوسرا ملک دکھائی دیتا ہے نہ اپنی قوم جیسی کوئی دُوسری قوم نظر آتی ہے۔ جب کچھ کرنے کی ٹھان لیں تو کر کے دکھا دیتے ہیں۔ دُشمن سے جنگیں ہوں یا سیلاب، طوفان ہوں یا زلزلے، ہمارے لوگ بڑے زبردست ہیں۔ جب خدانخواستہ کوئی وقت پڑتا ہے تو ایک جان ہو جاتے ہیں۔ کاش! ملک کی حالت بدلنے کے لیے بھی سب متحد ہو جائیں۔‘‘ امین الدین نے ایک لمحے کو توقف کیا۔ پھر بولا۔ ’’ہوں گے انِ شاء اللہ ایک دن ضرور ہوں گے۔‘‘
’’پر ہم نہیں ہوں گے۔‘‘ واجد نے کہا۔
’’ہم نہیں ہوں گے تو ہمارے بعد آنے والے ہوں گے۔‘‘ امین الدین مسکرایا۔
’’جب ہم رُلتے کھپتے مر گئے تو ہمیں کیا فائدہ؟‘‘
امین الدین نے اپنا ہاتھ واجد کے شانے پر دھر دیا اور جذب کی کیفیت میں بولا۔ ’’ہم سب اپنے بعد آنے والوں ہی کے لیے تو خواب دیکھتےہیں واجد… ہم اپنے بچوں کے مستقبل کے امین ہیں۔‘‘
واجد اس کا منہ دیکھنے لگا۔
کچرے کے ایک دوسرے ڈھیر کے نزدیک سے گزرتے ہوئے امین الدین نے نو دس سال کے ایک بچّے کو جس کا لباس انتہائی میلا تھا کچرے کے ڈھیر کے پاس بیٹھے نہایت سرعت سے دونوں ہاتھوں سے کچرے کو کھنگالتے دیکھا۔ وہ ٹھٹھک گیا اور لڑکے کی حرکات و سکنات کو بغور دیکھنے لگا۔ لڑکے نے کچرے کے ڈھیر سے کولڈ ڈرنک کا ایک ٹن نکالا اور منہ سے لگا لیا۔
’’لا حول ولا قوۃ!‘‘ امین الدین نے برا سا منہ بنایا۔
’’یار! شیطان تو تیرے لاحول پڑھنے سے بھاگ جائے گا مگر یہ غریب کا بچہ اسی کچرے سے اپنا رزق تلاش کر کے اُٹھے گا۔‘‘ واجد نے امین الدین کے کاندھے پر ہاتھ دھرتے ہوئے دلسوز لہجے میں کہا۔
’’افسوس!‘‘ امین الدین درد مندی سے بولا۔ ’’واجد! غیر قوموں نے ہم مسلمانوں سے سیکھا کہ حکمران رعیّت کے دل پر حکمرانی کیسے کرتے ہیں۔ کہنے کو غیر مسلم لیکن ملکہ کی حکومت مسلم اور غیر مسلم رعایا کی تمام ضرورتوں کا خیال رکھتی ہے اور جواباً عوام بھی حکومت کا احترام کرتی ہے۔ ملکہ کا وہی احترام ہے جو گھر میں ماں کا ہوتا ہے۔‘‘
’’بھیّا! یہاں تو جوتیوں میں دال بٹتی ہے۔ جنہیں عوام سر پر بٹھاتی ہے انہی کو زمین پر بھی دے مارتی ہے۔‘‘
’’جیسی رُوح ویسے فرشتے… عوام، حکمران ہمارے ہاں سب کو تربیت کی ضرورت ہے۔‘‘
’’ٹھیک کہتا ہے تو… تھک تو نہیں گیا؟‘‘
’’بچپن کی گلیوں میں گھومتے کون تھکتا ہے یار۔‘‘ ایک گہری سانس لیتے ہوئے امین الدین نے آسمان کی طرف نگاہ اُٹھائی اور خوابناک سی کیفیت میں بولا۔ ’’پچھتّر سال! لوگ کہتے ہیں وقت پَر لگا کر اُڑتا ہے مگر مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں پچھتّر صدیوں کا سفر طے کر آیا ہوں… بچپن خواب بن گیا ہے۔‘‘
’’واپس چلیں؟‘‘
’’کہاں؟‘‘ امین الدین نے واجد کو کھوئی کھوئی نظروں سے دیکھا۔
’’گھر!‘‘
’’گھر تو تُو جائے گا… مجھے تو ایئرپورٹ جانا ہے… بٹ گیا ہوں یار۔ ساری زندگی بٹا ہی رہا ہوں… کبھی یہاں، کبھی وہاں… جب چھوٹا تھا تو آسمان پر اُڑتے ہوائی جہاز کو دیکھ کر للچایا کرتا تھا کہ کبھی میں بھی جہاز میں بیٹھ کر آسمان تک جائوں… بادلوں کو چھو کر دیکھوں… اتنے سفر کیے… اتنی مرتبہ ہوائی جہاز میں بیٹھا کہ تھک گیا ہوں… بادلوں کو کبھی نہیں چھو سکا… جب وہاں سے چلنے لگتا ہوں تو کسی بچّے کی طرح خوش ہوتا ہوں… وطن جانے کا خیال ہی خوشی دیتا ہے… یہاں آتا ہوں تو دل ڈوبنے لگتا ہے… کتنی بڑی نعمت دی ہے اللہ نے ہمیں اس وطن کی صورت اور ہم ہیں کہ اس کی قدر نہیں کر پا رہے… وطن کیا ہوتا ہے یہ کوئی اچھے دنوں کی چاہ میں نکلے ہم تارکین وطن سے پوچھے۔‘‘ دفعتاً امین الدین اس خواب جیسی کیفیت سے نکل آیا۔ ’’کوئی مسجد ہے آس پاس۔‘‘
’’ہاں… تھوڑا آگے… پر کیوں؟‘‘ واجد نے کہا۔
’’نماز پڑھ کر ایئرپورٹ جانے کے لیے نکلوں گا۔‘‘
’’وہاں رہ کر بھی نماز کی اتنی پابندی!‘‘ واجد نے قدرے حیرانی سے اسے دیکھا۔
امین الدین دھیرے سے مسکرایا۔ ’’نماز کی پابندی تو ہر حال میں لازم ہے۔ یار ہے عجیب بات مگر تو بچپن کا ساتھی ہے۔ تجھے اپنے دل کی بات بتانے میں کوئی ہرج نہیں۔‘‘ امین الدین نے توقف کیا پھر بولا۔ ’’دین بندے کو غربت سے پناہ مانگنے کی تعلیم دیتا ہے… کیوں؟ یہ بات غربت سے خوشحالی کا سفر طے کرنے کے بعد میری سمجھ میں آئی… آدمی کا معاش مضبوط ہو تو عبادت بھی زیادہ خشوع و خضوع سے ہوتی ہے… بھوکا آدمی پیٹ کو روئے یا…‘‘ امین الدین نے اپنا جملہ اَدھورا چھوڑ دیا مگر واجد سمجھ گیا کہ وہ کیا کہنا چاہتا تھا۔
مسجد میں نماز کی ادائیگی کے بعد امین الدین اور واجد مسجد سے نکل رہے تھے کہ واجد نے مسجد کے باہر کھڑے درمیانی عمر کے ایک آدمی کو مخاطب کیا۔ ’’اسلم میاں۔‘‘
’’جی چچا!‘‘ وہ شخص نہایت تپاک سے واجد کی طرف متوجہ ہوا۔
’’کیسے ہو؟‘‘ تینوں مسجد سے نکل کر بیرونی دیوار کے سائے میں آ گئے۔
’’الحمد للہ میں ٹھیک ہوں… آپ سنائیں۔‘‘ اس شخص نے واجد سے کہا۔
’’شکر ہے مولا کریم کا… تمہیں تمہارے ابو کے بچپن کے ایک دوست سے ملوائوں؟‘‘
وہ شخص امین الدین کو دیکھنے لگا۔
’’امین الدین برطانوی۔‘‘ واجد نے امین الدین کا تعارف کرایا۔
’’ارے انکل!‘‘ اس شخص کی آنکھوں میں چمک سی لہرائی اور وہ اپنا ہاتھ قدرے تکلّف سے امین الدین کی طرف بڑھاتے ہوئے نہایت گرمجوشی سے بولا۔ ’’آپ کا تو بہت ذکر سنا ہے میں نے!‘‘
امین الدین نے مصافحے کے لیے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ کی طرف بڑھایا۔
’’پہچانا؟‘‘ واجد نے امین الدین سے پوچھا۔
امین الدین پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔
’’باپ کی بہت شباہت ہے اس میں۔‘‘ واجد نے گویا پہیلی بوجھنے کے لیے امین الدین کو اشارہ دیا۔
امین الدین نے ہار ماننے والے انداز میں نفی میں سر ہلایا۔
’’اکرم چھوٹو کا بیٹا ہے یہ… محمد اسلم۔‘‘
اکرم چھوٹو! امین الدین کے بچپن کا دوست جسے اس کی پستہ قامتی کی وجہ سے محلے کے لڑکے اکرم چھوٹو پکارا کرتے تھے اور اس کا وہ خاصا بُرا منایا کرتا تھا۔ مگر یہ شخص تو باپ کے برعکس خاصا لمبا تڑنگا تھا۔
’’اچھا اچھا!‘‘ امین الدین نے گرمجوشی دکھائی۔ ’’باپ تمہارا کہاں ہے؟ کیسا ہے؟‘‘
’’انہیں تو چھ سال ہوگئے مرے ہوئے۔‘‘ اسلم بولا۔
’’اوہ۔ بڑا افسوس ہوا۔‘‘ امین الدین نے تاسف کا اظہار کیا۔
’’ابے! ہماری تمہاری طرح لوگ قیامت کے بوریے سمیٹنے کو تھوڑی بیٹھے رہتے ہیں۔‘‘ واجد نے امین الدین سے کہا۔
’’زندگی نعمت ہے جو دن مل جائے عمل کے لیے۔ رَب کی مہربانی۔‘‘ امین الدین بولا۔
’’بے شک!‘‘ اسلم نے تائید میں سر ہلایا۔
’’خدا مغفرت کرے بڑا اچھا لڑکا تھا تمہارا باپ۔‘‘
واجد ہنس دیا۔ ’’اڑسٹھ سال کا ہو کر مرا ہے اور تو اسے لڑکا کہہ رہا ہے۔‘‘
’’میرا اور اس کا تو لڑکپن ہی کا ساتھ تھا اس لیے لڑکا ہی کہوں گا۔‘‘
’’انکل! ابا اکثر ذکر کرتے تھے آپ کا۔‘‘
’’اچھا!‘‘
’’ہاں… کہتے تھے ان کے دوستوں میں آپ سب سے اچھے تھے۔‘‘
’’وہ کیسے بھلا؟‘‘ امین الدین کو تجسّس ہوا۔
’’کہتے تھے انگلینڈ جا کر اپنی قسمت بنا لی… آپ کی تو شادی بھی یاد تھی انہیں۔‘‘
’’اللہ اس کی مغفرت کرے۔‘‘
’’انکل اتنے برسوں بعد آئے؟‘‘
’’بس جب اس کی مرضی ہوئی۔‘‘ امین الدین نے آسمان کی طرف اُنگلی اُٹھا کر کہا۔
’’گھر چلیں انکل… کچھ چائے پانی…‘‘
’’نہیں بیٹے… شکریہ… میری تو واپسی کا وقت ہو رہا ہے۔‘‘
’’کہاں؟‘‘
اس سے پہلے کہ امین الدین اس کے سوال کا جواب دیتا۔ واجد نے اسلم سے کہا۔ ’’بھئی یہ بڑا آدمی ہے۔ اسلام آباد میں گھر بنا رکھا ہے۔ انگلینڈ سے آتا ہے تو وہیں ٹھہرتا ہے۔ آج اپنے بچپن کا علاقہ گھومنے آیا تھا۔ شام کی فلائٹ سے واپس چلا جائے گا۔‘‘
’’ایک دو دن تو رُکتے انکل۔‘‘
’’زندگی رہی تو پھر آئوں گا۔‘‘
’’سارے زندگی کے سودے ہیں۔‘‘ واجد نے کہا۔
’’بے شک۔‘‘ امین الدین نے تائید کی۔
’’انکل آپ کے انگلینڈ میں حالات کیسے ہیں… یہاں تو بڑی تباہی چل رہی ہے۔‘‘ اسلم نے
کہا۔
’’اللہ تعالیٰ بہتر کریں گے۔‘‘
’’بچّے گھر سے باہر نکلتے ہیں تو دل ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں کچھ ہو نہ جائے، کسی کی جان کا بھروسا ہے نہ مال محفوظ۔‘‘
’’اللہ پر بھروسا رکھو… اِن شاء اللہ تبدیلی آئے گی… ضرور آئے گی… اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔‘‘
’’اللہ کرے جلدی آئے تبدیلی انکل اپنا فون نمبر تو دیں۔‘‘
امین الدین نے نمبر بتایا جسے اسلم نے اپنے موبائل میں محفوظ کر لیا۔
’’انکل! میرا بڑا بیٹا بی کام پاس ہے۔ ملک سے باہر جانے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے۔ ہو سکے تو اس کے لیے کوئی راستہ بنائیں… کوئی رشتہ ہو تو میں اس کی باہر شادی بھی کرنے کو تیار ہوں۔‘‘ اسلم کے لہجے میں عاجزی تھی۔
’’کیوں؟ یہاں اس کے لیے کوئی رشتہ نہیں ہے کیا؟‘‘
’’بے شمار انکل… اپنوں میں بھی، غیروں میں بھی۔‘‘
’’پھر کیا پڑی ہے باہر شادی کرنے کی۔‘‘
اسلم جھینپ گیا، پھر ہچکچاتے ہوئے بولا۔ ’’انکل لڑکی باہر کی نیشنل ہوگی تو بیٹے کو بھی ساتھ لے جائے گی۔‘‘
’’حیرت ہے بھئی… ہم نے تو یہی سنا اور دیکھا کہ لوگ اپنی اولاد سینے سے لگا کر رکھتے ہیں اور تم بیٹے کو رُخصت کرنے کی سوچ رہے ہو۔‘‘
’’کیا کریں انکل یہاں کے حالات کی وجہ سے آدمی سوچتا ہے باہر نکل جائے۔‘‘
’’نااُمیدی کفر ہے… کرتا کیا ہے تمہارا بیٹا؟‘‘
’’ڈپلوما انجینئر ہے۔‘‘
’’جاب کرتا ہے؟‘‘
’’جی انکل… ایک کمپنی میں لگا ہوا ہے… میری بیوی بھی یہی چاہتی ہے کہ وہ باہر چلا جائے۔‘‘
’’تنخواہ کتنی ہے؟‘‘
’’اوور ٹائم مل ملا کے پچاس ہزار ہو جاتے ہیں۔‘‘
’’پھر کیوں بھیجنا چاہتے ہو اسے باہر؟‘‘
’’انکل یہاں کیا رکھا ہے؟‘‘
’’وہاں بھی کیا رکھا ہے!‘‘
’’یہ آپ کہہ رہے ہیں انکل… میرے ابا کوئی سڑسٹھ اڑسٹھ سال دُنیا میں رہے۔ بڑی مشکل سے اسّی گز پر ایک مکان بنایا۔ اسی میں مر گئے۔ اب میں اور میرے بچّے بھی اسی مکان میں رہتے ہیں۔ مزید ساٹھ سال بعد بھی ہم اسی مکان میں ہوں گے اور آپ دیکھیں باہر جا کر اسلام آباد میں گھر بنا لیا۔ وہاں لندن میں بھی ضرور ہوگا آپ کا اپنا گھر… حج، عمرہ بھی ضرور کرلیا ہوگا آپ نے… میرے ابّا تو حج کی حسرت دل ہی میں لیے چلے گئے۔‘‘
’’یہ بلاوے اور توفیق کی بات ہے بیٹے… یہاں بھی اور باہر بھی بے شمار ایسے ہیں جو سب کچھ ہونے کے باوجود حج، عمرہ نہیں کر پاتے۔‘‘
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ انکل مگر باہر جانے سے آپ نے ابّا کے مقابلے میں ترقی تو بہت کرلی نا… ماشاء اللہ، اس عمر میں بھی آپ اتنے صحتمند اور اسمارٹ ہیں۔‘‘
’’گھٹنے تو میرے بھی جواب دے گئے ہیں۔‘‘
’’باقی تو سب ٹھیک ہے نا… چہرے پر رونق ہے… حلیے سے خوش حالی ٹپکتی ہے… ابّا تو بے چارے بہت بیمار ہو کر مرے… اسپتالوں کے دھکے کھاتے رہے۔‘‘ اسلم نے دل گرفتگی ظاہر کی۔
’’یہ سسٹم کی خرابی ہے… یہاں نظام خراب ہے۔‘‘
’’بہرحال جو بھی سہی باہر جا کر آدمی کچھ کما کھا تو لیتا ہے۔‘‘
’’اور اس کمانے کھانے کی قیمت کیا ادا کرتا ہے… جانتے ہو!‘‘
اسلم، امین الدین کا منہ دیکھنے لگا۔ یکایک امین الدین کی آنکھوں میں سرخی پھیل گئی۔ ’’ماں کے جنازے کو کندھا نہیں دے سکا میں۔ عید، بقرعید اپنوں کے بجائے غیروں کے ساتھ منانے پر مجبور رہا۔ پیسہ کمانے کی مشین بن کر بیوی، بچوں کے مشاغل سے لاعلم رہا۔ گھر ٹوٹا تو کوئی تسلی دینے والا نہیں تھا مجھے۔ بچّے ایک ایک کر کے منتشر ہوئے تو دُکھ تنہا سہنا پڑا۔ بھائی، بھابھیاں، بہنیں، بہنوئی دُنیا سے گئے تو میں ان کے بچوں کو دلاسا دینے سے محروم رہا۔ دو جوان بھتیجے، دو بھتیجیاں، ایک بھانجی… اور دور پار کے کتنے ہی رشتے دار… میں ان کی قبروں پر مٹّی ڈالنے سے بھی محروم رہا… بیٹا جی آپ کو سب کچھ مل جاتا ہے۔ دوسرے جہان جانے والے کو اپنے پیارے نہیں ملتے۔ آج میں پاکستان اور پاکستان سے باہر اپنی ساری جائداد کے بدلے اپنی ماں کی ایک جھلک دیکھنا چاہوں تو کیا دیکھ سکتا ہوں؟‘‘ امین الدین نہایت جذباتی لہجے میں بولا۔
’’چھوڑیں انکل۔‘‘ اسلم نے منہ بنا کر کہا۔ ’’دُکھ سکھ اور موت زندگی تو انسان کے ساتھ ہے۔ اگر ہر کوئی آپ کی طرح سوچنے لگے تو پھر کوئی باہر نہ جائے۔‘‘
’’میں باہر جانے کی نفی نہیں کر رہا۔‘‘
’’تو پھر؟‘‘
’’میری تو مجبوری تھی بیٹے… روٹی میرے لیے سب سے بڑا سوال تھی مگر ساری زندگی پردیس کا بن باس کاٹ کر میں نے یہ جانا کہ اگر اپنے مرکز میں رہتے ہوئے آدھی خشک روٹی بھی مل رہی ہے تو وہ بے مرکز ہو کر ملنے والی سالم تر روٹی سے بہتر ہے۔‘‘
’’مرکز!‘‘ اسلم نے امین الدین سے قدرے تعجب سے پوچھا۔ ’’مطلب؟‘‘
’’مرکز کی ابتدا گھر سے ہوتی ہے… گھر بنیادی مرکز ہے بیٹے… آپ سب سے زیادہ مضبوط اپنے گھر سے جڑے رہنے پر ہوتے ہیں… مرکز سے جڑے رہنے کا یہ تعلق اور وابستگی بتدریج اپنا دائرہ وسیع کرتے چلے جاتے ہیں… گھر کے بعد محلہ… کہاوت ہے کہ اپنی گلی میں کتّا بھی شیر ہوتا ہے… پھر علاقہ… اپنے علاقے سے نکل کر تو دیکھو… دُوسرا علاقہ آپ کے لیے اپنا دامن دراز کرنے ہی کو آمادہ نہیں ہوتا… پھر اپنا شہر… آپ کے قدم اپنے شہر سے ہٹے نہیں مشکلات آپ کے منہ کو آنے لگیں گی… پھر اپنا دیس اپنا وطن، اپنی ماں دھرتی… اپنی زمین کو چھوڑ کر آپ کہیں چلے جائو… کتنے ہی تیر مار لو… کتنی ہی بڑی ہستی کیوں نہ بن جائو، غیر ملک میں دوسرے درجے کے شہری بن کر رہتے ہو… اپنے مرکز کے ساتھ جڑے رہنا بہت بڑی نعمت ہے بیٹے… پاکستان ہمارا گھر ہے۔ ہماری شان ہے۔ ہماری عزت ہے… گھر کے حالات سے گھبرا کر گھر چھوڑ جانا عقلمندی تو نہیں… عقلمندی یہ ہے کہ گھر کے حالات بہتر کرنے کی کوشش کی جائے۔‘‘ امین الدین کا ہاتھ اسلم کے شانے پر جا پہنچا۔ ’’بیٹے کو باہر بھیجنے کی کوشش کرنے کے بجائے اسے سمجھائو کہ اس وطن کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالے۔ اپنے فرائض کو خواہ ان کا تعلق گھر سے ہو، محلے سے، علاقے سے ہو، شہر یا وطن سے ہو پوری نیک نیتی، فرض شناسی اور دیانتداری سے انجام دے۔ اسی میں اس کی بقا ہے اور آنے والی نسلوں کی بھی۔‘‘
’’چلیں انکل دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔‘‘ اپنا مقصد پورا نہ ہونے پر اسلم نے سردمہری سے کہا۔
پردیس میں امین الدین نے چہروں پر لکھی اتنی تحریریں پڑھ رکھی تھیں کہ اسلم کے چہرے پر لکھی تحریر پڑھنا اسے چنداں دُشوار نہ ہوا۔
’’ہونا کیا ہے یار… جس دن تم نے اپنے بچوں کو وطن سے محبت کرنا، اس کے لیے محنت کرنا اور اپنے مستقبل کے خواب اسی مرکز سے جوڑنا سکھا دیا… حالات بدل جائیں گے… تمہارے بچوں کو یہیں وہ سب کچھ ملے گا جس کی خاطر وہ اس چھوٹی سی زندگی میں اکثر اتنی دُور نکل جاتے ہیں کہ انہیں واپسی کا راستہ نہیں ملتا۔‘‘
’’شکر ہے تجھے تو مل گیا۔‘‘ واجد بولا۔
’’کہاں ملا یار!‘‘ امین الدین نے کھوئی کھوئی نظروں سے چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’راستے بدل گئے… لوگ کھو گئے… میں بھٹک گیا… آج بچپن کی یادیں دل میں بسائے اپنا بچپن ڈھونڈنے نکلا تھا، خود کھوگیا۔‘‘
’’اب کیسے ڈھونڈے گا خود کو؟‘‘ واجد مسکرایا۔
امین الدین کے ایک ہاتھ میں لاٹھی تھی۔ دُوسرا بازو اس نے واجد کے شانے پر دراز کرتے ہوئے جذب کی کیفیت میں کہا۔ ’’صرف ایک راستے سے… پاکستان زندہ باد۔‘‘
واجد چونک کر ہونّقوں کی طرح امین الدین کو دیکھنے لگا۔
وطن سے نکل کر وطن کی قدر جان لینے والے امین الدین کے چہرے پر جذب اور آگہی کی روشنی تھی!
(ختم شد)