Thursday, March 28, 2024

Sukoon e Dil ki Khatir | Teen Auratien Teen Kahaniyan

میرے شوہر اظہار ایک سرکاری آفیسر تھے۔ وہ انتہائی ایماندار اور فرض شناس اور اُصول پسند شخص تھے۔ ایمانداری ان کی گھٹی میں پڑی تھی، تبھی پریشان رہتے تھے کیونکہ ان کے باس رشوت کے بغیر کسی کا کام نہیں کرتے تھے۔ وہ اظہار کو بھی رشوت لینے پر مجبور کرتے۔ اظہار جیسے سچے، محنت کش کا رشتہ، دیانتداری کے ساتھ مضبوطی سے جڑا ہوا تھا لہٰذا وہ اپنے باس کو خوش نہ رکھ سکے۔ نتیجے میں ان کا ٹرانسفر کر دیا گیا۔ وہاں بھی حالات پہلے جیسے تھے۔ غرض ان کا کئی ایسی جگہوں پر ٹرانسفر کیا گیا جہاں کوئی جانا پسند نہیں کرتا تھا۔
ایک طویل عرصے کی جفاکشی کے بعد بھی ترقی نہ ہو سکی۔ آخرکار انہیں ایک ایسے کیس میں ملوث کر دیا گیا کہ جس کا ان سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ یہ ایک غبن کا کیس تھا، وہ ان حالات کو زیادہ عرصہ نہ جھیل پائے، دل کے مریض ہوگئے۔ بالآخر ایک روز خالق حقیقی سے جا ملے۔
میرے شریک زندگی کو تو جلد دکھوں سے نجات مل گئی لیکن میرے بیٹے جو اپنے حصے کے دُکھ لینے والوں کی قطار میں لگ گئے تھے، اب ان کی باری آگئی۔ میرے دو ہی بیٹے تھے۔ اظہر اور اطہر۔ ان کے دامن میں بھی باپ نے ورثے میں ایمانداری کی دولت چھوڑی تھی۔
جس روز اظہار نے وفات پائی، گھر میں پھوٹی کوڑی نہ تھی۔ میں نے اپنی سونے کی دو چوڑیاں فروخت کر کے ان کے کفن دفن کا انتظام کیا۔باپ کی وفات کا یہ نقصان ہوا کہ میرے دونوں لڑکے تعلیم کی جنت سے نکلنے پر مجبور ہوگئے اور وقت نے ان کو زندگی کے میدانِ کارزار میں تہی دست دھکیل دیا۔
ایک روز میرے بڑے لڑکے نے چھوٹے سے کہا۔ اطہر تم تعلیم مت چھوڑو، محنت کرو اور آفیسر بنو… میں نہیں بن سکتا۔ ہمارا باپ آفیسر تھا لیکن وہ بہت جلد ہمت ہار کر اس جہان سے چلا گیا۔ میں ایماندار آفیسر بن کر جلد مرنا نہیں چاہتا۔
چھوٹے بھائی کو دوبارہ اسکول میں داخل کروانے کے بعد اظہر گھر سے چلا گیا۔ وہ آٹھویں میں پڑھ رہا تھا جب نوکری کرنے گھر سے نکلا تھا۔ اس کی ملاقات لاری اڈّے پر ایک شخص نصر سے ہوئی۔ نصر ٹرک چلاتا تھا۔ اس کا کام ٹرکوں کے ذریعے تجارتی مال کو اِدھر سے اُدھر پہنچانا تھا۔
اظہر بھلا یہ کیوں کر جان پاتا کہ نصر کا اصل دھندا کیا ہے، اُسے تو بس نوکری چاہیے تھی اور نصر کو اپنے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے ایک لڑکے کی ضرورت تھی۔نصر کافی کرخت اور ترش مزاج شخص تھا مگر آدم شناس تھا۔ اس نے پہلی نظر میں ہی اظہر کو منتخب کر لیا اور اپنے پاس ملازم رکھ لیا۔
میرا بیٹا اس شخص کے پاس پانچ برس رہا اور ان پانچ برسوں میں وہ اس کا ہر حکم نہایت فرمانبرداری سے بجا لایا۔ کام جو وہ ذمہ لگا دیتا، میرا بچہ محنت سے کرتا۔ یہاں تک کہ اس شخص کو یقین ہوگیا کہ کسی گڈری کا لعل اس کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ اس نے اظہر سے کہا کہ تم کوئی ہنر سیکھ لو کیونکہ ہنرمند کبھی بھوکا نہیں مرتا، تم ڈرائیونگ سیکھ لو تاکہ میرے مال بردار ٹرک چلا سکو۔ اظہر نے نصر کے حکم کی تعمیل کی۔ اُسے ماں اور چھوٹے بھائی کے اخراجات بھی برداشت کرنے تھے، وہ نہیں جانتا تھا کہ نصر کس قسم کی تجارت کرتا ہے۔ بس اتنا جانتا تھا کہ وہ پھلوں کا تاجر ہے۔
پانچ سال گزر گئے۔ اظہر اب بیس برس کا ہو چکا تھا اور نصر کا سب سے معتبر ملازم تھا۔ مالک کے لاکھوں روپے اس کے پاس پڑے رہتے تھے۔ کبھی ایک پائی کا بھی ہیرپھیر نہیں کیا تھا۔ نصر کو اظہر پر اندھا اعتماد تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ لاکھوں دے کر بھول جائے، تب بھی اظہر ایک روپے کی خیانت کا مرتکب نہ ہوگا۔ ایسے ملازم خوش قسمت لوگوں کو ہی ملتے ہیں۔ اظہر بھی نصر کے مان کو عزیز رکھتا تھا۔ ایک یہی ورثہ تو اس کو اس کے باپ سے ملا تھا کہ ہر حال میں دیانتداری کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا ہے۔
نصر کی ایک بیٹی تھی۔ رخشندہ نام تھا۔ وہ اُسے بہت عزیز تھی۔ وہ اس کی شادی کسی اچھے انسان سے کرنا چاہتا تھا۔ اظہر سے اُسے اب ایسی محبت ہوگئی تھی جیسے کسی باپ کو اپنی اولاد سے ہوتی ہے۔ دس برس کے طویل عرصے میں اُسے اس لڑکے کی تمام عادات و خصائل کا علم ہوچکا تھا۔ بلاشبہ اظہر کی رگوں میں ایک شریف باپ کا خون دوڑ رہا تھا۔
ایک روز اس نے میرے بیٹے کو بلا کر کہا۔ اظہر میری ایک ہی بیٹی ہے اور میں اُس کو کسی لالچی کے حوالے کرنے کی بجائے کسی شریف خاندان کے لڑکے کی منکوحہ دیکھنا چاہتا ہوں، کیا تم گھر داماد بننا پسند کرو گے؟
اظہر نے کہا۔ والد صاحب کی وفات کے بعد آپ کے پاس ملازم ہوا اور اب تک آپ کے ساتھ ہوں، میری خوش نصیبی ہوگی آپ کا سایہ عمر بھر کے لئے مل جائے لیکن والدہ سے اجازت ضروری ہے۔ مجھے چند دن کی چھٹی درکار ہوگی تاکہ والدہ کی اجازت حاصل کر سکوں۔
اظہر کافی عرصے بعد چھٹی لے کر گھر آیا تھا۔ میری خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ باقاعدگی سے اپنی تنخواہ بھجوا دیتا تھا لیکن گھر کم ہی آ پاتا تھا۔ اُس نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تو میں سوچ میں پڑ گئی۔ ایک امیر آدمی کی بیٹی سے شادی خطرے کی بات ہو سکتی تھی، کل جانے کیا ہو جائے۔ اس کی لڑکی میرے غریب بیٹے کے ساتھ خوش رہ سکے یا نہ رہ سکے۔ ایسے کئی سوالات تھے جو اندیشے بن کر مجھے پریشان کر رہے تھے، تاہم میرا بیٹا میرے اندیشوں کو بھانپ چکا تھا۔ بولا، ماں آپ فکر نہ کریں، میں نصر اور وہ مجھے اچھی طرح جان گئے ہیں۔ اب پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ اجازت دے دیں۔ یوں میری اجازت سے اس کی شادی نصر کی بیٹی رخشندہ سے ہوگئی۔
نصر کا کوئی بیٹا نہ تھا لہٰذا میرا بیٹا ہی اب اس کی اُمیدوں کا مرکز تھا۔ اظہر بھی مزید محنت اور لگن سے کام کرنے لگا تاکہ نصر اس سے خوش رہے۔ اب دولت نصر پر بارش کی طرح برس رہی تھی اور یہ ساری کمائی اُس کی بیٹی اور داماد کی ملکیت ہی تو تھی۔
جب دو ماہ بعد اظہر گھر لوٹا تو ہر کوئی اس کی شان و شوکت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ آٹھویں پاس بھی نہ تھا مگر اپنی سوچ کے لحاظ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لگتا تھا۔اطہر کو بھائی پر رشک آ رہا تھا۔ اس نے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور کلرکی کے لیے بھی پاپڑ بیلنے پڑے۔ اس نے خود کو اپنے بڑے بھائی کے مقابل بہت ناکام و نامراد پایا۔ اطہر کو نوکری نہ ملی تو ایل ایل بی کیا اور اپنے شہر میں وکالت کی پریکٹس شروع کر کے مقدر آزمانے لگا۔
میں شادی پر پہلی بار نصر کے گھر گئی تھی۔ اظہر سُسر کے پاس رہتا تھا، وہ کبھی کبھار آتا۔ اس کی بیوی بس ایک بار آئی تھی صرف ایک دن کے لیے۔ وہ گھر داماد تھا۔ ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتا تھا لیکن رابطہ رکھتا تھا۔
ایک دن ایسا آیا کہ یہ رابطہ بھی ختم ہوگیا۔ اب میں اطہر کو کہتی تھی کہ کسی طور بھائی سے رابطہ کرو، اُسے ڈھونڈو تو سہی آخرکار کیوں ہم سے رابطے توڑ لئے ہیں، کوئی تو وجہ ہوگی۔ اظہر کہتا کچھ کیس نمٹانے ہیں، فارغ ہو لوں تو جائوں گا۔ بالآخر وہ وقت نکال کر گیا۔ معلوم ہوا کہ اظہر اپنی بیوی اور بچوں کے ہمراہ لورالائی چلا گیا ہے کیونکہ اب اس کے کاروبار کا مرکز لورالائی ہوگیا تھا۔ بڑے بھائی سے ملے بغیر اطہر واپس آ گیا اور کہا کہ کچھ دن بعد لورالائی جا کر معلوم کروں گا۔
ایک سال گزر گیا۔ اظہر کی کچھ خبر نہ تھی۔ میرا جی بہت گھبراتا تھا۔ بار بار چھوٹے کو کہتی کہ جا کر بڑے بھائی کا حال معلوم کرو۔ آخر وہ کیوں ہم سے رابطہ نہیں کرتا۔
ایک روز لورالائی سے ایک شخص نے اطلاع دی کہ پھلوں کا ٹرک لاتے ہوئے راستے میں ڈاکوئوں سے تصادم ہوگیا تو انہوں نے گولی چلا دی اور اظہر ایک ڈاکو کی گولی کا نشانہ بن گیا۔ یہ ایک بہت بُری خبر تھی۔ اس کی میں متحمل نہ ہو سکتی تھی۔ بہرحال اطہر نے کسی طرح مجھے اس المیے سے آگاہ کیا تو میں پچھاڑ کھا کر گر گئی۔ دو پوتے اور ایک پوتی رخشندہ کے بطن سے تھے جو اپنے نانا نصر کے پاس تھے۔ اُسے بھی داماد کی ناگہانی موت کا ازحد صدمہ تھا۔ وہ ایسا لاتعلق ہوگیا تھا جیسے اس دُنیا سے ناتا ختم کر بیٹھا ہو۔ داماد کی وفات نے اس کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اپنا کاروبار کس کے سپرد کرے۔ بالآخر اس نے اپنے برادر نسبتی کو بلایا اور کاروبار اس کے حوالے کر کے کہا کہ جب تک میرے نواسے جوان نہیں ہو جاتے، تم اسے سنبھالو۔ یہ میرے نواسوں کی امانت ہے۔ میرے مرنے کے بعد خیانت مت کرنا۔ ہاں آدھا منافع تم لے سکتے ہو۔
نصر بوڑھا ہو چکا تھا۔ وہ دُنیا سے کنارہ کش ہوگیا۔ اب ہر وقت یاد اللہ میں مصروف رہنے لگا۔ رخشندہ اپنے ماموں پر اعتبار کرتی تھی۔ اس نے کبھی کاروبار میں مداخلت نہ کی اور نہ آمدنی اور خرچ کا حساب لیا۔ جب تک نصر زندہ رہا، اس کی موجودگی بڑا سہارا تھی۔ باپ کی آنکھیں بند ہوتے ہی ماموں نے بھی اس سے آنکھیں پھیر لیں۔ اتنا سرمایہ پا کر اس کی نیت بدل گئی تھی۔
میرے پوتے ابھی اس قابل نہ ہوئے تھے کہ باپ اور نانا کا کاروبار سنبھال سکتے۔ رخشندہ کو اندازہ ہوگیا کہ ماموں اُس کے یتیم بچوں کا سب مال و متاع ہڑپ کرلینا چاہتا ہے۔ اس نے ماموں سے بازپرس کی، حساب کتاب مانگا اور جب اس نے آنا کانی کی تو بھانجی نے جرگہ بلانے کی دھمکی دے دی۔اس دھمکی سے ماموں ڈر گیا۔ اس نے کہا کہ اگر تم یہ کاروبار مجھ سے واپس لینا چاہتی ہو تو لے لو لیکن یہ بتائو کہ اسے کس کے سپرد کرو گی، کون اسے سنبھالے گا؟
میں اپنے دیور کو بلانے کا ارادہ رکھتی ہوں بلکہ خود اظہر کی والدہ کے گھر جا کر اپنے خاوند کے چھوٹے بھائی سے استدعا کروں گی کہ وہ آ کر ہمارا کاروبار سنبھال لے۔ میرے بچوں کو اب اپنے چچا اور دادی کی شفقت کی ضرورت ہے۔ میں نے اپنے دیور کو خط لکھا تھا، وہ ہمیں لینے آنے والا ہے۔ رخشندہ کا ماموں اُس کا مطلب سمجھ گیا۔ اس نے اعتراض کیا۔ تم یہ کیسے کر سکتی ہو جبکہ اس کاروبار کو بڑھانے میں، میں نے کم محنت نہیں کی ہے، اس میں میرا حصہ بھی ہے۔
تمہارا جو حصہ بنتا ہے بتائو۔ اگر صحیح حساب کتاب رکھا ہے تو تمہارا حصہ تم کو دے دوں گی۔ ماموں کو کسی طور پر بھانجی کے تیور نہ بھائے، تاہم اُسے یقین تھا کہ وہ اپنے دیور کو نہیں بلائے گی۔ یہ محض ایک دھمکی ہے لیکن یہ دھمکی نہ تھی رخشندہ نے واقعی اطہر کو خط لکھ دیا تھا۔
جب خط ملا۔ اُس نے مجھ سے صلاح کی۔ ماں… بھابی مجھے بلا رہی ہے۔ تمہاری کیا صلاح ہے؟ ضرور جا کر اس کی خبرگیری کرو بیٹا۔ میں تو دل سے چاہ رہی تھی کہ وہ ہم سے رابطہ کرے۔ میں اپنے پوتوں اور پوتی کے لیے تڑپ رہی ہوں۔
میں نے اصرار کر کے اپنے چھوٹے بیٹے کو لورالائی بھیج دیا۔ وہ پہلی بار وہاں گیا تھا۔ اس کو گئے ہفتہ ہی بمشکل گزرا تھا کہ وہاں سے کسی نے اس حادثے کی اطلاع دی کہ اطہر اور اس کی بھابی کو کسی نے قتل کر کے لاشیں پہاڑی علاقے میں پھینک دی ہیں۔ میرے تو اوسان خطا ہوگئے۔ ایک بیٹا پہلے بچھڑ گیا تھا، اب دُوسرا بھی دے بیٹھی۔ اے کاش میں اُسے وہاں نہ بھیجتی۔ مجھے کیا خبر تھی کہ اس کی بھابھی نے نہیں بلکہ موت نے آواز دی ہے۔
وہاں کے لوگوں کے بیان کے مطابق اطہر کو اپنی بھابھی کے ساتھ غلط مراسم کے الزام میں ہلاک کیا گیا تھا۔ رخشندہ کے ماموں نے یہ جرم محض اُس کی دولت حاصل کرنے کی خاطر کیا تھا۔ اس نے سب کو یہی بتایا کہ وقوعے کی رات جبکہ بھانجی گھر سے غائب تھی، اُس کو شک گزرا اور قریبی پہاڑی پر اُسے تلاش کیا جہاں وہ اپنے دیور سے ملنے گئی تھی۔ اُس کی غیرت سے یہ برداشت نہ ہو سکا اور اس نے دونوں کو جائے وقوع پر ہی ڈھیر کر دیا۔ جرگے نے قبائلی قانون کے تحت ماموں کو معاف کر دیا لیکن وہ قانون کے شکنجے سے نہ بچ سکا۔ وہاں تعینات اعلیٰ انتظامی آفیسرز نے تحقیقات کرائی تو پتا چلا کہ بھابھی اور دیور کو الگ الگ جگہ گولی ماری گئی تھی۔ رخشندہ نے رات کے وقت گھر سے باہر قدم نہ رکھا تھا جبکہ دیور تو سوتا ہی مہمان خانے میں تھا، جو گھر سے کافی فاصلے پر تھا۔
ماموں نے واردات کے بعد اپنے ایک ساتھی کی مدد سے دونوں کے مردہ جسم قریبی پہاڑی کے دامن میں لا کر ڈال دیئے تھے تاکہ وہاں کے مکینوں کو یہی تاثر ملے کہ دونوں کسی غلط ارادے سے رات کی تاریکی میں یہاں آئے تھے۔ تمام شواہد سے ظاہر ہوگیا کہ ان دونوں بے گناہوں کو ناحق قتل کیا گیا تھا، محض دولت کے لیے اور یہ دولت ہی تھی جس نے ماموں کی آنکھوں پر لالچ کی پٹی باندھ دی تھی۔
تمام تفصیلات سے علاقے کے اس اعلیٰ آفیسر نے مجھے گھر آ کر آگاہ کیا اور پوچھا کہ کیا میں رخشندہ کے بچے اپنے پاس رکھنا چاہوں گی۔ ان بچوں کے سوا اب اور کون رہ گیا تھا، اب یہی میرا سہارا تھے۔ آفیسر سے منت کی کہ وہ جلد از جلد میرے پوتوں اور پوتی کو میرے پاس لانے کی تدبیر کرے۔ آفیسر نے تینوں بچوں کو میرے حوالے کر دیا اور میں نے اپنے جگر گوشے کے ان بچوں سے اپنے سونے گھر کو سجا لیا۔ حکومت نے ان کا اثاثہ امانتاً اپنی تحویل میں لے لیا اور بالغ ہونے تک مقررہ رقم وہ مجھے ادا کرتے رہے۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا میرے دونوں پوتے اور پوتی بڑے ہوگئے۔ وہ اب بالغ تھے۔ ان کے والد کا اثاثہ اور ترکہ ان کو مل گیا اور میں نے زندگی کے باقی دن ان کے ساتھ گزارنے کا عہد کرلیا۔ وہ لوٹ کر اپنے نانا کے گائوں آ گئے۔ میں ان کے ساتھ آنا نہیں چاہتی تھی لیکن… مجبوراً آنا پڑا۔ میں ان کے بغیر اور وہ میرے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔
دونوں پوتوں کی شادیاں ہوگئیں، ان کی بیویاں آ گئیں، جو ان کے ننھیال سے تھیں۔ پوتی دلنشین کی بھی شادی ہوگئی جو بیاہ کر اپنے گھر چلی گئی۔ یہ سب اپنی زندگی میں خوش اور مگن ہیں لیکن میں آج بھی اپنے مرحوم بیٹوں کی محبت کے کھونٹے سے بندھی ان کے پاس رہتی ہوں کیونکہ میرے دونوں لخت جگر بھی اسی گائوں کی مٹی میں دفن ہیں۔ میری عمر اسّی سال ہے۔ یہاں رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قبرستان پاس ہے اور میں روز اپنے بیٹوں اور بہو کی قبروں پر فاتحہ کے لئے جاتی ہوں تو دل کو سکون مل جاتا ہے۔ دُعا ہے کہ کسی ماں کے بچّے اس طرح اس سے جدا نہ ہوں۔ (س… لورالائی)

Latest Posts

Related POSTS