حالات کے سبب والد صاحب کا چلتا ہوا کاروبار ٹھپ ہوگیا۔ ان دنوں میری عمر سولہ سال تھی اور میٹرک پاس کیا تھا۔ کالج میں داخلہ لینا چاہتی تھی لیکن والد صاحب کے مالی حالات دگرگوں ہونے کے باعث مجھے تعلیم سے منہ موڑنا پڑا۔ انہی دنوں میرے لئے ایک رشتہ آگیا۔ دور کے عزیز تھے، لڑکا دبئی میں تھا۔ ان لوگوں کے مالی حالات بہت اچھے تھے۔ والد صاحب نے سوچا اگر اس لڑکے سے زنیرا کا رشتہ ہوجائے تو یقینا داماد سے مدد لے کر اپنا کاروبار دوبارہ سیٹ کرسکوں گا۔
انہوں نے شاہد سے مل کر اندازہ کرلیا کہ لڑکا نہ صرف کمائو ہے بلکہ یہ مالی مدد بھی دینے میں نہیں ہچکچائے گا۔ پس جھٹ رشتہ قبول کرلیا اور میری شادی شاہد کے ساتھ کردی۔
شاہد بہت بھلے مانس تھے۔ گویا والد صاحب کی مراد بر آئی تھی۔ شاہد نے گھونگھٹ اٹھاتے ہی مجھے پسند کرلیا۔ بولے۔ خدا نے مجھ پر خوشیوں کی بارش کردی ہے، یہ اس کی بڑی نوازش ہے کہ تم جیسی اچھی دلہن مل گئی ہے، وعدہ کرتا ہوں عمر بھر تم کو خوش رکھوں گا اور کبھی شکایت کا موقع نہ دوں گا۔ شوہر کی محبت سے میرا دل موم ہوا اور میں سچی خوشی سے ہمکنار ہوگئی۔ یہاں تک کہ تعلیم حاصل کرنے اور کالج نہ جانے کا جو ملال تھا، وہ بھی دل سے جاتا رہا۔ ایک ماہ کی چھٹی پر وہ آئے تھے۔ شادی کے بعد دو ماہ پلک جھپکتے گزر گئے، اب ان کو واپس جانا تھا چونکہ بغیر پیسے خوشیاں نہیں منائی جاسکتیں۔ جی نہ چاہتا تھا کہ پل بھر بھی جدا ہوں مگر جدا ہونا پڑا۔
ان کے جانے سے دل بے حد اداس تھا، کافی دنوں تک رویا کی۔ رات کویاد کرکے سوتی اور صبح ان کی یاد سے بیدار ہوتی۔ سوچتی تھی جانے کب یہ جدائی ختم ہوگی۔ جب فون آتا میں کہتی کہ کیوں دور چلے گئے؟ وہ جواب دیتے میرے جیون ساتھی! گھر میں خوشحالی کی خاطر جدائی کا دکھ سہنا لازم ہے۔ پل چھن گنتے دن ہفتے مہینے اور پھر سال گزر گیا، جس روز خط ملا کہ چھٹی مل گئی ہے، اگلے ہفتہ پہنچ رہا ہوں، وہ دن میرے لئے عید کی طرح تھا۔ آتے ہی بہت سا روپیہ میرے نام جمع کرا دیا، زیورات بھی بنوا کر دیئے اور پوچھا۔ نورالصباح! بتائو کیا فرمائش ہے؟ تمہاری ہر فرمائش پوری کروں گا۔ میں نے جواب دیا۔ مجھے ایک خوبصورت بنگلے کی آرزو ہے، یہ گھر چھوٹا اور پرانا ہے۔ اب جو کمایئے گا، اس خیال سے کہ نیا گھر بنوانا ہے۔ میری باتیں انہوں نے گرہ میں باندھ لیں۔ اسی دن سے نیا گھر بنوانے کی تدبیروں میں لگ گئے۔ ادھر والد صاحب کو علم ہوگیا کہ شاہد نے کافی روپیہ میرے نام بینک میں جمع کرا دیا ہے۔ ایک دن آئے اور کہنے لگے۔ بیٹی! اللہ تعالیٰ کا تم پر خاص کرم ہے، تم خوشحال گھر میں ہو، اب اپنی خوشیوں میں ہمارے دکھوں کو مت بھلانا۔ میں نے پوچھا۔ ابا جی..! آپ کیا کہنا چاہتے ہیں، صاف کہئے تاکہ آپ کی بات سمجھ میں آجائے۔ مجھے اپنے ڈوبے ہوئے کاروبار کے لئے کچھ رقم چاہئے، زنیرا…! اگر چھ ماہ کے لئے دے دو، میں واپس کردوں گا۔ میرا کاروبار سنبھل جائے گا، ورنہ فاقوں تک نوبت آجائے گی۔ کتنی رقم درکار ہوگی ابا جی! انہوں نے کافی موٹی رقم مانگی۔ یہ بھی کہا کہ فی الحال شوہر سے ذکر مت کرنا ورنہ میری عزت اس کی نظروں میں باقی نہ رہے گی۔
باپ کی محبت سے مجبور ہوکر میں نے مطلوبہ رقم ان کو بینک سے نکلوا کر دے دی، اس وعدے پر کہ وہ چھ ماہ بعد لوٹا دیں گے۔ شاہد نے کہا تھا کہ رقم جس قدر چاہو خرچ کے لئے نکلوا لیا کرنا، میں مزید پیسے وقتاً فوقتاً تمہارے اکائونٹ میں ڈلواتا رہوں گا تاکہ اتنا سرمایہ جمع ہوجائے کہ ہم آسانی سے نیا گھر تعمیر کرا سکیں۔
وقت گزرتا گیا، ایک سال بیت گیا۔ ابا جی نے ایک دمڑی واپس نہ کی۔ میں نے بھی تقاضا نہ کیا کیونکہ شاہد نے کوئی بازپرس نہ کی کہ میں رقم اکائونٹ سے نکلواتی ہوں کہ نہیں کتنی نکلوا چکی ہوں تب سوچا اگر انہوں نے پوچھا تو کہہ دوں گی کہ خرچ کردی ہے۔ وہ مجھ کو کچھ نہ کہیں گے، مجھے ان کی محبت اور ان کو میری وفا پر اعتبار تھا۔
اب کی وہ آئے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک بیٹے سے نواز دیا تھا۔ بے حد خوش ہوئے بولے۔ رقم تمہارے اکائونٹ میں بھجواتا رہتا ہوں بس ایک سال کی اور دیر ہے، اگلی بار چھٹی پر آئوں گا تو نئے مکان کی تعمیر شروع کردیں گے۔ ایک سال بعد چھٹی پر آگئے۔ اس بار دوسرے بیٹے کی خوشخبری مل گئی، وہ اور زیادہ نہال تھے۔ پلاٹ پہلے سے خریدا ہوا تھا، گھر بنوانے لگے، بنیادوں تک بات پہنچی تو چھٹی ختم ہوگئی۔ کہنے لگے۔ تمہارے والد صاحب کو یہ کام سپرد کرکے جانا چاہتا ہوں، اپنی نگرانی میں مکان کی تعمیر جاری رکھیں گے۔
اللہ نے میری لاج رکھ لی کیونکہ والد صاحب نے تھوڑا سا کام کو آگے بڑھایا تھا کہ روپیہ ختم ہوگیا۔ میں نے والد سے کہا کہ اب آپ کا کاروبار سنبھل گیا ہوگا، آپ نے چھ ماہ کے لئے رقم لی تھی اور اب دوسرا سال ہے، شاہد نے بازپرس کرلی تو کیا ہوگا۔ بہتر ہے کہ رقم لوٹا دیں تاکہ مکان کی تعمیر جاری رہے۔ بولے۔ روپیہ ضرور کاروبار میں لگایا مگر حالات ایسے ہیں کہ نفع کی بجائے نقصان ہوتا چلا گیا، فی الحال اس قابل نہیں کہ رقم لوٹا سکوں۔ تم جو بھی بہانہ کرو، اپنے شوہر کو خود سمجھا لو، میں مجبور ہوں۔
سال بعد بھی مکان مکمل نہ ہوسکا۔ چھت تک پہنچ کر کام رک گیا حالانکہ وہ مسلسل رقم بھجوا رہے تھے۔ جب آکر مکان کی پوزیشن دیکھی تو خاموش سے ہوگئے۔ مجھے اور والد صاحب کو کچھ نہ کہا، کوئی شکوہ نہ کیا کہ اتنا روپیہ کہاں گیا۔ شاید سوچا کہ ایسا رشتہ ہے۔ سسر بھی باپ کی جگہ ہوتا ہے ان سے کیسے حساب لوں۔ خود مکان کو مکمل کرایا لیکن اس وجہ سے ان دنوں ہاتھ تنگ ہوگیا۔ جمع پونجی باقی نہ رہی تو شاہد کچھ فکرمند سے رہنے لگے۔
ہمارے تین بچے ہوچکے تھے۔ شاہد اب بچوں کے ساتھ رہنا چاہتے تھے، گھر سے دور نہ جانا چاہتے تھے کہ پردیس میں عرصہ دراز سے محنت کرکے تھک چکے تھے لیکن میں نے کہا کہ آپ پردیس چلے جائیں، بچوں کے مستقبل کی خاطر، ان کو بڑے ہونا ہے، تعلیم حاصل کرنی ہے، اس کے لئے روپیہ درکار ہوگا۔ وہ میری بات سن کر حیران ہوگئے۔ کیا تم وہی ہو؟ پہلے جب میں جاتا تھا تو رورو کر ہلکان ہوتی تھیں۔ کہتی تھیں کہ تنگی میں گزارہ کرلوں گی، آپ نہ جایئے اور اب میں یہاں رہ کر کوئی کاروبار کرنا چاہتا ہوں تو تم کہتی ہو کہ دوبارہ پردیس چلا جائوں۔ میں نے جواب دیا۔ آپ ہی تو کہتے تھے کہ خوشحالی کے لئے جدائی کا دکھ سہنا لازم ہوتا ہے، مکان کی وجہ سے پیسے خرچ ہوگئے ہیں، اب آگے کا بھی تو سوچنا ہے۔
شاہد دوبارہ چلے گئے۔ وہ ہر ماہ معقول رقم بھجوانے لگے اور ہم آسودہ حالی سے دن بسر کرنے لگے۔ ابا جی وقتاً فوقتاً آجاتے، اپنی مجبوریاں بتا کر کچھ نہ کچھ رقم لے جاتے اور میں انکار کی ہمت نہ کرپاتی۔
جب چار بچے ہوگئے تو چھوٹے چھوٹے بچوں کو سنبھالنا میرے لئے مشکل ہوگیا۔ ابکی وہ آئے تو میں نے کہا کہ مجھے کل وقتی ملازمہ چاہئے، میں اکیلی بچے نہیں سنبھال سکتی۔ ساس بھی وفات پا چکی تھیں، سسر صاحب ہماری شادی سے سال بھر پہلے اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔
شاہد نے ملازمہ رکھنے کی اجازت دے دی۔ کہنے لگے سوچ سمجھ کر رکھنا، آج کل زمانہ ٹھیک نہیں ہے، ایسا نہ ہو کہ کوئی غلط قسم کی عورت تمہارے گھر میں آجائے اور تم بعد میں پچھتائو۔ میں نے کئی کام کرنے والی عورتوں سے کہہ رکھا تھا کہ کوئی ایسی لڑکی بتائو جو دن، رات میرے پاس رہے، میں معقول تنخواہ دوں گی۔ میرے پاس ایک عورت آیا کرتی تھی جو گھر کی صفائی اور برتن دھو کر چلی جاتی تھی۔ اس کی بہت منت کی تو وہ کہنے لگی کہ میری ایک یتیم بھانجی ہے، میرے پاس رہتی ہے، گھر سنبھالتی ہے تو میں گھروں میں کام کرنے جاتی ہوں، اس کو لے آتی ہوں، آپ دیکھ لیں، ٹھیک لگے تو رکھ لیں، دس ہزار روپے ماہانہ لوں گی۔
یہ تنخواہ بہت زیادہ تھی لیکن میں مجبور تھی۔ یکے بعد دیگرے بچے چاروں اوپر تلے کے تھے اور ان سب کو سنبھالنا اکیلی کے بس کی بات نہ رہی تھی۔ کوثر بھانجی کو لے آئی۔ یہ سولہ سترہ برس کی نہایت حسین دوشیزہ تھی۔ اس کے حسن کی کیا تعریف کروں۔ سوچ کر رہ گئی کہ اللہ نے حسن کی دولت کے ساتھ غربت ایسی دی کہ دو وقت پیٹ بھر روٹی ان کو میسر نہیں۔
لڑکی سے ایک دو دن کام کرایا۔ بہت سگھڑ اور سمجھدار تھی۔ میں نے اسے رکھ لیا۔ نام کلثوم تھا۔ مجھے بے حد اچھی لگی۔
شاہد کی چھٹی ختم ہوگئی، وہ واپس چلے گئے۔ اب کلثوم کے آنے سے میرا دل گھر میں خوب لگتا۔ وہ ڈھیر سارا کام کرتی اور میرے بچوں سے باتیں کرتی، وہ بھی اس سے بہل گئے تو مجھے بہت آرام ملا۔ اب یہ حالت ہوگئی کہ کلثوم کے بغیر میں رہ سکتی تھی اور نہ بچے… اگر وہ ایک دن کی چھٹی مانگتی تو میں پریشان ہوجاتی۔
سال بھر اس نے مجھ کو سگی بہنوں سے بڑھ کر سکون دیا۔ بچے اس قدر کلثوم سے ہل گئے تھے کہ ایک منٹ کو اسے نہ چھوڑتے، دونوں بڑے اسی کے پاس سوتے تھے۔ شاہد کو ایک ماہ کی چھٹی ملی، وہ آگئے گھر کو سلیقے سے سجا ہوا صاف ستھرا اور مجھے پرسکون پا کر خوش ہوئے۔ کہنے لگے۔ چلو اچھا ہوا تم کو تمہاری مرضی کی ملازمہ مل گئی ہے، اب تمہاری صحت بھی اچھی ہوگئی ہے۔
ان ہی دنوں میکے سے ایک رشتہ دار کی شادی کا دعوت نامہ آیا۔ میرے ماموں کے بیٹے کی شادی تھی، جانا ضروری تھا۔ شاہد شادی والے دن وہاں چھوڑ کر آگئے کہ جب واپس آنا ہو فون کردینا، میں لینے آجائوں گا۔
شادی والا گھر زیادہ دور نہ تھا۔ دو تین گھنٹے گزرے تھے کہ بچوں نے تنگ کرنا شروع کردیا۔ دونوں بڑے لڑکوں کو گھر پر کلثوم کے پاس چھوڑ کر آگئی، جبکہ چھوٹے دونوں ساتھ آئے تھے۔ بچے اصرار کرنے لگے گھر چلو، ہم کو نیند آرہی ہے۔ شادی والے گھر میں کافی مہمان تھے اور بچوں کو سلانے کی مناسب جگہ نہ تھی۔ شاہد کو فون ملایا تو نہ ملا تبھی سوچا کہ گھر قریب ہے، خود چلی جاتی ہوں۔ بچوں کو لے کر گھر چل دی۔ دروازے پر پہنچ کر بیل دی دروازہ نہ کھلا تو ہم نے زور زور سے کواڑ کو پیٹا تب شاہد گھبرائے ہوئے آئے اور بولے۔ خود کیوں آگئیں، میرے آنے کا بھی انتظار نہ کیا؟
بچے تنگ کررہے تھے، ان کو نیند آرہی تھی تبھی آگئی۔ آپ نے فون کیوں بند کررکھا ہے؟ بولے فون کسی وجہ سے ملا نہیں ہوگا، میں نے تو بند نہیں کیا۔ خیر میں عجلت میں ڈریسنگ روم میں چلی گئی کہ بھاری کپڑے پہنے تھی۔ میں نے کہا شاہد آپ بچوں کو ان کے کمرے میں لے جاکر سلائیں تب تک میں لباس تبدیل کرکے آتی ہوں۔
اوپر کی منزل میں کپڑے تبدیل کرکے میں ڈریسنگ روم سے باہر نکلی اور بالکونی سے جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ ہماری ملازمہ کلثوم میرے شوہر کے بیڈ روم سے نکل کر میرے بڑے دونوں بچوں کی خواب گاہ میں جارہی ہے۔ یہ منظر میں نے اچانک اوپر سے دیکھ لیا تھا۔
فوراً نیچے آئی اور پوچھا کہ کلثوم! آپ کے کمرے سے نکلی ہے، یہ وہاں کیا کررہی تھی، اس کو بچوں کے کمرے میں ہونا چاہئے تھا۔ وہ کچھ بوکھلا گئے۔ کہنے لگے کہ حسیب اور نجیب تو سو گئے تھے، یہ جواد اور فہد کو سلانے آئی تھی۔ لیکن وہ تو آپ کے کمرے میں نہیں تھے، آپ ان کو دوسرے کمرے میں لے گئے تھے، میں اوپر سے دیکھ چکی ہوں۔ اب ان سے کچھ بات نہ بن پا رہی تھی، خجل سے ہوگئے۔ بس اسی قدر کہا کہ تم کو دھوکا ہوا ہے، کلثوم میرے کمرے میں نہیں تھی۔ میں خاموش ہوگئی مگر دل کا سکون جاتا رہا کیونکہ یہ ایک معمہ تھا اور جب تک معمہ حل نہ ہو تب تک آدمی بے چین ہی رہتا ہے۔
ایک رات پھر ایسا کچھ ہوا کہ میری اچانک آنکھ کھلی، شاہد اپنے بستر پر نہ تھے۔ میں اٹھ کر بیٹھ گئی، چین نہ آیا تو سارے گھر میں دیکھا۔ وہ کہیں نہ تھے تب میں اس کمرے میں گئی جہاں دونوں بچوں کے ساتھ کلثوم سویا کرتی تھی۔ بچے سو رہے تھے مگر کلثوم موجود نہ تھی۔ میرا دل دھک سے ہوگیا، میں رونے لگی۔
روتے روتے آنکھیں سوج گئیں۔ صبح کی اذان سے کچھ پہلے شاہد آگئے۔ پوچھا آپ کہاں چلے گئے تھے؟ بولے۔ آدھی رات کو دم گھٹتا سا محسوس ہوا تو تازہ ہوا لینے باہر چلا گیا تھا۔ صحن میں تو آپ نہیں تھے، لان میں بھی نہ تھے پھر کہاں تھے؟ چھت پر چلا گیا تھا، تم وہاں آجاتیں۔ چھت پر آدھی رات کو جانے کا مجھے خیال نہیں آیا لیکن میں بچوں کے کمرے میں گئی تھی وہاں کلثوم بھی موجود نہ تھی۔
مجھے اس کی خبر نہیں، وہ وہاں موجود تھی یا نہیں۔ تمہیں پتا ہے کہ میں رات کو بچوں کے کمرے میں نہیں جاتا جہاں کلثوم سو رہی ہوتی ہے۔ ابکی پھر انہوں نے مجھے جھٹلا دیا، میری آنکھوں میں دھول جھونکی اور میں کچھ نہ کرسکی۔ دل کا چین اور قرار جاتا رہا، ہر دم بے سکون رہنے لگی۔ بیٹھے بیٹھے جی چاہتا کہ جی بھر کر روئوں، خوب چلائوں لیکن ایسا نہ کرسکتی تھی کہ بچے پریشان ہوجائیں گے۔ اس بار وہ ڈٹ گئے کہ اب پردیس نہیں جانا، یہیں رہ کر کچھ کاروبار کروں گا مگر میں اصرار کرتی کہ آپ جایئے۔ دراصل میں جس شک میں پڑ گئی تھی، اس کا علاج یہی تھا کہ شاہد یہاں سے چلے جائیں۔ کلثوم کو نکال بھی دیتی تو وہ باہر اس سے رابطہ کرلیتے۔
ایک بار شک دل میں گھر کرلے تو پھر مشکل سے نکلتا ہے۔ اب میں چاہتی تھی کہ وہ ہر صورت چلے جائیں، یہاں نہ رہیں ورنہ شک مجھے دیمک کی طرح چاٹ جائے گا کہ وہ چوری چھپے کلثوم سے رابطے میں ہیں، میرا سکون برباد رہے گا۔
شوہر سے دوری آچکی تھی، ان سے جی اچاٹ رہنے لگا۔ یہ دوری روزبروز بڑھتی جاتی تھی۔ میں نے شوہر کی پروا کرنی چھوڑ دی۔ جب میری ایسی کیفیت دیکھی شاہد نے دبئی جانے کی تیاری باندھ لی۔ اب میں نے سکون کا سانس لیا۔ وہ باقاعدگی سے روپیہ بھیج رہے تھے اور ہمارے گھر پہلے جیسی خوشحالی آگئی تھی لیکن میرا دل کلثوم کی طرف سے صاف نہ رہا۔ ایک روز کسی معمولی بات پر بے عزتی کرکے میں نے اس کی چھٹی کردی اور ایک دوسری عمر رسیدہ عورت کا انتظام کرلیا، اس کے بعد مجھے نہیں معلوم کہ کلثوم کا کیا بنا۔ مجھے دو سال بعد معلوم ہوا کہ شاہد نے دوسری شادی کرلی ہے اور اس بیوی کو دبئی لے گئے ہیں۔ کس سے شادی کی ہے، یہ بات البتہ ابھی تک راز ہی تھی۔ دوسری شادی کے بارے میں ان کے ایک دوست کی بیوی نے مجھے بتایا جو کچھ عرصے کیلئے اپنے شوہر کے پاس دبئی گئی تھی۔ میں نے شاہد کو فون کیا کہ سچ بتائو کیا یہ صحیح ہے کہ تم نے دوسری شادی کرلی ہے، مجھے یقین نہیں آرہا یقینا، یہ خبر کسی دشمن نے اڑائی ہوگی۔ انہوں نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا بلکہ فون بند کردیا۔
ابا جی کے پاس جاکر مدد کی درخواست کی کہ آپ کسی طرح پتا کرائیں شاہد نے دوسری شادی کی ہے یا نہیں! انہوں نے کہا۔ بیٹی! صبر شکر کرکے گھر میں بیٹھی رہو، وہ تم کو خرچہ بھیج رہا ہے، یہ بہت ہے، اگر راز راز نہ رہا تو زیادہ عذاب جھیلنے پڑ جائیں گے۔ والد کے اس جواب سے میں مزید دکھی ہوگئی۔
ایک دن عمر رسیدہ ملازمہ نے کہا۔ زنیرا بی بی…! ایک بات بتاتی ہوں، صبر سے کام لینا۔ آپ کے شوہر نے کلثوم سے دوسری شادی کرلی ہے اور اس کو یہاں علیحدہ مکان میں رکھا ہوا ہے، آج کل دونوں پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ اس کو یہ خبر کسی دوسری ملازمہ سے ملی تھی۔ خبر کی تصدیق کیلئے ملازمہ نے وہ پتا بھی بتا دیا جہاں شاہد اور کلثوم رہ رہے تھے۔ میں وہاں گئی تو راز سے پردہ اٹھ گیا، خبر صحیح نکلی۔ اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ والد صاحب نے صحیح کہا تھا کہ راز سے پردہ اٹھ گیا تو عذاب زیادہ بڑھ جائیں گے۔ میں نے کلثوم کو گالیاں دیں، جوتے سے مارا تو کہنے لگی۔ آنے دو شاہد کو اس کو کہوں گی کہ تمہاری بیوی بدچلن اور آوارہ ہے تب وہ تم کو طلاق دے دے گا پھر تم رہو گی اور نہ تمہارے ٹھاٹ باٹ رہیں گے۔
میں سمجھی کہ وہ ایسے ہی بک رہی ہے۔ چار بچوں کی ماں کو طلاق دلوانا آسان نہ تھا۔ اصل قصہ یہ ہوا کہ جب ملازمہ نے بتایا کہ فلاں جگہ کلثوم اور شاہد رہتے ہیں تو وہ پتا اور جگہ میں اکیلے ڈھونڈنے سے قاصر تھی، تبھی میں نے محلے کے ایک دکاندار سے درخواست کی کہ وہ میرے ساتھ چلے۔ میں اسے بھائی کہتی تھی۔ میری التجا پر وہ بیچارا ساتھ ہولیا، تبھی کلثوم نے شاہد کو کہا کہ زنیرا، مسعود دکاندار کے ساتھ گھومتی پھرتی ہے۔ شاہد گھر آئے اور پوچھا کہ کیا تم مسعود دکاندار کے ساتھ کہیں گئی تھیں؟ میں نے خوف سے انکار کردیا کہ میں کبھی اس کے ساتھ کہیں نہیں گئی، پھر وہ مسعود کے پاس گئے اور یہی سوال اس سے کیا تو مسعود بھائی نے کہا کہ ہاں آپ کی بیوی نے مجھ سے منت کی تھی کہ میرے ساتھ فلاں جگہ چلئے، کسی کا پتا تلاش کرنا ہے۔ میں ان کو بہن کی طرح سمجھتا ہوں، ان کے منت کرنے پر ساتھ چلا گیا تھا۔
شاہد نے اس کو تو کچھ نہ کہا مگر گھر آکر کہا کہ تم نے جھوٹ بولا، جبکہ تم ایک غیر آدمی کے ساتھ گھومتی پھرتی ہو، اس شخص نے سچ بتا دیا، پھر تم اگر اس کو بھائی سمجھتی ہو تو جھوٹ کیوں بولا، کیوں مجھ سے چھپایا…؟ بس اسی بات پر انہوں نے مجھ کو طلاق دے دی۔ میں سوچ بھی نہ سکتی تھی جس شخص نے مجھ سے اتنی محبت کی، کبھی وہ مجھے یوں طلاق دے دے گا۔ مجھے شاہد پر اندھا اعتماد تھا مگر ایک ملازمہ کے حسن نے شاہد کا دل مجھ سے پھیر دیا، وہ جیت گئی اور میں ہار گئی۔ یوں مجھ بدنصیب کا ہنستا بستا گھر اجڑ گیا۔ میرے بچے بھی مجھ سے جدا ہوگئے۔ والد صاحب کی رقم لوٹانے کی نیت نہ تھی تو میرا ساتھ نہ دیا۔ خدا جانے مجھ سے کیا خطا ہوئی کہ میں اتنی بڑی سزا کی مستحق ٹھہری۔ طلاق کے بعد والد کے گھر میں پناہ لی۔ یہاں کوئی تکلیف نہیں ہے مگر دل کے سکون کو ترستی ہوں۔
(ز …فیصل آباد)