ولادت… 1039ھ (شورکوٹ)
وفات… 1102ھ
مزار مبارک … دریائے چناب کے کنارے موضع قہرگان۔
خاندانی نام … سلطان محمد باہوؒ… قبیلۂ اعوان سے تعلق رکھتے تھے۔ والد گرامی حضرت بایزید محمدؒ، مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے منصب دار تھے۔ حضرت سلطان باہوؒ سلسلۂ قادریہ کے مشہور عالم و فاضل بزرگ تھے۔ آپ نے تصوف کے موضوع پر فارسی زبان میں ڈیڑھ سو کے قریب کتابیں تصنیف کیں۔ حضرت سلطان باہوؒ کی یہ کتابیں ایک طالب معرفت کے لیے ایک مرشد کامل کا درجہ رکھتی ہیں۔
٭…٭…٭
کربلا کے المناک واقعے کے بعد ’’سادات بنی فاطمہ‘‘ گوشہ نشیں ہوگئے تھے اور ان کا سارا وقت عبادت میں گزرتا تھا۔ باقی علوی خلافت کے دعویدار تھے، اس لیے وہ ایران سے ہوتے ہوئے خراساں آئے، پھر علویوں میں سے ایک بہادر شخص شاہ حسین نے ہرات پر قبضہ کرلیا۔ شاہ حسین کے بعد ان کے فرزند امان شاہ تخت نشیں ہوئے۔ امان شاہ ’’سادات بنی فاطمہ‘‘ کی بہت زیادہ اعانت کرتے تھے، اس لیے ان کی اولاد ’’اعوان‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئی۔
پھر سادات بنی فاطمہ اور اعوان تین چار پشتوں تک ہرات میں رہے۔ اس کے بعد عباسیوں کے آخری عہد میں اعوان نے پنجاب کا رخ کیا۔ سادات بنی فاطمہ نے اچ، چوہا سیدن اور دندا شاہ بلاول کو اپنا مسکن بنایا اور عبادت و ریاضت میں مشغول ہوگئے۔ قبیلہ اعوان کے لوگ کالا باغ کی طرف بڑھے۔ اس وقت گردونواح کے علاقے ہندو راجائوں کے قبضے میں تھے۔ قبیلہ اعوان کے افراد فطرتاً شجاع اور جانباز تھے، اس لیے انہیں ہندوئوں کی برتری قبول نہیں تھی۔ نتیجتاً مقامی راجائوں اور اعوان کے درمیان کئی خونریز معرکے ہوئے، انجام کار اعوان غالب آگئے۔ پھر اعوان نے اپنے شہر اور گائوں الگ آباد کئے۔ ان شہروں میں ’’پنڈ دادن خان‘‘ اور ’’احمد آباد‘‘ مشہور ہیں۔
اسی قبیلہ اعوان میں ایک بزرگ سلطان بایزید محمد ؒتھے۔ شہاب الدین شاہ جہاں اس خاندان کی بہت عزت و تکریم کرتا تھا۔ مغل فرمانروا نے سلطان بایزیدؒ کی خدمات کے صلے میں انہیں شورکوٹ ضلع جھنگ میں ایک گائوں بطور انعام دیا تھا۔ اس گائوں کا نام ’’قہرگان‘‘ تھا۔ اس کے علاوہ دربار شاہی کی طرف سے پچاس ہزار بیگھے زمین اور چند آباد کنویں بھی جاگیر کے طور پر عطا کئے گئے تھے۔
سلطان بایزیدؒ کے بارے میں ’’مناقب سلطانی‘‘ کے مصنف حضرت شیخ سلطان حامدؒ کا بیان ہے کہ آپ سلطنت دہلی کے منصب دار تھے۔ سلطان بایزیدؒ نے اولاد کی خاطر اپنے خاندان کی ایک متقی اور پرہیزگار خاتون بی بی راستی سے شادی کی۔ بی بی راستی اپنے دور کی عابدہ تھیں۔ سلطان بایزیدؒ اپنی شریک حیات کے زہد و تقویٰ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ شادی کے چند روز بعد ہی اپنی عمر گزشتہ پر اظہار تاسف کرنے لگے۔ انہوں نے کہا۔ ’’افسوس! میں نے اپنی زندگی کا بیشتر وقت دنیاوی ہنگاموں میں برباد کردیا۔ یہ کوئی مردانگی نہیں کہ بیوی تو خدا دوست ہو اور شوہر دنیا کی حرص و ہوس میں مبتلا ہوکر دردر بھٹکتا رہے۔‘‘
یہ ایک غیبی تنبیہ تھی۔ آخر سلطان بایزیدؒ نے قدرت کے اشارے کو سمجھا اور ترک دنیا کا فیصلہ کرلیا۔ پھر آپ اپنا منصب چھوڑ کر ملتان کی طرف روانہ ہوگئے۔
پھر جب سلطان بایزیدؒ ملتان کے گھاٹ پر پہنچے تو نگراں نے آپ کو حاکم ملتان کے سامنے پیش کیا۔ سلطان بایزیدؒ کے چہرے سے امارت کے آثار نمایاں تھے مگر آپ نے صورت حال کو حاکم ملتان سے چھپایا۔
’’کیا چاہتے ہو؟‘‘ حاکم ملتان نے سلطان بایزیدؒ سے پوچھا۔
’’گزر اوقات کے لیے ایک معمولی ملازمت۔‘‘ سلطان بایزید نے جواباً کہا۔
بالآخر حاکم ملتان نے دو روپے ماہانہ سلطان بایزیدؒ کی تنخواہ مقرر کردی اور آپ گوشہ نشیں ہوکر یادِالٰہی میں مشغول ہوگئے۔
مناقب سلطانی کے مطالعے سے یہ پتا نہیں چلتا کہ سلطان بایزیدؒ کس کام پر ملازم ہوئے تھے۔ حضرت شیخ سلطان حامدؒ کے بقول سلطان بایزیدؒ نے ملتان کے ایک گوشہ تنہائی میں شدید ریاضتیں کیں اور روحانیت کے بلند درجے پر فائز ہوئے۔
چونکہ سلطان بایزیدؒ اطلاع دیئے بغیر اپنا عہدہ چھوڑ کر چلے آئے تھے، اس لیے شہنشاہ شاہ جہاں کے حکم پر ان کی تلاش شروع ہوئی۔ دربارِ شاہی کے کارندے شورکوٹ پہنچے اور سلطان بایزیدؒ کی شریک حیات بی بی راستی کو شاہ جہاں کا حکم پڑھ کر سنایا۔ بی بی راستی کے دو حقیقی بھائی اسی وقت سلطان بایزیدؒ کی جستجو میں روانہ ہوگئے۔
ادھر ملتان میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ دریائے ستلج کے مشرقی کنارے اور بیکانیر کے ریگستان کے بارے میں راجہ مروٹ اور حاکم ملتان کے درمیان شدید تنازع کھڑا ہوگیا اور نوبت جنگ تک پہنچ گئی۔
سلطان بایزیدؒ کو اس واقعے کی خبر پہنچی تو آپ اپنے عبادت کے کمرے سے باہر آئے۔ جسم پر ہتھیار سجائے اور اپنی گھوڑی پر سوار ہوکر حاکم ملتان کے دربار میں پہنچے۔ ’’مناقب سلطانی‘‘ کے مصنف نے اس گھوڑی کا نام ’’سون پوری‘‘ تحریر کیا ہے۔
’’میں راجہ مروٹ کا مقابلہ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ دربار میں پہنچ کر سلطان بایزیدؒ نے کہا۔
حاکم ملتان اور دوسرے درباریوں نے آپ کو بڑی حیرت سے دیکھا۔ ’’سلطان بایزید! تم اکیلے راجہ مروٹ کا مقابلہ کس طرح کرو گے؟‘‘
’’چونکہ میں آپ کی دی ہوئی تنخواہ اکیلا ہی کھاتا رہا ہوں، اس لیے مقابلہ بھی تنہا کروں گا۔‘‘ سلطان بایزیدؒ کے لہجے میں جوش و غرور کے بجائے انکسار کا رنگ شامل تھا۔
سلطان بایزیدؒ کی بات سن کر درباری مسکرانے لگے مگر آپ نے ان لوگوں کے استہزائی طرزعمل پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ ’’بس! آپ ایک ایسے خدمت گار کو میرے ساتھ روانہ کردیں جو راجہ مروٹ کے علاقے کی طرف میری رہنمائی کرسکے۔‘‘ سلطان بایزیدؒ نے حاکم ملتان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’باقی کام اللہ پر چھوڑ یں۔ وہ جس طرح چاہے گا، میرے اور راجہ مروٹ کے درمیان معاملے طے کردے گا۔‘‘
حاکم ملتان نے اپنے ایک معتمد شہسوار کو سلطان بایزیدؒ کے ساتھ روانہ کردیا مگر یہ بات اس کی عقل سے بالاتر تھی کہ سلطان بایزید تن تنہا راجہ مروٹ کا مقابلہ کس طرح کریں گے؟
جب آپ مروٹ کے قریب پہنچے تو آپ نے اپنے رہنما ساتھی کو رخصت کردیا اور پھر سلطان بایزیدؒ اکیلے شہر کی طرف بڑھے۔ یہاں تک کہ قلعے کے نزدیک جا پہنچے۔ آپ کی ظاہری شخصیت پر کسی ایلچی کا گمان ہوتا تھا اس لیے پہریداروں نے قلعے کا دروازہ کھول دیا۔ سلطان بایزیدؒ گھوڑی کی لگام پکڑے ہوئے قلعے کے اندر داخل ہوئے اور پھر اپنی گھوڑی کو ایک طرف باندھ کر راجہ مروٹ کے دربار میں پہنچے۔ درباریوں نے بڑی حیرت سے ایک اجنبی مسلمان کو بے نیازانہ آگے بڑھتے ہوئے دیکھا مگر کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ آنے والے کو روک کر اس سے پوچھتے کہ تو کون ہے اور کس مقصد سے یہاں آیا ہے؟ یہ حضرت سلطان بایزید محمدؒ کا جلال روحانی تھا کہ حاضرین دربار کی زبانیں گنگ ہوکر رہ گئی تھیں۔ آپ بڑی استقامت کے ساتھ آگے بڑھے اور راجہ مروٹ کے تخت کے قریب پہنچ کر ٹھہر گئے۔
راجہ مروٹ نے بڑے تعجب سے ایک مسلح مسلمان کی طرف دیکھا۔ پھر غضب ناک لہجے میں بولا۔ ’’تم کون ہو اور تمہیں یہاں آنے کی اجازت کس نے دی؟‘‘
’’ہم اہل حق ہیں اور ہمیں اہل باطل سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘‘ یہ کہہ کر سلطان بایزیدؒ نے نیام سے تلوار کھینچ لی۔
اجنبی مسلمان کے بگڑے ہوئے تیور دیکھ کر راجہ مروٹ ہذیانی انداز میں چیخا۔ ’’بدبختو! اس ظالم کو روکو جو موت بن کر میرے سر پر آپہنچا ہے۔‘‘
راجہ مروٹ کی ہذیانی چیخیں سن کر مسلح محافظوں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی مگر وہ اپنی جگہ سے جنبش تک نہ کرسکے۔ حضرت سلطان بایزید محمدؒ برق کی طرح لپکے اور آپ نے ایک ہی وار میں راجہ مروٹ کا کام تمام کردیا۔ پھر اس کا کٹا ہوا سر لے کر اسی شان بے نیازی کے ساتھ واپس جانے لگے۔ حاضرین دربار اور راجہ مروٹ کے مسلح پہریدار پتھر کے مجسمے بن کر رہ گئے تھے۔ وہ کھلی آنکھوں سے اپنے حکمراں کا انجام دیکھ رہے تھے مگر اپنے اندر راجہ مروٹ کے قاتل کو پکڑنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔
جب حضرت سلطان بایزیدؒ، راجہ مروٹ کا کٹا ہوا سر لے کر قلعے کے دروازے کے قریب پہنچے تو محل میں کہرام برپا ہوگیا۔ قوت گویائی اور جسمانی حرکت سے محروم ہوجانے والے درباری چیختے ہوئے صدر دروازے کی طرف دوڑے۔ ’’راجہ کے قاتل کو روکو اور باہر جانے والے تمام راستے بند کردو۔‘‘
اس اثنا میں حضرت سلطان بایزیدؒ گھوڑی کی پشت پر سوار ہوچکے تھے۔ قلعے کے مکینوں کی چیخیں سن کر پہریداروں نے صدر دروازہ بند کردیا مگر جب حضرت سلطان بایزید محمدؒ دروازے کے قریب پہنچے تو وہ خودبخود کھل گیا۔ راجہ مروٹ کے مسلح شہسواروں نے حضرت سلطان بایزید محمدؒ کا بہت دور تک تعاقب کیا مگر آپ کی برق رفتار گھوڑی کفار کی دسترس سے محفوظ رہی اور کسی آندھی کے جھونکے کی طرح ملتان پہنچ گئی۔
حضرت سلطان بایزید محمدؒ نے راجہ مروٹ کا کٹا ہوا سر والیٔ ملتان کی خدمت میں پیش کردیا۔
’’مناقب سلطانی‘‘ میں یہ واقعہ اسی طرح تحریر کیا گیا ہے جس کے متعلق خود مصنف کا یہ بیان موجود ہے۔ ’’اگرچہ محالات کا ذکر کرنا اچھا نہیں لیکن معذور ہوں کیونکہ میں نے بزرگوں سے ایسا ہی سنا ہے۔‘‘
اسی کتاب میں دوسرے مقام پر درج ہے کہ حاکم ملتان کا لشکر ابھی راستے میں تھا کہ حضرت بایزید محمدؒ، راجہ مروٹ کا سر لے کر دربار میں پہنچے اور یہ عجیب کام ظہور میں آیا۔
بظاہر یہ ایک محیرالعقول واقعہ ہے جس کے بارے میں خود مصنف کو بھی خدشہ ہے کہ اسے پڑھ کر مخالفین نکتہ چینی کریں گے مگر کرامت اسی کو کہتے ہیں جو عادت کے خلاف ہو اور جسے سمجھنے سے انسانی عقل قاصر رہے۔
اس کے ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ حاکم ملتان اور راجہ مروٹ کے لشکروں کے درمیان خونریز جنگ ہوئی ہو اور ایک ملازم کی حیثیت سے حضرت سلطان بایزید محمدؒ اس جنگ میں شریک ہوئے ہوں اور آپ نے اپنی تلوار سے راجہ مروٹ کا سر کاٹ کر والیٔ ملتان کی خدمت میں پیش کیا ہو۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے پیر کی شان میں غلو کرنے والے مریدوں نے اصل واقعے کو ’’خرق عادت ‘‘ کا رنگ دے دیا ہو۔ بہرحال ہم نے دونوں صورتیں پیش کردی ہیں۔
راجہ مروٹ کے سر کاٹنے کی شہرت شاہ جہاں کے دربار تک پہنچی تو اس نے اپنے کارندوں کو ملتان بھیجا۔ ان لوگوں نے پہچان لیا کہ ی
وہی سلطان بایزید محمدؒ ہیں جو اپنا منصب چھوڑ کر روپوش ہوگئے تھے۔
کارندوں نے شاہ جہاں کو اطلاع دی تو دربار شاہی سے والیٔ ملتان کے نام حکم صادر ہوا۔ ’’بایزید محمد کو ان کے علاقے میں واپس بھیج دو تاکہ وہ دوبارہ اپنی ذمہ داریاں سنبھال سکیں۔‘‘
حاکم ملتان نے سلطان بایزید محمدؒ کو اپنے دربار میں طلب کیا اور فرمانروائے ہندوستان شاہ جہاں کا حکم پڑھ کر سنایا۔
جواب میں حضرت سلطان بایزید محمدؒ نے شہنشاہ شاہ جہاں کے نام ایک خط تحریر کیا۔ ’’میں والیٔ ہندوستان کی عنایاتِ خسروانہ کا تہہ دل سے قائل ہوں مگر اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ کمزور کاندھے اس بارگراں کو نہیں اٹھا سکیں گے، عمر گریزاں بھی خفا خفا سی معلوم ہوتی ہے۔ پتا نہیں کس وقت میرا ساتھ چھوڑ جائے، اس لیے مالک حقیقی کی بارگاہ کی طرف جارہا ہوں۔ اللہ مجھے توفیق عمل دے اور آپ کو اس حسن سلوک کے لیے جزائے خیر عطا کرے۔ مجھے دربار شاہی میں حاضر ہونے سے معذور تصور کیا جائے۔‘‘
فرمانروائے ہند شاہ جہاں نے سلطان بایزید محمدؒ کا خط پڑھا اور ان کے لیے مزید سرکاری خدمات موقوف کردیں۔ پھر بھی سابقہ خدمات کے صلے میں ایک پورا گائوں اور تقریباً پچاس ہزار بیگھے زمین حضرت سلطان بایزید محمدؒ کے نام کردی۔
کچھ دن بعد بی بی راستی کے دونوں بھائی بھی حضرت سلطان بایزید محمدؒ کو تلاش کرتے کرتے ملتان پہنچ گئے اور آپ سے گھر واپس چلنے کے لیے درخواست کی۔
جواب میں حضرت سلطان بایزید محمدؒ نے فرمایا۔ ’’تم اپنی بہن سے پوچھ کر بتائو کہ وہ کیا چاہتی ہیں؟ اگر بی بی راستی کی خواہش ہے تو میں گھر واپس آجائوں گا۔‘‘
حضرت سلطان بایزید محمدؒ کا پیغام لے کر آپ کے دونوں برادران نسبتی واپس آئے اور بی بی راستی کو صورت حال سے آگاہ کیا۔
اگر بی بی راستی چاہتیں تو سلطان بایزید محمدؒ کو گھر بلا سکتی تھیں مگر آپ ایک دیندار خاتون تھیں، اس لیے آپ نے شوہر کی خدمت میں حاضر ہونے کو ترجیح دی۔
اس وقت بی بی راستی حاملہ تھیں مگر اس کے باوجود آپ طویل سفر طے کرکے ملتان پہنچیں اور شوہر کو اس واقعے کی اطلاع دی۔ حضرت سلطان بایزید محمدؒ نے اسی دن کے لیے بے شمار دعائیں مانگی تھیں۔ آپ کو وارث کی آرزو تھی۔ بی بی راستی نے وارث کی آمد کی خبر دی تو حضرت سلطان بایزید محمدؒ سجدے میں چلے گئے۔ پھر نہایت جوش جذب کے عالم میں آیت مبارکہ تلاوت کرتے رہے جس کا ترجمہ ہے۔ ’’اور آپ بہتر وارث دینے والے ہیں۔‘‘ اس کے بعد حضرت سلطان بایزید محمدؒ شورکوٹ منتقل ہوگئے جو پرگنہ ملتان میں واقع ہے۔
٭…٭…٭
ابھی حضرت سلطان بایزید محمدؒ کو شورکوٹ میں قیام کئے چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک ایسے انعام سے نوازا کہ جس کے آگے ہندوستان کی بڑی سے بڑی جاگیر کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ دنیا کا اقتدار اور مال و متاع تو فتنے میں مبتلا کردینے والی چیزیں ہیں مگر خالق کائنات نے آپ کو ایک ایسی نعمت سے نوازا جس سے آخرت اور دنیا دونوں سنور جاتی ہیں اور نعمت عظیم تھے سلطان بایزید محمدؒ کے فرزند حضرت سلطان باہوؒ۔ اگرچہ قرآن کریم نے اولاد کو بھی فتنہ (آزمائش) قرار دیا ہے لیکن حضرت سلطان باہوؒ پیدائشی ولی تھے، اس لیے آپ کو والدین کے حق میں نعمت عظمیٰ قرار دیا جاسکتا ہے۔
حضرت سلطان باہوؒ شورکوٹ کے مقام پر 1039ھ میں پیدا ہوئے۔ یہ فرمانروائے ہندوستان شاہ جہاں کی حکومت کا آخری زمانہ تھا۔ عام طور پر باپ ہی اپنی اولادوں کے نام تجویز کرتا ہے مگر حضرت سلطان باہوؒ کا نام آپ کی والدہ محترمہ بی بی راستیؒ نے تجویز کیا تھا۔ چنانچہ حضرت سلطان باہوؒ اپنی تصنیف ’’عین الفقرا‘‘ میں ایک مقام پر اپنی والدہ ماجدہ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
رحمت حق برروان راستی
راستی از راستی آ راستی
(راستی کی جان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو۔ اے راستی! تو نے مجھے راستی (سچائی) سے آراستہ کیا)
پھر لکھتے ہیں کہ میری والدہ پر اللہ اپنا فضل کرے جنہوں نے میرا نام ’’باہو‘‘ رکھا جو ایک ہی نقطے سے ’’یاہو‘‘ ہوجاتا ہے۔
اکثر تذکرہ نگاروں کے مطابق حضرت سلطان باہوؒ پیدائشی ولی تھے۔ آپ کی ولایت کی پہلی پہچان یہ تھی کہ جب شیرخوارگی کے زمانے میں رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو حضرت سلطان باہوؒ نے روزے کے اوقات میں دودھ نہیں پیا۔ حضرت سلطان بایزیدؒ نے گھبرا کر کسی طبیب کو بلایا۔ طبیب نے ایک شیرخوار بچے کا معائنہ کیا۔
پھر اپنے تجربات کی روشنی میں حضرت سلطان بایزید محمدؒ کو بتایا۔ ’’بظاہر آپ کے فرزند کو کوئی بیماری نہیں ہے۔ کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ بچہ کسی وجہ کے بغیر دودھ نہیں پیتا۔ اگر مسلسل چوبیس گھنٹے تک بچے کی یہی کیفیت رہے تو مجھے بتایئے گا۔‘‘ یہ کہہ کر طبیب چلا گیا۔
حضرت سلطان باہوؒ نے دن بھر دودھ نہیں پیا۔ پھر جب افطار کے بعد نماز مغرب سے فارغ ہوکر بی بی راستی نے حضرت سلطان باہوؒ کو دودھ پلایا تو آپ نے ذوق و شوق سے پی لیا۔
دوسرے دن بھی یہی واقعہ پیش آیا۔ حضرت سلطان بایزید محمدؒ ایک بار پھر پریشان ہوکر طبیب کے پاس جانے لگے تو بی بی راستیؒ نے شوہر کو روکتے ہوئے فرمایا۔ ’’آپ پریشان نہ ہوں۔ آپ کا بیٹا کسی مرض میں مبتلا نہیں بلکہ اس کا روزہ ہے اور کوئی روزہ دار دن کے وقت کس طرح کھا پی سکتا ہے۔‘‘
حضرت سلطان بایزید محمدؒ نے بڑی حیرت سے شریک حیات کی بات سنی۔
’’آپ دیکھ لینا کہ افطار کے بعد آپ کا بیٹا باہو بھی دودھ پی لے گا۔‘‘ حضرت بی بی راستیؒ نے شوہر کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
اور پھر ایسا ہی ہوا۔ مغرب کے بعد حسب سابق حضرت سلطان باہوؒ نے پیٹ بھر کے دودھ پیا اور سلطان بایزید محمدؒ کو یقین آگیا کہ ان کا بیٹا پیدائشی ولی ہے۔ پھر یہ بات آس پاس کے علاقوں میں مشہور ہوگئی اور لوگ اس وقت حضرت سلطان باہوؒ کے چہرئہ مبارک کی زیارت کرنے کے لیے آنے لگے جب آپ شیر خوارگی کے زمانے سے گزر رہے تھے۔
٭…٭…٭
جب حضرت سلطان باہوؒ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے تو شورکوٹ میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ حضرت سلطان باہوؒ کی بچپن سے عادت تھی کہ آپ سر جھکا کر چلتے تھے لیکن اگر راستہ چلتے وقت آپ نے نظر اٹھا کر کسی مسلمان کو دیکھ لیا تو اس کے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا اور وہ بے اختیار ہوکر پکار اٹھتا تھا۔ ’’واللہ! یہ کوئی عام بچہ نہیں ہے۔ اس کی آنکھوں میں عجیب روشنی ہے۔ ایسی روشنی جو براہ راست دلوں کو متاثر کرتی ہے۔‘‘
اور اگر آپ کی نظر کسی بت پرست پر پڑ جاتی تو وہ اپنے آبائی مذہب کو فراموش کر بیٹھتا اور کلمۂ طیبہ پڑھ کر حلقۂ اسلام میں داخل ہوجاتا۔
جب اس طرح کے کئی واقعات پیش آئے تو مقامی ہندوئوں کی ایک جماعت حضرت سلطان بایزید محمدؒ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے حضرت سلطان باہوؒ کی شکایت کرنے لگی۔
’’آخر میرے معصوم بچے نے آپ لوگوں کا کیا بگاڑا ہے؟‘‘ حضرت سلطان بایزید محمدؒ نے ہندوئوں کی جماعت سے پوچھا۔ ’’یہ تو ابھی کسی پر ہاتھ اٹھانے کے قابل بھی نہیں ہے۔‘‘
’’اگر وہ ہم پر ہاتھ اٹھا لیتا تو زیادہ اچھا تھا۔‘‘ شورکوٹ کے ایک سرکردہ ہندو نے کہا۔
’’پھر تمہیں میرے بیٹے سے کیا گلہ ہے؟‘‘ حضرت سلطان بایزید محمدؒ نے حیران ہوکر پوچھا۔
’’آپ کا بچہ جس ہندو کو نظر بھر کے دیکھ لیتا ہے، وہ مسلمان ہوجاتا ہے۔‘‘ ہندوئوں کے سربراہ نے غمزدہ لہجے میں کہا۔ ’’آپ کے بچے کی وجہ سے شورکوٹ کے ہندوئوں کا مذہب خطرے میں پڑ گیا ہے۔‘‘
بڑی عجیب شکایت تھی۔ حضرت سلطان بایزید محمدؒ کچھ دیر تک سوچتے رہے۔ پھر ہندوئوں کی جماعت سے مخاطب ہوئے۔ ’’اب آپ ہی بتائیں کہ میں اس سلسلے میں کیا کرسکتا ہوں؟ کمزوری تو ان لوگوں کی ہے جو اپنا مذہب بدل دیتے ہیں۔ اس میں میرے بیٹے کا کیا قصور ہے؟ میں اسے نظر اٹھا کر دیکھنے سے کس طرح باز رکھ سکتا ہوں؟‘‘
’’قصور تو بچے کی دایہ کا ہے جو اسے وقت بے وقت بازار لے جاتی ہے۔‘‘ ہندوئوں کے سربراہ نے کہا۔
’’آپ لوگ بڑا عجیب مطالبہ کررہے ہیں۔‘‘ حضرت سلطان بایزید محمدؒ نے فرمایا۔ ’’دایہ کے بازار جانے پر کس طرح پابندی لگائی جاسکتی ہے؟‘‘
’’ہماری گزارش ہے کہ آپ بچے کی سیر کے لیے ایک وقت مقرر کردیں۔‘‘ شورکوٹ کے ہندوئوں نے درخواست کی۔
بالآخر حضرت سلطان بایزید محمدؒ نے سختی کے ساتھ دایہ کو ہدایت کردی کہ وہ ایک وقت مقررہ پر حضرت سلطان باہوؒ کو بازار لے جایا کرے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ ہندوئوں کی شکایت پر حضرت باہوؒ کے پیروں میں چھوٹی چھوٹی گھنٹیاں باندھ دی گئیں تاکہ اگر کبھی وہ وقت بے وقت گھر سے نکلیں تو لوگ گھنٹیوں کی آواز سن کر پہچان لیں کہ حضرت باہوؒ آرہے ہیں۔ بہرحال ہندوئوں کی جماعت مطمئن ہوکر چلی گئی مگر پھر بھی انہیں حضرت سلطان باہوؒ کی طرف سے ایک انجانا خوف لاحق رہتا تھا۔ پتا نہیں کب اس حق پرست بچے کی نظر اٹھے اور کسی ہندو کے ماتھے سے ’’چھاپ‘‘ اور ’’تلک‘‘ کے کافرانہ نشانات کھرچ ڈالے۔
شورکوٹ کے ہندوئوں نے ایک مومن کی نظر سے محفوظ رہنے کے لیے عجیب عجیب انتظامات کئے تھے۔ کئی لوگوں کو خاص طور پر اس لیے ملازم رکھا گیا تھا کہ جب حضرت سلطان باہوؒ کی ملازمہ آپ کو لے کر بازار کی طرف آئے تو وہ لوگ بہ آواز بلند اعلان کردیں۔ چنانچہ حضرت سلطان باہوؒ جب بھی اپنی خادمہ کے ساتھ بازار کی طرف روانہ ہوتے، ہندوئوں کے نقیب شور مچانے لگتے۔ ’’ہوشیار ہوجائو! بچہ بازار کی طرف آرہا ہے۔‘‘
جیسے ہی یہ شور بلند ہوتا، تمام ہندو اپنی اپنی دکانوں میں گھس کر دروازے بند کرلیتے تاکہ حضرت سلطان باہوؒ کی انقلاب آفریں نظر سے محفوظ رہ سکیں۔ راستہ چلنے والے ہندو بھی نقیبوں کی آوازیں سن کر ہوشیار ہوجاتے تھے۔ انہیں شورکوٹ کے پنڈتوں کی طرف سے ہدایت تھی کہ یہ بچہ جہاں بھی نظر آجائے، اس کی طرف دیکھنے سے گریز کریں اور پیٹھ موڑ کر کھڑے ہوجائیں۔ الغرض اس قدر بندشوں اور احتیاطوں کے باوجود جب بھی کوئی بت پرست، حضرت سلطان باہوؒ کی نظر کی زد میں آجاتا، وہ مسلمان ہوئے بغیر نہ رہتا۔
تذکرہ نگاروں کے بیان کے مطابق شورکوٹ اور دوسرے علاقوں کے سیکڑوں ہندو اس طرح مسلمان ہوئے کہ حضرت سلطان باہوؒ نے انہیں ایک نظر دیکھا اور وہ اپنے ماتھوں سے قشقہ کھرچ اور زنار
(گردن میں پڑا ہوا دھاگا) توڑ کر کلمۂ طیبہ پڑھنے لگے۔ یہ حضرت سلطان باہوؒ کی سب سے بڑی کرامت تھی۔ آپؒ کی آنکھوں کی یہ انقلاب آفریں روشنی، سرورِ کونین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پاک کے مطابق تھی۔ ’’مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ نے حضرت سلطان باہوؒ کی آنکھوں کو یہ نور پیدائشی طور پر بخشا تھا۔
٭…٭…٭
کسی معتبر کتاب سے پتا نہیں چلتا کہ حضرت سلطان باہوؒ نے ظاہری تعلیم کہاں سے حاصل کی اور آپ کے اساتذہ کون تھے۔ بعض تذکرہ نگاروں کے خیال میں آپ ظاہری علوم سے بے بہرہ تھے۔ شاید اس قیاس آرائی کی وجہ یہ ہو کہ خود حضرت سلطان باہوؒ نے اپنے ظاہری علم کی نفی کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ ’’مجھے ظاہری علم حاصل نہیں تھا لیکن واردات غیبی کے سبب علم باطن کی فتوحات اس قدر تھیں کہ انہیں بیان کرنے کے لیے کئی دفتر درکار ہیں۔‘‘
ایک اور موقع پر حضرت سلطان باہوؒ نے اپنے ایک شعر میں علم ظاہری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ ’’اگرچہ میں ظاہری علوم سے محروم ہوں لیکن علم باطنی نے میری زندگی پاک کردی ہے۔‘‘
آپ کے اسی قول مبارک کی بنیاد پر تذکرہ نگاروں کو مغالطہ ہوا کہ حضرت سلطان باہوؒ ظاہری علوم سے ناواقف تھے مگر جب ہم آپ کی کتابوں کی طویل فہرست دیکھتے ہیں تو خودبخود اس بات کی نفی ہوجاتی ہے کہ حضرت سلطان باہوؒ نے اپنے زمانے کے مروجہ علوم حاصل نہیں کئے تھے۔
آپ کی تصانیف میں عین الفقر کبیر، عین الفقر صغیر، عقل بیدار کبیر، عقل بیدار صغیر، مجالستہ النبی، اسرار قادری، توفیق الہدایت، شمس العارفین، رسالہ روحی اورنگ شاہی، امیر الکونین، دیوان اردو، دیوان فارسی اور دیوان پنجابی زیادہ شہرت رکھتی ہیں۔ تمام مستند تذکرہ نگاروں کے مطابق حضرت سلطان باہوؒ کی تصانیف کی تعداد ایک سو چالیس سے لے کر ایک سو پچاس تک ہے۔ اتنی کتابوں کا مصنف ظاہری علوم سے کس طرح بے بہرہ ہوسکتا ہے۔
بعض تذکرہ نگاروں نے حضرت سلطان باہوؒ کی عربی تصانیف کا بھی حوالہ دیا ہے۔ ان تمام روایتوں کی روشنی میں ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت سلطان باہوؒ عربی، فارسی، اردو اور پنجابی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ ایک ولی کے لیے جہاں روحانی کمالات ضروری ہوتے ہیں، وہاں اس کے لیے اپنے علاقے اور عہد کی زبانوں سے آگاہی حاصل کرنا بھی لازمی ہوتا ہے۔ اگرچہ روحانیت کی کوئی زبان نہیں ہوتی، اس کی زبان سے ناآشنا ہونے کے باوجود عوام الناس ایک مردِ حق کو پہچان لیتے ہیں اور وہ جو پیغام دینا چاہتا ہے، اسے آسانی سے سمجھ لیتے ہیں مگر کبھی کبھی وہ لمحات بھی آجاتے ہیں جب پیغام حق دینے کے لیے ایک ولی کو غیرمذہب و ملت کے لوگوں سے مخاطب ہونا پڑتا ہے۔ انہیں روحانیت کے اسرار و رموز ان ہی کی زبان میں سمجھانے پڑتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے پیغام حق سنانے کے لیے ہندوستان کے صنم خانوں کی طرف رخ کیا تو آپ نے چار سال تک ملتان میں قیام فرمایا اور اس دوران سنسکرت اور ہندی زبان کی تعلیم حاصل کی۔ اس وقت یہی سنسکرت اور ہندی ہندوستان کی سرکاری اور عوامی زبانیں تھیں۔ پھر آپ اہل باطل سے ان ہی کی زبان میں مخاطب ہوئے۔
اسی طرح حضرت سلطان باہوؒ نے بھی اپنے دور کی مروجہ زبانوں پر دسترس حاصل کی مگر یہ بات پایہ ثبوت کو نہ پہنچ سکی کہ ان علوم میں آپ کے اساتذہ کون تھے۔ حضرت سلطان باہوؒ نے اپنے کلام اور ملفوظات میں علوم ظاہری سے محروم ہونے کا جو اعلان کیا ہے، اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ آپ نے حدیث، فقہ، منطق اور ریاضی وغیرہ کی تعلیم اس انداز میں حاصل نہیں کی جیسا کہ زمانۂ سابق کا دستور تھا اس لیے آپ نے فرمایا تھا۔ ’’اگرچہ میں ظاہری علوم سے محروم ہوں لیکن علم باطنی نے میری زندگی پاک کردی ہے۔‘‘
٭…٭…٭
اور جہاں تک علوم باطنی حاصل کرنے کا معاملہ ہے تو حضرت سلطان باہوؒ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی راستیؒ اپنے وقت کی بہت بڑی عابدہ تھیں۔ آپ نے بہت دن تک مادرگرامی سے اکتساب فیض کیا۔ پھر ایک دن وہ منزل بھی آگئی کہ حضرت سلطان باہوؒ باقاعدہ بیعت کے لیے والدہ محترمہ سے درخواست گزار ہوئے۔
جواب میں حضرت بی بی راستیؒ نے فرمایا۔ ’’فرزند! میرے دامن میں جتنی دعائیں تھیں، وہ سب تمہاری بھلائی مانگنے میں صرف ہوگئیں مگر میں تمہیں اپنا مرید نہیں بنا سکتی۔‘‘
حضرت سلطان باہوؒ والدہ ماجدہ کی محبت میں غرق تھے، اس لیے حیران ہوکر عرض کرنے لگے۔ ’’آخر اس میں کیا حرج ہے۔ آپ جیسی شفیق و مہربان ماں سے بہتر مرشد کون ہوسکتا ہے؟‘‘
’’یہ تمہاری شدید محبت اور سعادت مندی ہے مگر ہمارے مذہب کے چند بنیادی اصول ہیں جنہیں کوئی صحیح العقیدہ مسلمان تبدیل کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘ حضرت بی بی راستیؒ نے فرمایا۔ ’’تمہاری نظروں میں میرا درجہ کتنا ہی بلند سہی مگر ایک عورت روحانی پیشوائی کے منصب پر فائز نہیں ہوسکتی۔ تمہیں اپنی روحانیت کی تکمیل کے لیے کسی مرشد کامل کے آستانے پر حاضری دینی ہوگی۔ وہی مردِ حق تمہیں معرفت کے بقیہ رمز سمجھائے گا۔ میرے پاس جس قدر سرمایہ تھا، وہ سب میں نے تم پر لٹا دیا۔‘‘
مادر گرامی کا جواب سن کر حضرت سلطان باہوؒ مرشد کی تلاش میں گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔
٭…٭…٭
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ حضرت سلطان باہوؒ کی معاشرتی زندگی ان صوفیاء کی طرح نہیں تھی جو تجرد کی زندگی بسر کرتے ہیں یا پھر ویران جنگلوں یا سنسان غاروں میں چلہ کش ہوجاتے ہیں۔ مرشد کی جستجو میں روانہ ہونے سے پہلے حضرت سلطان باہوؒ تین شادیاں کرچکے تھے اور ظاہری طور پر یہ سنت کی تکمیل تھی۔ آپ کو والد محترم کی طرف سے ورثے میں ایک گائوں اور پچاس ہزار بیگھے زمین ملی تھی، اس لیے آپ آسودہ زندگی بسر کررہے تھے مگر پھر بھی روح میں ایک اضطراب پوشیدہ تھا جس کی وجہ سے آپ مردانِ حق کی صحبتیں ڈھونڈتے تھے۔
حضرت سلطان باہوؒ مختلف بزرگوں کے مزاراتِ مبارکہ پر حاضری دیتے ہوئے حضرت مخدوم بہاء الدین زکریاؒ کے آستانہ عالیہ پر حاضر ہوئے۔ بہت دیر مراقبے کی حالت میں بیٹھے رہے۔ اسی دوران حضرت سلطان باہوؒ پر نیند کا غلبہ ہوگیا۔
آپ نے خواب کی حالت میں دیکھا۔ سامنے حضرت مخدوم بہاء الدین زکریا ملتانیؒ تشریف فرما تھے۔ ’’مجھے حضرت غوث اعظمؒ کی بارگاہ سے حکم ہوا ہے کہ تمہاری دلداری کروں۔‘‘ حضرت مخدوم بہاء الدین زکریا ملتانیؒ نے حضرت سلطان باہوؒ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’فرزند! مجھے بتائو کہ تمہیں کس چیز کی ضرورت ہے؟‘‘
’’مخدوم! مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔‘‘ حضرت سلطان باہوؒ نے عرض کیا۔
’’جب آئے ہو تو خالی ہاتھ کیسے جائو گے؟‘‘ حضرت مخدوم بہاء الدین زکریا ملتانیؒ نے فرمایا۔
’’میں کسی چیز کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔‘‘ حضرت سلطان باہوؒ نے نہایت ادب و احترام کے ساتھ عرض کیا۔ ’’بس آپ کے چہرئہ مبارک کی زیارت منظور تھی، سو مقصد حاصل ہوگیا۔‘‘
حضرت مخدوم بہاء الدین زکریا ملتانیؒ نے تیسری بار فرمایا۔ ’’فرزند! اپنی حاجت بیان کرو؟‘‘
حضرت سلطان باہوؒ نے عرض کیا۔ ’’مخدوم! اگر ایسا ہی ہے تو پھر اپنے شہر سے کسی پاکیزہ آدمی کا بازو عطا کیجئے۔‘‘
’’اِن شاء اللہ تمہاری یہ خواہش بہت جلد پوری ہوجائے گی۔‘‘ حضرت مخدوم بہاء الدین زکریا ملتانیؒ نے فرمایا اور تشریف لے گئے۔
حضرت سلطان باہوؒ کی آنکھ کھلی تو آپ نے حضرت مخدوم بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کی روح کو ایصال ثواب کیا اور مزار مبارک کے احاطے سے باہر نکل آئے، پھر شمال کی جانب روانہ ہوگئے۔
ظہر کی نماز کا وقت آیا تو حضرت سلطان باہوؒ نے دریا کے کنارے وضو کیا۔ ابھی آپ نماز کی نیت باندھنا ہی چاہتے تھے کہ آپ کو اپنی پشت کی طرف کسی متنفس کی موجودگی کا احساس ہوا۔ حضرت سلطان باہوؒ نے پلٹ کر دیکھا۔ ایک خوبصورت ہندو دوشیزہ ہاتھ میں جوتے لیے ہوئے کھڑی تھی۔
حضرت سلطان باہوؒ نے فوراً نظریں جھکا لیں اور نامحرم خاتون سے پوچھا۔ ’’تم کون ہو اور یہاں کیوں آئی ہو؟‘‘
’’آپ کے پیچھے چلتے چلتے میرے پائوں آبلوں سے بھر گئے ہیں۔‘‘ ہندو دوشیزہ نے اپنی حالت زار بیان کرتے ہوئے عرض کیا۔
’’خاتون! آخر تمہیں میرے تعاقب کی ضرورت کیوں پیش آئی؟‘‘ حضرت سلطان باہوؒ نے بدستور نظریں جھکائے ہوئے دریافت کیا۔
’’میں ملتان کے ساہوکار کی بیٹی ہوں۔‘‘ ہندو دوشیزہ نے عرض کیا۔ ’’بہت دنوں سے میرے دل میں ایک عجیب سی خلش تھی۔ مجھے اپنے ہم مذہبوں کی پوجا کا یہ انداز پسند نہیں تھا کہ انسان ہوتے ہوئے پتھر کے مجسموں کے آگے سر جھکا دوں۔ پھر یہی خلش مجھے حضرت غوث الملک (مخدوم بہاء الدین زکریاؒ) کے مزار مبارک پر لے گئی۔ میں نے یہاں کے مسلمانوں سے سنا ہے کہ غوث الملکؒ کے دربار سے بے شمار لوگ فیضیاب ہوچکے ہیں۔ میں بھی اپنے دل میں یہی خواہش لے کر آئی تھی کہ شاید میرا مقدر بھی جاگ جائے۔‘‘
حضرت سلطان باہوؒ نے آسمان کی طرف دیکھا اور پھر فرمایا۔ ’’کہیں ظہر کا وقت تنگ نہ ہوجائے، اس لیے تم تھوڑا سا انتظار کرلو۔ میں نماز ادا کرلوں پھر تمہارے خلش و اضطراب کا حال سنوںگا۔‘‘ یہ کہہ کر حضرت سلطان باہوؒ نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔
ہندو دوشیزہ بہت قریب سے ایک مردِ مومن کی عبادت کے انداز دیکھتی رہی۔ اسے یہ سب رکوع و سجود بہت عجیب معلوم ہورہے تھے۔
پھر جب حضرت سلطان باہوؒ نماز سے فارغ ہوگئے تو آپؒ نے ہندو دوشیزہ سے پوچھا۔ ’’تمہاری ذہنی خلش اور تڑپ اپنی جگہ مگر تم مجھ سے کیا چاہتی ہو؟‘‘
’’ایک داسی (کنیز) اپنے مالک سے اس کے سوا اور کیا چاہے گی کہ وہ اسے اپنے قدموں میں پڑا رہنے دے۔‘‘ ہندو دوشیزہ نے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے عرض کیا۔ ’’میں نے آپ کو غوث الملکؒ (حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ) کے مزار مبارک میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا تھا، پھر جب آپ باہر تشریف لائے تو میں آپ کا چہرہ دیکھتے ہی مسلمان ہوگئی کیونکہ مجھے غوث الملکؒ کے دربار سے حکم ملا تھا کہ میں آپ کی لونڈی بن جائوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں ایک داسی کی طرح اپنے مالک کے پیچھے پیچھے چل رہی ہوں۔‘‘
ہندو دوشیزہ کا بیان سن کر حضرت سلطان باہوؒ کو شدید حیرت ہوئی۔ پھر آپ نے کچھ دیر مراقبہ
فرمایا۔ مراقبے کے دوران ہی حضرت سلطان باہوؒ کو اپنے الفاظ یاد آئے جب آپ نے حضرت مخدوم بہاء الدین زکریاؒ کی جناب میں عرض کیا تھا۔ ’’مخدوم! اگر ایسا ہی ہے تو اپنے شہر سے کسی پاکیزہ آدمی کا بازو عطا کیجئے۔‘‘
یہ خیال آتے ہی حضرت سلطان باہوؒ نے ہندو دوشیزہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’جب غوث الملک کا حکم ہے تو یہ خادم اسے کیسے ٹال سکتا ہے۔ تم مطمئن ہوجائو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمہاری منزل تک پہنچا دیا۔‘‘
اس کے بعد حضرت سلطان باہوؒ نے ہندو دوشیزہ کو کلمۂ طیبہ کی تلقین کی۔ پھر جب وہ لڑکی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور خاتم النبین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرچکی تو حضرت سلطان باہوؒ اسے اپنے ہمراہ لے کر شہر کی طرف آئے اور اس علاقے کے اکابرین کی موجودگی میں آپ نے اس سے نکاح کرلیا۔ پھر اپنے آبائی وطن شورکوٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔
٭…٭…٭
حضرت سلطان باہوؒ کی والدہ ماجدہ خود بھی ایک صاحب کشف خاتون تھیں۔ آپ حضرت سلطان باہوؒ کی تینوں بیویوں کو مخاطب کرکے اکثر فرمایا کرتی تھیں۔ ’’میرا بیٹا تمہارے لیے ایک اور سوکن لے آئے گا مگر تم رنجیدہ خاطر نہ ہونا کہ تمہارا شوہر ایک ولی ہے اور اسی کے ذریعے تمہیں نجات حاصل ہوگی۔‘‘
حضرت بی بی راستیؒ کا ارشاد سن کر حضرت سلطان باہوؒ کی تینوں بیویاں سر تسلیم خم کردیتی تھیں۔ پھر جس دن حضرت سلطان باہوؒ نے چوتھی عورت کو اپنے نکاح میں داخل کیا تو آپ نے تینوں بہوئوں کو مخاطب کرکے فرمایا۔ ’’تم آزردہ خاطر نہ ہونا کہ میرا بیٹا تمہاری ایک اور سوکن لے کر آرہا ہے۔‘‘
حضرت سلطان باہوؒ کی تینوں بیویاں حیران ہوئیں کہ ان کے شوہر تو تلاش مرشد میں نکلے ہیں، پھر یہ سوکن کہاں سے آگئی؟ دراصل ان عورتوں کو حضرت بی بی راستیؒ کی قوت کشف کا اندازہ نہیں تھا۔ وہ انہیں محض ایک مہربان اور نیک دل ساس سمجھتی تھیں۔
پھر جب حضرت سلطان باہوؒ اپنی نئی شریک حیات کو لے کر والدہ ماجدہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت بی بی راستیؒ نے نہایت ناخوشگوار لہجے میں فرمایا۔ ’’باہو! کیا تجھے اللہ تعالیٰ نے بہت سی عورتیں جمع کرنے کے لیے پیدا کیا ہے یا تیری پیدائش کا مقصد کچھ اور ہے؟‘‘
والدہ ماجدہ کی تلخ گفتگو سن کر حضرت سلطان باہوؒ کچھ گھبرا گئے۔ آپ نے پوچھا۔ ’’پھر آپ ہی بتایئے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کس کام کے لیے پیدا کیا ہے؟‘‘
’’اپنی معرفت کے لیے، نہ کہ بہت سی شادیاں کرنے کے لیے۔‘‘ حضرت بی بی راستیؒ نے فرمایا۔ آپ کے چہرئہ مبارک پر ناخوشگواری کے آثار صاف نمایاں تھے۔
’’اُم محترم! مجھے معرفت الٰہی حاصل ہے۔‘‘ حضرت سلطان باہوؒ نے بصد احترام عرض کیا۔
جواب میں آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی راستیؒ نے فرمایا۔ ’’جب تک کسی مرشد کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دو گے، تمہیں معرفت حاصل نہیں ہوگی۔‘‘
’’اب آپ ہی بتائیں کہ میں اپنے مرشد کو کہاں تلاش کروں؟‘‘
والدہ ماجدہ نے فرمایا۔ ’’روئے زمین پر ڈھونڈو۔‘‘
حضرت سلطان باہوؒ نے عرض کیا۔ ’’اُم محترم! اللہ کی زمین تو بہت وسیع ہے۔‘‘
حضرت بی بی راستیؒ نے فرمایا۔ ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنی زمین کو بہت وسعت بخشی ہے مگر اس کے ساتھ ہی اپنے بندوں کے حوصلے بھی بہت بلند کئے ہیں۔ انہیں نہ صرف ذوق جستجو عطا کیا ہے بلکہ زمین کو ان کے لیے مسخر بھی کردیا ہے۔‘‘
’’پھر بھی کچھ تو نشاندہی فرمایئے۔‘‘ حضرت سلطان باہوؒ نے عرض کیا۔
حضرت بی بی راستیؒ نے مراقبہ کیا اور پھر فرزند کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’اس طرف سے تمہارے مرشد کی خوشبو آتی ہے۔‘‘ حضرت بی بی راستیؒ نے مشرق کی طرف اشارہ کیا تھا۔
بالآخر حضرت سلطان باہوؒ اپنی والدہ محترمہ کی دعائوں کے سائے میں مشرق کی طرف روانہ ہوگئے۔
٭…٭…٭
حضرت سلطان باہو شورکوٹ سے رخصت ہوکر دریائے راوی کے کنارے پہنچے۔ یہاں آپ نے مقامی لوگوں سے ایک بزرگ حضرت شاہ حبیب اللہ قادری کے بارے میں سنا۔ حضرت شاہ صاحب کی بہت سی کرامات مشہور تھیں۔ حضرت سلطان باہوؒ کو آپ کی ذات میں ایک خاص کشش محسوس ہوئی۔
حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ پنجاب کے ایک گائوں بغداد میں رہتے تھے مگر اب یہ گائوں پاکستان کے نقشے پر موجود نہیں۔ حضرت سلطان باہوؒ نے مقامی باشندوں سے بغداد گائوں کا پتا پوچھا اور حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔
اس وقت حضرت شاہ صاحبؒ کی مجلس روحانی میں سیکڑوں طالبانِ حق موجود تھے۔ حضرت سلطان باہوؒ بھی ادب اور خاموشی کے ساتھ مجلس میں بیٹھ گئے۔ بہت دیر تک حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ کا درس جاری رہا۔
پھر حضرت سلطان باہوؒ نے اس خانقاہ کی ایک عجیب رسم دیکھی۔ (جاری ہے)