اس خانقاہ میں ایک دیگ تھی جس کے نیچے ہر وقت آگ جلتی رہتی تھی اور ہلکی آنچ پر دیگ کا پانی چوبیس گھنٹے گرم رہتا تھا۔ جب کوئی طالبان حق آتا تو حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ اسے دیگ کے پانی میں ہاتھ ڈالنے کا حکم دیتے۔ پھر جیسے ہی وہ شخص پانی میں ہاتھ ڈالتا، صاحب کشف ہوجاتا۔
اس روز بھی کئی طالبان حق حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ درس کے بعد حضرت شاہ صاحبؒ نے ان لوگوں کو دیگ کے گرم پانی میں ہاتھ ڈالنے کا حکم دیا۔ طالبان حق آگے بڑھے اور کسی جھجک کے بغیر ان حضرات نے پانی میں ہاتھ ڈال دیا۔ حضرت سلطان باہوؒ نے بہت غور سے یہ منظر دیکھا۔ گرم پانی سے ان لوگوں کے ہاتھوں کو کسی قسم کا گزند نہیں پہنچا۔ یہی حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ کی مشہور کرامت تھی کہ پانی میں ہاتھ ڈالتے ہی طالب حق صاحب کشف ہوجاتا تھا۔
حضرت سلطان باہوؒ کو خاموش بیٹھا دیکھ کر حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ نے فرمایا۔ ’’صاحبزادے! تم یہاں کس مقصد کے لیے آئے ہو؟‘‘
حضرت سلطان باہوؒ نے بصد احترام عرض کیا۔ ’’تلاش حق میں گھر سے نکلا ہوں۔ حضرت کے کمالات روحانی کا شہرہ سنا تو حاضر ہوگیا۔‘‘
’’بندئہ خدا! تم خاموش کیوں بیٹھے ہو؟‘‘ حضرت سلطان باہوؒ کی عرضداشت سن کر حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ نے فرمایا۔ ’’تم نے دوسرے لوگوں کی طرح دیگ میں ہاتھ کیوں نہیں ڈالا؟ اگر ایسا کرتے تو بامراد ہوجاتے۔‘‘
حضرت سلطان باہوؒ نے نہایت ادب کے ساتھ عرض کیا۔ ’’میں دیگ میں ہاتھ ڈالنے والوں کا حال دیکھ رہا تھا، اس سے میری مراد پوری نہیں ہوتی۔‘‘
حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ نے نووارد کوچۂ معرفت کا جواب سنا اور بڑی حیرت سے حضرت سلطان باہوؒ کی طرف دیکھا۔ ’’پھر کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’میں تو کسی اور ہی منزل کی تلاش میں ہوں۔‘‘ حضرت سلطان باہوؒ نے عرض کیا۔
’’تو پھر اے درویش! چند روز خانقاہ میں ٹھہرو۔‘‘ حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ نے فرمایا۔ ’’کچھ دن مجاہدہ کرو اور اس دوران مسجد کا پانی بھرو۔‘‘
٭…٭…٭
حضرت سلطان باہوؒ نے وہ رات حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ کی خانقاہ میں بسر کی۔ پھر دوسرے دن خانقاہ کے منتظمین سے پانی بھرنے کے لیے مشک طلب کی۔
اس کے بعد حضرت سلطان باہوؒ مشک لے کر دریا کے کنارے پہنچے۔ مشک کو پانی سے لبریز کیا اور خانقاہ میں حاضر ہوئے۔ پھر ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ حضرت سلطان باہوؒ نے ایک ہی مشک میں پورا حمام بھر دیا جبکہ حمام کو بھرنے کے لیے کئی مشکوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ باقی پانی سے آپ نے مسجد کا پورا صحن دھو دیا۔
خانقاہ کے منتظمین بڑی حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ ایک خادم نے اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ واقعہ بیان کیا۔ ’’شیخ! اس نوجوان نے تو ایک ہی مشک میں پورا حمام بھر دیا۔‘‘
حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ کچھ دیر تک خاموش رہے۔ پھر خادم سے فرمایا۔ ’’اس نوجوان کو میرے پاس بھیج دو۔‘‘
حضرت سلطان باہوؒ، حضرت حبیب اللہ قادریؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو شاہ صاحبؒ نے فرمایا۔ ’’نوجوان! کیا تمہارے پاس دنیاوی مال و متاع ہے؟‘‘
حضرت سلطان باہوؒ نے عرض کیا۔ ’’مجھے والد محترم کی طرف سے زمینی جاگیر ورثے میں ملی ہے۔‘‘
’’مال و متاع کی موجودگی میں تم راہِ حق کی دشوار مسافت کس طرح طے کرسکتے ہو؟‘‘ حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ نے فرمایا۔
’’تو پھر میرے لیے کیا حکم ہے؟‘‘ حضرت سلطان باہوؒ نے عرض کیا۔
’’مالِ دنیا کے ہوتے ہوئے تمہیں یکسوئی قلب حاصل نہیں ہوسکتی۔‘‘ حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ نے فرمایا۔ ’’پہلے مال و متاع سے فارغ ہوجائو، پھر یکسوئی اختیار کرو۔‘‘
حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ کے حکم پر عمل کرنے کے لیے حضرت سلطان باہوؒ اپنے آبائی وطن شورکوٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔
٭…٭…٭
ابھی حضرت سلطان باہوؒ راستے میں تھے کہ آپ کی والدہ محترمہ حضرت بی بی راستیؒ نے اپنی چاروں بہوئوں کو طلب کرکے فرمایا۔ ’’تم لوگ ہوشیار ہوجائو۔‘‘
حضرت سلطان باہوؒ کی بیویوں نے گھبرا کر ساس محترمہ کی طرف دیکھا۔ ’’آپ کس خطرے کی طرف اشارہ کررہی ہیں؟‘‘
’’میرا بیٹا اور تمہارا شوہر سلطان باہوؒ آرہا ہے۔‘‘ حضرت بی بی راستیؒ نے فرمایا۔
بیویوں کے چہروں پر خوشی کا گہرا رنگ نمایاں ہوگیا۔ ’’اُم محترم! یہ تو بڑی خوشخبری ہے۔‘‘
’’تمہارے لیے خوشی کی کوئی خبر نہیں۔‘‘ حضرت بی بی راستیؒ نے اپنی بہوئوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’باہو اپنے پیر و مرشد کے حکم پر سارا مال و متاع لٹانے آرہا ہے۔‘‘
حضرت سلطان باہوؒ کی بیویاں نیک تھیں مگر تارک الدنیا نہیں تھیں کہ مادّی دولت سے خوشی کے ساتھ دستبردار ہوجاتیں۔ اس لیے ان کے چہروں سے پریشانی کے آثار جھلکنے لگے۔
’’بہتر یہی ہے کہ تم اپنی نقدی اور زیور بچا لو۔‘‘ حضرت بی بی راستیؒ نے بہوئوں کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا۔ ’’برا وقت کہہ کر نہیں آتا۔ اگر تم میری نصیحت پر عمل کرو گی تو یہی مال و متاع تمہارے کام آئے گا۔‘‘
’’مگر ہم اپنی نقد رقم اور زیورات کو کس طرح بچا سکتے ہیں؟‘‘ حضرت سلطان باہوؒ کی چاروں بیویوں نے بیک زبان عرض کیا۔ ان کی سمجھ میں کوئی ترکیب نہیں آرہی تھی۔
’’تم سب لوگ اپنی نقدی اور زیورات کسی ایسی جگہ دبا دو جہاں باہو کی نظر نہ پہنچ سکے۔‘‘ حضرت بی بی راستیؒ نے بہوئوں کو مشورہ دیا۔
حضرت سلطان باہوؒ کی بیویوں نے ایسا ہی کیا اور سارے خطرات سے بے نیاز ہوکر شوہر کا انتظار کرنے لگیں۔
کچھ دن بعد حضرت سلطان باہوؒ شورکوٹ پہنچے اور والدہ محترمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
’’باہو! تم اتنی جلدی کیسے لوٹ آئے؟‘‘ حضرت بی بی راستیؒ نے فرزند سے پوچھا۔ ’’کیا تمہیں کوئی مرشد نہیں مل سکا؟‘‘
’’مرشد تو مل گیا ہے مگر شیخ نے بیعت کرنے کے لیے ایک کڑی شرط رکھی ہے۔‘‘ حضرت سلطان باہوؒ نے عرض کیا۔
’’کیسی شرط؟‘‘ حضرت بی بی راستیؒ نے پوچھا۔ اگرچہ آپ اپنے کشف کے سبب صورت حال سے باخبر تھیں مگر حضرت سلطان باہوؒ کی آزمائش کے لیے آپ نے یہ سوال کیا تھا۔
’’مرشد کا حکم ہے کہ پہلے مال و متاع دنیا سے نجات حاصل کرلوں۔‘‘ حضرت سلطان باہوؒ نے عرض کیا۔
’’فرزند! حکم شیخ پر عمل کرو۔‘‘ حضرت بی بی راستیؒ نے فرمایا۔
حضرت سلطان باہوؒ نے اپنے فرزند اکبر نور محمدؒ کی طرف دیکھا جو گہوارے میں سوئے ہوئے تھے۔ نظربد سے بچانے کے لیے ان کی انگلی میں سونے کی انگوٹھی ڈال دی گئی تھی۔ حضرت سلطان باہوؒ نے آگے بڑھ کر شیرخوار بچے کی انگلی سے وہ انگوٹھی اتار لی اور اسے اپنے مکان کے پیچھے گلی میں پھینک دی۔
’’مناقب سلطان‘‘ کی روایت کے مطابق حضرت سلطان باہوؒ نے سونے کی انگوٹھی گلی میں پھینکنے کے بعد اپنی بیویوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’اگر گھر میں کچھ اور مال و متاع ہے تو وہ بھی لے آئو تاکہ میں اس سے نجات حاصل کرسکوں۔‘‘
بیویاں اس صورت حال سے بہت پریشان تھیں۔ وہ شوہر کی بات کا کوئی جواب نہ دے سکیں۔ ان کی جگہ حضرت بی بی راستیؒ نے فرمایا۔ ’’اس گھر میں مال کہاں؟‘‘
حضرت سلطان باہوؒ نے نہایت ادب و احترام کے ساتھ عرض کیا۔ ’’مادر گرامی! آپ فرماتی ہیں کہ یہاں مال کہاں… مگر مجھے تو اس گھر سے متاع دنیا کی بو آرہی ہے۔‘‘
حضرت بی بی راستیؒ نے بیٹے کی بات سن کر فرمایا۔ ’’باہو! اگر تمہیں اس گھر سے متاع دنیا کی بو آرہی ہے تو پھر خود ہی تلاش کرلو۔‘‘
حضرت سلطان باہوؒ گھر کے ایک سنسان سے گوشے میں تشریف لے گئے اور زمین میں دبا ہوا سارا زیور نکال کر مکان سے باہر پھینک دیا۔
٭…٭…٭
حضرت سلطان باہوؒ دوبارہ اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ ’’میں نے حکم شیخ پر تمام مال و زر لٹا دیا۔‘‘
’’ابھی تمہارے پیروں کی زنجیریں باقی ہیں۔‘‘ حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ نے فرمایا۔
’’مجھے حکم دیجئے۔‘‘ حضرت سلطان باہوؒ نے عرض کیا۔ ’’میں ان زنجیروں کو بھی کاٹ پھینکوں گا۔‘‘
’’وہ زنجیریں تمہاری بیویاں ہیں۔‘‘ حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ نے فرمایا۔ ’’تم اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرو گے یا اپنی بیویوں کے؟‘‘
’’بندے پر سب سے پہلا حق اللہ تعالیٰ کا ہے۔‘‘ حضرت سلطان باہوؒ نے نہایت جذب کے عالم میں فرمایا۔ ’’اہل دنیا کے حقوق بھی فرموداتِ الٰہی کے سبب ہیں۔ جب کوئی انسان اپنے خالق کے حقوق ادا نہ کرسکے تو پھر کسی حق کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔‘‘
حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ نے آپ کے ذوق آگہی کی تعریف کی اور فرمایا۔ ’’واپس جاکر اپنی بیویوں کو آزاد کردو تاکہ تمہیں مکمل یکسوئی حاصل ہوسکے اور تم پوری طرح راہِ حق پر چلنے کے لیے تیار ہوجائو۔‘‘
حضرت سلطان باہوؒ پر شوق دیدارِ الٰہی اس قدر غالب تھا کہ آپ اپنے پیروں کی زنجیریں کاٹنے پر آمادہ ہوگئے۔ پھر جب حضرت سلطان باہوؒ طویل سفر طے کرکے اپنے گھر کے نزدیک پہنچے تو حضرت بی بی راستیؒ نے آپ کی چاروں بیویوں کو جمع کرکے فرمایا۔ ’’اب کی بار میرا بیٹا تم لوگوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے آرہا ہے۔ پہلے اس نے مال دنیا سے پیچھا چھڑایا اور اب وہ تم سے اپنا دامن چھڑانا چاہتا ہے۔‘‘
ایک شادی شدہ عورت کے لیے دنیا میں طلاق سے زیادہ تکلیف دہ عمل کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔ حضرت بی بی راستیؒ کی زبانی یہ انکشاف سن کر حضرت سلطان باہوؒ کی ازواج مطہرات کے ہوش اُڑ گئے۔
حضرت بی بی راستیؒ نے اپنی بہوئوں کی پریشانی دیکھ کر فرمایا۔ ’’باہو بس آنے ہی والا ہے۔ تم لوگ میری پیٹھ کے پیچھے بیٹھ جائو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شوق معرفت کے سبب وہ تمہارے حق میں کوئی شرعی کلمہ اپنی زبان سے نکال دے۔‘‘ شرعی کلمے سے حضرت بی بی راستیؒ کی مراد طلاق کے الفاظ تھے۔
حضرت سلطان باہوؒ کی چاروں بیویاں اپنی محترم ساس کے عقب میں بیٹھ گئیں۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ حضرت سلطان باہوؒ گھر میں داخل ہوئے اور والدہ محترمہ کی خدمت میں سلام پیش کیا۔
اس سے پہلے کہ حضرت سلطان باہوؒ اپنے ارادے کی تکمیل کرتے، حضرت بی بی راستیؒ نے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’باہو! میںجانتی ہوں کہ تم کس ارادے سے آئے ہو؟‘‘
’’میرے مرشد کا یہی حکم ہے کہ میں اپنے پیروں کی ان زنجیروں کو کاٹ دوں۔‘‘ حضرت سلطان
باہوؒ نے عرض کیا۔
’’بات تو حقوق ادا کرنے کی ہے۔‘‘ حضرت بی بی راستیؒ نے فرمایا۔ ’’تمہاری کوئی بیوی تمہارے راستے کی رکاوٹ نہیں بنے گی۔ نان نفقہ کے جو حقوق تمہاری طرف ہیں، تم انہیں ادا کرنے سے فارغ ہو۔ تمہاری بیویاں وہ سارے حقوق اللہ کے واسطے بخشتی ہیں۔ اس کے برعکس تمہارے جو حقوق اپنی بیویوں کے ذمے ہیں، وہ بدستور قائم رہیں گے۔ بس اب تم حق کی تلاش میں نکل جائو۔ اگر تم حق کو حاصل کرکے واپس آگئے تو بہتر ہے ورنہ تمہیں اپنی بیویوں کے حقوق ادا کرنے کے لیے آنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
حضرت سلطان باہوؒ اپنی حیاتِ مبارک میں شریعت کا بہت لحاظ رکھتے تھے، اس لیے آپ پر والدہ محترمہ کے کلام کا بہت زیادہ اثر ہوا۔ پھر آپ نے اپنی بیویوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’اگر تم اپنے حقوق معاف کردو تو میں تمہیں طلاق دیئے بغیر واپس چلا جائوں گا۔‘‘
چاروں بیویوں نے زبانی طور پر اپنے تمام حقوق معاف کردیئے تو حضرت سلطان باہوؒ دوبارہ پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔
’’مناقب سلطانی‘‘ میں یہ سارے واقعات اسی طرح تحریر کئے گئے ہیں۔ ’’تلاش حق‘‘ میں سیم و زر اور دنیوی مال و متاع کا لٹا دینا کوئی خلاف شرع امر نہیں بلکہ قرآن کریم کے چوتھے پارے کی تو ابتداء ہی اس آیت مقدسہ سے ہوتی ہے۔
’’تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ اپنی محبوب ترین شے قربان نہ کردو۔‘‘ (ترجمہ)
یہی وجہ ہے کہ چند صوفیائے کرام کو چھوڑ کر دنیا کے تمام مشائخ نے بے زری اور فقر و قناعت کی زندگی بسر کی ہے اور اس طرح شدید تکالیف اٹھا کر نیکی کو حاصل کیا ہے۔ یہاں نیکی سے مراد رضائے الٰہی ہے۔
مگر حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ کی طرف سے حضرت سلطان باہوؒ کو ترک ازواج کا مشورہ دینا، شریعت اور سنت کی روح کے منافی ہے۔ اگرچہ بہت سے صوفیاء نے شادی نہ کرکے پوری زندگی حالت تجرید میں گزاری ہے مگر ان کا یہ انفرادی عمل عام مسلمانوں کے لیے حجت نہیں۔ اردو کے نامور شاعر جگر مرادآبادی کے بقول:
اس حسن برق وش کے دل سوختہ وہی ہیں
شعلوں سے جو کھیلیں، دامن کو بھی بچائیں
حقیقی صوفی وہی ہے جو ہر شعبہ حیات میں سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی پیروی کرتا ہے۔ چونکہ رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی اور بے مثال ازدواجی زندگی بسر کی۔ نتیجتاً صوفیاء کے لیے بھی اس معروف سنت پر عمل کرنا لازمی ہو جاتا ہے۔ لیکن شادی کے سلسلے میں یہ استثنیٰ موجود ہے کہ اگر کسی شخص کے اقتصادی حالات درست نہیں تو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنّت کو مجبوراً ترک کرسکتا ہے مگر جو شخص پہلے سے شادی شدہ ہو، اسے بیویوں کو طلاق دینے کی تلقین کرنا، تصوف کا کمال نہیں۔ ’’مناقب سلطانی‘‘ کے فاضل مصنف نے اس واقعے کی کوئی توجیہ پیش نہیں کی کہ آخر حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ نے حضرت سلطان باہوؒ کو ترک ازواج کا مشورہ یا حکم کیوں دیا تھا؟ ہمارے ناقص خیال میں حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ، حضرت سلطان باہوؒ کے جذبۂ حق پرستی کی آزمائش چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس میں ’’اموال اور اولاد‘‘ کو فتنہ (آزمائش) قرار دیا ہے چونکہ حضرت سلطان باہوؒ صاحب مال بھی تھے اور صاحب اہل و عیال بھی… اس لیے حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ حضرت سلطان باہوؒ طلب حق میں کتنے سچے ہیں اور راہِ حق میں کس قدر استقامت رکھتے ہیں۔ پھر جب حضرت سلطان باہوؒ اس آزمائشی مرحلے سے گزر گئے تو حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ نے آپ پر خصوصی توجہ فرمائی۔
٭…٭…٭
حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ سے بیعت ہونے کے سلسلے میں ’’مناقب سلطانی‘‘ کے مصنف شیخ سلطان حامدؒ نے بڑے عجیب واقعات تحریر کئے ہیں۔ ہم اپنے قارئین کی معلومات کے لیے وہ سارے واقعات حرف بہ حرف نقل کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ حضرت شیخ سلطان حامدؒ، حضرت سلطان باہوؒ کے پڑپوتے تھے۔
’’مناقب سلطانی‘‘ کے فاضل مصنف فرماتے ہیں کہ حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ نے حضرت سلطان باہوؒ پر خصوصی توجہ فرمانے کے کچھ دن بعد آپ سے دریافت کیا۔ ’’اب تمہیں دلی مراد حاصل ہوئی یا نہیں؟‘‘
جواب میں حضرت سلطان باہوؒ نے عرض کیا۔ ’’شیخ! آج جو مقامات مجھ پر منکشف ہوئے ہیں، ان سے تو میں گہوارے (جھولے) ہی میں گزر چکا تھا۔‘‘
اپنے مرید کا جواب سن کر حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ کے دل میں خیال گزرا کہ حضرت سلطان باہوؒ کے اس دعوے کی آزمائش کرنی چاہیے۔ چنانچہ آپ حضرت سلطان باہوؒ کی نظر سے غائب ہوگئے۔
حضرت سلطان باہوؒ بھی اپنے پیر و مرشد کے پیچھے مائل پرواز ہوئے۔ یہاں تک کہ آپ اُڑتے اُڑتے کسی ملک کے ایک جنگل میں پہنچے۔ وہاں حضرت سلطان باہوؒ نے اپنے پیر و مرشد حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ کو اس شکل میں پایا کہ ایک بوڑھا آدمی بیلوں کی جوڑی لیے ہوئے ہل چلا رہا تھا۔
حضرت سلطان باہوؒ اپنے کاندھے پر خرقہ پوشوں کی طرح ایک اجنبی درویش کی صورت میں اپنے پیر و مرشد کے سامنے آئے اور عرض کیا۔ ’’شیخ! آپ کیوں تکلیف اٹھاتے ہیں، آرام فرمائیں۔ میں آپ کی جگہ ہل چلائوں گا۔‘‘
یہ سن کر حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی حضرت سلطان باہوؒ نے بھی اپنی حقیقی شکل اختیار کرلی۔
پھر دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا اور ایک طرف روانہ ہوگئے۔ پھر راستہ چلتے چلتے حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ نظروں سے اوجھل ہوگئے۔
حضرت سلطان باہوؒ نے بھی وہی روش اپنائی اور پیر و مرشد کے تعاقب میں گم ہوگئے۔ یہاں تک کہ آپ نے حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ کو ہندوئوں کے ایک شہر میں دیکھا۔ اس وقت شاہ صاحبؒ ایک بوڑھے برہمن کی صورت میں جلوہ افروز تھے۔ آپ کے ہاتھوں میں ایک برتن تھا جس میں زعفران اور دوسرے رنگ بھرے ہوئے تھے۔ پھر حضرت سلطان باہوؒ نے دیکھا کہ آپ کے پیر و مرشد بازار میں موجود ہندوئوں کے ماتھوں پر تلک لگا رہے تھے۔
حضرت سلطان باہوؒ نے بھی فوراً اپنا ظاہری حلیہ بدل دیا اور ایک ہندو نوجوان کی صورت اختیار کرکے ایک دکان پر بیٹھ گئے۔
پھر جب حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ ادھر سے گزرے تو حضرت سلطان باہوؒ دکان سے اتر کر پیر و مرشد کے سامنے کھڑے ہوگئے اور عرض کرنے لگے۔ ’’بابا! میری پیشانی پر بھی تلک لگاتے جایئے۔‘‘
حضرت حبیب اللہ قادریؒ صورت حال سے واقف ہوکر اپنی اصلی حالت پر آئے اور حضرت سلطان باہوؒ کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف روانہ ہوگئے۔
پھر تیسری بار بھی ایسا ہی ہوا کہ حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ اچانک چلتے چلتے نظروں سے غائب ہوگئے۔ حضرت سلطان باہوؒ نے بھی وہی راستہ اختیار کیا اور پیر و مرشد کے پیچھے پیچھے ہولیے۔
اب کی بار حضرت سلطان باہوؒ نے اپنے پیر و مرشد کو ایک اسلامی شہر میں موجود پایا۔ حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ ایک غیرمعروف مسجد میں تشریف فرما تھے اور بہت سے کم سن بچوں کو قرآن کریم کے قاعدے کی تعلیم دے رہے تھے۔ (اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے ’’مناقب سلطانی‘‘ کے مصنف نے حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ کے ظاہری حلیے کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت شاہ صاحبؒ اپنی اصلی صورت میں مسجد کے اندر موجود تھے)
یہ منظر دیکھ کر حضرت سلطان باہوؒ بھی ایک چھوٹے سے بچے کی صورت میں قاعدہ لے کر حاضر ہوئے اور پیر و مرشد سے درخواست کرنے لگے۔ ’’شیخ! مجھے بھی تو سبق پڑھایئے۔‘‘
یہ سن کر حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ نے کمسن طالب علم کی طرف دیکھا اور ایک ہی نظر میں پہچان لیا کہ وہ کوئی مقامی بچہ نہیں بلکہ آپ کے مرید حضرت سلطان باہوؒ ہیں۔
حضرت حبیب اللہ قادریؒ مسجد سے باہر تشریف لائے اور حضرت سلطان باہوؒ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گائوں بغداد (پنجاب) میں آئے۔ پھر حضرت سلطان باہوؒ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’اے درویش! تم جس نعمت کے مستحق ہو، وہ ہمارے امکان سے باہر ہے۔‘‘
’’شیخ محترم! پھر میں کہاں جائوں؟‘‘ حضرت سلطان باہوؒ نے عرض کیا۔
’’ہم تمہاری رہنمائی کرسکتے ہیں۔‘‘ حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ نے فرمایا۔ ’’اب تمہارا مقدر ہے کہ تم وہاں سے کتنا حاصل کرسکتے ہو۔‘‘
’’آپ میری رہنمائی فرمایئے۔‘‘ حضرت سلطان باہوؒ نے عرض کیا۔ ’’تقدیریں تو اللہ تعالیٰ تحریر کرتا ہے۔ جو کچھ وہ چاہے گا، وہی ظہور پذیر ہوگا۔‘‘
حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ نے فرمایا۔ ’’میرے پیر و مرشد حضرت سیّد عبدالرحمن قادریؒ دہلی میں شاہی منصب دار ہیں۔ تم ان کی خدمت میں حاضر ہوجائو۔‘‘
حضرت سلطان باہوؒ نے حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ سے اجازت لی اور دہلی کی طرف روانہ ہوگئے۔
ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ ’’مناقب سلطانی‘‘ کے مصنف حضرت سلطان حامدؒ خود بھی ایک عالم و فاضل صوفی تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حضرت سلطان باہوؒ کے پڑپوتے تھے۔ یہ شیخ حامدؒ کا خاندانی معاملہ تھا، اس لیے ان کی بیان کردہ روایات دوسروں کے مقابلے میں زیادہ معتبر ہوسکتی ہیں مگر کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیخ حامد کے تحریر کردہ واقعات پر قربت و رشتہ داری اور خوش عقیدگی کا رنگ غالب ہے۔
دوسرے یہ کہ جس طرح حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ نے اپنے مرید کی آزمائش کی اور جس طرح حضرت سلطان باہوؒ اس آزمائشی مرحلے سے گزرے، یہ سارے واقعات پڑھ کر ایک عام انسان کے ذہن میں بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ بے شک تصوف کی کتابوں میں اس سے بھی زیادہ محیرالعقول واقعات درج ہیں اور اہل اللہ کے نزدیک یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں مگر ان تمام حقائق کے باوجود ایسے واقعات تحریر کرکے حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ اور حضرت سلطان باہوؒ کے عارفانہ مقام میں اضافہ کیا جاسکتا ہے اور نہ اسلامی تصوف کی کوئی خدمت انجام دی جاسکتی ہے۔ ہوا میں پرواز کرنے والے بے شمار ہندو جوگی اور سنیاسی گزرے ہیں مگر ہمارے صوفیاء نے ایسے تمام روحانی کمالات کی نفی کی ہے۔
غوث اعظم حضرت سیّدنا عبدالقادر جیلانیؒ کا مشہور قول ہے۔ ’’اگر کوئی شخص تمہیں ہوا میں بھی اُڑتا ہوا نظر آئے تو اس کی روحانیت کا اعتبار نہ کرنا جب تک اس کا ہر عمل شریعت اور سنت کے تابع نہ ہو۔‘‘
مختلف تذکرہ نگاروں نے تحریر کیا ہے کہ حضرت سلطان باہوؒ شریعت و سنّت کا بہت لحاظ رکھتے تھے۔ ہمارے نزدیک یہی آپ کی روحانی عظمت کی پہلی اور آخری دلیل ہے۔ رہا
کے خصوصی روحانی مشاہدات اور مکاشفات کا معاملہ، تو انہیں اس طرح بیان کرنا مناسب نہیں۔ حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ کا ایک برہمن کے لباس میں ظاہر ہونا اور ہندوئوں کے ماتھے پر تلک لگانے کا واقعہ خواہ کتنا ہی درست ہو، مگر یہ کتابوں میں تحریر کرنے اور مجلسوں میں بیان کرنے کی چیز نہیں۔ اسی بے احتیاطی اور خوش عقیدگی کے باعث پاک و ہند میں لکھی جانے والی کتابوں میں ایسے واقعات کا انبار جمع ہے جو اسلامی تصوف سے کسی طرح بھی میل نہیں کھاتے بلکہ اکثر واقعات پر طلسمی داستانوں کا گمان ہوتا ہے۔ فارسی کے مایہ ناز شاعر حافظ شیرازی کا ایک مشہور شعر ہے جس پر ہمارے دور کے بعض صوفیاء سر دھنتے ہیں:
حافظا گر وصل خواہی صلح کن باخاص و عام
با مسلماں اللہ اللہ، با برہمن رام رام
’’اے حافظ! اگر تو وصل کی خواہش رکھتا ہے تو ہر خاص و عام کے ساتھ صلح اور دوستی کا رویہ اختیار کر۔ صلح کا طریقہ یہ ہے کہ تو مسلمان کے ساتھ اللہ اللہ اور برہمن کے ساتھ رام رام پکار۔‘‘ (ترجمہ)
یہاں حافظ شیرازی کے اس شعر پر کسی بحث کی گنجائش نہیں مگر اتنا ضروری ہے کہ ایک مسلمان کے ہونٹوں پر اللہ کے سوا کسی دوسرے معبود کا نام نہیں آسکتا۔ دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے صلح کا طریقہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود طے فرمایا ہے۔
’’تم دوسروں کے معبودوں کو برا مت کہو۔‘‘
یا پھر سورۃ الکافرون کی یہ آیتِ مقدسہ ’’تم اپنے دین پر اور ہم اپنے دین پر۔‘‘
اللہ اور رام کو مخلوط کردینا، ایک خوفناک نظریۂ حیات ہے جس نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ مشائخ کرام کی نظر میں حقیقی صوفی وہی ہے جو اللہ کی شریعت اور سرورِ کونین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت مبارکہ پر امکانی حد تک عمل کرے اور اگر کسی مقام پر کوتاہی عمل کا شکار ہوجائے تو خالق کائنات کے سامنے عاجزی کے ساتھ استغفار کرے جو اللہ کے تمام نبیوں اور رسولوں کی سنّت رہی ہے۔
٭…٭…٭
الغرض حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ کی ہدایت کے مطابق حضرت سلطان باہوؒ اپنے ایک خادم سلطان حمیدؒ کے ساتھ دہلی کی جانب روانہ ہوگئے۔ سلطان حمیدؒ کا تعلق بھکر سے تھا جو بعد میں خلافت کے منصب پر فائز ہوئے۔
ابھی حضرت سلطان باہوؒ راستے میں تھے کہ اچانک ایک مجذوب الحال شخص کسی طرف سے نمودار ہوا اور اس نے آتے ہی سلطان حمیدؒ کی پشت پر ایک لکڑی ماری۔ اگرچہ لکڑی کی ضرب معمولی تھی لیکن سلطان حمیدؒ بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑے۔ مجذوب نے دوبارہ اپنا ہاتھ بلند کیا۔ وہ سلطان حمیدؒ کے دوسری لکڑی مارنا چاہتا تھا کہ حضرت سلطان باہوؒ تیزی سے آگے بڑھے اور مجذوب کا ہاتھ پکڑ لیا۔
مجذوب نے شرربار نظروں سے حضرت سلطان باہوؒ کی طرف دیکھا اور نہایت پُرجلال لہجے میں کہا۔ ’’راستے سے ہٹ جا اور ہمارے کام میں مداخلت نہ کر۔‘‘
حضرت سلطان باہوؒ نے نرم لہجے میں فرمایا۔ ’’اے صاحب! ہم درویش اہل صحو ہیں اور ہمارا تعلق اہلسنّت و الجماعت سے ہے۔‘‘
جیسے ہی حضرت سلطان باہوؒ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے، مجذوب نے اپنا اٹھا ہوا ہاتھ نیچے کرلیا اور خاموشی کے ساتھ ایک طرف روانہ ہوگیا۔
مجذوب کے جانے کے بعد حضرت سلطان باہوؒ نے سلطان حمیدؒ کی طرف دیکھا جو بدستور زمین پر بے ہوش پڑے تھے۔ حضرت سلطان باہوؒ نے اپنے خادم خاص پر توجہ فرمائی۔ نتیجتاً کچھ دیر بعد سلطان حمیدؒ ’’سکر‘‘ کی حالت سے ’’صحو‘‘ کی طرف لوٹے اور مکمل طور پر ہوش میں آئے۔
حضرت سلطان باہوؒ نے خوش ہوتے ہوئے فرمایا۔ ’’حمید! اگر ہم اس وقت مجذوب کی طرف متوجہ نہ ہوتے اور وہ دوسری لکڑی مار دیتا تو تمہاری پوری زندگی مستی کی حالت میں گزرتی، پھر ہم بھی کچھ نہیں کرسکتے تھے۔‘‘
٭…٭…٭
جب حضرت سلطان باہوؒ دہلی کے قریب پہنچے تو حضرت سیّد عبدالرحمن قادریؒ کی مجلس درس آراستہ تھی۔ مریدین، خدام اور عقیدت مند صفیں باندھے دست بستہ بیٹھے تھے۔ شیخ کی زبان گوہربار سے اسرار و معانی کی بارش ہورہی تھی۔ حاضرین پر کیف و سرور کی عجیب کیفیت طاری تھی۔ یکایک حضرت سیّد عبدالرحمن قادریؒ نے درس روک دیا اور اپنے ایک خادم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’فلاں راستے سے اس حلیے کا ایک درویش آرہا ہے، اسے عزت و احترام کے ساتھ ہماری خانقاہ میں لے آئو۔‘‘
حاضرین مجلس نے بڑی حیرت سے شیخ کی بات سنی۔ ’’آخر وہ کون بزرگ ہیں جن کی میزبانی اس طرح کی جارہی ہے؟‘‘
مجلس درس میں موجود ہر شخص کا اشتیاق بڑھتا جارہا تھا کہ حضرت سلطان باہوؒ خانقاہ قادریہ میں داخل ہوئے۔ اہل نظر نے فوراً پہچان لیا کہ آنے والا کون تھا۔ حضرت سلطان باہوؒ کے چہرئہ مبارک سے شان ولایت ظاہر تھی مگر جو صاحبان نظر نہیں تھے، انہوں نے آپ کو ایک روایتی درویش سمجھا۔
’’مناقب سلطانی‘‘ کے بیان کے مطابق حضرت سلطان باہوؒ نے حضرت سیّد عبدالرحمن قادریؒ اور حاضرین مجلس کی خدمت میں سلام پیش کیا۔ حضرت شیخؒ جواب دیتے ہوئے اپنی نشست سے اٹھے اور حضرت سلطان باہوؒ کا ہاتھ پکڑ کر خلوت میں لے گئے۔
حضرت سلطان باہوؒ کی رسم بیعت کس طرح ادا ہوئی، اس کے بارے میں فاضل مصنف خاموش ہیں۔ ’’مناقب سلطانی‘‘ میں بس اتنا درج ہے۔ ’’حضرت سلطان باہوؒ نے ایک قدم میں اور ایک ہی دم میں اپنا ازلی نصیبہ پا لیا۔‘‘
ازلی نصیبے سے مصنف کی مراد انسانی تقدیر کا وہ حصہ ہے جو روزِاوّل لوح محفوظ میں تحریر کردیا گیا ہے۔
شیخ سلطان حامدؒ کے بیان کے مطابق حضرت سیّد عبدالرحمن قادریؒ نے حضرت سطان باہوؒ کو چند لمحوں میں ان کا روحانی حصہ عطا کیا اور اسی وقت خانقاہ سے رخصت کردیا۔
وہ جمعے کا دن تھا۔ حضرت سیّد عبدالرحمن قادریؒ سے فیضیاب ہونے کے بعد حضرت سلطان باہوؒ دہلی کے بازاروں میں گشت کرنے لگے۔ ’’مناقب سلطانی‘‘ کی روایت کے مطابق حضرت سلطان باہوؒ نے ہر خاص و عام پر توجہ کی نظر ڈالنی شروع کردی جس کے نتیجے میں مخلوق خدا بہت زیادہ متاثر ہونے لگی۔ شہر میں ہر طرف غل مچ گیا اور طالبانِ دید کا اس قدر ہجوم ہوا کہ راستے بند ہوگئے۔
پھر یہ خبر اُڑتے اُڑتے حضرت سیّد عبدالرحمن قادریؒ کی خانقاہ تک بھی پہنچ گئی۔ چند خدام نے حضرت شیخؒ کے حضور میں عرض کیا۔ ’’سیّدی! آج کل شہر دہلی میں ایک درویش آیا ہوا ہے اور اس کے فیض روحانی کا چرچا عام ہے۔‘‘
حضرت سیّد عبدالرحمن قادریؒ نے اپنے خدام کی بات سنی اور فرمایا۔ ’’وہ درویش دہلی میں کس مقام پر سکونت پذیر ہے؟‘‘
خدام نے عرض کیا۔ ’’درویش کا کوئی مستقل مسکن نہیں۔ وہ دہلی کے بازاروں میں گھومتا رہتا ہے اور کھڑے کھڑے معرفت کی دولت لٹا دیتا ہے۔‘‘
حضرت سیّد عبدالرحمن قادریؒ نے اپنے خدمت گاروں کو حکم دیتے ہوئے فرمایا۔ ’’اس درویش سے جاکر دریافت کرو کہ وہ کون ہے، کہاں کا رہنے والا ہے، کس خاندان سے ہے اور کس سلسلے سے تعلق رکھتا ہے؟‘‘
حضرت سیّد عبدالرحمن قادریؒ کے خدمت گار پیر و مرشد کے حکم سے دہلی کے بازار میں پہنچے۔ وہاں درویش کے عقیدت مندوں کی بھیڑ جمع تھی اور اس تک پہنچنا ایک کارِ دشوار تھا۔ حضرت شیخ قادریؒ کے خدام نے بڑی مشکل سے جگہ بنائی اور درویش تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے مگر جب ان کی نظر درویش کے چہرے پر پڑی تو وہ حیرت زدہ ہوگئے۔
درویش کی صورت دیکھتے ہی حضرت سیّد عبدالرحمن قادریؒ کے خدام اُلٹے قدموں واپس آئے اور پیر و مرشد کی خدمت میں عرض کرنے لگے۔ ’’سیّدی! یہ تو وہی درویش ہے جسے آپ نے آج ہی اپنے حلقۂ بیعت میں شامل فرمایا تھا۔‘‘
اپنے خدمت گاروں کی زبانی یہ انکشاف سن کر حضرت سیّد عبدالرحمن قادریؒ رنجیدئہ خاطر ہوگئے اور آپ کے چہرئہ مبارک سے اذیت و کرب کے آثار جھلکنے لگے۔ پھر آپ نے اپنے خدمت گاروں سے فرمایا۔ ’’بڑا غضب ہوگیا۔ اس درویش کو فوراً میرے پاس لے کر آئو۔‘‘
پیر و مرشد کا دوسرا حکم سن کر خدام تیز رفتاری کے ساتھ بازار میں پہنچے اور حضرت سلطان باہوؒ کو اپنے ہمراہ لے کر خانقاہ میں واپس آئے۔
’’تم نے یہ کیا کیا؟‘‘ حضرت سلطان باہوؒ کو دیکھتے ہی پیر و مرشد نے انتہائی ناخوشگوار لہجے میں فرمایا۔
’’سیّدی! کیا خادم سے کوئی غلطی ہوگئی؟‘‘ حضرت سلطان باہوؒ نے بصداحترام عرض کیا۔
’’کیا ہم نے یہ نعمت خاص تمہیں اس لیے عطا کی تھی کہ تم اسے عام کردو؟‘‘ حضرت سیّد عبدالرحمن قادریؒ کے لہجے سے بدستور ناگواری کا رنگ جھلک رہا تھا۔
پیر و مرشد کے اس سوال کے جواب میں حضرت سلطان باہوؒ نے عرض کیا۔ ’’سیّدی! جب کوئی بوڑھی عورت روٹی پکانے کے لیے بازار سے توا خریدتی ہے تو اسے بجا کر دیکھ لیتی ہے کہ وہ کیسا کام دے گا۔ اسی طرح جب ایک لڑکا کمان خریدتا ہے تو اسے کھینچ کر دیکھ لیتا ہے کہ اس میں مطلوبہ لچک موجود ہے یا نہیں۔ سو مجھے بھی جو نعمت عظمیٰ آپ کی ذات گرامی سے حاصل ہوئی تھی، میں اسی کی آزمائش کررہا تھا۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ مجھے آپ سے کس قدر نعمت عطا ہوئی اور اس کی حقیقت کیا ہے؟‘‘
’’مناقب سلطانی‘‘ کی روایت کے مطابق حضرت سلطان باہوؒ نے مزید فرمایا۔ ’’آپ نے حکم دیا تھا کہ اسے آزمائو اور فیض کو عام کرو۔ اِن شاء اللہ قیامت تک یہ نعمت ترقی پر ہوگی۔‘‘
یہ واقعہ رقم کرنے کے بعد شیخ سلطان حامدؒ تحریر کرتے ہیں کہ حضرت سلطان باہوؒ نے اسی وقت اپنے مرشد کامل سے تازہ نعمت اور بے اندازہ فیض حاصل کیا۔
ان تمام واقعات میں بعض جگہ بڑا ابہام اور تضاد پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’مناقب سلطانی‘‘ کے مصنف فرماتے ہیں۔ ’’حضرت سلطان باہوؒ نے مرشد کامل سے اپنا ازلی نصیبہ ایک قدم میں اور ایک ہی دم میں پا لیا، پھر اسی وقت آپ کو رخصت کردیا گیا اور وہ جمعے کا دن تھا۔‘‘
اگر ’’ایک قدم اور ایک دم‘‘ کے الفاظ محاورتاً استعمال کئے گئے ہیں تو ان کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت سلطان باہوؒ نے بہت مختصر مدت میں حضرت سیّد عبدالرحمن قادریؒ سے کسب فیض کیا تھا۔ دوسرے بزرگوں کے حوالے سے ایسی دوسری بہت سی مثالیں تاریخ تصوف میں موجود ہیں، اس لیے ’’مناقب سلطانی‘‘ کی روایت میں کوئی ظاہری سقم نظر نہیں آتا مگر جہاں تک روایت کے دوسرے حصے کا تعلق ہے، وہ کچھ عجیب سا ہے۔ یعنی حضرت سیّد عبدالرحمن قادریؒ نے اسی وقت حضرت سلطان باہوؒ کو رخصت کردیا، پھر بیعت سے شرف یاب
کے بعد حضرت سلطان باہوؒ بازار میں تشریف لائے اور پیر و مرشد سے حاصل کردہ روحانی دولت کو عوام پر لٹانے لگے۔ یہاں تک کہ پورے شہر میں شور مچ گیا اور یہ خبر حضرت سیّد عبدالرحمن قادریؒ تک بھی پہنچ گئی۔ پھر حضرت شیخؒ نے صورت حال جاننے کے لیے اپنے خدمت گاروں کو بازار روانہ کیا۔ راستے بند ہونے کے باوجود خدام حضرت سلطان باہوؒ تک پہنچے اور واپس آکر حضرت سیّد عبدالرحمن قادریؒ کو اطلاع دی کہ یہ تو وہی درویش ہے جسے آج ہی آپ نے تلقین فرمائی تھی۔
واقعات کی کثرت بتا رہی ہے کہ یہ سارے کام چند گھنٹوں میں انجام نہیں پا سکتے۔ حضرت سلطان باہوؒ کے فیض روحانی عام کرنے کی اطلاعات پیر و مرشد تک اس وقت پہنچی تھیں جب پورا شہر ان خبروں کی لپیٹ میں آگیا تھا۔ راستے بند ہوجانے اور دہلی کے کوچے کوچے میں دھوم مچ جانے کا مرحلہ چند گھنٹوں میں نہیں، چند مہینوں میں طے ہوا تھا۔ دراصل یہ سارے واقعات اپنی جگہ درست ہیں مگر ان کے درمیان کی کڑیاں غائب ہیں، اس لیے پڑھنے والوں کے ذہنوں میں ابہام پیدا ہوتا ہے۔
ابہام کے علاوہ ایک روایت میں تضاد بھی پایا جاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ جب حضرت سیّد عبدالرحمن قادریؒ نے اپنے خدام کے ذریعے حضرت سلطان باہوؒ کو طلب کرکے دریافت کیا کہ اے درویش! ہم نے تجھے نعمت خاص عطا کی اور تو نے عام کردی۔ تو جواب میں حضرت سلطان باہوؒ نے عرض کیا۔ ’’مجھے آپ نے حکم دیا تھا کہ اسے آزمائو اور فیض کو عام کرو۔‘‘
اب اللہ ہی جانتا ہے کہ یہ کتابت کی غلطی ہے یا پھر ’’مناقب سلطانی‘‘ کے مؤلف سے ترجمے میں کوتاہی سرزد ہوئی ہے؟
حضرت سلطان باہوؒ کے سلسلے میں ہماری سب سے بڑی مجبوری یہ ہے کہ اتنے بڑے بزرگ پر تحقیقی کام بہت کم کیا گیا ہے۔ ہمیں جس قدر بھی حوالے ملتے ہیں، وہ سب کے سب ’’مناقب سلطانی‘‘ سے ماخوذ ہیں۔ ’’پنجاب کے صوفی دانشور‘‘ ایک قابل قدر تصنیف ہے مگر اس کے مصنف قاضی جاوید بھی ’’مناقب سلطانی‘‘ کے دائرے سے باہر نہیں آتے اور اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ حضرت سلطان باہوؒ جیسی عظیم المرتبت صوفی پر کی جانے والی تحقیق صرف ’’مناقب سلطانی‘‘ تک محدود ہے۔
اس کتاب کے مؤلف شاہد القادری فرماتے ہیں۔ ’’مناقب سلطانی‘‘ کے مصنف حضرت شیخ سلطان حامدؒ اپنے جدامجد حضرت شیخ سلطان باہوؒ کے بعد غالباً اپنے خاندان میں پہلی علمی اور روحانی شخصیت ہیں جنہوں نے سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ کے حالات و واقعات اور آپ کی تعلیمات کو کتابی شکل میں جمع کرکے آئندہ نسلوں پر احسان فرمایا ہے۔ ’’مناقب سلطانی‘‘ حضرت سلطان باہوؒ کے حالات زندگی پر پہلی کتاب ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی جامع، مستند اور وقیع ہے۔ آپ نے اس کتاب میں حتیٰ الامکان صحیح ترین حالات کو پوری تحقیق کے ساتھ منضبط فرمایا ہے اور بلاخوف تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت سلطان العارفین سلطان باہوؒ کے حالات و واقعات پر قلم اٹھانے والا کوئی بھی مؤرخ اس کتاب کو نظرانداز کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔‘‘
شاہد القادری کا یہ دعویٰ حرف بہ حرف درست ہے۔ مضمون لکھتے وقت خود میرے سامنے بھی کئی اہم کتابیں اور بہت سے مضامین موجود ہیں مگر کسی ایک کتاب یا تاریخی دستاویز میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مصنفین کے انداز و بیان ضرور مختلف ہیں مگر حالات و واقعات یکساں ہیں۔ کسی مصنف یا تذکرہ نگار نے کسی نئی تحقیق کا دعویٰ نہیں کیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ حضرت سلطان باہوؒ کے حوالے سے ہمارے محققین کا سفر ’’مناقب سلطانی‘‘ کے پہلے ورق سے شروع ہوتا ہے اور آخری صفحے پر ختم ہوجاتا ہے۔ اس لیے تمام تذکرے اور تاریخیں یکسانیت کا شکار ہیں۔
’’مناقب سلطانی‘‘ کے دیباچے میں آگے چل کر شاہد القادری فرماتے ہیں یہ کتاب آج سے تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل فارسی زبان میں لکھی گئی تھی۔ اب تک صرف ایک ادارے نے اس کا اردو ترجمہ شائع کیا تھا جو نامکمل تھا اور اس میں تقریباً پچاس صفحات کا اردو ترجمہ غائب تھا۔ اب بحمداللہ تعالیٰ حضرت سلطان غلام جیلانیؒ کے والد محترم حضرت شیخ محمد امیر سلطانؒ کے زیرمطالعہ رہنے والے اصل فارسی نسخے کے مطابق حرف بہ حرف شائع کرنے کا شرف ’’مکتبۂ سلطانیہ‘‘ کو حاصل ہورہا ہے۔
میرے پیش نظر بھی یہی شائع شدہ نسخہ ہے جس میں قدم قدم پر کتابت کی غلطیاں موجود ہیں جس کی وجہ سے کہیں کہیں قاری الجھ جاتا ہے۔ چونکہ ’’مناقب سلطانی‘‘ کا ترجمہ فارسی سے کیا گیا ہے، اس لیے اردو ترجمے میں سلاست و روانی بھی مفقود ہے اور کہیں کہیں تسلسل کا بھی فقدان نظر آتا ہے۔
’’مناقب سلطانی‘‘ کی تصنیف و تالیف کی مختصر تاریخ بیان کرنے کے بعد ہم اصل موضوع کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
٭…٭…٭
’’مناقب سلطانی‘‘ کے مصنف نے تو یہی تحریر کیا ہے کہ حضرت سلطان باہوؒ نے ایک دم اور ایک قدم میں حضرت سیّد عبدالرحمن قادریؒ سے فیض روحانی حاصل کیا اور پھر ایک ہی دن میں اس فیض روحانی کو عوام میں لٹا دیا اور اسی روز مغل شہنشاہ محی الدین اورنگزیب عالمگیر کو ہدایت فرمائی اور اسی روز کھڑے کھڑے اورنگزیب کی درخواست پر ایک کتاب ’’اورنگزیب شاہی‘‘ تحریر کرائی۔ اس کتاب کی تفصیلات آگے پیش کی جائیں گی۔
’’مناقب سلطانی‘‘ کی روایت سے قطع نظر حالات و واقعات کی کثرت سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت سلطان باہوؒ نے کچھ عرصے تک دہلی میں قیام فرمایا تھا۔ اسی دوران یہ واقعہ پیش آگیا جس سے حضرت سلطان باہوؒ کے تصرف روحانی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
ایک دن سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ ایک کشادہ راستے پر لیٹے ہوئے تھے۔ اچانک اسی راہ سے ہندو سنیاسیوں کی ایک جماعت گزری۔ حضرت سلطان باہوؒ کو راستے میں لیٹا ہوا دیکھ کر ہندو سنیاسی رک گئے۔ پھر ایک ہندو جوگی نے آپ کو ٹھوکر سے اٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’سو رہے ہو؟‘‘
’’مردانِ حق سوتے میں بھی جاگتے ہیں۔‘‘ حضرت سلطان باہوؒ نے لیٹے لیٹے فرمایا۔
’’تو پھر اٹھو اور ہمیں بتائو کہ یہ راستہ کس طرف جاتا ہے؟‘‘ ہندو سنیاسیوں نے کہا۔
حضرت سلطان باہوؒ نے اٹھتے ہی فرمایا۔ ’’راستہ تو ایک ہی ہے لاالہ الا اللہ محمد الرسول اللہ۔‘‘
ہندو سنیاسی ضرب لاالہ الااللہ کو برداشت نہ کرسکے اور خوف و دہشت کے سبب زمین پر گر پڑے۔
’’میں نے تمہیں راستہ بتا دیا۔‘‘ حضرت سلطان باہوؒ نے ہندو جوگیوں کی حالت دیکھتے ہوئے فرمایا۔ ’’اب تم کس راستے پر جانا چاہتے ہو؟‘‘
’’آپ نے جس راستے کی طرف اشارہ کیا ہے، اسی پر چلیں گے۔‘‘ ہندو سنیاسیوں نے لرزتے ہوئے لہجے میں کہا۔
حضرت سلطان باہوؒ نے ہندو جوگیوں پر خصوصی توجہ فرمائی۔ بت پرستوں کے اس گروہ نے اسی وقت اپنے ماتھوں سے قشقے کے نشانات کھرچ ڈالے اور کافرانہ لباس اتار کر پھینک دیا۔
روایت ہے کہ حضرت سلطان باہوؒ کی نظرکرم سے وہ تمام ہندو سنیاسی خدائے واحد پر ایمان لائے اور روحانی سفر اس طرح طے کیا کہ سب کے سب ابدال کے مرتبے پر فائز ہوئے۔
٭…٭…٭
مرشد کامل حضرت سیّد عبدالرحمن قادریؒ سے فیضیاب ہونے کے بعد حضرت سلطان باہوؒ کے جذبات کی وارفتگی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ آپ پر ہمہ وقت ایک اضطراب کی سی کیفیت طاری رہتی تھی۔ پھر یہی اضطراب روحانی حضرت سلطان باہوؒ کو پہاڑوں، جنگلوں اور سنسان مقامات کی طرف لے جاتا تھا۔ مشائخ کرام کے مطابق ’’سیر و سیاحت‘‘ فقراء اور درویشوں کے اعلیٰ مقامات میں سے ہے۔ ’’سیر و سیاحت‘‘ کی فضیلت کے بارے میں حضرت امام غزالیؒ اپنی شہرئہ آفاق تصانیف ’’احیائے العلوم‘‘ اور ’’کیمیائے سعادت‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں۔ ’’درویشوں کے لیے پہاڑوں، بیابانوں اور جنگلوں کی سیاحت اس لیے ضروری ہے کہ ہر درخت کے پتے پر اسرارِالٰہی میں سے ایک راز لکھا ہوتا ہے۔ درویش ’’علم لدنی‘‘ کے ذریعے ان رازوں کو سمجھتے ہیں۔‘‘ (جاری ہے)