سلطان محمود غزنوی اپنے غلام ایاز پر اس قدر مہربان تھا کہ اسے اپنا وزیر بنالیا۔ دوسرے درباری حسد کے مارے انگاروں پر لوٹنے لگے اور ایاز کے خلاف طرح طرح کی باتیں کرنے لگے۔ سلطان کے کان میں ان باتوں کی بھنک پڑی تو اس نے کہا کہ ان کو ایاز کی خوبیاں معلوم نہیں ہیں۔ چند دنوں بعد سلطان، ایاز اور دوسرے ارکان دولت کے ساتھ کسی جگہ روانہ ہوا۔ راستے میں اس نے موتیوں کا صندوق گھوڑے سے گرا دیا۔ صندوق ٹوٹ گیا اور سارے موتی زمین پر بکھر گئے ۔ سلطان نے حکم دیا کہ جس کا جی چاہے یہ موتی لوٹ لے۔ پھر وہاں سے فورا اپنی سواری ہنکا دی۔ تمام درباری موتیوں کو لوٹنے میں مشغول ہو گئے اور سلطان سے جدا ہو گئے لیکن ایاز نے موتیوں کی طرف مڑکر بھی نہ دیکھا اور سلطان کا ساتھ چھوڑنا گوارہ نہ کیا۔ اب ان حاسدوں کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ سلطان ایاز کو کیوں محبوب رکھتا ہے۔