آپا کی صورت لاکھوں میں ایک تھی۔ کسی کی شادی میں اقبال بھائی نے دیکھا تھا، تبھی سے من میں بسالیا اور امی کے پاس رشتہ بھیجا۔ امی کو گھر داماد کی ضرورت تھی۔ ہمارے والد صاحب وفات پاچکے تھے اور بھائی چھوٹے تھے ۔ گھر میں کوئی مرد موجود نہ تھا اور ہمیں سہارے کی ضرورت تھی۔ ہم معاشی طور پر خود کفیل تھے۔ والد صاحب دو دکانیں اور ایک مکان چھوڑ گئے تھے ، جن کے کرایے پر گزر بسر ہو رہی تھی۔ اقبال بھائی بھی اکیلے تھے ، ان کے والدین وفات پاچکے تھے۔ ان کی پھوپھی نے انہیں پالا تھا اور شادی بھی انہوں نے کروائی ، وہ امی کی پرانی واقف کار تھیں۔ انہوں نے اقبال بھائی کو سمجھایا کہ اب تمہیں میری اور مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے۔ میری اپنی اولاد موجود ہے، تم اپنا گھر بسائو۔ جب یہ بات دلہا بھائی کی سمجھ میں آئی انہوں نے گھر داماد بنا قبول کر لیا کیونکہ ان کے خیال میں یہ ہم بے سہارا لوگوں کے لئے نیکی تھی۔ انہوں نے شادی کے بعد میری ماں کو حج بھی کروایا۔ جب وہ حج پر جارہی تھیں تو بہت خوش تھیں۔ سچ ہے کہ اتنا اچھاد اماد قسمت والوں کو ملتا ہے۔ امی جان کو اب میری فکر تھی۔ دلہا بھائی کے جاننے والے سعودی عرب میں تھے۔ انہوں نے امی جان کو اپنی ایک واقف فیملی سے ملوایا۔ ان کا بھانجا کاشف بہت اچھا تھا اور روزگار کے سلسلے میں وہاں مقیم تھا۔ حج کے دوران کاشف نے امی جان کی بہت خدمت کی اور ان کا دل جیت لیا۔ امی کو بھی وہ بیٹیوں جیسا لگا۔ انہوں نے کا شف سے وعدہ لیا کہ جب تم پاکستان آئو تو میرے پاس ضرور آنا۔ چھ ماہ بعد وہ پاکستان آیا تو ہمارے گھر بھی آیا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اتنا مالدار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان کس قدر سادہ اور نیک دل ہے۔ اس میں ذرا بھی بناوٹ نہیں تھی۔ جب امی جان نے اپنی مجبور یاں بتا کر اس کو داماد بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تو وہ سوچ میں پڑ گیا۔ امی کو میرے رشتے کی فکر دن رات کھائے جارہی تھی۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ اس معاملے میں ہمدردی سے سوچے گا لیکن فیصلہ کرنے کے لئے اسے تھوڑا سا وقت چاہئے تھا۔ امی ان دنوں بہت مضطرب تھیں۔ چاہتی تھیں کہ کسی طرح کاشف کو راضی کر لیں اور وہ کو نکاح کر کے ہی جائے۔ وہ ہر طرح سے اس کا دل مٹھی میں لینا چاہتی تھیں۔ کاشف پندرہ روز ہمارے گھر ٹھہرا۔ اس دوران والدہ نے اس کی ایسی آئو بھگت کی کہ میں سوچ بھی نہ سکتی تھی۔ ماں میری خاطر کسی کی اتنی خوشامد کر سکتی ہے۔ میں سمجھتی تھی کہ وہ صرف آپا سے پیار کرتی ہیں۔ امی ایک جہاندیدہ عورت تھیں۔ وہ اس معاملے کو راز میں رکھنا چاہتی تھیں۔ امی نے اقبال بھائی سے اس بات کو چھپالیا اور کا شف سے سے کہا۔بھی کہا کہ ابھی کسی سے تذکرہ نہ کرے۔ پندرہ روز بعد امی نے کاشف کو فون کیا۔ بیٹا ہیں دل کی مریضہ ہوں، میری زندگی کا بھروسہ نہیں۔ تم جلد مجھے بتائو کہ تم نے کیا فیصلہ کیا ہے۔ میں بیمار ہوں، مجھے تاخیر سے پریشانی ہو گی۔ بہتر ہے تم ہاں یا نہیں جو بھی کہنا ہے، ابھی کہ دوتا کہ میں امید میں نہ رہوں۔ میں بے آسرا عورت ہوں چاہتی ہوں مرنے سے پہلے جوان بیٹی کا بوجھ کندھوں سے اُتار دوں۔ امی نے کچھ اس طرح رقت سے بات کہی کہ کاشف کو ہاں کہتے ہی بنی۔ اس وقت لوہا گرم تھا، چوٹ لگانے سے کام بن گیا۔ ہمدردی کے جذبات سے سر شار اس نوجوان نے ایک مجبور بیوہ کا دل رکھ لیا۔ امی نے اسے اتنی مہلت بھی نہ دی کہ وہ اپنے والدین کو آگاہ کر سکتا۔ امی کا خیال تھا اس طرح وہ کاشف کی شادی میں رکاوٹ ڈال دیں گے۔ امی کی کاوشیں رنگ لائیں میری آنا فانا شادی ہو گئی۔ یہ شادی صیغہ راز میں رہی۔ وہ جدہ روانہ ہو گئے تین ماہ بعد آنے کا وعدہ کر کے ۔ امی نے سکون کا سانس لیا۔ اب میں سہاگن تھی اور میری ماں پھولی نہیں سماتی تھی۔ وہ بڑے فخر سے کہتیں کہ مجھے دونوں داماد ایسے ملے ہیں جو میرے گھر کو اپنا گھر سمجھتے ہیں۔ ماں کی بات درست تھی۔ اقبال بھائی نے اپنوں کو ہماری خاطر چھوڑ دیا تھا اور اب کاشف بھی اپنے والدین سے کٹے ہوئے تھے۔ امی جان نے ایک بات اچھی طرح میرے ذہن میں بٹھادی تھی کہ سسرال والوں کو زیادہ لفٹ نہیں کرانا، ورنہ وہ تیرے میاں کی کمائی لوٹ کر کھا جائیں گے ۔ میں ان دنوں سترہ برس کی تھی۔ عقل سے نہیں سوچتی تھی۔ جو ماں کہتی میں اس پر بنا چون و چرا اعمل کرتی تھی۔ امی جان نے مجھے سکھا دیا تھا کہ ساس سسر کے خطوط شوہر تک نہ پہنچنے دینا۔ وہ اگر رہنے آجائیں تو ان سے ساتھ سیدھے منہ بات نہ کرنا ورنہ وہ تمہارے گلے پڑ جائیں گے ۔ ٹھیک تین ماہ بعد کاشف جدہ سے لوٹے۔ انہوں نے والدین کو بتادیا تھا کہ وہ شادی کر چکے ہیں۔ والدین کی آرزو تھی کہ بیٹے کا سہرا دیکھیں لیکن پتا چلا کہ بیٹے نے ان کو اپنی خوشی میں شامل کئے بغیر ہی یہ کام کر لیا ہے تو سخت آزردہ ہوئے ، تاہم مجھے دیکھتے ہی ان کی تمام آزردگی ختم ہو گئی۔ تبھی انہوں نے مجھے ڈھیر ساری دعائیں دیں اور سونے کے زیورات بھی دیئے۔ میری ساس کی آرزو تھی کہ بیٹے کی اچھی سی بری بنا تیں اور دھوم دھام سے بہو کو بیاہ کر لاتی۔ انہوں نے یہ آرزو بھی پوری کر لی۔ مجھے خود بازار لےجاکر بہت عمدہ جوڑے خرید کر دیئے ، مٹھائی بانٹی، غرض اپنی خوشی پوری کی۔ میں مانتی ہوں کہ میں ان دنوں بہت نادان تھی۔ ساس سسر اور ان کے گھر والوں کا حسن سلوک بھی میرے دل کو موم نہ کر سکا۔ زیادہ پڑھی لکھی نہ تھی، جو ماں نے سکھا پڑھا دیا، وہی میرے دل پر پتھر کی لکیر ثابت ہوا۔ سسرال میں پندرہ دن میں شہزادیوں کی طرح رہی پھر ہم جدہ روانہ ہو گئے۔ جب میں روانہ ہونے لگی ساس مجھے گلے لگا کر رونے لگیں۔ کہا۔ بیٹی ہمارا دل تجھ سے لگ گیا تھا۔ تیرے آنے سے رونق ہو گئی تھی اور تیرے جانے سے ہمارا گھر سونا ہو گیا ہے۔ وہاں جا کر خط لکھنا، ہمیں بھول نہ جانا۔ ساس ماں کی جگہ ہوتی ہے۔ ان کے احساسات کو میں نہ سمجھ سکی۔ ان کی محبت کو خوشامد جانا، ان کے آنسوئوں اور دعائوں کی قدر نہیں کی۔جدہ میں میرے خاوند اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ میں نے اتنی سہولتیں خواب میں بھی نہ دیکھی تھیں۔ میں بہت خوش قسمت تھی، میری تقدیر کھل گئی تھی۔ کاشف میرا بہت خیال کرتے تھے۔ وہ نجی خطوط گھر کے پتے پر منگواتے تھے۔ الہذا میں ان کے والدین کے خطوط کھول کر پڑھتی اور پھاڑ دیتی۔ ان کو نہ بتاتی کہ ان کے والدین اُداس ہیں یا ان کو کوئی تکلیف ہے۔ دس سال ہم جدہ میں رہے۔ ہم تین بار پاکستان آئے لیکن میں سسرال نہ گئی۔ میں نے کاشف کو مجبور کیا کہ وہ میری والدہ کے پاس ٹھہریں۔ اپنے والدین سے ملنے وہ ایک دو بار سرسری طور پر ہی گئے تھے۔ اب میں چار بچوں کی ماں بن چکی تھی۔ ان کو بھی میں ددھیال نہ جانے دیتی تھی۔ یہ میری والدہ کی منشاء تھی۔ ان کا خیال تھا کہ بچے دادا، دادی سے دور رہیں ، ورنہ وہ لوگ بچوں کی محبت کا بہانہ بنا کر ہمارے گھر گھسنے کی کوشش کریں گے۔ انسان خطا کا پتلا سہی لیکن جب رعونت حد سے بڑھ جائے تو خدا کی بے آواز لاٹھی اس کے سر پر آ لگتی ہے تب اسے ہوش آ جاتا ہے کہ دوسرے انسانوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔ سکھ کے دن تھوڑے ہوتے ہیں۔ میری بادشاہی بھی اس دن ختم ہو گئی جس دن کا شف کی کار حادثے کا شکار ہو گئی اور وہ ناگہانی اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ سارے چراغ یکلخت گل ہو گئے۔ میرے چار سو اندھیرا پھیل گیا۔ میں دیارِ غیر میں تنہا اور غیر محفوظ ہو گئی۔ ایسے برے وقت میں کاشف کے چند دوست کام آئے۔ انہوں نے میرے اور بچوں کے پاکستان جانے کا انتظام کیا اور جو رقم کمپنی نے دینی تھی وہ بھی ان کی بھاگ دوڑ کی وجہ سے مجھ کو مل گئی۔ میں جتنے عرصے جدہ رہی ، ہمیشہ والدہ اور بھائیوں کو تحفے تحائف اور رقوم بھجواتی رہتی تھی۔ والدہ کا گھر حقیقتاً میرے خاوند کی کمائی سے چلتا تھا۔ اب مجھے پر برا وقت آگیا تو میں نے میکے کی طرف دیکھنا تھا۔ میری آئو بھگت ہوئی۔ بھائیوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ماں نے بھی پذیرائی کی۔ وہ رقم جو کمپنی والوں نے ادا کی تھی، وہ تمام والدہ نے لے لی کہ تمہارے سسرال والوں کو پتا چل جائے گا تو وہ اس رقم کے دعویدار بن جائیں گے، لہذا یہ پیسہ تم میرے نام جمع کروا دو۔ ر قم ماں نے بڑے بیٹے کے نام جمع کروا دی۔ اب بھائی مجھے ہر ماہ قلیل رقم بچوں کے خرچے کے لئے دیتے تھے۔ بچے عیش و آرام میں پلے تھے، انہوں نے تنگی نہیں دیکھی تھی۔ اب ان کو یہ دن دیکھنے پڑ رہے تھے وہ چھوٹی چھوٹی خواہشات کے لئے ترس رہے تھے۔ میرے ساس اور سر ایک بار ملنے آئے تو والدہ نے بچوں کو آپا کے پاس بھجوادیا اور ان سے ملاقات نہیں کروائی۔ خود بھی نہ ملیں اور مجھے بھی کہا کہ زیادہ لفٹ کرانے کی ضرورت نہیں۔ جس کے ساتھ ناتا تھا جب وہی نہیں رہا ہے تو اب ان لوگوں کی کہاں گنجائش ہے۔ وہ سیدھے سادے شریف لوگ تھے۔ بہو ہماری مدد کی ضرورت ہو تو حاضر ہیں، بلا تکلف بتادینا کہ تمہیں کیا چاہئے۔ امی نے مجھے بعد میں سمجھایا کہ یہ تمہارا دل جیتنے کو ایسا کہ رہے ہیں۔ ان کو پتا ہے کہ تم کو کمپنی سے کافی پیسہ ملا ہے۔ تم اب لاکھوں کی آسامی ہو۔ امی کا کنٹرول میرے دل و دماغ میں بچپن سے تھا۔ ماں قابل احترام ہستی ہے۔ مجھے ان کی برائی مقصود نہیں لیکن کبھی کبھی یہی ہستی بڑی ظالم ہو جاتی ہے۔ جب اپنے بیٹوں کی خاطر خود غرض بن جاتی ہے اور بیٹی کا حق غصب کر لیتی ہے۔ سکیں۔ امی بیٹے کے لئے اونچے گھروں میں رشتہ تلاش کر رہی تھیں تاکہ ان کو مضبوط سہار امل جائے۔ بھائی سارا دن امی کے ساتھ میری گاڑی پر چڑھے پھرتے اور میرے بچے پیدل اسکول جاتے ۔ میں چپ تھی ، اف تک نہیں کر سکتی تھی۔ ماں جیسا چاہتی تھیں ویسا کرتی تھیں۔ انہوں نے ایک خوشحال گھرانے میں بڑے بھائی کار شتہ کر دیا۔ زیور اور بری سب میرے پیسوں سے بنایا گیا اور دلہن کا کمرہ سجادیا گیا۔ گھر کی دوبارہ تعمیر بھی کروائی۔ اچھے گھر والوں میں رشتے ہوں تو خرچے بھی اچھے کرنے پڑتے ہیں۔ بھائی کی شادی پر ماں نے دل کھول کر خرچہ کیا، شاندار ولیمہ دیا۔ میں اپنے بچوں کا حق مارے جانے پر مہر بہ لب تھی۔ یہ وہ رقم تھی جس سے میرے بچوں کا مستقبل وابستہ تھا اور ماں مجھے جھوٹی تسلیاں دیتیں تھیں کہ حوصلہ رکھ ، تیری ایک ایک پائی تیرے بھائی جیتے رہیں۔ کما کر تیر اقرضہ ادا کر دیں گے۔ جیب تیرے بچے جوان ہوں گے تو تیرے بھائی اس لائق ہو جائیں گے کہ ان کو پاؤں پر کھڑا کرنے میں مدد کریں گے۔ بھائیوں نے گھر ٹھیک کرایا اور دو مکان جو کرایے پر لگے ہوئے تھے وہ آپس میں بانٹ لئے۔ مجھے والد اور والدہ کی جائیداد سے بھی محروم کر دیا گیا۔ میں اور امی بچوں کے ساتھ اس پرانے گھر میں رہتے رہے اور بھائی اپنی بیویوں کے ہمراہ بڑے مکانوں میں چلے گئے گویا آنکھ او جھل اور پہاڑ او جھل۔ جب وہ اپنے گھروں میں آباد ہو گئے تو مجھے اور ماں کو بھول گئے۔ میری رقم سے انہوں نے اپنی زندگی سنواری، آسائشیں حاصل کر لیں، اس کے بعد مڑ کر بھی نہیں دیکھا کہ بہن اور اس کے یتیم بچے کس حال میں ہیں۔ جب میرا بیٹا و سیم پانچویں میں تھا تو میں کوڑی کوڑی کو محتاج ہو چکی تھی۔ پڑھی لکھی نہ تھی کہ کہیں ملازمت کی کوشش کرتی۔ ماں سے کچھ کہتی تو وہ اپنی مجبوری ظاہر کرتیں۔ کبھی بیٹوں کو ، کبھی مجھے برا بھلا کہنے لگتی تھیں۔ وہ خود اب کوڑی کوڑی کو محتاج تھیں۔ تمام روپیہ اپنے بیٹوں کو کھلا بیٹھی تھیں۔ اب کوئی راستہ نہ تھا، ادھر یہ حال کہ میرے بچے تعلیمی اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے اسکول سے باہر ہو چکے تھے۔ میں کئی بار بھائیوں کے پاس گئی۔ انہوں نے آئیں بائیں شائیں کی اور بھابھیوں نے تو پانی تک کا نہ پوچھا۔ بھائی بولے۔ ابھی ہمارے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ جب پیسے آئیں گے ، لوٹا دیں گے ۔ تھک ہار کر گھر بیٹھ گئی اور اب فاقوں کی نوبت آگئی۔ جب بری طرح بیوگی کے حالات میں گھر گئی تو ایک روز سر صاحب کا خیال آیا۔ ساس سسر میں برائیاں تلاش کرنے کی کوشش کی، کوئی برائی نہ ڈھونڈ سکی۔ اب دل کی عدالت میں مجرم بنی۔ ان کا کیا قصور تھا؟ وہ تو محبت کرتے تھے ، میرے بچوں سے پیار کرتے تھے ، ان کو گود میں لینے کو ترستے تھے لیکن میں نے یہ کیا کیا ان کی اولاد کو ان سے دُور رکھا اور بچوں کو انہیں چھونے تک نہیں دیا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ والدین جو پالتے پوستے ہیں، بڑا کرتے ہیں۔ جب بیٹا جوان ہو جاتا ہے تو پھر وہ اپنے والدین کو بھلا دیتا ہے۔ کلی طور پر بیوی بچوں کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ کاش میں نے اپنی ماں کی باتوں کو گرہ میں نہ باندھا ہوتا، اپنے ساس سسر کا خیال کیا ہوتا تو وہ اپنے پوتے پوتیوں کے سر پر ہاتھ رکھتے۔ ایک دن میں بازار سے گزر رہی تھی۔ خرم کی دوا لینی تھی، کہ اچانک سسر صاحب کلینک پر مل گئے ۔ مجھے دیکھ کر فوراً میری طرف آئے اور بولے۔ کیا بات ہے بہو! خیریت تو ہے؟ خرم بیمار ہے۔ اس کی دوا لینی تھی۔ کہتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ وہ بھی مجھے رنجیدہ دیکھ آبدیدہ ہو گئے۔ کہنے لگے ۔ میں ڈاکٹر کو دکھا دیتا ہوں۔ یہ ڈاکٹر میرا بیٹا بنا ہوا ہے۔ انہوں نے پوتے کو گود میں اٹھالیا۔ وہ بخار سے پھینک رہا تھا۔ ڈاکٹر کو دکھایا پھر کہا۔ بیٹی ناراض نہ ہونا، اگر کہو تو دو منٹ کے لئے گھر چلیں۔ بچوں کی دادی ان کے لئے بہت اداس ہے۔ ان کو دیکھنے کو ہماری آنکھیں ترستی رہتی ہیں۔ انہوں نے میرے لباس سے ہماری خستہ حالی کا اندازہ لگا لیا تھا۔ میں ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر ان کے گھر چلی گئی۔ جیسے ہی میں نے گھر میں قدم رکھا، میری ساس نے کہا۔ بسم اللہ ، خدا تمہیں سلامت رکھے۔ آج میری آنکھیں روشن ہو گئی ہیں۔ تم کیسے آگئیں ؟ یقین نہیں آتا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھیں اور لپک کر میرے بیٹے کو گود میں بھرا ، سینے سے لگایا۔ پیار کرتی جاتی تھیں اور روتی جاتی تھیں۔ اپنے مرحوم بیٹے کی اولاد میں وہ اپنے بیٹے کی روح کو تلاش کرتی جاتی تھیں۔ یہ نظارہ دیکھ کر میں رونے لگی۔ خود کو لعنت ملامت کرنے لگی کہ میں نے ان لوگوں پر کتنا ظلم کیا ہے۔ ان کو ظالم سمجھتی تھی حالانکہ خود ظالم تھی۔ پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ میری ذات کی کچھ اہمیت ہے۔ میرے بچوں کی کسی کا تحفظ حاصل ہے اور یہ بے آسرا نہیں ہیں۔ جن بھائیوں پر تکیہ تھا۔ وہ تو ساتھ چھوڑ گئے اور جن کو اچھا نہیں سمجھتی تھی ، وہ کتنے اچھے نکلے۔ گرچہ جواں سال بیٹے کی موت نے ان کی کمر توڑ دی تھی، پھر بھی میرے بوڑھے سر میرے بچوں کو تحفظ دینے کے لئے کمر بستہ ہو گئے۔ آج ان کا ساتھ میرے لئے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا نہیں تھا بلکہ انہوں نے میری اور بچوں کی بھر پور مالی مدد کی تھی اور وہ عزت و تکریم مجھے اس گھر سے ملی جو واقعی ایک بہو کا حق تھا۔ یہ خاندانی لوگ تھے۔ روپے پیسے سے زیادہ عزت کو جانتے تھے۔ انہوں نے مرحوم بیٹے کی اولاد کو یہ کہہ کر سینے سے لگالیا کہ یہ ہمارا خون ہے اور میرے سر پر چادر ڈال دی کہ یہ ہماری بہو ہے اور بیٹی جیسی ہے۔ اس گھرانے کی عزت اسی کے دم سے ہے۔ میں سسرال میں رہنے لگی۔ ان لوگوں کا سلوک میرے ساتھ بہت اچھا تھا۔ مجھے اپنے کئے پر شرمندگی ہوتی تھی۔ میں خود کو ان کا مجرم سمجھتی تھی۔ ان کو تکلیف دی تھی، انہیں ان کے بیٹے سے دور رکھا تھا۔ اپنے بچوں کو جن سے چھپاتی تھی وہ تون پر جان فدا کرتے تھے۔ میرا یہ خیال بھی غلط تھاکہ ان کو دولت کا لالچ ہے۔ ان کو کسی قسم کا لالچ نہ تھا۔ انہوں نے تو مجھ سے پوچھا تک نہیں کہ مجھے جدہ کمپنی سے جو پیسہ ملا، وہ کتنا تھا اور ور قم کہاں ہے ؟ بلکہ وہ کہتے تھے کہ بہو غم نہ کرو، دولت چلی گئی تو کوئی بات نہیں۔ دولت آنی جانی چیز ہے لیکن رشتے دولت سے افضل ہوتے ہیں۔ میں نے خود ان کو بتادیا کہ والدہ نے کمپنی سے ملنے والی رقم بھائیوں کو امانت دی اور انہوں نے خیانت کی۔ سسر کہنے لگے ۔ بیٹی غم نہ کرو، تمہارے بھائیوں کی زندگی میں گئی تو گویا تم نے ماں کی خدمت کی اور تم جنت کی حق دار ہو گئیں۔ میرے پوتوں پوتیوں کے لئے ہمارے پاس اللہ کاد یا بہت کچھ ہے۔ اب مجھے پتا چلا کہ اچھے لوگ کیسے ہوتے ہیں۔ وہ واقعی فرشتہ صفت تھے۔ میں نے اب جانا کہ میں کتنی خوش قسمت ہوں کہ مجھے ایسا سسرال ملا اور میں کتنی بد نصیب تھی، جو اتنے عرصے ایسے لوگوں سے دور رہی۔ اب سمجھ میں آیا کہ ساس سسر بھی باپ کی طرح ہوتے ہیں اور نیکی کا پھل ضرور ملتا ہے۔ اچھائی رائیگاں نہیں جاتی جبکہ برائی انسان کو نفرت کے پاتال میں ایسے پھینکتی ہے کہ آدمی دوسروں کو فنا کرنے کی چاہ میں خود ہی فنا ہو جاتا ہے۔ ہمیں ماں باپ کی قدر کرنے کے ساتھ ساتھ ساس سسر کی بھی قدر کرنا چاہئے ۔ آج میرے بچے ، تعلیم یافتہ اور اچھے مقام پر ہیں تو میرے ساس سسر کے دم سے ، ورنہ میں نے تو ان کی بربادی میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی