Monday, September 16, 2024

Tabeer Nahi Koi | Complete urdu story

’کتنا پیارا بچہ ہے! تم تو اتنے خوب صورت نہیں ہو یہ کس پر گیا ہے؟‘‘
احسان سال بھرکے ریشم جیسے بچے کو ہاتھوں میں اٹھاکر کہتا ہے۔
’’اپنی ماں پر‘‘ فیروز مسکراتے ہوئے بیٹے کی طرف کہہ دیا ہے۔
 
 
 
’’بھابھی کہاں ہے‘‘ احسان کو اچانک یاد آجاتا ہے۔
’’آرہی ہے چائے بنارہی ہے۔‘‘
’’یار! بھابھی کو سلام ہے، تمہارا ساتھ سچائی کے ساتھ دیا ہے۔‘‘
فیروز نے احسان کی بات سنی، پُرسکون انداز میں مسکراتے ہوئے کہہ رہا ہے:
’’ہاں بہت سے جھگڑوں کے بعد ہم نے ایک دوسرے کو حاصل کیا ہے۔‘‘
فیروز کی ماں مختصر کمرے کے پتلے سے دروازے سے اندر آکر احسان سے بچہ لے کر کہتی ہے۔
’’مجھے دو بیٹا! اس کے دودھ کا ٹائم ہوگیا ہے۔‘‘
احسان بچہ فیروز کی ماں کی طرف بڑھادیتا ہے اور جیب سے دس روپے کا نوٹ نکال کر بچے کی بند مٹھی میں رکھ دیتا ہے۔ بچے کی دادی فیروز کی ماں پوتے کو بوسے دے کر کمرے سے باہر نکل جاتی ہے اور پھر وہ دونوں باتیں کرنے لگتے ہیں۔
فیروز! سچ بتاؤ … شادی سے پہلے خوش تھے یا اب؟‘‘
فیروز سگریٹ کا کش لے کر، تیلی کو ہوا میں ہلاکر بجھاتا ہے۔
’’اب … شادی کے بعد آدمی کی زندگی میں ایک لیول آجاتا ہے۔ لیول سمجھتے ہو نہ، میرا مطلب ہے توازن۔‘‘
احسان گہری سوچ میں ڈوب کر کمرے کی ہر ایک چیز کو غور سے دیکھنے لگتا ہے اور سوچنے لگتا ہے:’’کتنا مختصر اور دم گھٹنے والا کمرا ہے۔ کچھ بھی تو نہیں ہے اس کمرے میں۔ سوائے ایک پلنگ اور کراکری کے۔ اتنے بڑے گھر سے آئی ہوئی لڑکی کیا اس اندھیرے کمرے میں خوش رہتی ہوگی؟‘‘
کچھ دیر بعد کہتا ہے:
’’تمہیں اب ٹی وی وغیرہ لے لینا چاہیے، ہلکی پھلکی تفریح ہوجائے گی؟‘‘
’’ہاں لے لیں گے‘‘ فیروز سرد آواز میں کہہ دیتا ہے۔
’’بھابھی یہاں خوش رہتی ہے۔‘‘
احسان کے منہ سے اچانک نکل جاتا ہے۔
’’بھئی! عورت کو چاہیے کیا؟ رہنے کے لیے گھر، تین وقت کا کھانا اور پیار کرنے والا شوہر۔‘‘
احسان جواب دے ہی رہا تھا کہ کمرے کے باہر سے آواز آتی ہے:
’’چائے لو فیروز‘‘
’’اندر آجاؤ ثمینہ! یہ میرا دوست اور تمہارا دیور ہے احسان‘‘
’’میرے کپڑے ٹھیک نہیں ہیں، یہ چائے لیں۔‘‘
ثمینہ سرد لہجے میں کہتی ہے، احسان جلدی میں کہتا ہے:
’’ارے بھابھی، کمال کرتی ہیں۔ میں آپ کا دیور ہوں غیر تو نہیں ہوں۔‘‘
فیروز اٹھ کر دروازے کی طرف جارہا ہے اور ثمینہ کو بازو سے پکڑ کر اندر لے کر کہہ رہا ہے:
’’آؤ! احسن کو تم سے ملنے کا بہت شوق ہے‘‘
سادے کپڑوں میں ملبوس، اداس ثمینہ ٹرے سنبھالتے ہوئے اندر آجاتی ہے اور خالی پلنگ کے کنارے پر بیٹھ جاتی ہے۔ ثمینہ کے آنے کے بعد کچھ لمحے کمرے میں اداسی اور خاموشی چھا جاتی ہے۔ ثمینہ احسان کی طرف خالی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے سرد آواز میں پوچھ رہی ہے۔
’’آپ پڑھتے ہیں؟‘‘
احسان، ثمینہ کے جملے پر ہلکا سا مسکراکر کہہ رہا ہے:
’’پڑھتا تھا‘‘
’’نوکری کرتے ہیں؟‘‘
دوبارہ سرد لہجے میں پوچھا۔
’’نوکری ہی سمجھ لیں‘‘
’’بھئی یہ بہت بڑا مصور ہے، بیٹھے بیٹھے تمہاری تصویر بنا ڈالے۔ انھیں تصویروں نے ہی تو گھر سے بھگایا ہے۔‘‘
فیروز کی بات سن کر ایک لمحے کو ثمینہ کو عجیب لگا۔ وہ کہہ رہی ہے:
’’کیوں؟‘‘
’’ہمارے بڑے بچوں کے اوپر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں، بچہ بننا کچھ چاہتا ہے اور بڑے بنانا کچھ چاہتے ہیں۔ میرے ابو نے بھی مجھے اپنے جیسا کام یاب انجینئر بنانا چاہا، انھوں نے چاہا میں انجنیئر بن کر ناقص پُل، کچے راستے بناکر مضبوط بینک بیلنس کا مالک بن جاؤں۔‘‘ احسان نے مضبوط لہجے میں کہا۔
’’ابھی تک گھر نہیں جاتے ہو؟‘‘
’’امی کبھی کبھار ملنے آجاتی ہیں۔‘‘
’’ہو کہاں؟‘‘
’’ادھر ہی!‘‘
’’کھولی میں؟‘‘
فیروز کے جملے پر احسان کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے اور دونوں ہنسنے لگتے ہیں۔ فیروز ہنسی روک کر اچانک کہہ رہا ہے:
’’چائے ٹھنڈی ہوگئی۔‘‘
احسان، کپ اٹھاکر ثمینہ سے کہہ رہا ہے:
’’بھابھی ایک بات پوچھوں؟‘‘
’’جی…؟… پوچھیں! ثمینہ چونک کر بولی۔
’’آپ شادی سے پہلے خوش تھیں یا اب؟‘‘
ثمینہ کے چہرے پر اداس چھاگئی۔ وہ ایک لمحے کے لیے فیروز کی طرف دیکھتی ہے اور پھر سرد آواز میں کہہ دیتی ہے:
’’شادی سے پہلے۔‘‘
کچھ لمحیں بعد کہتی ہے،’’میری امی کہتی تھیں، شادی کے بعد عورت گھر کی مالکن بن جاتی ہے؟‘‘
احسان، بیچ میں رکا ہوا کپ اپنے ہونٹوں تک لے آتا ہے اور کہتا ہے:
’’بھابھی! تھوڑی چینی پلیز۔‘‘
ثمینہ گہرا لمبا سانس لے کر کمرے سے باہر چلی جاتی ہے اور فیروز ہلکے سے طنزیہ لہجے میں کہہ رہا ہے:
’’عورت کو جتنا خوش رکھو، اتنی ہی دُکھی!!‘‘
ثمینہ کمرے میں داخل ہوتی ہے اور چینی سے بھرا ڈبا ٹیبل پر رکھ دیتی ہے۔ احسان ڈبے میں سے چینی نکال کر چمچا لے کر کپ میں ملانے لگتا ہے۔ ثمینہ سرد لہجے میں کہتی ہے۔
’’میں تو ان سے کچھ بھی نہیں مانگتی، جو چاہتے ہیں کرتے ہیں‘‘
احسان کو ایسا لگتا ہے کہ ثمینہ نے کچھ نہ کہہ کر سب کچھ کہہ دیا ہے۔ احسان کو محسوس ہونے لگتا ہے جس جواب کی تلاش میں وہ نکلا تھا وہ جواب اسے مل گیا ہے۔
’’لو میرج، محبت کا اختتام نہیں۔‘‘
محبت کی تو کوئی آخرت نہیں۔‘‘ وہ سوچتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے۔
’’آج جب کہ مجھے 12بجے سیمی کے ساتھ کورٹ میں لو میرج کرنی ہے بہتر ہے کہ میں 12 بجے کسی اچھے سے ہوٹل میں کھانا کر، تنہا تنہا راستوں کی خوب صورتی دیکھوں۔‘‘
وہ گھڑی میں ٹائم دیکھتا ہے، ساڑھے گیارہ اور اس کے ساتھ لمبا گہرا سانس لے کر پرسکون ہوجاتا ہے۔
طارق عالم
سندھی سے ترجمہ: نوشابہ نوش

Latest Posts

Related POSTS