تدریس کے شعبے میں کیسے بھیڑیے ہیں یہ میں نے جاننے میں اپنی زندگی گنوا دی – استاد کا صاحب کردار ہونا بیحد ضروری ہے- سکول میں پڑھنے والی بچیاں کیا خود استانیاں بھی ان چالباز، بےشرم اور بےضمیر مردوں سے محفوظ نہیں – میرانام گل لالہ ہے ۔ تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوۓ مجھ کو انیس سال بیت چکے ہیں۔ تصور بھی نہ کیا تھا کہ میری زندگی میں بھی کوئی ڈرامائی موڑ آئے گا۔ زندگی میں ہمارا بہت سے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ میرے جیون میں بھی ایک ایسا شخص آیا جس نے میری سوچوں میں ہلچل مچادی۔ نہیں جانتی ان کو مجھ سے سچی محبت تھی یا جھوٹی مگر اظہار محبت کر کے اس نے مجھے چونکا ضرور دیا تھا۔ بہر حال دلوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے۔ان دنوں میں جس اسکول میں تدریسی فرائض انجام دے رہی تھی۔ وہ بھی اسی اسکول میں پڑھارہے تھے۔ میں نے ان کی نظروں میں پسندید گی بھانپ لی تھی۔ بلاشبہ وہ ایک پر کشش شخصیت کے مالک تھے لیکن شادی شدہ اور چار بچوں کے باپ تھے۔ سو ان کے متعلق زیادہ سوچنا شرم کی بات تھی ۔ اس لئے میں ان سے دور ر ہتی تھی۔ ولید صاحب کے پڑھانے کا انداز بہت منفرد تھا ، طلباو طالبات ان کو پسند کرتے تھے۔ میں بھی ان کے پڑھانے کے انداز سے متاثر تھی۔ ایک دن وہ آٹھویں جماعت کے بچوں کو نظم پڑھا رہے تھے تب میں بے اختیاران کی جماعت میں چلی گئی۔ ان کے پڑھانے کے انداز کو سراہا۔ میں نے کہا۔ سر… آپ تو پیدائشی ٹیچر ہیں، اللہ تعالی نے آپ کو یہ صلاحیت ودیعت کی ہے۔ وہ اپنی تعریف سن کر بہت خوش ہوۓ اور جوابا بولے کہ گل ، آپ بھی پیدائشی ٹیچر ہیں ، یوں ایک دوسرے کی تعریف سے ہمارے در میان گفتگو کی ابتدا ہوئی۔ ایک روز انہوں نے مجھ سے کہا۔ مس گل حیرت ہے کہ آپ ابھی تک سنگل ہیں۔اس بات کے جواب میں ، میں نے کسی قسم کاردعمل ظاہر نہ کیا اور چپ رہی ۔ ایک روز لال رنگ کالباس پہن کر اسکول گئی ،انہوں نے میرے لباس کی تعریف کی۔ یوں ان کی طرف سے پہلی بار تعریف کا آغاز ہوا۔ میری خاموشی سے ان کی ہمت افزائی ہوئی۔ کچھ دنوں بعد کسی کام کے سلسلے میں ولید کو فون کیا تو انہوں نے کہا۔ آپ اتنی خوش لباس ہیں کہ ہر بار تعریف کرنے کو دل چاہتا ہے ، واقعی آپ ہر لحاظ سے بہت اچھی ہیں۔ حیرت ہے کہ ابھی تک آپ کی شادی نہیں ہوئی۔اگر میں کنوارہ ہوتا تو اپنار شتہ آپ کے گھر ضرور بھیجتا۔ ان کی ایسی باتوں پر میں نے چونکنا شروع کر دیا تھا۔ بہر حال بعد میں انہوں نے معذرت کرلی۔ ایک دن اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ بڑی عمر والے مرد سے شادی مت کیجئے گا اور نہ ہی کسی بچوں والے سے ۔ آخران مفید مشوروں کا کیا مطلب تھا؟ میں جس جماعت کی کلاس ٹیچر تھی اس میں ایک لڑ کی ندا پڑھتی تھی۔ میں نے یہ بات نوٹ کی کہ یہ لڑ کی سر ولید میں غیر معمولی دلچسپی لیتی ہے ۔ یہ لڑ کی روز ہی چھٹی سے ذرا پہلے کسی نہ کسی کام کے بہانے ان کے پاس چلی جاتی۔کبھی کا پی چیک کروانے کے بہانے ، کبھی کسی اور بہانے ، کئی دنوں تک میں یہ باتنوٹ کرتی رہی کیونکہ میری چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے ۔۔ ندا کو د بے لفظوں میں سمجھانے کی کوشش کی لیکن میری بد قسمتی کہ وہ لڑ کی الٹامیری دشمن بن گئی ۔ وہ ولید صاحب کے پاس گئی ، ان کے سامنے خوب روئی اور کہا کہ مس گل مجھ پر شک کرتی ہیں جبکہ میں تو آپ کو استاد سمجھ کر آپ سے بات کرتی ہوں۔ کل میں اپنے ابو کو اسکول لے کر آئوں گی تاکہ وہ معاملہ خود سنبھال لیں۔ ندا کی بات سن کر سر ولید پر یشان ہو گئے۔ میرے کلاس لینے کے دوران ہی انہوں نے مجھے باہر بلا لیا اور پوچھا کہ آپ نے ندا سے کیا کہا ہے جو روتی ہوئی میرے پاس آئی ہے۔ آپ مجھے بتائیے کہ آپ نے ایسا کیادیکھا ہے جو آپ کا ذہن اس قسم کی بات کی طرف چلا گیا ہے ۔ ہمارے در میان ایسی کوئی بات نہیں ہے جو آپ نے ندا کو تنبیہ کی ہے۔ دراصل بچے اپنے اساتذہ کو پسندیدگی کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ آپ اس معاملے کو زیادہ نہ ہونے دیں۔ ندا کے والد ایک مولوی صاحب ہیں جن کے مراسم ہماری میڈم سے اچھے ہیں۔ میڈم تک بات پہنچ گئی کہیں سے کہیں تک پہنچ جائے گی۔ ندا کے حوالے سے ہمارے درمیان اس روز کافی لمبی گفتگو ہوئی تھی۔ میرے پاس چونکہ سر ولید کا نمبر تھا، میں نے رات کو ان کو ٹیکسٹ “ کیا۔ اور ندا سے محتاط رہنے کو کہا جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں ندا کو اپنی بیٹی سمجھتا ہوں ، آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ۔ مجھ کو ان کی اس بات سے لگا کہ وہ ناراض ہوگئے ہیں تو میں نے ان کو ٹیکسٹ کیا۔ سر کیا آپ مجھ سے ناراض ہو گئے ہیں ؟ انہوں نے فور جواب دیا۔ بالکل نہیں، میں آپ سے ناراض نہیں ہو سکتا۔ لیکن آپ سے کچھ کہنا ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے مجھ پر اپنی پسندیدگی کی وضاحت کر دی۔ کہا کہ میں آپ سے اس لئے محبت کرتا ہوں کہ آپ ایک اچھی معلمہ ہیں ، آپ تعلیم یافتہ ہیں۔ انہوں نے میری خوب تعریفیں کیں تو میں نے ان کو کہا کہ آپ نے تو میری تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے ہیں۔ میں اتنی تعریف کے قابل نہیں ۔ بولے۔ارے نہیں گل آپ واقعی انمول ہیں۔ جب آپ بن سنور کر اسکول آتی ہیں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے ۔ جی چاہتا ہے آپ کی تعریف کروں لیکن موقع نہیں ملتا۔ سر میں تو اپنے لئے سنورتی ہوں ، دوسروں کو متاثر کرنے کے لئے نہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ انسان کسی نہ کسی کے لئے تو سنورتا ہی ہے ۔ میں ان کے جواب سے دم بخودرہ گئی۔ کچھ دن گزرے تھے کہ ندا نے اس واقعے کو پھر سے رنگ دینے کی کوشش کی اور اپنی بڑی بہن کو جو اسی اسکول میں پڑھتی تھی، میرے پاس لے آئی۔ اس کی بہن نے مجھ کو اسکول سے نکلوانے کی دھمکیاں دیں۔ میں نے سر ولید سے ذکر کیا۔ انہوں نے تب میری بہت مدد کی۔ ندا اور اس کی بہن کو سمجھا کر نارمل کیا، بات میڈم تک نہ پہنچنے دی۔ یوں وہ میرے محسن ثابت ہوئے۔انہوں نے اس سارے معاملے میں مجھ پر ایک حرف بھی آنے نہیں دیا۔ جس کے لئے میں ان کی انتہائی شکر گزار تھی۔ اگر بات میڈم تک جاتی تو غالبا مجھ کو کچھ مشکل اٹھانی پڑتی یا پھر حزیمت کا سامنا کرنا پڑتا۔ جس کو میں برداشت نہ کر پاتی۔ ان کی اپنے لئے پسندیدگی تو مجھ پر ظاہر ہو چکی تھی۔ میں نے بھی ان سے کہا کہ آپ میرے آئیڈیل ہیں۔ چونکہ وہ شادی شدہ تھے لہذا دوسری شادی کو انہوں نے دھوکا قرار دیا۔ ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ ہم ایسے ہی رابطے میں رہیں گے تو ایک دوسرے کو جانیں گے ، تب میں نے ان کو یاد دلایا کہ ہمارا مذ ہب اس طرح کے رابطوں کی اجازت نہیں دیتا۔ کہنے لگے ۔ ہر بات پر آپ مذہب کو بیچ میں کیوں لے آتی ہیں؟ مجھ کو ان کے منہ سے یہ بات سُن کر دھچکا لگا ۔ ان دنوں میں نے یہ بات بھی نوٹ کی کہ وہ خود بھی نک سک سے درست ہو کر اسکول آنے لگے تھے۔ انہوں نے ایک روز پھر رابطہ کیا تو میں نے ان کو ٹیکسٹ کیا کہ سر آپ بلاوجہ مجھ سے کیوں رابطے میں رہنا چاہتے ہیں۔ آپ شادی شدہ ہیں۔ آپ کے اور میرے راستے جدا ہیں۔ بولے۔ میرے دل میں بھی آپ کے لئے کوئی طمع نہیں ہے۔ رابطے میں اس لئے رہنا چاہتا ہوں کہ آپ ذہین ہیں ،انچی انسان ہیں۔انہوں نے ندا کے حوالے سے کچھ باتیں کر کے مجھ سے رابطے کا سلسلہ آگے بڑھایا۔ میں ان کی باتوں کو چپ کر کے سنتی رہی۔ جب کافی دیر گزر گئی اور انہوں نے باتوں کا سلسلہ بند نہ کیا تو میں نے کہا۔ سر … اب آپ سو جائیں۔ شام کو بھی ٹیوشن پڑھاتے ہیں۔ دن بھر کے تھکے ہارے ہیں۔ جواب میں بولے ۔ آپ سے بات کر کے میرے ساری تھکن اتر جاتی ہے میں ان کی اس بے باکی پر حیران رہ گئی – وہ اب کھل کر میرے ساتھ کھیلنے لگی میرے بے باکی سے تعریف کی اور کہا کہ اب آپ سے بات کیے بنا میرا گزارا نہیں ہوتا ہے – آپ میرے حواسوں پر چھانے لگی ہیں- مجھے ان کی یہ بےباکی ایک آنکھ نہ بھائی – بیحد ضبط کا مظاہرہ کرتے ھوے میں نی فون بند کیا اور اپنی کم عقلی پر ماتم کرنے لگی کہ آخر کیوں سر ولید سے نہ چاہتے ہوے بھی رابطے میں ہوں – انہوں نے مجھے پھنسانے کے لیے پہلے شرافت کا ڈھونگ رچایا اور اب کھل کر اپنی چاہت کا اظہار کر کے مجھے رسوا کرنے کی کوشش- میں نے انھیں سمجھنے میں دیر کر دی وہ خود کو مہذب ثابت کر کے یہ گھنونا کھیل کھیل رہے تھے – ندا کا معاملہ بھی اتنا سیدھا نہ تھا وہ اس کے ساتھ بھی ایسی ہے چکنی چپڑی باتیں کرتے تھے یہ بات تو بعد میں جا کر کھلی کہ پہلے اسکول سے بھی اس ہی لیے وہ نکالے گئے تھ- میں نے ان کو رہبر سمجھا لیکن انہیں یہ اندازہ نہ ہو سکا کہ میں ویسی لڑکی نہیں کہ احترام کے رشتے میں ملاوٹ کروں گی- انہوں نے استاد کا رتبہ میرے سامنے گرا دیا کہ مرد صرف مرد ہوتے ہیں اور مرد عورت کی دوستی بنا لالچ ہو ہے نہیں سکتی – رشتوں کی اس کھوٹ نے دل بھجا دیا – اپنی اس تذلیل پر میں خاموش ان رہ سکی ان کو اسکول جا کر صاف کہا کہ آپ کو کیا حق پہنچتا تھا کہ دوست کے روپ میں ڈھل کر آپ میرے جذبات سے کھیلیں۔ میں اس کے لئے آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی- ولید کو مجھ سے اس قسم کے شدید رد عمل کی بالکل توقع نہ تھی۔وہ میرے منہ سے یہ بات سن کر حیران و پریشان رہ گئے۔ کہنے لگے میں نی سچ بات کی ہے پر میرے دل میں ان کے لیے مروت بھی نہ رہی -میں نے اس کے بعد ان سے بات چیت بالکل ہی بند کر دی۔ مجھے ان سے نظر میں ملانا مشکل لگتا تھا۔ سچ کہوں تو اس واقعہ کے بعد میر اسکول میں دل ہی نہ لگتا تھا۔ میں نے اسکول چھوڑنے کا ارادہ کر لیا۔ در اصل انہوں نے مجھے ایک عام سی لڑ کی سمجھا تھا، جو مردوں سے رابطے میں رہ کر ٹائم پاس کرتی ہیں۔ اس کے بعد میں نے وہ اسکول چھوڑ دیا۔ انہوں نے ایسی باتیں کر کے میرے دل کو ٹھیس پہنچائی ، جن کی مجھ کوان سے کبھی بھی توقع نہ تھی۔افسوس اس بات کا بھی ہے کہ زندگی میں اگر کسی کو اچھا جانا اس پر اعتبار کیا تو وہ بھی ولید سر تھے لیکن وہ مجھ سے مخلص نہ تھے ۔ مجھ سے جھوٹ بولتے رہے کہ وہ ایک مخلص انسان ہیں ،انہوں نے میرے امیج کو توڑتے ہوۓ یہ نہ سوچا کہ مجھ کو دکھ ہو گا۔ انہوں نے صرف اپنا دل بہلایا۔ کاش میں ان سے رابطے میں نہ رہتی تو یہ نوبت نہ آتی۔ اللہ تعالی ان کو ہدایت دے کہ وہ آئندہ کسی کے جذبات سے اس طرح نہ کھیلیں جو کسی معصوم دل کے لئے تکلیف کا باعث ہو۔