میں ان دنوں کچھ لاابالی سی تھی اور پڑھائی کی طرف دھیان نہیں دیتی تھی، جس کا امی کو بہت دکھ تھا۔ امی بہت سمجھاتی تھیں، ہما، پڑھ لو۔ تعلیم ہی کام آتی ہے۔ یہی عورت کا زیور ہے۔خدا جانے میرے دل و دماغ پر کیا مہر لگی ہوئی تھی کہ ماں کے ہزار سمجھانے اور کوشش کرنے پر بھی میں نے پڑھائی کی طرف توجہ نہ دی۔ کتابوں کو ہاتھ نہ لگاتی تھی۔ دھیان ہر وقت ٹی وی یا دوسری باتوں میں لگا رہتا۔ گھر میں بور ہوتی تو تاک جھانک کرتی رہتی۔ہر کام وقت پر اچھا لگتا ہے۔ وقت گزر جاتا ہے اور پتا بھی نہیں چلتا۔ جب وقت نکل جائے، تو پھر کچھ نہیں ہو سکتا، بس آدمی ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔
جب میں چودہ برس کی ہوئی تو ان دنوں ساتویں جماعت میں تھی، حالانکہ میری عمر کی لڑکیاں میٹرک میں پہنچ چکی تھیں۔ خیر، میں نے اسکول چھوڑ دیا۔ امی نے کئی بار سمجھایا، بیٹی، میں گھر پر استانی رکھ دوں گی۔ تم پرائیویٹ میٹرک کا امتحان دے دینا۔لیکن میں امی سے کہتی، پڑھنا کیا ضروری ہے؟امی سمجھاتیں، بیٹی، تعلیم حاصل کرنے میں تمہارا ہی فائدہ ہے۔ لڑکی اگر تعلیم یافتہ ہو تو اچھے گھرانوں سے رشتے آتے ہیں۔ میں جواب دیتی، جو لڑکیاں پڑھی لکھی نہیں ہوتیں، کیا ان کی شادیاں نہیں ہوتیں؟امی کہتیں، بات وہ نہیں ہے۔ تم خوبصورت ہو اگر پڑھی لکھی ہو تو اور بھی خوبصورت لگو گی۔امی کی باتوں سے بچنے کے لیے میں کان بند کر لیتی اور دوڑ کر رخسانہ آنٹی کے گھر چلی جاتی۔ رخسانہ آنٹی بہت اچھی، سخی، ہمدرد اور میری امی کی دوست تھیں۔ ایک دن آنٹی کے گھر کچھ مہمان آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے پوچھا، یہ لڑکی کون ہے؟ آنٹی نے کہا، یہ میری دوست پروین کی بیٹی ہے۔مہمانوں نے میرا نام پوچھا، تو میں نے بتا دیا۔ انہوں نے پھر پوچھا، کتنا پڑھا ہے؟چھٹی جماعت تک۔یہ سن کر ان کا منہ اتر گیا اور وہ خاموش ہو گئیں۔ ان میں سے ایک عورت نے آہستہ سے آنٹی سے کہا، اتنی خوبصورت لڑکی اور ان پڑھ؟اس دن میرے دل کو دھچکا لگا کہ واقعی تعلیم کی قدر ہے اور میں نے امی کا کہنا نہ مان کر اپنا بہت نقصان کیا تھا۔
کچھ دن بعد رخسانہ آنٹی کے کسی عزیز کی شادی تھی۔ وہ شادی سے واپس آئیں تو ان کے پاس شادی کی تصویروں کا البم تھا۔ میں نے البم ان کے ہاتھ سے لی اور ورق گردانی کرنے لگی۔ ایک تصویر لڑکے کی تھی جو مجھے بہت اچھی لگی۔ میں نے آنٹی سے پوچھا، یہ کون ہے؟آنٹی نے بتایا، میرا بھتیجا دلاور ہے۔میں نے پوچھا، کیا اس کی شادی ہو چکی ہے؟آنٹی نے جواب دیا، نہیں۔ پھر بولیں، بیٹی، تم یہ سب کیوں پوچھ رہی ہو؟ میں نے کوئی جواب نہیں دیا، لیکن وہ سمجھ گئیں کہ اس عمر میں ہر لڑکی اپنے جیون ساتھی کے خواب دیکھتی ہے۔ایک دن امی اور آنٹی بازار گئیں۔ آنٹی نے کہا، بیٹی، تم میرے گھر کا خیال رکھنا۔ گھر اکیلا ہے، اندر سے کنڈی لگا کر بیٹھ جانا اور جب تک ہم نہ آئیں، دروازہ نہ کھولنا۔میں نے کنڈی لگا کر دروازہ بند کر لیا۔ ان کا دس ماہ کا بچہ سو رہا تھا، اس لیے وہ مجھے گھر پر چھوڑ گئیں۔تھوڑی دیر گزری تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے پوچھا، کون ہے؟آواز آئی، دروازہ کھولو، میں دلاور ہوں۔نام سن کر میں چونک گئی اور دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ میں نے دروازے کی جھری سے دیکھا تو وہ تصویر سے بھی زیادہ خوبصورت تھا۔ اس نے پھر کہا، دروازہ کھولو، پیدل آیا ہوں، تھک گیا ہوں۔میں نے ہچکچاتے ہوئے دروازہ کھول دیا۔ اندر آ کر وہ بیٹھ گیا اور پانی مانگا، پھر پوچھا: آنٹی کہاں ہیں؟میں نے جواب دیا: بازار گئی ہیں، ابھی آتی ہیں۔اس نے انگریزی میں میرا نام پوچھا۔ میں خاموش رہی اور کوئی جواب نہ دیا۔ وہ کہنے لگا: آپ نام کیوں نہیں بتاتیں؟ کیا آپ میری بات نہیں سمجھیں؟ کیا تم پڑھی لکھی نہیں ہو؟میں نے جواب دیا: نہیں۔یہ کہہ کر میں اپنے گھر چلی آئی اور اس سے کہا کہ آپ آنٹی کے آنے تک گھر میں بیٹھئے کیونکہ ان کا منا سو رہا ہے، اس کا خیال رکھنا ہے۔ تھوڑی دیر بعد دوبارہ گئی تاکہ دیکھوں کہ وہ بیٹھا ہے یا چلا گیا کیونکہ آنٹی اپنے بیٹے کو میرے سپرد کر کے گئی تھیں۔ دلاور نے کہا: جنید ابھی سو رہا ہے آپ فکر نہ کریں، میں اس کا خیال رکھے ہوئے ہوں۔میں دروازے کے پاس کھڑی تھی۔ وہ بولا: بیٹھ جاؤ۔لیکن میں کھڑی رہی۔ اس نے پوچھا: کیا آپ کو میری باتیں بری لگی ہیں؟میں نے کہا: نہیں۔آپ کا نام پوچھا تھا، آپ نے بتایا نہیں۔میں نے اپنا نام بتا دیا۔ اس نے کہا: شکریہ، بیٹھ جاؤ۔میں نے جواب دیا: میں بیٹھنے نہیں آئی۔کیا واقعی آپ ان پڑھ ہیں؟جی ہاں۔اتنی دیر میں امی اور آنٹی واپس آ گئیں۔ دلاور ان کے ساتھ باتیں کر رہا تھا اور میں اسے حسرت سے دیکھ رہی تھی۔ میں سوچ رہی تھی: اے کاش! یہی میرا جیون ساتھی ہوتا۔ جب اس نے مجھ پر نظر ڈالی تو میں نے محسوس کیا کہ اس کی آنکھوں میں میرے لیے اپنائیت کے رنگ تھے۔ خیر، میں اور امی گھر آ گئے اور میں زندگی کے نئے خوابوں میں کھو گئی تھی۔دلاور نے گھر جا کر اپنی ماں سے کہا: آپ ہما کے گھر جائیں اور میرا رشتہ طلب کریں۔ان کی ماں نے کہا: دنیا میں پڑھی لکھی لڑکیاں سب ختم ہو گئی ہیں کیا، جو میں ہما جیسی چھٹی پاس کو بہو بنا لوں؟دلاور نے ضد پکڑ لی اور کہا: امی، یہ میری زندگی کا سوال ہے۔ مجھے ہما پسند ہے، آپ کو جانا ہی ہوگا، ورنہ میں کبھی شادی نہیں کروں گا اور گھر چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔جو ان اولاد کے سامنے والدین بے بس ہو جاتے ہیں۔ دلاور کی ماں اس کے مزاج کو جانتی تھیں۔ وہ بیٹے کی خوشی کی خاطر رشتہ مانگنے چلی آئیں۔ امی بہت خوش ہوئیں کہ اتنے اچھے اور امیر گھر سے رشتہ آیا ہے، اور دلاور کو وہ پہلے سے جانتی تھیں۔ رخسانہ آنٹی کے گھر دلاور سے مل چکی تھیں، اور انہیں وہ لڑکا بہت پسند آیا تھا۔ امی نے جھٹ سے ہاں کر دی۔ میرے والدین اس رشتے سے بہت خوش تھے۔ میں بھی خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔لیکن دلاور کے والدین خوش نہیں تھے۔ اس کے باوجود ہماری شادی بہت اچھے طریقے سے ہو گئی۔
دلاور بہت اچھے انسان تھے۔ وہ مجھے پسند کرتے تھے اور میں بھی ان کو دل و جان سے چاہتی تھی۔ وہ میرا بہت خیال رکھتے تھے۔شادی کے ٹھیک آٹھ ماہ بعد میری نند روبینہ سسرال سے خفا ہو کر میکے آ گئی۔ اس نے میری ساس سے کچھ ایسی باتیں کیں کہ وہ بیٹی کے کہنے میں آ گئیں اور ایک دن اچانک نوکروں کی چھٹی کر دی۔ کہنے لگیں کہ اب گھر کا سارا کام بہو کرے گی۔گھر کا کام اتنا زیادہ تھا کہ میں ایک منٹ بھی آرام سے نہیں بیٹھ سکتی تھی، جب کہ روبینہ ہر گھنٹے بعد جوڑا بدلتی اور وہ سارے کپڑے مجھے دھونے پڑتے۔ایک دن میں نے روبینہ سے کہا کہ آج میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اس پر ساس نے طعنہ دیا: تو کون سا بی اے پاس ہے، جو اتنا اتراتی ہے؟ اے چٹی ان پڑھ!یہ طعنے میرے دل پر لگتے تھے۔ اس وقت ماں کی باتیں یاد آتیں کہ بیٹی، پڑھنے سے انسان کی قدر ہوتی ہے۔ ان پڑھ عورت کی حیثیت ایک ملازم سے زیادہ نہیں ہوتی۔کاش میں ماں کی بات مان لیتی۔ جی چاہتا تھا کہ اپنے ملک کی ہر لڑکی کو نصیحت کروں کہ تعلیم ضرور حاصل کرو تاکہ کوئی تمہیں ناجائز دباؤ میں نہ رکھ سکے اور تمہاری اہانت نہ کر سکے۔دلاور مجھے سچے دل سے چاہتے تھے، اس لیے ان کے پیار میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ گھر والے ان کے سامنے مجھ سے ٹھیک طرح بات کرتے تھے، مگر جب وہ موجود نہ ہوتے تو جاہل اور ان پڑھ جیسے طعنے ملنے شروع ہو جاتے۔ ایک دن امی کا فون آیا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ میں نے دلاور سے بات کی کہ امی کو دیکھنے جانا ہے۔ وہ بولے: چلی جاؤ۔میں تیاری کرنے لگی تو نند نے پوچھا: کہاں کی تیاری ہے؟میں نے بتایا: امی بیمار ہیں، انہیں دیکھنے جا رہی ہوں۔ساس کہنے لگیں: گھر کا سارا کام پڑا ہے اور تم جا رہی ہو؟ یہ کام کون کرے گا؟
میں نے جواب دیا: ایک دن روبینہ گھر سنبھال لے گی۔اس پر ساس کو غصہ آیا۔ انہوں نے کہا: اگر جا رہی ہو تو ہمیشہ کے لیے چلی جاؤ۔روبینہ نے بھی جلتی پر تیل ڈال دیا اور کہا: جب سے یہ آئی ہے، ہمارے بھائی کو نجانے کیا کر دیا ہے۔ وہ ہم سے بات ہی نہیں کرتے۔ساس نے بھی کہا: نجانے اس عورت نے کون سا تعویذ اسے پلا دیا ہے کہ اس کے دل سے ہماری محبت ختم ہو گئی ہے۔میں خاموشی سے سنتی رہی اور آنسو بہاتی رہی۔ تب ساس نے کہا: یہاں کھڑی میرا منہ دیکھ رہی ہو؟ جا کر برتن دھوؤ۔میں برتن دھوتی رہی اور روتی رہی۔اتنے میں دلاور دفتر جاتے ہوئے راستے سے واپس آ گئے اور پوچھا: کیا ہوا؟ تم تیار کیوں نہیں ہوئیں؟ تم نے تو امی کو دیکھنے جانا تھا۔اس پر ان کی ماں اور بہن بولنے لگیں: یہ زبان چلاتی ہے، مگر تمہارے سامنے خاموش ہو جاتی ہے۔
اسی وقت میرا بھائی مجھے لینے آ گیا۔ اس وقت گھر میں جھگڑا ہو رہا تھا، میں رو رہی تھی اور وہ ماں بیٹی مجھے کوس رہی تھیں۔ دلاور نے جب میرے بھائی کو دیکھا تو مجھ سے کہا: تم اکبر کے ساتھ چلی جاؤ، میں شام کو آ کر لے جاؤں گا۔میں میکے چلی گئی۔ دلاور دو دن تک مجھے لینے نہ آئے تو میں پریشان ہو گئی کیونکہ وہ تو میرے بغیر رہ نہیں سکتے تھے۔ ایک ایک دن مجھ پر بھاری گزر رہا تھا۔ یوں پندرہ دن بیت گئے اور دلاور نہ آئے۔آخر کار میں نے فون کیا۔ وہ آئے، لیکن امی کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تھا۔امی بولیں: کیوں بیٹا! اتنے دن بعد لینے آئے ہو؟ کیا گھر میں نوکروں کی کمی پڑ گئی ہے، اس لیے یہ تمہیں یاد آ گئی ہے؟دلاور شرمندہ ہو کر واپس چلے گئے۔میں نے امی سے کہا: آپ نے انہیں ایسا کیوں کہہ دیا؟ وہ دیر سے آئے لیکن آئے تو تھے۔ اگر وہ دوبارہ نہ آئے تو میں کیا کروں گی؟ میری تو جان پر بنی ہے۔امی بولیں: اگر تم ان کے سامنے ہمیشہ سر جھکاتی رہو گی تو ان کا ظلم بڑھتا جائے گا۔ اگر انہیں تمہاری ضرورت ہے تو دلاور لینے ضرور آئے گا، ورنہ ہم تمہیں دو وقت کی روٹی کھلا سکتے ہیں۔ آرام سے بیٹھی رہو اور انتظار کرو۔ادھر دلاور کی ماں نے کہا: لے آئے اپنی ملکہ کو؟ نہیں آئی نا! یہی عزت رکھی اس نے تمہاری۔ بیٹا، اب اسے طلاق دے دو اور دوسری دلہن لے آؤ۔ گھر بھی بس جائے گا۔دلاور نے پوچھا: کس قصور میں اسے طلاق دوں؟ساس نے کہا: اس لیے کہ وہ پڑھی لکھی نہیں ہے۔ ماں جاہل ہے تو بچے بھی جاہل رہیں گے۔ میں تیرے لیے پڑھی لکھی بہو لے آؤں گی۔دلاور نے کہا: میرے ابو پڑھے لکھے تھے، انہوں نے آپ سے شادی کی تھی۔ کیا انہوں نے آپ کو طلاق دے دی تھی؟ آپ بھی تو پڑھی لکھی نہیں تھیں۔ یہ تو ہما کی شرافت ہے کہ اس نے کبھی آپ لوگوں کی شکایت نہیں کی۔ وہ گھر میں نوکروں کی طرح کام کرتی ہے۔ میں سب دیکھتا ہوں، کیا میری آنکھیں نہیں ہیں یا مجھے نظر نہیں آتا؟ماں رونے لگیں: ہائے، تم پہلے تو کبھی اتنے نافرمان نہیں تھے۔ نجانے اب تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ میں نے ہما سے تمہاری شادی کر کے بڑی غلطی کی۔ وہ بے زبان بنتی ہے، مگر بڑی چالاک ہے۔ ہائے، میں نے اپنا بیٹا کھو دیا۔
ساس کے مسلسل رونے اور شور مچانے پر دلاور نے کہا: ٹھیک ہے، اگر آپ کی خوشی اسی میں ہے تو میں ہما کو طلاق دینے کے لیے تیار ہوں۔ آپ خوش ہو جائیں، لیکن پھر میں بھی اس گھر میں نہیں رہوں گا اور کہیں چلا جاؤں گا۔دلاور نے اپنی بات پوری کر کے دکھائی۔ انہوں نے مجھے طلاق کے کاغذات لکھ کر اپنی ماں کو دیے اور کہا: یہ اسے پہنچا دینا۔ خود وہ کہیں چلے گئے اور ایسے گئے کہ پھر کبھی واپس نہ لوٹے اور نہ ہی کسی کو اپنا پتہ دیا۔اب دلاور کی ماں پچھتاتی تھیں کہ ان سے غلطی ہو گئی۔ ایک بار بیٹا واپس آجائے تو میں اپنی غلطی تسلیم کرلوں گی اور معافی مانگ لوں گی کہ واقعی ہما پر ظلم کیا ہے۔ وہ تو بہت اچھی لڑکی ہے، ضرور معاف کر دے گی۔ لیکن اب میرے معاف کرنے کا کیا سوال تھا، جب طلاق واقع ہو چکی تھی۔ سوچتی ہوں کہ چلو، میں پڑھی لکھی نہ تھی، یہ بات انہیں پہلے سے معلوم تھی۔ پھر مجھے بہو کیوں بنایا اور بعد میں سزا دی؟ اگر بہو بنا ہی لیا تھا تو کیا پھر سزا دینا ضروری تھا؟ میں نے ان کا ہر ستم برداشت کیا۔میرے بھائی کی شادی تھی اور یہ لوگ مجھے شادی میں بھی نہ جانے دیتے تھے۔ دلاور نے کہا: نہ تم جاؤ گی اور نہ میں جاؤں گا۔ وہاں لوگ ہوں گے اور تم پردے کا خیال نہیں رکھو گی۔ میں سوچتی تھی کہ یہ میرے بھائی کی شادی ہے، گھر میں رشتہ دار جمع ہوں گے، وہ کیا سوچیں گے؟ لیکن میں نے یہ بھی برداشت کر لیا۔ جب میرا بیٹا پیدا ہوا تھا، تب بھی میں امی کے گھر جانا چاہتی تھی۔ دلاور نے کہا: امی کو ساتھ لے کر چلی جاؤ۔ بڑی مشکل سے ساس نے اجازت دی تھی۔ وہاں میرا بیٹا بیمار ہو گیا تو میرے والد صاحب کو فون کروایا کہ اگر بچے کو کچھ ہو گیا تو میں آپ سب کو نہیں چھوڑوں گا۔ اس بات کا میرے والدین کو بہت دکھ ہوا تھا۔اب خیال آتا ہے کہ اے کاش، میں نے دلاور کی تصویر نہ دیکھی ہوتی۔ لیکن میں نے تو بھاگ کر شادی نہیں کی تھی۔ دلاور کو میرے ماں باپ نے پسند کیا تھا۔ اے کاش، وہ میری دلاور سے شادی نہ کرتے۔ جب میرے چچا ان کے گھر والوں سے ملے تھے، تو انہوں نے کہا تھا کہ یہ لوگ ٹھیک نہیں ہیں۔ تب ابو نے جواب دیا تھا کہ ہم نے رشتے کے لیے ہاں کر دی ہے، اب انکار کیسے کریں؟ آج اپنے بیٹے کو پالنے کے لیے سلائی کرتی ہوں کیونکہ میکے والے بھی مطلقہ بیٹی کا ساتھ نہیں دیتے۔ مجھے اپنے بچے کو پڑھانا لکھانا اور پالنا تھا۔ میں اپنا ہر دکھ اپنے ماں باپ سے چھپاتی رہی۔
گھر بچانے کے لیے عورت کیا کچھ قربانیاں نہیں دیتی۔ میری تمام لڑکیوں سے گزارش ہے کہ تعلیم ضرور حاصل کریں کیونکہ معاشرے میں ان پڑھ لڑکی کا کوئی مقام نہیں ہوتا۔ نہ ہی بر باد یا طلاق یافتہ عورت کو کوئی عزت دیتا ہے، خاص طور پر جب بچے بھی ساتھ ہوں۔آج میں پڑھی لکھی ہوتی تو کوئی اچھی ملازمت مل جاتی۔ یوں تباہ حال زندگی نہ گزارنی پڑتی۔ مائیں جو نصیحتیں کرتی ہیں، ان میں ان کی ساری زندگی کا تجربہ چھپا ہوتا ہے۔ ہم ہی لاپرواہ ہوتے ہیں، جو ماؤں کی باتوں پر کان نہیں دھرتے۔ کاش میں استانی ہی ہوتی، مگر اب لوگوں کے گھروں میں جھاڑو پونچھا کر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ لوگ مجھے ‘ماسی’ کہتے ہیں۔