Sunday, January 12, 2025

Tanhai Kay Naag

جب ابو نے امی کو چھوڑ کر دوسری عورت سے شادی کر لی تو ہم بہت چھوٹے تھے۔ والدہ نے محنت کر کے ہم کو پروان چڑھایا۔ بھائی خالد مجھ سے دو ہی برس بڑے تھے۔ انیس برس کی عمر میں تعلیم مکمل کرنے کہ بعد ان کو ایک کمپنی میں ملازمت مل گئی اور والدہ کا بوجھ انہوں نے اپنے جواں سال کندھوں پر اٹھا لیا۔ کچھ عرصہ اپنے شہر میں کام کرتے رہے، پھر کمپنی نے ترقی دے کر ان کو کراچی اپنے ہیڈ کوارٹر میں بھیج دیا۔ تنخواہ توبڑھ گئی لیکن بھائی کو رہائش کی سہولت نہ مل سکی، البتہ کرایہ پر مکان کی مد میں کچھ رقم ملتی تھی۔ کراچی میں مسئلہ رہائش تھا۔ ادھر ہم ماں بیٹی اپنے شہر میں اکیلے نہ رہ سکتے تھے تو ادھر بھائی کو کھانے وغیرہ کی دقت تھی۔ انہوں نے اپنے دوست الیاس سے ذکر کیا جس سے نئی نئی دوستی ہوئی تھی۔ وہ بھی بھائی کے ساتھ اس کمپنی میں ملازم تھا۔ بہرحال اس کی کوشش سے ان کے برابر والا فلیٹ بھائی کو کرائے پرمل گیا۔ فلیٹ میں قلعی وغیرہ کرا کر خالد بھائی مجھے اور امی کو لینے آگئے ۔ ہم نے مختصر سا سامان ساتھ لیا اور ان کے ساتھ کراچی آگئے۔ ان دنوں شہر اس قدر گنجان آباد نہ تھا، ہم کو یہاں کا موسم بہت اچھا لگا، شہر بھی پسند آیا لیکن والدہ کو کچھ تنہائی ضرورمحسوس ہوئی تھی۔ اپنے شہر میں ان کا رشتہ داروں اور پاس پڑوس میں ملنا جلنا، آنا جانا لگا رہتا تھا جبکہ یہاں کوئی اپنا نہ تھا، سبھی اجنبی تھے اور اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ کچھ دن گزرے کہ الیاس بھائی بھی فیملی لے آئے اور ہمارے برابر والا فلیٹ آباد ہو گیا۔ ان کی بیوی نوعمر خوبصورت ہنس مکھ تھی جبکہ بیٹی ابھی صرف پانچ برس کی تھی لیکن بہت چنچل اورہوشیار تھی ، جب معصوم زبان میں من مؤہنی باتیں کرتی تو بہت پیاری لگتی تھی۔

امی اور میں فریحہ بھابی کے پاس ہفتہ میں ایک بار چلے جاتے ، یوں ان سے باتیں کر کے دل بہل جاتا۔ ان کا سارا خاندان میکہ اور سرال سب ہی سیالکوٹ میں تھے اور وہ یہاں تنہائی محسوس کرتی تھیں۔ الیاس بھائی اور خالد روز شام کو اکٹھے آفس سے آتے ، بھائی تھکے ہوتے، کھانے کے بعد کچھ دیر آرام کرنے کے لیے لیٹ جاتے۔ الیاس کی بیٹی ننھی کرن صبر کرتی لیکن پھر اپنے ابو کے کمرے میں جا کر ان کو جگادیتی کیونکہ وہ سارا دن بالکونی میں کھڑی باپ کے گھر لوٹ کر آنے کا انتظار کرتی رہتی تھی۔ ایک روز امی نے فریحہ سے کہا کہ تم اب بچی کو اسکول میں داخل کرا دو۔ سامنے ہی مونٹیسوری ہے، سڑک پار کرنی پڑے گی، بس یوں تمہاری بچی اور بچوں سے ملے گی ، اس کی ذہانت پر خوشگوار اثر پڑے گا۔ وہ بولیں میں اسے داخل کرانے لے گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس کو اے بی سی ڈی پڑھاؤ اور سوتک گنتی بھی آنی چاہیے تو ہم پہلی کلاس میں لیں گے، کیونکہ مونٹیسوری کی عمر سے یہ نکل چکی ہے، اب اس کو کلاس ون میں ہونا چاہیے۔ تم خود پڑھی لکھی ہو، بچی کوگھر پر پڑھا لو، ایک دو ماہ میں اسے گنتی اور حروف تہجی وغیرہ یاد ہو جائیں گے۔ پڑھانے کی کوشش کرتی ہوں لیکن مجھ سے یہ پڑھتی نہیں ہے، تنگ آجاتی ہوں۔ میں نے کہا تو روز تھوڑی دیر کے لیے میرے پاس بھیج دیا کرو، میں پڑھا دوں گی۔ ایک ماہ بعد داخلے کا سیزن آجائے گا تب تک یہ حروف اور گنتی کی کچھ شدبد پالے گی۔ دو چاردن بچی کو فریحہ خود آ کر میرے پاس چھوڑ گئی مگر فریحہ نے ٹھیک کہا تھا، یہ بچی بے حد چنچل تھی، قابو میں نہ آتی۔ باتونی بہت تھی لیکن پڑھنے پر دھیان نہ لگاتی تھی۔ کچھ دن بعد اس نے آنا چھوڑ دیا تو ہم نے بھی اصرار نہ کیا۔

انہی دنوں الیاس بھائی کو بیرون ملک جانے کا موقع مل گیا، کمپنی نے ان کوٹرینگ کے لیے بھجوا دیا اور فریحہ اکیلی ہوگئی۔ جاتے ہوئے الیاس بھائی نے خالد بھائی سے کہا کہ اپنی بھابی اور میری بیٹی کا دھیان رکھنا، ان کو کچھ ضرورت ہو تو تم کو کہیں گی۔ اپنی والدہ اورامی کو بھی میری طرف سے عرض کرنا کہ وہ فریحہ کو تنہائی کا احساس نہ ہونے دیں۔ الیاس بھائی کو گئے ایک ماہ بمشکل ہوا تھا کہ فریحہ بجھی بجھی رہنے لگی۔ پہلے وہ ہم سے ملنے آجاتی تھی پھر آنا بھی چھوڑ دیا۔ امی کئی بار گئیں، وہ پلٹ کر نہ آئی البتہ کوئی نہ کوئی کام کہہ دیتی کہ خالد سے کہنا بل بھر دیں یا ایسا ہی کوئی کام یوں خالد بھائی خود ان کے گھر جاتے ، بل وغیرہ لے کر بھر آتے تھے۔ وہ پہلے تو ہر روز جاتے تھے جب الیاس بھائی گھر ہوتے تھے لیکن اب فریحہ کے بلوانے پر ہی جاتے تھے۔ تقریباً ہر روز فریحہ مجھے یا امی کو بالکونی سے کہہ دیتی کہ خالد بھائی کو بھیج دینا، کچھ کام ہے- ہمارے فلیٹ کا دروازہ ان کے دروازے کے ساتھ تھا لہذا وہ آواز بھی دیتیں تو ہم سن لیتے تھے۔ اکثر ننھی کرن آواز لگاتی ، خالد انکل آجائیے امی بلا رہی ہیں۔ وہ دوائیاں، گھر کا سودا سلف اور راشن وغیرہ بھی خالد بھائی سے منگوانے لگیں۔ ہر اتوار کو میرے بھائی کے ذمے یہ کام ہوتے کہ ہفتہ بھر کی سبزی ، مرغی کا گوشت ، آٹا وغیرہ ان کو خرید کر لا دیتے۔ کرن کے ہاتھ وہ اکثر چٹ لکھ کر رقم اور مطلوبہ اشیاء کی فہرست بھیج دیتی تھیں۔ خالد تمام اشیاء خرید کر ان کے گھر لے آتے۔ وہ بیٹھنے کو اصرار کرتیں اور ننھی کرن تو بھائی کا ہاتھ پکڑ لیتی کہ انکل بیٹھئے نا۔ تب وہ بچی کے اصرار پر ذرا دیر وہاں بیٹھ بھی جاتے ۔ یہ سوچ کر کہ بچی باپ کی جدائی کو محسوس کرتی ہے، وہ اس کو پیار کرتے ، ٹافیاں دیتے اور کچھ دیر اس سے باتیں کرتے تب تک فریحہ چاۓ، کباب وغیرہ لاکر ان کے آگے رکھ دیتی اور کہتی خالد کھاؤ نا، کباب تو میں نے اپنے ہاتھ سے بنائے ہیں، بڑے مزیدار ہیں۔ بچی کو تھوڑی سی کمپنی دینے کی خاطر بھائی خالد، فریحہ کے اصرار کو نظر انداز نہ کر سکتے اور چائے پی لیتے۔ پہلے تو وہ چائے اور تواضع کے لوازمات تپائی پر رکھ کر دوسرے کمرے میں چلی جاتی۔ رفتہ رفتہ بیٹی کے ساتھ بیٹھنے لگی۔ اس دوران خالد سے اپنائیت سے بات چیت کرتی۔

خالد کے دل میں کوئی برائی نہ تھی۔ وہ اسے بھابی ہی سمجھتے تھے اور کرن کہانی سنانے کی ضد کرتی تھی تو اس کو کہانی بھی سنا دیتے تھے۔ ایک روز فریحہ نے فرمائش کر دی کہ آپ لوگ باتوں باتوں میں اس کو انگریزی کے حروف اے بی سی ڈی اور گنتی یاد کرا دیں ورنہ اسکول والے کلاس ون میں داخلہ نہیں کریں گے۔ کرن واقعی خالد بھائی سے مانوس ہوگئی تھی ، ان سے پڑھنے لگی، جو بتاتے منٹوں میں یاد کر لیتی۔ ایک بات میں نے نوٹ کی تھی کہ الیاس بھائی جب یہاں تھے، وہ روز شام کو ان کے آنے کے وقت تیار ہو کر ان کا انتظار کرتی اور بنی سنوری نظر آتی لیکن اب بجھی بجھی رہنے لگی ، آنکھوں کے دیپک ماند پڑ گئے تھے اور چہرے پر راکھ سے اڑتی تھی۔ جب سے کرن میرے بھائی کے ساتھ مانوس ہوئی تھی اور ان کو گھیرا تھا، فریحہ بھی خوش رہنے لگی تھی۔ ایک روز خالد کو بخار تھا، وہ دفتر بھی نہ گئے شام کو کرن نے بالکونی سے آواز لگائی۔ خالد انکل آجائیے، امی کو کچھ کام بتانا ہے۔ کرن کی آواز سن کر میں اپنی بالکونی میں چلی گئی اور اسے بتایا کہ خالد بھائی کو بخار ہے، وہ آج نہیں آئیں گے۔ میری آواز فریحہ نے سن لی اور وہ پریشان ہوگئی۔ یوں ان کو پوچھنے ہمارے گھر آگئی۔ بھائی نے کہا بھابی پریشان نہ ہوں، میں اتنا بیمار نہیں ہوں ، آپ کا سودا سلف جو بھی منگوانا ہے لا دیتا ہوں، آپ گھر چلئے میں ابھی آیا۔ فریحہ گھر چلی گئی۔ امی نے روکا۔ بخار ہے تو مت جاؤ، سودا کل لے دینا۔ وہ بولے امی دوست نے کہا تھا کہ بھابی کا خیال رکھنا۔ الیاس کی خاطر جا رہا ہوں ممکن ہے ان کو کوئی فوری ضرورت کی شے منگوانی پڑ گئی ہو۔ وہ فریحہ کے گھر چلے گئے۔ بخار سے بھیا کا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔ فریحہ نے محسوس کیا کہ واقعی بخار تیز ہے تو بولی۔ آپ اس حال میں کیوں آگئے؟ جلدی سے تھرما میٹر اٹھا لائی اور بھائی کا بخار دیکھنے لگی۔ پھر ان کو صوفے پر لیٹنے کو کہا اور خودان کے لیے چائے بنانے لگی۔ خالد نے بہت منع کیا لیکن کرن لپٹ گئی۔ نہیں انکل آپ ابھی نہ جائیں، مجھ سے پوئم سن کر جائیے، میں نے یاد کر لی ہے۔ بچی کے اصرار پر بھائی صوفے پر نیم دراز ہو گئے اور کرن سے باتیں کرنے لگے۔ اتنے میں فریحہ چائے لے کر آگئی۔ آج اس کی باتوں کا انداز دوسرا تھا۔ بھائی نے محسوس کر لیا کہ وہ غیر معمولی توجہ دے رہی ہے۔ خیال کیا کہ یہ میرے بخار کی وجہ سے ایسا کر رہی ہے۔ تبھی دل میں آنے والے وہم کو ذہن سے جھٹک دیا۔ تاہم اب انہوں نے ان کے گھر کے اندر جانا ترک کر دیا اور سودا سلف کا وہ دروازے کے باہر سے پوچھ لیتے تھے۔ اس بات کو فریحہ نے محسوس کیا اور گھر آ کر گلہ کیا کہ شاید تم میرے کام سے تھک گئے ہو جو ایسا رویہ اختیار کر لیا ہے۔ کرن تو روز تمہارا انتظار کرتی ہے اور تم اس معصوم کے لیے بھی نہیں آتے۔ غرض اس کے بات کرنے کا انداز ایسا تھا کہ بھائی شرمندہ ہو گئے۔

اگلے روز وہ شام کو ان کے گھر چلے گئے، کرن کے ملنے کے خیال سے۔ وہ اتفاق سے سورہی تھی۔ فریحہ نے بھائی کو اصرار کر کے بٹھا لیا۔ کہا کافی دیر سے سورہی ہے، بس ابھی بیدار ہونے کو ہے، کرن سے مل کر ہی جانا ورنہ وہ روئے گی۔ بھائی مجبوراً صوفے پر بیٹھ گئے ۔ کرن بیدار نہ ہوئی تو وہ اٹھ کر جانے لگے تبھی فریحہ نے آگے بڑھ کر ان کا راستہ روک لیا۔ اس کا چہرہ ستا ہوا تھا اور آنکھوں میں آنسو تھے جیسے کہ وہ کسی بڑے کرب سے گزر رہی تھی کشمکش اس کے چہرے سے صاف ظاہر تھی۔ بھائی کو پسینہ آگیا اور وہ خود کو سنبھال کر فریحہ کو دھکا دے کر دروازے کی طرف بڑھے اور اپنا دامن بچا کر اس کے گھر سے نکل آئے۔ خالد نے تنہا عورت کے بکھرنے کا یہ روپ پہلی بار دیکھا تھا۔ انہوں نے عہد کر لیا کہ اب کبھی اس کے گھر کی دہلیز کے ادھر نہ جائیں گے، خواہ کرن کتنی ہی آواز میں لگائے۔ سچ ہے امی ٹھیک کہتی تھیں، اکیلی عورت کے گھر نہ جایا کرو۔ وہ واقعی پھر نہ گئے ۔ کرن اور فریحہ نے کئی بار بلایا۔ انہوں نے بہانہ کر دیا اور گھر سے سیڑھیاں اتر کر سڑک پر نکل گئے ۔ ان کی بے رخی اور یہ رویہ فریحہ پر قیامت بن گیا۔ وہ خود بار بار ہمارے گھر آنے لگی، تب امی بھی کچھ گھبرائیں۔ چالاک فریحہ نے بات بنائی خالد نے مجھ سے کچھ رقم ادھار لی ہے، اب مجھے ضرورت ہے، واپسی کے لیے کہا تو مجھے دیکھ کر گھر سے نکل جاتے ہیں۔ امی کو یہ بات بری لگی۔ جب وہ چلی گئی اور بھائی گھر آئے تو انہوں نے بیٹے کو برا بھلا کہا کہ خالد تم احسان فراموش ہو، کیوں ایسا کیا ہے اگر رقم کی ضرورت تھی تو مجھے بتاتے ، اب ادھار لیا ہے اور ان کو ضرورت ہے تو واپس کرو اور مجھے بتاؤ کہ کتنا پیسہ لیا ہے تا کہ میں کسی طور لوٹا دوں۔ بھائی نے آنے والے طوفان کو بھانپ لیا۔ چپکے سے دوسرا مکان ڈھونڈ نا شروع کر دیا۔

اب کراچی سے کچھ واقفیت ہوگئی تھی۔ آفس کے ایک کولیگ کے ذریعے نیا مکان تلاش کر لیا اور ایک روز خاموشی سے گھر شفٹ کر لیا۔ فریحہ کو بڑا دھچکا لگا لیکن الیاس کو اس سے بھی زیادہ کیونکہ اس کی مدت ٹرینینگ ختم ہوگئی تھی۔ لوٹ کر آیا تو پہلا شکوہ آفس میں بھائی سے یہی کیا۔ مجھے تم سے ایسی توقع نہ تھی کہ تم میری بیوی اور اپنی بھابی پر غلط نظر ڈالو گے، میں تو ان کی حفاظت کی تم کو تاکید کر کے گیا تھا تم پر ایک بھائی کی طرح بھروسہ کر لیا تھا اورتم نے فریحہ کو تنگ کرنے کی کوشش کی۔ بیوی نے مجھے سب بتا دیا ہے، اس لیے اس نے مکان مالک سے کہہ کر تمہارا سامان اٹھوا دیا۔ دوست کے منہ سے ایسی شکایت سن کر خالد بھائی ہکا بکا رہ گئے۔ اس کے بعد انہوں نے کمپنی کے مالک کو منت سماجت کرکے اور اپنی مجبوریاں بتا کر اپنا ٹرانسفر کر لیا۔ نقصان یہ ہوا کہ بڑے شہر کا جوالاؤنس ملتا تھا، وہ کٹ گیا اور تنخواہ کم ہوگئی لیکن خالد بھائی کو افسوس اس خسارے کا نہ تھا، افسوس یہ تھا کہ ایک عورت کی چالبازی کی وجہ سے وہ ناحق گناہ گار ٹھہرے تھے اور ایک اچھے دوست کی دوستی اور رفاقت سے بھی محروم ہو گئے تھے۔

Latest Posts

Related POSTS