یہ اس چمکتے ہوئے شہر کراچی کی کہانی ہے، جہاں بڑی بڑی کوٹھیاں ہیں، اونچی اونچی عمارتیں ہیں، گاڑیوں کا ریل پیل ہے اور بہت دولت مند لوگ رہتے ہیں۔ بعض تو اتنے امیر کبیر ہیں کہ لگتا ہے قارون کا خزانہ انہی کے پاس ہے۔
لیکن ضروری نہیں کہ یہ دولت انہوں نے صرف محنت سے ہی کمائی ہو۔ محنت کے علاوہ بھی کچھ طریقے آزمانے پڑتے ہیں۔ ایسے داؤ پیچ صرف وہی لوگ جانتے ہیں جو تھوڑے عرصے میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ انہیں راتوں رات امیر بننے کا شوق ہے تو بے جا نہ ہو گا۔
میرے ابو جس کمپنی میں ملازمت کرتے تھے، اس کے مالک کا نام سیٹھ عدنان تھا۔ سیٹھ عدنان کچھ عرصے قبل اتنے امیر آدمی نہ تھے۔ پھر یکایک کاروبار میں ترقی ہونے لگی اور دولت ان کے گھر کے دروازے توڑ کر اندر آنے لگی۔ ان کا کاروبار پھیلتا ہی چلا گیا۔ اپنے ملک کے علاوہ بیرون ملک سے بھی کاروباری روابط قائم ہو گئے۔
ایک بار انہیں کاروبار میں غیر معمولی منافع ہوا تو سیٹھ عدنان نے ایک بڑی دعوت کا اہتمام کیا۔ میرے ابو جان نے پہلی بار امی سے کہا کہ تم بھی دعوت میں چلنا، دوسرے لوگوں کی بیگمات بھی آئیں گی۔ امی جان ایسی تقریبات سے گھبراتی تھیں، لیکن ابو کے اصرار پر چلی گئیں۔ دعوت میں ابو نے سیٹھ صاحب سے امی کا تعارف کروایا۔ امی ایف اے پاس اور بہت خوبصورت خاتون تھیں، مگر زیادہ فیشن نہیں کیا کرتی تھیں۔ سیٹھ صاحب کو ان کی سادگی بہت پسند آئی۔ دعوت کے چند دن بعد وہ ہمارے گھر تشریف لائے۔ امی جان اور میرے لیے کچھ تحفے بھی لائے جنہیں ہم نے خوشی سے قبول کیا۔ ابو جان نے ان کی اس عنایت کو اپنی عزت افزائی خیال کیا اور بہت خوش ہوئے کہ سیٹھ صاحب نے ان کے گھر آ کر ان کی شان بڑھائی۔
اس کے بعد بھی سیٹھ صاحب ہفتہ عشرے میں ایک بار ہمارے گھر آنے لگے۔ وہ امی جان کو “بھا بھی” کہتے اور میرے لیے ٹافیاں اور کھلونے ضرور لاتے۔ ایک روز سیٹھ صاحب ہمارے گھر آئے اور کہنے لگے: “منان میاں، ہم آپ کے لیے خوش خبری لائے ہیں۔” پھر جو خوش خبری انہوں نے ابو جان کو سنائی، تو اسے سن کر ابو خوش بھی ہوئے اور فکر مند بھی۔ خوش اس لیے کہ کمپنی نے ان کا عہدہ اور تنخواہ بڑھا دی تھی، فکر مند اس لیے کہ اس پوسٹ پر انہیں امریکہ جانا تھا۔
سیٹھ صاحب، جنہیں میں انکل کہتی تھی، ابو جان کو تسلی دی اور کہا: “تمہارے امریکہ سیٹل ہو جانے کے بعد میں تمہاری بیوی اور بیٹی کو بھی تمہارے پاس بھجوانے کا انتظام کر دوں گا۔ اس موقع کو ہاتھ سے مت جانے دو۔” ابو نے ان کا مشورہ مان لیا اور امریکہ جانے کی تیاری شروع کر دی۔ ابو کے امریکہ جانے کے بعد گھر میں ایک طرف اداسی چھا گئی تھی تو دوسری جانب خوشحالی بھی آ گئی تھی کیونکہ وہ ہر ماہ ہمیں کافی رقم بھیجوانے لگے تھے۔
ابو جان کی غیر موجودگی میں انکل ہمارے گھر وقتاً فوقتاً آتے، خیریت دریافت کرتے۔ اکثر بہت سی اشیائے ضرورت بھی دے جاتے۔ امی جان ان کے ساتھ تھوڑی دیر ڈرائنگ روم میں جا کر بیٹھ جاتیں، چائے وغیرہ دیتیں، مگر ان کے چہرے سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ جیسے وہ بادل نخواستہ مہمان داری کا یہ فریضہ نبھانے پر مجبور ہوں۔ سیٹھ صاحب کے گھر آنے سے انہیں بالکل خوشی نہیں ہوتی تھی۔ میں ان دنوں کافی چھوٹی تھی، نہیں جانتی تھی کہ سیٹھ صاحب امی جان سے کس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ کبھی کبھی مجھ کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان کی باتوں سے امی کو غصہ آ جاتا ہے مگر وہ ضبط کر لیتی تھیں۔
دو سال بعد ابو امریکہ سے پاکستان واپس آئے۔ وہ بھی چھٹی پر۔ انہوں نے سیٹھ صاحب سے کہا: “میں گھر سے دور اداس رہتا ہوں، آپ مجھ کو واپس وطن بلوائیں۔” سیٹھ صاحب نہیں چاہتے تھے کہ اتنا قابل آدمی وہ پوسٹ چھوڑ کر امریکہ سے واپس آئے۔ لیکن بہت اصرار کرنے پر آخر کار سیٹھ صاحب کو ابو جان کی بات ماننی پڑی۔ انہوں نے ابو کو وطن تو بلا لیا لیکن کراچی میں جگہ نہ دی بلکہ پشاور اپنی کمپنی میں بھجوا دیا کہ “کچھ عرصہ وہاں رہو، پھر کراچی بلا لوں گا۔
امریکہ سے پشاور پھر بھی بہتر تھا۔ ابو ملازمت نہ چھوڑ سکتے تھے، لہٰذا پشاور جا کر اپنی ڈیوٹی سنبھال لی۔ انہیں وہاں گئے تین ماہ ہوئے تھے کہ ہمیں گھر پر اطلاع ملی کہ منان صاحب کا پشاور میں ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور وہ فوت ہو گئے ہیں۔ اس جانکاہ صدمے سے امی جان کی حالت بگڑ گئی۔ اگر انکل عدنان (سیٹھ صاحب) امی کو سہارا نہ دیتے اور کافی عرصہ تک اسپتال میں ان کا علاج نہ کرواتے تو امی یقیناً اس صدمے سے جانبر نہ ہو سکتیں۔ مگر یہ انکل کی مہربانیاں تھیں کہ وہ یہ صدمہ برداشت کر گئیں۔
ابو کو فوت ہوئے دو سال بیت گئے۔ انکل نے نہ ہم سے کمپنی کی طرف سے دیا ہوا مکان خالی کرایا اور نہ ہی کوئی نوٹس دیا۔ ابو کی تنخواہ بھی باقاعدگی سے کمپنی کی طرف سے مل رہی تھی۔ تیسرا سال شروع ہوا تو اچانک ابو کی تنخواہ بند ہو گئی اور مکان خالی کرنے کا نوٹس بھی دے دیا گیا۔ پھر ایک دن انکل عدنان ہمارے گھر آئے اور امی سے کچھ باتیں کرتے رہے۔ وہ مسلسل انکار کرتی رہیں اور روتی رہیں۔ ان کے جانے کے بعد وہ مجھ سے چمٹ کر روئیں۔وہ مجھے شدتِ غم سے بھینچ لیتی تھیں اور ٹھنڈی آہ بھر کر کہتی تھیں: ہائے صنوبر! اب تیرا کیا ہوگا؟
دوسرے دن انکل عدنان پھر آئے اور کہنے لگے: دیکھو عارفہ! میری بات مان لو، اس دنیا میں تن تنہا، سہارے کے بغیر جینا بے حد مشکل اور دشوار ہے۔ پھر تمہاری بچی کے مستقبل کا بھی سوال ہے۔ تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ میری بات مان لو۔پھر امی نے ان کی بات مان لی اور خاموشی سے ان کی سادگی سے سیٹھ صاحب سے شادی ہوگئی۔
انکل عدنان مجھے بہت پیار کرتے تھے۔ ان کے اپنے پانچ بچے پہلی بیوی سے تھے۔ پہلی بیوی کو انہوں نے زندگی کے ایک موڑ پر کسی وجہ سے طلاق دے دی تھی۔ دو بچیاں وہ ساتھ لے گئی تھیں اور تین بیٹے انکل کے پاس رہ گئے تھے، جو بیرونِ ممالک کے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔امی جان سے انہوں نے شادی کی تو ان کے سب دوست ان کی تعریف کرنے لگے کہ وہ ایک بے کس و مجبور عورت کا سہارا بنے، جو ان کے مرحوم ملازم کی بیوہ تھی۔ سبھی انہیں ایک عظیم انسان کے نام سے پکارنے لگے۔
امی نے نہ جانے کس مجبوری کے باعث سیٹھ صاحب سے شادی کی، مگر وہ خوش نظر نہیں آتی تھیں۔ ابو کی جدائی کا صدمہ انہیں اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا۔ وہ کبھی کبھی کہہ بیٹھتیں: اللہ تمہارے ابو کے قاتلوں کو سزا دے۔ مجھے شک ہے کہ وہ اپنی موت نہیں مرے بلکہ انہیں مارا گیا ہے۔میں ان کی باتیں نہیں سمجھتی تھی، اس لیے چپ رہتی تھی۔جب امی کی سیٹھ عدنان سے شادی ہوئی، تو میں سات سال کی تھی۔ اس کے بعد آٹھ سال تک امی زندہ رہیں۔ ایک دن وہ مجھے روتا چھوڑ کر ابو کے پاس چلی گئیں۔ ان کے دماغ کی شریان پھٹ گئی تھی۔
امی کے بعد ظاہر ہے کہ اب صرف انکل عدنان ہی کا سہارا رہ گیا تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ امی کی وفات کے بعد وہ مجھ سے آنکھیں نہ پھیر لیں۔ میرا میڈیکل میں سیکنڈ ایئر تھا اور میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی۔ انکل عدنان میرے تعلیمی اخراجات برداشت کر رہے تھے۔دن گزرتے گئے، حالات معمول کے مطابق رہے۔ میں آیا کے ساتھ امی والے بنگلے میں رہتی تھی جبکہ انکل عدنان کبھی کبھار آتے تھے، ورنہ زیادہ تر وہ اپنے دوسرے بنگلے میں ٹھہرتے تھے۔ایک دن وہ آئے اور کہنے لگے: صنوبر! میں ایک مسئلے کے بارے میں کچھ پریشان ہوں، مجھے تم سے مشورہ چاہیے۔ میرے ایک دوست کی بیٹی تمہاری عمر کی ہے، اس کے لیے ایک رشتہ آیا ہے، لیکن میرے دوست کی عمر کافی زیادہ ہے۔ بس تم میری عمر کا سمجھ لو، مگر وہ بے انتہا دولت مند ہے۔ تمہاری کیا رائے ہے؟میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ انہیں کیا جواب دوں۔ بس ٹالنے کے لیے کہہ دیا: آپ کی عمر کچھ زیادہ تو نہیں ہے۔
حالانکہ انکل کی عمر پینسٹھ سال سے کسی طرح بھی کم نہ تھی، مگر چہرے کی سرخی اور دولت کی فراوانی سے وہ اپنی عمر سے دس سال چھوٹے لگتے تھے۔ میرے جواب پر بے حد خوش ہوئے اور بولے: مجھے تم سے یہی امید تھی کہ تم بہت سمجھدار ہو، بالکل اپنی ماں کی طرح۔ایک روز پھر آئے اور کہنے لگے: صنوبر بے بی! آج اگر تمہاری امی زندہ ہوتیں تو وہی تم سے یہ بات کرتیں، لیکن بیٹی، اب میں ہی تمہارا باپ ہوں اور ماں بھی۔ میں چاہتا ہوں کہ تمہارا گھر بس جائے تاکہ تمہاری ماں کی روح کو سکون مل جائے۔
اس بات کا میں کیا جواب دیتی۔ میں خاموش رہی۔ میری تعلیم کا سلسلہ اب ان کے رحم و کرم پر تھا۔ میں نے کہا: انکل! جیسی آپ کی مرضی۔بولے: شاباش بیٹا! مجھے تم سے یہی امید تھی۔ وہ لوگ بہت اچھے اور بہت دولت مند ہیں، مجھ سے بھی زیادہ۔میں نے سمجھا کہ کسی دوست کا بیٹا ہوگا جس سے یہ میری شادی کرنا چاہتے ہیں۔ پھر ایک دن وہ آگئے اور کہنے لگے: صنوبر بے بی، ادھر آؤ، اس کاغذ پر دستخط کر دو۔نہ میری منگنی ہوئی، نہ بارات آئی، نہ میں نے لڑکے کو دیکھا، نہ اس کے گھر والوں کو۔ بس نکاح نامے پر دستخط کرا کے چلے گئے۔ہفتے بعد میری رخصتی کا سامان آگیا۔ نہایت مختصر سی تقریب تھی۔ انکل کے دوست کی دو بیگمات آئیں، انہوں نے مجھے گھر پر دلہن بنایا اور میں ایک بڑے بنگلے سے رخصت ہو کر اس سے بھی زیادہ شاندار اور بڑے بنگلے میں آگئی۔
پھولوں بھری پیٹی پر دلہن بنی بیٹھی تھی اور دولہا کے قدموں کی چاپ کا انتظار کر رہی تھی۔ دولہا نے میرا گھونگھٹ اٹھایا، میں نے انہیں دیکھا تو سن ہو کر رہ گئی۔ یہ تو انکل عدنان کے بزنس پارٹنر شعیب صاحب تھے۔ کئی بار ہمارے گھر آ چکے تھے، میں انہیں انکل شعیب کہا کرتی تھی۔اس کے بعد کئی دن تک میں چھپ چھپ کر روتی رہی۔ کہاں جاتی، میرا تو کوئی نہ تھا۔ مجھے انکل عدنان پر بہت غصہ تھا۔ انہوں نے مجھ سے کتنا بڑا دھوکہ کیا تھا، صرف اپنے کاروبار کو مضبوط کرنے کے لیے۔
جو ارمان لڑکی کے دل میں ہوتے ہیں، میرے دل میں بھی تھے، جن پر انگارے برس گئے تھے۔ مگر میں نے تہیہ کر لیا کہ اب انکل عدنان سے شعیب کا سرمایہ علیحدہ کرا کر ہی دم لوں گی۔ نئی عمر میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ میں نے پیار محبت میں مبتلا کر کے رفتہ رفتہ شعیب کے دل پر قبضہ کر لیا اور کافی سرمایہ اپنے نام کرا لیا۔اس کے بعد ان کے کان بھرنے شروع کر دیے۔ انکل عدنان کے خلاف، مگر شعیب بڑا کامیاب بزنس مین تھا۔ اپنی زندگی میں عدنان سے علیحدہ نہ ہوا۔ البتہ ان کی وفات کے بعد میں نے ان کا سرمایہ انکل عدنان کے کاروبار سے الگ کرنے کی ٹھان لی۔
مجھے علم نہیں تھا کہ شعیب کی پہلی بیوی اور بچے بھی ہیں اور کہاں ہیں۔ مجھے تو انہوں نے ایک علیحدہ گھر میں رکھا ہوا تھا۔ ان کی وفات کے بعد وہ لوگ امریکا سے آ گئے۔ آتے ہی انہوں نے کاروبار سنبھال لیا۔ روپیہ، پیسہ، جائیداد — سب کچھ۔ البتہ جو بنگلہ، رقم اور زیورات شعیب میرے نام کر گئے تھے، وہ مجھے قانونی طور پر مل گئے۔اس میں بھی سیٹھ عدنان نے ہی میری مدد کی، ورنہ شعیب کی بیوی اور بچے تو مجھے پھوٹی کوڑی بھی نہ لینے دیتے۔
شعیب کو فوت ہوئے چھ سال گزر چکے ہیں، مگر میں نے پھر شادی نہیں کی۔ میری روح بے سکون اور بے چین ہو گئی ہے، آوارہ پتے کی طرح، کبھی اِدھر، کبھی اُدھر ڈولتی پھرتی ہوں۔ گھنٹوں سڑکوں پر کار دوڑاتی ہوں کہ شاید کہیں تو سکون ملے۔