Friday, February 14, 2025

Taqdeer Ka Khel

جب سے ناصرہ کے شوہر نے دوسری شادی کی تھی اور اسے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا تھا، اس کا حال بہت برا ہو گیا تھا۔ اس کا اس دنیا میں کوئی نہ تھا۔ وہ نیم پاگل سی ہو کر رہ گئی تھی۔ جائے تو کہاں جائے؟ اللہ جانتا تھا کہ یہ معصوم بچہ ناصرہ کا لختِ جگر تھا، اس کا اپنا خون تھا، مگر زمانے نے ناصرہ کی خوشیاں چھین لینے کا تہیہ کر لیا تھا۔ وہ اس کا دشمن بن چکا تھا۔ اس کے شوہر کے دل میں یہ غلط فہمی ناصرہ کی ساس کی پیدا کردہ تھی اور بیٹا ماں کی ہر بات پر سر جھکا دیتا تھا۔ ناصرہ کی بس یہی ایک غلطی تھی کہ ساجد اسے خاندان کی مرضی کے خلاف بیاہ کر لایا تھا۔ ناصرہ اسے اچھی لگی تھی اور اس پسندیدگی نے اتنی شدت اختیار کر لی کہ ساجد نے سگی خالہ کی بیٹی سے منگنی توڑ ڈالی اور ناصرہ کو بیاہ کر گھر لے آیا۔ یہ قصور کتنا بڑا تھا، کیا یہ زخم ساجد کی ماں برداشت کر سکتی تھی؟ناصرہ پر جھوٹا الزام لگا کر ساجد کی ماں نے اپنی دانائی سے یہ ثابت کر دیا کہ ناصرہ بدچلن، بدکردار اور گستاخ ہے۔ وہ کسی اور سے بھی ملتی ہے۔ ساس نے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ بہو بے بس ہو کر رہ گئی جبکہ وہ بے قصور تھی پھر بھی اپنی بے گناہی ثابت نہ کر سکتی تھی۔ آخر کار ساجد ماں کے جال میں پھنس گیا اور اس نے ناصرہ کو موردِ الزام ٹھہرا کر اسے طلاق دے دی اور وہ بے گھر ہو کر کہیں کی نہ رہی۔جھونپڑیوں کی ایک لمبی قطار شہر کے کچھ فاصلے پر ایک گندی بستی میں دور تک پھیلتی چلی گئی تھی۔ ناصرہ نے بھی وہیں پناہ لی۔ غریبوں کے دل بڑے ہوتے ہیں، وہ کسی مظلوم کے آنسوؤں کے سامنے موم کی طرح پگھل جاتے ہیں۔ غریبوں نے چندہ اکٹھا کر کے ناصرہ کو بھی ایک جھونپڑا ڈال دیا۔ بستی والوں نے سوچا اگر پچاس جھونپڑیوں میں ایک اور جھونپڑی کا اضافہ ہو گیا تو بھلا ہمارا کیا گیا، زمین تو اللہ کی ہے اور آسمان بھی اس کا بنایا ہوا چھپر ہے، پھر ہم کسی کے یہاں رہنے پر اعتراض کیا کریں؟چھوٹے بچے کا خیال پڑوسن بوا رکھتی تھی اور ناصرہ کام کی تلاش میں دردر ماری ماری پھرتی تھی۔ کبھی کام مل جاتا تھا، کبھی فاقے ہو جاتے تھے اور آج تو پڑوسن بوا بھی بیٹی کے گھر گئی ہوئی تھی۔

یہ اس کی زندگی کی سب سے زیادہ بھیانک رات تھی۔ آج قسمت اپنا فیصلہ جلد ہی سنانے والی تھی۔ بادل اور کالی گھٹائیں خوب گھِر گھِر کر آرہی تھیں اور ایک طوفان کے آنے کی پیش گوئی کر رہی تھیں، مگر وہ ان باتوں سے بے خبر تیز تیز قدم اٹھائے ایک راستے پر چلی جا رہی تھی۔ وہ تنہا نہ تھی، اس کا تین سالہ بچہ بھی ایک بوسیدہ سی جھونپڑی میں پڑا بھوک اور پیاس سے نڈھال اپنی غمزدا ماں کا انتظار کر رہا تھا۔ شاید اس بچے کا انتظار کبھی ختم نہ ہونے والا انتظار تھا۔ اس کی ماں بھوک اور پیاس مٹانے کے لیے کچھ لینے گئی ہوئی تھی۔ ماں کے پاس ایک خراب سا برتن تھا مگر اس بیچاری کے پاس پیسے نہ تھے۔ تقدیر کے مارے ہوؤں میں سے یہ بھی ایک تھی، وہ جو پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے ذلیل اور خوار ہو جاتے ہیں اور جب وہ مجبور ہو کر کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں تو دنیا والے ان کے ہاتھوں کو نفرت سے جھٹک دیتے ہیں۔وہ سڑک کے کنارے کھڑی ہو گئی اور آتے جاتے لوگوں کو حیرت سے دیکھتی رہی۔ آج بستی والوں سے اس کی امید ٹوٹ چکی تھی۔ وہ کئی بار ان کے سامنے ہاتھ پھیلا چکی تھی۔ اب تو بستی والے بھی اس کی ضرورتوں سے تنگ تھے۔ بچے کی وجہ سے وہ کہیں مستقل ملازمت بھی نہ کر سکتی تھی اور جھونپڑی والے کیا کرتے، وہ تو خود اس جیسے غریب تھے۔ تھوڑی دیر تک اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ کیا کرے۔ اچانک اس نے یہ محسوس کیا کہ ایک شخص بہت دیر سے اس کے قریب کھڑا ہے۔ وہ اس کی جانب مڑی اور بولی، جلدی سے چند روپے دے دو، مجھے بچے کے لیے دودھ لینا ہے، وہ صبح سے بھوکا ہے، بھوک سے مر جائے گا۔ آج مجھے مزدوری نہیں ملی، نہ ہی بھیک!مرد نے غور سے عورت کو دیکھا۔ اسے عورت کے بگڑے ہوئے نقوش سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ غربت نے اس کے منہ پر اتنے طمانچے مارے تھے کہ اس کی صورت مسخ لگتی تھی۔ اسے دلچسپی تھی تو اس کے بچے سے، جس کا یہ عورت ذکر کر رہی تھی۔ وہ سنگدلی سے بولا، تم جھوٹ بولتی ہو، سب عورتیں ایسے ہی کہہ کر بھیک مانگتی ہیں حالانکہ ان کے بچے نہیں ہوتے۔ مجھے بتاؤ تو بھلا کہاں ہے تمہارا بچہ؟ناصرہ نے جواب دیا، وہ دیکھو، سامنے اس میدان میں جو جھونپڑیاں ہیں، وہاں اس میں سے ذرا سی ایک جھونپڑی ہے، وہاں میرا بچہ ہے۔ وہ اکیلا پڑا رو رہا ہے۔ اگر بھوک نے اسے سونے دیا ہو گا تو رو رو کر سو جائے گا، مگر یقین کرو، اس کو بھوک سونے نہ دے گی۔ وہ ابھی تک رو رہا ہو گا کیونکہ میرا دل کٹ رہا ہے۔ ماں کا دل گواہی دے دیتا ہے کہ اس کا بچہ سو رہا ہے یا جاگ رہا ہے۔مرد نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور کچھ سکے ناصرہ کی ہتھیلی پر رکھ دیے۔

ناصرہ نے شکستہ حال آنکھوں سے اس کی جانب دیکھا، پھر وہ خوشی اور حیرت کے جذبے سے دیوانی ہو گئی۔ اس اندھیری رات میں سکے اس کی ہتھیلی پر ستاروں کی طرح چمک رہے تھے۔ اس کی نظروں کے سامنے اپنے بچے کا مایوس چہرہ آگیا۔ وہ ایک لمحے میں تیزی سے سڑک پار کر کے دودھ کی دکان پر چل دی۔ وہاں سے اس نے دودھ خریدا اور پھر واپس آئی، مگر بارش شروع ہو چکی تھی۔ شاید اس اندھیری رات میں بارش کا بھی کوئی مقصد تھا، جس طرح اندھیرے میں اجالے کی کرن اچانک پھوٹی تھی، وہ غلط لمحے میں چمکی تھی۔وہ تیز تیز قدم اٹھائے اپنی منزل کی طرف جا رہی تھی۔ اس نے تھوڑی دیر کے بعد دور سے ہی اپنی بوسیدہ جھونپڑی کو دیکھ لیا۔ بارش میں تیزی سے چلتی جا رہی تھی اور وہ جلد سے جلد اپنے بچے کو سینے سے لگانے کو بے چین تھی۔ جیسے ہی وہ اپنی جھونپڑی کی دہلیز تک پہنچی، اس کا پاؤں اس زور سے پھسلا کہ سنبھل نہ سکی۔ وہ منہ کے بل زمین پر گر پڑی۔ چند لمحوں تک وہ ساکت رہی، پھر اٹھی تو برتن خالی تھا۔ سارا دودھ گر چکا تھا اور اندر بچہ بھی شاید ماں کے انتظار میں بلک بلک کر سو چکا تھا کیونکہ اب اس کے رونے کی آواز نہیں آ رہی تھی۔وہ جھونپڑے میں آئی، اس نے مدھم ہوتے ہوئے چراغ کی لو اونچی کی۔ چراغ اٹھا کر بچے کے بستر کے قریب آئی مگر بچہ وہاں نہ تھا، بستر خالی پڑا تھا۔ چند روپے کے عوض وہ ظالم بردہ فروش بچے کو اٹھا کر لے گیا تھا جس نے پریشان ماں کے ہاتھ میں چند لمحے بیشتر ریز گاری رکھی تھی۔ کس قدر عجیب سودا کیا تھا اس نے ! ناصرہ چیخ مار کر گر گئی۔ پھر جب ہوش میں آئی تو حواسوں میں نہ لوٹ سکی، وہ دیوانی ہو گئی۔ سڑکوں پر ماری ماری پھر نے لگی۔ کچی بستی کے مکینوں نے اس کو اسپتال پہنچا دیا۔ وہ آج بھی مینٹل اسپتال میں اپنے بچے کو پکارتی ہے ، اس کو تھپک تھپک کر لوریاں دے کر سلاتی ہے۔ وہ بچہ جو اس کے پاس نہیں ، اس کی زندگی کی آخری امید ! اس کی خوشی چھین کر لے جانے والے نے نجانے اس بچے کا کیا کیا ہو گا؟

Latest Posts

Related POSTS