میری شادی اپنے چچا زاد سے ہوئی تھی۔ ہم ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے ، کمی تھی تو بس اولاد کی۔ شادی کے چند سال تو اسی آس میں گزر گئے کہ آج نہیں تو کل اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اولاد کی نعمت سے نواز دے گا لیکن پھر برس پر برس گزرنے لگے اور یہ خوشی جھولی میں نہ آئی۔ رشتہ داروں اور سسرال والوں نے حفیظ سے کہا کہ تم دوسری شادی کر لو مگر ان کا ہر بار یہ جواب تھا کہ اولاد ہو گی تو نسیم سے ہو گی ، ورنہ میں دوسری شادی نہ کروں گا۔ میں نے بہت علاج کروایا۔ میکے جاتی تو والدہ علاج کرواتیں اور جب سسرال میں ہوتی تو وہ لوگ علاج کرواتے۔ میں دوائیں کھا کھا کر ہلکان رہنے لگی۔ رنگ کالا پڑ گیا، ہاتھ پیروں میں جلن اور معدے کا ستیاناس ہو گیا۔ وقت گزرتے دیر نہیں لگتی، پلک جھپکتے سترہ سال گزر گئے ، مگر اولاد کی آس ابھی تک دل میں چراغ کی طرح جلتی تھی۔ حفیظ کی کیفیت کا مجھے علم نہیں۔ وہ مجھ سے اس محرومی کے دکھ کا چھپاتے اور کہتے ، مجھے تم سے اتنی محبت ہے کہ اولاد سے محرومی کا دکھ محسوس نہیں ہوتا۔ وہ کھاتے پیتے گھرانے سے تھے ، صاحب جائیداد تھے ، مگر کوئی وارث آنگن میں نہیں تھا۔ ان دنوں میں بہت پریشان تھی کیونکہ میری چھوٹی بہن عطرت کے گھر میں ایک اور بچے کا اضافہ ہونے والا تھا اور میں ابھی تک ویسی ہی بے مراد تھی۔ ایک دن اُس سے ملنے گئی تو وہ آنے والے بچے کے لئے فراک سی رہی تھی۔ اچانک میرے دل میں ایک کلک ہوئی کہ آنکھیں چھلک گئیں۔ عطرت کا دل بھی دکھ گیا۔ اس کے ہاں چوتھے بچے کی ولادت متوقع تھی۔ اس نے کہا۔ رنجور کیوں ہوتی ہو، مجھ سے جو چاہے مانگ لو۔ میں نے جواب دیا کہ اگر بیٹا پیدا ہوا تو اپنے لئے رکھ لینا، لیکن بیٹی ہو تو مجھے دے دینا کیونکہ اس کی پہلے ہی دو بیٹیاں تھیں۔ اس نے ہامی بھر لی۔ خدا کی کرنی کہ ایک ہفتہ بعد اس کو اللہ نے چاند سی بیٹی عطا کر دی جس کا نام انہوں نے تہمینہ رکھا۔ تھی تہمینہ کو میں اپنے گھر لے آئی مگر ساس نے اس کو ہاتھ سے پرے کر دیا ، نندوں نے ناک بھوں چڑھائی کہ پر ائی اولاد کو ہم کیوں پالیں۔ حفیظ آئے تو گھر میں قیامت برپا تھی۔ ان کے آتے ہیں اور زیادہ کہرام مچ گیا۔ سب نے کہا کہ بچی کو ابھی واپس کر کے آؤ۔ حفیظ اُن کے دباؤ میں آگئے۔ کہنے لگے کہ تمہیں بچی کو واپس کرنا ہو گا، ورنہ تم بھی گھر سے چلی جاؤ۔ میں دو دن نہ گئی۔ شرمندگی محسوس ہو رہی تھی کہ بہن کو کیا کہوں گی اور بچی ایسی پیاری لگی کہ واپس کرنے کو جی نہ چاہتا تھا۔
تیسرے دن بچی بیمار ہو گئی تو واپس کرتے ہی بنی۔ اس حال میں واپس کرنے جارہی تھی کہ آنسو گرتے جاتے تھے اور ہچکیاں تھیں کہ زمین و آسمان کانپ گئے ہوں گے۔ جب اتناد کھ کوئی کرے ، تو آہ عرش تک پہنچ جاتی ہے۔ خدا کی رحمت بھی جوش میں آ گئی۔ میں بچی کو اس کے والدین کے پاس چھوڑ آئی اور روتے روتے سو گئی۔ تب بھی کسی نے نہ منایا۔ جاگی تو سب کچھ بیگانه بیگانہ لگا، جیسے میرے دماغ کو کچھ ہو گیا ہو۔ اوپر کی منزل پر جاتی تو نیچے بچی کے رونے کی آواز آتی اور نیچے جاتی تو اوپر سے بچے کی آواز آتی۔ ڈیڑھ ماہ اسی کیفیت میں رہی۔ میری عجیب حالت تھی، دل گھبراتا، چکر آتے۔ حفیظ گھبرا کر ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ اس نے خوش خبری دی کہ آپ ماں بننے والی ہیں۔ کسی کو یقین نہ آرہا تھا ، خیر ، خدا نے مقررہ وقت پر مجھے ایک خوبصورت بچی سے نواز دیا ، جس کا نام ہم نے گل بہار رکھا۔ کیونکہ اس بچی کے آنے سے ہمارے گھر میں بہار آگئی تھی۔ ہر طرف خوشیاں بھر گئیں اور وہ مقام جو ایک بانجھ عورت ہونے کی وجہ سے میں نے کھو دیا تھا، مجھے مل گیا۔ ننھے منے بچے کی چاہ کرنا اور بات ہے، مگر اُس کی پرورش ایک علیحدہ مشقت ہے۔ یہ جان جوکھم کا کام ہے، عورت کو اپنا عیش و آرام چھوڑ کر اولاد کی پرورش کرنا پڑتی ہے۔ یہ مجھے اب پتا چلا ، جب بہار کی پرورش میں خود کو کھپایا اور اپنا ہوش گنوادیا۔ اس کے بعد میرے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی، لیکن اب ہمیں شکوہ نہ تھا۔ قسمت نے ایک پھول ہماری جھولی میں ڈال دیا تھا۔ ہمارے لئے سب کچھ ہماری بہار تھی۔ اس کی قلقاریاں میرے آنگن میں گونجتی تھیں۔ اس کی معصوم بنسی دل میں پھول کھلاتی تھی۔ جوں جوں وہ بڑی ہوتی گئی، ایک فکر بھی ساتھ ساتھ بڑھتی گئی۔ میری بیٹی جائیداد کی تنہا وارث تھی ، اس وجہ سے اس کے لئے ابھی سے رشتے آنے لگے تھے۔ وہ ابھی بارہ برس کی بھی نہیں ہوئی تھی۔ میں ڈرتی تھی کہ ابھی میری بچی کم سن ہے اور لوگوں کی نظریں ادھر کو ہو گئی ہیں۔ میں ہر پریشانی اپنی سہیلی ثمرین سے شیئر کرتی تھی۔ وہ کہتی۔ ارے بھئی تم ایک خوش قسمت ماں ہو۔ بیٹیوں والے تو برسوں اچھے رشتوں کے لئے ترستے ہیں اور ایک تم ہو کہ ابھی سے تمہاری بیٹی کے اتنے اچھے آ رہے ہیں۔ اس نے مجھے کہا کہ ایک دو اچھے رشتوں کو ہاتھ میں رکھو، ان سے میل جول رکھو اور صاف جواب مت دو۔ کہو کہ ابھی بہار چھوٹی ہے ایک دو سال بعد شادی کروں گی۔ اس طرح کے جواب سے جس کو واقعی رشتہ لینا ہو گا، وہ انتظار کر لیں گے اور جس کو جلدی ہو گی وہ اپنی راہ لے گا۔ میں نے بہار کی بڑی توجہ سے تربیت کی تھی۔ کھانا پکانا، سینا پرونا، گھر داری کا تمام سلیقہ سکھایا تھا۔ ثمرین کہا کرتی تھی کہ تمہاری بیٹی نہ صرف چندے آفتاب چندے ماہتاب ہے بلکہ سیرت میں بھی لاکھوں میں ایک ہے۔ کوئی قسمت والا ہی ہوگا، جس کی یہ دلہن بنے گی اور وہ گھر بھی لاکھوں میں ایک ہونا چاہیے۔ ثمرین کی چکنی چپڑی باتیں مجھے بہت متاثر کرتی تھیں۔ مجھے یہ خبر تھی وہ خود ہماری دولت و جائیداد پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اپنے بھائی سے میری بیٹی کی شادی کرانا چاہتی ہے۔ ثمرین کے ساتھ دوستی اس وجہ سے تھی کہ اس نے ہمارے پڑوس میں گھر لیا تھا اور کرایہ دار کی حیثیت سے رہنے لگی تھی ۔ میں صرف ثمرین کو جانتی تھی۔ وہ پڑھی لکھی ، با اخلاق ، ہمدرد اور مہذب تھی۔ میرے مسائل میں دلچسپی لیتی تھی اور حل بتاتی تھی۔ انہی خوبیوں کی وجہ سے اس کی گرویدہ ہو گئی تھی۔ وہ جو کہتی، میں اُسے مانتی تھی۔ بہار نے میٹرک کیا تو ثمرین نے کہا۔ اب اسے اور کیا پڑھانا، زمانہ خراب ہے۔ تم اسے کالج نہ بھیجو میں اس کی پڑھائی میں مدد کر دیا کروں گی – میری اور حفیظ کی خواہش تھی کہ ہماری بچی اعلیٰ تعلیم حاصل کرے، لیکن ثمرین کے کہنے میں میں نے بہار کو کالج میں داخلہ نہ دلوایا حالانکہ وہ کالج جانا چاہتی تھی، مگر میں نے پہلا پھسلا کر اسے سمجھا دیا۔
جب اس نے پرائیویٹ ، ایف اے کا امتحان دیا تو ایک روز ثمرین مبارک باد دینے آئی اور بولی۔ یہ مناسب وقت ہے، اس عمر میں بچیوں کی شادیاں ہو جانی چاہئیں۔ رشتہ میرے پاس موجود ہے سنو گی تو ٹھکرانہ سکو گی۔ کون لوگ ہیں وہ ؟ میں نے تجسس ہو کر سوال کیا۔ میرا چھوٹا بھائی عزیر ہے، پڑھا لکھا، خوبصورت ملازمت کی اسے ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارے ابو امیر کبیر آدمی ہیں۔ ان کا بینک بیلنس سنوگی، تو حیران رہ جاؤ گی۔ یہ تو میں جانتی تھی کہ ثمرین کا تعلق ایک امیر گھرانے سے تھا۔ اس کے والدین کا اپنا کاروبار تھا ، گھر بھی اپنا تھا۔ لمبی سی گاڑی میں آتے تھے ، لیکن میں نے عزیر کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ثمرین کی شاندار کو ٹھی ایک نہایت پوش علاقے میں بن رہی تھی ، اس وجہ سے وہ کرایے کے گھر میں رہ رہی تھی۔ یہ اس نے مجھے خود بتایا تھا، تاہم رہن سہن سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ دولت مند گھرانے سے ہے۔ میں لالچ میں آگئی حالانکہ ان دنوں بھی بہار کے لئے اچھے رشتے آئے ہوئے تھے۔ خاص طور پر میری نند عارفہ اس سے بہت پیار کرتی تھیں اور بہو بنانے کی آرزو مند تھیں، لیکن وہ متوسط طبقے سے تھیں، اس لیے میں ان کو زیادہ منہ نہ لگاتی تھی کہ کہیں بیٹے سے رشتے کے لئے میرے میاں کو قائل نہ کر لیں۔ بہت سوچ سمجھ کر میں نے حفیظ کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ ہم بہار کارشتہ ثمرین کے بھائی سے طے کر دیتے ہیں۔ وہ راضی ہو گئے کیونکہ میں نے اُن لوگوں کی امارت کا نقشہ ہی ایسا کھینچا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے لڑکے کو تو دیکھ لو۔ میں نے جواب دیا۔ دیکھ لیں گےثمرین کون سی دور ہے۔ ساتھ ہی تو گھر ہے، کسی دن وہ عزیر کو بلوا لے گی تو دیکھ لیں گے – ثمرین سے یہ بات کی تو تو وہ بولی۔ فی الحال تصویر دیکھ لو۔ عزیر لندن گیا ہوا ہے ، آئے گا تو تمہارے گھر لے کر آجاؤں گی۔ اس نے تصویر دکھائی۔ وہ ایک خوبصورت سا دبلا پتلا نوجوان تھا۔ مجھے بہت اچھا لگا اور میں نے بات پکی کر دی۔ اگلے روز ثمرین کے والدین مٹھائی اور انگوٹھی لے کر آگئے ، یوں بہار کی منگنی عزیر سے ہو گئی۔ ہم اس رشتے پر بہت خوش تھے کہ ہماری بیٹی راج کرے گی اور ہم سے زیادہ اونچے گھرانے میں جائے گی۔ اب ہمارا اصرار تھا کہ عزیرے ملیں، اسے دیکھیں اور ثمرین کہتی کہ وہ لندن سے آجائے، تو دکھا دوں گی۔ آخر وہ دن بھی آ گیا جب ثمرین نے کہا کہ کل آپ لوگ میرے ے والدین و کے گھر چلنا۔ عزیر آگیا ہے ، اس بہا نے گھر بھی دیکھ لینا۔ ہم ثمرین کی گاڑی میں اس کے والدین کے گھر پہنچے۔ ہر چیز قیمتی اور اعلیٰ تھی۔ بڑے سے پورچ میں دو عالی شان گاڑیاں کھڑی تھیں۔ میں ان لوگوں کی شان و شوکت دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ اتنی امارت کے باوجود طبیعت میں سادگی اور اخلاق اعلیٰ تھا۔ یہ بھی ہم نے اللہ کا کرم سمجھا۔ خیر، انہوں نے ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور خاطر مدارت کے بعد ایک کمرے میں لے گئے ، جہاں ان کا فرزند لیٹا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ لڑکا شکل و صورت کا اچھا تھا۔ ثمرین بولی۔ اسے بخار ہے، اس لئے کمرے سے نہیں نکلا۔ خیر، دور سے دیکھا تو لڑ کا ہمیں پسند آیا۔ وہ ہماری طرف دیکھتے ہوئے شرمارہا تھا۔ ہم نے سوچا کہ واقعی یہ شرمیلا ہے ، اس لئے ہم نے بات چیت پر اصرار نہیں کیا اور خوش خوش گھر آگئے۔ ہمیں یہ خیال و گمان بھی نہ بھتا کہ وہ کسی بیماری میں مبتلا ہے اور ہر وقت بستر پر ہی رہتا ہے۔ دراصل اسے کوئی ذہنی و نفسیاتی قسم کی بیماری تھی، جس کا علاج ہو رہا تھتا اور اسی سلسلے میں اُسے لندن بھی لے گئے تھے، لیکن یہ بات بعد میں ہمیں معلوم ہوئی۔
ثمرین کے والدین اکثر ہمارے گھر آنے لگے۔ لگے۔ ہم ان کی بہت خاطر تواضع کرتے۔ میں نے بہار کو عذیر کی تصویر بھی دکھادی تھی۔ اس نے کوئی منفی رد عمل ظاہر نہیں کیا، سوچا ہوگا کہ والدین نے اس کے لئے ٹھیک ہی فیصلہ کیا ہو گا۔ انہی دنوں میری بیٹی کے نام کا پرائز بونڈ نکالا اور کافی بڑی رقم ہمیں ملی تو گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ثمرین اس خوشی میں مبارکباد دینے آئی اور ساتھ ہی کہا کہ میرے والدین شادی کی تاریخ مانگ رہے ہیں۔ میں نے کہا۔ جب چاہیں، تاریخ لینے آجائیں لیکن اس بار عزیر کو ہمارے گھر لے آؤ۔ اس نے بہانہ کیا کہ کہ وہ بزنس کے سلسلے میں دوسرے ملک گیا ہوا ہے۔ شادی کی تیاریاں زور و شور سے ہونے لگیں۔ بہار بھی خوش نظر آتی تھی۔ میں نے ہر شے اس کی پسند کی لی تھی۔ بہار کو مایوں بٹھا دیا گیا۔ وہ بڑی خوبصورت لگ رہی تھی اور خوش بھی۔ جب مہندی لے کر گئے تو وہاں کچھ خاطر خواہ مہمان نظر نہیں آئے۔ پتا چلا کہ عزیر کو بخار ہے اور وہ تقریبا بے سدھ ہے۔ ہم فکر مند ہو گئے۔ تب ثمرین نے تسلی دی کہ فکر نہ کریں۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ موسمی بخار ہے۔ تھکاوٹ بھی تھی کیونکہ شادی کے انتظامات میں مصروف رہا ہے۔ کارڈ وغیرہ چھپوانے اور بانٹنے کے علاوہ بھی اس نے کافی کام اپنے ذمے لے لئے تھے۔ خیر، ہم نے دولہا کو مہندی نہیں لگائی کہ وہ چادر اوڑھے سو رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ پہلے بھی جب اسے دیکھنے گئے تھے تو انہوں نے یہی کہا تھا کہ اسے بخار ہے اور آج مہندی کے دن بھی۔ خیر یہ اتفاق بھی ہو سکتا تھا۔ ہم وہاں تھوڑی دیر بیٹھ کر آگئے۔ سوچا شادی کے روز ارمان نکال لیں گے۔ شادی کا دن بھی آگیا، بہار تیار ہونے پار کر جارہی تھی۔ دلہن بن کر گھر آئی تو کیا بتاؤں کہ کتنی پیاری لگ رہی تھی۔ میں بار بار اس پر دم کر رہی تھی ، اس کی نظر اتار رہی تھی۔ دل خوش تھا اور اداس بھی، میری آنکھوں کا نور ، دل کی ٹھنڈک ، آج ہمیں چھوڑ کر اپنے گھر جارہی تھی۔ رات کے آٹھ بجے بارات آنی تھی، لیکن نو سے دس اور پھر بارہ بج گئے ، مگر بارات نہ آئی۔ ہم سب متفکر اور پریشان تھے۔ میں نے ثمرین کو فون کر کے پوچھا تو اس نے فون اپنے والد کو پکڑا دیا۔ حفیظ نے سوال کیا۔ آپ لوگ بارات لے کر کب آرہے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا۔ ہم بارات نہیں لارہے ہیں کیونکہ عزیر بہت بیمار ہو گیا ہے اور اسپتال میں داخل ہے۔ یہ سن کر ہمارے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ میں اور حفیظ اسی وقت گاڑی میں بیٹھ کر ان کے گھر گئے۔ وہاں شادی کا کوئی سماں نہیں تھا۔ وہ لوگ اُداس اور پریشان بیٹھے تھے۔ بالاخر ا نہوں نے بتایا کہ ہمارے بیٹے کو نفسیاتی بیماری ہے۔ وہ بیٹھے بیٹھے اچانک چیخنے لگتا ہے، پھر اسے دورہ پڑ جاتا ہے۔ آج اسے پھر دورہ پڑ گیا تھا۔ جب وہ قابو سے باہر ہو گیا تو مجبوراً ہمیں اس کو اسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ ہم نے اس کا کافی علاج کروایا ہے لیکن ٹھیک نہیں ہوا۔ ثمرین نے ہمیں مشورہ دیا کہ اس کی شادی کر دیں ، ٹھیک ہو جائے گا۔ ہم نے اس کی مان لی مگر آج ہمیں احساس ہوا کہ اس کا ٹھیک ہونا مشکل ہے، تو کیوں ہم کسی کی بیٹی کی زندگی خراب کریں، لہذا ہم آپ سے معذرت چاہتے ہیں۔ ابھی شادی ملتوی کر دیں اور پھر سوچ سمجھ کر آگے قدم اٹھائیں۔ یہ جان کر ہم رو پڑے اور بولے۔ آپ لوگ اب ہمیں حقیقت بتارہے ہیں ، جب ہمارے مہمان بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا۔ ہم اب کیا کر سکتے ہیں، کیونکہ لڑکا بارات کے ساتھ نہیں آسکتا۔ یہ جواب سن کر ہم واپس آگئے اور خدا کا شکر ادا کیا کہ بیٹی کی زندگی برباد ہونے سے بچ گئی۔ بہار دلہن بنی بیٹھی تھی تھی اور ہمارا رو رو کر برا حال تھا، تب میری نند عارفہ مجھے الگ کمرے میں لے گئی اور بولی۔ بھا بھی ! اگر آپ کہیں، تو میں اپنے بیٹے سلیم کو دولہا بنا کر لے آتی ہوں۔ میں نے حفیظ سے مشورہ کیا۔ وہ راضی تھے۔ تب اس وقت عارفہ اور اس کا شوہر دوڑے گھر گئے اور بیٹے کو نیا جوڑا پہنا، دولہا بنا کر لے آئے۔ انہوں نے اسے ساری صورتحال سمجھائی اور کہا کہ ایک لڑکی کے والدین کی عزت کا پاس رکھنا ہے۔ سلیم راضی ہو گیا۔ اس نے والدین کے ساتھ ہماری لاج بھی رکھ لی۔ وہ بہت ہمدرد اور نیک دل لڑکا تھا۔ بہار کو کسی نے بتا دیا تھا کہ دولہا نفسیاتی مریض ہے اور اسپتال میں داخل ہے ، اس لئے بارات نہیں آرہی۔ اس کارورو کر برا حال تھا۔ سب ہی مایوس ہو چکے تھے کہ اتنے میں شور اٹھا، بارات آگئی، بارات آگئی۔ اس وقت میرے دل پر جو گزر رہی تھی، میں ہی جانتی ہوں۔ اللہ تعالی سے فریاد کر رہی تھی کہ اے خدا یہ کس جرم کی سزا ہے ؟ کیا میں نے اسی دن کے لئے تجھ سے اولاد مانگی تھی۔ آج پھر میری فریاد عرش پر گئی کہ اسی وقت ڈھول اور شہنائی کی آواز گونجی۔ شور ہوا کہ بارات آگئی، بارات آ گئی۔ نجانے کیسے اتنی جلد انہوں نے شہنائی اور ڈھول کا انتظام بھی کر لیا اور باراتی تو وہی اپنے رشتے دار تھے ، جو کچھ دیر پہلے ہمارے گھر پر بیٹھے تھے اور اب اب باراتی بن کر آگئے تھے۔
نکاح ہوتے ہوتے صبح کے چھ بج گئے، پھر دلہن رخصت ہو گئی، میرا گھر خالی ہو گیا پھر بھی میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میری بچی عزت سے رخصت ہو گئی۔ عارف نے کہا تھا کہ ولیمہ ایک ماہ بعد کریں گے ، لہذا ایک ماہ تک نہ ہم ان کے گھر گئے اور نہ ہماری بیٹی آئی۔ اتنے دن بہار ہم سے نہ ملی تھی، لیکن جب ولیمے میں اس سے ملاقات ہوئی، تو وہ بہت خوش تھی۔ اس نے اپنے ساس سسر اور شوہر کی بہت تعریف کی کہ وہ سب اس کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ اب غور کیا تو اندازہ ہوا کہ میں ناحق ثمرین کی باتوں میں آئی، حالانکہ اس سے ہزار درجہ اچھی میری نند تھی ، جو دل سے بہار کو پیار کرتی تھی اور سلیم، عزیر سے کہیں زیادہ لائق اور خوبصورت تھا۔ نجانے کیوں میری آنکھوں پر اس وقت پٹی بندھ گئی تھی اور میں ان کو پرکھ نہ سکی تھی۔ اب سوچتی ہوں کہ اس آڑے وقت میں اگر میری نند ساتھ نہ دیتی تو ہماری کس قدر سبکی ہوتی.