میں قابل نفرت نہ تھی لیکن لوگ مجھ سے نفرت کرنے لگے اور اب یقین ہے کہ اگر ماں باپ زندہ ہوتے تو اپنی بیٹی کہنا پسند نہ کرتے۔ اس لئے کہ تقدیر نے وطن چھینا، پھر ایک بے غیرت مرد نے جسے عرف عام میں ’’دلال‘‘ کہتے ہیں، مجھے معصوم لڑکی سے طوائف بننے پر مجبور کردیا۔
میری کہانی سیدھی سادی سی ہے، مگر زندگی اور وقت کے دائو پیچ اتنے سیدھے نہیں ہیں۔ بس ذرا سا پیر پھسلنے کی دیر ہے۔ نادان عورت تو سیدھی حقارتوں کی دلدل میں جا گرتی ہے۔ حالات کے ہاتھوں یہ تباہ حال عورت پھر چاہے جتنا پکار پکار کر کہے کہ مجھے بچالو، اس دلدل سے نکال لو۔ لوگ اسے طوائف ہی جانتے ہیں اور اسے بچانے کے لئے ہاتھ بڑھانے سے ڈرتے ہیں۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ گناہ سے نفرت کرنے کے باوجود ’’اس بازار‘‘ کی زینت بنوں گی کہ جہاں عصمت کا کاروبار کیا جاتا ہے۔
میں بنگلہ دیش، کھلنا کے قریب ایک گائوں کی رہنے والی تھی۔ جب ہوش سنبھالا والد کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا۔ ہم تین بہنیں تھیں اور میں ان میں بڑی تھی۔ غربت کی وجہ سے جب رشتہ داروں نے آنکھیں پھیر لیں تو دوسری شادی کرنے کی بجائے ماں نے دوسروں کے گھروں میں برتن مانجھنے کو ترجیح دی۔
ان حالات میں بڑی مشکل سے میٹرک مکمل کیا۔ ماں تو انتھک محنت سے جلد ہی بوڑھی نظر آنے لگی تھی۔ میں نے میٹرک اسی لئے کیا تھا کہ کہیں نوکری کرسکوں، اپنی ماں اور چھوٹی بہنوں کا سہارا بن جائوں۔
اب میں نوکری کی تلاش میں در در بھٹکنے لگی، کہیں لوگ عزت کے بدلے نوکری کی پیش کش کرتے تو کہیں رشوت اور سفارش طلب کرتے۔ اب پتہ چلا کہ ملازمت تلاش کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ یہ دکھ وہی لڑکیاں جانتی ہیں جو ان حالات سے گزرتی ہیں۔
جس محلے میں ہم رہتے تھے وہاں ایک گھرانہ آباد تھا جو میاں بیوی اور دو بچوں پر مشتمل تھا۔ گھرانے کے سربراہ کا نام صابر تھا۔ ان دنوں جب میں نوکری کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی تھی اور ہمارے گھریلو حالات بہت خراب تھے، ایک روز صابر ہمارے گھر آیا۔ پڑوسی ہونے کے ناتے ماں نے اسے اپنا دکھ سنایا اور التجا کی کہ میری بچی کو نوکری دلوا دو۔
صابر نے ماں کو تسلی دی اور کہا کہ اگر تم مجھ پر اعتبارکرو تو میں تمہاری لڑکی کو دبئی میں ملازمت دلوا سکتا ہوں، بہت اچھی تنخواہ ملے گی۔ میں خود وہاں جارہا ہوں اور بیوی بچے بھی ساتھ جا رہے ہیں۔ تمہاری بیٹی فریحہ وہاں میرے گھر پر رہے گی۔ میں ہر ہفتہ تمہاری اس سے فون پر بات کروا دیا کروں گا۔ غربت سے مجبور ماں اس کی باتوں میں آگئی اور ہامی بھرلی۔
صابر کچھ دن کے لئے بنگلہ دیش سے چلا گیا، جب واپس آیا تو ماں کو خوش خبری سنائی کہ اپنی فیملی کے ساتھ وہ میرا بھی ویزا لے آیا ہے۔ اب پاسپورٹ اور ٹکٹ کا بندوبست کرنا ہے۔ ماں نے اپنے کانوں سے بالیاں اتار کر اسے دے دیں اور تمام مراحل مکمل ہوگئے۔ بالآخر روانگی کا وقت آگیا۔ میں صابر اور اس کی فیملی کے ساتھ ہوائی جہاز پر بیٹھ گئی اور ہم دبئی آگئے۔ یہاں چند دن اس نے مجھے اپنی فیملی کے ساتھ رکھا اور پھر وہ مجھے ایسی جگہ لے آیا جہاں مجھ سی اور بھی بدنصیب لڑکیاں تھیں۔ ان سے ملی تو پتہ چلا کہ صابر نے جھوٹ بولا تھا۔
وہ ہمیں لے کر پاکستان آگیا اور یہاں ایک شخص کے ہاتھ فروخت کردیا۔ یہ بازار حسن کا دلال تھا جو بظاہر جعلی نکاح نامے پر دستخط کرکے مجھے بیوی بناکر لایا تھا لیکن اس کا کام عورتوں کو خرید کر بازار ِحسن کی زینت بنانا تھا۔ میں جس عزت کی حفاظت میں اتنی دور آئی تھی، یہاں اس کا نیلام ہونے لگا۔ میرا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ موت کی دعا کرتی تھی لیکن موت بھی نہیں آتی تھی۔ میں ہر روز جیتی اور ہر روز مرتی تھی۔ گڑگڑا کر دعا کرتی تھی کہ اے خدا کسی شریف انسان کو میرے پاس بھیج دے جو مجھے اپنی بیوی بنالے اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اس دلدل سے نکال لے۔
بالآخر خدا کو مجھ پر ترس آگیا اور ایک روز ایک شخص آیا جو شکل سے شریف اور اطوار سے بااخلاق لگتا تھا۔ اس نے آتے ہی مجھ سے سوال کیا… تم مجبور ہو یا خوشی سے اس کانٹوں بھری سیج پر بیٹھی ہو۔ میں نے اس کی طرف چونک کر ایسے دیکھا جیسے کسی نے بجلی کا جھٹکا دیا ہو۔ سال بھر سے جیسے کہ میں بس اسی سوال کے انتظار میں بیٹھی تھی، تبھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑیاں لگ گئیں۔ جیسے ساون بھادوں کا مہینہ اپنی پوری آب و تاب سے برستا ہے۔
جب رو کر دل کا غبار نکال چکی تو اس نے کہا۔ سچ کہا تھا میرے دوست نے، میں صحیح لڑکی کے پاس پہنچا ہوں۔
کیا کہا تھا آپ کے دوست نے اور کون ہے وہ آپ کا دوست؟ میں نے رندھی ہوئی آواز میں دریافت کیا تو فہیم نے بتایا۔ میں اس بازار کا شوقین نہیں اور نہ ہی میرا وتیرہ ہے کہ یہاں آکر خود کو رسوا کروں۔ تاہم میرے چند دوست ایسے ہیں جو اس جگہ سکون تلاش کرنے آتے ہیں۔
ایک روز وہ میرے گھر پر بیٹھے آپس میں گفتگو کررہے تھے اور میں حیرت سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔ اسلم نے کہا کہ یار طبیعت بوجھل ہے۔ ادھر جانا چاہئے… دوسرا بولا… اس بار مشاہد سے کہنا، پھر اسی لڑکی سے نہ ملا دے جس کا نام ہم نے ’’روتی صورت‘‘ رکھا ہے… ہر وقت روتی رہتی ہے۔
ارے ہاں یار… وہ فریحہ۔ وہ تو نفسیاتی مریض ہے۔ خوبصورت تو بے حد ہے لیکن ابھی تک اس نے ماحول کو قبول نہیں کیا ہے۔ کوئی دل بہلانے جاتا ہے اور یہ رو رو کر غموں کو دگنا کردیتی ہے۔
دل خراب ہوجاتا ہے۔ آفتاب نے بھی تائید کی۔
سروش نے کہا۔ یار ترس آتا ہے اس پر، کم بخت ایک دلال اسے دھوکے سے یہاں لایا ہے، نوکری کا جھانسا دیا تھا۔ وہ بے چاری شریف لڑکی ہے۔ جب ہی روتی ہے۔
میں نے جب دوستوں سے ایسی باتیں سنیں تو تمہارا اتا پتا دریافت کیا اور یہاں تک آگیا۔ جب پہلی نظر تم پر پڑی تو تمہاری اچھی صورت سے متاثر ہوا۔ مگر تم سے بات کرتے ہی معلوم ہوگیا کہ تمہیں طوائف ضرور بنادیا گیا ہے مگر تمہارے اس سجے ہوئے جسم کے اندر ایک شریف عورت ابھی تک زندہ ہے۔
اچھا بتائو تم یہاں تک کیسے پہنچیں اور کون لایا تھا تم کو یہاں؟ تبھی میں نے اپنی ساری کہانی فہیم کو سنادی۔ میری کہانی سن کر اس کے دل میں رحم جاگ گیا۔ اس نے کہا۔ فریحہ اگر واقعی تم سچی ہو اور اس گندگی سے چھٹکارا پانا چاہتی ہو تو یہاں سے اسی وقت نکل چلو۔ میں تم سے شادی کروں گا۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ مگر… میں راضی ہوگئی اور پھر رات کے بارہ بجے وہ مجھے وہاں سے کسی طرح نکال کر اپنے فلیٹ میں لے آیا۔ صبح ہم نے نکاح کیا اور میاں بیوی جیسے مقدس بندھن میں بندھ گئے۔
چند دن بعد فہیم نے اپنے گھر والوں سے رابطہ کیا اور ان کو خوش خبری دی کہ اس نے شادی کرلی ہے۔ وہ اس فعل پر ان سے اس لئے معافی کا طلب گار تھا کہ اپنوں سے اجازت لی تھی اور نہ اپنی شادی میں ان کو شامل کیا تھا۔ بہرحال اپنے تو اپنے ہوتے ہیں۔ انہوں نے فہیم کو نہ صرف معاف کردیا بلکہ کہا کہ اپنی دلہن کو ساتھ لے کر گھر آجائو۔ وہ جیسی بھی ہے ہمیں قبول ہے۔ ہماری بہو بن گئی ہے تو قبول کرنا ہی ہے۔
اس امید افزا جواب کے ملتے ہی فہیم خوش ہوگیا اور مجھے لے کر اپنے گھر والوں کے پاس گیا۔ جیسا کہ انہوں نے کہا تھا کہ بہو بن گئی ہے تو جیسی بھی ہے ہم قبول کرلیں گے۔ فہیم کے ماں باپ بہن بھائیوں نے مجھے قبول کرلیا اور وہی عزت دی جیسی کہ ایک بہو کو ملنی چاہئے تھی۔
اب میں فہیم کے گھر والوں کے ساتھ ان کے گھر میں رہنے لگی۔ فہیم اور میں بہت خوش تھے کہ ہم اپنوں میں آگئے ہیں اور اکیلے جیون کی سختیاں سہنے سے بچ گئے ہیں۔ شادی کو چار برس بیت گئے لیکن میں اولاد کی نعمت سے اب تک محروم تھی۔ ساس لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گئیں، اس نے بتادیا کہ ان کے اولاد نہیں ہوسکتی۔
اولاد نہ ہونے پر بھی فہیم مجھے بہت چاہتے تھے۔ میں ان سے کہتی تھی کہ میری طرف نہ دیکھو اور دوسری شادی کرلو… اولاد تو اللہ کی نعمت ہے، آپ کیوں میری وجہ سے اس نعمت کو ترسیں۔ تب وہ کہتے تھے کہ میں تم پر کبھی سوتن نہ لائوں گا اور کبھی دوسری شادی نہ کروں گا۔ تمہارا کیا قصور ہے، میں کیوں تم پر ظلم توڑوں… پہلے کیا تم دکھ اٹھایا ہے تم نے…!
آپ نے ایک بار قربانی دی ہے، اس احسان کو نہیں بھول سکتی۔ اب دوسری قربانی نہ دیں، تو فہیم کہتے تھے۔ جب قربانی دی ہے تو پوری طرح دوں گا ورنہ قربانی ضائع ہوجائے گی۔
وہ مجھ سے جو اتنا پیار کرتے تھے، میں بھی دل و جان سے انہیں چاہنے لگی تھی۔ وہ بھی اچھے انسان تھے، میں بھی اچھے دل کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری جوڑی خوب ملائی تھی اور ہم بہت خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے کہ ایک بار پھر میری زندگی میں قیامت کی گھڑی آگئی۔
ایک بار جبکہ فہیم گھر پر نہ تھے، ان کے ایک دوست اسلم اپنی بیوی کے ساتھ ہمارے گھر آئے۔ میں انجانے میں ان کے سامنے چلی گئی۔ اسلم نے مجھے دیکھ کر پہچان لیا۔ وہ کئی بار ’’اس بازار‘‘ میں آچکا تھا۔ اس نے اپنی بیوی کو بتادیا کہ فہیم کی بیوی کا تعلق بازار حسن سے ہے۔ خدا جانے فہیم کی عقل کو کیا ہوا تھا جو ایک طوائف کو بیوی بناکر گھر لا بٹھایا ہے۔ اسے اپنی والدہ اور بہنوں کا بھی پاس نہ رہا کہ یہ عورت کیسے ان کے درمیان رہے گی۔
اسلم کی بیوی نے میری ساس کی بھانجی عظمٰی کو سارا قصہ بتایا کہ عظمٰی سے اس کی دوستی تھی۔ عظمٰی بھی پیٹ کی ہلکی نکلی اور یوں بات ہوتے ہوتے سارے خاندان میں پھیل گئی۔ میری ساس اور نندوں کو جب یہ قصہ پتہ چلا انہوں نے فہیم سے پوچھا۔ تب حقیقت انہوں نے بتا کر کہا کہ… حالات نے فریحہ پر ستم کیا ہے، اس کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔ میں اسے گناہ گار نہیں سمجھتا، نیکی سمجھ کر اس کے ساتھ نکاح کیا ہے۔ کوئی کچھ بھی کہے، مجھے ہرگز اس کی پروا نہیں ہے۔ ہم اپنے گھر میں خوش ہیں، کوئی ہم سے ناتا رکھے یا نہ رکھے۔
میری ساس نے اعتراض کیا کہ اگر طوائف کو بیوی بنالیا تھا تو پہلے بتانا تھا۔ ہم تم کو یہاں اسے لا بسانے کا نہ کہتے۔ اب تم لوگ ہم سے الگ ہوجائو اور علیحدہ رہو کیونکہ میری بچیوں کی ابھی شادی نہیں ہوئی۔ ان کے رشتے ہونے ہیں اور جس گھر کی بہو طوائف زادی ہو، اس گھر کی بچیوں کے رشتے کون لے گا۔ میری بیٹیاں تو بن بیاہی رہ جائیں گی۔ کون سا شریف گھرانہ میری لڑکیوں کو رشتہ دے گا۔
جب میں نے ساس کے منہ سے یہ الفاظ سنے تو مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ وہ کہہ رہی تھیں۔ میں تو ساس
ہوں، اگر فریحہ کے والدین بھی اس کے حالات جان لیں تو اسے بیٹی کہہ کر بلانا پسند نہ کریں گے۔ یہ اور ایسی باتیں میرے لئے سوہان روح ہوگئیں، تبھی مجبور ہوکر فہیم نے کرایہ کا مکان تلاش کیا اور ہم علیحدہ ہوگئے۔
میں اب اپنے شوہر کے والدین کے گھر نہیں جاتی، ان کے بہن بھائی اور رشتہ دار بھی مجھ سے نہیں ملتے۔ اتفاقاً مل جائیں تو کترا کر نکل جاتے ہیں۔ تب بہت دکھ ہوتا ہے۔ میں سوچتی ہوں اگر طوائف ہونا قابل نفرت ہے تو پھر اس معاشرے کے کچھ افراد بھی قابل تعزیر ہیں، صرف طوائف سے ہی نفرت کیوں۔ ان لوگوں سے بھی نفرت کی جانی چاہئے جو عورت کو طوائف بناتے ہیں، اسے خریدتے اور بیچتے ہیں۔ وہ لوگ تو شرفاء کی سوسائٹی میں ایسے گھل مل کر رہتے ہیں کہ پہچانے نہیں جاتے مگر عورت ہی قابل نفرت ٹھہرتی ہے، وہی گناہ گار سمجھی جاتی ہے، وہی سزا وار ہوتی ہے۔ آخر یہ بے انصافی کیوں؟
افسوس تو یہ ہے کہ جس شخص نے مجھے دلدل سے نکالا، مجھے شریفانہ زندگی دی، نیکی اورثواب کا کام کیا، اسے بھی لوگ میرے ساتھ سزا دینے لگے۔ فہیم کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں کہ اس نے فریحہ سے کیوں شادی کی۔ کیا دنیا میں شریف لڑکیوں کی کمی تھی جو یہ گندگی میں جاگرا۔ اور میں کہتی ہوں کہ شریف گھرانے کی اچھی لڑکیوں کو تو سبھی اپناتے ہیں۔ آفرین تو اس شخص پر ہے جو گناہ کی دلدل میں پھنسی کسی ایسی عورت کو اس دلدل سے نکالتا ہے جو دل سے شریفانہ زندگی کی آرزو مند ہوتی ہے۔ اگر واقعی کوئی عورت ایسی ہو اور وہ شریفانہ زندگی کی آرزومند ہو تو اس کو شریفانہ زندگی دینا اور گناہ آلود زندگی سے نکال لینا ایک بڑی نیکی ہے۔
معاشرہ چاہے فہیم سے جتنی بھی نفرت کرے مگر میں تو یہی کہوں گی کہ فہیم نے مجھے اپناکر جو نیکی کی ہے، اس کا اسے بڑا اجر ملے گا۔
(ف … کراچی)