عنبر گائوں سے شہر آئی تو کافی دنوں تک روتی رہی، کیونکہ اس کو گائوں کا ماحول اور وہ لوگ بہت یاد آتے تھے ، گائوں کی فضا میں محبت رچی بسی ہوئی تھی اور جہاں اس کے بچپن کے سنہرے دن گزرے تھے لیکن پھر مجھ سے دوستی کے بعد رفتہ رفتہ اُس کا دل بہلنے لگا۔ وقت گزرتا گیا۔ ہم دونوں دسویں جماعت میں آگئے، تبھی ایک روز پتا چلا عنبر کے گائوں والے پڑوسی ، یہاں اس کے پڑوس میں آبسے ہیں ، جن کی یاد نے کافی عرصہ تک اس کے دل کا گھیرائو کئے رکھا تھا۔ یہ بات مجھے عنبر نے کافی دنوں بعد بتائی کہ تیمور کے گھر والے اُن کے پڑوس میں آئے ہیں لیکن وہ تیمور سے کترانے لگی تھی کیونکہ دونوں اب بڑے ہو گئے تھے۔ تیمور نے تو خوب ہی قد کاٹھ نکالا تھا۔ وہ اب نازک سالڑ کا نہیں رہا تھا جو بچپن میں اس کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔ ایک دن میں لائبریری میں بیٹھی پڑھ رہی تھی کہ وہ گھبرائی ہوئی آگئی اور مجھے اپنے ساتھ چلنے کے لئے کہا۔ میں نے سمجھایا کہ اس طرح اسکول سے کہیں جانا ٹھیک نہیں۔ ہم چھٹی کے بعد پہلے گھر جائیں گے اور امی کو بتا کر پھر کہیں جائیں گے۔ تب وہ مجھ کو پریشان چھوڑ کر واپس چلی گئی لیکن اس نے مجھ کو کچھ نہ بتایا۔ چھٹی کے بعد میں عنبر کے گھر گئی اور پریشانی کی وجہ پوچھی۔ اس نے بتایا کہ تیمور کے بڑے بھائی کی شادی ہے، تبھی تیمور نے اس سے کہا کہ دلہن بھابی کے لئے چوڑیاں لینی ہیں، ہم بازار جار ہے ہیں، تم بھی چلو۔ بس اتنی سی بات تھی جس کی وجہ سے وہ پریشان تھی کہ جائے یا نہ جائے ، چاہتی تھی کہ میں بھی اس کے ساتھ چلوں۔ تیمور کی دو بہنیں بھی ساتھ جارہی تھیں۔ میں نے جانے سے منع کر دیا لہذا شام کو وہ بھی ان کے ہمراہ نہ گئی ، تاہم اس کو بازار نہ جانے کا قلق تھا تبھی مجھ سے خفا تھی۔ کہتی تھی کہ ربیعہ اگر تم چلتیں تو میں بھی چلی جاتی۔ میں نے کہا کہ چلو اچھا ہوا کہ تم ان کی شادی کی خریداری میں ان کے ساتھ خوار نہ ہوئیں۔ آخر تم دُلہن کی لگتی کیا ہو ؟ تیمور محض تمہارے پڑوسی ہی تو ہیں۔ اس نے مجھ کو اپنی دلی لگاوٹوں کے بارے نہیں بتایا، بس چپکی ہو رہی مگر میں نے محسوس کر لیا کہ اُس کو ان لوگوں کے ساتھ نہ جا سکنے کا افسوس تھا۔ تیمور کے بھائی کی شادی ہو گئی ، دلہن گھر آگئی۔ شادی کے ہنگامے میں تیمور نے عنبر سے بات کرنے کی کافی کوشش کی۔ جب عنبر نے خاطر خواہ جواب نہ دیا تو اس نے جھنجھلا کر کہا۔ مجھے خبر نہ تھی تم بڑی ہو کر اتنی بدل جائو گی، بزدل کہیں کی۔ ہم بچپن کے ساتھی ہیں اور اب تم حد درجہ مغرور ہو گئی ہو۔ عنبر کو بُر الگا، بولی۔ میں بزدل نہیں، تم آخر چاہتے کیا ہو ؟ تم اگر بزدل نہیں ہو تو پھر مجھ سے بات کرو۔ میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ یہاں لوگوں کی وجہ سے کترار ہی ہونا ! چلو کل آصف کے گھر آجانا، میں وہاں تمہارا انتظار کروں گا۔ مجھ سے مشورہ کیا۔ میں نے کہا کہ جب تم لوگ گائوں سے یہاں آئے تھے ، یاد ہے کتنا تیمور اور اس کی امی کو یاد کر کے رویا کرتی تھیں، یقیناً ان لوگوں نے تم کو بہت پیار دیا ہو گا کہ تم انہیں بھلانہ پاتی تھیں۔ اب وہی لوگ جب تمہارے پڑوس میں آبسے ہیں تو ان سے بات کرنے سے دور کیوں بھاگتی ہو۔ آخر آصف کے گھر جا کر بات کرنے میں کیا حرج ہے ، ہم وہاں جاتے ہی رہتے ہیں۔ ہاں ٹھیک کہتی ہو۔ میں تیمور کو مزا چکھائوں گی ، اس نے مجھے بزدل کہا ہے۔ آخر وہ خود کو سمجھتا کیا ہے ؟ ایک سیدھی سی بات کے بارے میں اُس نے عجیب گفتگو کی ، تو میں اس کے ذہن کی بازی گری پر حیران رہ گئی۔ آصف بھی ہمارے پڑوس میں رہتا تھا اور تیمور کا دوست بھی تھا، ہمارے والدین کا اس کے گھر آنا جانا تھا۔ عنبر کا ارادہ تھا کہ وہ تیمور کی خبر لے گی ، اس کو کھری کھری سنادے گی کہ کیوں بزدل اور مغرور کہا تھا لیکن ہم جب آصف کے گھر گئے ، تب تیمور نے اس کے ساتھ اس قدر نرمی سے بات کی کہ عنبر کا دل موم ہو گیا۔ یہ میری تیمور کے ساتھ پہلی دو بہ دو ملاقات تھی۔ میں نے تیمور کو ایک اچھا اور سلجھا ہو انسان پایا۔ اس نے پہلی بار سے ہی مجھ کو بہن کہہ کر مخاطب کیا تو میں نے بھی اس کو بھائی بنالیا۔ اس کے بعد جب بھی عنبر اور میں آصف کی بہنوں سے ملنے جاتے ، اتفاق کہ اسی وقت تیمور بھی وہاں آصف سے ملنے آنکلتا۔ وہ فوراً مجھ سے سلام ودعا کرتا اور جب میں آصف کی امی اور بہنوں سے باتیں کرتی تو تیمور عنبر سے باتیں کرنے لگتا۔ آصف کی امی سیدھی سادی خاتون تھیں۔ سمجھتی تھیں کہ آصف اور ہم سب چونکہ ایک ہی کالج میں پڑھتے ہیں، اسی وجہ سے نوٹس وغیرہ کے سلسلے میں ان کے وہاں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ وہ ہمیں بیٹیوں کی طرح پیار کرتی تھیں۔عنبر جاتی یانہ جاتی، میں ان سے ملنے ضرور جاتی۔ ان کی بیٹیاں ہوسٹل چلی جاتیں، وہ اکیلی ہو جاتیں تو ان کو کبھی چائے بنادیتی اور کبھی ان کے کمرے کی صفائی کر دیتی۔ وہ میری خدمت گزاری سے خوش ہو تیں۔ کچھ بیمار رہتی تھیں اور میں ان کے سارے کام بے لوث ہو کر کرتی تھی۔ ان کی خدمت میں مزا آتا تھا۔ وہ مجھے دعائیں دیتیں۔ جانے کب پھر ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ ان کی بہو کو مجھ جیسا ہونا چاہیے۔ ایک دن یہی بات انہوں نے آصف کے کان میں کہی اور اس نے مجھے نظر بھر کر دیکھاتو ہیں اس کی نظروں کا مطلب سمجھ گئی۔ اس سے پہلے تو میرے ذہن میں خیال تک نہیں آیا تھا کہ میں آصف کے بارے سوچوں گی یاوہ مجھ کو اپنانے کے نظریہ سے دیکھے گا۔ آنٹی نے اس کے بعد مجھ کو نہ گنوانے کی جیسے قسم کھالی ہو۔ وہ کہتی تھیں کہ اس گھر کو تیرے جیسی ہم درد، سنجیدہ، سمجھ دار اور سگھڑ لڑکی کی ضرورت ہے اور مجھ کو بھی تجھ سی بیٹی کی تلاش تھی۔ اگر تجھ کو میرا بیٹا بُرا نہیں لگتا تو میں آج کل میں جا کر تیرے والدین سے تم کو مانگ لوں گی۔ آنٹی کی ان باتوں نے میرے دل میں آصف کی چاہ کو جنم دیا۔ وہ واقعی مجھ کو اچھا لگنے لگا، لیکن میرے اور اس کے درمیان اس کی امی تھیں۔ جس کی وجہ سے ہمیں سہارا تھا تبھی ہم نے تحمل کی دیوار کو نہیں گرایا۔ میں نے آنٹی سے کہہ دیا کہ اگر میں آپ کو پسند ہوں تو آپ لوگ بھی مجھے پسند ہیں۔ آپ میر ارشتہ چاہتی ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ہماری کہانی کے بر عکس تیمور اور عنبر باہر باہر جا کر ملنے لگے تھے۔ یہ بات انہوں نے مجھ سے بھی چھپائے رکھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ میں ان کو منع کروں گی۔ عنبر کو یہ بھی ڈر تھا کہیں ان کی باہر کی ملاقاتوں کار از میں اس کی امی پر نہ فاش کر دوں۔ خُدا کی کرنی کہ ایک روز عنبر کے والد نے ان دونوں کو اکٹھے ایک تفریحی پارک سے نکلتے دیکھ لیا۔ ان کو یہ بات بہت ناگوار گزری۔ وہ تیمور کو ایک اچھا سمجھتے تھے۔ اگر اس کی امی سیدھے طریقے سے رشتہ مانگتیں، مجھے یقین ہے کہ وہ ہر گز انکار نہ کرتے کیونکہ وہ تیمور سے بہت پیار کرتے تھے۔ برسوں سے ان کے گھرانے ایک دوسرے کے قریب تھے۔ انکل جب گھر آئے، وہ عنبر پر غصہ ہوئے تبھی ان کے لڑکوں نے بھی یہ بات سُن لی۔ ان کا جوان خون کھول گیا۔ بولے کہ ہم کو تیمور سے ایسی امید نہ تھی۔ ہم تو اس کو اپنے بھائی جیسا درجہ دیتے تھے۔ اس نے ہماری بہن کے ساتھ غلط راستہ اختیار کر لیا۔ اب ہم اس کو اس دغا بازی کا مزا چکھاتے ہیں۔ وہ گویا اس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کو گھر سے نکل پڑے۔ بڑی مشکل سے بڑوں نے ان کو قابو کیا۔ عنبر پر سخت پابندی لگ گئی کہ وہ اب گھر سے نہیں نکل سکتی تھی۔ اس صورت حال سے میں اور وہ سخت پریشان ہو گئیں۔ میں تو گھر سے نکل سکتی تھی مگر وہ نہیں۔ میں آصف کے گھر جاسکتی تھی مگر عنبر اس کے گھر بھی نہیں جاسکتی تھی۔ اب عنبر کے والدین کو اسے جلد از جلد بیاہنے کی فکر ہو گئی۔ کافی عرصہ سے اس کی پھوپی ، اپنے بیٹے برہان کے لئے رشتہ مانگ رہی تھیں لیکن انکل اور آنٹی کو لڑ کا ٹھیک نہ لگا تو انکاری تھے۔ اب جو پھوپی نے پھر سے آگر منت سماجت کی تو انکل نے ہاں کہہ دی۔ جب تیمور نے سنا کہ عنبر کی شادی برہان سے ہو رہی ہے ، اس کی تو جیسے رُوح فنا ہو گئی ہو۔ اس سے کسی کے ساتھ بات بھی نہ ہوتی تھی، میں اور آصف تسلی دیتے تو وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا۔ اس نے بتایا کہ صرف عنبر کی خاطر اس نے اپنے والدین کو مجبور کیا کہ شہر چل کر آباد ہوں۔ ان سے زمین بکوائی اور شہر کا یہ مکان خرید اجو اتفاق سے ان دنوں برائے فروخت تھا اور عنبر کے والد کے پڑوس میں تھا۔ تیمور کے ماں باپ نے بھی بیٹے کی خاطر قربانی دی تھی مگر بیٹے کی جلد بازی کی وجہ سے سارا کھیل بگڑ گیا، ورنہ وہ تو شہر اسی وجہ سے آبسے تھے کہ عنبر کارشتہ تیمور کے لئے لیں گے۔ مگر اب عنبر کے بھائی جذبات میں آکر دشمنی پر اترے ہوئے تھے اور وہ سب کچھ کرتے پھر رہے جس کا کبھی کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔میرے والد نے بھی ان لڑکوں کو سمجھایا کہ تمہارا ان لوگوں کا برسوں کا ساتھ رہا ہے اور پرانے پڑوسی ہیں، تم لوگوں کو ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں۔ بزرگوں کی دوستی کو برباد مت کرو، مگر وہ نہ مانے۔ بڑھ چڑھ کر بولے کہ ہم بے غیرت نہیں کہ جو شخص ہماری بہن سے چوری چھپے پینگیں بڑھائے، ہم اسی کو گھر کا داماد بنالیں۔ جو بھی ہوا اچھانہ ہوا۔ عنبر پر تو قیامت گزرگئی لیکن تقدیر بھی کبھی کبھی بہت سفاک مذاق کر گزرتی ہے۔ سو یہ مذاق ان دونوں کے ساتھ بھی تقدیر نے کیا۔ اُس نے دونوں کو جدا کر دیا اور عنبر کی شادی برہان سے ہو گئی۔ تیمور کی یہ چاہت آج کل کی نہ تھی، دونوں کا پرانا ساتھ تھا۔ وہ اتنا بیمار پڑا کہ میں اور آصف اس کی حالت دیکھ کر خوف زدہ ہو گئے۔ اس کی دُعائیں تو رنگ نہ لائیں لیکن اللہ نے ہم پر کرم کیا۔ آصف کی والدہ نے رشتہ مانگا اور میرے والدین نے منظور کر لیا۔ یوں ہماری شادی کی تاریخ رکھ دی گئی۔ آصف کیونکہ اچھی شہرت کا مالک تھا، ماں باپ کا اکلوتا اور صاحب جائیداد تھا۔ اس کے والد بھی خوشحال بزنس مین تھے۔ آصف نے کامرس میں فرسٹ پوزیشن لی تھی۔ اس کا مستقبل شاندار تھا۔ میرے والدین نے اس کو داماد بنانے میں زیادہ سوچ بچار سے کام نہ لیا اور باقی کا معاملہ قسمت پر چھوڑ کر اس سے میری شادی کر دی۔ میں آصف کو پا کر بہت خوش تھی لیکن عنبر اپنی شادی سے خوش نہ تھی۔ وہ میکے آتی تو اس کے چہرے کے گلاب نہیں کھلتے تھے بلکہ وہ تو سر سوں کا پھول ہو گئی تھی، جس کا مطلب تھا کہ اس کی خوشی کا سوداگھر والوں کی ضد کی وجہ سے خسارے کا ثابت ہوا تھا۔ تیمور بہت رنجیدہ رہتا تھا۔ اس کی ہزار دعائوں کے باوجود عنبر اس کو نہ مل سکی جس کی خاطر اس نے ماں باپ سے گائوں کا گھر زمین سب کچھ بکوایاتھا اور شہر آبسیرا کیا تھا۔ کچھ ماہ بعد عنبر شوہر کے ہمراہ کینیڈا چلی گئی اور وقت کے ساتھ ساتھ بالآخر تیمور کو بھی صبر آنے لگا اور وہ سنبھل گیا۔ ادھر میرے سُسر کے کاروبار کوروز بہ روز ترقی ملی اور میں قسمت کی دھنی کہلائی۔ وہ کہتے کہ ہماری بہو کی قسمت ہمارے لئے زیادہ دھن لائی ہے۔ آصف کہتے ، ربیعہ تم نے مجھ کو سکون دیا تو میں نے بھی کاروبار میں یکسوئی سے کام کیا ہے۔ اس کا ثمر ہے کہ آج ہم بین الا قوامی طور پر اپنے کاروبار کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ میں سوچتی ہوں، کچھ معاملات ہمارے اپنے عمل سے بنتے اور بگڑتے ہیں لیکن کچھ معاملات واقعی تقدیر اور قسمت سے بھی وابستہ ہوتے ہیں۔ تیمور بھائی بھی بہت خو شحال ہیں مگر انہوں نے شادی نہیں کی۔ ان کا گھر اب تک سونا سونا ہے جبکہ ہمارا گھر بچوں کی چہکاروں سے مہکتا ہے۔ میں اور آصف جب ان کو شادی کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، جواب ملتا ہے جس روز عنبر میرے دل سے اتر جائے گی، اس روز شادی کر لوں گا۔ ادھر عنبر بھی وقت سے پہلے عمر رسیدہ لگتی ہے۔ وہ مسکراتی تو ہے مگر دل سے نہیں۔ اس کا شوہر شروع میں تو اس کا دیوانہ تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ بھی اس سے سرد مہر ہوتا گیا۔ شادی کے بعد وہ دوبار پاکستان آئی اور ہر بار مجھ سے یہی کہا کہ تیمور کو مجبور کرو کہ وہ شادی کرلے۔ اس کے تنہا رہنے سے مجھ کو زیادہ دُکھ محسوس ہوتا ہے مگر اس نے کبھی تیمور بھائی سے ملنے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا، کبھی اپنے گھر کے تقدس کو مجروح کرنے بارے نہیں سوچا۔ سچ سچ عنبر ایک پاکیزہ خیال کی اچھی لڑکی تھی اور ایسے ہی تیمور بھائی بھی ہیں لیکن یہ اپنا نصیب کسی کو خوشیاں مانتی ہیں اور کسی کو غم ملتے ہیں۔