یونیورسٹی کی طرف سے پہلی بار ہماری کلاس سیف الملوک، مری، اور آزاد کشمیر کے تفریحی ٹرپ پر جا رہی تھی۔ مقررہ دن ہم اساتذہ کے ہمراہ سفر پر روانہ ہوئے۔ سب خوشی سے نہال تھے، لیکن انیقہ چپ چپ تھی۔ میں نے کہا:تم تو ایسے اداس ہو، جیسے ٹرپ پر نہیں، ماتم میں جا رہی ہو۔ دیکھو تو، سب خوش ہیں، ہنسی مذاق کر رہے ہیں، اور تم ہو کہ خاموش بیٹھی ہو۔وہ پھر بھی چپ رہی تو میں نے نرمی سے کہا:انیقہ، میں تمہاری دوست ہوں، اگر کوئی سنجیدہ مسئلہ ہے تو مجھے بتا دو۔اس پر وہ بولی:ہاں، بہت سنجیدہ مسئلہ ہے۔ امی ابو چاہتے تھے کہ میرا رشتہ ماموں کے بیٹے فرہاد سے ہو جائے، کیونکہ وہ امیر کبیر لوگ ہیں اور ماں اپنی اُس انجانی خواہش کی تکمیل کے لیے مجھے بہو بنا کر بھائی کو خوش دیکھنا چاہتی تھیں۔ لیکن ایسا ممکن نہ لگتا تھا، کیونکہ ممانی اپنی بھانجی کو بہو بنانا چاہتی تھیں، جس کی وجہ سے امی اکثر آزردہ رہتی تھیں۔ پھر اللہ نے ان کی سن لی، اور خود فرہاد نے اپنی ماں پر دباؤ ڈالا کہ اسے مجھ سے ہی شادی کرنی ہے۔ یوں مجبور ہو کر انہوں نے میرا رشتہ مانگ لیا، اور ہماری منگنی ہو گئی۔انیقہ نے بتایا تو میں نے حیرانی سے کہا:یہ تو خوشی کی بات ہے، پھر تمہیں اداسی کیوں ہے؟آگے سنو تو! وہ بولی۔دو سال منگنی رہی۔ میرے ایم اے مکمل ہونے کے بعد شادی کی تاریخ رکھی جانی تھی، لیکن اب اچانک ممانی نے پیغام بھجوا دیا کہ وہ منگنی ختم کر رہے ہیں۔واقعی یہ ایک سنجیدہ معاملہ تھا۔ انیقہ کا اداس ہونا فطری بات تھی۔ میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا:دکھ نہ کرو، ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہتری ہوتی ہے۔ یقینا تمہیں فرہاد سے محبت تھی، اسی لیے منگنی ٹوٹنا تکلیف دہ لگ رہا ہے؟نہیں، ایسی بات نہیں ہے۔ نہ مجھے فرہاد سے محبت تھی اور نہ نفرت۔ ہمارے درمیان محبت کا کوئی معاملہ تھا ہی نہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ میرے والد صاحب کینسر کے مریض ہیں اور ہم تین بہنیں ہیں۔ میں سب سے بڑی ہوں۔ ان کی شدید خواہش ہے کہ ان کی زندگی میں کم از کم دو بیٹیوں کی شادی ہو جائے، کیونکہ تیسری ابھی چھوٹی ہے۔ جب بڑی بہنیں بیاہ دی جائیں گی، تو اس کی شادی بھی آسان ہو جائے گی۔میں نے اسے سمجھایا:شادی کا ایک وقت مقرر ہے، جیسے موت کا ہوتا ہے۔ تم بس اچھے کی امید رکھو اور اداس مت رہو۔میں اپنے لیے نہیں، اپنے والدین کے لیے اداس ہوں، جنہیں میری منگنی ٹوٹنے کا دکھ جھیلنا پڑے گا۔ تبھی میں ٹرپ پر آنے کا ارادہ نہیں کر رہی تھی، مگر تمہارے خیال سے آ گئی کہ کہیں تم میرے بغیر تنہائی محسوس نہ کرو۔میں نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا:تم اس طرح اداس رہو گی، تو میں بھی انجوائے نہیں کر سکوں گی۔ دیکھو، اس ٹرپ میں شامل ہونے کو اپنے لیے نیک شگون سمجھو۔ یہ سیر تمہارے لیے نصیب کے دروازے کھولے گی۔ مجھے یقین ہے کہ سیف الملوک پر تمہیں کوئی ایسا ہم سفر ملے گا جو خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ نیک سیرت بھی ہوگا۔مذاق مت کرو! وہ اور بھی رنجیدہ ہو گئی۔میرے دکھ پر تم نے دیومالائی کہانی گھڑ لی ہے!میں مذاق نہیں کر رہی۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے تم اس ٹرپ میں اسی لیے جا رہی ہو کہ وہاں تمہیں اپنا ہمسفر ملنے والا ہے! میں نے پورے یقین سے کہا۔کیا میں کوئی لاٹری کا ٹکٹ لے کر جا رہی ہوں کہ وہاں قدم رکھتے ہی قسمت جاگ اٹھے گی؟ سعدیہ، تم کیسی دوست ہو؟ تمہیں تو غم خواری کرنا بھی نہیں آتی!میں واقعی شرمندہ ہو گئی کہ اس کے آنسو پونچھنے کی بجائے میں نے مذاق شروع کر دیا تھا۔ وہ بہت گہرے صدمے میں تھی۔ منگنی ٹوٹ جانا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی، خاص طور پر جب باپ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو۔ اس کی آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھ کر میرا دل بیٹھ سا گیا۔تب میں نے دل سے دعا کی:اے میرے رب! میری دوست کا دل شاد کر دے، اسے منگنی ٹوٹنے کے دکھ سے نجات دے، اور جب یہ ٹرپ سے لوٹے، تو اسے ایسا جیون ساتھی عطا کر، جو اسے چاہتا ہو اور یہ بھی اسے چاہتی ہو!اس کے بعد ہم راستے بھر خاموش رہیں۔ ہم دونوں بہت جذباتی ہو رہی تھیں۔ پتا نہیں یہ اداسی بھرا، لمبا سفر کیسے کٹے گا…جوں توں سفر تمام ہوا اور ہم جھیل سیف الملوک پہنچے، جس کے دیکھنے کی ہمیں بہت خواہش تھی، کیونکہ اس کے بارے میں سن رکھا تھا کہ یہاں پریاں آتی ہیں۔ پروفیسر صاحب نے کہا کہ جھیل تک پیدل جانا ہوگا۔ جاتے وقت میڈم ساتھ تھیں، انہوں نے سختی سے کہا: رکنا نہیں، بلکہ چلتے جانا ہے۔تھوڑی دور چلے تھے کہ مجھے پیروں میں درد محسوس ہوا۔ راستے میں ایک ہوٹل تھا، وہاں سے درد کش دوا کے بارے میں پوچھا۔ تب ہی وہاں بیٹھے ایک لڑکے نے اپنے دوست سے کہا:ان کا ابھی سے یہ حال ہے، آگے کیا ہوگا؟خیر، ہم چلتے رہے۔ انیقہ ابھی تک اپنے افسردہ خیالات میں گم تھی۔ پیروں میں درد محسوس کرنے کے باوجود میں اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہی تھی۔ چلتے چلتے ہم تھکنے لگے، تب ہی جھیل ہماری نظروں کے سامنے آ گئی۔ وہ منظر اتنا خوبصورت تھا کہ جی چاہتا تھا، اسے سدا کے لیے اپنی آنکھوں میں بسا لیں۔ہم سے آگے جو گروپ تھا، اس کے ساتھ پروفیسر صاحب تھے، جو کچھ طلبا کو کہانی سنا رہے تھے۔ وہ کہنے لگے:اب کہانی کے مطابق اپنی آنکھیں ایک پل کے لیے بند کر لو اور پھر کھول کر جھیل کے گہرے سفید پانی میں دیکھو گے، تو تمہیں وہاں ایک نہایت حسین لیکن اداس پری نظر آئے گی، کیونکہ جھیل میں اس کا ساتھی کھو جاتا ہے۔سب نے آنکھیں بند کر لیں، اور جب کھولیں تو اچانک وہاں انیقہ نظر آ گئی، کیونکہ اسی وقت ہم جھیل کنارے پہنچے تھے۔ سب کہنے لگے:لو بھئی، حسین پری آ گئی ہے!پروفیسر صاحب، جو وہاں کی کوئی مشہور لوک کہانی سنا رہے تھے، وہ بھی ہنس پڑے۔ ایک طالبہ نے مذاق میں کہا:یہ حسین پری نہیں، بھوت ہے!خیر، بات مذاق میں ختم ہو گئی۔ انیقہ آگے جانا چاہتی تھی، لیکن ہم نے اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا کہ ہم تھک گئے تھے۔
جب انسان تھک جائے تو سیر کا دل نہیں کرتا اور ہمت جواب دے جاتی ہے۔ تاہم، انیقہ نے پیدل چل کر اپنا غم غلط کرنا تھا۔ اس نے کسی طرح مجھے راضی کر لیا کہ تھوڑا اور آگے چلتے ہیں، جبکہ گارڈ بار بار سیٹی بجا رہا تھا کہ آگے نہیں جانا۔ بہرحال، ہم چند قدم چل کر واپس آ گئے۔انیقہ کے ساتھ میں، چند ہم جماعت لڑکیاں، اور ایک لڑکا مبین احمد تھا۔ خیر، آگے جا کر وہ انگلش ڈیپارٹمنٹ کے لڑکوں سے جا ملا۔ شاید اسے ہم طالبات کے ساتھ سیر کا مزہ نہیں آ رہا تھا۔ تاہم، اب انیقہ کی طبیعت کچھ ہشاش بشاش لگ رہی تھی۔ شاید صحت مند فضا کا اثر تھا کہ وہ خوش نظر آ رہی تھی اور بہت اچھی لگ رہی تھی۔ میں نے کہا:ایسے ہی ہنستی مسکراتی رہا کرو، خوشی تم پر سجتی ہے۔ دیکھو، کتنی خوبصورت لگ رہی ہو۔میرا یہ کہنا تھا، اور جیسے فوراً میری نظر لگ گئی ہو۔ پل بھر میں اسے ٹھوکر لگی اور وہ ڈگمگا کر گر گئی۔ پیر مڑ جانے سے شاید موچ آ گئی تھی۔ وہ وہیں زمین پر کچھ دیر بیٹھی رہی۔ میں نے سہارا دے کر اسے اٹھایا۔ وہ اب تیز نہیں چل سکتی تھی، یوں ہم گروپ سے کچھ پیچھے رہ گئے۔تب ہی قریب سے گزرنے والے ایک نوجوان نے پوچھا:کیا آپ تکلیف میں ہیں؟ کیا آپ کو چلنے میں دشواری ہو رہی ہے؟شاید اس نے انیقہ کو گرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ انیقہ نے اس کے سوال کا جواب نہ دیا، بلکہ منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ تب اس نوجوان نے اپنے بیگ سے ایک ڈبیا نکال کر میری طرف بڑھائی اور کہا:یہ ان کے پیر پر لگا دیں، شاید موچ آ گئی ہے۔ درد بھی کم ہو جائے گا۔میں نے اس کے رویے سے اندازہ لگایا کہ یہ ڈاکٹر ہے۔ بہرحال، اس خیال سے ڈبیا اس کے ہاتھ سے لے لی کہ اگر انیقہ کو زیادہ درد ہوا تو مزید پیدل کیسے چلے گی۔ ہم پہلے ہی گروپ سے کافی پیچھے رہ گئے تھے، تب ہی اسے پیاس لگی۔ سامنے ایک جھونپڑی میں ایک عورت کھڑی تھی۔ ہم نے پانی مانگا، اس عورت نے پانی لا کر دیا، تو میں نے انیقہ کو پین کلر دی اور اس دوران عورت سے باتیں کرنے لگی۔عورت کے بچے ہمارے گرد اکٹھے ہو گئے اور کھال بجا کر بھنگڑا ڈالنے لگے۔ میں سمجھ گئی کہ یہ خرچی مانگ رہے ہیں۔ میں نے بیگ سے کچھ بسکٹ اور تھوڑے سے پیسے نکال کر ان کو دیے۔ وہ خوش ہو گئے۔ ان کے معصوم چہروں پر خوشی دیکھ کر ہمیں بھی بہت خوشی ہوئی۔ہمارا گروپ کافی آگے نکل گیا تو پروفیسر صاحب نے سب سے کہا کہ ٹھہر کر ہمارے آنے کا انتظار کریں۔ اس طرح لڑکے اور لڑکیاں ٹھہر کر ہمارا انتظار کرنے لگے۔ ہم ابھی آہستہ آہستہ چلتی ہوئی آ رہی تھیں کہ راستے میں وہی نوجوان پھر مل گیا، جس نے دوا کی ڈبیا دی تھی۔ اس نے رک کر پوچھا، کیا آپ تھک گئی ہیںیہ ایک مشفقانہ سوال تھا۔ انیقہ نے اس کیخوبصورت جانب دیکھا، تو بے دھیانی میں ایک بار پھر اس کا پیر چھوٹے سے پتھر پر پڑ گیا۔ وہ گرنے کو تھی کہ میں نے اسے تھام لیا۔ تب ہی اس لڑکے نے کہا، آپ سے چلا نہیں جا رہا، کیا آپ تھک گئی ہیںوہ چپ رہی، تو میں نے اس سے پوچھا، کیا ہم ٹھیک راستے پر جا رہے ہیںوہ بولا، ہاںہم دریائے کنہار کے پل کے پاس تھے کہ اس نے کہا، تھوڑی دیر بیٹھ جائیے نہیں، آگے سب انتظار کر رہے ہیں، ہم یہاں نہیں رک سکتے۔ میں نے جواب دیا -یہ تھک گئی ہیں، اس لیے میں نے رکنے کو کہا ہے۔ اس نے انیقہ کی طرف اشارہ کیا -خیر، آپ کی مرضی۔ ویسے آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں-میں نے جواب میں اپنی یونیورسٹی کا نام بتا دیا۔ تب اس نے انیقہ سے پوچھا، آپ وہاں کس علاقے میں رہتی ہیں -جواب مجھے ہی دینا پڑا –
یونیورسٹی میں، کیونکہ ان کے بھائی وہاں ملازم ہیں۔ میں نے انیقہ کی طرف اشارہ کیا- اب چلو، دیر ہو رہی ہے، سب ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے۔ جلدی چلو۔ میں نے کہا تو اس شخص نے انیقہ کا نام بھی سن لیا – تھوڑا آگے جا کر میں نے مڑ کر دیکھا، تو وہ انیقہ کے چلنے کے انداز سے کچھ متفکر نظر آیا۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ تب ہی میں نے سوچا، ہو نہ ہو یہ کوئی ڈاکٹر ہی ہے ناران روڈ پر آنے سے پہلے ایک انکل ملے، جو جیپ میں تھے اور فیملی کے ساتھ تھے۔ انہوں نے پوچھا، آپ پیدل آ رہی ہیں جی، میں نے جواب دیاکیا آپ آئے بھی پیدل تھیں جی ہاں انکل، ہم پیدل ہی آئے تھے وہ حیران ہوئے اور بولے، اگر آپ چاہیں تو جیپ پر ہم آپ کو آگے چھوڑ دیتے ہیں- ہم نے شکریہ کہہ کر انکار کر دیا، کیونکہ سامنے روڈ کے کنارے ہمارے پروفیسر، میڈم شائستہ اور سب ہم جماعت ہمارے انتظار میں کھڑے تھے۔ اپنے ہوٹل پہنچ کر آرام کرنے کے لیے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئےانیقہ اب اداس نہیں تھی، لیکن اب بھی خاموش تھی۔ اگلے دن جب ہم لالہ زار پہنچے، تو اس کی نظریں کسی کو تلاش کر رہی تھیں۔ سب تصویریں بنا رہے تھے، وہ بھی تصویریں بنانے لگی۔ پھر اچانک ہی وہ ٹھٹھک اٹھی۔ اپنے کیمرے سے جس منظر کی وہ تصویر لے رہی تھی، اس میں اچانک دو لڑکے آ گئے تھےان میں ایک وہی نوجوان تھا، جس نے انیقہ کے لیے درد کی دوا دی تھی۔ جب اس نے ہمیں دیکھا، تو وہ بھی کھل اٹھا اور ہمارے پاس آ کر بولا، آپ لوگوں نے ہماری تصویریں بنائی ہیں۔ اب یہ تصویر ہمیں بھیجئے گا اس نے اپنا نام اور پتہ لکھ کر ہمیں دے دیا اور ہم لالہ زار کی طرف روانہ ہو گئے- جیپ پر راستہ خطرناک تھا، مگر ہم جلد پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر انیقہ کی خوشی دو چند ہو گئی، کیونکہ تھوڑی دیر بعد دوسری جیپ پر وہ دونوں نوجوان بھی وہاں آ گئے تھے۔ اب انہوں نے کیمرہ نکالا اور تصویریں بنانے لگے -انیقہ سمجھ گئی کہ پاس سے گزرتے وقت یہ تصویریں لیں گے، تو اس نے منہ دوسری طرف کر لیا۔ واپسی میں پھر سے وہ اداس لگی، لیکن اب اداسی کی وجہ اور تھی۔ وہ لالہ زار سے واپس جانا نہیں چاہتی تھی۔ ہمارے ہوٹل کے ساتھ دریائے کنہار گزرتا تھا۔ پہلے سب لوگ وہاں گئے، پھر بازار۔ لڑکیوں نے شالیں اور کچھ خشک میوہ جات لیے۔ جب واپس ہوٹل آئے تو حیرت ہوئی کہ وہی نوجوان اور اس کا دوست سامنے کھڑے تھے۔ وہ چائے پی رہے تھے۔ لگتا تھا کہ وہ بھی اسی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ہم اوپر اپنے کمرے میں آ گئیں۔ انیقہ کھڑکی سے نیچے دیکھنے لگی۔ نہ جانے کیوں وہ اسے دیکھنا چاہتی تھی۔تب ہی میں نے پرس سے نوجوان کا دیا ہوا پتہ اور فون نمبر نکال کر دیکھا۔ اس کا نام منصور اور دوست کا نام شہباز لکھا ہوا تھا۔ اس کے بعد ہم واپسی کے لیے تیار ہونے لگے۔ واپسی پر وہ پھر اداس تھی۔ میں اسے سمجھا رہی تھی کہ اس طرح تفریح کو برباد نہ کرو اور ایک پل کے لیے ملنے والے اجنبی کی یاد کو روگ بنا کر نہ چلو، اس طرح بھلا کیسے گزرے گی؟ہم آزاد کشمیر گئے، پھر وہاں سے مری، لیکن وہ تمام وقت افسردہ ہی رہی۔ میں اس کے اس موڈ سے سخت بور ہوئی۔ جب ہم مانسہرہ پہنچے، تو میں نے اس سے شکوہ کیا کہ مجھ بے چاری کا کیا قصور؟ آخر میں کہاں جاؤں؟ اس پر وہ بہت روئی، اور اب بجائے اس کی اشک شوئی کے، میں نے اسے بہت ڈانٹا کہ پاگل مت بنو! سفر میں لوگ چند لمحوں کے لیے ہی ملتے ہیں۔آخر میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟ میں نے اسے تسلی دی کہ یہ وقتی بات ہے، محض اتفاق ہے۔ دو چار روز میں یہ کیفیت دور ہو جائے گی۔ منصور اور شہباز کی تصویریں بہت اچھی آئی تھیں۔ وہ منصور کی تصویر کو دن میں کئی کئی بار دیکھتی۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ آخر اس پگلی کو کیا ہوا ہے؟ خدا جانے اس کی منگنی کس وجہ سے ٹوٹی، مگر اب تو وہ کہتی تھی کہ مجھے منگنی کے ٹوٹنے کا ذرا بھی ملال نہیں رہا۔ وہ اب کسی اور کے خیال میں کھوئی رہنے لگی تھی۔منصور نے اپنا پتہ لکھ کر مجھے دیا تھا۔ میں نے انیقہ سے تصویریں لے کر اس کے پتے پر پوسٹ کر دیں اور اپنا فون نمبر بھی لکھ دیا کہ اگر تصویریں مل جائیں، تو فون پر بتا دینا۔
دو دن بعد اس کا فون آیا کہ تصویریں مل گئی ہیں، اور یہ بھی بتایا کہ اس نے اپنے والدین سے انیقہ کے بارے میں ذکر کیا ہے۔ وہ اس کی پسند پر راضی ہیں، لیکن وہ اس کے گھر والوں تک رسائی کیسے حاصل کریں؟تب منصور نے منت کی، پلیز، میری مدد کرو۔یہ انیقہ کے لیے ایک بہت بڑی خوشخبری تھی۔ بہرحال، میں نے منصور کی گفتگو کے بارے میں اسے کچھ نہ بتایا، لیکن منصور کو انیقہ کے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔ ایک ہفتے کے اندر اندر منصور اپنے والدین کے ہمراہ آ گیا۔ پہلے یہ لوگ ہمارے گھر آئے، امی نے منصور اور اس کے والدین کو پسند کیا، پھر یہ لوگ رشتہ لے کر میری امی کے ہمراہ انیقہ کے گھر گئے۔ اس کے گھر والوں کو بھی یہ لوگ پسند آ گئے۔جب رب کسی پر مہربان ہو اور کسی کو ملانا چاہے، تو یوں بھی ملا دیتا ہے۔ انیقہ دل سے دکھی تھی، اس کے والدین منگنی ٹوٹ جانے سے دکھی تھے، منصور کی لگن سچی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خاموش دعاؤں کو قبول کر لیا، ان کی مراد بر آئی اور انیقہ کی شادی منصور سے ہو گئی۔آج وہ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں۔ انیقہ کہتی ہے، میں سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ اس ٹرپ میں مجھے جیون ساتھی مل جائے گا، ہم ایک دوسرے کو پسند بھی کر لیں گے، اور اتنی خوشیوں بھری زندگی گزاریں گے۔اور میں کہتی ہوں کہ اپنی دوست کو سفر میں افسردہ دیکھ کر میں نے بھی تو دل سے اس کے لیے دعا کی تھی، اور وہ دعا اس کے والدین کی دعاؤں کے ساتھ مل گئی، تب ہی میری دوست نے اپنے جیون کی سچی خوشی کو پا لیا۔ بہرحال، یہ سب مقدر کے کھیل ہوتے ہیں، ورنہ یوں ملنے والے جب ایک بار بچھڑ جاتے ہیں، تو پھر کبھی نہیں ملتے۔