ایک پہلوان ( مردِ شاہ زور) کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ گردش زمانہ سے سخت پریشان ہو گیا تھا۔ خرچ زیادہ اور آمدنی کم تھی۔ مفلسی اور تلاشی کے ہاتھوں عاجز ہو کر باپ کے پاس گیا اور شکایت زمانہ کرتے ہوئے اس سے سفر پر جانے کی اجازت چاہی، تا کہ اپنی قوت بازو سے کام لے کر گوہر مقصود حاصل کر سکے۔ (یعنی اپنی تنگ دستی کو آسودہ حالی میں بدل سکے)۔ باپ نے کہا کہ اے بیٹے ! یہ فضول خیال سر سے نکال دے اور سلامتی کے لیے قناعت کر کے گھر میں بیٹھ ۔ کیوں کہ داناؤں کا قول ہے کہ دولت کوشش سے نہیں ملتی۔ بیٹے نے کہا: ابا جان ! سفر کے بہت سے فائدے ہیں۔ مثلاً تفریح طبع، مختلف ملکوں کی سیر ، عجیب و غریب چیزوں کا دیکھنا اور سننا، مرتبہ اور ادب کا حاصل کرنا، منافع کمانے اور دولت میں اضافہ کرنے کے ذرائع میسر آنا، دوستوں کی ملاقات، قسم قسم کے لوگوں سے واقفیت اور زمانے کے نشیب و فراز کا تجربہ وغیرہ۔ باپ نے کہا کہ جان پدر! سفر کے فوائد جیسا کہ تو نے بیان کیے ، بے شمار ہیں لیکن یہ صرف پانچ قسم کے لوگ ہی یقینی طور پر حاصل کر سکتے ہیں۔
اول وہ سود اگر جس کو خدا نے دولت، حشمت، غلام کنیزیں اور مستعد خدام دے رکھے ہیں۔ ہر روز ایک نئے شہر میں جاتا ہے اور ہر رات ایک نئی جگہ مقیم ہوتا ہے اور ہر وقت دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔
دوسرا وہ عالم کہ اپنے کلام شیریں، قوت فصاحت اور مایہ بلاغت کے ساتھ جہاں کہیں جاتا ہے۔ لوگ اس کی خدمت میں حاضر ہوتے اور تعظیم کرتے ہیں۔
تیسرا وہ خوب رو کہ صاحب دل لوگ اس سے ملنے کی خواہش کریں۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ تھوڑا سا حسن و جمال بہت سے زر و مال سے بہتر ہے اور کہتے ہیں کہ خوب صورت چہرہ زخمی دلوں کا مرہم ہے اور بند دروازوں کی کنجی ہے۔ بلا شبہ اس کی صحبت کو لوگ سب جگہ غنیمت سمجھتے ہیں۔
چو تھا وہ خوش آواز کہ اپنے داؤدی گلے سے بہتے پانی کو روک دیتا ہے اور پرندوں کو اڑنے سے باز رکھتا ہے۔ اپنی اس خداداد فضیلت سے وہ مشتاقوں کے دل شکار کرتا ہے اور باشعور لوگ اس کی صحبت میں بیٹھنے کی خواہش کرتے ہیں اور ہر طرح سے اس کی خدمت بجالاتے ہیں۔
پانچواں وہ صاحب ہنر جو اپنی قوت بازو سے روزی حاصل کرتا ہے۔ اور روٹی کے ایک لقمہ کے لیے اپنی عزت و آبرو کا سودا نہیں کرتا۔
اے بیٹے ! یہ صفات جو میں نے بیان کیں، سفر میں دل جمعی اور حسن گزران کا باعث بنتی ہیں، جو شخص ان صفات سے محروم ہے وہ محض خوش فہمی میں مبتلا ہو کر سفر کرتا ہے اور کوئی دوسرا اس کا نام و نشان بھی نہیں سنتا ہے۔ بیٹے نے کہا کہ ابا جان! میں داناؤں کے قول کی مخالفت کیسے کروں جو کہہ گئے ہیں کہ رزق اگرچہ قسمت میں لکھا ہوتا ہے لیکن اس کے حاصل کرنے کے لیے تگ و دو ضروری ہے اور مصیبت بھی اگر چہ قسمت میں لکھی ہوتی ہے، لیکن اس کو جان بوجھ کر دعوت دینے سے پر ہیز کرنا واجب ہے۔ میری کیفیت یہ ہے کہ مست ہاتھی پر حملہ کر سکتا ہوں اور غضب ناک شیر سے پنجہ آزمائی کر سکتا ہوں۔ پس اے پدر بزرگوار! بہتر یہی ہے کہ میں سفر کروں کیونکہ مفلسی کے مصائب جھیلنا میری طاقت سے باہر ہے۔
یہ کہہ کر باپ سے دعا کی درخواست کی اور چل پڑا۔ چلتے چلتے ایک تندو تیز دریا کے کنارے پر پہنچا وہاں دیکھا کہ کچھ آدمی سامانِ سفر باندھے ایک کشتی پر بیٹھے ہیں۔ ملاح نے ان سے دریا عبور کرانے کی اجرت پہلے ہی لے لی تھی۔ اس نوجوان کے پہلے پیسہ تو تھا نہیں ملاح کی خوشامد کرنے لگا کہ وہ اسے بغیر اُجرت لیے کشتی میں بٹھا لے۔ ملاح نے اس کی خوشامد کا جواب خندہ استہزاء سے دیا اور کہا کہ روپے کے بغیر زور بے فائدہ ہے۔ دس آدمیوں کے زور کی بجائے ایک آدمی کا کرایہ نکال۔ کشتی میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے بھی اس کی خوشامد اور رونے پیٹنے پر مطلق رحم نہ کھایا۔ اور کشتی چل پڑی۔ نوجوان کو سخت غصہ آیا اور اس نے ملاح سے بدلہ لینے کی ٹھانی۔ پکار کر کہا اگر میرے جسم کے کپڑے کرایہ کے عوض تو قبول کرلے تو پیش کر سکتا ہوں۔ ملاح لالچ میں آکر کشتی کو واپس کنارے پر لے آیا۔ نوجوان نے اس کو کشتی سے کھینچ لیا اور پیٹنا شروع کر دیا ملاح کا دوست اس کی مدد کے لیے کشتی سے باہر آیا۔ لیکن اس کا بھی وہی حال ہوا، ناچار انہوں نے مصلحت اس میں دیکھی کہ اس شہ زور نوجوان سے صلح کر لیں اور اسے بلا اُجرت دریا کے پارلے جائیں۔ چنانچہ اس کے پاؤں پر گر پڑے اور منت سماجت کر کے کشتی پر بٹھا لیا۔ دریا میں ایک جگہ یونان کی کسی شکستہ عمارت کا ایک ستون کھڑا تھا۔ کشتی اس کے قریب پہنچی تو ملاح نے کہا کہ کشتی میں ایک خرابی پیدا ہو گئی ہے۔ تم میں سے کوئی ایسا آدمی جو بہت طاقت ور ہو اس ستون پر چڑھ جائے اور کشتی کی رسی کو پکڑ کر اس کو روک رکھے تاکہ اس دوران میں ہم اس کی مرمت کر لیں۔ پہلوان کو اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ تھا۔ اس نے آزردہ دل دشمن کا خیال نہ کیا۔ اور داناؤں کے اس قول کو فراموش کر دیا کہ جس کو تو نے ایک دلی رنج پہنچایا اس کے بعد اگر تو اس کو سو آرام پہنچائے تو اس ایک رنجش سے بے خوف مت رہ کیوں کہ تیر زخم سے باہر نکل جاتا ہے اور اس کا درد دل میں باقی رہ جاتا ہے۔ چنانچہ وہ کشتی کی رسی اپنے بازو پر لپیٹ کر اس ستون پر چڑھ گیا۔ ملاح نے رسی اس کے ہاتھ سے چھڑالی (کاٹ دی) اور کشتی چلادی۔ پہلوان بے چارہ حیران رہ گیا۔ دو دن سخت مصیبت اٹھائی، تیسرے دن نیند نے غلبہ کیا اور اسے پانی میں گرادیا۔ ایک رات اور ایک دن ہاتھ پاؤں مارنے کے بعد بہزار وقت کنارے پر پہنچا۔ زندگی کی کچھ رمق باقی تھی درختوں کے پتے اور گھاس توڑ کر کھانے لگا یہاں تک کہ جسم میں کچھ قوت آئی اور وہاں سے آگے روانہ ہوا۔ راستے میں شدید پیاس محسوس ہوئی۔ اتفاق سے ایک کنوئیں پر پہنچا جس کے گرد کچھ لوگ جمع تھے۔ وہ لوگ پیسہ دے کر تھوڑا سا پانی پلاتے تھے۔ نوجوان کے پاس پیسہ تو تھا نہیں، اپنی بیکسی اور بے مائیگی کا اظہار کر کے پانی طلب کیا لیکن کسی نے اس پر رحم نہ کھایا۔ اس نے تنگ آکر پانی فروخت کرنے والوں میں سے ایک دو کو زد و کوب کیا۔ یہ دیکھ کر بہت سے آدمی اس کو لپٹ گئے اور خوب پیٹا یہاں تک کہ زخمی ہو گیا۔ ناچار ایک قافلے کے پیچھے ہولیا۔ رات کو قافلہ ایک ایسے مقام پر پہنچا جہاں چوروں کا زبردست خطرہ تھا۔ نوجوان نے دیکھا کہ قافلے والے خوف کے مارے کانپ رہے ہیں اور موت کو سامنے دیکھ رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ فکر نہ کرو، میں تنہا پچاس آدمیوں کا مقابلہ کر سکتا ہوں۔ یہ سن کر اہل قافلہ کی جان میں جان آئی اور ان کے حوصلے بڑھ گئے۔ انہوں نے اس نوجوان کو خوب کھلایا پلایا۔ اس کے قل ہو اللہ پڑھتے ہوئے معدہ نے بھوک اور پیاس سے نجات پائی تو لمبی تان کر سو رہا۔ ان لوگوں میں ایک جہاندیدہ بوڑھا بھی تھا۔ اس نے کہا: اے میرے ساتھیو! مجھے چوروں سے اتنا خطرہ نہیں جتنا تمہارے رہبر ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک غریب کے پاس تھوڑے سے درہم جمع ہو گئے تھے۔ اس کو چوروں کے ڈر سے گھر میں اکیلے نیند نہ آتی تھی، اپنے دوستوں میں سے ایک کو اپنے گھر میں بلا لیا تاکہ رات مل کر گزاریں۔ ایک اور ایک گیارہ۔ چند راتوں میں اس دوست کو اس غریب کے درہموں کا پتہ چل گیا۔ اور ایک دن وہ انہیں لے کر نو دو گیارہ ہو گیا۔ لوگوں نے صبح کو اس غریب کو روتے پیٹتے دیکھا تو پوچھا کہ شاید تیرے درہم چور لے گئے۔ کہنے لگا: نہیں خدا کی قسم میرا ر ہبر (دوست) لے گیا۔ تم کیا جانو کہ یہ ( پہلوان) بھی انہی چوروں میں سے ہو جو مکرو فریب سے ہم میں آدھمکا ہے، تاکہ موقع پاکر اپنے دوسرے ساتھیوں کو خبر کر دے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ اسے یہیں سوتا چھوڑ دیں اور ہم چلتے بنیں۔ اہل قافلہ کو مشورہ پسند آیا اور وہ سامان سفر باندھ کر وہاں سے چل دئے ، جب کافی دن چڑھ گیا تو پہلوان بیدار ہوا۔ ارد گرد دیکھا تو ہو کا عالم تھا اور قافلہ کا کہیں نام و نشان بھی نہ تھا سر پیٹ کر رہ گیا۔ بے چارہ ادھر اُدھر بہت گھوما لیکن قافلے کا پتہ نہ چلا۔ آخر بھوک پیاس سے نڈھال ہو کر ایک جگہ گر پڑا اور موت کا انتظار کرنے لگا۔
اتفاق سے ایک شہزادہ جو شکار کھیلتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے جدا ہو گیا تھا۔ ادھر آنکلا، اس نے اس کی پاکیزہ صورت دیکھی تو ٹھٹک کر اس کے سرہانے کھڑا ہو گیا اور پریشان حالی کا سبب پوچھا۔ نوجوان نے جو کچھ اس پر بیتی تھی کہہ سنائی۔ شہزادے کو اس کی تباہ حالی پر رحم آگیا۔ اس نے اسے خلعت اور انعام سے نوازا۔ پھر ایک بھروسہ کا آدمی اس کے ساتھ کر دیا، یہاں تک کہ وہ اپنے شہر میں پہنچ گیا۔ باپ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اس کے زندہ سلامت واپس آجانے پر خدا کا شکر ادا کیا۔ پہلوان نے رات کو جو اس پر بیتی تھی، کشتی کے حالات ، ملاح کا ظلم، کنوئیں پر دیہاتیوں کی زیادتی اور قافلے والوں کی بیوفائی غرض سب کے سب تمام حالات باپ کو سنائے۔ باپ نے کہا: اے بیٹے ! کیا میں نے تجھ سے چلتے وقت نہیں کہا تھا کہ مفلسوں کی دلیری کے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں اور ان کی شجاعت کا پنجہ ٹوٹا ہو تا ہے ؟ لڑکے نے کہا: ”لبا جان! یقیناً جب تک آپ تکلیف نہیں اٹھائیں گے خزانہ نہیں پائیں گے۔ جب تک جان کو خطرے میں نہیں ڈالیں گے دشمن پر فتح حاصل نہیں کریں گے۔ جب تک دانہ نہیں بوئیں گے خرمن نہیں اٹھائیں گے۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ تھوڑی سی تکلیف اٹھانے کے بعد مجھے کس قدر راحت نصیب ہوئی ہے۔ اور ایک ڈنک کھا کر شہد کا کس قدر ذخیرہ میں اپنے ساتھ لایا ہوں۔ غوطہ خور اگر مگر مچھ کے منہ سے خوف کر لے تو کبھی قیمتی موتی حاصل نہ کر سکے گا۔ باپ نے بیٹے سے کہا کہ اس مرتبہ آسمان نے تیری مدد کی اور اقبال نے رہبری، کہ ایک دولت مند تیرے پاس آگیا اور انعام واکرام سے تجھے نوازا۔ لیکن ایسا اتفاق شاذ و نادر ہوتا ہے اور اتفاقی باتوں پر تکیہ نہیں کرنا چاہیے۔
کہتے ہیں کہ فارس کے بادشاہ کے پاس ایک انگوٹھی تھی جس میں ایک نگینہ جڑا ہوا تھا۔ ایک مرتبہ بادشاہ چند مصاحبوں کے ساتھ شیراز کی عید گاہ میں سیر کرنے گیا۔ وہاں جا کر حکم دیا کہ انگوٹھی کو مرحوم شاه عضد الدین کے مقبرے کے گنبد پر قائم کیا جائے اور لوگ اس پر تیر اندازی کریں۔ جس شخص کا تیر انگوٹھی کے حلقے سے گزر جائے گا، انگوٹھی اس کو دی جائے گی۔ اس وقت بادشاہ کے ساتھ چار سو ماہر تیر انداز تھے۔ ان سب نے انگوٹھی پر تیر چلائے لیکن سب کا نشانہ خطا ہوا۔ ایک چھوٹا سا بچہ ایک نواحی مکان کی چھت پر تیر اندازی کا کھیل کھیل رہا تھا۔ اتفاق سے اس کا تیر انگوٹھی کے حلقے سے گزر گیا۔ بادشاہ نے اس بچے کو خلعت اور انعام دیا اور حسب وعدہ انگوٹھی بھی اسے دے دی۔ اس بچے نے انعام لے کر تیر و کمان جلا دیئے۔ لوگوں نے کہا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ بولا : اس لیے کہ میرا بھرم بنار ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ روشن دماغ دانا سے تدبیر نہیں ہوتی اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نادان بچہ غلطی سے نشانہ پر تیر مار دیتا ہے۔