جس علاقے میں ہم رہتے تھے، قبرستان وہاں سے نزدیک تھا۔ جہاں ایک پیاری ہستی کی آخری آرام گاہ تھی اور ہم وقتاً فوقتاً فاتحہ پڑھنے جایا کرتے تھے، اور وہ تھیں ہماری نانی اماں۔ دراصل شروع سے ہی وہ ہمارے پاس رہتی تھیں، ان کا کوئی بیٹا نہ تھا۔ میری والدہ ان کی اکلوتی اولاد تھیں۔
یوں ہوش سنبھالتے ہی ہم نے نانی جان کا شفیق ساتھ پایا۔ والدہ سے زیادہ ان سے لگاؤ تھا۔ ایک روز اچانک جب دل کا جان لیوا دورہ پڑا، ان کا انتقال ہو گیا اور وہ منوں مٹی تلے جا سوئیں۔ تو ہم سب صدمے سے نیم جاں ہو گئے۔ یہ سچ ہے کہ انسان اپنے پیاروں کی جدائی کا درد بھلانے کے لیے کئی تدبیریں کرتا ہے۔ ہم بھی ان کی یاد کے زخم پر مرہم رکھنے کو اکثر کشاں کشاں قبرستان چلے جاتے اور ان کی قبر کے پاس کچھ دیر بیٹھ کر سکون محسوس کرتے، فاتحہ پڑھتے۔
اس روز میں اور امی حسب معمول جمعرات کو وہاں فاتحہ پڑھنے گئے تھے کہ قریب بیٹھی ایک ضعیف خاتون نے ہمیں متوجہ کر لیا۔ امی کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میری بیٹی کا چند ماہ قبل انتقال ہو گیا ہے اور میری گود میں اس کا بچہ ہے۔
میری والدہ بڑی رحم دل خاتون تھیں۔ انہوں نے اس ضعیفہ سے کہا، اماں! ہمارا گھر یہاں سے بہت قریب ہے، ابھی ہمارے گھر چلئے۔ آپ کی طبیعت مجھے ٹھیک نہیں لگتی۔ والدہ نے ان کو سہارا دے کر اٹھایا اور اپنے ساتھ گھر لے آئیں۔ اس بوڑھی عورت کی گود میں خوبصورت سا گول مٹول بچہ مجھے لبھانے لگا۔ میں نے شوق سے اس کو اٹھا لیا کیونکہ مجھے چھوٹے بچے بہت اچھے لگتے تھے۔
امی نے بڑی بی کو پانی پلایا اور پھر کھانے کو دیا، ان کو دلاسا دیا۔ ضعیف عورت بے چاری حالات سے بوکھلائی ہوئی تھی۔ اس کی سب سے بڑی پریشانی یہ بچہ تھا۔ امی جان کی محبت اور توجہ پا کر اس عورت نے چند دن ہمارے یہاں قیام کرنے کی خواہش کی۔ امی نے خوشی سے ان کو اپنے گھر ٹھہرالیا۔
انسان مایوس ہوتا ہے مگر خدا کی حکمتیں نہیں سمجھ سکتا۔ اللہ تعالیٰ بے آسرا لوگوں کے ٹھکانے خود بنادیتا ہے۔ تین دن یہ عورت ہمارے پاس رہی اور چوتھے دن صبح جب میری والدہ نے اس کو ناشتہ کے لیے جگایا تو وہ مالک حقیقی کے پاس جاچکی تھی۔ امی نے بچے کو گود میں اٹھا لیا۔ جانے والی کو شاید خالق نے صحیح جگہ پہنچایا تھا تاکہ اس بچے کی ذمہ داری ہم لے لیں۔ جانے والی تو چلی گئی مگر جانے سے ایک روز قبل اس نے جو کہانی ہم کو سنائی تھی، وہ ایسی ناقابل فراموش ہے کہ جو سنتا ہے، انگشت بہ دنداں رہ جاتا ہے۔
اس ضعیف خاتون کا نام رحمت بی بی تھا اور یہ نواب حشمت خان کی پرانی ملازمہ تھی۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، حشمت خان ایک نواب گھرانے کا چشم و چراغ تھا۔ ضدی اور خود سر بھی تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں اپنے ساتھ پڑھنے والی ایک لڑکی زرنگار سے اس کو محبت ہو گئی۔ یہ لڑکی ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ حشمت کے گھر والے کسی صورت زرنگار کو بہو بنانے پر راضی نہ تھے کیونکہ وہ آزاد روش لڑکیوں کو اچھے نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ تاہم حشمت کی ضد نے اسے گھر والوں سے بغاوت پر آمادہ کر لیا اور اس نے نگار سے اپنی مرضی کی شادی کر لی۔ اس شادی میں اس کے گھر والوں نے شرکت نہ کی اور وہ بیوی کو لے کر ایک علیحدہ کوٹھی میں منتقل ہوگیا۔
زرنگار ایک شوخ نظر عورت تھی جس کو گھر گرہستی سے قطعی دلچسپی نہ تھی۔ وہ پارٹیوں کی دلدادہ تھی اور محفلوں میں ہر کسی کی مرکز نگاہ رہنا پسند کرتی تھی۔ کلب اور پارٹیوں میں ہلا گلا کرنے میں اسے مزہ آتا تھا۔ گھر کی چار دیواری کو وہ زنداں اور گھر کو بوریت کا ٹھکانہ سمجھتی تھی۔
اس کے برعکس، حشمت وضع دار خاندان کا پروردہ فرد تھا۔ تبھی بنیادی طور پر مشرقی روایات پسند ذہنیت کا حامل تھا۔ چند دن ہی بیوی کی آزاد خیالی کا ساتھ دے سکا اور اندر اندر کڑھنے لگا۔ زرنگار کو منع کرتا تو قہقہے لگانے لگتی۔ کہتی، تعلیم یافتہ ہو کر بھی ایسی سوچ رکھتے ہو، تعجب ہے۔ اپنی یہ تنگ نظری چھوڑو، ورنہ تمہارا ہمارا ساتھ نہیں رہ سکے گا۔ اس طرح نبھاؤ نہیں ہو سکتا۔
حشمت ان لوگوں میں سے تھا جو اپنی فطرت کے خلاف زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ ادھر نگار بھی اسی قبیل کی خاتون تھی۔ پس اس کا غیر مردوں کے ساتھ آزادانہ ملنا جلنا حشمت کو کھلنے لگا۔ وہ اپنے اندر کے مرد سے ہمہ وقت جنگ و جدل میں مصروف رہنے لگا۔ اس کی بیوی کے پاس جب چاہے کوئی مرد دوست سامنے آ سکتا تھا۔ ان دوستوں کا گھر میں آنا جانا اور پارٹیاں چلتی رہتی تھیں۔ حشمت کو یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ حکمرانی نگار کی ہے جیسے کہ وہ عورت ہو اور نگار مرد۔ وہ شدید ذہنی خلفشار کا شکار ہو گیا۔ ہر وقت بیوی سے اس کی ان بن رہنے لگی۔
انہی دنوں ان کی پہلوٹی کی اولاد نے جنم لیا۔ بیٹی کا نام نگار نے گل نایاب رکھا۔ چند دن بعد ہی وہ ننھی بچی کو آیا کے حوالے کر کے پھر سے اپنے مشاغل میں گم ہو گئی۔ بیٹی کی کلکاریاں بھی اس کے پیروں کی زنجیر نہ بن سکیں۔ وہ اس معصوم کو سینے سے لگا کر سونے کی بجائے آدھی رات تک کلب پارٹیوں میں مصروف رہتی۔
بیٹی سے حشمت خان کو بہت محبت تھی۔ جوں جوں بچی بڑی ہوتی گئی، ماں کے پیار اور توجہ کو ترسنے لگی۔ وہ ماں کی بے حد کمی محسوس کرتی۔ لاکھ رحمت بی بی اس کو پیار کرتی مگر آیا تو ماں کی جگہ نہیں لے سکتی۔ آیا سے اس کی صحیح نگہداشت نہ ہو پا رہی تھی۔ نایاب بیمار رہنے لگی تھی۔ بچی نگار کے پاؤں کی زنجیر بن گئی تھی۔ اس کی آزادی کی راہ میں رخنہ ثابت ہوئی۔ بیٹی کی خاطر حشمت نے بیوی کو گھر میں پابند کرنا چاہا تو اس نے طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ تب نواب زادہ حشمت نے عزت اسی میں سمجھی کہ خاموشی سے بیوی کو آزاد کر دے۔
نایاب ان دنوں ایک سال کی تھی جب یہ پہلا ظلم ہوا جو سگی ماں نے اس معصوم پر توڑا۔ حشمت خاندانی آدمی تھا۔ اس واقعے نے اس کے دل اور ذہن پر بہت برا اثر ڈالا۔ اب سارا خاندان اس پر افسوس کرتا کہ اپنی پسند کا دیکھ لیا نتیجہ۔ تبھی تو ہم مثال دیتے تھے کہ شادی اس سے کرنا جو خاندانی ہو، چاہے وہ ہو کانی… اس مثال کا یہ مطلب تھا کہ بے شک کوئی عورت شکل و صورت میں خوبصورت ہو، لیکن اگر وہ شریف خاندان سے ہے تو اس کی صورت کو نہ دیکھو بلکہ یہ دیکھو کہ وہ خاندانی ہے یا نہیں۔
کچھ رشتہ دار تو تمسخر کرتے کہ پسند کی شادی کر کے کیا پایا، بیوی تو کسی اور کے ساتھ چلی گئی۔ ایسی باتیں کانوں میں پڑتیں تو حشمت کا دل چاہتا کہ خود کشی کر لے، مگر معصوم بچی کا خیال آ جاتا تھا۔ حشمت کے سامنے اب سب سے بڑا مسئلہ اس کی بچی کی پرورش کا تھا، لیکن اس کی غیرت نے یہ گوارا نہ کیا کہ وہ اس کو لے کر خاندان میں جائے اور اس کی پرورش کا مطالبہ کرے یا اس کے لیے محبت کی بھیک مانگے۔ تمام جائیداد فروخت کر کے وہ شہر چلا گیا۔ پرانی ملازمہ رحمت بی بی بدستور نایاب کی پرورش کر رہی تھی اور وہ بچی کی خاطر ان کے ساتھ شہر آگئی تھی۔
رحمت بی بی نے اپنی گود کی گرمی دے کر نایاب کو بڑا کیا اور جب وہ اسکول جانے لگی تو رحمت بی بی نواب صاحب کے کان کھانے لگی کہ آپ اور شادی کر لیجیے۔ میں کب تک جیوں گی، بوڑھی ہو چلی ہوں، آپ اور نایاب تنہا زندگی نہ گزار سکیں گے۔ رحمت بی بی کی کوششوں سے حشمت خان نے ایک شریف گھرانے کی لڑکی سے نکاح ثانی کر لیا۔ نئی ماں کے آتے ہی گھر کا ماحول بدل گیا۔ پہلے نایاب سب کچھ تھی اور اب گھر پر کسی اور کی حکومت ہو گئی۔ کبھی کبھار نایاب کے کانوں میں ایسی باتیں بھی پڑ جاتیں کہ یہ آوارہ ماں کی بیٹی ہے۔ جانے یہ کیسی نکلے۔ یہ باتیں اس کو بہت زیادہ ڈسٹرب کر دیتی تھیں۔
خدا کی کرنی کہ حشمت خان کا ایک حادثے میں انتقال ہو گیا۔ اب سوتیلی ماں ہی مختار کل تھی۔ ان دنوں نایاب یونیورسٹی میں تھی اور وہاں ہوسٹل میں رہتی تھی۔ اس کا ہوسٹل اور تعلیم کا خرچہ بھی بند کر دیا گیا۔ یہی نہیں، سوتیلی ماں صائمہ نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر نایاب کو جائیداد سے محروم کرنے کا منصوبہ بھی بنا لیا۔ پہلے سے کچھ جائیداد حشمت خان نایاب کے نام کر گئے تھے۔ اس نے اسی پر اکتفا کیا اور دوسری جائیداد جو اس کو وراثت میں ملنی تھی، اس سے وہ اپنے سوتیلے بھائی کے حق میں از خود دست بردار ہو گئی کیونکہ وہ صائمہ (سوتیلی ماں) سے تصادم نہیں چاہتی تھی۔
صائمہ ایک روز بیٹے کو لے کر میکے چلی گئی۔ گھر میں نایاب اور آیا رحمت بی بی رہ گئیں۔ تنہائی نے نایاب کی روح میں الاؤ سے بھرکا دیے۔ وہ اپنی سگی ماں کے بارے میں رحمت بی بی سے کریدتی۔ اپنے سوتیلے بھائی سے مانوس تھی، سو وہ بھی گھر میں نہیں رہا تھا۔ آیا نے اس کو سمجھایا کہ آپ پڑھائی پر دھیان رکھیں، تعلیم ہی ہے جو آپ کے کام آئے گی۔ نایاب نے پھر سے پڑھائی پر توجہ دی۔ اس نے سالانہ امتحان میں اتنے اچھے نمبر لیے کہ اسکالر شپ پر بیرون ملک چلی گئی۔ اس کا ارادہ پی ایچ ڈی کرنے کا تھا، مگر تھوڑے عرصے بعد اس کے سر میں درد رہنے لگا۔ طبی معائنے پر پتا چلا کہ وہ کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہے۔ علاج معالجے کے لیے بڑی رقم درکار تھی۔ اس نے رحمت بی بی کو لکھا، اسے علاج کے لیے رقم کی ضرورت ہے۔ آیا نے اس کی جائیداد اونے پونے اس کے والد کے وکیل کے ذریعے فروخت کر کے رقم بھجوادی۔
جن دنوں وہ بستر علالت پر تھی، اس کا کلاس فیلو لڑکا عیادت کو آیا۔ یہ ایک افغانی طالب علم تھا جو اسلامک سوسائٹی کی جانب سے اس کے لیے ڈونیشن لے کر آیا تھا۔ اس لڑکے کا نام محب خان تھا، وہ بہت اچھا اور آداب و اخلاق کی دولت سے مالا مال تھا۔ اس نے جب نایاب کے حالات سنے، تو اس کو اس بے بس لڑکی سے بہت ہمدردی ہو گئی۔
وہ باقاعدگی سے اس کی عیادت کو آنے لگا اور پھر نجانے کس لمحاتی جذبے سے مغلوب ہو کر اس نے نایاب سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ حالانکہ ڈاکٹروں نے بتا دیا تھا کہ یہ لڑکی کینسر کی مریضہ ہے۔
محب خان کے والدین امیر لوگ تھے۔ وہ اس کی شادی محب کی چازاد سے کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے بیٹے کو پاکستانی لڑکی سے شادی کی اجازت نہیں دی، لیکن محب نے ان کی نہ سنی اور نایاب سے چند دوستوں کی موجودگی میں شادی کر لی۔ شادی کے بعد محب نے کرائے پر فلیٹ لے لیا، اور نایاب کو بھی اسپتال سے رخصت مل گئی کیونکہ وہ محب کی محبت کو پاکر حیرت انگیز طور پر صحت یاب ہو رہی تھی۔ زندگی میں پہلی بار کوئی اپنا ملا تھا۔ یہ خوشی نایاب کے لیے کسی سرمائے سے کم نہ تھی۔
محب خان نے اپنے خاندان میں شادی کی اطلاع نہ دی۔ وہ لوگ افغانستان میں رہتے تھے۔ ان کو علم بھی نہ ہو سکا کہ ان کے بیٹے نے بیرون ملک میں گھر بسا لیا ہے۔ البتہ نایاب نے رحمت بی بی کو خط لکھ کر تمام احوال سے آگاہ کر دیا کیونکہ اس کا اس دنیا میں آیا اماں کے سوا کوئی نہ تھا۔
محبت کا اپنا ایک الگ رنگ ہوتا ہے اور اس کی قوت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ حیرت انگیز طور پر نایاب کی صحت بہتر سے بہتر ہوتی گئی۔ ڈاکٹر بھی اس معجزے پر ششدر تھے۔ سچ کہا ہے کسی نے کہ موت اور محبت میں، ہر ایک میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ ہر شے کو بدل دے۔ جس کیس کو معالج لا علاج سمجھتے تھے، اس کا علاج روحانی خوشیوں سے خود بخود ہو رہا تھا۔ محب خان سے نایاب کو ایسی بھرپور محبت ملی کہ جینے کی امنگ اور زندہ رہنے کی خواہش نے تریاق کا کام دیا۔ لگتا تھا کہ محبت نے موت سے پنجہ آزمائی کی ہے اور اس میں کینسر جیسی لا علاج بیماری کو شکست دے دی ہے۔
انہی دنوں افغانستان کے حالات دگرگوں ہونے لگے اور محب خان کا خاندان بھی ان حالات کی لپیٹ میں آ گیا۔ محب خان کو اپنے عزیز و اقارب کی طرف سے پریشان کن خبریں ملنے لگیں تو وہ خود پر قابو نہ رکھ سکا اور گھر والوں کی خیریت دریافت کرنے وطن چلا گیا۔ جہاں وہ ناگہانی حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہو گیا اور کسی کی گولی کا نشانہ بن گیا۔ نایاب کو محب خان کے قریبی دوست نے آ کر اطلاع دی جو امریکا میں پڑھ رہا تھا۔ خبر سنتے ہی وہ سکتے میں رہ گئی۔ یہ خبر اس کے خرمن پر بجلی بن کر گری اور اس کی خوشیوں کو جلا کر راکھ کر گئی۔ ان دنوں وہ امید سے تھی۔ وہ اس قدر دل گرفتہ ہوئی کہ بیمار پڑ گئی۔ بھلا اب اس کا دل کہاں لگتا؟ دل شکستہ نایاب نے واپس جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کے لیے تو زندگی کا حسن ختم ہو چکا تھا۔
محب خان کے بنا جینے کی امنگ بھی نہ رہ گئی۔ اگر دنیا میں کوئی اس کو پوچھنے والا تھا تو وہ اس کی خاندانی ملازمہ رحمت بی بی ہی تھی، جو اس کی نظروں میں ماں کا درجہ رکھتی تھی۔ رحمت بی بی اب بھی حشمت خان کے اس گھر میں رہ رہی تھی جو وہ نایاب کے نام کر کے گئے تھے۔ نایاب کے نام پر دو مکان تھے۔ ایک کرائے پر اٹھا ہوا تھا جس سے رحمت گزر بسر کرتی تھی۔ یہ انتظام بھی حشمت خان کے دوست وکیل نے کر کے دیا تھا۔
نایاب نے آتے ہی ان مکانات کو فروخت کر دیا کیونکہ اسے روپوں کی اشد ضرورت تھی۔ دونوں ایک کرائے کے گھر میں منتقل ہو گئیں، جہاں نایاب نے بیٹے کو جنم دیا اور پھر کچھ عرصے بعد خالق حقیقی سے جاملی کیونکہ کینسر کا موذی مرض پھر سے عود کر آیا تھا۔ اس کا ننھا بچہ بھی ماں کی طرح رحمت بی بی کی گود میں پناہ لینے پر مجبور ہو گیا۔ اب وہ بوڑھی ہو چکی تھی اور ذریعہ معاش بھی کوئی نہ رہا تھا۔ وہ اس بچے کی ذمہ داری سنبھالنے سے قاصر تھی، تاہم اس کو پھینک تو نہ سکتی تھی اور نہ کسی اور کے حوالے کر سکتی تھی کیونکہ اس کو نایاب سے محبت تھی۔ یہی محبت آڑے آ جاتی اور وہ اس کے بچے کو سینے سے لگا لینے پر مجبور ہو جاتی تھی۔
حالات سے گھبرا کر اس روز وہ بچے کو گود میں لیے نایاب کی قبر پر بیٹھی رو رہی تھی، جب میری اور امی جان کی اس سے ملاقات ہو گئی۔ ہمیں تو گمان بھی نہ تھا کہ جا رہے ہیں نانی اماں کے لیے فاتحہ پڑھنے اور آگے خدا ایک پھول سا معصوم بچہ ہمارے دامن میں ڈال دے گا۔ یہ ایک ایسی ذمہ داری تھی کہ شاذ ہی لوگ اس ذمہ داری کو قبول کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں، لیکن میری ماں کو حوصلہ اور سوچ بھی اسی خالق نے دی تھی، جس نے اس بچے کو دنیا میں بھیجا کہ جس کے ماں باپ دونوں ہی نہ رہے تھے۔ سو والدہ نے کہا کہ اللہ تعالی کو اس نیکی کے بدلے ہمارا امتحان مطلوب ہے تو ہمیں بھی قدم پیچھے نہ ہٹانے چاہئیں۔ شاید یہی رب کی رضا ہے۔
اپنے رب کی رضا سمجھ کر ہم نے اس معصوم کی دیکھ بھال شروع کر دی اور اس کا نام اکرام رکھ دیا کیونکہ یہ اللہ پاک کا ہم پر کرم ہی تھا جو ایک ایسی نیکی نے ہمارے در پر دستک دی تھی، جس کی بڑائی کو سنبھالنے کا ہم میں حوصلہ نہ تھا۔ بہرحال، اکرام کی پرورش ہونے لگی۔ بتاتی چلوں کہ اب اکرام ما شاء اللہ جوان ہے اور خود کو امی کا بیٹا ہی سمجھتا ہے۔ ہم بھی اسے یہی باور کراتے ہیں کہ وہ ہمارا بھائی ہے۔ ہم نے اس کو نہیں بتایا کہ وہ ہمارا کچھ نہیں لگتا۔ بتانے سے فائدہ بھی کیا؟ اس کا بھی اس جہان میں ہمارے سوا کوئی نہیں ہے۔ اگر ہے بھی تو ہم کو علم نہیں ہے۔