خالہ عذرا اپنے بھانجے عبد الطیف سے بہت پیار کرتی تھیں اور وہ خالہ کے ساتھ ساتھ ان کی بیٹی کو بھی چاہتا تھا۔ ان دونوں کی چاہت کو بھانپ کر خالہ نے بیٹی کا رشتہ بھانجے سے کر دیا۔ اس رشتے پر لطیف کے والدین اور خاندان والے بھی خوش تھے کیونکہ لطیف ایک اچھا لڑکا تھا۔ رشتہ طے ہو جانے کے بعد وہ واپنی خالہ کے گھر زیادہ جانے لگا کیونکہ اس کو فائزہ پسند تھی اور وہ اسی کی خاطر جاتا تھا۔ فائزہ بھی روز اس کا انکار کرتی۔ اگر کسی شام وہ نہ جاپا تا تو وہ بے چین ہو جاتی۔ میٹرک کے بعد لطیف نے کالج میں داخلہ لے لیا، کیونکہ خالہ چاہتی تھیں کہ ان کا داماد کم از کم گریجویٹ تو ہو جب کہ لطیف کے والد اسے بزنس میں لگانا چاہتے تھے، تبھی ماں نے اس کے باپ کو سمجھایا۔ لطیف ابھی کم سن ہے۔ اس کو تھوڑا سا اور سمجھدار ہو لینے دو۔ کالج کی تعلیم مکمل کر لینے سے ہی اس کا ذہن کھلے گا اور یہ کاروباری معاملات کو اچھی طرح سمجھ سکے گا۔ لطیف کا معمول تھا کہ وہ کالج سے سیدھا خالہ کے گھر بھی چلا جاتا تھا کیوں کہ خالہ کا گھر اس کے کالج کے راستے میں پڑتا تھا۔ خالہ بھی گویا اس کا انتظار کرتی رہتی تھیں۔ اس کے آتے ہی کھانا لگا میں پھر سب کھانا کھاتے کچھ دیر بیٹھ کر وہ گھر چلا جاتا۔ لطیف کا خالو رجب نیک چلن آدمی نہ تھا۔ وہ محلے میں خاصا بد نام تھا۔ اس کی حرکتوں کی وجہ سے محلے دار اس کی عزت نہیں کرتے تھے کہ وہ اس کی عادتوں سے واقف تھے۔ رجب کی میلی نظریں ہمہ وقت دوسروں کی بیٹیوں پر رہتی تھیں۔ وہ ایک عیاش طبع انسان تھا مگر خالہ چونکہ بہت نیک اور اچھی شخصیت کی مالک تھیں، اسی سبب محلے دار رجب کو کچھ نہیں کہتے تھے۔ زیادہ تر گھر سے باہر رہتا تھا۔ اس کی سر گرمیاں اور وضع کی تھیں۔ اس شخص کو اپنے گھر کے معاملات کا کچھ ہوش نہ تھا کہ اس کے گھر والے سبھی اچھے تھے۔ وہ بھی ان کے طفیل یہاں رہ رہا تھا، ور نہ اس قسم کے انسان کا شریفوں کے درمیان رہنا دو بھر ہو جاتا ہے۔ وہ رات کو دیرے گھر آتا ، جس سے ہمسایوں کا سکون خراب ہو جاتا تھا۔ جوئے اور شراب کے ساتھ ساتھ اسے غلط جگہوں پر جانے کی بھی لت تھی۔
خاندان کے سبھی لوگ رجب کی ان عادات سے نالاں تھے۔ کوئی اس کے منہ نہیں لگتا تھا کیونکہ اس کی اولاد نیک اور شریک حیات اچھی تھی۔ رجب کا بیٹا کا سعودی عرب ک انے گیا ہوا تھا۔ وہ خاصی رقم گھر بھجواتا تھا، جس سے ان کے گھر کا گزارہ با آسانی ہو جاتا تھا اور اسی رقم سے رجب بھی کبھی کبھی عیش کر لیتا تھا، ورنہ اس کی اپنی آمدنی بھی خاصی تھی، لیکن کمائی کے ذرائع درست نہ تھے۔ یہ ساری کمائی وہ اپنے اوپر ہی خرچ کرتا تھا۔ وہ اچھا کھاتا، شاندار لباس پہنتا اور ہر وقت تیز قسم کے قیمتی پر فیوم لگائے رکھتا۔ جہاں سے گزرتا، وہ جگہ کافی دیر تک مہکتی رہتی تھی۔لطیف کو اپنے خالو سے نفرت محسوس ہوتی تھی، پھر بھی دو اس کی عزت کرنے پر مجبور تھا کیونکہ وہ فائزہ سے محبت کرتا تھا۔ وہ اپنی خالہ کو بھی ماں کی طرح سمجھتا اور ایک بیٹے جیسا پیار کرتا تھا۔ ایک دن لطیف اپنی خالہ کے پاس بیٹھا ہو اتھا، دو پہر کا وقت تھا کہ اچانک رجب گھر آگیا۔ اس نے لطیف کو دیکھا تو کہنے لگا۔ میاں ! یہاں کیا سارا دن عورتوں میں بیٹھے رہتے ہو، تم کو کچھ اور کام نہیں ہے ؟ جانو کچھ کیا تو یوں گھر میں بیٹھنے سے کیا ہوتا ہے۔ لطیف اپنے خالو کا اشارہ سمجھ گیا۔ اس کو بزنس کا شوق نہ تھا مگر اب اس کا ہونے والا سسر چاہتا تھا کہ وہ کمائے جب کہ وہ پڑھنا چاہتا تھا۔ اس نے بادل نخواستہ پڑھائی کا ارادہ ترک کیا اور باپ سے کہا کہ وہ جنرل اسٹور کھولنا چاہتا ہے۔ باپ نے سوچا کہ چلو یہ بھی ٹھیک ہے۔ اس عمر سے ہی کچھ کھانا تو سیکھ لے۔ باپ نے بیٹے سے کہا۔ کوئی اچھی دکان کسی موقعے کی جگہ پر دیکھو اسٹور کھول لو ۔ لطیف نے کافی کوشش کے بعد خالہ کے گھر سے نزدیک ایک کشادو دکان لب سڑک ڈھونڈ لی جو کرایے کے لئے خالی تھی۔ اس نے دکان باپ کو دکان دکھائی۔ لب سٹرک ہونے کے باوجود ، وہاں کوئی دوسرا جنرل اسٹور نہ تھا، لینڈ الطیف کے والد نے بیجانہ ادا کر کے تین سال کے معاہدے پر دور کان کرایے کے لے لی اور بیٹے کو جنرل اسٹور کھلوا دیا۔ لطیف نے جنرل اسٹور کو چلانے کے لئے دن رات ایک کر دیا۔ محنت پھل دیتی ہے۔ اس کا اسٹور بھی دنوں میں مشہور ہو گیا، بزنس اور منافع بڑھنے لگا۔ اس کے والد بہت خوش تھے مگر وہ بیٹے سے اس کمائی کا دھیلہ بھی نہ لیتے تھے۔ وہ کہتے کہ تم آمدن اپنے پاس رکھو، یہ روپیہ تمہاری شادی میں کام آئے گا۔ دکان چونکہ خالہ کے محلے میں بھی لہذا اس کا بھی فائدہ تھا کہ سستانے کو جی چاہتا تو خالہ کے گھر چلا جاتا۔ وہ اپنی منگیتر سے کم ، خالہ سے زیادہ باتیں کیا کرتا۔ خالہ جانتی تھیں کہ وہ اپنی منگیتری کے لئے اس گھر میں آتا ہے۔ وہ اس کے لئے دو پہر کا کھانا بنا کر رکھتی تھیں۔ وہ کھانے کے بہانے دو گھڑی فائزہ کا دیدار بھی کر جاتا تھا۔ اس طرح اس کی منگیتر دن بھر خوش رہتی تھی۔ رجب خالو کی عادتیں اگر لطیف کو ناپسند تھیں تو خالو کو بھی اس کا اپنے گھر آنا جانا پسند نہ تھا۔ منہ سے کچھ نہ کہتا لیکن جب بھی لطیف کو اپنے گھر آتے دیکھتا، بات بے بات بگڑنے لگتا تھا اور بلا وجہ شور ڈال دیتا تھا، جس باعث لطیف کو بڑی سکی محسوس ہوتی تھی وہ سر جھکائے خالہ کے گھر سے نکل جاتا۔ سوچتا تھا کہ اگر ابھی اس کے خالو کا یہ رویہ ہے تو خدا جانے سر بن جانے کے بعد وہ کیا کرے گا۔ جب ایسا بار بار ہونے لگا تو لطیف بہت پریشان رہنے لگا کیونکہ وہ جب بھی جاتا رجب کسی نہ کا کسی بہانے اس کی بے عزتی کر دیتا، حالاں کہ لطیف منہ پر تو خالو کا بہت ادب کرتا تھا، کہ کہیں وہ اپنی بیٹی کی منگنی نہ توڑ دے۔ شاید خالو بھی اس کی مجبوری سمجھتا تھا، اس لئے ہونے والے داماد کی دل آزاری میں کوئی کسر نہ چھوڑتا۔ رجب جو بھی برے کام کرتا، لوگ اگر لطیف سے تذکرہ کرتے ، وہ شرمندہ ہو کر سر جھکا لیتا۔ سارا محلہ اس وجہ سے بھی اسے جان گیا تھا کہ اس کا جنرل اسٹور اسی محلے میں تھا اور محلہ کے زیادہ تر گھرانے لطیف کے اخلاق اور ایمان داری کی وجہ سے سود اس کے اسٹور سےلیتے تھے، تاہم اب وہ سسر کی وجہ سے پریشان رہنے لگا تھا۔ لطیف کے جنرل اسٹور کے برابر میں ایک وڈیو اور ڈی وی ڈی سینٹر تھا، جہاں سے لطیف فلموں کی کیسٹیں لیا کرتا تھا۔ اس کاروبار کی آڑ میں کچھ نشہ آور اشیاء بھی خفیہ طور پر یہاں چند خاص قسم کے گاہکوں کو بیچی جاتی تھیں۔ رجب جب بھی اس سینٹر پر آتا، اس کی گاڑی میں کوئی نہ کوئی غلط قسم کی لڑکی یا عورت بیٹھی ہوتی۔ یہ دیکھ لطیف کو تو شرم آجاتی مگر اس کے خالو کو بالکل بھی لحاظ نہ آتا کہ کم از کم گاڑی کو تو لطیف کے جنرل اسٹور سے کچھ دوری پر کھڑی کر دوں، آخر یہ میرا ہونے والا داماد ہے۔
یہ سچ ہے کہ برا آدمی دیدہ دلیر بھی ہوتا ہے۔ اس کا ثبوت اس واقعہ سے ملا کہ محلے میں ایک غریب بیوہ عورت رہتی تھی، جس کا گھر لطیف کے جنرل اسٹور کے نزدیک تھا۔ یہ عورت اکثر راشن اس کے اسٹور سے لیتی تھی۔ لطیف کو پتا تھا کہ یہ غریب بیوہ ہے، وہ اس کو رعایتی قیمت پر راشن دینے لگا تھا اور جب اس بیوہ کے پاس رقم نہ ہوتی تو ادھار پر بھی اشیاء دے دیا کرتا تھا۔ اتفاق کہ بیوہ عورت بیمار ہو گئی تو اس کی بیٹی جس کا نام مسرت تھا، اسٹور پر ضروریات زندگی سے متعلق اشیاء لینے آنے لگی۔ بوڑھی بیوہ کی بیٹی ہونے کے ناتے وہ اس یتیم لڑکی کے ساتھ بھی شفقت سے پیش آتا۔ وہ لڑکی خوش ہو جاتی اور کہتی کہ میرا کوئی بھائی نہیں ہے، تو میں آپ کو ہی بھائی سمجھتی ہوں۔ یہ لڑکی آٹھویں پاس اور نہایت بھولی بھالی تھی۔ اس میں زمانے کی چالاکیاں نہیں تھیں مگر وہ باتونی بہت تھی۔ وہ اپنے گھر کے سب دکھ سکھ ماں کی بیماری کی باتیں، غریبی کے حالات سبھی لطیف سے کہہ دیا کرتی تھی۔ اس طرح سے وہ اس کو اپنا ہم راز سمجھتی تھی۔ اب جب بھی لطیف اپنے خالو کی بد سلو کی سے دل گرفتہ ہوتا، لڑکی اس کی کیفیت کو بھاپ جاتی اور کہتی۔ بھائی لطیف ! آج کیوں منہ لٹکائے بیٹھے ہو ؟ کیا بکری نہیں ہوئی ! وہ کہتا۔ بکری تو بہت ہوئی ہے، مگر ایک آدمی کے سلوک سے تنگ ہوں اور وہ میرا خالو ہے۔ اس طرح گویا اس نے بھی مسرت کو اپنا ہم راز بنا لیا۔ جب خالو سے خفا ہوتا، مسرت کے سامنے اسے برا بھلا کہہ کر شانت ہو جاتا اور وہ لڑکی اس کو تسلی دیتی کہ دیکھ نہ کرو، بعض رشتہ دار ایسے ہی بس دکھ دینے والے ہی ہوتے ہیں۔ جب بھی کبھی لطیف کو کسی بر تن یا کسی شے کی ضرورت ہوتی یا کوئی مہمان قسم کا دوست آجاتا تو وہ مسرت کے گھر سے چائے بنوا لیتا یا بر تن منگوا لیتا تھا۔ یہ لوگ پڑوسی ہونے کے ناتے اس کا خیال رکھتے تھے۔ مسرت دن میں ایک بار ضرور لطیف کی دکان پر آنے لگی تھی۔ گھر والے اسے روکتے تو وہ نہ مانتی اور کہتی کہ میں نے تو لطیف کو بھائی بنایا ہوا ہے۔ لطیف نے بھی کئی بار اسے سمجھایا کہ دیکھو، بھائی صرف اپنا سگا بھائی ہی ہوتا ہے۔ میری منگنی ہو چکی ہے لہٰذا تم میرے پاس زیادہ نہ آیا کرو۔ کہیں میرے خالو کو برانہ لگ جائے مگر وہ یہ باتیں ایک کان سے سنتی اور دوسرے کان سے اڑا دیتی۔ تب ہی ایک دن اس نے ہنس کر کہا۔ چلو بھائی نہ سہی ہم اچھے پڑوسی اور اچھے دوست تو ہو سکتے ہیں۔ اب یہ ہوتا کہ جب بھی مسرت آتی، کوئی بات کرتی لطیف فوراً اس سے اپنی منگیتر کی باتیں شروع کر دیتا تا کہ اس کا دل صاف رہے اور کوئی دوسرا خیال اس کے دن میں جنم نہ لے سکے۔ ایک دن جب خالو نے اس کو مسرت سے باتیں کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ شام کو وہ دوبارہ اسٹور پر آیا اور کہا۔ ذرا اس لڑکی کو بلوانا، میں نے اس سے کوئی ضروری بات کرتی ہے۔ گرچہ لطیف کا ماتھا ٹھنک گیا مگر وہ اسٹور پر بیٹھ کر خالو سے نہیں الجھ سکتا تھا۔ اس نے ملازم لڑکے کو مسرت کے گھر بھیجا اور اسے آنے کا کہا۔ جب وہ آگئی تو خالو نے کار کی چابی لطیف کو دے کر کہا۔ اپنی امی کو لے آئو۔ لطیف بے چارہ گھبرا گیا کہ خدا جانے یہ شخص کیا جھگڑا کرنے والا ہے۔ وہ کار کی چابی لے کر گھر چلا گیا۔ گھر میں ماں موجود نہ تھی۔ کسی رشتہ دار سے ملنے گئی ہوئی تھی۔ وہ وہاں چلا گیا جہاں ماں گئی تھی تاکہ اپنے ساتھ لے جائے کیونکہ وہاں خالو انتظار کر رہا تھا۔ جب وہ ماں کو خالہ کے گھر اتار کر اسٹور پر لوٹا تو وہاں خالو موجود تھا مگر مسرت نہیں تھی۔ وہ اپنے گھر جا چکی تھی۔ لطیف دل میں ڈر رہا تھا کہ ضرور خالو نے مسرت کو ڈانٹا ہو گا اور ڈانٹ ڈپٹ کے بعد گھر بھیج دیا ہو گا کہ تم کیوں اسٹور پر روز آتی ہو ، آئندہ مت آنا۔ بس ایسے ہی خیالات لئے وہ سوچتا رہا کہ اب جب مسرت آئے گی تو پتا چلے گا کہ خالو نے اسے کیوں بلایا تھا۔ اس روز اسی فکر میں وہ دکان جلدی بند کر کے گھر چلا گیا۔ دوسرے روز رات زیادہ جاگنے کی وجہ سے دکان پر بیٹھا تھا کہ سو گیا۔ اچانک وہ ہڑ بڑا کر جاگا تو دیکھا، سامنے مسرت کھڑی تھی، پھر وہ بے بسی سے رونے لگی۔ پہلی بار اس نے مسرت سے کہا کہ یہاں کھڑی رہ کر رو ناد ھو نامت کرو۔ کوئی گاہک آگیا تو کیا سوچے گا؟ ادھر کیبن میں چل کر بیٹھو اور مجھے بتائو کہ کل خالو نے تم سے کیا کہا ہے جو آج اتنے غصے میں ہو۔ مسرت کیبن میں چلی گئی اور اس نے جو بات لطیف کو بتائی سن کر اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ اس کا خالو اتنا گر سکتا ہے۔
کل اس کو اسٹور سے روانہ کرنے کے بعد خالو مسرت کو اسی جگہ لے بیٹھا۔ وہ نادان تھی کہ لطیف اپنی والدہ کو لے کر یہیں آئے گا۔ رجب نے مسرت سے کہا کہ مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے اور پھر اس نے جو بات کہی وہ بتانے کے لائق نہیں تھی۔ لطیف نے دھوکے سے بلوا کر اسے خالو کے حوالے نہیں کیا تھا ، سادہ لوحی میں اسے خالو کے پاس اسٹور میں کاؤنٹر کے پاس چھوڑ کر گیا تھا۔ یہ خالو ہی تھا جو اسے کیبن تک لایا۔ اس بچاری لڑکی نے تو اس سے پہلے کبھی کیبن کے اندر جھانکا تک نہیں تھا۔ جس گھٹیا پن کا خالو نے ثبوت دیا ، صدمے سے لطیف کے حواس جاتے رہے۔ لڑکی تو رورہی تھی، وہ بھی رو پڑا۔ سوچا، لاکھ منگیتر سے محبت سہی، لیکن ایسے گھٹیا آدمی سے ناتا نہ ہی بندھے تو بہتر ہے۔ لہٰذا اس نے گھر جا کر ماں کو بتادیا کہ خالو اس لائق نہیں کہ اس کو اپنا سسر بنائوں۔ اگلے دن لطیف اور اس کی ماں مسرت کے گھر اس سے معذرت کرنے گئے تو اس کی بوڑھی بیوہ ماں پھپھک پھپھک کر رو پڑی۔ بولی۔ میں نے تو لطیف کو نیک پڑوسی جان کر ایک بیٹے کی طرح سمجھا اور خیال کیا لیکن اس نے یہ ہمارے ساتھ کیا کر دیا کہ میری بیٹی کو اپنے بد معاش خالو کے حوالے کر کے چلا گیا۔ اب جو نقصان ہمارا ہوا ہے ، اسے میں کیسے بھروں گی ؟ دنیا میں عزت ہے تو سب کچھ ہے ، وہی نہ رہے تو انسان کے لئے اچھا ہے کہ وہ مر جائے۔ لطیف اس شریف عورت کی باتوں سے اتنا شرمندہ ہوا کہ اس کے پیر پکڑ کر معافی مانگی اور اس کی ماں نے مسرت کو گلے لگا کر کہا۔ بیٹی تم رومت۔ اگر تمہارا کوئی نہیں تو ہم تمہارے ہیں۔ تیرا دو پٹہ میرے بد معاش بہنوئی نے کھینچا ہے تو میں اپنا دوپٹہ تیرے سر پر ڈالتی ہوں۔ تمہارے ساتھ جو المیہ ہوا، میرے نادان لڑکے کی غفلت سے سے ہوا ہے ، اس لیے اب میں ہی تمہار انقصان بھروں گی۔ میں تم کو عزت دوں گی اور عزت سے بہو بنا کر اس گھر سے رخصت کر لے جائوں گی۔ اس طرح آن واحد میں مسرت کی تقدیر بدلی اور وہ لطیف کی دلہن بن گئی۔ اس بات کا صدمہ فائزہ اور اس کی والدہ کو بہت ہوا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا؟ کبھی کبھی باپ کا کیا، بیٹیوں کو کسی نہ کسی صورت بھگتنا پڑتا ہے۔