میں ان دنوں چچا کے گھر رہنے گئی ہوئی تھی جب یہ واقعہ ہوا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے والدین کی کس کے ساتھ دشمنی تھی۔ ہم بنوں میں رہتے تھے اور میری عمر اٹھارہ سال تھی۔ اچانک اطلاع آئی کہ ہمارے گھر کچھ لوگ گھس آئے اور میرے ماں باپ کو قتل کر کے چلے گئے۔ اگر میں اس روزچچا کے گھر نہ ہوتی تو شاید ان کے ساتھ میں بھی قتل ہوجاتی۔ خُدا جانے مارنے والوں کا میرے والدین کو ختم کرنے میں کیا مفاد تھا۔ انہی دنوں میری منگنی اپنے چچا زاد شہزاد سے ہوئی تھی۔ میرے والد اورچچا اپنے بچوں کی اس خوشی کو پوری طرح منا بھی نہ پائے تھے کہ زندگی نے ایسا روپ دکھا دیا کہ جینے سے نفرت ہو گئی۔ ان دنوں میں کالج میں پڑھتی تھی۔ مجھے تو کسی بات کی سمجھ بوجھ نہ تھی۔ اپنی سہیلیوں کے ساتھ مگن رہا کرتی۔ والد صاحب کا اپنا خشک میوہ جات کا کاروبار تھا اور کافی بڑا بزنس بھی تھا۔ وہ ایک خوش نصیب تاجر تھے لیکن ان کے ساتھ یہ سانحہ تبھی ہوا جب ان کا بزنس زوروں پر تھا۔ ان کے قتل ہونے کے بعد چچا، چچی ہمارے گھر آکر رہنے لگے کیونکہ میں اب میں اکیلی تھی۔ چند دن بعد شہزاد بھی ہمارے یہاں آگیا۔ اس کے آنے سے مجھے ڈھارس ہوئی اور انتہائی غم کی حالت میں بھی میں خوش رہنے لگی۔ وہ مجھے کو بہت حوصلہ دیتا تھا۔ مجھے والد کے کاروبار کے بارے میں کوئی علم نہ تھا، یہ معاملات چچا جان نے آ کر سنبھال لئے۔ سارا حساب کتاب دیکھا ، مجھ سے بیان حلفی لیا، کچھ کاغذات پر سائن کروائے پھر کافی رقم میرے نام بینک میں جمع کروائی۔ کہا کہ یہ رقم تمہارے لئے کافی ہے ، تم اس کے منافع سے اچھی طرح رہ پائو گی۔ ابا جان کا کاروبار فروخت کر کے باقی سرمایہ ڈالروں کی صورت میں اپنے اکائونٹ میں بیرون ملک جمع کروادیا۔ یہ لوگ کچھ ماہ میرے ساتھ رہے۔ جب ذرا غم کم ہوا اور میں کالج جانے لگی تو انہوں نے بتایا کہ ان کا ویزا ہو گیا ہے اور وہ امریکا جارہے ہیں۔ یہ بھی کہا کہ تسلی رکھو، ہم جلد لوٹ آئیں گے اور تم کو لے جائیں گے ۔ فی الحال تمہارے ویزے کا مسئلہ ہے اس لئے ابھی ساتھ نہیں لے جا جائیں گے – میرے ساتھ اماں سلامتی رہتی تھیں۔ یہ عورت میری پیدائش سے بھی پہلے میری ماں کے ساتھ آئی تھی۔ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس وقت اماں سلامتی نو عمر تھیں اور نئی دلہن تھیں، تبھی ان کے شوہر اور سارا کنبہ فسادات میں مارے گئے۔ یہ واحد ہستی زندہ بچی تو ایک کیمپ سے میرے والدین ان کو اپنے ساتھ لے آئے۔ ان دنوں میرے والد اور امی جان لاہور میں مہاجرین کے کیمپوں میں رضا کارانہ رفاہی کام کرتے تھے۔میں نے کبھی دُکھ نہیں دیکھے تھے۔ والدین کے بعد پہلی بار میں غم سے آشنا ہوئی، دل اس غم کو سہار نہیں پارہا تھا کہ چچا چچی نے بھی امریکا جانے کا مژدہ سنادیا۔ میرا دل بیٹھ گیا۔ یہ میرے اپنے تھے جو اس غم میں مجھے تنہا چھوڑ کر جار ہے تھے۔ میں ان کی منتیں کرنے لگی کہ مجھے چھوڑ کر نہ جائیے۔ وہ بولے۔ بڑی مشکل سے ویزا ملتا ہے اور ہمارا ویزا لگ گیا ہے۔ شہزاد بھی ہمارے ساتھ جارہا ہے اگر ہم اس کو ابھی چھوڑ کر گئے یا ابھی شادی کر دی تو پھر یہ نہیں رہ جائے گا اور امریکا نہیں جاسکے گا۔ اس دن میں نے سوچا تھا اے کاش! میں بھی اپنے والدین کے ساتھ مر جاتی تو اچھا تھا۔ میں نے تو سوچا تھا کہ میری شہزاد کے ساتھ شادی ہو جائے گی تو ہم ابو کا کاروبار مل کر سنبھال لیں گے ۔ میں نے التجا کرتے ہوئے شہزاد سے کہا۔ کیا تم بھی مجھے چھوڑ کر جارہے ہو؟ تم تو ایسا نہ کرو۔ میں کس کے سہارے رہوں گی۔ زاہدہ ! امی بابا کہتے ہیں کہ تم ایک بہادر لڑکی ہو، اکیلی رہ سکتی ہو۔ اماں سلامتی کے علاوہ بابا عنایت بھی تمہارے والدین کے پرانے ملازموں میں سے ہیں۔ وہ تمہارے ساتھ رہیں گے۔ ہم جلد چکر لگائیں گے گھبرائو نہیں، تھوڑے دنوں کی بات ہے ، تب تک تم تعلیم مکمل کر لو گی۔ میرے بھی مستقبل کا سوال ہے۔ مجھے وہاں اسی ماہ جا کر یو نیورسٹی میں داخلہ لینا ہے۔ میں جان چکی تھی میری خاطر یہ لوگ نہیں رک سکتے۔ میری جگہ اگر ان کی اپنی بیٹی ہوتی تو رک جاتے۔ میرے والدین کا قتل ہوا تھا اور یہ معمولی بات نہ تھی، مجھے بھی ہر دم خوف رہتا تھا کہ جو ان کو قتل کر گئے ہیں، مجھے بھی تو قتل کر سکتے ہیں لیکن یہ لوگ میرے خوف کو نہیں سمجھ پارہے تھے۔ وہ اچھے اور خوبصورت الفاظ میں طرح طرح کی تسلیاں دے رہے تھے۔ بالآخر میں نے ان کے جانے پر سمجھوتہ کر لیا۔ جس دن وہ جارہے تھے ، میں بُری طرح رو رہی تھی۔ ایک بار پھر میں نے شہزاد سے کہا۔ میں اکیلی نہیں رہ سکتی۔ تم مت جائو ، میری خاطر رہ جائو ، آپ سب لوگوں کے چلے جانے کے بعد مجھے اس گھر میں بہت ڈر لگے گا۔ اس نے کہا۔ جب میں کچھ دنوں بعد آئوں گا تو ہم اس گھر کو بیچ دیں گے اور نیا گھر لے دوں گا۔ ابھی اتنا وقت نہیں ہے کہ مکان کے بکنے کا انتظار کریں ، اس میں وقت لگتا ہے۔ زاہدہ یقین رکھو میں جلد جلد چکر لگائوں گا اور امریکا سے تم کو با قاعدگی سے خط لکھا کروں گا۔ تم ان کو بار بار پڑھو گی تو تمہیں ایسا لگے گا کہ تم اکیلی نہیں ہو ۔ میں یہاں تمہارے ساتھ ہوں اور خط کے ذریعے باتیں کر رہا ہوں۔ وہ مجھے میٹھی میٹھی تسلیاں دے کر چلے گئے۔ دوماہ گزر گئے اور انہوں نے مجھے صرف ایک فون کیا، کوئی خط وغیرہ نہیں لکھا، میں انتظار کرتی رہی۔ ان دنوں میری سہیلی فضیلہ نے میرا بڑا اساتھ دیا، اس کا گھر ہمارے برابر تھا۔ وہ روز رات کو آجاتی اور میرے کمرے میں سوتی۔ صبح ہم اکٹھے کالج جاتیں، رفتہ رفتہ فضیلہ کی وجہ سے میرا دھیان پڑھائی میں لگ گیا۔ امی مجھ کو ڈاکٹر بنانا چاہتی تھیں، یہ ان کا خواب تھا۔ یا پھر ایک بڑی اور با اثر افسر بنوں۔ میں نے بھی اپنی والدہ کے خواب کی خاطر پڑھائی میں دل لگا لیا۔ سی ایس ایس تو نہ کر سکی مگر وکالت کا امتحان پاس کر لیا۔ فضیلہ نہ ہوتی تو شاید میں یہ بھی نہ کر پاتی ، اس نے تو میرا اتنا خیال کیا کہ میں والدین کے غم کو بھی بھلانے لگی۔ انہی دنوں اس کی والدہ کا انتقال ہو گیا تو ہم دونوں ایک جیسے ہو گئے۔ سارا دن ساتھ گزرتا، گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کرتے ، کہیں جانا ہو تا تو ساتھ جاتے۔ کالج میں لڑکیاں سوال کرتیں، کیا تم بہنیں ہو ؟ ہم جواب دیتے کہ ہاں ہم بہنیں ہیں۔ ایک دن فضیلہ نے یہ کہہ کر امید پر بجلی گرادی کہ وہ اپنے بھائی کے پاس امریکا جارہی ہے۔ میں نے افسردہ ہو کر کہا۔ تو پھر میرا کیا بنے گا؟ پیاری بہن تم تو مجھ کو تنہا چھوڑ کر نہ جائو۔ میں نے اس کی منت کی۔ وہ بھی وہی باتیں کہنے لگی، جو چا چی اور شہزاد امریکا جاتے وقت مجھ سے کہہ رہے تھے۔ خوبصورت اور تصوراتی تسلیاں۔ میں جلدی لوٹ آئوں گی، ابو کو چانس ملا ہے اور بھائی نے سارا انتظام کر لیا ہے۔ جاتے ہی تم کو فون کروں گی اور خط بھی لکھوں گی۔ فضیلہ ! سب کہتے ہیں کہ امریکا ایک بے وفا ملک ہے۔ جو وہاں جاتا ہے وہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ میں نے رو کر التجا کی مگر اسے جانا تھا، سو وہ چلی گئی۔ جب وہ جارہی تھی، میں سوچ رہی تھی۔ خُدارا! اب میں کیونکر زندہ رہ پائوں گی۔ میرا یہ سہارا بھی چھن گیا۔ اب والدین یاد آتے تو رات کو اٹھ کر روتی تھی۔ تین ماہ گزر گئے۔ فضیلہ کا بھی خط نہ آیا۔ وہ بھی وہاں جا کر مجھے بھول گئی۔ صرف اماں سلامتی ایک ہستی تھی جو ماں کی طرح میر اخیال رکھتی تھیں کیونکہ اس دنیا میں نہ تو ان کا کوئی تھا اور نہ میرا کسی دن میں بغیر ناشتے کے کالج چلی جاتی تو وہ پریشان ہو جاتیں۔ ان کو مجھ سے سچی محبت تھی۔ انہوں نے مجھ کو پالا تھا، گود میں کھلایا تھا۔ وہ بے آسرا ہونے کا دکھ سمجھتی تھیں۔ میں سوچتی اگر میرے والدین نے اماں سلامتی کو اپنے پاس پناہ دینے کی نیکی نہ کی ہوتی تو آج میں اتنے بڑے گھر میں اکیلی نہ رہ پاتی۔ سچ ہے نیکی رائیگاں نہیں جاتی۔ جو کچھ اولاد کرتی ہے وہ ماں باپ کے کام آئے یا نہ آئے لیکن جو ماں باپ کر جاتے ہیں، وہ نیکیاں اولاد کے کام ضرور آتی ہیں۔ کافی دن ایسے مایوسی سے گزرے، کالج سے آتے ہی اماں سلامتی سے پوچھتی، کوئی خط آیا۔ جواب نفی میں ملتا۔ بالآخر ایک روز جب کالج سے لوٹی ایک نیلا لفافہ میرا منتظر تھا۔ یہ شہزاد کا خط تھا۔ لکھا تھا۔ معاف کرنا تم کو خط لکھنے میں دیر ہو گئی۔ یونیورسٹی میں داخلہ بڑی مشکل سے ملا ہے۔ وہاں میں مصروف ہو گیا تھا۔ آج سمسٹر پاس کر لیا ہے۔ بہت خوش ہوں۔ آج احساس ہوا کہ شہزاد مجھے نہیں بھولا ہے ، بس ہاں کی زندگی ہی ایسی ہو گئی کہ وقت نہ ملا ہو گا۔ اماں نے سُنا تو کہا۔ بیٹی دو رکعت نفل شکرانہ پڑھو۔ انہوں نے بھی شکرانے کے نفل ادا کئے۔ آج میرے اپنے کا خط میرے نام آیا تھا۔ اب مجھے پتا چلا کہ مجھ سے زیادہ اماں اور عنایت بابا کو خط کا انتظار تھا۔ میں اس وقت شہزاد کو جواب لکھنے بیٹھے گئی۔ لکھا کہ میں تو کبھی تھی تم نے مجھے بھلا دیا ہے۔ آج خط ملا، لگتا ہے نئی زندگی مل گئی ہے۔ تمہار اخط لکھنا مجھ پر ایک احسان جیسا ہے کہ تم نے وقت نکالا۔ فضیلہ ساتھ تھی تو تنہائی محسوس نہ ہوتی تھی، جب سے وہ امریکا گئی ہے ، اس نے بھی مخط نہیں لکھا ہے۔ اسے گئے تین ماہ سے اوپر ہو گئے ہیں، وہ بھی اپنا وعدہ بھول گئی ہے، تم کو ملے تو اسے وعدہ یاد دلانا۔ تمہارے جواب کا انتظار رہے گا۔ خط لکھ کر میں نے اسی وقت پوسٹ کر دیا۔ آج مجھے فضیلہ شدت سے یاد آرہی تھی، اس کے بعد میں نے کبھی کسی کو سہیلی نہیں بنایا۔ کوئی سوچ سکتا تھا کہ جو لڑکی دن رات میرے ساتھ ہوتی تھی، مجھ کو دیکھے بغیر جو زندہ نہ رہ سکتی تھی، وہ مجھے بُھلا دے گی۔ چاچی کے ساتھ فضیلہ کو بھی کئی خط لکھے اس نے جواب نہیں دیا تھا۔ یوں سالوں گزر گئے۔ ایک روز سُنا کہ فضیلہ آئی ہے۔ دل کے سب زخم تازہ ہو گئے۔ شہزاد نے بھی، جب سے گیا تھا، صرف تین خط لکھے تھے۔ فون بھی ایک دو بار آیا پھر اس نے فون نہ کیا تھا۔ میری روح اپنوں سے ملنے کو ترس رہی تھی۔ وقت دبے پائوں چلتا گیا۔ میں نے وکالت کا امتحان پاس کر لیا اور ایک بزرگ وکیل کے ساتھ کام شروع کر دیا۔ صبح کی گئی رات کو گھر آتی تھی۔ اب مجھ میں کافی اعتماد آچکا تھا۔ فضیلہ پاکستان آئی مگر مجھ سے ملنے نہ آئی۔ میرا دل بھر آیا۔ کچھ دن خود کو روکے رکھا، آخر کار خود ملنے چلی گئی۔ وہ مجھ کو دیکھ کر شرمندہ ہو گئی جیسے اس نے میری چوری کی ہو۔ میں نے پوچھا۔ دوست کیوں اتنی بے وفا ہو گئی ہو ؟ مجھ سے کیا قصور ہوا ہے ، خط لکھتی تھیں اور نہ فون کرتی تھیں اور اب ملنے بھی نہیں آئیں۔ ادھر میرے اپنوں نے بھی مجھے امریکا جا کربھلا دیا ہے حتی کہ میرے منگیتر نے بھی، جس نے مجھے نہ بھلانے کے وعدے کئے تھے۔ آخر یہ امریکا ہے کیا چیز ؟ جہاں جا کر انسان بدل جاتے ہیں۔ وہ سارے رشتے توڑ ڈالتے ہیں، کیوں ان کے دل پتھر جیسے ہو جاتے ہیں۔ فضیلہ کو لفظ ہی نہ ملتے تھے کہ وہ کچھ بتاتی۔ کچھ دیر تو گونگی بنی رہی۔ کافی بدل گئی تھی وہ کچھ موٹی بھی ہو گئی تھی۔ ننھا سا ایک بیٹا ساتھ لائی تھی۔ میں نے کہا کہ تم نے شادی کر لی اور بتا یا تک نہیں، کم از کم تمہارے لئے شادی کا تحفہ ہی لے آتی۔ تب اس نے مہر لب کو توڑا اور کہنے لگی۔ میری ہمت نہ ہوتی تھی، تم کو بتاتی تو تمہیں یہ جان کر صدمہ ہوتا کہ میری شادی شہزاد سے ہوئی ہے۔ تمہاری امیدوں کے سارے چراغ بجھ جاتے لیکن حقیقت کو زیادہ دیر تک چھپایا نہیں جاسکتا۔ اگر انہوں نے تم کو نہیں بتایا تو میں ہی بتادیتی ہوں کہ جب ہم یہاں سے امریکا گئے تو تمہارے انکل کا پتا ہمارے پاس تھا۔ ہم ان سے ملے پھر ابو اور تمہارے چچا نے وہاں مل کر بزنس کر لیا۔ تم تو جانتی ہو دیار غیر میں اپنوں کا کتنا سہارا ہوتا ہے۔ ہم دونوں گھرانے آپس میں ساتھ ساتھ ہو گئے۔ میں اور شہزاد ایک یونیورسٹی میں پڑھنے لگے اور ہم میں اسی وجہ سے قربت ہو گئی، جلد یہ دوستی ازدواجی بندھن میں بدل گئی۔ بڑوں نے ہماری شادی کرادی ، لیکن ہم دونوں کو تمہارے دُکھ کا شدت سے احساس تھا۔ ہم جانتے تھے کہ تم ہم دونوں ہی کا شدت سے انتظار کر رہی ہو ، پھر کس کی ہمت تھی کہ تم کو یہ دُکھ پہنچانے والی خبر سناتا۔ اس وجہ سے میں تم سے ملنے بھی نہیں آ پا رہی تھی۔ تم خود آگئیں، احسان ہے تمہارا۔ ہم اگر تمہارے قصور وار ہیں تو ہم کو معاف کر دو۔ تم وکیل بن چکی ہو، وقت بہت سا گزر چکا ہے، حالات بدل گئے ہیں، عرصہ سے تمہارے اپنوں نے تم سے رابطہ نہ کیا، تم ان سے بھی بد دل ہو چکی ہو گی ،مایوس ہو گئی ہو گی۔ شاید دوستی سے اب تک مایوس نہ ہوئی تھیں مگر آج ۔ یہ کہتے ہوئے فضیلہ رونے لگی۔ میں نے اس کے آنسو پونچھے اور کہا۔ دوست ! تم میری مجرم نہیں ہو۔ شادی تو قسمت کا کھیل ہے۔ شہزاد کی اگر تم سے شادی نہ ہوتی تو کسی اور سے کر لیتا کیونکہ میں اس کی قسمت میں نہیں تھی اور وہ میری تقدیر میں نہیں تھا، جس کی تقدیر میں تھا اس کو مل گیا۔ تمہارا بیٹا بھی بالکل شہزاد جیسا ہی لگتا ہے۔ یہ کہہ کر میں نے اس کے بیٹے کو اٹھا کر سینے سے لگا لیا، درازی عمر کی دعا دی۔ میری آنکھیں چھما چھم برس رہی تھیں، اپنی سہیلی سے ملنے پر ۔ جس کی بے وفائی نے مجھے دُکھ بھی دیا تھا لیکن اب میں وکیل تھی، با اعتماد ہو گئی تھی اور حوصلہ بھی پا لیا تھا۔ زندگی میں آئے دن ایسے کیس نظروں سے گزرتے تھے۔ دنیا تو نام ہی تبدیلیوں کا ہے اور انسان انسان کو بدلتے دیر نہیں لگتی لیکن دوستی میرے نزدیک ایک قدر ایک قیمت رکھتی تھی جس کا مجھ کو اب بھی پاس تھا۔ خُدا کا شکر کہ میں نے تعلیم پائی تھی اور میرے پاس کسی شے کی کمی بھی نہ تھی۔ چچا جاتے ہوئے بھی مجھے بالکل کنگال نہیں کر گئے تھے، وہ سب کچھ سمیٹ لے جاتے تو بھی میں ان کا کیا بگاڑ لیتی۔ جن ظالموں نے میرے والدین کو زندگیوں سے محروم کیا تھا میں نے ان کا کیا بگاڑ لیا۔ خُدا کا شکر کہ میرے پاس دُکھ سہنے کا حوصلہ آ گیا تھا۔ میرا مستقبل تاریک نہیں تھا۔ کچھ دن پہلے مجھ کو عدالت میں ابو کے ایک دوست ملے تھے ، جو بڑے وکیل تھے۔ کہنے لگے۔ بیٹی تم کو کالے کوٹ میں دیکھ کر دل شاد ہوا۔ تم بڑی بہادر ہو اور تم نے حالات کا ہمت سے مقابلہ کیا ہے تو اب میری ایک بات بھی مان لو۔ اب تم شادی کر لو اور گھر بسا لو۔ بیٹی عورت کی اصل زندگی یہی ہے کہ وہ اپنا جیون ایک اچھے جیون ساتھی کے ساتھ گزارے۔ میں نے کہا۔ انکل شادی کروں تو کس سے کروں؟ شادی کے لئے رشتہ تو والدین تلاش کرتے ہیں۔ اگر مجھے اپنے والد کی جگہ سمجھو تو میں تمہارے لئے رشتہ تلاش کر چکا ہوں۔ میرا بیٹا عاطف ہے۔ تمہارے ساتھ ہی تو پر کیکٹس کرتا ہے۔ اگر تم کو پسند ہو تو میں تم کو بہو بنا لوں؟ جی انکل۔ میں نے جواب دیا۔ مجھے منظور ہے۔ یہ کہہ کر میں نے سر جھکا لیا۔ انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھ دیا تو مجھے لگا میرے والد پھر سے زندہ ہو گئے ہیں۔