فائزہ مجھ سے کہتی تھی کہ مجھ کو صورت کی وجہ سے ٹھکرایا گیا ہے۔ تم دیکھ لینا میں ثابت کر کے دکھا دوں گی کہ بد صورت لوگ بھی اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔ میں یہ بتا کر رہوں گی کہ خوبصورتی اتنی اہم چیز نہیں ہوتی جتنی خوب سیر تی ہوتی ہے۔ فائزہ میری پڑوسن تھی ، ہمارا بچپن ساتھ گزرا تھا۔ کلاس فیلو ہونے کے سبب اس کی بہنوں کی نسبت میری اس کے ساتھ زیادہ دوستی تھی۔ یہ تین بہنیں تھیں ، ان کا کوئی بھائی نہ تھا۔ ناصرہ اور قیصرہ کی شادیاں ہو چکی تھیں جبکہ چھوٹی ہونے کے سبب فائزہ بھی غیر شادی شدہ تھی۔اب بیوہ ماں کوفائزہ کی شادی کی فکر کھاۓ جاتی تھی۔ وہ ناصرہ اور قیصرہ سے کہتی رہتی کہ تم لوگ اب چھوٹی کی فکر کرو تا کہ میرے سر سے بوجھ اترے۔ ایک روز ناصرہ نے ماں کو خوشخبری سنائی۔ رشتے کے ایک دیور نے اس کے ذمے یہ فرائضہ لگایا ہے کہ اپنے خاندان سے کوئی لڑکی اس کے لئے تلاش کرے۔ ناصرہ نے سلیم سے فائزہ کاذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ تم امی کے گھر چل کر ایک نظر میری بہن کو دیکھ لو۔ مجھے لڑکی دیکھنے کی ضرورت نہیں ، وہ امی دیکھ لیں گی۔ آپ کی بہن آپ کے جیسی ہی ہوں گی۔ہاں ! میرے جیسی ہی ہے ۔ ناصرہ نے کہا۔ پھر تو ٹھیک ہے بھائی۔ مجھے آپ جیسی ہی شریک حیات چاہئے ۔ ناصرہ کی ”میرے جیسی“ کہنے سے مراد عادات واطوار اور سلیقہ شعاری تھی جبکہ سلیم کا مطلب صورت و شکل سے تھا اور صورت و شکل میں تو ناصرہ محض خوبصورت نہیں بلکہ لاکھوں میں ایک تھی۔ پس وہ سمجھا جیسی حسین ناصرہ ہے ،اس کی بہن فائزہ بھی ویسی ہی ہو گی۔ سلیم کے ہاں خود لڑ کی دیکھنے کارواج نہیں تھا،مائیں ہی لڑ کی دیکھتی اور پسند کرتی تھیں۔ سو سلیم کی ماں، ناصرہ کے ساتھ اس کی والدہ کے گھر آئی اور فائزہ کو دیکھتے ہی پسند کر لیا۔ مائیں صرف خوبصورتی نہیں دیکھتیں۔ جس کو بہو بنانا ہو وہ اس میں اور بھی گن دیکھتی ہیں ۔ جب فائزہ سے بات کی تو سلیم کی امی کو اس میں طریقہ ، تمیز ،اچھا اخلاق غرض اور بھی گن نظر آۓ۔ سوانہوں نے ہاں کہہ دی۔ بیٹے کو بھی خوشخبری سنادی کہ مجھے کو ناصرہ کی بہن پسند آئی ہے ۔ فائزہ کی تعریف بھی کی۔ سلیم خوش تھا کہ اس کی شادی ناصرہ بھابی کی بہن سے ہو رہی ہے۔ ناصر ہ کی مثالی زندگی ان لوگوں کے سامنے تھی۔ وہ حسین ہونے کے ساتھ اچھا جہیز لے کر آئی تھی کیونکہ اس کے والد نے کافی روپیہ اور جائداد چھوڑی تھی۔ سسرال میں اس کی عزت تھی۔ حسن اور دولت بہت سے عیب چھپا دیتے ہیں۔ بے شک دولت مند لڑ کی سلیقہ شعار نہ ہو تو گزارہ ہو جاتا ہے لیکن ناصرہ تو سلیقہ شعار بھی تھی اور سادگی پسند بھی۔اس کی مثالی کامیاب ازدواجی زندگی سے متاثر ہو کر ہی سلیم کی ماں نے فائزہ کو بہو بنانے کا سوچا تھا۔ معلوم نہ تھا کہ ناصر ہ اور قیصر ہ جہاں خوبصورت ہیں ، وہاں ان کی چھوٹی بہن فائزہ معمولی شکل وصورت اور سانولے رنگ کی ہے۔ وہ کسی طور اپنی بہنوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی ،البتہ سیرت میں ان سے کہیں زیادہ تھی۔ بہر حال دو چار بار کے آنے جانے سے سلیم کی والدہ کو تسلی ہو گئی کہ اس نے ٹھیک لڑکی کا انتخاب کیا ہے ۔ کچھ دنوں بعد شادی کی تاریخ طے کر دی گئی۔ چٹ منگنی ، پٹ بیاہ والی بات ہو گئی۔ مگر شادی کی رات جو خوشیوں کی رات ہوتی ہے ، سوفائزہ نے بھی اس رات بارے سینے دیکھ رکھے تھے مگر اس کے سارے سپنے چکنا چور ہو گئے۔ سلیم نے گھونگٹ اٹھاتے ہی پہلا سوال کیا۔ کیا تم بھابھی ناصر ہ کی بہن ہو ؟ تم ان کے جیسی تو نہیں ! سمجھی فائزہ نے سوالیہ نظروں سے دولہا کو دیکھا۔ وہ تو بہت خوبصورت ہیں ،ان کی رنگت سرخ و سفید اور تم توان کا الٹ ہو ۔ کیا بہنوں کی شکل وصورت میں اتنا تضاد بھی ہوتا ہے ؟ دولہا کے اس سواگت سے فائزہ کے نازک دل کو دھچکا لگا، وہ ضبط کر گئی۔ سلیم نے اس پر بس نہ کیا۔ کہنے لگا۔ پتا نہیں میری ماں کو مجھ سے کیادشمنی تھی۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ میرے لئے ایسی بیوی منتخب کریں گی۔ میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ میرا تمہارا گزارہ مشکل ہے۔ گویا کہ پہلی نظر دیکھ کر ہی اس نے اپنی شریک حیات کورد کر دیا بلکہ اپنی دلہن پر الفاظ کے پتھروں کی برسات کردی۔ فائزہ گنگ بیٹھی سن رہی تھی۔ کچھ دیر پہلے وہ جو خواب دیکھ رہی تھی ، سارے کانچ کے ٹکڑے ثابت ہوۓ۔ایسے ٹوٹ کر بکھرے کہ ان کے ٹکڑے بھی ملنا مشکل ہو گئے۔ ضبط کی ہزار کوشش کے باوجود آنسو اس کی آنکھوں سے بہ نکلے اور سارے خواب قطرہ قطرہ اشکوں کی شکل میں ٹپکنے لگے ۔ وہ خاموشی سے یہ خزانہ لٹارہی تھی اور سلیم کی زبان کسی زہر یلے ناگ کی طرح اپنا کام کر رہی تھی۔اس کی صورت پر فقرے اور اس کی رنگت پر طنز کے تیر فائزہ کی روح تک کو زخمی کر رہے تھے تبھی وہ پھٹ پڑی ، تو بجاۓ اس کی دل جوئی کرنے کے وہ اٹھ کر کمرے سے باہر چلا گیا اور فائزہ ساری رات ارمانوں کی کانٹوں بھری سیج پر تنہا بیٹھی سسکتی رہ گئی۔ بغیر کسی قصور اور گناہ کے ووذ ہنی اذیت کی سولی پر چڑھادی گئی تھی صبح ہونے سے پہلے وہ کمرے میں واپس آگیاتا کہ کسی کے جاگ جانے سے قبل اپنی دلہن کے پاس موجود ہو اور کوئی اسے غلط نہ سمجھ لے۔ دوسرے دن ولیمہ تھا، وہ سب سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا جیسے رات کچھ ہوا ہی نہیں۔ فائزہ سوچتی رہ گئی کہ مرد ا تنے ظالم اور سفاک بھی ہوتے ہیں کیا؟ میری زندگی تباہ کر کے ، میرے ارمانوں کا گلا گھونٹ کر وہ کس طرح چہرے پر مسکراہٹ سجاۓ ہوۓ ہے اور سب سے ہنس ہنس کر مل رہا ہے ۔ایک مہینہ خاموشی سے گزر گیا۔ فائزہ بہت بہادر لڑ کی تھی۔اس نے ہر طرح سے حالات کا مقابلہ بڑی سمجھداری سے کرنے کی ٹھان لی تھی لیکن ساس نے محسوس کر لیا کہ کوئی گڑ بڑ ضرور ہے ۔اس نے بہو سے پوچھا۔ تم لوگ کھنچے کھنچے کیوں رہتے ہو ؟ یہ سوال آپ سلیم سے پوچھ لیں ۔ ماں کا شک یقین میں بدل گیا۔ شام کو جب سلیم گھر آیا، ماں نے اپنے کمرے میں بلا کر اس سے پوچھا۔ تم کچھ اکھڑے سے رہتے ہو ، بیوی کے ساتھ بھی تمہارار و یہ پھیکا پھیکا سا ہے ۔ کیا بات ہے ؟ فائزہ نے کچھ کہہ دیا ہے یا اس سے کوئی غلطی ہو گئی ہے ؟اگر کوئی ایسی بات ہے تو مجھے بتائو، میں اسے سمجھا دوں گی۔ ماں ! وہ ہر گز مجھے قبول نہیں ہے ۔ آپ نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے۔ سارے جہان میں میرے لئے آپ کو یہی ایک لڑکی ملی تھی ؟ اپنے اکلوتے بیٹے کے آنگن میں اتارنے کو میرے لئے یہی چاند رہ گیا تھا۔ اگر کوئی اس سے بھی زیادہ حبشی شکل مل جاتی تو کیا اس کو بہو بنالا تیں ؟ آپ کی پسند کو میں اس قدر گیا گزرا نہیں سمجھتا تھا۔ میں نے آپ پر بھروسہ کیا، میرا اعتماد مجھے لے ڈوبا۔ کم از کم اس کی رنگت پر تو غور کر لیا ہوتا۔ کیا مطلب ہے تمہارا! کیا ہوا ہے فائزہ کو ؟ اتنی اچھی تو ہے ۔ آج کل کے دور میں اتنی سلیقہ شعار لڑ کی ڈھونڈے سے نہیں ملے گی۔ صورت ہی سب کچھ نہیں ہوتی بیٹے ! یہ ایسی لڑکی ہے کہ تمہارے گھر کو جنت بنادے گی۔ مجھ کو نہیں چاہئے ایسی جنت ۔ تم اس کو کیوں ٹھکرارہے ہو ، آخر اس کا قصور کیا ہے ؟ میرا کیا قصور ہے ؟ میں تو ناصرہ بھابی کو اپنا آئیڈیل مانتا تھا۔ مجھ کو کیا خبر تھی کہ ان کی سگی بہن اتنی گئی گزری ہو گی۔ میں اس کالی کلوٹی کے ساتھ کیسے گزارہ کروں ؟ اسے دیکھ کر میرا دل ہی خوش نہیں ہوتاتو میں کیا کروں۔اس میں تو ناصرہ بھابی کے جیسی ایک بھی ادا نہیں ہے ، یہ تو عجب ہی چیز ہے ، مٹی کے مادھو جی۔ اس کو نہیں رکھ سکتا۔ میں اسے طلاق دے دوں گا۔ بیٹے کے منہ سے یہ الفاظ سن کر سلیم کی ماں سکتے میں آگئی۔ خبر دار ک جو طلاق کا نام بھی لیا۔ ہمارے خاندان میں آج تک ایسا نہیں ہوا۔ جس سے شادی ہو گئی ، نباہ کیا۔ تم کو بھی اپنے خاندان کے رواجوں کی حفاظت کرناہو گی۔اگر ہمارے خاندان میں طلاق نہیں ہوتی تو خود سنبھالیے اپنی اس بہو کو۔ میں یہاں سے چلا جائوں گا آپ خود اپنی اس خوب سیرت بہو کے ساتھ رہیں ۔ یہ کہہ کر سلیم اپنے کمرے میں چلا گیا۔ جب اس نے گھر چھوڑ جانے کی دھمکی دی تو ماں پر یشان ہو گئی۔ بہت عرصہ قبل وہ بیوہ ہو گئی تھیں۔انہی بیٹوں کے سہارے بیوگی کاٹ دی، دوسری شادی کا بھی نہیں سوچا۔ وہ خاموش رہ گئیں۔ سواۓ دعا کے کیا چارہ تھا کہ خدا سلیم کو ہدایت اور اس کے دل میں فائزہ کے لئے محبت پیدا کرے۔ سلیم نے فائزہ سے دوری قائم رکھی۔ ساس ہر وقت فائزہ ہی کو سمجھاتی رہتی کہ بیٹی ! تم صبر کرو اللہ تعالی خود تمہاری زندگی میں بہتری پیدا کر دے گا۔ تم بس سلیم کے سارے کام اپنے ہاتھوں سے کیا کرو، آخر ایک دن وہ تمہارا ہو جاۓ گا۔ فائزہ نے ساس کی بات مان لی۔ وہ شوہر کے تمام کام اپنے ہاتھوں سے کرتی ، ساس کی بھی خدمت کرتی ، ایک بیٹی کی طرح اس کا خیال رکھتی لیکن سلیم کا دل نہ جیت سکی ،اس کو خود سے محبت کرنے پر مجبور نہ کر سکی۔ سلیم کی بے رخی اٹل تھی – ایک دن کچھ مہمان آۓ ہوۓ تھے۔ سلیم ان کے ساتھ بیٹھا تھا۔ کہا۔ چاۓ بنا کر مہمانوں کو دو۔ اس نے حکم کی تعمیل کی ۔اس نے مہمانوں کے سامنے کیک، سموسے اور چائے وغیررکھے تھے۔ جب سلیم کے سامنے پلیٹ رکھی تو اس نے اٹھا کر پرے پھینک دی۔ کہا کہ یہ صاف نہیں ہے ، حالانکہ پلیٹ صاف تھی۔ صرف اس کی اہانت کرنے کو سب کے سامنے اس نے ایسا کیا تھا۔ شر مند گی کے مارے فائزہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ اپنے کمرے میں آگئی۔ آج تو آنکھوں سے نہ تھمنے والی جھڑی لگ گئی تھی۔ اس کے آنسو پونچھنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ تکیے کو ہمراز بناتے ہوۓ سارے آنسو اس کے سپر د کرتی رہی۔ پتا نہیں رات کے کس پہر نیند نے آکر اس کو اس اذیت سے نجات دلادی۔ مہمانوں کے جانے کے بعد سلیم بھی گھر سے چلا گیا اور ساری رات نہ آیا۔ ماں اب سلیم کے اس رویے پر کڑھ کڑھ کر بیمار رہنے لگی تھی۔ جب بیٹے کو سمجھاتی ، وہ الجھ پڑتا۔ کہتا۔ زیادہ تنگ کرو گی تو اسے طلاق دے کر چلتا کروں گا۔ میں میری شرافت ہے کہ نہ چاہتے ہوۓ بھی اس کو گھر میں رکھا ہوا ہے۔ ماں اس کو سمجھاتی بھی تھی کہ بیٹا ! دل کی آنکھیں کھول کر دیکھو۔ فائزہ ہیرا ہے اور ہیرے کی قدر کرنا سیکھو۔ تم کیوں عارضی چمک دمک والی چیزوں کی طرف بھاگتے ہو۔ سلیم ماں کو ہی جھڑک دیتا تب وہ خود کو ان دوزندگیوں کی بربادی کا مجرم سمجھنے لگیں۔ اسی طرح اذیت سہتے ہوۓ فائزہ کو آٹھ ماہ کا عرصہ گزر گیا۔ اس دوران وہ میکے بھی کم ہی آئی۔ ایک دن ناصرہ آئی،اس نے بہن کو افسردہ اور مر جھایاہوادیکھا تو پوچھا۔ کیا بات ہے فائزہ ! کیا تم یہاں خوش نہیں ہو ؟ وہ بولی۔ میں تو خوش ہوں آ پا! مگر سلیم خوش نہیں ہیں۔ کیا وہ تم سے براسلوک کرتے ہیں؟ برا سلوک نہیں کرتے تو اچھا سلوک بھی نہیں کرتے۔اتنی بات دکھی دل نے کہی ہی تھی ، کہ یہ باتیں سلیم نے سن لیں۔ ناصرہ کے ہوتے ہوۓ تو کچھ نہ کہالیکن اس کے جانے کے بعد وہ سخت فیصلہ کر لیا جو وہ کئی دنوں سے کر نا پا رہا تھا۔ بہن سے گلے کرنے کا بہانہ بنا کر اس نے ایک روز فائزہ کے ہاتھ میں کچھ کاغذ پکڑادیئے۔ کہا کہ ہماری دونوں کی زندگی بر باد رہنے سے بہتر ہے کہ تم اپنی مرضی سے زندگی گزارواور میں اپنی مرضی سے ، یہی ہم دونوں کے لئے بہتر ہو گا۔ تم میری طرف سے آزاد ہو ، جس کے ساتھ چاہو زندگی گزارو۔ میں بھی دفتر میں اپنے ساتھ کام کرنے والی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں تا کہ وہ خوشی جو تم سے نہ مل سکی، پاسکوں۔ فائزہ بر بادی کا کاغذ لئے کھڑی تھی۔اس نے ساس سے کہا۔ اب آپ مجھ کو مزید صبر کی تلقین مت کرنا۔ سلیم نے میرے بارے تفصیل سے فیصلہ کر دیا ہے۔ براۓ مہربانی آپ مجھے میکے چھوڑ آئیں ۔ ساس اس کے یہ الفاظ سن کر رو پڑی۔اسے گلے لگایا۔ بولی۔ بیٹی ! مجھے معاف کر دینا، میں نے تو تمہارے لئے اچھا سوچا تھا لیکن سب برا ہو گیا۔ ساس نے دعائیں دے کر اس بد نصیب لڑکی کو بالآخر رخصت کر دیا۔فائزہ روتی ہوئی ماں کے دروازے پر واپس آگئی۔ جب ماں کو اس نے طلاق کے کاغذات دکھاۓ تو وہاں کہرام مچ گیا۔ بجاۓ سلیم کو برا بھلا کہنے کے دونوں بہنوں نے اسے ہی دوش دیا، برابھلا کہا ، قصور وار ٹھہرایا کہ تمہارا ہی رویہ صحیح نہ رہا ہو گا جو تمہارے شوہر نے اتنا بڑا قدم اٹھالیا۔ اس نے تو چاہت سے شادی کی تھی۔ وہ خاموشی سے سب کی باتیں سنتی ، سوچ رہی تھی کہ یہ اذیت قابل برداشت ہے جو اپنوں سے مل رہی ہے یا وہ اذیت کا سمندر کہ جس کو پار کر کے آتی ہے؟ کسی نے اس کو گلے نہ لگا یا اور نہ تسلی دی۔ شام کو میں اس کے گھر گئی تو وہ مجھ سے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر روئی۔اس کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ میں اس کو تسلی کیاد بیتی کہ وہ خود مجھ سے زیادہ سمجھدار اور حوصلہ مند تھی میں ان دنوں ایک سلائی سینٹر میں ٹرینگ لے رہی تھی ۔ اس نے میرے ساتھ سینٹر میں داخلہ لے لیا حالانکہ اس کو یہاں داخلہ لینے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ بہت اچھی سلائی پہلے سے جانتی تھی۔ ٹیچر اس کے ہاتھ کی سلائی دیکھ کر دنگ رہ جاتی تھیں۔ فائزہ نے ڈپلوما مکمل کر لیا۔ میں اس لڑکی کے مضبوط اعصاب اور ہمت کی داد دیتی ہوں۔ اس نے ایف اے کے بعد پڑھائی چھوڑ دی تھی ، تعلیم مکمل کی ، آئی ٹی کا کورس کیا اور ساتھ اپنا بو تیک بھی شروع کر دیا۔ جلد ہی اس کے بوتیک کی شہرت ہو گئی۔ ہمارے محلے کا ایک نوجوان سعد امریکہ سے آیا ہوا تھا۔ اس نے بو تیک کی شہرت سنی تو اپنی خالہ سے کہا کہ مجھ کو فائزہ کا کام دیکھنا ہے۔ جب اس کے بوتیک کے کپڑے دیکھے تو آرڈر پر کچھ گارمنٹ بنواۓ ۔ وہ ان کو امریکہ لے گیا، جہاں اس کا بزنس تھا۔ وہاں ان کپڑوں کو خوب پذیرائی ملی۔ سعد نے فائزہ کومزید آرڈر دے کر بہت سے گارمنٹ حسب منشاء بنوائے۔اس شخص کی قسمت کھل گئی ، اس کا بزنس چل پڑا۔ بہت منافع پر فائزہ کے بناۓ ہوۓ لباس وہاں بکتے تھے اور ڈیزائن بے حد پسند کئے جاتے تھے ۔اس بار وہ آیا تو اس نے فائزہ کو شادی کی آفر کر دی جس کو اس نے قبول کر لیا۔ سعد سے شادی کر کے وہ امریکہ چلی گی ۔ وہ چھ سال بعد پاکستان آئی۔ مجھ سے ملی تو میں اس کو خوش دیکھ کر نہال ہوگئی۔ اس کا شوہر اس سے بہت پیار کرتا ہے۔ آج فائزہ کے پاس کسی شے کی کمی نہیں ہے۔ سچ ہے کہ ہیرے کی قدر جوہری ہی جانتے ہیں۔ فائزہ کے تعاون سے سعد کا بزنس ترقی کر چکا ہے ۔ دونوں خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں ۔ اس نے یہ ثابت کر دیا کہ انسان تد بیر کرے اور ہمت نہ ہارے تو وہ اپنی منزل پاسکتا ہے ۔ ادھر سلیم نے اپنی پسند کی شادی کر لی – اپنی ساس کو اس نے ایک مہینہ بھی ٹکنے نا دیا – سلیم سے ہر وقت کی بے جا فرمائشیں کر کر کے اس کا بھی جینا حرام کر دیا – تب کبھی اسے فائزہ کی یاد آتی لیکن وہ مجبور تھا اپنی ماں تو کھو چکا تھا پر اپنے بچوں کی ماں کو برداشت کرنا اس کی مجبوری تھی –