بابا گریجویٹ تھے۔ نوکری نہ ملی تو رکشہ چلانا شروع کر دیا۔ ایک روز وہ امی کو اسپتال لے جا رہے تھے کہ رکشہ الٹ گیا۔ والدہ کو شدید چوٹیں آئیں، یوں ان کا ساتھ چھوٹ گیا۔ بڑی بہن بانو آٹھویں میں تھیں ، انہوں نے اماں کی ذمہ داری کو فرض جان کر نبھایا۔ والد کی اتنی آمدنی نہ تھی کہ گھر کے ساتھ ساتھ ہمارے تعلیمی اخراجات بھی اٹھاتے ، یوں یہ ذمہ داری بھی آپا نے اٹھالی۔ ہم تینوں بہین بھائی میں وہی زیادہ سمجھ دار تھیں۔ انہوں نے اپنے بل بوتے پر میٹرک تک تعلیم حاصل کی، پھر پڑھائی کو خیر باد کہہ کر اسکول میں ٹیچر لگ گئیں اور ملازمت کے ساتھ ٹیوشن پڑھا کر ہمارے تعلیمی اخراجات پورے کرنے لگیں۔ بابا کے کندھوں پر دو جوان بیٹیوں کا بوجھ بھت اور اس منکر نے ان کو وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا۔ وقت کسی کے لئے نہیں رکھتا اور حالات کسی کے کہنے پر بدلتے نہیں۔ ہاں، انسان اگر خود ڈھال بن جائے تو حالات کا مقابلہ کرنا کچھ مشکل بھی نہیں۔ آپا ، میرا آئیڈیل تھیں، جنہوں نے مجھے کسی موڑ پر بھی کبھی کمزور نہیں ہونے دیا۔ وہ حالات سے مقابلہ کرنا بخوبی جانتی تھیں، میں نے اُن سے کبھی کوئی بات نہیں چھپاتی تھی کیونکہ میری نظر میں ان کا درجہ ماں جیسا تھا۔ اپنی سہیلی زویا کی برتھ ڈے پارٹی میں میری ملاقات ابراہیم سے ہوئی ، وہ اس کے بڑے بھائی تھے۔ اس کے بے حد اصرار پر میں پہلی بار اس کے گھر گئی تھی۔ وہ مجھے اپنی فیملی سے ملانا چاہتی تھی۔ اس کی فیملی سلجھی ہوئی تھی۔ گھر کے سبھی افراد محبت کرنے والے، پڑھے لکھے لوگ تھے۔ ابراہیم ان میں بہت منفر دتھے، سمجھ دار اور خاموش طبع، ایسی شخصیت کے مالک، جس کے ساتھ کی ہر لڑکی خواہش کر سکتی تھی۔ ان لڑکیوں میں شاید میرا بھی شمار ہو جاتا، مگر میں نے اس خواہش کو ختم کر دیا۔ میں زمین اور آسمان کا فرق سمجھتی تھی۔ میری آنکھ ایک غریب گھرانے میں کھلی تھی اور وہ بھی ایک بیٹی کی حیثیت ہے۔ ہمارا گھرانہ گرچہ پڑھا لکھا اور عزت دار تھا، مگر غربت اور حالات کی کم ظرفی نے کسی کو آگے بڑھنے نہ دیا۔ تبھی میں زویا کے گھرانے سے متاثر تھی کہ یہ لوگ کتنے سلجھے ہوئے اور خوشحال تھے۔ میرا من کرتا ان کے گھر میں رہ جاؤں۔ ابراہیم سے اب روز ہی سامنا ہونے لگا، یوں کہ زویا کو کالج لانے لے جانے کی ڈیوٹی اس کی تھی، اس کے باوجود میں نے کبھی اس سے بات نہیں کی اور اس نے بھی مجھے مخاطب کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ کچھ دنوں بعد زویا نے بتایا کہ اس کی دادی کی طبیعت بہت خراب ہے ، اس لئے اس کو اسلام آباد جانا ہے اور تھوڑے دنوں بعد وہ چلی گئی۔
ادھر آپا کارشتہ طے ہو گیا۔ ان کی بات بچپن سے تایا زاد سہیل سے طے تھی۔ آپا کی شادی سادگی سے ہو گئی ، جو بابا سے بن پڑا دے دیا اور باقی حالات پر چھوڑ دیا۔ زویا اور آپا کا چلے جانا میرے دل کو ویران کر گیا۔ اب میں اداس رہنے لگی، تبھی خود کو مشغول کرنے کے لئے بچوں کو گھر پر ٹیوشن پڑھانے لگی۔ ایک دن میں نے بھائی ارسلان کے اسکول اور اپنی کالج کی فیس کے سلسلے میں بابا سے بات کی تو انہوں نے بڑے اطمینان سے مشورہ دیا کہ کالج چھوڑ دو۔ مجھے ان کی بات ذرا پسند نہ آئی۔ انہوں نے پڑھے لکھے ہو کر ایسا کہا، تو افسو س ہوا۔ اس کے بعد بابا سے کبھی اس بارے بات نہ کی، بلکہ کوشش شروع کر دی کہ ٹیوشن سے ہی اپنے اور بھی نے اور بھائی کے تعلیمی اخراجات اٹھا سکوں ۔ ایک دن آپا نے مجھے بتایا کہ بابا نے اپنے ایک امیر کبیر دوست کے بیٹے جمیل کے ساتھ میرا رشتہ طے کر دیا ہے۔ افتخار انکل کو میں جانتی تھی، وہ بابا کے بچپن کے دوست تھے، لیکن اتنی جلد کسی بندھن میں نہیں بندھنا چاہتی تھی، میری تعلیم ابھی ادھوری تھی اور ابھی تو بھائی پڑھ رہا تھا۔ میں نے آپا سے بات کی تو انہوں نےکہا کہ تم فکر نہ کرو۔ بابا ارسلان کو ہاسٹل میں داخل کروا رہے ہیں اور میں نے جتنا پڑھنا بھت پڑھ لیا ہے۔ جمیل اچھا لڑکا تھا، سلجھا ہوا۔ وہ ایک اعلیٰ محکمے میں پائلٹ تھا۔ اب انکار کا کوئی جواز نہ بھتا، تبھی میں نے ہاں کر دی، یوں ہماری منگنی ہو گئی۔ میں نے کالج جانا چھوڑ دیا اور ٹیوشن کے ساتھ ساتھ سلائی کڑھائی کرنے لگی، تو وقت اچھا گزرنے لگا۔ کچھ دنوں بعد زویا واپس آگئی۔ میں نے گلہ کیا کہ تم تم کچھ دن کا کہہ کر گئی تھیں اور چار ماہ بعد واپس آئی ہو۔ پھر کیا کرتی ؟ دادی جان کی طبیعت بہت خراب تھی۔ کچھ دن بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ اس کی دادی نے انتقال سے پہلے تایا زاد زوہیب سے اُس کا اور ابراہیم کارشتہ زوہیب کی بہن رمشا سے طے کر دیا تھا۔ زویا نے بتایا کہ ابراہیم بھائی رمشا سے شادی پر راضی نہیں ہیں۔ انہیں کوئی اور لڑکی پسند ہے۔ کون ہے وہ لڑکی ؟ میں نے پوچھا۔ ایک ہے ، بتا دوں گی۔ ا اس نے جواب دیا۔ دوسری بار وہ ملی، تو بہت پریشان تھی۔ کہنے لگی۔ سلمی گھر میں بڑا مسئلہ ہو گیا ہے۔ خاندان میں یہ طے ہو گیا ھتا کہ میری شادی زوہیب سے ہو گی، تو اس کی بہن، میرے بھائی کے ساتھ رخصت ہو کر ابو کے گھر آجائے گی، لیکن ابراہیم بھائی نے سب کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ ابو بھی اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ وہ کون لڑکی ہے، جس کے ساتھ ابراہیم بھائی شادی کی ضد کر رہے ہیں ؟ وہ لڑکی تم ہو سلمی ! یہ سن کر میں بت بن گئی۔ زویا نے مجھے بلایا اور بولی۔ تجھے کیا ہوا ہے ؟ زویا ! آپا کی شادی سہیل بھائی سے ہو گئی ہے اور میری شادی بابا کے دوست کے بیٹے جمیل سے طے ہو گئی ہے۔ تم آپا کی شادی میں نہیں آسکیں میری شادی میں ضرور آنا۔ تمہارا رشتہ کب طے ہوا؟ وہ پریشان تھی۔ تمہارے جانے کے بعد ابو نے طے کیا تھا۔ یہ سن کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے، پھر جب اس نے بتایا کہ اس کے گھر والوں نے مجھے ابراہیم کے لئے پسند کیا تھا تو میں دم بخود رہ گئی۔ وہ کہہ رہی تھی۔ یاد ہے ، تم پہلی دفعہ جب گھر آئی تھیں میری برتھ ڈے پارٹی میں، تو پہلی نظر میں بھائی نے تم کو پسند کر لیا اور تبھی سے تمہاری چاہت کو دل میں چھپائے ہوئے تھے۔ میں دم گھونٹ کر رہ گئی۔ اُس نے واپس آکر مجھے سر پرائز دینا تھا کہ اس کے گھر والوں نے مجھے ابراہیم کے لئے پسند کیا ہے اور وہ بابا سے میرے رشتے کے لئے بات کرنے والے ہیں، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ میری شادی جمیل احمد سے ہو گئی اور میں بیاہ کر ان کے گھر آگئی۔ میں نے جمیل کی جتنی تعریف سنی تھی ، وہ اس سے بھی بڑھ کر نکلے۔ وہ ایک محبت کرنے والے شوہر اور اچھے ہم سفر ثابت ہوئے۔ گھر کے باقی لوگ بھی ٹھیک ہی تھے۔ اگر اچھے تھے، تو انکل افتخار ، جو سب سے محبت کرنے والے، سب کے لئے ایک جیسے تھے۔ میری زندگی خوشگوار گزر رہی تھی، کسی شے کی کمی نہیں تھی، مگر میں گزرے وقت کو بھولی نہ تھی، لیکن بھول جانا چاہتی تھی کیونکہ میں نے بہت کچھ پالیا تھا اور اب کھونا نہیں چاہتی تھی، لیکن یہ قسمت کی بات ہے کہ کسی کے پاس کچھ رہے یا نہ رہے، یہ وقت کا فیصلہ ہے۔
جب میرے پہلے بیٹے کی پیدائش ہوئی تب جمیل جرمنی میں تھے۔ وطن واپس آتے ہوئے ان کا جہاز کریش ہو گیا اور وہ اس دنیا سے بھری جوانی میں چلے گئے۔ میں جو انہیں کھونا نہیں چاہتی تھی، میرا سب کچھ کھو گیا۔ پھر اپنے بیٹے کے غم میں نڈھال انکل افتخار بھی دنیا چھوڑ کر چلے گئے۔ آنٹی بھی بس جی رہی تھیں کہ نجانے کب یہ بچی کچھی سانسیں ختم ہو جائیں۔ وقت نے بہت بڑی چوٹ دی تھی جس کاز خم کب بھرنے والا تھا۔ جب تک آنٹی زندہ رہیں، میں ان کی دیکھ بھال کرتی رہی اور جو نہی وہ دنیا سے رخصت ہوئیں، دیوروں نے گھر اور کاروبار بیچ دیا اور میں اپنے بابا کے گھر آ گئی۔ گھر کے وہی حالات تھے۔ وقت تھا کہ مجھے بہت پیچھے چھوڑ گیا تھا ایک دن اچانک زویا آگئی۔ اسے تو میری یاد پلٹ لائی تھی اور کسی کو بھی میرا انتظار تھا۔ اُس کو جب میرے بیوہ ہونے کا پتا چلا تو میرے گلے لگ کر بہت روئی۔ اُس نے مجھ سے کہا کہ تم واپس آجاؤ۔ آج بھی ہمارے گھر میں کوئی تمہارا راستہ دیکھ رہا ہے، تمہارا انتظار کر رہا ہے۔ وہ ابراہیم کی بات کر رہی تھی، جس نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی اور ہر رشتے کو منع کر دیا تھا۔ آج بھی اسے میری اتنی چاہ تھی جتنی کل، لیکن مجھے اس کی چاہت کی گہرائی کا نہ کل پتا چلا اور نہ آج۔ ہم دونوں میں ، کل جتنا فاصلہ تھا، اتناہی آج بھی تھا۔ یہی بات میں نے زویا کو سمجھائی، مگر وہ نہ مانی۔ اسے اپنے بھائی کی خوشی عزیز تھی اور وہ اس کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار تھی۔ کافی دن گزرنے کے بعد وہ دوبارہ آئی تو میں نے اس کے حسین چہرے پر پہلے والی خوشی نہیں دیکھی۔ یہ ایک اداس اور اترا ہوا چہرہ تھا۔ وہ مجھے کچھ نہیں بتانا چاہتی تھی، لیکن میرے بہت اصرار پر بتانا پڑا کہ میرے اور ابراہیم . اور ابراہیم کے رشتے پر اس کی والدہ نہیں مان رہیں۔ گھر کے باقی تمام افراد تمہیں چاہتے ہیں، لیکن امی نہیں۔ اس کے مرجھائے ہوئے چہرے پر مردنی، نمی بن کر آنکھوں میں اتر چکی تھی۔ میں نے کہا کہ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں۔ پہلے کی بات اور تھی دوست، مگر اب کی بات اور ہے۔ تمہیں اپنی ماں کے جذبات سمجھنے چاہیں۔ میرے اتنا سمجھانے کے باوجود وہ نہیں مانی۔ اسے اپنی دوست اور بھائی کی پسند زیادہ عزیز تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ جس طرح گھر کے باقی لوگ مان گئے ، اسی طرح ماں بھی مان جائیں گی۔ کئی دن گزر گئے ، وہ نہ آسکی۔ مجھے اس کی فکر لاحق تھی کہ خدا خیر کرے۔ پتا چلا کہ اس کی امی کا ہارٹ فیل ہو گیا ہے اور وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ اس خبر نے میرے پیروں تلے سے زمین نکال دی۔ کیا یہ سب میری وجہ سے ہوا؟ زویا نے کہا تھا کہ وہ ہر حال میں ماں کو اس بات پر راضی کرلے گی کہ وہ مجھ بیوہ کو بہو کے روپ میں قبول کر لیں مگر ایسا نہ ہو سکا اور ہو بھی کیسے سکتا تھا۔ کون ماں ہو گی ، جو اپنے جواں سال بیٹے کے لیئے ایک بیوہ اور ایک بچے کی ماں کا رشتہ قبول کرلے ؟ ابراہیم کو اچھے رشتوں کی کمی نہ تھی، مگر زویا میری محبت میں یہ بات نہ سمجھ سکی۔ کل بھی میں نے ابراہیم اور اپنے درمیان طویل فاصلہ محسوس کیا تھا اور آج بھی اسی فاصلے کی شدت کو محسوس کر لیا۔ سچ ہے کہ آسمان اور زمین ایک نہیں ہو سکتے۔ کسی کی خواہشوں کے مزار پر اپنی خوشی کا ٹھکانہ تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔ اس حادثے کے بعد میں اپنے وہ گھر، وہ محلہ ہی چھوڑ دیا، جہاں زویا جیسی دوست ، بے انتہا چاہنے والا ابراہیم رہتا تھا، جس کی خاموش چاہت نے اُسے جلا کر کندن بنا دیا تھا۔ میں نے سب سے کنارہ کر لیا۔ اب میرا نیا سفر شروع ہو ا تھا، جہاں مجھے حالات سے مقابلہ کر کے ایک نئی دنیا بنانی تھی، خوشیاں تلاش کرنا تھیں۔ اب تو یہی دعا تھی کہ جن رستوں پر چلوں، وہ مجھ پر آسان ہو جائیں اور میں اپنی منزل پر پہنچ جاؤں۔ میری منزل میرا بیٹا تھا، جس کو میں نے پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنانا تھا۔ اس کی پرورش توجہ اور سلیقے سے کرنا تھی تا کہ اس کی شخصیت کی تعمیر میں کوئی کر نہ رہ جائے۔ وہی راستہ بھتا، وہی پاؤں تھے ، وہی انتقل سفر بھتا، مگر منزل بہت دور تھی۔ میں نے ایک پرائیویٹ اسکول میں ملازمت کرلی اور اخراجات پورے کرنے کے لئے ساتھ ساتھ ٹیوشن بھی پڑھانے لگی۔ اس کے سوا چارہ نہ تھا۔ آمدنی کا یہی ذریعہ میری دسترس میں بھتا اور محنت کے اسی سفر سے میرے پاؤں آشنا تھے، جو کبھی تھکتے تھے تو کبھی پھر سے چل پڑنے کی خاطر ایک نئے عزم کے ساتھ تازہ دم ہو جاتے تھے۔ میں سوچتی تھی اللہ نے جو نصیب میں لکھ دیا ، وہی ملتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جیسے موت اپنے وقت پر انسان کو تلاش کر لیتی ہے ، ویا تی ہے ، ویسے ہی رزق بھی اللہ کے بھی اللہ کے حکم سے انسان کو تلاش کر لیتا ہے۔ جو تقدیر میں بھا مل رہا تھا۔ زندگی نا آسودہ تھی پھر بھی کسی کی محتاجی نہ تھی مگر ، ایک خلش تھی جس نے مجھے ادھورا بنارکھا تھا، جو کبھی کبھی مجھے تڑپا دیتی تھی۔ ایسے ہی سال پر سال گزرتے رہے۔ بابا جان کا انتقال ہو گیا تو میں ان کے آسرے سے بھی محروم ہو گئی۔ اب میرا بیٹا چودہ برس کا تھا اور میٹرک میں پڑھ رہا تھا، جب ایک روز کسی عزیز کی زبانی زویا اور ابراہیم کو بابا کے انتقال کا پتا چلا۔ وہ پتا پوچھتے تعزیت کو چلے آئے تھے۔ پنے گھر کے گھنٹی بجنے پر میں نے دروازہ کھولا ، تو توان ناشناس چہروں کو مدت بعد اپنے کھر دروازے پر دیکھ کر حیران رہ گئی۔ ایک منٹ کے لئے تو ان کو اندر بلانا ہی بھول گئی، بہر حال پھر زویا میرے گلے لگ گئی۔ بچھڑے ہوؤں نے گلے شکوے بھی کئے اور افسوس بھی، یوں ٹوٹا ہو ا سلسلہ ایک بار پھر سے جڑ گیا، پھر وہ آنے جانے لگی۔
ایک بار پھر اس نے وہی بات میرے کان میں کہی ، وہی سحر پھونکا کہ بھائی ابھی تک تمہارے انتظار میں ہیں۔ اب تو ہاں کر دو۔ میں خاموشی سے سن اور سوچ رہی تھی کہ اتنے بچے جذبوں کو ٹھکرانے سے کفران نعمت ہوتا ہے۔ تو کیا ہاں کر دوں ؟ تبھی ایک شگفتہ آواز میرے کان سے ٹکرائی۔ یہ آواز میرے بیٹے کی تھی، جو پوچھ رہا تھا کہ ماں ! کیا سوچ رہی ہو ؟ اور کس بات کی ہاں کرنی ہے، مجھے بھی تو بتاؤ۔ میں نے لمحہ بھر کو اپنے بیٹے کے شگفتہ چہرے کی طرف دیکھا، جسے جوانی کی بہار نے نوخیزی کا روپ دیا اور پھر اسے سوال کا جواب دینے سے جھجک گئی۔ بس اتنا ہی کہا کہ کچھ نہیں بیٹے، کوئی ہاں نہیں کر رہی کیونکہ میں تو تمہارے لئے جی رہی ہوں اور تمہارے لئے ہی جینا ہے عمر بھر۔ اور زویا کے سوال کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ میری دوست ! مجھے دیکھو اور میرے بیٹے کو دیکھو ، جو اب جو ان ہو رہا ہے۔ اب زندگی کا ساتھی ڈھونڈنے کے اس کے دن ہیں۔ میں اسے کیا جواب دو گی؟ جب وہ پوچھے گا کہ اتنے عرصے بعد میرا دوسرا باپ لے آئی ہو۔ پہلے یہ قدم کیوں نہ اٹھا لیا، جب میں چھوٹا تھت اور آپ سے کوئی سوال نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے جو ارادہ کیا تھا، دل میں ایک بار پھر اسے مٹا ڈالا۔ زویا نے پوچھا۔ کیا سوچ رہی ہو ؟ تو میں نے کہا۔ اب میں دوسری شادی نہیں کر سکتی۔ میرا جوان بیٹا ہے، تم اسے تقدیر کا لکھا ہی سمجھ لو کہ میں اور ابراہیم ایک نہیں ہو سکتے۔ یہ ہماری قسمت میں نہیں۔ میرا جواب سن کر اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ وہ میری مجبوری سمجھ گئی۔ اس نے دوبارہ کوئی بات نہ کہی اور بھاری قدموں سے لوٹ گئی اور میں ڈبڈبائی آنکھوں سے اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہ گئی۔