Saturday, December 14, 2024

Taqdeer Ke Saaye

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم پنڈی میں اور چچا جان کشمیر میں رہا کرتے تھے۔ جب وہ اپنی دکان کا سامان لینے آتے تو ہمارے گھر ٹھہرتے تھے۔ اس بار وہ اپنی اکلوتی بیٹی فریدہ کے ساتھ آئے، جو میری ہم عمر تھی۔ مجھے اس کے آنے کی بہت خوشی ہوئی۔ یہ صبح کا وقت تھا۔ میرا بھائی جمیل سو رہا تھا۔ میں دوڑی ہوئی اس کے کمرے میں گئی اور اسے جگا کر بتایا کہ مہمان آئے ہیں، مگر وہ ایک لمبی ہوں کر کے پھر سو گیا۔ سب ہی چچا سے ملے۔ تب انہوں نے پوچھا کہ جمیل کہاں ہے؟ کیا اسکول چلا گیا ہے؟ میں پھر بھائی کے کمرے کی طرف دوڑی اور اسے جھنجھوڑ کر کہا، اٹھو، چچا سے ملنے ادھر ہی آ رہے ہیں۔ تب وہ اٹھ کر جلدی سے غسل خانے میں گھس گیا۔ ہاتھ، منہ دھو کر باہر آیا اور چچا اور فریدہ کو سلام کیا۔ امی نے کہا، جمیل، جلدی سے تیار ہو کر اسکول جاؤ، تم لیٹ ہو رہے ہو۔ میں نے دیوار پر لگی گھڑی کی طرف اشارہ کیا، دیر نہیں ہو رہی ہے، دیر ہو چکی ہے۔ دیر تو واقعی ہو چکی تھی، یوں اسے چھٹی کا بہانہ مل گیا۔

ابا جان علی الصبح ڈیوٹی پر چلے جاتے تھے، ان کی غیر موجودگی نے بھائی کو لاپرواہ بنا دیا اور وہ دیر سے اٹھنے کا عادی ہو گیا۔ امی کی ڈانٹ ڈپٹ کا تو اس پر کوئی اثر ہی نہ ہوتا۔ میں اور امی کچھ دیر چچا اور فریدہ کے پاس بیٹھے باتیں کرتے رہے، پھر ناشتہ کی تیاری میں مصروف ہو گئے۔ ناشتہ کے بعد چچا بازار گئے اور فریدہ میرے کمرے میں آرام کرنے چلی گئی۔ تب ہی جمیل بھی کمرے میں آ گیا اور دونوں باتیں کرنے لگے۔ جب میں وہاں سے گزری تو کانوں میں ان کی آواز آئی۔ فریدہ کہہ رہی تھی، جمیل تم سب سے زیادہ کس سے پیار کرتے ہو؟امی سے، اس کے بعد سب گھر والوں سے۔اس کے علاوہ بھی تو بتاؤ، فریدہ نے کہا۔دونوں ہی میٹرک کے طالب علم تھے، کم سن تھے۔ ان کی باتیں بھی کم سنوں جیسی ہی تھیں۔کیا میں تمہیں اچھی نہیں لگتی؟ہاں، لگتی ہو، مگر میں تم سے پیار تو نہیں کرتا۔میری معصوم کزن بجھ گئی۔ تمہیں یاد ہے وہ دن جب تم میرے بھائی کی شادی میں آئے تھے؟ تب سے ہر وقت تمہاری یاد میرے دل میں رہتی ہے۔ صبا سے ملنے تو ایک بہانہ تھا، دراصل میں تم سے ملنے آئی ہوں۔فریدہ کی باتیں سن کر میں حیران رہ گئی کہ وہ کتنی جرات سے یہ سب میرے بھائی سے کہہ رہی تھی، حالانکہ لڑکیاں ایسی باتیں برملا لڑکوں سے نہیں کہہ پاتیں۔کئی بار میں نے خاموشی کی زبان میں تم سے اظہار کرنا چاہا مگر تم نے میری بات کو سمجھا ہی نہیں، فریدہ نے کہا۔چلو اچھا ہوا تم نے مجھے آج بتا دیا کہ تم میری خاطر آئی ہو، ورنہ اماں میری بات کسی اور سے طے کر لیتیں تو مشکل ہو جاتی۔ تب تم کیا کرتیں؟میں تمام عمر روتی رہ جاتی اور کیا کرتی۔ان دونوں کی باتیں سن کر مجھے ہنسی آ گئی۔ تب ہی میں نے جان بوجھ کر کھڑکا کیا تو دونوں خاموش ہو گئے۔ چچا جان نے آج ہی واپس جانے کا عندیہ دیا تھا۔ یہ سن کر فریدہ کا منہ اتر گیا، وہ کچھ دن ہمارے یہاں رکنا چاہتی تھی، مگر اسکول بھی جانا تھا۔ یہ اس کی ماں کی تاکید تھی کہ وہاں جا کر رک نہ جانا، اسکول سے ناغے نہیں کرتے، امتحان نزدیک ہے۔شام کو والد صاحب آ گئے۔ ان سے مل کر چچا جانے لگے۔ میں نے دیکھا کہ فریدہ کی آنکھوں میں نمی تھی اور جمیل بھی اداس ہو گیا تھا۔ فریدہ نے اس کے دل میں اپنی محبت جگا دی تھی۔ اب جب بھی میں فریدہ کی باتیں اپنی بہن سے کرتی، جمیل دلچسپی سے اس کا ذکر سنتا۔ میں اس کی دلی کیفیت سمجھ چکی تھی۔ایک دن اسے سمجھایا کہ دیکھو جمیل، تم وقت پر اسکول جایا کرو۔ جب تک میٹرک نہیں کرو گے، چھوٹی موٹی نوکری بھی نہیں ملے گی۔ چچا تب تم کو اپنی بیٹی کا رشتہ نہیں دیں گے۔ تمہارا تعلیم حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔میری باتوں کا اثر ہوا اور جمیل وقت پر اسکول جانے لگا۔ اب وہ دل لگا کر پڑھنے لگا تھا۔ جب پڑھ رہا ہوتا، کبھی کبھی کھو سا جاتا، جیسے فریدہ کا چہرہ اس کی نظروں کے سامنے آ گیا ہو۔ موقع ملتا تو مجھ سے اس کے بارے میں باتیں کرنے لگتا۔ بار بار یاد دلاتی، آگے امتحان آنے والے ہیں۔ توجہ سے پڑھائی کرنا ہے، ورنہ فیل ہو جاؤ گے۔سالانہ پیپرز شروع ہو گئے مگر اس کا ذہن کسی اور طرف رہنے لگا تھا۔ سبق یاد کرتا اور بھول جاتا۔ پرچے ختم ہو گئے اور رزلٹ آ گیا۔ ہم سب پاس ہو گئے، مگر جمیل فیل ہو گیا۔ اسے ابا سے خوب ڈانٹ پڑی۔ وہ خفا تھے کہ یہ نالائق میٹرک میں دوبارہ فیل ہو گیا ہے۔

ایک دن گاؤں سے پیغام آیا کہ چچا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ ہم سب ان کی عیادت کو گئے۔ وہ کافی کمزور لگ رہے تھے، دل کا اٹیک ہوا تھا اور ڈاکٹر نے آرام کا مشورہ دیا تھا۔ تھوڑی دیر ان کے پاس بیٹھ کر میں بچی کے پاس کچن میں چلی گئی تو جمیل اور فریدہ باتیں کرنے لگے، میرے کان ادھر ہی تھے۔فریدہ، کیسی ہو؟ جمیل نے پوچھا۔میں ٹھیک ہوں اور تم کیسے ہو؟میں ٹھیک نہیں ہوں۔کیوں، کیا ہوا ہے؟پتا نہیں کہ کیا ہو گیا ہے۔ آنکھیں بند کرتا ہوں تو تم کو دیکھتا ہوں، آنکھیں کھلیں تو بھی تم ہی نظر آتی ہو۔ تم کو اپنے چاروں طرف محسوس کرتا ہوں۔ اسی وجہ سے پڑھائی بھی ٹھیک طرح سے نہیں کر سکا۔ کتاب آگے کھلی رکھی ہوتی اور میری نگاہیں تم کو تلاش کرتی تھیں۔جمیل، جلدی کرو، پھوپھی نے ہمارے گھر کی دہلیز پر ڈیرہ ڈال دیا ہے۔ اپنے بیٹے کے لیے میرا رشتہ لے کر روز آ جاتی ہیں۔ ایسا نہ ہو دیر ہو جائے۔شام کو ہم اپنے گھر آ گئے۔ اگلے روز میں نے امی سے کہا کہ بھائی جمیل کے لیے فریدہ کا رشتہ مانگ لیں، کیونکہ وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور شادی کرنا چاہتے ہیں۔ اُدھر پھوپھی اپنے بیٹے کے لیے فریدہ کا رشتہ لا رہی ہیں۔امی نے جمیل سے پوچھا، کیا تم فریدہ سے شادی کرنا چاہتے ہو؟ہاں ماں، آپ جلدی سے وہاں بات کر لیں، ایسا نہ ہو کہ کسی اور سے اس کی بات پکی ہو جائے۔ ایک ہفتے بعد ابا دوبارہ چچا کی طبیعت پوچھنے گئے تو امی بھی ان کے ساتھ ہو لیں اور انہیں بھی آگاہ کیا کہ جمیل کی مرضی سے جا رہی ہوں۔ آپ کے بھائی بیمار ہیں، ہم ان سے فوراً رشتہ کی بات کر لیں تو اچھا ہے، کل نہ جانے کیا ہو؟ایک روز بعد میرے والدین واپس آگئے، لیکن وہ خوش نظر نہیں آ رہے تھے۔ امی نے بتایا، تمہیں پتا ہے، اس کی منگنی ہو چکی ہے، تمہاری پھوپھی کے بیٹے سے۔لیکن ماں، وہ سعید سے پیار نہیں کرتی تو اس کے ساتھ زندگی کیسے گزارے گی؟ وہ خود ہم سے کہہ کر گئی تھی کہ آپ اور ابا اس کا رشتہ مانگیں، تب ہی تو جمیل نے آپ سے کہہ کر کہا تھا۔بیٹا، اب اس کا خیال دل سے نکال دو۔ تمہارے ابا بھی نہیں چاہیں گے کہ بہن کو انکار کرنے کو کہیں۔ تمہارے ابا اور چچا تمہاری پھوپھی سے بہت پیار کرتے ہیں۔ پہلے رشتہ انہوں نے مانگ لیا، بلکہ منگنی بھی کر لی ہے۔یہ سن کر جمیل بجھ کر رہ گیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اب فریدہ سے مل بھی سکے گا یا نہیں۔ ایک دن فریدہ کا فون آیا کہ کسی طرح تم اور جمیل آ جاؤ۔ مجھے تم لوگوں سے کچھ بات کرنا ہے۔ میں نے بھائی کو بتایا اور چچا سے ملنے کے بہانے ہم دونوں کشمیر چلے گئے۔ اگلے روز ہم وہاں پہنچ گئے۔ فریدہ پر چونکہ ہماری طرف سے صورتِ حال واضح نہ ہو سکی تھی، اس لیے اس نے بےتاب ہو کر مجھے فون کیا تھا۔ اس کی جان لبوں پر تھی اور وہ بےچینی سے ہماری منتظر تھی۔ ہم پہنچے تو اس نے باغ میں جا کر بھائی سے بات کی اور بتایا۔اس کی ماں پھوپھی کو رشتہ نہیں دینا چاہتی تھی، چچا بھی راضی نہ تھے، لیکن اپنی بیماری اور بہن کے اصرار پر ہاں کر دی، حالانکہ ان کا ارادہ جمیل کو داماد بنانے کا تھا۔ جب فریدہ نے رو رو کر ماں سے کہا کہ وہ اپنے تایا کی بہو بننا چاہتی ہے تو ماں نے کہا کہ اب میں کچھ نہیں کر سکتی۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ تمہارے ابا کو کوئی صدمہ نہ پہنچنا چاہیے، ورنہ دوبارہ اٹیک ہو سکتا ہے۔ ہاں، یہ ہو سکتا ہے کہ تم تایا کے گھر چلی جاؤ۔ میں کہہ دوں گی کہ لڑکی شادی پر راضی نہیں ہے، اس لیے روٹھ کر تایا کے گھر چلی گئی ہے۔ تب تمہاری پھوپھی خود ہی منگنی توڑ دے گی۔ تب تمہارے تایا کو اختیار ہے کہ تمہارا نکاح جمیل سے کر دیں۔

ہم نے واپس آ کر والدہ کو اور انہوں نے والد کو چچی کی بات سے آگاہ کیا۔ ابا کشمکش میں تھے۔ ایک طرف بیٹے کی خوشی اور دوسری جانب بہن تھی۔ وہ سوچ رہے تھے کہ کیا اس طرح منگنی کو تڑوا دینا چاہیے۔ تین دن بعد ہماری خالہ کا بیٹا اکبر آیا۔ اس نے بتایا کہ فریدہ کا نکاح ہو رہا ہے کیونکہ پھوپھی نے اپنے گھر کی چھت سے جمیل اور فریدہ کو باتیں کرتے دیکھ لیا تھا۔ ان کو شک ہو گیا کہ ان دونوں کا کوئی تعلق ہے، اس لیے پھوپھی نے چچا سے کہا کہ اس سے پہلے بات بڑھ جائے اور لوگ باتیں بنائیں، بیٹی کو عزت سے رخصت کر دو۔ فریدہ اپنے باپ کی بیماری اور پریشانی دیکھ کر مجبور ہو گئی۔پھوپھی نے ہمیں نکاح میں نہ بلایا اور چچا سے بھی کہا کہ بہتر ہے بڑے بھائی کو شادی میں مدعو نہ کریں، ورنہ جمیل بھی آئے گا اور کوئی مسئلہ نہ بن جائے۔ پھر بھی چچا نے پیغام بھجوایا کہ آپ لوگ شریک ہوں، تب صرف امی اور ابا ہی گئے۔ ادھر شادی ہو رہی تھی اور ادھر میرا بھائی اور میں اداس تھے۔ میں بار بار اس کو کہتی تھی کہ اسے بھول جاؤ اور پڑھائی کی طرف توجہ دو۔ ماں باپ بوڑھے ہو رہے ہیں، تم ہی ان کا واحد سہارا ہو۔ اس نے میرے اصرار پر پڑھائی کی طرف دھیان دیا اور اس بار اچھے نمبروں سے میٹرک پاس کر کے کالج میں داخلہ لیا۔ پھر ایف ایس سی کے بعد فوج میں بھرتی ہو گیا۔ جب بھائی کو کمیشن مل گیا تو امی نے ایک اچھے گھرانے میں اس کی شادی کر دی۔ لڑکی تعلیم یافتہ، سلیقے والی اور خوبصورت تھی۔ فریدہ بھی شادی میں آئی تھی۔ اسے دیکھ کر میرا بھائی پھر اداس ہو گیا، جیسے اپنی نہیں بلکہ ماں باپ کی خوشی کے لیے شادی کر رہا ہو۔تب فریدہ نے یہ بات بتائی تھی کہ میری شادی میرے لیے بس ایک سمجھوتہ ہے۔ اگر ابا کی حالت نازک نہ ہوتی تو میں اس شادی سے انکار کر دیتی۔ بھائی کی شادی کے ایک سال بعد میری شادی ہوئی، تب بھی وہ آئی تھی۔ اس کے چہرے پر خوشی نہیں تھی؛ وہ مجبور اور بےبس لگ رہی تھی۔ میری بہن کیمرہ لائی اور اس سے کہا، فریدہ باجی! آپ بہت اچھی لگ رہی ہیں، کیا میں آپ کی تصویر بنا لوں؟ وہ بولی، سامنے پھوپھی بیٹھی ہیں، میں ان کے سامنے تصویر نہیں بنوا سکتی۔ مہندی کی رات وہ چھت پر گئی تو بھائی بھی کسی بہانے اوپر چلا گیا۔ بھابھی مہمانوں میں مصروف تھیں۔ فریدہ نے کہا، جمیل، تم نے شادی کیوں کی؟ اگر تم کسی اور کے ہو گئے، ورنہ میں تم سے شادی کرتی۔ کہنے لگی، کاش تم نے شادی نہ کی ہوتی، تو میں کبھی نہ کبھی تم کو مل جاتی۔ خدا جانے اس نے ایسا کیوں کہا تھا۔ شادی کی تقریب ختم ہو گئی اور وہ اپنے گھر چلی گئی۔ زندگی جوں توں رینگ رہی تھی۔ بھابھی نے میری چھوٹی بہن کا رشتہ ایک خاندان میں کروادیا، جو ان کے پڑوس میں رہتے تھے۔ بہن کی شادی پر گاؤں کے تمام رشتہ داروں کو بلاوا گیا۔ چچا فوت ہو چکے تھے، پھوپھی نہ آ سکیں البتہ فریدہ میرے اصرار پر پھوپھی کے ساتھ آ گئی۔ ولیمے والے دن وہ بہت اچھی لگ رہی تھی۔ ولیمہ رات کا تھا اس لیے رات دو بجے کے بعد سب تھک کر سو گئے۔

صبح آٹھ بج کر کچھ منٹ پر خبر آئی کہ زلزلہ آیا ہے۔ زلزلہ تو پنڈی میں بھی آیا تھا، لیکن جب خبریں آنے لگیں تو سب کے اوسان خطا ہو گئے اور ہمارے مہمانوں کو اپنے گھر والوں کی فکر ستانے لگی۔ وہ تو اسی وقت روانہ ہو گئے، مگر ابا نے پھوپھی اور فریدہ کو جانے نہ دیا۔ وہ کہنے لگے کہ میں خود آپ لوگوں کو پہنچا کر آؤں گا۔ جانے وہاں کیا حالات ہیں۔ دوسرے دن بھائی نے گاڑی کا انتظام کر دیا اور ابا ان کو لے کر مظفرآباد روانہ ہو گئے۔اس کے بعد جو خبریں آئیں، دل دہل کر رہ گیا۔ وہاں ہمارے تمام رشتہ دار—کیا ننھیال، کیا ددھیال—سب ہی زلزلے کی زد میں آ کر جاں بحق ہو گئے تھے۔ ہم پنڈی میں ہونے کی وجہ سے بچ گئے تھے یا وہ لوگ جو ہمارے ہاں بطور مہمان شادی میں شرکت کرنے آئے تھے۔ باقی سب کے گھروں کا نام و نشان بھی صفحہ ہستی سے مٹ چکا تھا۔ جب فریدہ ہمارے گھر شادی میں آئی تو سہاگن تھی اور اب بیوہ ہو چکی تھی۔ اس کا خاوند بھی گھر کے ملبے تلے دب کر ہلاک ہو گیا تھا۔ جب جمیل بھائی کو یہ خبر ملی تو وہ سکتے میں رہ گئے۔ اس کی بیوگی کا دکھ بھی ان کو بھاری لگ رہا تھا۔ میں سوچ رہی تھی کہ کاش امی نے جمیل بھائی کی شادی اتنی جلدی نہ کی ہوتی، تو آج وہ ضرور اس کا سہارا بن جاتے، لیکن اب وہ شادی شدہ تھے اور مجبور تھے۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا، کیونکہ جو تقدیر کو منظور ہوتا ہے، وہی ہوتا ہے۔

Latest Posts

Related POSTS