Friday, October 11, 2024

Tazeyet | تعزیت

فون کی گھنٹی بجی ۔ میں نے غنودگی میں چونک کر فون اٹھایا۔ ادھر سے آواز آئی باجی زری ساجدہ کوبتا دیں کہ آصف فوت ہو گیا ہے۔ کون آصف؟ داد پوترہ ہے جی اور فورا ہی فون رکھ دیا۔ میں نے پھرسے سونے کی کوشش کی مگر ایک بار نیند ٹوٹ جاۓ تو پھر کہاں سلسلہ جڑ تا ہے ۔ ویسے بھی ساجدہ کو بتانا تھا تاکہ وہ جلدی جلدی کام نمٹا کر گاؤں جاۓ۔ ساجدہ میرا ناشتہ لائی اور وہیں قالین پر بیٹھ گئی۔ میں نے ٹوسٹ پر جیم لگاتے ہوۓ پوچھا- یہ آصف کون ہے؟ کیوں جی کیا ہوا ؟ وہ ایک دم چونکی- میری افریزن کا دیور ہے جی میرے جیٹھ کا پتر۔ وہ فوت ہو گیا۔ میں نے دھماکہ کیا۔ وئی وئی! اس نے دونوں ہاتھ ملے, وہ کیسے مر گیا۔ سوہناگھبرو جوان بیل کی طرح مضبوط کاٹھی نہجی نہ وہ نہیں ہو سکتا۔ کیوں نہیں ہو سکتا کیا اس کے مرنے پر پابندی ہے- نہیں پر دیکھیں نا۔ مرنے کی بھی ایک عمر ہوتی ہے۔ اس کی تواس کی عمر نہیں۔ کل کا بچہ ہے۔ ابھی تو داڑھی بھی نہیں آئی اور پھر وہ تو جڑواں بچہ ہے اس کے سنگے نال جمنے والا (اس کے ساتھ پیدا ہونے والا )٠ دوسرا تو بالکل ماڑا مرنگ (کمزور) سوکھا تیلا ہے۔ مرتاتووہ مرتا ہاۓ اللہ جی اب کیا ہو گا۔ میری شود هی دیورانی کاتو کالجہ (کلیجہ) پھٹ گیا ہو گا۔ ساجدہ نے رونا شروع کردیا۔ صبر کر صبر۔ تیری تو پہلے ہی ایک آنکھ کی نظر نہیں ہے۔ اب کیا دوسری آنکھ بھی گنواۓ گی۔ کیسے صبر کروں بی بی! اتنا نیک بچہ تھا۔ جی جی کرتا تھا۔ جاتی تھی توفورا جی چارپائی بچھا کر اس پر چادر ڈالتا۔ تکیے رکھتا۔ دودھ کی پتی بناکر پلاتا اس نے دنیا میں ابھی دیکھاہی کیا تھا۔ ہاۓ ہاۓ صادق کی تو کمر ٹوٹ گئی۔ جانے جوان موت کا صدمہ برداشت کر سکے گا کہ نہیں۔ مجھے تو اس کی فکرپڑگئی۔ کہیں ایک گھر۔سے دو منجیاں نہ نکلیں۔دل کا اٹیک نہ ہوجاۓ۔ خیر کا کلمہ نکال – جیٹھ کو کیوں مارے ڈالتی ہے – یہ تو بتائیں آپ کو فون کس نے کیا تھا ؟ مستقیم نے کہتا تھا کہ تیرا داد پو تڑہ ہے- کہیں میرے داد پو تڑے بشیر کے بیٹے آصف کا تو نہیں کہ رہا تھا ؟اس نے دو ہتڑ اپنے سینے پر مارے- ضروربشیر کا پتڑ ہو گا ہائے الله جی چار لڑکیوں کے بعد توجڑا تھا ہر پیر فقیر سے دعا کرائی تھی الله جانے اس کے ساتھ کیا بنی جو یوں اچانک مر گیا۔ نہ کوئی بیاری کی خبرنہ کج ہور ضرور کوئی دل دا ( مروڑ) پڑا ہو گا۔ نظر نہ لگ گئی ہو کسی دل سڑی کی -آسیب بھی پڑ سکتا ہے کتنی دفع۔ کہا تھا کہ مغرب کے بعد گھر سے باہر نہ نکالنا۔ درخت کے نیچے نہ کھڑا ہونا آج کل کی کڑیاں کسی بڑے کی بات نہیں سنتیں – کتنا بڑا تھا؟ میں نے چاۓ کا گھونٹ لیا۔ میں چٹی ان پڑھ ۔ مجھے عمر شمرکا کیا پتا ۔ ابھی تو گھنٹوں کے بل کر رہا تھا ۔ شاید پاؤں پاؤں چلنے لگا ہو ۔ ایسا چٹا سفید دودھ ورگاہ موٹا تازہ۔ بندہ دیکھتا رہے۔ لگے جیسے کسی پٹھان کا جاکت ہے۔ ہاۓ ہائے ماں پیو اور بہنوں کی تو جان تھی اس میں۔ موت کی گھڑی کا کوئی پتہ نہیں۔ بلاوا آجاۓ تو کتنی دیر لگتی ہے۔ نہ بچے دیکھتی ہے نہ ادھیڑ عمر میرا تو آپ کلیجہ پھٹ رہا ہے ۔ دل چاہ رہا ہے اڑ کر پہنچوں اور انہیں حوصلہ دوں- خودتو حوصلہ پکڑ۔ میں نے تسلی دی۔ بی بی جنازے کا نہیں بتایا کسویلے ہے۔ واقعی جنازے کا تو بتایا ہی نہیں۔ بڑا بے وقوف ہے تیرابیٹا- آپ جنازے کا پتا کرائیں۔ میں باہر جا کر دادو کو تو تاؤں وہ بھی بے چارہ بڑا کھ کرے گا۔” میں نے حسن ابدال فون کیا کہ جنازے کا پتا کرائیں اور خود اخبار پڑھنے گئی۔ آج کل تو ویسے بھی اخبار سے بڑھ کر کوئی چیز ڈپر سینگ نہیں۔ پڑ ھتے ہی بلڈ پریشر لو ہونے لگتا ہے اور پریشانی بڑھنے لگتی ہے۔ کوئی خیر کی خبر تو ہوتی نہیں۔ خودکش حملے دھماکے آگ خون دلویسے ہی اداس ساتھا۔ تھوڑی دیر بعد ساجدہ واپس آ گئی اور موٹے شیشوں والی عینک میں سے اس کی آنکھیں اپنے سائز سے کئی گنا بڑی نظر آرہی تھیں۔ اس نے اپنی جناتی سائز کی آنکھیں مجھ پر گاڑ دیں اور بولی ” وه جی دادو کہہ رہا ہے کہ بشیر کے جاکت کا نام آصف نہیں عارف ہے یہ ضرور میرخان کا بیٹا آصف ہوگااور اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔ میرخانبے چارہ تو کب سے منجی پر پڑا ہے – سرکاری ہسپتال میں پڑا ہے ہر طرف نالیاں لگی ہوئی ہیں بس انتظار ہے کہ کب سانس ختم ہو ۔ جانا تو اس کو تھا پر بلاوا اس کے بیٹے کا آ گیا – بی بی کہیں فرشتوں کو گلتی تو نہیں لگ گئی ؟ چل بے وقوف کھبی فرشتے بھی غلطی کرتے ہیں۔ “او جی کئی واری بندہ مر گیا۔ جب نہلانے کے لیے ڈالا تو کلمہ پڑھتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ سارے لوگ سرپر پاؤں رکھ کے بھاگ گئے ۔ وہ بے چارا آوازیں دے رہا ہے۔ میں مرا نہیں جیوندا جاگدا ہوں۔ اصل میں فرشتوں کو جب پتہ چلتا ہےنا کہ وہ غلط بندے کولے جا رہے ہیں توفٹ اس کا ساہ موڑ دیتے ہیں- فرشتوں سے بھلا کیسے غلطی ہو سکتی ہے ؟ کیا بک کی لگائی ہوئی ہے۔۔ ” کیوں نہیں لگ سکتی ہیں۔ کئی واری ایک جیسے نام ہوتے ہیں۔منہ ماند را (شکل) ملتا جلتا ہو تا ہے۔ آخر کو فرشتے بھی تواللہ ہی کی مخلوق ہیں نا !” تو یہ بتا کہ جانا ہے یا نہیں۔ کیا ارادہ ہے ؟” جانا تو پڑے گانا ۔ آخر کو اپنا گرائیں ہے۔ آج میں نہ کی تو کل میرے جنازے پر کون آۓ گا ۔ تجھے کیا فرق پڑتا ہے۔ مرنے کے بعد کوئی آۓ یا نہ آئے۔ لو جی کیسے فرق نہیں پڑتا جنازہ پڑا ہو اور کوئی دو آنسو بہانے والا بھی نہ ہو – میرے گھر والے منہ ہے چھپاتے پھریں -ہمارے گراں کا ایک خان تھا – وہ لوگوں کے جنازے پر نہیں جاتا تھا۔ جب وہ مراتو گاؤں والوں نے خود جائے کے بجاۓ پیڑھیاں بھیج دیں اور پھر بھی کوئی جنازہ اٹھانے والا نہیں تھا۔ بڑی مشکل سے کھینچ کھانچ کے قبر میں ڈالا اور ویسے بھی ہی میرخان کا پہلا ویاہ میری مسیری(خالہ زاد) کے ساتھ ہوا تھا۔ اس کے تو ہاتھوں کی مہندی بھی نہیں اتری تھی کہ شوهدی مرگئی۔ خیر جی نکاح تو ہوا تھا نصیب نہ ہوا تو کیا ہوا اور پھر میرخان نے آصف کے لیے میری نانو (سند) کی دھی کے لیے رشتہ بھی ڈالا ہوا تقل اگر رشتہ ہو جاتا تو پھر تو اپنا جوانتره(داماد) ہی ہوتا؟ میں نے تنگ آکر کہا۔ “اچھا بابا! جاؤ مگر جنازے کے بعد فورا آجانا۔اور وہ فورا جوڑا بدل چکن کی سفید چادر اوڑھ تشریف لے گئیں ۔ مغرب کے بعد واپس تشریف آوری ہوئی۔ آگئیں واپس بڑی جلدی واپسی ہوگئی۔ جی آگئی۔ جوان موت تھی۔ کافی بڑا جنازہ ہو گا۔ وہ ایک دم سے پھٹ پڑی۔ کیسی جوان موت جی۔ گاؤں کا مصلی سیف فوت ہوا ہے۔ سو سے اوپر ٹپ گیا تھا۔ کئی سالوں سےبیمار تھا بلکہ اب تو منجی پر بیٹھ گیا تھا۔ شوہدے کا دانا پانی بھی بند ہو گیا ناس سکھ کے مکر بن گیا تھا۔ اس کا مرنا تو چلو اچھا ہی ہو گیا۔ اس کی بھی جان چھوٹی اور پیچھے والوں کی بھی۔ اللہ جی نے پردہ رکھ لیا۔ وہ تو کہ رہاتھا کہداد پو تڑه ہے؟ میرا داد پپو تڑه کیوں ہو تا۔ جین جوگے کو مجھے فون کرنے کی بھلا کیالوڑ تھی۔ سارے راستے رو رو کر نظراور بھی خراب ہو گئی۔اصل میں جی آپ کو غلطی گئی۔ وہ مستقیم نہیں تھا۔ میرا داد پو تڑه تھا جس نے فون کیا۔ اس نے سیف کہا۔ آپ نے آصف سمجھا خیر جی جو ہونا تھا ہو گیا۔ آپ بولیں رات کو کیا کھانا ہے؟

Latest Posts

Related POSTS