Teri Yaad Ati Hai | Teen Auratien Teen Kahaniyan
عید پر جب میں جیل میں قیدی عورتوں کے لئے چند تحفے لے کر گئی تو لبنیٰ بہت یاد آئی۔ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہی، لیکن اس کی کہانی بڑی دل سوز ہے جسے لکھتے ہوئے دل کانپ رہا ہے۔ لبنیٰ میری پھوپھی زاد سانولے رنگ کی پرکشش لڑکی تھی۔ وہ زیادہ خوبصورت نہ تھی مگر عادات و اطوار کے لحاظ سے اچھی تھی۔ تاہم اس کی طبیعت میں ضد تھی، جس چیز کو اپنا سمجھتی تھی اسے حاصل کرکے رہتی۔ اس شدید احساس ملکیت نے ہی اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچادیا تھا۔ بھائی سلیمان اس وقت دوبرس کے تھے جب لبنیٰ نے جنم لیا تھا۔ میری ماں نے اس کے گلے میں سونے کی مالا ڈال کر کہا تھا یہ میری بہو بنے گی، تب سے وہ سلیمان بھائی کی ٹھیکرے کی مانگ کہلائی۔
ایک دن بابل کے آنگن میں ہم سب کھیل رہے تھے۔ لبنیٰ بھی ہمارے گھر آئی ہوئی تھی۔ اس وقت اس کی عمر چھ برس تھی۔ چھوٹی بچیاں اکثر ایسے کھیل کھیلتی ہیں کہ ایک دلہن بن جاتی ہے اور باقی بچیاں گیت گاتی ہیں۔ کسی ڈبے کو ڈھولک کے طور پر بجاتی ہیں اور خوش ہوتی ہیں۔
اس روز بھی ہم سبھی بچیوں نے ایسا ہی کچھ ہنگامہ کر رکھا تھا۔ لبنیٰ کی دلہن بننے کی باری تھی، اماں کا گوٹے والا دوپٹہ، میں ان کی الماری سے نکال کر لے آئی، ہم سب گھر کے صحن میں نیم کے گھنے درخت تلے بیٹھے ڈبہ بجا رہے تھے اور گوٹے والا دوپٹہ لبنیٰ کے سر پر ڈال کر اسے دلہن بنا رکھا تھا۔ اتنے میں باہر سے بھائی سلیمان آگئے، اس وقت ان کی عمر آٹھ برس ہوگی۔ بچیوں نے جو انہیں آتے دیکھا تو نادانی میں شور مچادیا۔ دولہا آگیا، دولہا آگیا۔ سلیمان بھائی ہماری طرف آئے تو میں نے کہا۔ بھائی تم دولہا ہو۔ یہاں لبنیٰ کی شادی ہورہی ہے اور دولہا کوئی نہیں ہے اچھا ہوا تم آگئے، اس پر سلیمان نے جواب دیا۔ میں لبنیٰ سے شادی نہیں کروں گا یہ کالی کلوٹی ہے، میں کسی گوری لڑکی سے شادی کروں گا، یہ کہہ کر اس نے شاہدہ کی طرف اشارہ کیا جو بہت گوری تھی، اور میری ہم جماعت تھی۔ وہ ہمارے پڑوس میں رہتی تھی۔ لبنیٰ نے یہ سنا تو غصے میں آگئی، گوٹے والا دوپٹہ پرے پھینک کر سلیمان کے بال پکڑلئے۔ بولی تم مجھی سے شادی کروگے۔ بولو۔ کروگے یا نہیں۔ اگر نہیں کہا تو جان سے مار دوں گی۔ بچوں کی چیخ و پکار سن کر امی کچن سے نکلیں، یہ کیا ہورہا ہے۔ وہ قریب آکر بولیں۔ دیکھئے ممانی سلیمان مجھ سے نہیں شاہدہ سے شادی کرنے کو کہہ رہا ہے حالانکہ دلہن میں بنی ہوں… امی اور پھپھو اس کی معصومیت پر ہنسنے لگے۔ تب سلیمان وہاں سے بھاگ گیا۔
خیر یہ تو بچپن کاذکر تھا۔ وقت کا پنچھی پر لگا کر اڑتا رہا اور بچپن کے کھیل بچپن کے ساتھ گم ہوگئے۔ لبنیٰ، سلیمان کی تصویر دل میں سجائے جوان ہوگئی۔ اس نے میٹرک کیا، آگے پڑھنا چاہتی تھی مگر والدین نے آگے پڑھنے نہ دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ والدین کی فکریں بڑھتی جارہی تھیں۔ میرے ماں باپ کو بھی میری شادی کی فکر ہوگئی تھی۔ حالانکہ ابھی ہمارے کھیلنے کے دن تھے مگر نوعمری میں ہی میری شادی کردی گئی۔ اب سلیمان بھائی کی باری تھی۔ گھر میں ہر وقت ان کی اور لبنیٰ کی شادی کے تذکرے ہونے لگے۔ پھپھو کا گھر نزدیک تھا، وہ روز آجاتیں اور امی جان کو یاد دلاتیں کہ بچوں کی شادیاں کرنی ہیں۔ اچھا ہے وقت پر ہوجائیں۔ بالآخر سلیمان بھائی سے والدہ نے تذکرہ کیا۔ ان دنوں وہ میڈیکل کالج میں داخلے کے لئے تگ و دو کررہے تھے۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ امی جان صبر سے بیٹھے مجھے تعلیم تو مکمل کرلینے دیجئے۔ میں ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹری کی تعلیم کے لئے تمہیں سات سال درکار ہیں۔ کیا اس وقت تک لبنیٰ کو بٹھائے رکھیں گے؟ شادی کرلو پھر پڑھتے رہنا۔ ایسا نہیں ہوسکتا اماں… ڈاکٹری پڑھنا بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ جب تک ایم بی بی ایس نہ کرلوں۔ شادی کو موقوف رکھئے، ضروری تو نہیں کہ لبنیٰ سے ہی شادی ہو… اسے کیوں بٹھائے رکھنا چاہتی ہیں۔ پھپھو سے کہئے، ہمیں بہت دیر لگے گی۔ وہ جہاں چاہیں اپنی بیٹی کی شادی کر دیں۔
کیسی بات کررہے ہو۔ وہ تمہارے ٹھیکرے کی مانگ ہے۔ میں نے لبنیٰ کے پیدا ہوتے ہی گلے میں سونے کی مالا ڈال دی تھی۔ اب وہ ہماری ہے۔ کسی اور سے اس کی شادی کیوں ہو…؟
واہ اماں واہ… آپ کی تو باتیں نرالی ہیں… ماں، بیٹے کی تاویلیں سن کر دل مسوس کر رہ گئیں۔
ادھر لبنیٰ بھائی کے خیالات سے بےخبر گھر کے کام کاج میں مصروف سلیمان کے نام کے گیت گنگنائے جاتی۔ اس کے گھر میں بھی سلیمان کے ساتھ اس کی شادی کے تذکرے ہوتے تھے۔ وہ مسکراتی رہتی ، میرے بھائی کو اس نے اپنے دل کا حکمران تسلیم کرلیا تھا۔
سلیمان کا میڈیکل کالج میں داخلہ ہوگیا اور وہ لاہور چلاگیا، جہاں ہوسٹل میں رہائش مل گئی۔ اب وہ اپنے شہر صرف چھٹی کے دنوں میں آتا، کیونکہ ہمارا شہر چھوٹا تھا، یہاں میڈیکل کالج نہیں تھا۔ تبھی سلیمان بھائی کو ڈاکٹر بننے کے لئے لاہور میں رہائش اختیار کرنا پڑی تھی۔ جب سلیمان بھائی آتے وہ بہانے سے ہمارے گھر آجاتی اور سارا دن میرے پاس گزارتی، دراصل وہ میرے بھائی کا دیدار کرنے آتی تھی، مگر سلیمان کو اس کی زیادہ پروا نہ تھی۔ چھٹی کے دنوں میں بھی وہ اپنی پڑھائی میں مگن رہتا۔ اس کے سلام کا جواب بھی بمشکل دیتا۔
پانچ سال کسی کے لئے صدیوں جیسے تو کسی کے پلک جھپکتے گزرگئے۔ اب پھپھو کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا، وہ روز آکر یاد دلاتیںکہ بہت انتظار کرلیا، اب تو سلیمان نے امتحان بھی پاس کرلیا، آکر اپنی امانت لے جائو۔ امی نے دوسال کی مزید مہلت مانگ لی، کیونکہ بھائی کسی سرکاری اسپتال میں ملازمت کرنا چاہ رہے تھے۔
آخر وہ دن بھی آگیا کہ بھائی جان کو ملازمت مل گئی۔ اس بار جب گھر آئے امی نے کہا۔ لبنیٰ کی عمر نکلی جارہی ہے، اگر تم مناسب سمجھو تو ہم شادی کی تاریخ رکھ لیں۔ ماں کی بات سن کر وہ غصے میں رہتا، بولا۔ پھپھو سے صاف الفاظ میں کہہ دیں کہ وہ میرا انتظار نہ کریں، میں شادی نہیں کرنا چاہتا۔ والدہ بیٹے کا منہ تکنے لگیں کہ جانے کیا اول فول بک رہا ہے پھر وہ غصے میں چلا اٹھیں۔ بکواس مت کرو تمہیں لبنیٰ سے شادی کرنا ہوگی، ہم نے کتنا انتظار کروایا ہے کہ اب اس کی جوانی ڈھلنے لگی ہے۔ میرا کہا نہ مانا تو تمہارے والد تم پر سختی کریں گے اور میں بھی تمہیں اپنا دودھ نہ بخشوں گی۔ ماں کے غصے کے جواب میں بھائی جان گھر سے چلے گئے اور چھٹی کے دنوں میں بھی آنا جانا ختم کردیا۔
ایک ماہ تک فون نہ کیا، تب امی کو فکر ہوئی۔ وہ پریشان ہوگئیں، مجھ سے کہا۔ تم میرے ساتھ لاہور چلو۔ تمہارے ابا کو نہیں لے جاتی، کہیں باپ بیٹے میں جھگڑا نہ ہو جائے۔
ماں آخر ماں ہوتی ہے وہ اولاد کی خاطر ہر شے ٹھکرادیتی ہے۔ غصہ بھول کر ہم سلیمان بھائی کو منانے لاہور روانہ ہوگئے۔ جب لبنیٰ کو پتا چلا ہم لاہور جارہے ہیں تو اصرار کرکے وہ بھی ہمارے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ بولی۔ دیکھتی ہوں سلیمان کیسے نہیں مانتا، ہم اسے منالیں گے۔ ایسے معاملے میں لڑکیاں شرمیلی ہوتی ہیں مگر لبنیٰ الگ مزاج کی تھی۔ وہ انتہائی ضدی اور ارادے کی پکی تھی۔ تینوں شام کو لاہور پہنچ گئے چونکہ اطلاع نہ دی تھی کہ کہیں بھائی گھر سے نہ چلے جائیں۔ اسپتال سے سلیمان کی رہائش کا پتا معلوم کیا اور وہاں پہنچے۔ یہ ایک چھوٹا سا بنگلہ تھا جس کا گیٹ بند تھا وہاں تالا لگا ہوا تھا۔
نئی جگہ تھی ارد گرد کے رہنے والوں سے بھی واقفیت نہ تھی۔ نجانے سلیمان گھر کب لوٹے گا۔ امی پریشان تھیں۔ میں نے کہا۔ گاڑی میں انتظار کرلیتے ہیں۔ ہمیں انتظار کرتے آدھا گھنٹہ گزر گیا۔ میرا تو اب دم گھٹنے لگا ہے باہر نکلو گاڑی سے۔ امی بولیں۔ اور کار سے اتر کر بنگلے کے باہر بنی منڈیر پر بیٹھ گئیں۔ یہاں بیٹھے بھی ہمیں ایک گھنٹہ بیت گیا۔ اب ہم تھکنے لگے۔ سورج ڈوبنے کو تھا۔ پریشانی سوا ہوتی جاتی تھی کہ رات سر پر آرہی تھی۔ اسپتال سے معلوم کیا وہ ڈیوٹی دے کر نکلے تھے، اب کہیں بھی جاسکتے تھے۔ واپس گھر لوٹنے کا وقت کس سے معلوم ہوتا، جبکہ وہ موبائل فون کا زمانہ نہیں تھا۔
اب مجھے سلیمان بھائی پر طیش آرہا تھا۔ ماں باپ کتنے پیار سے پرورش کرتے ہیں، پڑھاتے لکھاتے ہیں اور جب اولاد جوان ہوجاتی ہے۔ کسی قابل ہو جاتی ہے تو وہ والدین کی پروا کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ لبنیٰ ہمارے ساتھ آئی تھی۔ اس کی بھی حالت خراب ہورہی تھی۔ نجانے کن سوچوں میں گم تھی۔ ہم فقیروں کی طرح بھائی کے دروازے پر بیٹھے بیٹھے تھک گئے تھے۔ میں نے کہا۔ واپس چلتے ہیں لیکن امی اور لبنیٰ مزید راہ دیکھنا چاہتی تھیں۔ اچانک ایک گاڑی ہمارے سامنے آکر رکی۔ امی یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں کہ لو جی … میرا بیٹا آگیا۔
یہ واقعی بھائی سلیمان ہی کی گاڑی تھی۔ وہ ہمیں دیکھ کر ہماری طرف آگئے۔ ان کے پیچھے ایک عورت اتری، جس کے بال شانوں پر بکھرے ہوئے تھے اور عمدہ لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ امی گو بیٹے سے گلے لگ گئیں، جبکہ میں اور لبنیٰ حیرت سے ان کے ہمراہ آنے والی عورت کو دیکھتی رہ گئیں۔ وہ خاتون ہماری جانب آئی لبنیٰ میرے پہلو میں کھڑی تھی، اسے اپنی جانب بڑھتے پاکر چند قدم پیچھے ہٹ گئی۔ بھائی نے گیٹ کھولا۔ ہم سب کو اندر لے آئے اور ڈرائیور سے کہا کار اندر لے آئو۔ ہم ابھی تک اس عورت کو اجنبی نگاہوں سے تکنے میں مشغول تھے۔
فلزا یہ تمہاری بھابی درشہوار ہیں۔ امی ساری بات سمجھ چکی تھیں۔ وہ کبھی اس گوری چٹی درشہوار کو دیکھتی تھیں اور کبھی اپنی سانولی سی لبنیٰ کو۔ سب کو گویا چپ سی لگ گئی تھی۔ امی نے تھوڑی دیر بعد خود کو سنبھالا۔ یہ کیسی شادی ہوئی ہے، ماں کو بھی مدعو نہ کیا گیا۔ پھر مجھ سے کہا کہ تمہاری بھابی بن گئی ہے تو آئو اس سے ملو تو سہی۔ میں نے کہا۔ ہم تو بھائی سے ملنے آئے تھے سود میں بھابی مل گئی۔ میں مجبوراً دو قدم آگے بڑھی مگر لبنیٰ ٹس سے مس نہ ہوئی جیسے پتھر کی ہوگئی۔ اس کا چہرہ زرد ہوگیا تھا۔ اس سے پہلے کوئی کچھ کہتا وہ گیٹ کھول کر باہر نکل گئی۔ میں بھی تیزی سے لبنیٰ کے پیچھے نکلی۔
مجھے بھائی کی اس حرکت پر سخت صدمہ تھا، تاہم امی نے غصے کا اظہار درشہوار کے سامنے نہ کیا۔ مگر ہم اسی وقت لبنیٰ کی خاطر واپس روانہ ہوگئے۔ وہ تمام راستے کار کی کھڑکی سے باہر نظاروں کو گھورتی رہی، جو اس دم اس کے لئے بے جان ہوگئے تھے۔ تمام سفر میں اس نے کسی سے کوئی بات نہ کی۔ پھر یہ کٹھن گھڑیاں تمام ہوئیں۔ لبنیٰ کو گھر پہنچا کر ہم ہارے ہوئے جواریوں کی مانند گھر آگئے تھے۔
دیکھتے دیکھتے بھائی کی شادی کی خبر تمام برادری کو ہوگئی۔ لبنیٰ کے سامنے لوگوں نے طرح طرح کی باتیں کیں وہ کچھ نہ بولی۔ سہیلیاں اس سے ہمدردی کرتیں، وہ چپ رہتی۔ ماں باپ بہن بھائیوں سبھی سے کلام ترک کردیا تھا۔ اب وہ ہنستی مسکراتی تھی اور نہ گنگناتی تھی۔ ایک بے مہر سی خاموشی اس کے لبوں پر طاری تھی۔
ایک ہفتےبعد امی دوبارہ لاہور چلی گئیں، نجانے بھائی نے فون کرکے کیا کہا کہ وہ اپنے قدم نہ روک سکیں۔ دو دن بعد آئیں تو سلیمان بھائی اور ان کی بیگم، ڈرائیور بھی ساتھ تھے۔ کچھ لوگ امی ابو کو مبارک باد دینے آئے۔ وہ سب سے خوشی سے مل رہے تھے تاکہ لوگوں میں یہ بات نہ پھیلے کہ انہیں بیٹے کی شادی کا قلق ہے۔ لبنیٰ کا غم اپنی جگہ تھا لیکن اس غم کو دل میں چھپالیا گیا تھا۔
دن بھر مبارک باد دینے والوں کا آنا جانا رہا۔ رات کو امی نے اوپر کی منزل پر بنے بیڈ روم میں بستر سیٹ کردیا۔ بھائی اور بھابی وہاں سونے چلے گئے۔ پھپھو کا گھر برابر والا تھا جہاں لبنیٰ تڑپ رہی تھی، جس نے اتنے عرصے بھائی کا انتظار کیا تھا۔ اب ان کی دلہن کے یہاں آجانے سے وہ بے چین تھی۔ وہ سو نہ پا رہی تھی۔ میں دیرتک اس کے پاس بیٹھی تسلیاں دیتی رہی، مگر توہین کا شدید احساس تھا اسے ایک پل چین نہ لینے دے رہا تھا۔ وہ میرے ساتھ ہمارے گھر آگئی بولی۔ آج رات تمہارے کمرے میں سوئوں گی، مجھے اپنے گھر میں نیند نہیں آئے گی۔
وہ سچ کہہ رہی تھی اس کا محبوب تو کسی اور کے پہلو میں سورہا تھا۔ اسے نیند کیوں کر آتی۔ سو مجھ سے قلبی سہارا لینے کے لئے وہ میرے ہمراہ آگئی تھی۔ شاید رات بھر باتیں کرکے اپنا غم غلط کرنا چاہتی تھی، شاید وہ تنہا رہنے سے ڈر رہی تھی۔ میں باتیں کرکے اس کا جی بہلاتے بہلاتے نجانے کب نیند کی آغوش میں چلی گئی۔ نجانے کب اس کے ذہن میں ایک آواز گونجی، جس کی تو نے اتنے عرصے پرستش کی، انتظار کیا۔ کیا اسے اس طرح چین کی نیند سونے کا حق ہے؟ پھر ایک اور آواز اسے اپنے اندر سے سنائی دی۔ آج موقع ہے بدلہ لینے کا ورنہ پھر یہ وقت ہاتھ نہ آئے گا۔ اپنے ٹوٹتے جذبوں کے شور میں وہ دبے قدموں ابو کے کمرے میں آئی، جانتی تھی کہ ان کی الماری میں ریوالور کہاں رکھا ہے۔ وہ ہمارے گھر کی پروردہ تھی، اسے ہمارے گھر کی ہر چیز کے بارے میں پتا تھا۔
والد گہری نیند سورہے تھے، اس نے آہستہ سے الماری کھولی اور سب سے اوپر والے خانے میں رکھے ریوالور کو اٹھالیا۔ دبے قدموں وہ باہر آگئی۔ والد ہمیشہ حفاظت کے نقطۂ نظر سے ریوالور لوڈ کرکے رکھتے تھے۔ اس وقت شدت سے اس ضدی لڑکی کے اندر انتقام کی آگ بھڑک اٹھی تھی، شیطان نے اسے اور ہوا دی اور اس نے اپنے حواس کھودیئے، وہ دیوانہ وار سیڑھیاں چڑھتی اوپر پہنچی۔
گرمیوں کے دن تھے بھائی نے کمرے کا دروازہ کھلا رکھا تھا۔ وہ آہستگی سے کمرے میں داخل ہوگئی جہاں زیرو کا بلب جل رہا تھا، مدھم روشنی میں بھائی سلیمان اور بھابی درشہوار چین کی نیند سو رہے تھے۔ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اس نے درشہوار پر گولیاں برسا دیں۔ وہ ابدی نیند سوگئی، جبکہ لبنیٰ جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے پہنچادی گئی۔ اس نے اقرار جرم کرلیا تھا۔
میں ہر عید پر اس کے لئے تحفے لے کر جاتی تھی۔ اگرچہ بھائی سلیمان کے سوا سبھی مجھے منع کرتے تھے، مگر میں اپنی کزن کا دکھ سمجھتی تھی۔ غلط حرکت اس سے غصے یا انتقام کی وجہ سے سرزد ہوگئی تھی تاہم، ہم میں دوستی کا رشتہ تو تھا۔ اور جب مجھے علم ہوا کہ وہ جیل میں بیمار رہ کر وفات پاگئی ہے تو صدمے سے نڈھال گھر پہنچی۔ کئی گھنٹوں تک مجھ سے بولا نہ گیا۔ آنسوئوں نے جیسے قوت گویائی کو سلب کرلیاتھا۔ (ف… قصور)