ان لوگوں میں سے ہوں، جو ماضی کی یادوں کے سہارے زندہ رہتے ہیں یا پھر مستقبل کی آس میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ حالات کے بہائو میں بہہ کر میں نے جو بھی کیا، آج تک فیصلہ نہ کر سکی کہ اچھا کیا یا برا۔ ان دنوں میں پانچ برس کی تھی ، جب ماں کی وفات کے فوراً بعد والد نے دوسری شادی کر لی، یوں مجھ پر روایتی ستم کا دور شروع ہو گیا۔ وقت گزرتا رہا، شعور کی منزلیں طے ہوتی رہیں اور میں اچھے مستقبل کی آس میں جیتی رہی کہ کبھی تو مجھے دوسری امی کے چنگل سے چھٹکارا ملے گا۔ ابھی میرا ایف اے کارزلٹ نہ نکلا تھا کہ ماں نے میری شادی کر دی، حالانکہ ان کو معلوم تھا کہ میرے شوہر کی ایک بیوی پہلے سے موجود ہے، جس کے ہاں اولاد نہیں۔ شوہر میرے دامن کے لیے بچی کچی محبت لے کر آئے تھے۔ جہاں مجھ سے یہ حقیقت چھپائی گئی تھی ، وہاں زبیر نے پہلی بیوی کو بھی یہ علم نہ ہونے دیا کہ انہوں نے دوسری شادی کر لی ہے۔ وہ میرے پاس چوری چھپے آتے تھے۔ دو سال بعد جب میں صاحب اولاد ہو گئی، تو یہ راز کھل گیا، تب ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ ان کی پہلی زوجہ محترمہ نے اپنے شوہر کو اور مجھے بہت پریشان کیا اور اپنی انا کو ٹوٹتا دیکھ کر طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ میرے شوہر نے بھی عافیت اسی میں سمجھی اور ان کا مطالبہ پورا کر دیا۔ شوہر صاحب ثروت تھے ، اولاد نرینہ کی آرزو رکھتے تھے۔ بیٹی کی پیدائش پر بجھ کر رہ گئے۔ سب نے سمجھایا کہ اللہ کا شکر ادا کرو کہ اولاد تو ہو گئی۔ وہ مالک دو جہاں بیٹا بھی دے گا۔ ان کو یہ بات سمجھ میں آ گئی، انہوں نے بیٹی کو اٹھایا، پیار کیا اور سینے سے لگا لیا۔ اب میں ان کی پوری محبت کی وارث تھی۔ زندگی میں پہلی بار اطمینان سا محسوس کرنے لگی۔ بچی کی پیدائش کے وقت شدید بیمار ہو گئی تھی ، ڈاکٹروں۔ نے میاں کی اجازت سے میرا بڑا آپریشن کیا تھا۔ بد قسمتی یہ ہوئی کہ آپریشن کے نتیجے میں ہمیشہ کے لیے ماں بننے سے محروم ہو گئی۔ جب مجھے اور زبیر کو اس حقیقت کا علم ہوا تو انہوں نے خود کو سنبھالا کہ یہی مشیت ایزدی ہے۔ انہوں نے مجھے بھی سنبھالا، دلجوئی کی کہ کوئی مسئلہ نہیں، بیٹی ہے تو کیا ہوا؟ ہم اولاد والے تو ہیں۔ بیٹی کی پیدائش کے بعد دنوں میں ان کا کاروبار چمک اٹھا۔ میں کہتی تھی کہ یہ ہماری بیٹی کے نصیب سے ہے ، تب وہ اور بھی میری طرف مائل ہو گئے۔ ایک سال کے اندر اندر وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔
کچھ عرصہ سکون سے گزرا، مگر دنیا والے کب کسی کو چین سے دیکھ سکتے ہیں۔ میرے میاں کے رشتہ داروں نے ان کے کان بھر ناشروع کر دیے۔ ان کو احساس دلایا کہ بغیر بیٹے کے تمہاری نسل ختم ہو جائے گی اور تمہارا نام لیوا کوئی نہ رہے گا۔ پتھر پر بھی اگر مسلسل پانی کا قطرہ پڑتا رہے تو اس میں بھی شگاف پڑ جاتا ہے اور ان کے سینے میں تو گوشت پوست کا دل تھا۔ رفتہ رفتہ وہ رنجور اور میری محبت سے دور ہونے لگے۔ ان کے دل میں تیسری شادی کا خیال جڑ پکڑنے لگا۔ وہ اس خیال کے خلاف نبرد آزما رہنے لگے۔ آخر شکست کھا گئے اور تیسری شادی بارے سنجیدگی سے سوچنے لگے۔ بچی پانچ سال کی تھی کہ انہوں نے اپنی خواہش کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور تیسری بار دولہا بن گئے۔ میری اشک شوئی کے لیے میرے نام ایک کوٹھی لگادی اور ایک فلیٹ بھی، یوں میرے در سے وہ کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ اب میں اس بھری دنیا میں تنہا تھی۔ ماں نہ باپ، بھائی نہ بہن کو ٹھی کا کرایہ اچھا خاصا آتا تھا، سومیری گزر بسر با آسانی ہونے لگی۔ اب میں ایک نیم معذور بیٹی کو پالنے اور سنبھالنے کا فرض ادا کر رہی تھی۔ بس یہی میری زندگی تھی۔ کوئی روشنی کی کرن میرے جیون میں نہ تھی۔ ارد گرد کے فلیٹ والوں سے میل جول بہت ہی کم رکھا کہ ان کو میری بد نصیبی کا علم نہ ہو جائے کیونکہ لوگ تو مجبوروں کا مذاق بنا لیتے ہیں۔ دو سال انتہائی اذیت ناک تنہائی میں گزرے، کوئی خوشی، کوئی دلچسپی زندگی میں نہ تھی۔ بیٹی بھی معذور کہ جو میرے جذبات ہی نہ سمجھ سکتی تھی، ورنہ اس کے ساتھ ہنس کھیل کر دل کا بوجھ ہلکا کر لیتی۔ یہ تو حال کی بات تھی، ماضی کی یادیں تکلیف دہ تھیں اور مستقبل کوئی نہیں تھا۔ زندگی گزاروں تو کس کے سہارے؟ ان حالات سے گزر رہی تھی کہ ساتھ والے فلیٹ میں ایک کرایے دار آ گیا۔ یہ کوئی انجینئر صاحب تھے۔ اپنی بالکونی سے ان کو آتے جاتے دیکھتی۔ عمر پینتس سال اور شکل صورت سے مہذب لگتے تھے۔ ایک روز کسی کام سے اپنے فلیٹ سے نکل رہی تھی کہ ان سے سامنا ہو گیا۔ میں زینہ اتر رہی تھی اور وہ چڑھ رہے تھے۔ ہم دونوں اچانک ایک دوسرے کے روبرو آ گئے۔ انہوں نے سلام کیا اور بولے۔ میں آپ کا نیا پڑوسی ہوں طارق۔ آئیے ! پڑوسی ہونے کے ناتے میرے گھر میں تشریف لائیے اور چائے نوش فرائیے۔ انہوں نے تو اخلاقا کہا تھا مگر میں تنہائی کے عذاب سے تنگ تھی۔ میں نے کہا۔ ابھی تو میڈیکل اسٹور تک جا رہی ہوں، واپسی میں کسی وقت ملاقات رہے گی۔ وہ اپنے گھر میں چلے گئے اور میں بیٹی کے لیے دوا لینے سامنے کے میڈیکل اسٹور میں چلی گئی۔ واپسی میں نہ جانے کیا سوجھی کہ بغیر سوچے سمجھے ان کے فلیٹ کی گھنٹی بجادی۔ سوچا، پوچھ لوں گی ، آپ نئے آئے ہیں، کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دیجئے گا۔ وہ مجھے اپنے دروازے کے سامنے کھڑے دیکھ کر حیران رہ گئے ، پھر چونک کر دروازے سے ہٹ کر ایک طرف ہو گئے اور ہاتھ کے اشارے سے راستہ دیا۔ آئیے آئیے ، زہے نصیب۔ یہ تھے ان کے استقبالیہ فقرے اور ہماری پہلی ملاقات۔ وہ ضرور اس طرح میرے آ جانے پر حیران تھے مگر دل مضبوط کر کے میں نے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ آپ کئی دن سے یہاں آئے ہوئے ہیں۔ میں آپ سے نہیں پوچھ سکی کہ کسی شے کی ضرورت تو نہیں۔ سامنے آئے تو سوچا کہ آپ بھی کیا سوچیں گے ، پڑوسیوں کے آداب تک سے یہاں کے لوگ واقف نہیں ہیں تو معذرت کرنے چلی آئی۔ آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو بلا تکلف مانگ لیا کریں۔ آپ کے گھر والے ساتھ نہیں ہیں۔ وہ ملتان میں ہیں۔ فی الحال میں ملازمت کے سلسلے میں آیا ہوا ہوں۔ وہ آنا چاہیں گے تو بلوا لوں گا۔ میں نے گھر والوں کی وضاحت نہ چاہی تو انہوں نے بھی اس بارے زیادہ بات نہیں کی۔ آپ فی الحال اکیلے رہتے ہیں ، اگر پسند کریں تو کھانا پکا کر بھیجوایا کروں ؟ ہر وقت ہوٹل کا کھانا اچھا نہیں رہتا۔ جواب میں ہلکی سی مسکراہٹ ان کے لبوں پر آ کر ٹھہر گئی۔ میں نے فلیٹ میں نظر دوڑائی، تھوڑا سا مگر ہلکا پھلا معیاری سامان تھا۔ ان کے چہرے پر نہ جانے کیا تھا کہ پہلی ہی ملاقات میں ، میں نے اپنی زندگی کھول کر ان کے سامنے رکھ دی، جواب تک کسی پڑوسی کو بھی معلوم نہیں تھی۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ اظہار ہمدردی کر رہے تھے۔ مجھے اپنے دکھ کا بوجھ ہلکا ہوتا محسوس ہوا۔ آج پتا چلا کہ میں اتنی تنہا اور اندر کے دکھ سے مجبور تھی کہ پہلی مرتبہ کسی شخص سے حال دل کہا تھا اور وہ بھی ایک اجنبی سے پہلی ملاقات میں۔ میں اس احساس کو کوئی نام نہیں دے سکی، بیٹی گھر میں سو رہی تھی۔ تارا کا خیال آتے ہی میں کسی خواب سے جاگ گئی۔ ہنستے ہنستے بیٹھی تھی اور روتے روتے اٹھی۔ تارا جسمانی طور پر بھی بہت کمزور تھی۔ سات سال کی عمر میں چار پانچ برس کی لگتی تھی۔ انہوں نے مجھے اپنے دروازے سے ہی خدا حافظ کہا اور میں اپنے فلیٹ میں چلی گئی۔
اگلے دن کے انتظار میں نیند نہ آئی۔ سچ پوچھیں تو یہ بیس گھنٹے میں نے بے چینی میں گزارے۔ دو پہر کوپلاؤ بنایا اور ایک ڈش بھر کر طارق صاحب کے لئے رکھ دی۔ کان دروازے پر لگے تھے۔ جوں ہی قدموں کی مانوس چاپ سنی، ڈش لے کر اپنے دروازے پر کھڑی ہو گئی۔ انہوں نے سلام کیا۔ میں نے جواب دیا اور کہا کہ آج پلاؤ بنایا ہے ، سوچا کہ مہمان نوازی کا تقاضا پورا کروں۔ یہ ڈش لے لیجئے۔ لاک کھول لوں ، آپ تب تک اسے پکڑے رکھنے کی زحمت اور اٹھا لیجئے۔ انہوں نے در کھولا اور بولے۔ آئیے ، اندر ٹیبل پر رکھ دیجئے۔ میں ذرا ہاتھ منہ دھو لوں۔ میں نے ایک معمول کی طرح ان کے حکم کی تعمیل کی اور ٹی وی لاؤنج میں پڑی ڈائننگ ٹیبل پر ڈش رکھ دی، ساتھ دہی اور سلاد بھی تھا۔ وہ منہ ہاتھ دھو کر لوٹ آئے۔ میں قریب پڑے صوفے اور وہ میرے سامنے کرسی کھینچ کر بیٹھ گئے۔ بہت شکریہ ! آپ نے کیوں تکلیف کی؟ بے شک مجھے خوشی ہوئی ہے ، اپنے پڑوسی کی مہمان نوازی دیکھ کر مگر آئندہ یہ تکلیف نہ کیجئے گا۔ میں اکثر کھانا باہر سے کھا لیتا ہوں۔ اس میں تکلیف کی کیا بات ہے اور ضروری تو نہیں کہ آپ روز ہی کھانا باہر کھائیں۔ مجھے دیکھ کر وہ ایسے ہشاش بشاش ہو گئے ، جیسے میرے ہی منتظر تھے۔ آج اور بے تکلفی کے ماحول میں باتیں ہوئیں۔ انہوں نے کافی بنائی، بولے۔ اگر آپ پڑوسی ہونے کے حقوق ادا کر رہی ہیں، تو مجھے بھی یہ حقوق نبھانا چاہئیں۔ میں نے کہا کہ میں بنادیتی ہوں، آپ تھکے ہوئے آئے ہیں۔ میں بہت اچھی کافی بناتا ہوں ، ورنہ ضرور آپ سے بنواتا۔ آج میرے ہاتھ کی پی لیں، کل آپ بنا دینا۔ کافی پیتے ہوئے میں نے کہا۔ آپ کے گھر والوں سے ملنے کا اشتیاق ہے۔ وہ اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے جگ بیتی اور آپ بیتی سنانے لگے ۔ ان کے بیان کا انداز مزاح لیے ہوئے تھا۔ میں بات بات پر ہنس رہی تھی، جیسے مدت بعد کسی کو ہنسنے کا موقع ملتا ہے۔ ان کی ٹیبل اور کرسیاں بے ترتیب رکھی ہوئی تھیں، ان کی اجازت سے میں نے ترتیب بدل دی۔ ان کو بھی یہ بدلاؤ اچھا لگا۔ آہستہ آہستہ ان کے گھر کی دوسری چیزوں میں بھی میں نے دخل دینا شروع کر دیا۔ روز ہی کچھ نہ کچھ بنا کر لے جانے لگی۔ کبھی ذرا دیر بیٹھ جاتی، کبھی کھڑے کھڑے دے کر آجاتی۔ وہ کہتے ضرور تھے کہ بیٹھ جائو، لیکن میں بچی کے دھیان کی وجہ سے زیادہ ٹھہر نہ پاتی تھی، پھر وہ بھی غالباً اس بات سے آگاہ تھے۔ وہ اکیلے رہتے تھے اور میں بھی، مگر بلڈ نگ میں بہت سے لوگ رہتے تھے، کہیں کوئی بات نہ بن جائے۔
وہ کافی بناتے ، میں برتن دھو دیتی، پھر بھی ہماری بات چیت رہتی۔ میں بستر کی چادر بدل دیتی۔ ان کاموں سے میرا ذہنی تنائو دور ہوتا اور سکون ملتا۔ لگتا تھا مجھے میرا کھویا ہوا حال مل گیا ہے۔ وہ میری آرزوئیں اور تمنائیں جو کسی گوشہ گمنامی میں پڑی سسک رہی تھیں، اچانک توانا ہو کر کھل اٹھی تھیں، جیسے میں سولہ سال کی الہڑ دوشیزہ بن گئی ہوں جو پہلی بار محبت کے نشے میں سر شار ہوتی ہے تو زمانے کو بھلا کر احمقانہ حرکتیں کرنے لگتی ہے ، حالانکہ یقین تھا کہ انجینئر صاحب کا تعلق محض ہمدردی اور خلوص پر مبنی تھا، مگر مجھے اپنے اوپر اختیار نہ رہا اور میں ان کے خیال میں ڈوبتی چلی گئی۔ اب یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ اس شخص کے بنا میری زندگی بے کار ہے۔ آخر کب تک محرومیاں میرا مقدر رہیں گی۔ مجھے لگتا تھا کہ اگر یہ شخص مجھے نہ ملا، تو میں اپنے آپ میں گھٹ کر مر جائوں گی۔ میں اپنے اس ” حال“ کے دوبارہ کھو جانے کو برداشت نہ کر سکوں گی۔ میں ان سے قریب تر ہونا چاہتی تھی اور اس خیال کو خود پر مسلط کر لیا۔ دن رات انہی کی سوچیں اور انہی کا خیال، زندگی کو جیسے کھوئی ہوئی سمت مل گئی تھی۔ طارق کے فلیٹ کی ایک چابی میں نے لے لی، تا کہ اپنی کام والی سے صفائی کروا سکوں۔ جی چاہتا تھا کہ اس کے گھر کو میں ہی سجا سنوار دوں ۔ جب کام والی آتی تو پہلے ان کے فلیٹ میں لے جاتی۔ وہ صفائی کرتی رہتی، میں ان کی کتابیں الماریاں وغیرہ دیکھتی رہتی۔ ان کے بیڈ پر لیٹ کر ان کا پسندیدہ میوزک سنتی۔ اپنے گمان میں ، میں ان کی ہر شے کو الٹ پلٹ کر اس کو اپنا حق سمجھنے لگی تھی۔ طارق صاحب کو اب میری ذات سے محبت ہو گئی تھی۔ وہ میرے خلوص، خوب صورتی اور خدمت سے متاثر ہو چکے تھے۔ اس اعتماد کی فضا میں ایک روز کہنے لگے۔ میں نے آج تک تم کو یہ نہیں بتایا کہ میری بیوی ہے اور بچے بھی۔ انہوں نے اپنی بیوی کی تعریفیں کیں ، تب ہی میرا رنگ زرد ہونے لگا۔ میرا چہرہ دیکھ کر انہوں نے بات بدل دی اور خطوط کا ایک پلندہ اٹھالائے۔ کہنے لگے۔ میں آپ سے بیوی کی جھوٹی تعریفیں کر رہا تھا اور آنے والے دنوں میں بھی ایسی جھوٹی تعریفیں کرتا مگر آپ کارنگ دیکھ کر سچ بات کہنا پڑ گئی ہے کہ آپ بہر حال ایک عورت ہیں۔ طے کیا تھا کہ اگر یہ تعریفیں برداشت کر لیتی ہیں، تو دل میں چھپی بات ظاہر نہ کروں گا لیکن اب یقین ہو گیا ہے کہ عورت اس شخص کے منہ سے کبھی کسی اور عورت کی تعریف برداشت نہیں کر سکتی، جس سے وہ محبت کرتی ہو۔ اب جان لیا کہ تم اور میں ایک ہی کشتی کے سوار ہیں، لہٰذا بتاتا ہوں۔ یہ وہ خطوط ہیں جو میری بے وفا بیوی نے اپنے محبوب کو لکھے تھے اور کسی طور مجھ تک پہنچ گئے۔ گو وہ اب میرے بچوں کی ماں ہے۔ یہ خطوط جب میں نے اسے دکھائے، تو وہ بہت شرمسار ہوئی۔ اس نے بہت معافیاں مانگیں۔ میں نے بچوں کی خاطر معاف تو کر دیا مگر دل نے معاف نہ کیا۔ ایک بندھن تو ہے، مگر محبت نہیں کر سکتا۔ میرا اعتماد اس پر سے اٹھ گیا ہے اور گمان رہتا ہے کہ موقع ملا تو پھر بے وفائی کرے گی۔ میں ہر وقت ذہنی اذیت میں رہتا ہوں۔ جب سے تم ملی ہو ، تمہارے شوہر کی تیسری شادی کی وجہ سے تم رنجیدہ تھیں، مجھے بھی رنج ہے۔ وہ تو تم سے ملنے تک نہیں آتا۔ تم بھی اکیلی ہو، میں بھی۔ تم بھی ایک بے وفا کی ستائی ہو اور میں بھی۔ آج جو بات میں تم سے کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں، اگر تم چاہو۔ تنہا کب تک رہو گی، جبکہ ایک ذہنی معذور بچی کا بھی ساتھ ہے۔ میں تو اسی دن کے انتظار میں تھی۔ صحرا میں ایک تنہا پودے کو پانی مل گیا تھا۔ خوشیوں کے ساتھ جینا میرا بھی حق تھا۔ ایک ساتھی کا ساتھ ، دکھ سکھ میں اس کی شراکت، یہی تو اصل زندگی ہوتی ہے۔ تنہا عورت اور وہ بھی بے بس جبکہ معذور بچی کا بھی ساتھ ہو۔ اگر اس نے کوٹھی دی، رہنے کو فلیٹ دیا تو اپنی بچی کے لیے کہ آخر وہ اس کا باپ تھا۔ آج میرا ہم نوا مجھے مل رہا تھا، میں فورا ہاں کہنا چاہتی تھی لیکن نسوانیت نے روک دیا اور میں کل جواب دینے کا وعدہ کر کے چلی آئی۔ رات کو بستر پر لیٹی تو مجھے نیند نہیں آئی۔ میں سوچ رہی تھی کہ “نہیں” کہنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قدرت ایسے موقع خوش نصیبوں کو ہی دیتی ہے۔ اتنی زندگی گزارنے کے بعد پہلی بار خوشی کا منہ دیکھنے جارہی تھی، پھر بھلا کیوں میں نہ کہتی ، تب ہی مجھے بچی کا خیال آیا۔ تارا اپنے باپ سے الگ ہونے کے بعد کئی مرتبہ بیمار ہوئی۔ ایک بار تو طارق صاحب بھی اسے اسپتال لے گئے ، تب میں نے ایک جیون ساتھی کی کمی شدید محسوس کی تھی۔ تارا بیماری کی حالت میں ہمیشہ اپنے باپ کو یاد کرتی تھی۔ وہ بس دو ہی لفظ بول سکتی تھی، مما اور بابا۔ ان دونوں ہستیوں کا ایک بچے کے ساتھ رہنا کتنا ضروری ہوتا ہے، یہ کوئی میرے دل سے پوچھے۔
اگلے دن میں کام والی کو لے کر طارق کے فلیٹ میں گئی۔ وہ آفس میں تھے۔ صفائی کرواتے ہوئے میری نظر میز پر پڑے ایک لفافے کے کونے پر پڑ گئی جو کتاب کے نیچے رکھا ہوا تھا۔ میں نے اٹھا کر دیکھا۔ لفافہ کھلا ہوا تھا، گویا طارق نے پڑھ لیا تھا۔ لفافے میں اس کی بیٹی کا خط تھا، جو اس نے اپنے بابا کو لکھا تھا۔ بابا ! آجائو، میں بہت اداس ہوں۔ میں ٹھیک طرح سے پڑھ بھی نہیں پا رہی۔ آپ کی یاد ستاتی ہے تو تصویر کو دیکھتی ہوں۔ کب آئو گے میرے بابا! میرے امتحان ہونے والے ہیں، کہیں میں فیل نہ ہو جائوں۔ خط پڑھ کر دل مٹھی میں آ گیا۔ مجھے لگا، جیسے یہ تارا ہے ، جو اپنے باپ کو بلا رہی ہے ، مگر وہ ظالم باپ ہے ، جس نے آج تک مڑ کر نہیں دیکھا۔ جو میرے دل پر گزرتی تھی، میں جانتی تھی۔ اگر زبیر سے خلع لے کر میں نے طارق سے شادی کر لی، تو مجھے یقین تھا، وہ میرا ہو کر رہ جائے گا اور مڑ کر اپنے بچوں کو نہیں دیکھے گا۔ ان کی ماں کے دل پر کیا بیتے گی اور بچوں کے دلوں پر کیا گزرے گی۔ مجھے چکر سا آ گیا۔ خوشی اور انبساط کی جو لہریں میرے اندر اٹھ رہی تھیں، ساکت ہو گئیں۔ اگلے روز دو پہر کو میں طارق کے گھر گئی۔ چھٹی کا دن تھا، وہ گھر پر میرے جواب کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ میرے چہرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ میں کچھ دیر چپ رہی، پھر کہا۔ طارق ! میں نے تم سے جو محبت کی ہے ، وہ محض خود غرضی کی بنا پر کی ہے۔ تم کو کچھ دینے کے لیے نہیں، بلکہ تم سے کچھ لینے کے لیے۔ میں بے سہارا تھی اور کسی بھی وقت زبیر مجھے طلاق دے دیتے۔ میں اپنے لیے ایک سمت تلاش کر رہی تھی، جو تم میں مل گئی۔ اب میں تمہیں حاصل نہیں کرنا چاہتی مگر تمہاری اور تمہارے بچوں کی خوشیوں میں شریک رہوں گی۔ میں معذرت چاہتی ہوں۔ میرا ضمیر اجاز ت نہیں دیتا کہ میں تمہارے بچوں کو ان کے باپ سے دور کر دوں۔ ایک ماں ہوں اور اس درد کو سمجھتی ہوں کہ باپ کسی اور عورت کا ہو جائے تو معصوم دلوں پر کیا گزرتی ہے۔ وہ بے یقینی سے مجھے تکتے رہے۔ کچھ کہنا چاہتے تھے، مگر ان کو کچھ کہنے کا موقع دینے سے پہلے میں وہاں سے چلی آئی۔ ان دنوں کوٹھی کے کرایہ دار چلے گئے تھے ، وہ خالی تھی۔ میں نے فلیٹ کو تالا لگایا اور کوٹھی میں آ گئی تاکہ طارق کو اپنے گھر ملتان جانے میں آسانی ہو کہ میری وجہ سے وہ کئی ماہ سے بچوں سے ملنے گھر نہیں گیا تھا۔ لیکن اب میرا دل پر سکون تھا۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میں نے اپنی تارا کے لئے باپ کی چھاؤں کا انتظام کر دیا ہو۔