ہم پہلے شہر میں رہتے تھے کیونکہ وہاں ابو کی ملازمت تھی۔ اچانک ابو کا انتقال ہو گیا اور ہمیں مجبوراً شہر چھوڑ کر گاؤں دادا جان کے پاس آنا پڑا۔
یہاں کا ماحول شہر کے ماحول سے بالکل مختلف تھا۔ بے شک ہمارے گاؤں میں لڑکیاں پردہ نہیں کرتی تھیں اور اسکول بھی جاتی تھیں، لیکن پابندیاں بہت تھیں۔ لڑکیاں کھلے عام کہیں بھی جا نہیں سکتی تھیں اور نہ ہی کسی سے آزادانہ بات کر سکتی تھیں۔ ہم شاپنگ کرنے گاؤں کے بازار میں بھی نہیں جا سکتے تھے کیونکہ ہمیں جس چیز کی ضرورت ہوتی، وہ گھر پر لا کر دے دی جاتی تھی۔
یہاں آ کر میں نے یہ سنا کہ ابو میری منگنی میرے چچا کے لڑکے نور سے طے کر گئے تھے۔ نور کو میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا کیونکہ وہ بھی گاؤں میں نہیں رہتا تھا۔ میرے چچا شہر میں ریلوے میں ملازم تھے، لہٰذا نور بھی اسی شہر میں رہتا تھا۔ سنا تھا کہ وہ کبھی کبھی چھٹیوں میں گاؤں آجاتا تھا۔
اس بار چھٹیاں ہوئیں تو وہ گاؤں آیا۔ ظاہر ہے کہ اس کے اور میرے دادا کا گھر ایک ہی تھا۔ میں نے پہلی مرتبہ نور کو دیکھا۔ وہ ایک خوبصورت، ہنس مکھ اور شوخ سا لڑکا تھا۔ تاہم، جب کسی نے میرا تعارف اس سے کرایا تو اس نے منہ بسور لیا۔
میں نے اپنی سخت توہین محسوس کی، مگر یہ نہ سمجھ سکی کہ آخر اس نے ایسا کیوں کیا۔ اسے مجھ سے کیا شکایت ہو سکتی تھی، جبکہ یہ ہماری پہلی ملاقات تھی –
یہ بعد میں مجھے پھوپھی نے بتایا کہ اصل میں نور کو اس کے والدین نے بتا دیا تھا کہ تم اس کی منگیتر ہو، اور وہ اسی شوق میں گاؤں آیا تھا۔ لیکن جب اس نے تمہیں دیکھا تو تم نے اسے پہلی نظر میں متاثر نہیں کیا، اس لیے وہ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر گیا۔ گھر جا کر بھی اس نے کہہ دیا، جو ہوگا، دیکھا جائے گا، لیکن میں نجمہ جیسی معمولی شکل و صورت والی لڑکی سے ہرگز شادی نہیں کروں گا۔ شادی کروں گا تو کسی خوبصورت، گوری چٹی، فیشن کرنے والی شہر کی لڑکی سے۔ نجمہ سیدھی سادی اور نہایت ہی احمق قسم کی لڑکی ہے۔
پھوپھی کے منہ سے یہ ریمارکس سن کر میرا دل بہت برا ہوا۔ میں نور کے عشق میں مبتلا نہیں تھی، لیکن کوئی میری اتنی توہین کرے اور مجھے صرف اس لیے رد کر دے کہ میں سانولی اور سیدھی سادی ہوں، تو یہ توہین نہیں تو اور کیا تھا؟ وہ خود کون سا گلفام یا پری جمال تھا، بس ذرا شہر میں رہنے کی وجہ سے لباس پہننے کا ڈھنگ تھا۔
میں نے دل میں سوچ لیا کہ اگر نور نے دوبارہ میری توہین کی، تو میں اسے اس کا مزہ چکھا دوں گی۔ وقت گزرتا گیا۔ آٹھویں سے نویں، پھر میٹرک تک پہنچ گئی۔ اس دوران نور ایک آدھ بار ہی گاؤں آیا، لیکن اس نے مجھ میں کوئی دلچسپی نہ دکھائی، اور میں نے بھی اس سے بات چیت کو غیر ضروری سمجھا۔ جب کسی کو میری ضرورت نہیں، تو وہ میرے لیے اہم کیوں ہوتا؟
میٹرک کے بعد میں گھر بیٹھ گئی۔ ہمارے یہاں لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کا تصور نہیں تھا، اور گاؤں میں لڑکیوں کا کالج بھی نہیں تھا۔ مجھے افسوس ضرور تھا کہ اگر ابو کا انتقال نہ ہوا ہوتا، تو میں اس وقت شہر میں ہوتی اور کالج میں پڑھ رہی ہوتی۔
یہ گرمیوں کے دن تھے۔ طویل چھٹیوں میں چچا جان کا خاندان شہر سے گاؤں آیا، اور وہ بھی ساتھ تھا۔ ان دنوں وہ بی ایس سی کے آخری سال میں تھا۔ اب تو وہ پہلے سے زیادہ اسمارٹ اور خوبصورت ہو گیا تھا۔ ہر ایک سے ہنسی مذاق کرتا، سب سے خوش دلی سے ملتا، لیکن اگر کسی کو نظر انداز کرتا، تو وہ میں تھی۔ میرے ساتھ ایسے رویہ اختیار کرتا جیسے میں کوئی چھوت کا مرض ہوں۔
مجھے اس کے آنے سے کوئی خاص خوشی نہ تھی، لیکن دل گرفتہ ضرور ہو جاتی تھی کہ آخر مجھ میں ایسی کیا کمی ہے جو یہ حضرت مجھ سے نفرت کرتے ہیں اور کٹے کٹے رہتے ہیں۔ انہی دنوں دوبارہ میری اور نور کی شادی کی بات چھڑ گئی۔ دادا جان، جو ان دنوں زندہ تھے، چاچا جان پر دباؤ ڈالنے لگے کہ نجمہ اب شادی کے قابل ہو چکی ہے، اس کو بہو بنا کر ساتھ لے جاؤ۔ یہ منگنی ان کی خواہش پر ہوئی تھی، اور وہ چاہتے تھے کہ یہ فرض جلد ادا ہو جائے۔
پھوپھی نے بتایا کہ نور حسبِ معمول آنا کانی کر رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ شہر کی خوبصورت لڑکی سے شادی کرے گا، جس سے چچا اور پھوپھی پریشان تھے۔ لیکن دادا جان نے سختی سے حکم دیا کہ شادی اس بار گرمیوں میں ہو جانی چاہیے۔یہ سن کر میرے غصے کا پارہ چڑھ گیا۔ دل چاہتا تھا کہ نور کو خوب سناؤں اور خود شادی سے انکار کر دوں۔ بھلا وہ خود کو کیا سمجھتا تھا؟ وہ کون سا دنیا کا سب سے زیادہ بانکا، سجیلا یا حسین لڑکا تھا؟ لیکن دادا جان کی محبت اور ان کے بڑھاپے کے احترام کی وجہ سے میں ایسا کچھ کہنے کی ہمت نہ کر سکی۔
پھر ایک دن پھوپھی سے سنا کہ نور کہہ رہا ہے کہ وہ خود مجھ سے بات کرے گا تاکہ اس معاملے سے جان چھڑا سکے۔ یہ سن کر میں نے ٹھان لی کہ اگر وہ بات کرنے آیا، تو میں بھی اسے ایسی کھری کھری سناؤں گی کہ وہ عمر بھر یاد رکھے گا۔ اس کے بعد میں نے نور کی طرف دیکھنا بھی چھوڑ دیا۔ وہ سامنے آجاتا تو میں اندر چلی جاتی۔ اگر اسے میری شکل پسند نہیں تھی، تو مجھے بھی اس کی صورت دیکھنا گوارا نہ تھا۔
اگست کا مہینہ تھا، گرمی کی شدت دم توڑ رہی تھی۔ آسمان پر بادل چھا گئے تھے، اور کبھی کبھار بارش کی جھڑی لگ جاتی تھی۔ جبس کی شدت کبھی اتنی بڑھ جاتی کہ سانس لینا دشوار ہو جاتا۔ ایک روز ایسے ہی بادل چھائے، لیکن بارش نہ ہوئی۔ جبس کی وجہ سے میرا دم گھٹنے لگا، تو میں چھت پر چلی گئی۔
ہماری چھت پر ایک کمرہ بھی بنا ہوا تھا۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ نور کمرے میں موجود ہے، مگر شاید اس نے مجھے زینے سے آتے دیکھ لیا تھا یا میری آہٹ سن لی تھی۔ اچانک اس نے آواز دی، نجمہ۔ میں حیرت سے کمرے کی طرف دیکھنے لگی۔ یہ اس کی آواز تھی، لیکن یہ سوچنا مشکل تھا کہ وہ، جو مجھ سے بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتا تھا، مجھے آواز دے رہا ہے۔ مجھے گمان ہوا شاید میرے کان بجنے لگے ہیں۔پھر اس نے دوبارہ کہا، میں ہوں نور… نجمہ، ذرا دیر کے لیے اندر آ جاؤ، مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔میں کمرے کے دروازے پر جا کر رکی اور کہا، کیا بات ہے؟ کہو۔وہ بولا، یہاں نہیں، اندر آ کر سنو۔ یہ بات بہت اہم ہے۔میں نے سختی سے جواب دیا، نور، میں اندر نہیں آ سکتی۔ جو کہنا ہے، یہیں سے کہہ دو۔یہ سن کر وہ دروازے پر آگیا اور میرے بازو کو پکڑ کر زبردستی کمرے کے اندر لے جانے لگا۔ اس کی اس حرکت پر میرا غصہ شدت اختیار کر گیا۔ جو شکایت، بیزاری، اور نفرت میں نے دل میں دبائی ہوئی تھی، وہ یکدم عود کر آئی، اور میں نے بے اختیاری میں ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر جڑ دیا۔شاید اسے مجھ سے ایسی حرکت کی توقع نہ تھی۔ وہ حیرت سے بوکھلا گیا، جیسے اسے دن میں تارے نظر آنے لگے ہوں۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میں اس کے منہ پر طمانچہ مار دوں گی۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہہ پاتا، میں تیزی سے سیڑھیوں سے نیچے اتر گئی اور اپنے کمرے میں جا کر رونے بیٹھ گئی۔
اگلی صبح چچا اور پھوپھی دادا جان کے پاس آئے اور کہا، نور نجمہ سے شادی پر رضامند ہو گیا ہے۔ آپ شادی کی تاریخ طے کر دیں۔ رات اس نے خود کہہ دیا ہے کہ ہاں، میں نجمہ سے شادی کروں گا۔یہ سنتے ہی پھوپھی اور میں حیرت سے ششدر رہ گئے۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ میں سوچنے لگی، نور کا دماغ خراب ہو گیا ہے یا پھر وہ اس تھپڑ کا انتقام لینے کے لیے مجھ سے شادی کر رہا ہے۔اب میرا دل لرزنے لگا۔ یا الٰہی… یہ کیا ہو رہا ہے؟ نجانے اس تھپڑ کا بدلہ نور شادی کے بعد مجھ سے کیسے لے گا؟
خیر ڈرتے ڈرتے وہ دن بھی آ گیا۔ میں دلہن بنا کر نور کے حوالے کر دی گئی لیکن اس نے تحقیر کا بدلہ مجھے بہت پیار سے دیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ تم نے ناحق مجھے تھپڑ مارا تھا پاگل ! میں تو اس دن تمہیں اس لئے بلا رہا تھا کہ تم مجھ سے کھنچی کھنچی رہتی تھیں اور میں شادی کے لئے تمہاری رائے لینا چاہتا تھا ورنہ تو جس قدر میں تم سے محبت کرتا ہوں، دنیا میں کسی نے کسی سے نہ کی ہو گی۔ میں تم کو دیکھنے کے بہانے ڈھونڈا کرتا تھا۔ اپنی منگیتر کو میں چھوڑنے کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا۔ تم سے دور دور اس لئے رہتا تھا کہ تم مجھے ایک اچھا لڑکا سمجھو اور پھو پھی یا گھر والوں کو میرا یہ کہنا کہ نجمہ سے شادی نہیں کروں گا، محض تم کو چھیڑنے اور ستانے کے لئے تھا، تم نے اس کو سچ سمجھ لیا۔ مجھے نہیں معلوم نور کی کیا نفسیات تھی۔ وہ سچ ہی کہتا ہو گا لیکن میں وہ تھپڑ مار کر آج نور کے سامنے شرمندہ ہوں۔ وہ اب بھی کبھی کبھی مجھے یاد دلاتے ہیں کہ نجمہ ! تم وہی تھپڑ مارنے والی ہو ؟ تو میں شرم کے مارے نظریں نیچے جھکا لیتی ہوں۔