یہ آج سے تیس برس قبل کی بات ہے جب میں، شوہر اور بچوں کے ہمراہ دیہات میں رہتی تھی۔ میرے میاں وہاں سرکاری آفیسر تھے۔ ہمیں بہت اچھا گھر ملا ہوا تھا۔ نوکر چاکر غرض زندگی کی ہر سہولت میسر تھی۔ میں پڑھی لکھی تھی۔ چاہتی تھی کہ گھر داری کے علاوہ کچھ کام کروں۔ گھر میں بے کار پڑے رہنے سے الجھن ہوتی تھی۔ لہٰذا علاقے کے سوشل کاموں میں حصہ لینے لگی۔
اسی دوران ایک مصیبت زدہ بیس سالہ لڑکی سے ملاقات ہوگئی جسے اس کا کوئی رشتے دار بنگلہ دیش سے ملازمت کا جھانسا دے کر پاکستان لے آیا تھا اور یہاں ایک دیہاتی کے ہاتھ لاکھ روپے میں فروخت کردیا تھا۔
لڑکی خاصی پرکشش تھی تاہم صدمے سے مرجھائی ہوئی تھی۔ اس کا نام کنچن تھا اور اسے ایک عمر رسیدہ دیہاتی خرید کر لایا تھا۔ اس نے کنچن سے نکاح کرلیا۔ اس نکاح میں لڑکی کی مرضی شامل نہ تھی لیکن جہاں یہ عورتیں اسمگل ہوکر آتی تھیں تو وہیں خریدنے والے سے ان کا نکاح کردیا جاتا تھا اور یہ بے بس عورتیں کچھ نہ کرسکتی تھیں۔ کنچن بھی اسی طرح اپنے خریدار شوہر کے ہمراہ ایک دیہات میں لائی گئی۔ وہ یہاں آکر سخت ناخوش تھی۔ وہ پانچ جماعتیں پڑھی ہوئی تھی۔ اس نے پڑوسن کے ذریعے کئی خطوط اپنے والدین کو بھجوائے مگر کوئی جواب نہ آیا وہ نراش ہوگئی۔
دیہاتی کا گھر اسے ایک قید خانہ لگتا تھا۔ اس کا شوہر عمر میں اس سے پینتیس برس بڑا تھا۔ وہ اسے کھیتوں میں کام کرنے کو کہتا تھا۔ کنچن کا دل کسی کام میں نہیں لگتا تھا۔ بالآخر پڑوسن کی مدد سے ایک دن وہ گھر سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوگئی۔ شہر پہنچی تو تھانے دار کی نظر اس پر پڑی۔ مشکوک جان کر پولیس والے اسے تھانے لے آئے۔ اتفاق سے میرے شوہر وہاں موجود تھے۔ تھانے دار نے ان سے کہا۔ محبوب صاحب، یہ لڑکی لاوارث ہے۔ جہاں سے نکل بھاگی ہے وہاں جانا نہیں چاہتی۔ دارالامان بھجوائیں گے تو بھی اسے سکون نہیں ملے گا۔ وہاں جانے ایسی کتنی عورتیں پہلے سے بھری پڑی ہیں۔ چاہتا ہوں کوئی شریف گھرانہ اسے پناہ دے دے اور پھر اسے والدین کے پاس بھجوانے میں مدد کرے۔
محبوب نے کچھ دیر سوچا اور کہا۔ اسے آپ میری بیگم کے حوالے کردیجیے۔ کچھ دنوں سے وہ کہہ رہی تھیں کوئی خاتون مل جائے تو اپنے پاس رکھ لوں گی کیونکہ ان کی طبیعت آج کل ٹھیک نہیں ہے۔ ضروری کارروائی کے بعد میرے شوہر کنچن کو ساتھ لے آئے۔ کہا کہ جب تک اس کو اس کے وطن واپس بھجوانے کا بندوبست نہیں ہوتا آپ رکھ لیں، ہمارا گھرانہ اس کے لیے محفوظ جگہ ہے۔ میں نے کنچن کو بخوشی رکھ لیا۔ میں اس کے لیے روز اس کی پسندیدہ خوراک چاول اور مچھلی منگواتی اور وہ بہت شوق سے کھاتی۔ نئے کپڑے بنوا کر دیے۔ وہ خوش و خرم ہوگئی۔
کنچن بہت جلد میرے بچوں سے مانوس ہوگئی۔ ان سے باتیں کرتی اور کھیل میں ان کے ساتھ شریک ہوجاتی۔ غرض کہ چند دنوں میں اس کی اداسی ختم ہوگئی۔ اب وہ بے حد خوش رہنے لگی۔ گھر کے کاموں میں خوش دلی سے ہاتھ بٹانے لگی۔ ہر کام سلیقے سے کرتی تھی۔ کنچن کے آنے سے مجھے بڑا سکون ملا۔
اب میں باہر جانے کے لیے آزاد تھی۔ شہر کی تقریبات میں حصہ لیتی، لیڈیز کلب جاتی، گھر میں سہیلیوں کی پارٹیاں کرتی کیونکہ کنچن نے بہت سی ذمے داریاں سنبھال لی تھیں۔ تاہم میں اس بات سے غافل نہ تھی کہ وہ اپنے گھر اور گھر والوں سے دور ہے۔ محبوب سے کہتی رہتی کہ اس کی واپسی کا کچھ کریں، اسے اپنے وطن بھجوانے کے لیے کوشش کریں۔ وہ کہتے ہاں، کوشش کررہا ہوں۔
ایسا کہتے کہتے کئی ماہ نکل گئے اور محبوب نے کنچن کو اس کے وطن بھجوانے کے لیے کچھ نہ کیا۔ اس نے بھی اب اپنے گھر والوں کا تذکرہ کرنا ترک کردیا تھا۔ لگتا تھا کہ اس کا دل ہمارے گھر میں لگ گیا ہے اور وہ اس پناہ گاہ کو چھوڑ کر اب کہیں نہیں جانا چاہتی۔ انہی دنوں مجھے سماجی بہبود کے محکمے میں اعزازی کام کی آفر ہوئی۔ میں قریبی شہر میں جزوقتی تعینات ہوگئی۔ یہ شہر ہمارے شہر سے بمشکل آدھ گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ محکمے کی گاڑی مجھے لانے اور چھوڑنے کے لیے وقت پر آجاتی تھی۔
محبوب نے اعتراض کیا کہ گھر میں بچے اکیلے ہوجاتے ہیں۔ وہ اسکول سے آئیں گے تو ماں موجود نہیں ہوگی۔ تمہیں سماجی بہبود کے کام کی کیا ضرورت ہے چھوڑو اس کام کو۔ ہمارے بچوں کو پریشانی اٹھانی پڑے گی۔ میں نے کہا۔ بچے گھر میں اکیلے نہیں ہوں گے، کنچن ہمہ وقت موجود ہوتی ہے۔ وہ مجھ سے زیادہ ان کا خیال رکھتی ہے۔ اسکول سے آتے ہیں تو انہیں کھانا دے دیتی ہے۔ بچوں کی فکر نہ کریں۔ یوں بھی آپ صبح کے گئے شام ڈھلے آتے ہیں، میں آپ سے پہلے گھر پہنچ جائوں گی۔ بہرحال اپنے شوہر کی مرضی کے خلاف… بے حد اصرار کرکے میں نے فلاحی کام کی کچھ ذمے داریاں اپنے ذمے لے لیں۔
بچوں کو اسکول بھیج کر میں قریبی شہر چلی جاتی اور تین بجے دوپہر کے قریب گھر واپس آجاتی۔ کبھی جب فنکشن وغیرہ کا اہتمام کرانا ہوتا تو چار پانچ بج جاتے تھے ورنہ عموماً دوپہر تک واپسی معمول تھی۔
کنچن اب میری چھوٹی بہن کی طرح تھی۔ اس نے میرے گھر کا سارا انتظام سنبھال لیا تھا۔ زندگی میں سکھ، سکون اور خوشیاں مجھے حاصل تھیں۔ دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ گھر ان پھولوں سے مہکا کرتا تھا۔ ان کی شوخیوں میں کنچن کے قہقہے بھی شامل ہوجاتے تھے۔ میرے گھر کی رونق دوبالا ہوجاتی تھی۔
محبوب بھی، میری محبت کا دم بھرتے تھے۔ ان کی محبت کا مرکز میری ذات تھی۔ پھر اس پھولوں بھرے گلشن کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی کہ ایک روز جب میں گھر لوٹ رہی تھی شدید گرمی میں سر میں سخت درد محسوس ہوا اور میں گاڑی میں ہی بے ہوش ہوگئی۔ مجھے اسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ انہیں فوراً ملتان لے جائیں۔ محبوب کو فون کرکے انہوں نے بلوا لیا۔ وہ مجھے اسی وقت ملتان کے ایک بڑے اسپتال لے آئے جہاں قابل ڈاکٹر موجود تھے۔ انہوں نے علاج شروع کردیا۔ میں اسپتال میں داخل تھی اور بچے کنچن کے پاس گھر میں تھے۔ محبوب روز آتے اور شام کو واپس گھر چلے جاتے۔ غرض بہت مشکل دن تھے۔
میرے دماغ کا ایکسرے لیا گیا۔ دو روز بعد ہوش میں آئی تھی اور پھر سر میں درد کی لہریں اٹھیں دوبارہ بے ہوش ہوگئی۔ غرض کہ معاملہ سنجیدہ تھا اور ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ مجھے افاقہ نہ ہوا تو کراچی لے جانا ہوگا۔ پندرہ دن بعد درد میں کمی آگئی۔ میری حالت بہتر ہوگئی تو میں گھر آگئی مگر اب بھی چلنے پھرنے کے قابل نہ تھی، بستر پر پڑی رہتی تھی۔
کنچن نے گھر اور بچوں کو سنبھالا ہوا تھا۔ محبوب کے کپڑے استری کرنا، ناشتہ وقت پر تیار کرنا اور بچوں کے یونیفارم روز دھوکر اور انہیں تیار کر کے اسکول بھیجنا اور ساتھ ان کے میری تیمارداری بھی کرنا۔ غرض کہ کوئی نیکی ایسی کام آئی تھی کہ ہمیں کنچن جیسی اچھی لڑکی مل گئی تھی ورنہ شاید گھر کا شیرازہ بکھر جاتا، کیونکہ میری طبیعت سنبھلنے کے باوجود مکمل طور پر بہتر نہیں ہو پارہی تھی۔ کسی بھی وقت حالت غیر ہوجاتی، غشی طاری ہوجاتی تو کسی بات کی سدھ بدھ نہ رہتی تھی۔
کچھ دنوں بعد مسلسل کام کاج کے دبائو سے کنچن تھکی تھکی نظر آنے لگی۔ تبھی میاں نے کہا۔طاہرہ میرا مشورہ ہے کچھ دنوں کے لیے میکے چلی جائو۔ اپنوں میں رہوگی تو آرام مل جائے گا۔ کنچن تھکی ہوئی لگتی ہے ایسا نہ ہو یہ بیمار پڑ جائے۔ پھر گھر کون دیکھے گا۔ تمہاری صحت یابی تک تمہیں بھی مکمل آرام کی ضرورت ہے۔ کچھ دن میکے میں رہوگی تو اِن شاء اللہ بالکل ہشاش بشاش ہو جائو گی کیونکہ ماحول بدلے گا تو صحت میں بہتری آئے گی۔ میں خود بھی چند دن امی اور بہن بھائیوں کے درمیان رہنا چاہتی تھی۔ میرا میکہ شہر میں تھا جہاں سے ملتان نزدیک تھا۔
میں نے خوش دلی سے ہامی بھرلی۔ محبوب مجھے امی کے گھر چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ صبح شام دیکھنے آتے تھے کیونکہ ان کا آفس یہاں سے قریب تھا۔ چھٹی کے دن بچوں کو ساتھ لے آتے۔ کنچن کبھی آتی اور کبھی گھر پر رہ جاتی۔
میں ایک ہفتے کے لیے آئی مگر ایک ماہ میکے میں رہ گئی کیونکہ والدہ اور بہنوں نے جانے نہ دیا۔ کہا کہ جب تک مکمل صحت یاب نہ ہو جائو یہیں رہو۔ انہوں نے بہت توجہ سے میری دیکھ بھال کی۔ اپنوں کی محبت سے بالآخر میں صحت یاب ہوگئی اور اپنے گھر واپس آگئی۔
یہاں آکر عجیب سا لگا جیسے دنیا بدلی بدلی سی ہے۔ گھر میں فرنیچر کی ترتیب بھی بدلی ہوئی تھی اور ان میں کچھ نئی چیزوں کا اضافہ ہوا تھا۔ مثلاً پرانے صوفے کی جگہ نیا صوفہ اور پرانے پلنگوں کی جگہ نئے اور بڑا شو کیس آگیا تھا۔ کچھ نئے برتن آچکے تھے۔ میں نے محبوب سے سوال کیا یہ چیزیں کیوں خریدی ہیں۔ کہنے لگے کنچن نے منگوائی ہیں۔ کان کھالیے تھے کہ پرانی چیزیں اچھی نہیں لگتیں اس کا دل رکھنے کو لے لی ہیں۔
میں نے اس بات کو اہمیت نہ دی۔ کنچن کا مزاج سمجھتی تھی، وہ ایسی ہی متنوع مزاج کی تھی۔ سوچا اچھا ہوا جو کام مجھ سے نہ ہوا وہ کنچن نے کرا دیا۔ گھر تو میرا ہے۔ اب زیادہ اچھا لگ رہا ہے۔
کنچن پہلے سے زیادہ میرا خیال رکھتی تھی۔ وہ میری خوشنودی اور خاطر تواضع میں لگی رہتی تھی۔ میں سمجھ رہی تھی کہ بیماری کے باعث زیادہ خیال رکھتی ہے لیکن جلد ہی میں نے محسوس کیا کہ میرے شوہر کی نظریں کنچن کی نظروں سے جب ملتی ہیں تو کچھ کہتی ہیں اور لمحے بھر کو دونوں کی توجہ میری جانب سے ہٹ جاتی ہے۔
دو ہفتوں بعد امی اور بھائی آگئے۔ بولے تمہارے بھتیجے کی سالگرہ ہے تمہیں لینے آئے ہیں۔ ہمارے ساتھ چلو، سب خوش ہوجائیں گے۔ ان کے اصرار پر چلی تو گئی مگر میکے میں بھی چین نہ پایا۔ دن رات کے سب لمحات کاٹنے کو دوڑتے تھے۔ امی اصرار کرتی تھیں ابھی تمہیں نقاہت ہے۔ گھر کہیں بھاگا نہیں جا رہا۔ کچھ دن اور یہاں آرام کرلو مگر میں نہ ٹھہر سکی۔ لوٹ کر اپنے گھر آگئی۔ بھائی مجھے چھوڑنے آئے تھے۔
جونہی گھر میں قدم رکھا خوش ہونے کی بجائے میرے شوہر کا منہ اتر گیا۔ کہنے لگے۔ اتنی جلدی آگئیں۔ کچھ دن اور وہاں رہ لیتیں۔ یہاں بچے تنگ کریں گے، شور شرابا کرتے ہیں۔ کہیں پھر بیمار نہ پڑ جائو۔ ان کے لہجے میں کچھ ایسا بیگانہ پن محسوس ہوا کہ دل بیٹھ گیا۔ کنچن سامنے آئی تو وہ بھی بدلی بدلی لگی، سوچا ایسی اچھی لڑکی پر شک کرنا کفرانِ نعمت ہے۔ یہ نہ ہوتی تو نہ جانے کیا ہوتا۔ اللہ جانے ہم عورتوں کی فطرت میں شک کا زہر کیوں گھلا رہتا ہے۔ اپنے محسن کو بھی مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں۔ میں اپنی سوچ پر شرمندہ ہوگئی۔
کچھ دن گزرے کہ پھر سر میں درد رہنے لگا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ کراچی جاکر دکھائیں۔ ہم نے کراچی کی تیاری باندھ لی۔ چاہتی تھی کہ کنچن ہمارے ساتھ نہ جائے بلکہ بچوں کے ہمراہ رہے، لیکن محبوب نے اسے بھی ساتھ چلنے کو کہا اور بچوں کو میری والدہ کے گھر چھوڑ آئے۔
ہم گاڑی میں بیٹھے تو مجھ سے بیٹھا نہ جارہا تھا۔ ناچار پچھلی سیٹ پر لیٹ گئی اور کنچن کو محبوب کے ساتھ اگلی نشست پر بیٹھنا پڑا۔ بولے۔ کنچن کو ساتھ لانا ضروری تھا۔ لمبا سفر ہے رستے میں اگر تمہاری طبیعت بگڑ گئی تو یہ ہماری مددگار ہوگی۔ یہی سوچ کر ساتھ لایا ہوں۔
کراچی جاکر ہوٹل میں ٹھہرے۔ میاں صاحب نے دو کمرے لیے۔ ایک میں کنچن کا بیگ رکھوا دیا کہ یہ رات کو علیحدہ سوئے گی اور دوسرے کمرے میں ہم میاں بیوی رہیں گے۔ اگلے روز ہم نے اسپتال جانا تھا۔ رات کو پہلے پہر میری آنکھ لگ گئی۔ شاید دوا میں کچھ نشہ تھا۔ میاں صاحب اپنے کمرے سے نکل کر کنچن کے کمرے میں چلے گئے۔ میں رات بھر گہری نیند میں ڈوبی رہی۔ صبح دن چڑھے آنکھ کھلی۔ بیرے نے چائے لاکر دی، میں نے پوچھا۔ صاحب کدھر ہیں؟ کہا۔ وہ ساتھ والے کمرے میں اپنی دوسری بیگم کے پاس ہیں۔ میں ابھی بلا کر لاتا ہوں۔
دوسری بیگم…؟ میں نے حیران ہوکر دہرایا۔ جی انہوں نے ہوٹل کے انٹری رجسٹر میں یہی لکھوایا ہے۔
میرا سر چکرانے لگا۔ میاں صاحب آئے تو میں برس پڑی کہ یہ بیرا کیا کہہ کرگیا ہے… میں نے آپ کو نہ پاکر بیل دی تو بیرے نے کہا ہے کہ وہ دوسری بیگم کے پاس ہیں۔ کنچن کب سے آپ کی دوسری بیگم ہوگئی ہے۔
وہ بیرا پاگل ہے۔ انہوں نے کہا۔ یہ لوگ ایسے ہی شگوفے چھوڑتے ہیں۔ ہوٹل میں کئی طرح کے جوڑے آکر ٹھہرتے ہیں تو ان کے دماغ میں کہانیاں بن جاتی ہیں۔ انہیں عادت ہوجاتی ہے فرضی داستانیں گھڑنے کی۔ میں چپ ہو گئی۔ ہوٹل میں جھگڑنا مناسب نہ تھا۔ علاج کے لیے گھر سے اتنی دور آئی تھی اور محبوب کی ہی رہینِ منت تھی۔ تاہم میرے دل میں وسوسوں نے جڑ پکڑ لی۔
ایک ہفتے ہم ہوٹل میں رہے۔ چیک اَپ اور علاج معالجے کے مراحل طے کرنےکے بعد واپسی ہوئی تو تمام راستے خاموش رہی۔ کنچن بھی راستے بھر سفر میں نہ بولی۔ لگتا تھا ایک گمبھیر خاموشی نے ہم تینوں کی آوازوں کو نگل لیا ہے۔
گھر پہنچ کر میں اس معاملے کی ٹوہ میں لگ گئی۔ بھائی کو بتایا۔ کمپنی میں ان کا دوست آفیسر لگا ہوا تھا۔ اس نے بتایا کہ نکاح کے رجسٹر پر ان کا نکاح درج ہوچکا تھا۔ کنچن سے نکاح کا ثبوت مل گیا۔ محبوب نے اس کے ساتھ ان دنوں نکاح کیا جب میں ایک ماہ میکے میں رہی تھی۔ اب کونسا پردہ باقی رہ گیا تھا، پھر بھی میں نے میکے جاکر رہنا مناسب نہ سمجھا کیونکہ چار بچوں کا سوال تھا جو تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ بہرحال کنچن کو میں نے رخصت کردیا۔
بعد میں معلوم ہوا کہ میاں صاحب نے اسے علیحدہ گھر لے دیا ہے اور وہ کبھی میرے پاس تو کبھی اس کے پاس ہوتے ہیں۔ میکے سے مجھے شوہر سے الگ ہوجانے کا مشورہ ملا مگر… اپنے جذبات سے زیادہ اپنے بچوں کے مفاد کی خاطر اس صدمے کو قبول کرلیا۔ اپنے گھر کو چھوڑ کر نہیں گئی یہ سوچ کر کہ… سوتن شاید قسمت میں لکھی گئی تھی سو مل گئی۔ اگر کنچن نہ ہوتی تو کوئی اور ہوتی۔ کنچن لاوارث تھی۔ اس کا کوئی گھر بار تھا اور نہ پیسے پاس تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اسی کا محتاج رکھنا تھا اس لیے یہ انتظام کردیا تھا۔ میں پوری طرح صحت یاب نہ ہوسکی… آج بھی وہیل چیئر پر ہوں۔ بچوں کا اور میرا سارا کام کنچن ہی کرتی ہے، سوتن کی طرح نہیں ایک خدمت گار کی طرح گھر میں رہتی ہے۔ میرا ادب کرتی ہے اور سچ بات یہ ہے کہ اس بیماری میں میرا بھی اس کے بنا گزارہ نہیں ہے۔
(ک… لاہور)