Sunday, January 12, 2025

Tum Hoor He Thee | Teen Auratien Teen Kahaniyan

ایک رات کھانے کے بعد اپنے کمرے میں سونے کیلئے آئی کہ میری دس سالہ پوتی دادی، دادی کرتی ہوئی آگئی۔ کیا بات ہے ؟ دادی ! غیرت کے نام پر قتل کیا ہوتا ہے ؟ خبروں میں آیا ہے۔ کچھ دیر تک تو میں ساکت رہ گئی مگر بچی کو مطمئن کر نا ضروری تھا۔ دس سال کی عمر ہی کیا ہوتی ہے۔ کوئی غلط بات دماغ میں نہ آجائے۔ اس کو بتایا، بیٹا ! قتل بہت برا فعل ہے۔ وہ بڑی بڑی معصوم آنکھیں گھما گھما کر ہاں ہاں کرتی رہی۔اس وقت بڑی پیاری لگی۔ میرے دل سے دعا نکلی۔ اللہ اس کو اور ہر لڑکی کو کسی شیطان نما انسان سے محفوظ رکھنا اور اس کے ساتھ ہی میں ساٹھ برس پیچھے چلی گئی۔ ان دنوں ہم انڈیا میں یوپی کے ایک گائوں میں رہتے تھے۔ میرے والد تین بھائی تھے۔ تایا، میرے ابو اور چچا۔ چچا بہت چھوٹے تھے۔ چند ماہ عمر تھی کہ جب دادی کا انتقال ہو گیا۔ دادی کی بہن جو میری نانی تھیں، انہوں نے سب کی پرورش کی۔ وقت گزرتا گیا۔ نانی کی تینوں بیٹیوں کی شادیاں دادی کے تینوں بیٹوں سے ہو گئیں۔ کچھ دنوں کے بعد نانا، نانی دونوں کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ تایا کے تین بچے احمد بھائی، حور باجی اور راحت تھے جبکہ میں باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔ چچا کی شادی کے بعد ان کو بہت دنوں تک اولاد کی خوشی دیکھنی نصیب نہیں ہوئی۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب چچا کا پہلا بچہ شیر خوار تھا اور حور باجی پندرہ سال کی تھیں۔ مشترکہ فیملی سسٹم میں رہتے تھے۔ گھر ایک تھا، کھانا پکانا الگ الگ تھا۔ تائی کو میں تائی خالہ کہتی ۔ ان کو سبزی لگانے کا شوق تھا۔ ہم گھر کی سبزیاں پکاتے ۔ بچی کو پھولوں کا شوق تھا۔ ہر موسم کے پھول آنگن میں بہار دکھاتے تھے، خاص کر سردیوں میں آدھا صحن گیندے کے پھولوں سے پیلا ہوتا جو بہت خوبصورت لگتا تھا۔ میری والدہ کو کھانے پکانے کا شوق تھا۔ ہر ہفتہ سب ایک ساتھ بیٹھ کر کھاتے اور ان کھانوں کا مزہ لیتے تھے۔ بڑی پر سکون زندگی تھی حالانکہ یہاں کوئی عزیز تھا اور نہ رشتہ دار ، بس محلہ ہی ہمارے لئے سب کچھ تھا۔ پھر اچانک ایک ایسا واقعہ ہوا کہ زندگی ہی بدل گئی۔ ایک رات حور باجی گھر سے چلی گئیں۔ کہاں گئیں؟ کسی کو پتا نہ تھا۔ بس ایک خط ملا کہ میں آپ لوگوں کیلئے مر گئی ہوں، تلاش مت کیجئے گا۔ گھر والے سب کچھ سمجھ گئے۔ تایا نے کمرے میں بلا کر ہم سب کو سمجھایا کہ اگر عزت چلی گئی، سب کچھ چلا جائے گا لہٰذا خاموش رہنا ہے۔ وہ بہت عقلمند تھے۔ یہ بات گھر سے باہر نہ نکالی لیکن سارا گھر سکتے میں تھا۔ مردوں میں بات بند کمرے میں ہوئی۔ صبح سورج کی روشنی سے پہلے ہی تایا اور احمد بھائی شہر چلے گئے۔ احمد پڑھائی کے سلسلے میں شہر میں ہوتے تھے اور ان دنوں دیوالی کی چھٹی میں آئے ہوئے تھے۔ ہم نے سب کو بتادیا کہ تایا کے ساتھ حور بانو شہر گئی ہیں۔ یہ بات سارے محلے کو بتادی کہ اس بار احمد بھائی کے ساتھ تایا اپنی بیٹی حور بانو کو بھی شہر گھمانے لے گئے ہیں۔ بس اوپر والا ہی سب کے عیب ڈھانپتا ہے، پردہ ڈالتا ہے۔

تیسرے دن گھر پر ٹیلیگرام آیا جو ہمارے پڑوسی نے اتفاق سے وصول کیا۔ اطلاع تھی کہ حور بانو ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں فوت ہو گئی ہیں اور مجبور شہر میں ہی تدفین کرنی پڑی ہے۔ پڑوسی نے محلے کے گھروں میں جا کر بتادیا اور ہمارے گھر بھی کہرام مچ گیا۔ محلے دار تعزیت کو آئے اور ہمارے گھر والوں نے اشک بہائے ۔ دل پر جبر کر کے زندہ اور گمشدہ حور باجی کا سوئم اور چالیسواں کیا گیا۔ دنیا کو باور کرانے کیلئے کہ حور دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ گھر میں ویرانی نے ڈیرہ ڈال دیا۔ اس غم سے دو ماہ بعد تا یا بھی چلے گئے۔ گھر میں اور زیادہ اداسی چھا گئی ۔ تائی کو چپ لگ گئی، ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ وقت آگے بڑھا اور راحت کی شادی ہو گئی۔ گھر کی خاموشی کچھ کم ہوئی۔ احمد بھائی جاب کے سلسلے میں شہر چلے گئے۔ میرا بھی رشتہ آگیا اور شادی ہو گئی۔ جن سے شادی ہوئی ان کا نام ندیم تھا۔ ندیم آگرہ میں ایک اسکول ٹیچر تھے۔ کچھ دن سسرال میں رہ کر میں ان کے ساتھ آگرہ آگئی۔ اس وقت کسی گائوں کی لڑکی کا بڑے شہر جانا ایسا تھا جیسے آج کل امریکا جانا۔ ہم اکثر تاج محل کی سیر کرتے تھے۔ روڈ پر بیٹھی ایک فقیرنی میں مجھے بہت کشش محسوس ہوتی تھی۔ چہرہ میں نے ٹھیک سے نہیں دیکھا تھا۔ کئی بار بھیک کے سکے اس کی پھیلی ہوئی چادر میں ڈالے تھے۔ ایک دن ہمت کر کے اس کے پاس بیٹھ گئی۔ اس نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور برسوں کی پڑی گرد ایک دم صاف ہو گئی۔ میں اچانک بول پڑی۔ حور باجی ! کیا یہ تم ہی ہو؟ انہوں نے نفی میں گردن ہلائی اور دو موتی ان کی آنکھوں سے ٹپک گئے۔ میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ یہ کیا ہوا؟ انہوں نے انگلی سے چپ کرادیا۔ میر اشک یقین میں بدل گیا کہ ضرور کوئی ان کی نگرانی کر رہا ہے۔ گھر آکر بہت پریشان تھی۔ کیا کروں، کس سے کہوں؟ کچھ عقل میں نہیں آرہا تھا۔ میری پریشانی ندیم نے محسوس کر لی اور بڑے پیار سے پوچھا۔ میرے پاس ان کو بتانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ شروع سے آخر تک سب بتادیا۔ وہ بہت اچھے اور راز کو راز رکھنے والے تھے۔ انہوں نے اس معاملے کا پردہ رکھنے کا وعدہ کر لیا اور میر اساتھ دیا کہ تنہا میں کچھ نہ کر سکتی تھی۔ اس کام کو کرنے کیلئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے۔ میں نے اپنے میکے کا سارازیور بیچ کر پچاس ہزار روپیہ دے دیا اور حور جن لوگوں کے قبضے میں تھی، ان سے اسے واپس لے آئی۔ پچاس ہزار بڑی رقم تھی۔ اپنے سارے سسرال اور محلے والوں کو بتایالا وارث عورت ہے ، کام کرنے کیلئے لائی ہوں ، اب ساتھ رہے گی۔ میکے میں سے کوئی ایسا تھا نہیں جو اتنی دور آتا۔ ایک احمد بھائی کے اوپر سارے گھر کی ذمہ داری تھی، وہ بہت مصروف تھے۔ میں نے حور باجی کا فی الحال کسی کو نہ بتایا۔ گھر لا کر حور باجی کو نہلایا اور اچھے کپڑے پہنائے۔ کھانا کھلا کر سلا دیا۔ جب آرام کر لیا اور سو کر اٹھیں تو کچھ تازہ دم لگیں، تب ان سے ان پر بیتی پوچھی۔

انہوں نے تمام روداد سنائی۔ بتایا کہ گائوں کے ہی کسی گھر سے ان کا ایک رشتہ دار لڑکا آیا تھا۔ اس نے حور باجی کو دیکھا۔ چپکے چپکے ملنے ملانے کا سلسلہ چل نکلا اور گھر والوں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ اس نامراد عاشق نے انہیں ور غلا یا اور شہر لے آیا۔ یہاں ان کو بیچ دیا۔ مختلف ہاتھوں سے ہوتی جب ان کی حالت ابتر ہو گئی تو فٹ پاتھ پر رات کے کسی پہر پھینک گئے کہ مر گئی تو ہمارے ذمے لگے گی۔ یوں یہ ابتر حالت میں فقیروں کے ہاتھ لگ گئیں۔ انہوں نے دیکھ بھال کی، حالت بہتر ہو گئی تو وہ لوگ بھیک منگوانے لگے ۔ وہ رورو کر پروردگار سے معافی مانگتی تھیں اور اپنوں سے ملانے کی دعا کرتی تھیں۔ حور بانو میرے ساتھ رہنے لگیں۔ ان کو لاوارث بتاتے ہوئے بڑی تکلیف ہوتی تھی مگر مصلحت کا یہی تقاضا تھا۔ کام اور عبادت کے بعد ان کو صرف اپنی ماں سے ملنے کی آرزو تھی۔ وہ تائی خالہ کو ایک نظر دیکھنے کو بے قرار تھیں۔ اس بار جب میں گائوں گئی تو بڑی مشکل سے تائی اور والدہ کو اپنے ساتھ لانے میں کامیاب ہو گئی۔ حور باجی ان کے قریب نہیں آتی تھیں۔ ان کی تڑپ کم ہو گئی مگر معافی مانگنے کی حسرت پوری نہ ہو سکی۔ دور دور سے ماں کو دیکھتی تھیں۔ کچھ وقت اور آگے بڑھا۔ ہم سب 1972ء میں کہ کراچی آگئے اور ہمارے ساتھ حور بھی آگئیں۔ جب لوگ نوکرانی کہہ کر تعریف کرتے ، دل رو پڑتا تھا۔ قسمت نے ساتھ دیا، ہمارے میاں ترقی کرتے گئے اور یہاں ہم بہت اچھی زندگی گزارنے لگے۔ پاکستان آکر قسمت بدل گئی، ہم دولتمندوں میں شمار ہونے لگے ۔ بال بچے ہو گئے تھے، زندگی بہت مصروف تھی۔ اس دوران ایک بار بھی میں انڈیا نہ جاسکی تاہم جب 1982ء میں والدہ اور تائی بہت بیمار ہو گئیں، احمد بھائی نے خط لکھا۔ ایک بار آکر مل جائو تو خط ملتے ہی ساتھ سفر کی تیاری شروع کر دی۔ اس دوران بچے بڑے ہو گئے تھے۔ حور باجی گھر میں تھیں، بڑے گھر میں آگئے تھے لہٰذا باجی کا الگ کمرہ تھا۔ وہ صرف کام کرنے والوں کی نگراں تھیں۔ میں ایک ماہ کی کوشش کے بعد انڈیاروانہ ہو گئی۔ وہاں تو بہت کچھ بدل چکا تھا۔ تائی خالہ نے اپنے انتقال سے ایک دن پہلے مجھے اپنے پاس بلا کر دو عادی اور کہا۔ تم نے حور کے ساتھ جو احسان کیا ہے ، اللہ تم کو اس کا اجر دے گا اور دین ودنہ دنیا میں عزت پائو گی۔ میری آنکھوں کا سوال نکھوں کا سوال پڑھ کر کہا۔ میں ماں ہوں، بیٹا ماں … ! جو اولاد کی خطا معاف کر دیتی ہے۔ کاش حور سے مل سکتی لیکن اب دیر ہو چکی۔ پھر کوئی بات نہیں کی، دوسرے دن وہ فوت ہو گئیں۔ ایک ہفتہ بعد میری والدہ بھی چلی گئیں ہم کو چھوڑ کر ، دونوں بہنوں کی قریب قریب وفات ان کی محبت کی نشانی بن گئی۔ یہ دہر اغم لے کر میں کراچی روانہ ہو گئی ۔ جب حور باجی کو ان کی ماں کی وفات کا بتایا، مجھ سے لپٹ کر بہت روئیں۔ اس کے بعد تو وہ خود کو اپنے کمرے تک محدود رکھتی تھیں جیسے ماں سے معافی طلب نہ کر سکنے کے باعث پچھتاوے کی آگ میں دھیمے دھیمے سلگ رہی ہوں ۔ ماں ایسی ہستی کون بھلا سکتا ہے لیکن جو اولاد بال بچوں والی ہو، بچوں کے فرائض میں کھو کر والدین مرحوم کے غم کو سہہ جاتی ہے تاہم کبھی کبھی ان کی یاد ضرور پریشان کرتی ہے لیکن حور باجی جیسی بیٹی کو تو لگتا تھا کہ والدین کی سبکی کر گزرنے کی سزا ملی جو ایک لمحے کو والدین کو نہ بھلا سکیں۔ اپنی ماں کی یاد نے تو انہیں ایسے گھلا نا شروع کر دیا تھا جیسے پانی میں نمک گھل جا جاتا ہے۔ ان کو ہلکا ہلکا بخار رہنے لگا تھا۔ روز صبح اٹھتیں۔ جب میرے بچے اسکول چلے جاتے ، وہ اپنے کمرے میں چلی جاتیں۔ میں کلام کرتی تو مختصر جواب دیتیں۔ کسی سے بات نہ کرتی تھیں جیسے ان کو بات کرنے سے بھی تکلیف ہوتی ہو۔ نہ جانے کیا سوچیں تھیں جو اندر ہی اندران کو کھارہی تھیں۔ عید آگئی۔ گھر میں گہما گہمی ہو گئی لیکن عید کے دن بھی وہ باہر نہ آئیں۔ بچوں کو کھلانے پلانے کے بعد فارغ ہو کر جب ان کے کمرے میں گئی ، وہ گرمی میں بھی کمبل اوڑھے سورہی تھیں جیسے انہیں سردی لگ رہی ہو۔ میں نے آواز دی۔ حور باجی … حور باجی ! اٹھئے تو ، آج عید کے دن کیا حلیہ بنارکھا ہے۔ میں نے ان کو جگانے کیلئے سو طرح کی باتیں گھر دیں۔ وہ نہیں ہلیں تو کمبل ان کے اوپر سے ہٹا دیا۔ نیم بے ہوش تھیں۔ ماتھے پر ہاتھ رکھا، بخار میں جل رہی تھیں۔ پچھتانے لگی کہ اپنے بچوں کی خوشیوں میں دن چڑھ آیا اور میں نے ان کی خبر کیوں نہ لی۔ حور باجی کی بے بسی پر دل بھر آیا۔ سوچنے لگی اگر یہ مجھے نہ ملتیں تو جانے کہاں ہو تیں۔ شاید سردی، گرمی میں روڈ پر پڑی بھیک مانگ رہی ہو تیں یا پھر … سوچ کر کانپ گئی۔ خدا کا شکر تھا کہ اس نے ہم کو ملادیا تھا اور میرے پاس بھی اتنار و پیہ جڑ گیا کہ گدا گر گروہ کے سرغنہ کو پچاس ہزار ادا کر کے ان کو خرید لیا و گرنہ تو عمر بھر پچھتاتی ہی رہ جاتی۔ ندیم مجھے پکارتے ادھر آئے۔ ان کو آواز دی۔ ذرا حور باجی کے کمرے میں آیئے، دیکھئے ان کا حال ابتر ہے، ڈاکٹر کو بلانا پڑے گا۔ آج عید کا دن ہے ، کوئی ڈاکٹر کیسے آسکے گا۔ سوچ میں پڑ گئے ، پھر توقف سے بولے ۔ ایسا کرتے ہیں کہ ان کو اسپتال ایمر جنسی میں لئے چلتے ہیں، ابتدائی طبی امداد تو آج کے دن مل جائے گی۔ تم تیار ہو جائو، میں گاڑی نکالتا ہوں۔ میں نے کیا تیار ہونا تھا، بس سادہ سے معمول کے اجلے کپڑے بدلے اور اوپر اوپر سے بالوں میں کنگھا پھیر لیا۔ واپس حور کے کمرے میں آئی کہ کیسے ان کو اٹھا کر گاڑی تک پہنچائیں۔ سہارا دینا چاہا تو مجھ سے نہ اٹھ پائیں۔ ان کو ہوش ہی کب تھا۔ میں نے کان میں کہا۔ حور باجی، ہمت کیجئے تو انہوں نے بمشکل یہ الفاظ ادا کئے کہ کاش انڈیا جا سکتی اور میری ماں کے پاس میری قبر ہوتی۔ یہ الفاظ کہتے ہی سر ایک جانب کو ڈھلک گیا اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔ وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملی تھیں۔ میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ان کی میت کو انڈیا لے جانا اور تائی خالہ کی قبر کے ساتھ دفن کرانا میرے بس میں نہ تھا۔ کراچی کے ایک قبرستان میں سپردخاک کیا۔ کبھی کبھی قبر پر فاتحہ کیلئے جاتے رہے لیکن پھر زندگی کی مصروفیات نے پائوں میں بیڑیاں ڈال دیں۔ آج بھی اس کمرے میں جاتے ہوئے جی گھبراتا ہے جس میں وہ رہا کرتی تھیں، حالانکہ اب یہ کمرہ میری پوتی کے استعمال میں ہے مگر میں نے دیوار پر حور باجی کی تصویر ویسے ہی لگی رہنے دی ہے۔ یہ تصویر ان کے بچپن کی ہے جب وہ چار برس کی تھیں اور اپنے والد کی راپنے والد کی گود میں عید – عید کے روز یہ تصویر اتروائی تھی۔ یہ ان کے بچپن کا قیمتی اثاثہ تھا جس کو گھر سے بھاگتے وقت ساتھ لے گئی تھیں اور ہمہ وقت اپنے پاس رکھتی تھیں۔ زمانے جھے اپنے پاس رھتی ہیں۔ زمانے نے ان کا سب کچھ چھین لیا۔ یہاں تک کہ زندگی بھی لیکن ان کی یہ عزیز از جان فوٹوا بھی تک موجود اور صحیح سلامت ہے۔ یہ تصویر بڑی خوبصورت ہے جس میں وہ ایک معصوم فرشتہ کی مانند گڑیا لگ رہی ہیں۔ حور باجی واقعی تم مثل حور تھیں مگر تم کو کسی شیطانی ہاتھ نے دلدل میں پھینک دیا۔

Latest Posts

Related POSTS