چھوٹی سی تھی جب چچا، چچی نے مجھے اپنے بیٹے اصغر کے لئے مانگ لیا اور بدلے میں اس کی بہن کی شادی میرے بھائی احد سے ہونا قرار پائی۔ اصغر میرا منگیتر بہت خوبصورت تھا جب وہ ہمارے گھر آتا، لحاظ کی وجہ سے میں چھپ جاتی تاہم جو حال میرا تھا وہی اس کا بھی تھا۔ ہم دونوں ہی ایک دوسرے کو چاہتے تھے۔
جس روز بھائی احد کی منگنی ہوئی اس روز میرا نکاح اصغر سے کر دیا گیا اور رخصتی دو سال بعد ہونا قرار پائی۔ دو سال بعد اصغر کی بہن ثمینہ میری بھابھی بن کر ہمارے گھر آ گئی تو ہماری خوشیوں کا ٹھکانہ نہ رہا۔ والدہ اسے بہو نہیں بیٹی سمجھتی تھیں اور مجھے ثمینہ سے یوں بھی پیار محسوس ہوتا کہ وہ میری ہونے والی نند تھی۔ میں سمجھ رہی تھی کہ اس کے ہمارے گھر آ جانے سے میری قسمت کو چار چاند لگ جائیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا بلکہ اسی دن سے میری بدقسمتی کا آغاز ہو گیا جس دن اس نے دلہن بن کر ہمارے گھر میں قدم رکھا۔
مجھے نہیں معلوم کہ میری نند کو بھیا پسند نہ آئے۔ احد کے دل میں کھوٹ تھا کہ روز اول سے ان کی نہ بن سکی۔ شادی کے اگلے دن سے ہی جھگڑا شروع ہو گیا۔ وہ اندر ہی اندر جھگڑتے۔ وجہ کسی کو معلوم نہ ہوئی۔ بس ثمینہ بھابھی روٹھ کر میکے چلی جاتی تو کئی دنوں تک ہم سب کا سکون برباد رہتا۔ پھر والد، چچا کی منت سماجت کر کے ثمینہ کو واپس لے آتے۔ ہم سب ان سے پوچھتے کہ کیا بات ہے، جھگڑے کی وجہ کیا ہے۔ وہ سوائے اس کے کچھ نہ بتاتے کہ ہمارا آپس میں مزاج نہیں ملتا، ہم ساتھ نہیں رہ سکتے۔ کچھ دن خاموشی سے گزرتے پھر وہی تماشا شروع ہو جاتا۔ بھائی کے کمرے سے میاں بیوی کے لڑنے اور چیخنے چلانے کی آوازیں آنے لگتیں۔ کبھی امی دوڑ کر جاتیں، کبھی میں جا کر ان کی منتیں کرتی کہ بات بات پر غصہ کیوں کرتے ہیں، درگزر سے کام کیوں نہیں لیتے۔
رفتہ رفتہ اس جنگ میں چچی بھی شریک ہو گئیں۔ وہ داماد کو مورد الزام ٹھہرا کر بیٹی کی طرفداری کرنے لگیں۔ سارا قصور احد کا بتاتیں اور امی جان کو برا بھلا کہہ جاتیں۔ جب کہ میں جھگڑے کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کرتی کیونکہ میری قسمت اور مستقبل اصغر سے وابستہ ہو چکے تھے۔ اب ثمینہ ہمیشہ کے لئے چلے جانے کی دھمکیاں دیتی تو میں خوفزدہ ہو جاتی۔ نہیں چاہتی تھی کہ بھابھی ہمیشہ کے لئے روٹھ کر چلی جائے اور میری زندگی کی خوشیاں جو مجھے ملنے والی تھیں، دائو پر لگ جائیں۔ ایک روز چچا نے ابو کو کہلوا بھیجا کہ تم لوگ میری بیٹی ثمینہ سے اچھا سلوک نہیں کرتے تو پھر اسے طلاق دے دو اور اپنی بیٹی کے بارے میں بھی سوچ لو کہ اگر ثمینہ کو طلاق ہو گئی تو ہم شاہدہ کی رخصتی نہ لیں گے۔
میں کسی صورت اس بات کے لئے تیار نہ تھی کہ رخصتی سے پہلے مجھ پر مطلقہ ہونے کا داغ لگ جائے جب کہ اصغر اور میں ایک دوسرے کو دل و جان سے چاہتے تھے۔ میں مجبور تھی اپنے بھائی اور والدہ کی مرضی کے بغیر چچا کے گھر نہیں جا سکتی تھی اور نہ ہی اصغر ہمارے گھر آ سکتے تھے حالانکہ ہمارا کسی سے کوئی جھگڑا نہ تھا۔ میں ہر صورت رخصتی چاہتی تھی لیکن اب میری خوشیوں کی ڈور ثمینہ کے ہاتھ میں تھی۔ اگر وہ ہمارے گھر ہنسی خوشی آباد رہتی تبھی میری اس کے بھائی کے ساتھ شادی ممکن تھی۔
وہی ہوا جس کا ہم دونوں کو خدشہ تھا۔ بیٹی کی محبت نے ہماری چچی کو اندھا کر دیا اور انہوں نے بھی ثمینہ کی ہم نوائی میں طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ چچا بیچارے چپ تھے جو کچھ بیوی اور بیٹی کے منہ سے سنتے اسی کو سچ سمجھتے تھے۔ ان کو یہی یقین دلایا گیا تھا کہ احد بہت بدمزاج اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا کرنے والا ہے۔ وہ بیوی کو بلاوجہ ذہنی اذیت میں مبتلا رکھتا ہے۔ اگر ثمینہ کو اس سے چھٹکارا نہ دلایا گیا تو وہ نفسیاتی مریضہ بن جائے گی۔ انہوں نے والد سے کہا کہ آخر کوئی تو بات ہے جو میری بیٹی بار بار تمہارے گھر سے بھاگ کر میکے میں پناہ لینے آ جاتی ہے۔
یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ضرور آپ لوگ اس پر ظلم ڈھاتے ہو۔ اصغر نے اپنے والدین اور بہن کو بہت سمجھایا کہ احد برا نہیں ہے، ثمینہ کو پسند نہیں ہے تو اس کی کوئی وجہ ہے۔ آپ لوگ وجہ معلوم کرنے کی کوشش کریں اور ان میں صلح کرا دیں، طلاق کی بات نہ کریں۔ والدین سے جواب میں یہی بات سننے کو ملتی کہ تم خودغرض ہو چونکہ شاہدہ تمہاری منکوحہ ہے اور اس سے ہر حال میں شادی رچانا چاہتے ہو تبھی بہن کی تکلیف تمہیں محسوس نہیں ہوتی۔ تم اپنی محبت کو حاصل کرنے کی غرض سے بے غیرت ہو گئے ہو۔
یہ طعنہ ایسا تھا کہ اصغر اپنی زبان بند رکھنے پر مجبور تھا۔ بہرحال برادری اکٹھی ہوئی اور چچا نے طلاق کا معاملہ سامنے رکھ دیا۔ جب ثمینہ کسی طور نہ مانی تو برادری نے بھی کہا کہ زبردستی بچی کو کب تک احد کے ساتھ گھر بسانے پر مجبور کرو گے، بہتر ہے کہ ان میں علیحدگی کرا دی جائے، تمام عمر کے رونے سے ایک بار کا رونا بہتر ہے تاکہ یہ لوگ زندگی اپنی مرضی اور خوشی سے جی سکیں۔ اس فیصلے کو حتمی شکل دلوانے کے لئے ثمینہ کا ماموں پیش پیش تھا۔ ادھر میں کانپ رہی تھی۔ ظاہر ہے اگر بھابھی کو بھائی طلاق دیتے تو پھر مجھے بھی طلاق مل جاتی کیونکہ اب اصغر کے گھر میرا بہو بن کر جانا محال ہوتا۔
آخرکار ثمینہ جیت گئی۔ اس نے برادری کی حمایت سے احد بھائی سے طلاق حاصل کر لی۔ یہ خبر مجھ پر بجلی بن کر گری۔ میرے والدین نے بھی فیصلہ سنا دیا کہ اگر تمہاری لڑکی نے میرے بیٹے سے طلاق لی ہے تو ہم بھی اپنی بیٹی کی طلاق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد ایک ماہ مجھے روتے گزر گیا۔ دونوں گھرانوں میں ایسی نفرت ہو گئی تھی کہ ایک دوسرے کی شکل بھی دیکھنا پسند نہ کرتے تھے۔
ایسے میں اپنے منگیتر سے ملنے کی تڑپ ا ور زیادہ مجھے تکلیف دے رہی تھی۔ وہ جس کے ساتھ بچپن کھیلتے گزرا تھا اب اسی سے پردہ ہو گیا تھا۔ پہلے چچا کا مکان ہمارے مکان سے نزدیک تھا پھر والد صاحب نے دور گھر لے لیا۔ ہم کسی صورت نہ مل سکتے تھے کہ دل کی بات کر پاتے۔ مجبوراً میں نے اپنی ایک کزن عارفہ کا سہارا لیا جو اصغر کی بھی کزن تھی۔ عارفہ کو اصغر کے پاس سندیسہ دے کر بھیجا کہ وہ ہرگز برادری کے دبائو میں آ کر مجھے طلاق نہ دے، میں اس کی منکوحہ ہوں مرتے دم تک اسی کی رہوں گی۔ اگر انہوں نے زبردستی طلاق دلوانے کی کوشش کی تو ہم کوئی اور جائز راستہ ڈھونڈیں گے ایک دوسرے کے ہو جانے کے لئے ،ورنہ میں ایسے ہی عمر بھر بیٹھی رہوں گی چاہے اصغر دوسری شادی کیوں نہ کر لے۔ میں نے یہ بھی التجا کی کہ ہو سکے تو مجھ سے ایک بار مل لے۔ میرا گھر سے باہر نکل کر اصغر سے ملنا ممکن نہ تھا، مجھ پر اکیلے جانے پر پابندی تھی اور چچا کے گھر تو اب قدم رکھنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھا۔ چچی ہم لوگوں کی شدید مخالف ہو چکی تھیں ایسی عورت جو کھلم کھلا اپنی نفرت کا اظہار کرے بھلا مجھے کیونکر اپنی بہو دیکھنا قبول کر سکتی تھی۔
عارفہ اپنے شوہر کے ہمراہ اصغر کے گھر گئی اور اسے میرا پیغام پہنچا دیا۔ اس نے کہا کہ شاہدہ سے کہو حوصلہ رکھے میں اسے طلاق ہرگز نہیں دوں گا۔ اگر ملنا چاہتی ہے تو بے شک میں ان کے گھر جانے کو تیار ہوں۔ اس نے ایک پرچہ بھی عارفہ کی مٹھی میں دیا کہ مجھے پہنچا دے۔ خط میں درج تھا۔ شاہدہ تم فکر مت کرو میں ہرگز تمہیں طلاق نہیں دوں گا۔ ہماری زندگیاں کھلونے نہیں کہ جب چاہیں ہمارے بزرگ جوڑ دیں جب چاہے توڑ دیں۔ ہمارا نکاح انہوں نے اپنی مرضی سے کیا تھا مگر طلاق کے معاملے میں ان کی مرضی نہیں چلے گی جبکہ ہمارا آپس میں کوئی جھگڑا نہیں اور نہ ہمارا کوئی قصور
ہے۔ کل رات میں تمہارے گھر آئوں گا ملنے کے لئے پھر کچھ طے کریں گے۔
اصغر کی تحریر ملنے پر جہاںمیرے بے قرار دل کو سکون ملا وہاں خوفزدہ بھی ہو گئی۔ وہ ملنے آیا اور بھائی نے دروازہ نہ کھولا یا بے عزت کر کے اسے گھر سے نکال دیا تو کیا ہو گا۔ ڈرتی تھی کہیں اس کے ہمارے گھر آ جانے سے مردوں میں جھگڑا نہ ہو جائے۔ تاہم اب میں اسے آنے سے روک نہ سکتی تھی۔ بار بار عارفہ سے نہیں کہہ سکتی تھی کہ جا کر اسے منع کرو کہ وہ نہ آئے۔ وہ دن پلک جھپکتے گزر گیا اور رات آ گئی۔ اصغر نے رات کو بارہ بجے آنا تھا جبکہ ہمارے گھر والوں کا معمول تھا کہ وہ دس بجے سو جاتے تھے۔
گیارہ بجے میں نے دروازے کی کنڈی کھول دی۔ بھائی اور ابو سو چکے تھے۔ والدہ بھی گہری نیند میں جا چکی تھیں۔ یہ سخت سردیوں کے دن تھے۔ میں نے برآمدے میں پڑی چارپائی پر بستر بچھا لیا تھا، رضائی اوپر لے کر سوتی بن گئی تھی، کان دروازے پر لگے تھے۔ قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ بھائی احد جاگ گئے تھے یا ابھی تک سوئے نہ تھے۔ وہ اپنے کمرے سے نکلے اور کچن کی طرف چلے گئے شاید پانی پینے گئے تھے۔ میرا دل دھڑکنے لگا۔ چند لمحوں بعد وہ میری طرف آئے، انہیں حیرت ہوئی کہ اتنی سردی میں آخر کیوں برآمدے میں سو رہی ہوں۔ مجھے آواز دی۔ شاہدہ یہاں کیوں سو رہی ہو۔ جائو اپنے کمرے میں جا کر سو جائو۔ میں کچھ نہ بول سکی کہ وضاحت کا کوئی موقع نہ تھا انہیں اور شک میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔ خاموشی سے اٹھ کر اندر اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گئی لیکن نیند کس کافر کو آنی تھی۔ دل کی دھڑکن اس قدر تیز ہو چکی تھی، لگتا تھا کلیجہ منہ کو آ رہا ہے۔
میں سردی میں بغیر لحاف پڑی تھی اور پسینے سے شرابور تھی کہ دروازے کی کنڈی کھول کر لیٹی تھی۔ہوا سے دروازے کے پٹ ہلنے پر کھڑکا ہوا تو احد بھائی جان لیں گے کہ کیا معاملہ ہے۔ جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا۔ شاید میرے بھائی کو میرے برآمدے میں لیٹنے پر شک ہو گیا تھا لہٰذا مجھے کمرے میں بھیج کر وہ خود اس چارپائی پر لیٹ گئے۔ میں اپنے کمرے میں سہمی بیٹھی تھی۔ گھڑی کی ٹک ٹک پر سانس کی چھری کلیجہ کاٹ رہی تھی۔ لگتا تھا کہ اس ٹک ٹک کی صورت میں موت دبے قدموں میرے قریب تر ہوتی جا رہی ہے۔
دعا کرنے لگی۔ اللہ کرے اصغر اپنا ارادہ بدل دے۔ وہ اس وقت ہمارے گھر نہ آئے۔ اللہ اسے سمجھ دے دے۔ اللہ کرے عارفہ نے اسے میرا پیغام نہ پہنچایا ہو کہ رات بارہ بجے میں اپنے گھر کے برآمدے میں لیٹ کر تمہارا انتظار کروں گی۔ وہ گھڑی آ ہی گئی۔ جونہی اصغر نے گھر میں قدم رکھا، کسی کو چارپائی پر لیٹے پایا۔ وہ سمجھا میں ہوں اور اس کا وعدے کے مطابق انتظار کر رہی ہوں۔ تبھی اس نے میرا پائوں سمجھ کر میرے بھائی کا پیر ہلا دیا۔ بھائی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ شاید اسی وقت ان کی آنکھ لگی تھی۔ گھبرا کر پوچھا۔ کون ہے؟۔ اصغر بھی گھبرا گیا اور واپس جانے کے لئے دروازے کی طرف بھاگا۔ بھائی نے پکارا۔ چور… چور اور اس کے پیچھے لپکے۔ وہ دیوار کے قریب تھا، گھبراہٹ میں دیوارپکڑ کر گلی میں پھلانگ جانے کی کوشش کی۔ دیوار کی منڈیر پر کچھ اینٹیں رکھی ہوئی تھیں۔ یکلخت اصغر کے سر پر برس گئیں۔ سر میں ایسی چوٹ آئی کہ وہ وہیں گر گیا۔ شور سن کر امی ابو باہر نکلے۔ ٹارچ کی روشنی ڈالی تو وہ چور نہیں اصغر تھا۔ جلدی سے احد بھائی اور ابو نے اسے اٹھا کر چارپائی پر لٹا دیا۔ ہلایا جلایا لیکن سر پر اینٹوں کی ضرب اتنی شدید آئی تھی کہ وہ پھر نہ جاگ سکا۔
اسپتال میں دو دن بے ہوشی کے عالم میں رہنے کے بعد میرا محبوب جس کی میں محبوبہ نہیں منکوحہ بھی تھی، اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ آہ کاش میں اتنی جذباتی نہ ہو جاتی۔ عقل سے کام لیتی اور اصغر کو آدھی رات کو اپنے گھر نہ بلاتی تو وہ جان سے نہ گزر تا۔ بھائی احد آج بھی افسردہ ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ان کا کزن جان سے گیا حالانکہ ان کا کوئی قصور نہیں۔ دیکھا جائے تو سارا قصور میرا ہے۔ اس سے بہتر تھا کہ میں دن میں کسی طرح اس سے مل لیتی۔ اب کیا ہو سکتا ہے۔ جانے والا چلا گیا۔ پچھتاوا آج بھی دل کو زخمی کرتا رہتا ہے۔ اصغر کی وفات کے چھ برس بعد والدین کی منت سماجت پر میں نے شادی کر لی لیکن دل نے ایک دن بھی خوشی کا نہ دیکھا۔ ایک لمحے کو بھی اصغر کی یاد نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ اس کی یاد سائے کی طرح ہر وقت میرے ساتھ رہتی ہے۔
یہ حقیقت بعد میں معلوم ہوئی کہ ثمینہ نے طلاق کیوں لی تھی۔ اس واقعہ کا سب سے افسوسناک پہلو یہی ہے کہ ثمینہ شادی سے پہلے اپنے ماموں زاد کو پسند کرتی تھی، دونوں نے شادی کے عہد و پیمان کئے تھے مگر چچا جان نے اس کی پسند کو نظرانداز کر کے اپنے بھتیجے سے اسے بیاہ دیا کیونکہ اس کا ماموں زاد ایک غریب لڑکا تھا اور ہمارا گھرانہ خوشحال تھا۔ ثمینہ کو اس کی محبت مل گئی۔ بھائی سے طلاق لے کر اس نے اپنے محبوب سے شادی کر کے گھر بسا لیا مگر کتنے دلوں کو تکلیف سے گزرنا پڑا۔ کاش بزرگ فیصلہ کرنے سے پہلے سوچ لیا کریں۔ (ش… خانیوال)