جس روز میرے بیٹے کا فوج میں سلیکشن ہوا، خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ میں نے ڈھیر ساری مٹھائی عزیزوں اور رشتے داروں کے یہاں بھجوائی۔ کئی رشتہ دار خواتین مبارکباد دینے کیلئے گھر آگئیں۔ آنے والوں میں میری دوست فرخندہ بھی تھی۔
فرخندہ نے میرے ساتھ بی۔اے کیا تھا۔ وہ اکثر ریاضی میں میری مدد کیا کرتی تھی، چونکہ ریاضی میں نے ابو کے کہنے پر بطور اختیاری مضمون لی تھی ورنہ مجھے اس سے کوئی شغف نہ تھا۔
فرخندہ نے جب مجھے بے حد خوش اور مسرور دیکھا تو حیرت کا اظہار کیا۔ کہنے لگی۔ رانیہ! تم کو یاد نہیں کہ تمہارا سہاگ بھی ایک روز اسی طرح منتخب ہوکر اپنے فرائض کی ادائیگی کیلئے گیا تو پھر کبھی لوٹ کر نہ آیا۔ تم نے بھری جوانی بیٹے کی خاطر تنہائیوں میں کاٹ دی۔ کیا تم اس کو خود سے دور بھیجنے پر خوش ہو؟
ہاں۔ مجھے یاد ہے لیکن ملال نہیں ہے۔ جنید نے اپنی خوشی اور مرضی سے یہ لائن منتخب کی تھی۔ وطن پر نثار ہوگئے، اب انجم بھی ان ہی کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے۔ اپنی خوشی سے اس نے اس راستے کا انتخاب کیا ہے تو پھر میں ملال کیوں کروں جبکہ مجھے تو شہید کی بیوہ ہونے پر ہمیشہ فخر رہا ہے۔ میرا حوصلہ دیکھ کر وہ خاموش ہوگئی۔
جنید اور میں آپس میں خالہ زاد تھے۔ سسر بھی فوجی آفیسر تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے فرائض کو بحسن و خوبی نبھایا۔ وہ خود کو فوجی کہلوانے پر فخر محسوس کرتے تھے لیکن اپنی اولاد پر کبھی دبائو نہیں ڈالا تھا کہ وہ ان کی مرضی سے اپنا کیریئر چنیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کے دو بیٹے ڈاکٹر بن گئے لیکن جنید نے خود یہ فیصلہ کیا کہ وہ فوجی بنیں گے۔ وہ منتخب ہوکر رسالپور چلے گئے۔ چار سال بعد پاس آئوٹ ہوتے ہی کمیشن ملا اور پھر میری ان کے ساتھ شادی ہوگئی۔
ہم بہت خوش تھے۔ ہماری یہ محبت کی شادی نہ تھی لیکن ہم ایک دوسرے کو پسند ضرور کرتے تھے۔ رشتہ ہمارے بزرگوں کی مرضی سے ہوا۔ دوسری پوسٹنگ پر ان کے ساتھ سرگودھا آگئی۔ انہی دنوں جبکہ ہماری شادی کو صرف دو سال ہوئے تھے، ان کا تبادلہ ہوگیا۔ ان دنوں امید سے تھی۔ ان کے ہمراہ نہ جاسکی اور اپنے میکے لاہور آگئی جبکہ وہ کراچی چلے گئے۔ ملک کے حالات خراب ہورہے تھے۔ ان کو وطن کی حفاظت کیلئے مشرقی پاکستان روانہ ہونا تھا۔ پاک سرزمین کا قرض انہیں آواز دے رہا تھا۔ وہ وہاں جاکر مجھے خطوط لکھتے۔ ہر خط میں تاکید کرتے کہ اپنا خیال رکھنا۔ میں بہت جلد تم سے آملوں گا۔
ان کو گئے تین ماہ گزرے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو ایک خوبصورت بیٹے سے نواز دیا۔ میں نے ان کو فون پر اطلاع کی تو انہوں نے خط لکھا۔ ’’جی چاہتا ہے ابھی اور اسی وقت اڑ کر پہنچوں اور اپنے بیٹے کو دیکھوں مگر مجبوری ہے۔ ان شاء اللہ حالات بہتر ہوتے ہی اپنے بچے کو آکر سینے سے لگا لوں گا۔ اس کا نام انجم رکھنا چاہتا ہوں تاکہ یہ پاکستان کے جھنڈے میں چمکتے ستارے کی مانند جگمگائے۔ ان کی خواہش پر میں نے بیٹے کا نام انجم رکھا۔ میں روز ہی اپنے ننھے انجم کو گود میں لے کر جنید کی زندگی اور وطن عزیز کی سلامتی کیلئے دعا مانگتی تھی لیکن حالات سنبھل نہ سکے۔ یہاں تک کہ جنگ شروع ہوگئی۔ ان پُرآشوب دنوں میں بھی جنید کو خط لکھتی تھی اور ان کو ہمت و حوصلے کی تلقین کرتی رہتی تھی۔ اچانک وہ ایسی جگہ بھیج دیئے گئے کہ جہاں خط و کتابت کا سلسلہ جاری رکھنا ممکن نہ رہا۔ ہم پل پل ریڈیو پر خبریں سنتے تھے۔ زمین آگ اُگل رہی تھی اور ہمارے فوجی نوجوان بہادری اور حوصلے کے ساتھ جانوں کے نذرانے پیش کررہے تھے۔ جنید کی والدہ، بہنیں اور میں رات دن ان کی سلامتی کی دعائیں کررہے تھے۔
آخر وہ انتہائی دکھ دینے والی گھڑی آگئی جب ہمارا بازو ہم سے علیحدہ ہوگیا۔ اور تقریباً ایک لاکھ فوجی وہاں ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئے۔ آج ہر آنکھ آبدیدہ تھی۔ ہر ماں، بہن، بیٹی اور بیوی اشک بار تھی مگر اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔ وہاں کی صورتحال مجھے بے حال کررہی تھی پھر سنا کہ جنگی قیدیوں کو مختلف جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ خط و کتابت کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ اگر کوئی کیمپ سے خط لکھتا بھی تو خطوط سنسر ہوتے اور ایک دو ماہ بعد کہیں کوئی خط پہنچ پاتا تھا۔ ماہ رمضان تھا اور میں باقاعدہ روزے رکھ رہی تھی۔ دن رات ملک و قوم اور اپنے شوہر کی سلامتی کی دعائیں کرتی۔ پھر عید کی آمد آمد ہوگئی تبھی جنید کا مجھے خط ملا۔ لکھا تھا کہ عید کے دن میرے بیٹے کا خیال رکھنا اور تم شادی کا جوڑا پہن کر میرے بیٹے کے ساتھ تصویر بنوانا۔ اور مجھے ارسال کرنا تاکہ مجھے تقویت ملے کہ تم خوش ہو۔ اور یہ بات ذہن میں نہ لانا کہ میں تم سے دور ہوں۔ مجھے اپنے رب سے امید ہے کہ ہم جلد ملیں گے اور میں اپنے فرزند کو دیکھوں گا۔ انجم کو میں نے خط پڑھ کر سنایا۔ کہا کہ دیکھو تمہارے بابا کا خط آیا ہے، جنہوں نے ابھی تک تم کو نہیں دیکھا۔ ان کو تمہیں دیکھنے کی بڑی چاہ ہے۔ وہ میری آواز پر مسکراتا رہا۔ میری بھیگی ہوئی آواز سے اسے علم نہ ہوسکا کہ میں رو رہی ہوں یا خوش ہوں۔ اس کا جواب بس ’’غوں غاں‘‘ میں ہی تھا۔ اسے کیا خبر اس کے بابا نے کیا لکھا ہے۔ وہ کہاں ہیں، کس حال میں ہیں۔
نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے جنید کی ہدایت پر عمل کیا۔ عید کے روز نہا دھو کر شادی کا جوڑا پہن لیا۔ بیٹے کو بھی نئے کپڑے پہنائے کیونکہ جنید کی خوشی پوری کرنے کیلئے مجھے تصویر اتروانی تھی، شاید اس تصویر کے وسیلے سے وہ مجھے ہمیشہ سہاگن دیکھنا چاہتے تھے۔ تصویر کھنچوا کر جب گھر لوٹی تو ساس نے مجھے کانپتے ہاتھوں سے اخبار دیا اور کہا کہ اس میں جنید کے بارے میں خبر ہے۔ ابھی ملازم کہیں باہر سے لایا ہے لیکن اخبار پڑھ کر نہیں سنایا۔ کہتا ہے کہ پڑھ نہیں سکتا۔ ساتھ والے گھر کے ڈرائیور نے یہ اخبار اسے دے کر کہا تھا کہ جنید صاحب کے گھر میں دے دو۔
میں نے اخبار دیکھا۔ خبر پڑھی اور پھر اخبار میرے ہاتھوں سے چھوٹ گیا۔ میرے سہاگ کی شہادت کی خبر تھی اور ساتھ تصویر بھی تھی۔ آہ…! جن کیلئے آج شادی کا جوڑا پہنا اور جن کیلئے تصویر بنوائی تھی۔ ان کی تصویر آج اخبار میں چھپ گئی تھی۔ انجم کو میرے ہاتھ سے میری نند نے لے لیا اور مجھے پکڑ کر مسہری پر لٹا دیا۔ مجھے معلوم نہیں ہماری ساس کو کس نے تھاما تھا۔
جب ہوش آیا، گھر میں بہت سی خواتین آئی ہوئی تھیں اور میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے سب کو تک رہی تھی کہ شاید عید ملنے آئی ہیں۔ ساس ایک کونے میں بیٹھی تھیں۔ وہ تسبیح پڑھ رہی تھیں مگر ہونٹ جیسے سل گئے تھے۔ یہ عید کا نہیں قیامت کا دن تھا۔ وقت گزرنے لگا۔ والدہ جو جنید کو میرے شہید، میرے زندہ بیٹے کہتی تھیں۔ اس دنیا سے چلی گئیں۔ پھر سسر بھی چلے گئے۔ انجم اسکول جانے لگا۔ سبھی پوچھتے تھے کہ تم کیا بنو گے… وہ جواب دیتا… فوجی بنوں گا، اپنے ابو کی طرح…! وہ ہر روز اپنے والد کی تصویر دیکھتا جو کارنس پر رکھی تھی۔ تصویر میں وہ وردی پہنے مسکرا رہے تھے۔
انجم کو میں نے بتایا تھا کہ تمہارے ابو ایک بہادر فوجی آفیسر تھے جن پر ہمیں فخر ہے۔ اس کو یہ تصویر بہت زیادہ اپیل کرتی تھی۔ وہ ہر ایک کو فخر سے بتاتا کہ میرے بابا ایک بہادر فوجی آفیسر تھے۔ انہوں نے جام شہادت نوش کیا لہٰذا وہ مرے نہیں زندہ ہیں۔
انجم عمر کی منازل طے کرتا گیا۔ یہاں تک کہ اس نے ایک خوبصورت جوان کا روپ دھار لیا۔ اس نے امتیازی نمبروں سے ایف ایس سی پاس کرلیا۔ میں نے ایک روز اس سے پوچھا کہ تم نے کیا سوچا ہے؟ اس نے کہا کس بارے میں امی جان…؟
اپنے مستقبل کے بارے میں… میں اپنے بابا جان کے نقش قدم پر چلوں گا۔ ایک فوجی بنوں گا امی جان! اس کا جواب سن کر میں حیران رہ گئی۔ جیسے اس کی رگوں میں دوڑتا لہو اپنے والد کی آواز ہو۔ شاید اس نے یہ فیصلہ اسی وقت کرلیا تھا جب وہ چھوٹا سا تھا اور بہت اشتیاق سے اپنے والد کی تصویر دیکھا کرتا تھا۔ جن کو اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا لیکن ایک خواب ضرور دیکھ لیا تھا۔
اور پھر اٹھارہ برس بعد وہ اپنے خواب کی تعبیر دیکھنے جارہا تھا۔ اپنے والد کی برسی کے دن اس کے سلیکشن کی کال آگئی۔ اگلے روز ہمارے گھر میں ایک چھوٹی سی تقریب تھی۔ یہ انجم نے منعقد کی تھی۔ ایک ٹی پارٹی، اپنے دوستوں کیلئے کیونکہ اسے اس کے خواب کی تعبیر کا لیٹر موصول ہوچکا تھا اور وہ ہم سے دور جانے سے پہلے اپنے دوستوں کو اس تقریب میں خوشخبری دینے جارہا تھا کہ وہ اپنے باپ کی طرح ایک فوجی آفیسر بن رہا ہے جو شہید میجر تھے۔ اب وہی وردی وہ اپنے تن پر سجائے گا۔ اس نے اپنے گھر کو روشنیوں سے سجایا تھا اور میں بھی اس کی خوشی میں خوش تھی۔ یہ اس کی کامیابی کا پہلا زینہ تھا جس پر اس نے قدم رکھ دیا تھا۔ جس روز وہ جانے لگا، مجھے گلے سے لگایا۔ میں نے پیار کیا، دعائیں دیں اور بھیگی آنکھوں مگر مسکراتے لبوں سے اسے خداحافظ کہا۔ تب وہ جاتے جاتے پلٹ کر لوٹ آیا اور پوچھا۔ اماں! میرے فیصلے سے آپ خوش تو ہیں نا؟ دکھی تو نہیں ہیں۔ بالکل دکھی نہیں ہوں۔ میں بہت خوش ہوں کہ میرا بیٹا بھی اپنے باپ کی طرح بہادر ہے۔ شکر ہے کہ میں نے تمہاری بہت اچھی تربیت کی۔ تمہارے والد شہید ہوئے اپنے وطن پر اور میں شہید کی بیوہ ہوں۔ بھلا تم کو وردی میں دیکھ کر کیونکر خوش نہ ہوں گی۔ مجھے تم پر فخر ہے انجم…! تمہارا نام تمہارے بابا نے رکھا تھا گرچہ ان کو تمہاری صورت دیکھنے کا ارمان رہا لیکن تم ہوبہو آج اپنے بابا کی صورت لگ رہے ہو۔
انجم نے میرے ہاتھوں کو چوما۔ میری بھیگی پلکوں سے ان انمول موتیوں کو اپنے رومال میں جذب کرلیا جو ممتا کے دل سے بیٹے کی محبت میں بے اختیار لرزیدہ آنکھوں میں آگئے تھے۔ انجم میری امیدوں کا آخری سہارا تھا اسی لئے ماں کا دل اس کی جدائی کے خیال سے بے قرار تھا۔ ماں آخر ماں ہوتی ہے۔ وہ غازی کی ہو یا شہید کی…! انجم نے ہنس کر کہا۔ ماں…! تم مجھے بہادر بیٹا کہتی ہو اور خود کو بہادر نہیں بنا پا رہیں…؟ کیا واقعی ایسا ہے؟
نہیں بیٹے! میں بھی بہادر ہوں۔ بہادر ماں، باپ ہی تو بہادر بیٹوں کو جنم دیتے ہیں۔ یہ آنسو خوشی کے ہیں کہ بہت جلد جدائی کے فاصلے سمٹ جائیں گے اور ہم پھر ملیں گے۔
ہاں ماں…! ابھی تو بیچلرز کے ساتھ رہائش ہوگی۔ کچھ عرصے بعد جب میرے سر پر سہرا باندھو گی تو گھر ملے گا۔ آپ کو بلا لوں گا اور پھر ہنسی خوشی ساتھ رہیں گے۔ خدا کا شکر کہ آج میرا بیٹا میرے ساتھ ہے۔ روز اس کی اور وطن کی سلامتی کی دعائیں کرتی ہوں۔ اللہ سے دعا ہے کہ پیارے وطن کے ساتھ وہ ایسے بیٹوں کو بھی سلامت رکھے کہ جن کی مائیں شہیدوں کی بیوائیں ہیں۔ جن کے احساسات پھولوں جیسے نازک مگر جگر شیر کے ہیں۔ (ر… ملتان)