Tuesday, March 19, 2024

Tumahre Loot Ane Tak | Teen Auratien Teen Kahaniyan

خاور بلا کے نفاست پسند تھے۔ شادی سے قبل کہا کرتے تھے، امی جان میرے لئے دیکھ بھال کر بہو لانا۔ لڑکی سگھڑ نہ ہوئی تو پچھتانا ہوگا… تبھی تو تانیہ کا انتخاب کیا ہے، خالہ جواب دیتیں۔
چھوٹی خالہ جب ہمارے گھر آتیں دو چار دن ضرور قیام کرتیں، پتا چلا کہ میرا سگھڑاپا پرکھنے کے لئے رہ جاتی تھیں، دیکھنا چاہتی تھیں کہ میں کیسی ہوں، کہیں بدسلیقہ اور کام چور تو نہیں، ان کے معیار پر پوری اُتری تو بیاہ کر لے گئیں۔ تاہم ساس بنتے ہی پلنگ سے دوستی کر لی اور گھر سنبھالنے کی ساری ذمّہ داری مجھ پر ڈال دی۔ ملازمہ کو بھی چلتا کر دیا کہ کوئی ملازمہ ایسا ستھرا کام نہیں کر سکتی جس قدر خاتون خانہ خود کرتی ہے۔ حکم صادر کیا کہ اپنے شوہر اور گھر کا کام کاج تم خود اپنے ہاتھوں سے کرو گی۔
مجھے خاور سے محبت تھی، تبھی خالہ کا ہر حکم سر آنکھوں پر رکھا اور گھر کو جنت بنا دیا۔ سال بعد اللہ تعالیٰ نے بیٹی سے نوازا۔ اگلے برس پھر ایک بچّے کی ماں بن گئی۔ دو چھوٹے بچوں کی پرورش نے ایسا دماغ ہلایا کہ گھر کے اکثر کاموں کی طرف دھیان دینا ممکن نہ رہا۔
خاور کو گھر صاف ستھرا دیکھنے کی عادت تھی۔ ہر کام درست اور وقت پر چاہتے تھے۔ فرنیچر پر ذرا سی ’’ڈسٹ‘‘ دیکھ کر موڈ آف ہو جاتا۔ کمرے میں اشیاء اِدھر اُدھر ہوتیں تو گھر سے چلے جاتے، کچن میں تھوڑی سی بے ترتیبی پا کر کھانا نہ کھاتے۔ ہر دم یہی دُہراتے کہ تانیہ ہر شے جگہ پر ہونی چاہئے۔ گھر کو ٹھیک رکھا کرو۔ مجھے اِدھر اُدھر پڑی چیزوں سے اُلجھن ہوتی ہے۔ کیا کرتی، بچّے چیزیں پھیلا دیتے۔ وہ اتنے چھوٹے اور ناسمجھ تھے کہ ان کو مار پیٹ نہیں سکتی تھی اور زبان سے وہ سمجھتے نہ تھے۔
میں بھی تمہاری طرح نفاست پسند ہوں خاور… کیا کروں بچّے ناسمجھ ہیں۔ میں سارا دن چیزیں سمیٹتے سمیٹتے تھک جاتی ہوں… تو کوئی اچھی ملازمہ رکھ لو۔
کوئی ملازمہ خالہ جان کو پسند نہیں آتی جو عورت رکھتی ہوں یہ کہہ کر نکال دیتی ہیں کہ یہ گندا کام کرتی ہے ٹھیک نہیں ہے۔ سگھڑ نہیں ہے۔ بتایئے کیا کروں؟
سسر صاحب نے جب گھر بنوایا تھا، اس سے متصل پلاٹ بھی خرید لیا تھا، ان دنوں اس پلاٹ کو گھر میں شامل کر کے رہائش گاہ میں توسیع کر رہے تھے، کیونکہ بچوں کی وجہ سے مکان چھوٹا پڑ رہا تھا۔ سامان زیادہ ہوگیا تھا اور گنجائش کم، اس وجہ سے بھی چیزیں پھیل جاتی تھیں۔ خالو جان مجھے پریشان دیکھ کر کڑھتے تھے۔ وہ مجھ سے باپ جیسی شفقت رکھتے تھے، تبھی میرے لئے کسی اچھی ملازمہ کی فکر میں گھل رہے تھے۔
جو ٹھیکیدار ہمارے مکان کی توسیع و تعمیر کر رہا تھا اس سے تذکرہ کیا تو اُس نے کہا۔ میری دُورکی رشتہ دار ایک بیوہ عورت ہے۔ وہ کہیں ملازمت کرتی ہے۔ اُسے رہائش کے لئے جگہ چاہئے۔ کم تنخواہ میں کرائے کے مکان کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ بیچاری بہت پریشان ہے۔ ایک رشتہ دار کے گھر رہ رہی ہے مگر اب وہ لوگ اُسے رہنے نہیں دے رہے، کیونکہ انہیں وہ کمرہ اپنے استعمال کے لئے درکار ہے۔ آپ کا مکان بن رہا ہے۔ اگر پلاٹ کے ایک کونے میں ایک کمرہ مع باتھ روم تعمیر کروا لیں تو اُسے بطور سرونٹ کوارٹر کام میں لایا جا سکے گا۔
خالو جان نے فوراً اس تجویز کو مان لیا، کام تقریباً مکمل ہوچکا تھا اور کافی جگہ خالی تھی۔ آناً فاناً گھر کے ایک کونے پر سرونٹ کوارٹر تعمیر ہوگیا اور ٹھیکیدار اپنی رشتے دار ضرورت مند بیوہ خاتون کو لے آیا جو رہائش کے لئے پریشان تھی۔ اس کی بیٹی سولہ سال کی تھی اور سدرہ نام تھا۔ دونوں صاف ستھری اور مہذب نظر آتی تھیں۔ خالو نے ان کو اندر بھیج دیا۔ وہ خالہ کو پسند آ گئیں، مجھے بلا کر کہا۔ تم پریشان تھیں نا، یہ دونوں ماں بیٹیاں مل کر گھر سنبھال لیں گی۔ رہائش کے لئے جو نیا کمرہ بنوایا ہے انہیں دے رہے ہیں۔ یہ اکیلی ہیں ساتھ کوئی مرد نہیں ہے یہ گھر میں رہ سکتی ہیں۔
صد شکر کیا کہ ان دنوں میرے یہاں چوتھے بچّے کی آمد آمد تھی، کسی مددگار خاتون کی اشد ضرورت تھی جو دن رات میرے پاس رہے۔ رشیدہ نے بتایا کہ وہ ایک گرلز کالج کی کینٹین میں کام کرتی ہے۔ صبح گیارہ بجے جاتی ہے اور دوپہر تین بجے تک وہاں سے فارغ ہو جاتی ہے، باقی ٹائم گھر پر ہوتی ہے۔ میری غیرموجودگی میں سدرہ آپ
کا کام سنبھالے گی۔ اطمینان رکھئے، یہ بہت سلیقے سے کام کرے گی۔ میٹرک پاس ہے سگھڑ اور سمجھدار ہے۔ اسے ساتھ نہیں لے جاتی آپ جانتی ہیں زمانہ کتنا خراب ہے۔
ٹھیک ہے اچھا کام کرو گی تو ہم بھی آپ کو تنخواہ کے علاوہ دیگر سہولتیں دیں گے… بس ایک شرط ہے صفائی ستھرائی پر بہت دھیان دینا ہوگا۔ میرے میاں بہت زیادہ صفائی پسند ہیں۔
آپ فکر نہ کریں بی بی… ہم آپ کا گھر چمکا کر رکھیں گے، ایک تنکا بھی کہیں گرا نظر نہ آئے گا۔
رشیدہ نے واقعی سچ کہا تھا دونوں ماں بیٹی بہت سلیقہ مند اور محنتی تھیں، کچن کا کام، کھانا پکانا… صفائی دُھلائی۔ غرض انہوں نے مجھے ہر فکر سے آزاد کر دیا۔ کام میری منشا کے مطابق کرتیں، وقت پر کھانا تیار کر لیتیں۔ سدرہ میرے تینوں بچوں کو بہت جاں فشانی اور پیار سے سنبھالتی اور خاور کے تمام کام اس قدر سلیقے سے کرتی کہ وہ خوش اور مطمئن رہنے لگے۔ مدت بعد ہم میاں بیوی کو سکون ملا، ہمارے درمیان جو چپقلش چلتی رہتی تھی وہ بھی ختم ہوگئی۔
رشیدہ بہت غریب تھی، کوئی ذریعہ آمدنی نہ تھا، پھر بھی رہائش کی خاطر اس نے کینٹین کی نوکری کو خیرباد کہنے پر آمادگی ظاہر کردی۔ بولی… تانیہ بی بی آپ کے گھر میں کھانا اور رہائش مل گئی۔ اب کسی شے کی ضرورت نہیں۔ کبھی ہم نے بھی خوشحالی کے دن دیکھے تھے۔ اب دَر دَر کی ٹھوکریں کھانے سے بچ گئی ہوں۔ آپ کے گھر کی چاردیواری میں عزت سے رہنا چاہتی ہوں کہ جوان بیٹی کا ساتھ ہے۔ کم تنخواہ ملے یا نہ ملے… یہاں رہ کر خوش ہوں۔
کچھ دیر سوچا کہ … یہ کہتی تو ٹھیک ہے، بیوہ اور یتیم کو عزت دار گھرانے کی چھت تلے پناہ مل جائے تو بڑی نعمت ہے، لیکن اس بیچاری کو بیٹی بھی تو بیاہنی ہوگی۔ کچھ رقم جوڑے گی تو ایسا کر سکے گی۔ تبھی میں نے کہا… رشیدہ بی بی تم فی الحال کالج کی ملازمت جاری رکھو۔ چند گھنٹے ہی تو جانا ہوتا ہے… سدرہ ہوتی ہے میرے پاس یہ کام سنبھال لے گی۔
بہت شکریہ بی بی آپ کا۔ میں یہ احسان کبھی نہ بھلا سکوں گی۔ احسان کی کیا بات ہے۔ انسان، انسان کے کام آتا ہے۔ تمہیں رہائش کی ہی نہیں روپے کی بھی ضرورت ہے۔ زندگی کی سو ضرورتیں ہیں۔ وہ خوش ہوگئی دُعا دینے لگی۔
اب رشیدہ صبح ہمارا ناشتہ تیار کرنے کے بعد اپنی ڈیوٹی پر چلی جاتی اور سدرہ آ جاتی، وہ سارے کام خوش اسلوبی سے کرتی۔ ماں کے لوٹ آنے تک… رشیدہ آ جاتی تو دونوں کھانا لے کر اپنے کمرے میں چلی جاتیں۔ اس دوران اگر میں آواز دیتی تو سدرہ دوڑی آتی… کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ماں بیٹی پھر سے رات گئے تک میرے گھر کے کاموں میں مصروف رہتیں۔ کام ختم ہو جاتے تب وہ کوارٹر کا رُخ کرتیں۔
ان کے آنے سے ایک بار پھر ہمارا گھر جنت کا نمونہ بن گیا تھا۔ خالہ اور خالو خوش تھے کہ کوئی نیکی کام آ گئی۔ کل وقتی خدمت گار مل گئے۔ لالچی تھے نہ کوئی مطالبہ کرتے تھے۔ ماں بیٹی کوہم جو دے دیتے صبر و شکر سے لے لیتیں۔ دن بھر کام کر کے رات کو اپنے کوارٹر میں جا کر سو جاتیں۔
چوتھے بچّے کی پیدائش کے بعد میری خوش و خرم اور پرسکون زندگی میں ایک بار پھر سے بے ترتیبی اور بے سکونی پیدا ہوگئی… بچہ پیدائشی لاغر تھا۔ آپریشن سے ہوا تھا۔ کچھ عرصے کے لئے چلنے پھرنے سے بھی معذور ہوگئی۔ لگتا تھا کہ میری جنت بکھرنے لگی ہے۔ خالہ انہی دنوں بیمار پڑ گئیں تو ہم سب کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ خاور بہت پریشان تھے۔
میرے جیون ساتھی پر منوں بوجھ آ پڑا۔ ڈیوٹی جانا ہوتا تھا۔ بیمار ماں کو بھی دیکھنا ہوتا۔ بیچارے خالو مقدور بھر فرائض سنبھال رہے تھے، ایسے میں اگر سدرہ اور اس کی ماں ساتھ نہ دیتیں تو جانے ہمارا کیا بنتا۔ کالج سے ڈیوٹی کر کے آتی تو رشیدہ، خالہ کی تیمار داری میں لگ جاتی۔ سدرہ میرے شوہر اور بچوں کے کاموں میں غرق رہتی۔ یہ ایسا وقت تھا کہ اگر دو خادمائیں اور ہوتیں تب بھی کم تھیں۔
ان حالات میں اُوپر سے خاور میرے محبوب شوہر ستھرائی صفائی کے وہم میں مبتلا تھے جس کی وجہ سے سدرہ کو دُگنا کام کرنا پڑتا تھا۔ وہ بیچاری سوکھ کر کانٹا ہوگئی تھی۔ میرا آپریشن پیچیدہ تھا۔ اُٹھنے چلنے سے معذور تھی۔ خاور دفتر سے خالہ کے پاس اسپتال اور پھر گھر میں بچوں کے ساتھ ہوتے، میرے کمرے میں دن میں ایک بار چند منٹوں کے لئے ہی آ پاتے تھے، گویا حالات نے میری محبوب ہستی کو جیتے جی مجھ سے
دُور کر دیا تھا، اسی سبب ہمارے درمیان غیرمحسوس طریقے سے ایک تیسری ہستی حائل ہوگئی۔
نجانے کب، اس نے میرے شوہر کے دل پر اس طرح قبضہ کر لیا جیسے کوئی طاقت ور غاصب کسی کمزور کے مال و متاع پر قبضہ کرتا ہے۔ طرّہ یہ کہ خود سدرہ کو علم نہ تھا کہ وہ مالک کے دل پر قابض ہے۔ میری طاقت میرا جیون ساتھی تھا اور سدرہ کی طاقت اس کا حسن اور اس کی نوخیزی تھی۔ میں حالات کے رحم و کرم پر رہ گئی تھی۔ ان دنوں سارا گھر ہی اُس کے حوالے کرنا پڑا۔
بے شک وہ بُری لڑکی نہ تھی، گھر کے مالک پر قبضہ کرکے میری راج دھانی پر ہاتھ صاف کرنے کی نیت اُس کی نہ تھی، لیکن مرد ذات کا اعتبار نہیں۔ اسے جب موقع ملے وہ پھول سے کلی اور کلی سے شگوفوں پر منڈلائے۔
سدرہ معصوم تھی، اس کی ماں نیک طینت اور شریف عورت تھی۔ بیوگی کے باوجود اس نے بیٹی کی حفاظت ایک باپ کی طرح کی تھی۔ اُسے زمانے کی ہوا لگنے سے قبل ہماری چاردیواری میں لے آئی تھی۔ ہماری چاردیواری کو ایک محفوظ پناہ گاہ سمجھ کر… نہیں جانتی تھی کہ جن کو محافظ سمجھ رہی ہے، وہاں ایک لٹیرا بھی ہوگا۔
خالو جان نے تو ترس کھا کر ان ماں بیٹی کو اپنے گھر کی چھت تلے پناہ دی تھی۔ یہ بیوہ عورت جوان بچی کولے کر کہاں ماری ماری پھرے گی۔ رشیدہ بہت صابر تھی۔ سنجیدہ اور بُردبار، قناعت پسند، ہمیشہ عزت سے جینا چاہتی تھی۔ خالو جان بھی اُسے بیٹی کی طرح سمجھتے تھے۔ اُس کی بیٹی کے بیاہ کی فکر میں کسی اچھے رشتے کی تلاش میں تھے۔ رشیدہ بیٹی کو جلد بیاہ دینا چاہتی تھی۔
انسان سوچتا کیا ہے اور ہو کیا جاتا ہے۔ نہیں معلوم خاور کے دل میں کب اُس مرض نے جنم لیا، جسے بدنیتی کہتے ہیں۔ میں اپنے کمرے میں بستر پر پڑی تھی اور خالہ اسپتال میں داخل تھیں۔ رشیدہ اپنی ڈیوٹی سے آ کر خالہ کے لئے پرہیزی کھانا تیار کرتی اور خالو کے ہمراہ اسپتال چلی جاتی۔ یہ لوگ دوپہر کے گئے رات کو لوٹتے تھے۔ خاور ڈیوٹی سے آ کر کھانا کھاتے اور پھر آرام کرنے اپنے کمرے میں جا لیٹتے۔ شام کو اسپتال جاتے۔
میرے تینوں بچّے سدرہ کے پاس ہوتے وہ ان کو کھانا کھلا کر رات نو دس بجے تک سلا دیتی۔ تب خاور سدرہ کی ماں کو اسپتال سے گھر لے کر آ جاتے اور خالو… بیوی کے پاس رہ جاتے۔ اگر وہ لوٹ آتے تو رشیدہ بی بی خالہ کے پاس رُک جاتی۔
اُس روز بھی خالو اور رشیدہ بی بی اسپتال میں تھے۔ میں اور سدرہ گھرپر تھے۔ خاور بولے۔ امی جان کی طرف آفس سے واپسی میں چلا گیا تھا۔ وہ تمہیں بہت یاد کر رہی تھیں۔ کہتی تھیں زندگی کا بھروسہ نہیں۔ تانیہ اگر چلنے پھرنے کے قابل ہوگئی ہے تو میرے پاس لے آنا۔
میں اب بہتر تھی خود چل کر واش روم تک جا سکتی تھی۔ میں نے کہا۔ ضرور… میں بھی ان کی عیادت کو جانا چاہتی ہوں۔ تھوڑا بہت چل پھر سکتی ہوں۔ خالہ رشیدہ کو لے آیئے منّے کے پاس رہیں تو میں تھوڑی دیر کے لئے اسپتال خالہ کے پاس جانا چاہوں گی۔
تیار ہو جائو۔ میں تمہیں لئے چلتا ہوں۔ تمہیں امی کے پاس چھوڑ کر رشیدہ کو لے آئوں گا، تب تک سدرہ ہمارے بچوں کے ساتھ چھوٹے مُنّے کو بھی دیکھ لے گی۔
خالہ کی خاطر میں نے چاروں بچوں کو تنہا سدرہ کے حوالے کیا اور خاور مجھے اسپتال لے آئے۔ خالہ کی حالت صحیح نہ تھی۔ خالو نے کہا۔ خاور تم جلدی گھر لوٹ جائو۔ بچّے اکیلے ہیں، میں تھوڑی دیر بعد تانیہ بیٹی کو گھر چھوڑنے آئوں گا اور رشیدہ آج اِدھر ہی رہے گی۔ بچوں کی خاطر خاور اکیلے ہی اسپتال سے گھر آگئے۔
ایک گھنٹے بعد خالو نے خاور کو فون کیا۔ چاہتے تھے کہ آ کر مجھے لے جائیں۔ خاور نے فون نہ اُٹھایا۔ بار بار خالو نے کال کی۔ تب انہیں کچھ پریشانی لاحق ہوگئی اور وہ گھر گئے۔ پہلے میں اور پھر خالہ ایک ماہ سے اسپتال میں تھیں۔ رشیدہ ہمارے پاس رات کو اسپتال میں ہوتی تھی، مجھے نہیں معلوم اس دوران گھر میں کیا ہوتا رہا تھا۔
سسر صاحب گھر پہنچے تو گیٹ کے پاس میرے دونوں بیٹے کھیل رہے تھے۔ پوتوں کی آواز سن کر انہوں نے کہا۔ دروازہ کھولو۔ بچوں نے گیٹ کھول دیا اور وہ اندر چلے گئے۔
وہ سب سے پہلے میرے بیڈروم میں چھوٹے بچوں کی طرف گئے۔ دروازہ اندر سے بند تھا گھوم کر برآمدے میں آئے اور کھڑکی کے شیشے سے اندر دیکھنے کی کوشش کی، کیونکہ ان کو گھر میں کوئی نظر نہ آ رہا تھا۔ خدا جانے انہوں نے کیا دیکھا کہ حواس باختہ ہوگئے۔ اُلٹے


قدموں واپس گیٹ کی طرف لوٹے۔ گیٹ بند کر کے باہر سے تالا لگا کر اسپتال آ گئے۔ مجھے ساتھ لیا۔ ہم گھر آئے۔ اس وقت تک میرے شوہر کے دل کی دُنیا بدل چکی تھی۔
سسر صاحب نے اس وقت کسی سے کچھ نہ کہا، کیونکہ خالہ جان کی طبیعت بہت زیادہ خراب تھی۔ اگلے دن ان کا انتقال ہوگیا۔ خالو بیٹے سے بھی بازپرس نہ کرسکے۔ خالہ کی وفات کے تیسرے دن خاور ایک ضروری میٹنگ کا کہہ کر اسلام آباد چلے گئے اور ایک ماہ تک نہ لوٹے۔ میٹنگ تھی یا نہیں۔ اسلام آباد گئے یا نہیں۔ خدا جانے۔ سسر صاحب کی پریشانی مگر ناگفتہ بہ تھی۔ مجھ سے کچھ نہ کہتے تھے مگر رشیدہ بی بی سے کوئی بات ضرور کی تھی۔
وہ ملازمت چھوڑ کر گھر بیٹھ گئی تھی۔ اِدھر سدرہ بجھی بجھی تھی۔ میں سمجھی کہ خالہ کی وفات کے باعث یہ دونوں آزردہ ہیں لیکن اندر ہی اندر بات کچھ اور تھی۔ خالہ کے چالیسویں سے ایک دن پہلے خاور کا فون آ گیا۔ انہوں نے ہیلو کہا ہی تھا کہ میں نے سسر صاحب کو ریسیور تھما دیا۔ باپ بیٹے میں جو بات ہوئی میں نہ سمجھ پائی۔ صرف اتنا سمجھ سکی کہ خالو نے خاور سے کہا تھا مجھے منظور ہے لیکن تم گھر آ جائو۔ میں بوڑھا ہوں، تمہارے بچوں کو کب تک کیسے سنبھال سکتا ہوں۔
خاور آئے تو یکسر بدلے ہوئے تھے۔ انہیں میرا اور مجھے ان کو وجود اَجنبی لگ رہا تھا۔ خالو جان افسردہ و گم صم مگر انہوں نے خاور کو کچھ نہ کہا۔ مجھے سمجھانے لگے کہ جو خطا ہو چکی اس کا ازالہ ممکن نہیں ہے۔ اب جو میں مناسب سمجھتا ہوں کر رہا ہوں۔ اگر تم مجھے اپنے والد کی جگہ سمجھتی ہو تو میری خاطر تمہیں یہ دُکھ سہنا ہوگا اور خاموش رہنا ہوگا۔ یہ ایسی بات تھی کہ رشیدہ کی زبان بھی گنگ تھی، وہ کچھ نہ بول سکی۔ ہماری اور اپنی بدنامی کے خوف سے چپ رہی۔ چپ چاپ بیٹی کو لے کر چلی گئی۔
اس واقعہ کے کچھ دنوں بعد سسر صاحب نے تمام اثاثہ میرے اور میرے بچوں کے نام کر دیا۔ وہ مکان بھی میرے نام کر دیا جس میں ہم رہائش پذیر تھے اور کہا۔ یہ بدلہ ہے تمہارے صبر کا، تمہیں اسی گھر میں رہنا ہے، اپنے چار بچوں کی خاطر۔ خاور یہاں رہے نہ رہے مجھے پروا نہیں ہے۔ اس نے سدرہ سے نکاح کر لیا ہے، کیونکہ لڑکی اُمید سے تھی اور میں نے بادل نخواستہ خاور کو سدرہ سے نکاح کی اجازت دی ہے۔ رشیدہ بی بی کی ہی نہیں اپنی بھی عزت دائو پر لگی تھی، اسے بچانے کی خاطر، ورنہ محلے میں ہم منہ دکھانے لائق نہ رہتے۔
خاور کو معاف کر دو غلطی انسان سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے اور وہی جزا و سزا کا مالک ہے۔ جب تک میں زندہ ہوں تم پر اور تمہارے بچوں پر کوئی مشکل وقت نہ آنے دوں گا۔ تمہارے اخراجات میں کمی نہ ہوگی۔ خاور بھی ایک دن اپنے بچوں کی خاطر لوٹ کر آ جائے گا۔ وہ سدرہ سے نکاح کر چکا ہے… رشیدہ بی بی کو اس امر کا بہت رنج ہے۔ شرمندگی کی وجہ سے تمہارے سامنے نہیں آتی لیکن اس عورت کا کوئی قصور نہیں، ہم نے اُسے مجبور کیا کہ وہ اسپتال میں تمہاری بیمار خالہ کے ساتھ رہے۔ رات کو اس کی بیٹی کوارٹر میں اکیلی ہوگی اس بات کی نزاکت کا ہم نے خیال نہیں کیا۔ ہم سے سخت غلطی ہوئی۔ وہ بچی مجبور تھی، ہمارے رحم و کرم پر یہاں رہ رہی تھی۔ خاور نے بُرا کیا۔ مگر وہ اپنا ہے اور اپنے اپنوں کو معاف کرتے ہیں، تم بھی معاف کر دو اُسے۔ میرے بعد تمہارے چار بچوں کا وہی محافظ ہے۔ باپ کے بغیر بچوں کا جو حال ہوتا ہے تم اچھی طرح جانتی ہو۔ تمہاری دوبچیاں ہیں… باپ بُرا ہے کہ بھلا، دُوسری شادی کر چکا ہے تو بھی تمہاری بچیوں کے سر پر باپ کا ہاتھ اور سایہ بہت ضروری ہے۔ ورنہ یہ دُنیا بھیڑیوں کا جنگل ہے۔ بیٹی کیا تمہاری سمجھ میں آگئی میری بات۔ جی آ گئی ہے خالو جان۔ میں نے دوپٹے کے پلو سے آنسو پونچھ کر وعدہ کیا جو ہوا سو ہوا، مگر اپنی بیٹیوں کی خاطر اس گھر سے قدم نہ نکالوں گی۔ (ک۔ی… ملتان)

Latest Posts

Related POSTS