Monday, March 17, 2025

Tume Sab Kuch Ho

میں اس سے ملنے گئی تو وہ بے حد اداس اور پریشان تھی۔ لگتا تھا جیسے ساون کی ساری بھری بدلیوں کا بسیرا اس کی پلکوں پر ہے جو ذراسی ٹھیس سے برسں جائیں گی تبھی میں نے اس سے کلام نہیں کیا۔ یہ محفل درود و سلام تھی جہاں اختتام پر خواتین زیرلب دعائیں مانگ رہی تھیں۔ میں نے محسوس کیا۔ وہ نہایت محویت سے دعاؤں کی قبولیت کی آس لئے بارگاہ الہی میں آنسوؤں کے نزرا نے پیش کر رہی ہے۔ اس خوبصورت سی خاتون کا نام رخشندہ تھا اور وہ چارسدہ کی رہنے والی تھی، اس کے والد پاکستان میں ایک اعلیٰ آفیسر تھے جنہوں نے بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کو بھی اعلیٰ تعلیم سے بہرہ مند کیا تھا۔۔ رخشندہ اعلیٰ تعلیم کے لئے پشاور یونی ورسٹی گئی تو وہاں اس کی ملاقات شاہ میر سے ہوئی جو کیمسٹری کا طالب علم ہونے کے ساتھ ، یونی ورسٹی کی سرگرمیوں میں بھی خاصا فعال تھا۔ کھیل کود بحث و مباحثہ اور دوسری قسم کی مصروفیات میں ایک دوسرے سے ان کی جان پہچان بڑھ کر محبت کا جذبہ بن تھی۔ خوش شکل ہونے کی وجہ سے شاہ میر کے اطراف لڑکیوں کا ہجوم رہتا تھا مگر اس کے دل کے تاروں کو رخشندہ نے ہی چھیڑا تھا ، اسی وجہ سے تعلیم مکمل کر کے جب اس کو ایک جگہ ملازمت مل گئی تو اس نے رخشندہ کے گھر شادی کا پیغام بھیجا۔ رخشندہ کے باپ کو اندازہ ہو گیا کہ یہ لڑکا بہت ترقی کرے گا، انہوں نے جھٹ یہ رشتہ منظور کر کے بیٹی کو بیاہ دیا۔ وہ بیاہ کے پشاورآ گئی۔ یہ شہر اس کے لئے اجنبی نہ تھا، یہاں اس نے تعلیم مکمل کی تھی۔ شاہ میر اچھے کھاتے پیتے گھرانے کا لڑکا تھا۔ اور والد کے ایک سیاست دان دوست کی مدد سے اچھی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ دونوں بہت آرام سے زندگی گزار رہے تھے- ان کے ننھے بچے گھر میں سب سے بڑی رونق تھے۔ اس زمانے میں آفس کے کام کے سلسلے میں شاہ میر کو امریکا بھیجا گیا۔ امریکا کی بظاہر پرآسائش زندگی اس کو بہت پسند آئی۔ یہاں کی زندگی وہ خوبصورت سراب ہے جو باہر کی دنیا میں رہنے والوں پر بہت پرکشش اثر ڈالتی ہے۔ یہی شاہ میر کے ساتھ ہوا۔ آفس کا کام کرنے کے بعد جب واپس پشاور گیا تو اپنا دل امریکا میں چھوڑ آیا۔ اس کے ذہن میں ایک مکمل پلاننگ تھی جس کے تحت وہ امریکا جا کر ایک نئی زندگی شروع کرنا چاہتا تھا۔ وہ ان مردوں میں سے تھا جو کامیابی کی اس آخری سیڑھی تک جانا چاہتے ہیں جس کے بعد صرف خلاء رہ جاتا ہے اور ساری کامیابی ان کے قدموں تلے ہوتی ہے۔ اس نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور غیر ملکی ادارے میں ملازمت حاصل کر لی جو ترقی پذیر ممالک کے زمین دوز ذخائر پر تجارت کے نام پر قبضہ کر کے ان ممالک کی حکومتوں اور عوام کو بیوقوف بنارہے ہیں۔ اس فرم کا ہیڈ کوارٹر نیو یارک میں تھا۔ محنتی اور ذہین ہونے کی وجہ سے اس کو فرم میں معقول جگہ مل گئی اور پھر اس کی خواہش پر اس کا تبادلہ نیو یارک کے ہیڈ آفس میں کر دیا گیا۔ رخشندہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ نیویارک آگئی۔ بچوں کو اسکول میں داخل کرا کے وہ خود بھی ملازمت کرنے لگی کیونکہ جس ٹھاٹ کی زندگی گزارنے کا خواب شاہ میر کی آنکھوں میں تھا اس کے لئے ایک تنخواہ کافی نہ تھی۔ دونوں نے ملکردن رات محنت کی جس کا نتیجہ ان کو ایک سجے سجائے گھر کی صورت میں ملا جو شہر کے معمول علاقے میں تھا۔ زندگی آرام اور چین سے گزر رہی تھی ۔ رخشندہ نے اچانک محسوس کیا کہ شاہ میر کے مزاج میں تبدیلی آرہی ہے۔ اس میں اجنبیت عدم توجہی بیزاری اور چڑچڑا پن پیدا ہو گیا تھا، وہ بیوی سے بے رخی برتنے لگا تھا۔ انہی دنوں اس نے بتایا کہ اپنا بزنس نیو یارک کے علاوہ ہوسٹن میں بھی کھولنا چاہتا ہے جس کی وجہ سے رخشندہ کو وہاں رہنا پڑے گا اور وہ سب نیو یارک سے ہوسٹن شفٹ ہو جائیں گے۔ اس نے وہاں مکان لے لیا تھا۔ بیوی کو وہ مکان سجانا اور سنبھالنا تھا وہ شوہر کے کہنے پر ہوسٹن آگئی۔ یہاں وہ ملازمت کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی شاہ میر کے آفس جا کر اس کا بزنس بھی چیک کرتی تھی۔ شاہ میر کبھی نیو یارک اور کبھی ہوسٹن ہوتا تھا۔ اس نے ان دونوں شہروں کو گھر کا برآمدہ اور آنگن بنا لیا تھا۔ صبح ہوسٹن میں تو رات نیویارک میں ہوتا تھا۔ رخشندہ جب اس کے روز سفر کرنے کی وجہ پوچھتی تو وہ بزنس کا بہانہ کرتا تھا۔ اس نے محسوس کیا شوہر کی دلچسپی اس میں اب کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے۔ عام بیویوں کی طرح وہ بھی اس معاملے میں بہت حساس تھی۔ اسے شک ہوا شاید کوئی دوسری عورت اسکے شوہر کی زندگی میں آگئی ہے۔ اپنے طور پر کافی تحقیق کی مگر نتیجہ خاطر خواہ نہ نکلا۔ یہ بڑے اداس دن تھے۔ یاسیت کی مکڑی نے اس کی خواب گاہ میں چاروں طرف جالا تان رکھا تھا جس میں شک کے سنپولیے اور غم کی چمگاڈریں اس کو اپنے اطراف نظر آتی تھیں۔ وہ خواب گاہ جو اب تک حجله عروسی بنی ہوئی تھی، اس اس کو کھنڈر لگتی تھی۔ جس میں اس کا شریک زندگی ایک اجنبی کی طرح چاندنی راتوں میں اس کے قریب نیند میں مدہوش خراٹے لیا کرتا تھا اور وہ ساری ساری رات چھت تکا کرتی تھی۔ پچیس سال ایک دوسرے کے ساتھ ، خوش باش زندگی گزارنے کے بعد شوہر ہر محفل میں بڑے فخر سے لوگوں کو بتاتا تھا کہ اس کی زندگی کی ساتھی نے ہر قدم پر اسکا ساتھ دیا ہے اور وہ ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ یہ سب باتیں اب چھناکے سے ٹوٹ کر کرچی کرچی ہوگئی تھیں۔ قصہ پارینہ بن گئی تھیں۔ شاہ میر جب بھی نیویارک سے آتا ہمیشہ گھریا آفس میں رخشندہ کے ساتھ جاتا اور واپس آتا، گھر میں خرچ کے لئے برابر پیسے دیتا، اس کو تحائف اور بچوں کو کھلونے لا کر دیتا مگر اجنبیت کے دیوار ان دونوں کے درمیان اونچی ہوتی جارہی تھی اور رخشندہ کو یہ ڈر تھا کہ کہیں یہ دیوار اس کے لئے ناقابل عبور دیوار نہ ثابت ہو۔ اس کے پریشان رہنے کی وجہ سے سب نے یہی مشورہ دیا کہ وہ اپنے شوہر سے بات کرے۔ رخشندہ نے شاہ میر سے بات کی۔ اس نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھ کر کہا کہ اس کی زندگی میں پہلی اور آخری عورت وہی ہے۔ وہ بیکارشک کر کے اپنی اور اس کی ازدواجی زندگی کو داؤ پر نہ لگائے کیونکہ اس قسم کی حرکتوں سے سب سے زیادہ نقصان بچوں کو ہوتا ہے۔ کاروباری مصروفیات اتنی زیادہ ہیں کہ بری طرح تھک جاتا ہے، اسی لئے زیادہ توجہ بیوی پر نہیں دے پاتا۔ یہ ایک عام بہانہ تھا جو ساری دنیا کے مرد اپنی بیویوں سے کرتے ہیں۔ پہلے زمانے کی عورتیں گھر میں بیٹھنے کی وجہ سے اس بہانے سے بہل جاتی تھیں مگر اکیسویں صدی کی عورت جو مرد کے شانہ بشانہ کام کرتی ہے جو بہت ذہین ہے۔ ہر بات سمجھ جاتی ہے کہ حالات کسی دھارے پر جا رہے ہیں وہ اس طرح کے بہانوں میں کیسے آسکتی تھی۔ رخشندہ نے جھگڑا کرنا مناسب نہ سمجھا وہ خاموش ہوگئی البتہ وہ بار بار یہ ضرور کہتی تھی کہ شاہ میر، تم اپنا زیادہ وقت نیویارک میں گزارتے ہو۔ مجھے کیوں پھر ہوسٹن ہیں رکھا ہوا ہے۔ میں بھی نیو یارک میں رہوں گی۔ شاہ میر نے اس کی یہ فرمائش ماننے سے انکار کر دیا۔ یہ کہہ کر کہ پھر میرا ہوسٹن کا آفس کون سنبھالے گا۔ وہ کسی پر پیسے کے معاملے میں بھروسہ کرنے کو تیار نہیں تھا کیونکہ اسکے کئی دوست اپنے آفس کے منیجروں کے ہاتھوں اسی طرح برباد ہو چکے تھے۔ رخشندہ ایک سلجھی ہوئی عورت تھی ۔ گھر کی دیکھ بھال، بچوں کا خیال، مہمانوں کی آؤ بھگت اور آفس کی ذمہ داریاں یہ سارے بوجھ اس نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھے تھے مگر شوہر کی سرد مہری نے اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے ڈال دیتے تھے۔ جو اس کے گورے مکھڑے پر بہت نمایاں نظر آتے تھے۔ مسلمان عورت میں برداشت کی بے پناہ قوت ہوتی ہے مگر اسے بھی شوہر کی توجہ درکار ہوتی ہے جس کے سہارے وہ زمانے سے لڑ جاتی ہے کیونکہ ایک پاک بازعورت کے لئے شوہر ہی اس کی زندگی کا پہلا اور آخری مرد ہوتا ہے مگر یہاں رخشندہ اپنی ہرذمہ داری کو پورا کرنے کے ساتھ اس کندھے کی آرزو میں سسک رہی تھی جس پر سر رکھ کراس کی ساری تھکن دورہو جاتی تھی۔ وہ ان پانیوں کی متمنی تھی جن کے دائرے میں خود کو محفوظ سمجھتی تھی مگر جب بھی اس نے شاہ میر کے قریب آنے کی کوشش کی وہ کرنٹ لگے جھٹکے کے ساتھ دور چلا گیا۔ وہ کون ہے جس نے میری زندگی کے سرسبز باغ کو خزاں رسیدہ کر دیا تھا۔ خدا کے لئے میری مدد کرو وہ بھی روتے روتے مجھ کو جھنجھوڑ ڈالتی۔ بھلا ان سوالوں کا میرے پاس کیا جواب تھا؟ میں تو کیا میں تو کیا اس کی کسی سہیلی کو بھی رخشندہ کی پریشانی کا سرا نہیں مل رہا تھا۔ ہمارے دفتری گروپ کو جس میں سبھی امریکن تھے ایک کام کے سلسلے میں نیو یارک جانا پڑا۔ کام کاج کے بعد ایک دن تفریح کا پروگرام بنا۔ لوگ اپنی اپنی پسندیدہ جگہوں کی سیر کیلئے جبکہ میں تھیڑ دیکھنے چلی گئی ہے ہال میں ملجی سی روشنی تھی ۔ نرم قالین پر آرام دہ چھوٹے چھوٹے صوفے رکھے تھے۔ لوگ بڑی خاموشی سے آکر بیٹھ رہے تھے۔ آج ایک ٹیبلو پیش کیا جارہا تھا جس کا مرکزی خیال پھول اور بھونرا تھا۔ ہلکی روشنی میں ننھی منی خوبصورت لڑکیاں پھولوں کا روپ دھارے اسٹیج پرآکر کھڑی ہو گئیں۔ ہال میں اور اسٹیج پر خاموشی چھائی رہی پھر ایک دھما کے کی موسیقی کے ساتھ تیز روشنی کی لہر آئی اور سیاہ رنگ کے مختصر سے لباس میں سیاہ پر لگائے سترہ اٹھارہ سال کا ایک لڑکا بھونرا بن کر آ گیا۔ وہ جب لچک چک کر ناچتا تو بھن بھن کی آواز موسیقی سے ابھرتی جو سماں باندھ رہی تھی۔ اس لڑے کے جسم میں غضب کی چمک تھی اور یہ امریکن انڈین لڑکا تھا۔ اس کی رنگت سانولی اور بال سیاہ چمکیلے تھے جو کمر تک لہراتے تھے ۔ اس کے پھدک پھدک کر چلنے سے یہ بال دلفریب نظارہ پیش کر رہے تھے۔ پیروں میں پڑے گھنگرو کو عجب انداز سے بجاتا تھا۔ وہ جس پھول کو جا کر سونگھتا وہ پھول پٹ سے گر جاتا۔ ہال لوگوں سے بھرا ہوا تھا اور مکمل اندھیرا تھا۔ سب لوگ آنکھیں پھاڑے اس سانولے سلونے خوبرو نوعمر بھونرے کی کمال اداکاری کے سحر میں کھوئے ہوئے تھے۔ جیسے ان پر تنویمی کیفیت طاری ہو۔ پھر سارا ہال روشنیوں میں نہا گیا۔ پھول بن کر گری ہوئی سبھی پریاں بھونرے کے ارد گرد کھڑی ہو کر جھک گئیں اور آہستہ آہستہ اسٹیج سے اتر گئیں ۔ لوگوں نے کھڑے ہو کر خوب تالیاں بجا بجا کر بھونرے کو شاباش دی۔ وہ جھک جھک کر لوگوں سے داد وصول کر رہا تھا کہ دائیں طرف سے شاہ میر نمودار ہوا۔ اس نے جس انداز سے اس امریکن انڈین اداکار کی کمر میں ہاتھ ڈال کر کہا۔ تم ہی میرے سب کچھ ہو۔ اسکے انداز سے مجھے اس کے اور اس ادا کار لڑکے کے درمیان قائم دوستی کا بخوبی ادراک ہو گیا۔ یہ وہی رشتہ تھا جس نے امریکا میں ایڈز جیسے خطرناک مرض کو جنم دیا ہے- شاہ میر کو اندازہ نہ تھا کہ کوئی پاکستانی، امریکن تھیٹر میں ہونے والے اس ٹیبلو کو دیکھنے آئے گا۔ میری طرح شاید اور بھی کچھ لوگ وہاں ہوں گے جنہوں نے یہ فقرہ سنا ہوگا۔ میں ہوسٹن واپس آئی تو رخشندہ کا فون آگیا کہ تم کب آئیں؟ مجھے آکر فون کیوں نہ کیا لیکن میں تو اس سوچ میں تھی کہ کیسے اپنی دوست کو بتاؤں کہ اس کی سہاگ کی سیج پر کسی پچھل پائی کا نہیں امریکن انڈین ناگ کا کڑا پہرہ ہے۔ امریکا اور یورپ میں اس قسم کی دوستیاں عام ہیں اور ایسی دوستیوں کو معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا لیکن خدا پاکستان کو اس قسم کے حالات سے بچائے کہ ہمارا ملک ابھی تک سرعام ایسی دلدل میں نہیں گرا ہے۔

Latest Posts

Related POSTS