ہوش سنبھالا تو گھر میں برے حالات کی دھول کو اڑتے پایا اور یہ سب والد صاحب کی وجہ سے تھا۔ وہ بیرون ملک کمانے گئے تو وہیں رہ گئے۔ رقم تو کیا خط بھی نہ بھیجتے تھے۔ سب کا یہی خیال تھا کہ کسی میم سے شادی کرکے گھر بسا لیا ہے، تب ہی سبھی کو بھلا دیا ہے۔ یہاں تک کہ خط لکھنے کے بھی روادار نہیں ہیں۔
ماں اپنے سہاگ کا انتظار کرتے کرتے بیمار پڑ گئی اور میں بچی سے بڑی ہوگئی۔ بمشکل میٹرک کرسکی۔ پھر ملازمت کے چکر میں پڑ گئی۔ میٹرک پاس کو ملازمت کون دیتا۔ جب پائوں تھک گئے اور ہمت ٹوٹ گئی تو ماں کو اپنے ایک دور کے رشتے دار کا خیال آیا جن کی اپنی کمپنی تھی۔ وہ مال باہر بھجواتے تھے اور بڑے نامی گرامی بزنس مین تھے۔ والدہ …ان کی والدہ کے پاس گئیں جو امی کی کزن ہوتی تھیں۔ ان سے اپنی کسمپرسی کا رونا رویا۔ وہ رحم دل خاتون تھیں۔ بیٹے کو مجبور کیا کہ شاکرہ بہت ضرورت مند ہے۔ ہماری رشتے دار ہے۔ اس کی لڑکی نے میٹرک کرلیا ہے۔ اپنی کمپنی میں کہیں لگا دو۔ وہ بولے۔ اماں جی! میٹرک پاس کو کہاں لگائوں، کم از کم بی اے تو کرلے۔
ارے بیٹا! بی اے کرنے کی استطاعت ہوگی تو کرے گی۔ اب تو شاکرہ کے پاس دوا کے پیسے تک نہیں ہیں، جہاں کھانے کے لالے پڑے ہوں، وہاں تعلیم کے خواب کیسے پورے ہوں گے۔ اپنی والدہ کا کہا، احسن صاحب نہیں ٹالتے تھے۔ انہوں نے اگلے دن مجھے اپنے آفس بلوایا اور ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں بیٹھ جائو اور جو فائلیں میرا کلرک تمہیں دے، اس کو ٹھیک کرکے الماری میں رکھ دیا کرو۔ جس ترتیب سے وہ بتائے، اسی ترتیب سے رکھنا۔ بس! یہی تمہارا کام ہے۔ ساتھ ہی معقول تنخواہ بھی مقرر کردی۔ مزید جتنا وہ کرسکتے تھے، کردیا کہ اپنے آفس میں کسی کو بلا کر یہ بھی ہدایت کردی کہ یہ بچی میری عزیزہ ہے، اس کا خیال رکھنا۔
کمسنی میں ہی یوں میرے کندھوں پر گھر کا بوجھ پڑ گیا۔ صبح آفس جاتی، اکیلی بسوں میں دھکے کھاتی۔ احسن صاحب کا آفس ہمارے گھر سے کافی دور تھا۔ دو بسیں بدل کر جانا پڑتا تھا مگر یہ کسی کی درد سری نہیں، میری ذمہ داری تھی کہ وقت پر آفس پہنچوں۔ والد صاحب کے رشتے داروں کو اس کی پروا نہ تھی کہ یہ بچی روز اتنا طویل سفر کرتی ہے، اس کے تحفظ کا کیا انتظام ہے۔ یہ دنیا ایسی جگہ ہے کہ کسی کو کسی کی پروا نہیں ہوتی۔ سکھ کے سب ساتھی، دکھ کا کوئی نہ سانجھی…!
وقت گزرتا رہا۔ میں آفس جاتی رہی۔ احسن صاحب کی مہربانی سے ہمارے گھر کا چولہا جلتا رہا، دال روٹی ملتی رہی۔ آفس کے اندر کم از کم تحفظ کا احساس ضرور تھا کہ وہاں سب جانتے تھے۔ یہ باس کی عزیزہ ہے لہٰذا کسی کو غلط نظر ڈالنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ ان دنوں میرا سولہ کا سن تھا۔ اس عمر میں انسان کو اپنے اچھے، برے کی سمجھ نہیں ہوتی۔ آصف کمپنی کے مالک کا بیٹا تھا۔ کبھی کبھی اپنے والد کے آفس آجاتا تھا۔ اسے آفس کے کسی شخص سے پتا چلا کہ میں ان کی رشتے دار ہوں۔ اسے مجھ سے ہمدردی ہوگئی کہ یہ لڑکی اتنی چھوٹی عمر میں ہماری کمپنی میں ملازمت کرتی ہے جبکہ اس کا باپ بیرون ملک عیش کی زندگی بسر کررہا ہے۔
ایک دن میں کاغذات اسٹیپل کررہی تھی کہ میری انگلی میں پن اتر گئی، زخمی ہوگئی۔ بہت تکلیف ہوئی کہ آنسو نکل آئے۔ اس روز احسن صاحب آفس میں نہیں تھے۔ ان کا بیٹا آیا ہوا تھا۔ کلرک نے آصف سے ذکر کردیا۔ وہ کمرے میں آیا جہاں میں بیٹھی تھی۔ کہنے لگا ایسا نہ ہو کہ انفیکشن ہوجائے، تم انجکشن لگوا لو۔ بہت منع کیا، وہ نہ مانا۔ مجھے اپنی گاڑی میں بٹھا کر کلینک لایا اور ٹیٹنس کا ٹیکا لگوا دیا۔ پٹی کروا دی۔ اس کے بعد آفس لے جانے کی بجائے وہ مجھے میرے گھر لے آیا۔ امی اس کے ساتھ دیکھ کر گھبرا گئیں۔ لاکھ رشتے داری سہی، ہمارے درمیان دولت ایک فاصلہ بن چکی تھی۔ اس نے امی کو پریشان دیکھ کر کہا۔ پھپھو! شازیہ کی انگلی زخمی ہوگئی تھی، تبھی پٹی کروا کر گھر لے آیا ہوں۔ دو تین دن آرام کرلے۔ امی نے آصف کی آئو بھگت کی۔ عزت سے بٹھایا۔ بہت مشکور ہوئیں کہ اس نے غریب رشتے دار کا اتنا خیال کیا۔ تھوڑی دیر باتیں کرنے کے بعد وہ چلا گیا۔
اس نے میری تین دن کی رخصت بھی منظور کروائی۔ اپنے والد سے کہا کہ پھوپی کے حالات اچھے نہیں۔ آپ شازیہ کی تنخواہ نہ کاٹیے گا بلکہ ان کی امداد کے لیے کچھ رقم دیں کیونکہ یہ تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں۔ احسن صاحب نے بیٹے کے کہنے پر علاج معالجے کی مد میں دو ہزار روپے کا چیک بنا دیا تاکہ ہماری کچھ امداد ہوجائے مگر آصف نے باپ کو کچھ اس طرح قائل کیا کہ اگلے دن وہ خود ہمارے گھر آئے اور یہ رقم نقد دے گئے۔
جب امیر لوگ اپنی عادات و اطوار کے خلاف غریبوں کا خیال رکھنے لگیں تو غریبوں کے دلوں میں بڑی خوش فہمیاں جنم لے لیتی ہیں۔ یہی حال میرا تھا۔ میں سمجھنے لگی کہ احسن صاحب ہم پر احسان نہیں کررہے بلکہ رشتے داری کی وجہ سے ہمارا خیال رکھ رہے ہیں جبکہ امی جان ابھی تک گومگو کی کیفیت میں تھیں۔ وہ جہاندیدہ اور زمانہ شناس تھیں۔ احسن صاحب دوبارہ نہ آئے تب میں نے ماں سے کئی بار پوچھا کہ وہ دوبارہ کیوں نہیں آئے۔ ماں سمجھ گئی کہ مجھ نادان نے ان سے اپنی حیثیت سے بڑھ کر توقع لگا لی ہے۔
بیٹی! اگر انہوں نے ایک بار رشتے داری کا خیال کرلیا تو اس کو بہت جان… ہر روز کی آس لگانا بے وقوفی ہے۔ وہ اب دوبارہ نہیں آئیں گے۔ وہ ایک بڑے بزنس مین اور مصروف آدمی ہیں، ہم لوگوں جیسے بیکار تو نہیں ہیں۔ انہوں نے جو کچھ کیا ہے، یہ بھی خلاف مزاج کیا ہے۔ غالباً ان کے صاحبزادے نے ہماری غربت کا نقشہ دردناک انداز میں کھینچا ہے اور وہ وقتی ہمدردی کے جذبے کے تحت آگئے تھے۔ احسن صاحب امی کے سگے بھائی تو نہ تھے کہ ہمیں ان سے گلہ ہوتا۔ ان کا یہی احسان بہت تھا کہ اپنی والدہ کی سفارش پر انہوں نے مجھے اپنے آفس میں رکھ لیا تھا۔ جس روز میں ملازم ہوئی تھی اور انہوں نے اپنے منیجر کو بلا کر کہا کہ بھئی اس بچی کا خیال رکھنا یہ ہماری عزیزہ ہے۔ تو بس اسی قدر ان کا کہنا بہت ہوگیا تھا۔ اسی وقت تمام آفس میں یہ بات پھیل گئی تھی کہ میں احسن صاحب کی عزیزہ ہوں لہٰذا پہلے روز سے سب مجھ سے عزت و تکریم سے پیش آنے لگے تھے اور میرا آفس میں بیٹھنا آسان ہوگیا تھا۔
جہاں میں بیٹھتی تھی، یہ کمرہ احسن صاحب کے کمرے سے نزدیک تھا لہٰذا کبھی کبھی ان کا بیٹا میرے پاس آکر خیریت دریافت کرلیا کرتا تھا۔ جب سے میرا ہاتھ زخمی ہوا تھا، اس نے مجھ سے ایک اَن دیکھا تعلق قائم کرلیا تھا۔ اس وقت مجھے اس بات کا شعور نہ تھا کہ یہ تعلق محض ہمدردی ہے یا اسے محبت کا نام دیا جاسکتا ہے، جبکہ ماں کو ’’طبقات‘‘ کی حد بندی کا زیادہ علم تھا۔ میں ان احساسات سے ماورا تھی۔ بس اتنا جانتی تھی کہ اپنے باپ کی بے حسی کی وجہ سے نوکری کرنے پر مجبور ہوں۔ اس بات پر میں نے کبھی دھیان نہیں دیا کہ آصف کسی اور طبقے سے تھا اور میں کسی اور طبقے سے ہوں، لہٰذا ہمارا رشتہ دنیا کی نظروں میں غیر قدرتی ہوچکا ہے۔
ایک دن آصف میرے کمرے میں آیا۔ میں اس سے دلی طور پر خفا تھی کیونکہ وہ وعدہ کرکے دوبارہ ہمارے گھر نہ آیا تھا اور نہ میری والدہ کی خیریت پوچھی تھی، جبکہ میں نے ان دنوں اس کا شدت سے انتظار کیا تھا۔ اس نے سوال کیا شازیہ اب کیسی ہو۔ میں نے جواب نہ دیا، فائلیں ٹھیک کرنے میں لگی رہی۔ میری خاموشی کے انداز سے وہ بھانپ گیا کہ خفا ہوں۔ تب اس نے آہستہ سے کہا۔ اچھا میں کل شام کو تمہارے گھر پھپھو کی طبیعت پوچھنے آئوں گا۔
اس دن میں کتنی خوش تھی، کیا بتائوں۔ صبح اٹھتے ہی صفائی شروع کردی تھی اور گھر، آنگن کو شیشے کی طرح چمکا دیا۔ امی نے پوچھا۔ کیا بات ہے شازی، آج تجھے ناشتہ بھی یاد نہیں رہا۔ اتنی شدومد سے صفائی میں لگی ہے جیسے کوئی خاص بات ہو۔ ہاں ماں! آج شام کو مہمان آرہے ہیں۔ ایسا کہتے ہوئے خود اپنا کہا ہوا جملہ ہی مجھے کھٹک گیا۔ آج نجانے کیوں اپنی ماں کے سامنے اس کا نام لیتے، میں شرما رہی تھی، حالانکہ ماں ہی میری سہیلی، میری خوشی کی امین اور واحد غمگسار تھی۔ اس محویت پر ماں چونک گئی اور عجب نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگی۔ شاید آنے والے خطرے کی بو سونگھ لی تھی۔ وہ خطرات جو قیامت سے کم نہیں تھے اور جن کا ایک ماں تن تنہا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔
آصف کو شام کو آنا تھا اور میں صبح سے اس کے استقبال کی تیاریوں میں لگی تھی۔ ماں گم صم بیٹھی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا مجھے کیا کہے۔ کس طرح سمجھائے۔ بالآخر اس نے مجھے حالات کے دھارے پر چھوڑ دینا ہی مناسب سمجھا کیونکہ ایسے معاملات میں سمجھنا اور سمجھانا فضول تھا۔ شام دن بھر کے لمبے انتظار کے بعد آگئی۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ ماں نے آگے بڑھ کر در کھولا اور آصف کو اندر لے آئیں۔ خیریت پوچھی۔ کہا کہ بیٹا! بڑے دنوں بعد آئے۔ تم تو کل پرسوں کا کہہ کر گئے تھے۔
پھپھو معافی چاہتا ہوں۔ وعدہ کیا تھا مگر بھول گیا تھا۔ بیٹا! کوئی بات نہیں۔ آپ ہی لوگوں نے ایسے حالات میں آسرا دیا ہے۔ اپنے والد سے کہنا کبھی ہمارا پتا کرلیا کریں۔ ماں کیا کچھ کہتی رہی مگر آصف کب سن رہا تھا۔ ظاہر ہے اس کی نگاہوں کو میری تلاش تھی اور میں کچن میں دھڑکتے دل کے ساتھ بیٹھی اس کے لیے چائے بنا رہی تھی۔ آج میں نے بہت کچھ منگوا لیا تھا اس کی خاطر تواضع کے لیے حالانکہ ہماری جیب اس اصراف کی متحمل نہ تھی لیکن میں جس کے لیے یہ سارا اہتمام کررہی تھی، وہ کوئی معمولی مہمان نہ تھا، وہ میرے خوابوں کا شہزادہ تھا۔ جو توقعات میں نے آصف سے باندھ لی تھیں، پوری ہوگئیں۔ جاتے ہوئے اس نے کہا کہ تم میرا انتظار کرنا اور پھپھو سے کہنا میرا خیال کریں۔ تمہیں بیاہنے میں جلدی نہ کریں۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ اتنی جلد مجھے میری تقدیر کا فیصلہ سنا دے گا۔
پہلی بار احساس ہوا کہ اس نے انہونی بات کہہ دی ہے۔ میں ان کی کمپنی کی ایک ادنیٰ ملازم تھی۔ میرا اس کے ساتھ سنجوگ ہونا بعید از قیاس بات تھی۔ تاہم میں نے اس کے بعد ہر اندیشے کو خود سے دور کردیا۔ کیونکہ خوابوں کی ایک خوبصورت دنیا بسانا چاہتی تھی، اپنے اردگرد وہ سنہری جال بن کر قید ہونا چاہتی تھی، جس میں میری عمر کی تمام لڑکیاں قید ہونا پسند کرتی ہیں۔ مجھے اب اور کوئی کام نہ تھا سوائے اس کے کہ میں آصف کے بخشے ہوئے خوابوں میں عمر بسر کروں۔ میں دل کی گہرائیوں سے اس کو چاہنے لگی تھی۔ ہمہ وقت اس کے بارے سوچتی رہتی۔ ایک دن وہ ہمارے گھر آیا۔ امی ڈاکٹر سے دوا لینے گئی ہوئی تھیں اور میں گھر میں اکیلی تھی۔ اسے اچانک اپنے سامنے پاکر گھبرا گئی۔ اس نے کہا۔ گھبرائو نہیں، تم اس گھر میں میری امانت ہو۔ تمہیں میں اپنے دل کی گہرائیوں سے اپنانا چاہتا ہوں۔ جانتا ہوں غربت اور امارت کا فاصلہ ہم دونوں کے درمیان حائل ہے لیکن غربت کوئی جرم نہیں جس کی تمہیں سزا ملے۔ تم بہت اچھی لڑکی ہو۔ پھپھو سے پھوپھا جان نے دغا کی ورنہ آج وہ اس قدر خستہ حال نہ ہوتیں۔
جانتی تھی آصف صحیح کہہ رہا ہے۔ وہ واقعی مجھے اپنانا چاہتا ہے۔ مجھ سے ایسی باتیں ہنسی مذاق میں نہیں کررہا تھا۔ لیکن ماں کے اندیشے بھی مجھے ڈراتے تھے۔ میں نے اس سے کہا۔ تم کہیں وقتی ہمدردی تو نہیں کررہے۔ اپنا وعدہ نباہ سکو گے؟ دیکھو مجھے خواب مت دکھانا جس کی کوئی تعبیر نہ ہو ورنہ میں زندگی سے نفرت کرنے لگوں گی۔ تم بھروسہ رکھو۔ میں ابھی طالب علم ہوں۔ اس لیے فی الحال اس معاملے کو ظاہر کرنا میرے حق میں نہیں ہوگا۔ حالات بگڑ سکتے ہیں۔ ذرا سا انتظار کرو۔ اپنی امی سے بھی کہنا کہ انتظار کریں اور مجھے تعلیم مکمل کرلینے دیں۔ اس کی باتوں سے ڈھارس ملی۔ دل مطمئن ہوا۔ اب کام میں جی نہ لگتا تھا۔ آفس میں سارا دن میری نگاہیں اس کی راہ تکتی تھیں لیکن وہ بہت محتاط تھا۔ جب آفس آتا تو سرسری دعا سلام کرتا، میرے پاس نہ رکتا، بالکل مالکوں والے انداز سے ملتا۔ البتہ جب ہمارے گھر آجاتا تو والدہ سے خوب گپ شپ کرتا۔ مجھ سے بھی اچھی اچھی باتیں کرتا۔
یونہی تین برس گزر گئے۔ بالآخر آصف کی امی کو اس بات کا علم ہوگیا کہ وہ ہمارے گھر آتا ہے۔ نتیجے میں میری ملازمت ختم کرا دی گئی۔ ڈر کے مارے امی بھی مجھے باہر جانے نہ دیتی تھیں۔ انہی دنوں کچھ رشتے میرے لیے آئے۔ ماں نے ان میں سے ایک اچھے رشتے کو منتخب کرلیا اور ہاں کہہ دی۔ میں بہت روئی، منت سماجت کی کہ کچھ آصف کا خیال کریں۔ وہ آپ سے بھی انتظار کرنے کا کہہ گیا ہے اور آپ میرے بیاہ میں جلدی کررہی ہیں۔
بیٹی! مجھ پر رحم کرو۔ میں اچھی طرح جانتی ہوں۔ اس کے ماں، باپ کبھی ہم سے رشتے داری پر آمادہ نہ ہوں گے۔ اللہ جانے تم کن خیالوں میں رہتی ہو۔ میری حالت پر ترس کھائو، دن بہ دن میری صحت ختم ہورہی ہے، کب تک جیئوں گی۔ میں دولت مندوں کی دشمنی مول نہیں لے سکتی۔ بہتر ہے تمہاری شادی وقت پر کردوں تاکہ آصف ادھر آئے اور نہ اس کی ماں کو اس بات پر اعتراض ہو۔ آصف نے ہم سے رابطہ نہ توڑا تو اس کی ماں ہمیں نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ آصف آیا تو میں نے ماں کی کہی ہوئی ہر بات اس کو بتا دی۔ وہ غمزدہ ہوگیا کہ پھوپی نے مجھ پر اعتبار کیوں نہ کیا۔ میں ہر صورت تمہیں اپنائوں گا۔
میں نے کہا۔ یہ بات تم خود امی سے کہو۔ اس نے میری ماں سے کہا۔ پھوپی جان، میں نے کہا ہے نا شازیہ کے بیاہ کی جلدی نہ کرنا۔ میں تعلیم مکمل کرلوں تبھی بارات لے کر آئوں گا۔ تمہارے والد آکر رشتہ طے کر جائیں۔ میں دس سال انتظار کرنے کو تیار ہوں۔ تم اپنے گھر والوں کو پہلے آمادہ تو کرو۔ ماں کے مجبور کرنے پر اس نے اپنی والدہ سے بات کی۔ اس کے والدین نے آپس میں مشورہ کیا اور بظاہر رضامند ہوگئے کیونکہ وہ جانتے تھے ان کا بیٹا ضدی ہے، ضد پر اڑ گیا تو کسی کی نہ سنے گا۔ جو جی میں آئے گا، کر گزرے گا۔
آصف کی ماں ہمارے گھر آئیں اور امی کو تسلی دی کہ ہم شازیہ کا رشتہ لیں گے مگر مناسب وقت پر! آپ کو انتظار کرنا پڑے گا۔ تب ماں نے پہلے رشتے کو انکار کردیا۔ خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا جیسے میرے خوابوں کی لاٹری نکل آئی تھی۔ اس واقعے کے کچھ عرصے بعد امی جان شدید بیمار ہوگئیں۔ آصف نے انہیں اسپتال میں داخل کرا دیا۔ کچھ ماہ علاج چلا مگر وہ جانبر نہ ہوسکیں اور وفات پا گئیں۔ میں اس دنیا میں تنہا رہ گئی۔ اب میں بے سہارا تھی۔ آصف مجھے اپنے گھر لے گیا۔ اس کی ماں نے گلے لگایا۔ چند دن پیار سے رکھا۔ پھر کہا کہ بیٹی! ابھی میں تمہیں اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتی، لوگ باتیں کریں گے۔ آصف کے سالانہ امتحان ہونے والے ہیں لہٰذا میں تمہیں کچھ دنوں کے لیے اپنی بہن کے گھر بھیج دیتی ہوں۔ وہ بیوہ ہیں، بے اولاد ہیں اور اکیلی رہتی ہیں۔
امتحان ختم ہوگئے۔ ایک ماہ گزر گیا تو آنٹی نے بتایا کہ آصف اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا جارہا ہے۔ وہ دو سال بعد آئے گا تب تمہاری شادی کردیں گے۔ آصف کو بھی انہوں کچھ ایسی ہی بات سمجھا کر راضی کرلیا۔ میں بے فکر ہو کر آصف کی خالہ کے گھر رہنے لگی۔ جانتی نہ تھی کہ یہ ایک سازش ہے۔ آصف کو مجھ سے دور کرنے کا بہانہ ہے۔ جونہی وہ امریکا گیا، اس کے گھر والوں نے آنکھیں بدل لیں۔ ان لوگوں نے مجھ سے دھوکا کیا اور میرا رشتہ خالہ کے ڈرائیور کے بھائی سے کردیا جہاں میں رہ رہی تھی۔
پندرہ روز کے اندر اندر میری شادی ڈرائیور کے چھوٹے بھائی سے کرا دی گئی۔ میں کچھ نہ کرسکی۔ کہاں جاتی اور کس سے مدد مانگتی۔ بے بس لڑکی پر انہوں نے غموں کا پہاڑ توڑ دیا۔ میرے خوابوں کے شہزادے سے مجھے دور کرکے میرے جسم سے روح کھینچ لی۔ صرف اس لیے کہ میرا کوئی والی وارث نہ تھا۔ اب یہ لوگ ہی میرے وارث بنے ہوئے تھے۔ آصف مجھ سے لاکھوں میل دور تھا۔ میرے لیے کوئی ڈٹ جانے والا نہ رہا تھا۔
میری شنوائی کیونکر ہوتی۔ ان کے رحم و کرم پر تھی۔ یہ آج کا دور نہ تھا کہ لڑکی گھر سے نکل کر کسی سے فریاد کرلیتی۔ ایک قیدی کی مانند میری آنکھیں کسی اور کی منتظر تھیں اور میرے جسم سے روح کو نکال کر مجھے کسی اور کے حوالے کردیا گیا۔ میری ڈولی ماں، باپ کے گھر سے رخصت ہونے کی بجائے کسی اور کے گھر سے رخصت ہوگئی۔ دن، رات رونے سے کام تھا۔ میرے پاس آصف کا فون نمبر اور پتا کچھ بھی نہ تھا۔ اسے کیسے اپنے پر بیتی قیامت سے آگاہ کرتی۔ خدا جانے اسے اس کے والدین نے کیا بتایا ہوگا کہ اس نے پھر مجھے کبھی تلاش بھی نہ کیا۔ ان دنوں کی اذیت کو میں بھلا نہیں سکتی۔ وہی شوہر جو میرے لیے غیر تھا، میری دلجوئی کرتا، آنسو پونچھتا اور غمگساری کرتا۔ رفتہ رفتہ اس طرح اس نے میرے دل میں جگہ بنالی اور میری اس سے نفرت کم ہوتی گئی۔
شوہر کو آصف کے بارے میں کوئی علم نہ تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ اپنے ماں، باپ کی خاطر روتی ہوں۔ اس نے مجھے مشورہ دیا۔ اگر تمہیں کسی طور قرار نہیں آتا تو نرسنگ ٹریننگ سینٹر میں کورس کرلو اور دکھی لوگوں کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کردو۔ تمہیں ضرور سکون مل جائے گا۔ اس نے وقتی طور پر سکون کے لیے مشورہ دیا کہ میں کسی طور خود کو مصروف کرلوں مگر میں نے اس امر کو سنجیدگی سے لیا۔ نرسنگ کا کورس ختم ہوا تو اسپتال میں جاب مل گئی۔ جس وارڈ میں ڈیوٹی لگی، وہاں ایک بیمار عورت داخل تھی۔ اس کے بچے کم ہی اس کے پاس آتے تھے۔ میں نے دل و جان سے اس کی خدمت کی کیونکہ میری ماں بھی بیمار رہتی تھی۔ اس میں مجھے اپنی ماں دکھائی دیتی تھی۔ تب میرے دل کو سکون مل جاتا تھا۔
میری توجہ اور خدمت کی وجہ سے وہ عورت ٹھیک ہوگئی مگر اس نے مجھے نہ بھلایا۔ وہ ایک امیر عورت تھی جس کے بچے اس کی پروا نہیں کرتے تھے۔ میں گھر جاکر اسے انجکشن لگاتی اور کھانا کھلاتی۔ اس نے مجھے اپنی بیٹی بنالیا اور اپنی دولت سے کافی رقم میرے نام کردی۔ اس طرح ہماری غربت دور ہوگئی۔ اس رقم سے میرے شوہر نے پہلے چھوٹا سا کاروبار شروع کیا۔ اللہ کی مہربانی سے وہ کاروبار بڑھتے بڑھتے اتنا بڑھا کہ ہم امیروں میں شمار ہونے لگے۔ ہمارے چار بچے ہوئے سب اچھے اسکولوں میں پڑھتے تھے۔ میرے پاس گاڑی تھی اور میرا شوہر ذاتی مکان کا مالک تھا۔ وہ ایف۔اے پاس تھا۔ اس نے پرائیویٹ بی۔اے کیا کیونکہ اسے پڑھنے کا شوق تھا۔ میرے شوہر کا نام ظفر تھا اور وہ اچھی عادات کا مالک تھا۔
مجھے ناچار آصف کو بھلانا پڑا۔ جو چیز لاحاصل ہو، اسے یاد رکھنے سے تکلیف کم نہیں ہوتی اور بڑھتی ہے۔ میں نے اپنے گھر اور بچوں کے ساتھ مضبوطی سے بندھن باندھ لیا اور کلی طور پر ان کی ہورہی۔ اس طرح کچھ سکون ملا اور میں آصف کی یاد کو فراموش کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ مجھے نہیں معلوم وہ امریکا سے کب لوٹا۔ اس کی کب اور کہاں شادی ہوئی۔ مجھے نہیں معلوم اس نے مجھے تلاش کیا یا نہیں اور میرے بارے میں اسے کیا کہا گیا۔ یہ سب جاننے کی میں نے کوشش بھی نہ کی کہ اس سے کچھ حاصل نہ تھا۔ البتہ میرے گھر کا سکون اور میرے بچوں کا مستقبل ضرور تباہ ہوتا۔ میں نے خود کو تباہ کرکے ان کی خوشیوں کو بچا لیا۔
(عارفہ … کراچی)